┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 14
زی اور رومان ایک کام کے سلسلے میں لاس ویگاس آۓ ہوۓ تھے۔۔ جنوری کے مہینے میں روم اور لاس ویگاس میں کافی برف باری ہوتی تھی۔۔ اس رات بھی کافی برف باری ہونے کی وجہ سے سفر کرنا مشکل ہوگیا تھا۔۔ چنانچہ وہ واپسی کا ارادہ ترک کرکے لاس ویگاس کے مشہور ریسٹورینٹ میں آگۓ تھے۔۔ 

ریسٹورینٹ میں شاید کوٸ لاٸیو شو چل رہا تھا۔۔ ہوسٹ لڑکی تھی۔۔ اور کیمرہ مین لڑکا اور ساتھ انکے پوری ٹیم تھی۔۔

 وہاں لڑکے اور لڑکیوں کا کافی ہجوم لگا تھا۔۔ لڑکی مزے مزے کے سوال کر رہی تھی۔۔ جنکے وہاں موجود لوگ جواب دے رہے تھے۔۔ 

رومان نے ویٹر کو کھانا آڈر کیا۔۔ جبکہ زی پوری دلچسپی کے ساتھ اس لڑکی کو دیکھ رہی تھی جو لاٸیو شو کاسٹ کر رہی تھی۔۔ پورے ریسٹورینٹ میں رونق لگی ہوٸ تھی۔۔ہلکہ سا میوزک۔۔ باقی گرتی برف۔۔ رات کا سماں۔۔ رومان کا ساتھ۔۔ زی کےلیۓ کوٸ خواب ہی تھا۔۔ اسکے لیۓ یہ اسکی زندگی کے سب دے خوبصورت پل تھے۔۔ خوشی اسکے چہرے سے چھلک رہی تھی۔۔ اور اس خوشی نے اسے مزید خوبصورت بنا دیا تھا۔۔

اچانک شو کاسٹ کرنے والی لڑکی کی نظر #زی پر پڑی۔۔۔ مسکراتا ہوا چہرہ۔۔ نیلی آنکھیں۔۔ گولڈن بال جو شانوں پر بھکرے تھے۔۔ ٹھنڈ سے سرخ ہوتی ناک۔۔ اور بھورے رنگ کے کوٹ میں وہ کوٸ مومی بھوری سی گڑیا لگ رہی تھی۔۔شکر یہاں #رون نہیں ہے ورنہ وہ یہ شام بھی برباد کردیتا۔۔ زی نے سوچا اور شکر ادا کیا۔۔ 

زی کھانا کھا لو۔۔ رومان نے زی کو یوں گم دیکھ کر کہا۔۔

ویسے ریم یہ سب ایک خواب سا لگ رہا ہے نا۔۔۔؟؟ کتنا اچھا اور مکمل سا۔۔۔ جیسے سب کچھ مل گیا ہو۔۔ کتنی حسین رات ہے یہ۔۔ مجھے آج تک اپنی پوری زندگی میں اتنی خوشی نہیں ہوٸ جتنی آج ہو رہی تھی۔۔زی بول رہی تھی۔۔

واٹ۔۔۔۔؟؟ تمہیں یہ سب اچھا لگ رہا ہے۔۔ ؟؟ ہم یہاں پھنس گۓ ہیں۔۔ اور تمہیں خوشی ہو رہی ہے۔۔ ؟؟ وہ حیران ہوا۔۔ 

اب کیا میں خوش بھی نہیں ہوسکتی۔۔؟؟ وہ منہ پھلا کر بولی۔۔ ویسے ریم فیل کر کے دیکھو سب کتنا اچھا ہے۔۔ ویسے بھی گھر ہی جانا ہے چلے جاٸیں گے۔۔ وہ ایک بار پھر مسکراٸ۔۔ 

ہوٹل کے شیشے والے دروازوں اور کھڑکیوں سے باہر گرتی برف کسی طلسماتی ماحول کا منظر پیش کر رہی تھی۔۔

ہاۓ گاٸیز۔۔ جیسے کہ آپ جانتے ہیں کہ اس خوبصورت شام میں آج پھر ایک خوبصورت ایوارڑ ایک بیوٹی کوٸین کو دیا جاۓ گا۔۔ تو جسے یہ ایوارڈ ملنا چاہیۓ آٸ تھنک مجھے وہ چہرہ مل گیا ہے۔۔ چلیں اس سے ملتے ہیں۔۔   

وہ لڑکی ابھی تک ریم اور زی کو ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔ پھر اس لڑکی نے کیمرہ مین کی طرف اشارہ کیا اور کیمرہ مین نے کیمرے کا رخ ریم اور زی کی طرف موڑ دیا۔۔ پھر وہ خود چلتی ہوٸ انکی طرف آٸ۔۔ اور اس پیچھے بہت سے لڑکے اور لڑکیاں تھیں۔۔

Hi beautiful... I am Luna.. and this is the live casting of my show a beautiful evening with snow queen.. 

وہ لڑکی اب زی کے سامنے بیٹھ چکی تھی اور اپنا تعارف کروا رہی تھی۔۔ 

Ohhh Hi.. I am Zeesha 

زی نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا۔۔ 

And your name Mr. Handsome...??

وہ اب رومان سے پوچھ رہی تھی۔۔ رومان سے نام پوچھنے کے بعد وہ زی کو وہاں سے اٹھا کر اس جگہ لے گٸ تھی جہاں انٹرویو کے لیۓ جگی بناٸ گٸ تھی۔۔ وہ اب زہ سے کچھ سوال پوچھ رہی تھی۔۔ لونا جانتی تھی کہ اسکا آج کا یہ شو بہت ہٹ ہونے والا ہے۔۔ کیونکہ جو چہرہ اس وقت اسکے سامنے تھا وہ سچ میں کسی snow queen کا تھا۔۔ 

یہ جو پرسن آپکے ساتھ ہے کیا وہ lover ہے آپکا۔۔۔ لونا نے زی سے سوال کیا۔۔

دل تو کیا تھا زی کا کہ ہاں کہہ دے لیکن وہ ریم کے غصے سے ڈرتی تھی۔۔ 

نو۔۔۔ زی نے انکار کردیا۔۔

But he is my best friend.. 
زی نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ اور پورے ریسٹورینٹ میں سیٹیوں کا شور گونجا۔۔ سمجھنے والے سمجھ بھی چکے تھے۔۔

لونا کچھ اور بھی پوچھ رہی تھی۔۔ لیکن زی کی نظریں سامنے کونے میں موجودہ ٹیبل کے اس پار بیٹھے سخص پر جم گٸ۔۔ وہ زی کو ہی دیکھ رہا تھا۔۔

کیا تھا ان آنکھوں میں۔۔ زی کو لگا اس نے وہ آنکھیں پہلے بھی کہیں دیکھی ہیں۔۔ وہ سرخ انگارہ آنکھیں۔۔ اور پھر اس کے دماغ میں ایک جھماکہ ہوا اور ایک ڈیڑھ مہینے پہلے والی رات اسکی آنکھوں کے سامنے گھوم گٸ۔۔۔ 

”جا جا کے راہنما مانگ۔۔ اسے ڈھونڈ۔۔ وہ تجھے اس راستے پر لے جاۓ گا جہاں تیرا ہمسفر کھڑا ہے۔۔“

اس ملنگ کے کہے گۓ الفاظ زی کے زہن میں گونجے۔۔ اور اسے لگا وقت تھم گیا ہو۔۔ 

لونا نے اب رومان کو بھی وہاں بلا لیا تھا۔۔ اب وہ اس سے کچھ پوچھ رہی تھی اور وہ بے زاری سے جواب دے رہا تھا۔۔ 

جبکہ ٹیبل کے اس پار بیٹھا ہوا شخص ان دونوں کو غور رہا تھا۔۔ 

کیا آپکو کسی کی تلاش ہے۔۔؟؟ لونا نے زی سے پوچھا۔۔  

یس۔۔۔ مجھے راہنما چاہیۓ۔۔ مجھے اسکی تلاش ہے۔۔ زی نے جواب دیا۔۔

لونا کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ زی کیا کہہ رہی ہے۔۔ چنانچہ اس نے اب ریم کی طرف ماٸیک کا رخ ک دیا۔۔۔

Do you believe in Love Mr. Raim...???
لونا نے پوچھا۔۔ 

No.. never.. nowhere love exist in this world..

ریم نے آرام سے جواب دیا۔۔ اور اسکے ساتھ ہی وہ کونے والی میز پر بیٹھا شخص ایک جھٹکے سے اٹھا تھا۔۔

 ”فیصلہ ہو چکا ہے۔۔۔ عمل باقی ہے۔۔ حکم ہو چکا۔۔ تعمیل باقی ہے۔۔ تقدیر کے پنوّں پر وقت لکھا جا چکا ہے بس ملن باقی ہے۔۔ کن ہوچکا۔۔۔ فیکون باقی ہے۔۔
وہ آرہی ہے۔۔ 
 وہ آرہی ہے۔۔۔ وہ آرہی ہے تیری زندگی بدلنے۔۔۔ رومان شاہ“

اور ریسٹورینٹ میں ایک دم سناٹا چھا گیا۔۔ سب نے اس شخص کے لفظوں کو سنا۔۔ کھانا کھاتے ہوۓ لوگوں نے بھی چمچ روک کر اسے دیکھا تھا۔۔ عجیب نظروں سے۔۔ کیمرہ مین نے ریکارڈ بھی کر لیا تھا۔۔ 

زی کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔۔ اسے لگ رہا تھا کہ کچھ ہوگا۔۔ اور ریم کے ساتھ یہ دوسری بار ہوا تھا کہ ایک انجان آدمی اسے اس کے نام سے مخاطب کر کے
 کسی کے آنے کی اطلاع دیتا ہے۔۔ 

وہ جا چکا تھا۔۔ کچھ ہی پل میں پھر سب کچھ نارمل ہو گیا تھا۔۔ دوبارہ سے شور ہونے لگا تھا۔۔ لوگ اپنے کھانے کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔۔ 

زی کو Snow queen of the evening کا ایوارڈ دیا گیا۔۔ اور اسکے سر پر ایک چھوٹا سا تاج پہنایا گیا۔۔ لاٸیو شو چل رہا تھا۔۔ لوگ بہت دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔۔ اور زی اپنی زندگی کی بہترین شام گزار رہی تھی۔۔ لیکن۔۔۔

اب اسے شدت سے انتظار تھا۔۔ تلاش تھی۔۔ کس کی۔۔ #راہنما کی.۔۔ کونکہ وہ جان گٸ تھی کہ یہ کوٸ اتفاق نہیں ہے۔۔ یہ تقدیر ہے۔۔ صفحہ قرطاس پر لکھا گیا ایک نام۔۔۔  

         ❤❤❤❤

اور پھر جب فرہاد شام کو گھر پہنچا تو سب کچھ طے ہو چکا تھا۔۔ زیبا بیگم ڈاکٹر سمیع سے بات کر چکی تھیں۔۔ انہوں نے بتایا تھا کہ لڑکی بہت اچھی ہے اور فیملی بھی۔۔ چنانچہ اب وہ کچھ مطمئن تھیں۔۔ لیکن ایک ڈر سانپ کی طرح کنڈلی مارے دل میں بیٹھ چکا تھا۔۔ کہ پھر کچھ غلط نا ہو جاۓ۔۔

ہیلو۔۔ حمزہ بھاٸ کہاں ہو آپ۔۔ ؟؟ عالیہ نے حمزہ کو کال کی تھی۔۔ وہ جانتی تھی کہ حمزہ سب جانتا ہے اور وہ اس سے سب پوچھنا چاہتی تھی تبھی صبح سے اب تک دس فون کر چکی تھی۔۔ مگر مجال ہے جو حمزہ نے ایک بھی ریسیو کیا ہو۔۔ 

گھر ہوں میں۔۔ سویا ہوا تھا۔۔ حمزہ کی نیند سے بھری آواز سنائی دی۔۔

لو جی۔۔ پورا اسلام آباد ہل گیا ہے اور آپ سو رہے ہو۔۔ جلدی سے آغا ہاٶس آجاٶ۔۔ عالیہ نے کہا۔۔

مجھے پتا ہے جو دھماکہ ہوا ہے۔۔ اس لیۓ میں ابھی نہیں آسکتا۔۔ حمزہ نے جواب دیا۔۔

اچھا۔۔۔۔۔۔ شک تو مجھے پہلے سے ہی تھا کہ آپ بھی شامل ہو اس میں۔۔ اب یقين بھی یو گیا ہے۔۔ HD صاحب آپکو مجھے سب بتانا ہوگا۔۔ عالیہ نے ایک ایک لفظ چباتے ہوۓ کہا۔۔

یار میں کچھ نہیں جانتا۔۔ جتنا تمہیں پتا ہے اتنا ہی فرہاد نے مجھے بتایا ہے۔۔ اور صبح میری پریزنٹیشن ہے پلیز میری پیاری بہن اب مجھے تنگ مت کرنا پلیز سونے دو۔۔ حمزہ کو فرہاد نے کسی کو بھی کچھ بھی بتانے سے منع کیا تھا۔۔۔ اور حمزہ جانتا تھا کہ عالیہ اس سے اگلوا کر رہے گی اس لیۓ وہ اسے ٹال رہا تھا۔۔ 
لیکن آپ کو مجھے سب بتانا ہوگا۔۔ پرامس کریں۔۔۔ عالیہ نے کہا۔۔

اوکے۔۔ بتا دونگا۔۔ پلیز اب سونے دو۔۔ 

ٹھیک ہے۔۔ باۓ۔۔ عالیہ نے کال کاٹ دی۔۔ 

اب وہ لاٶنج میں آچکی تھی جہاں سب جمع تھے۔۔ طے یہ ہوا تھا کہ نتاشہ بھابھی،عالیہ اور لاہور سے سمیع بھاٸ اور فاریہ بھابھی جاٸیں گے لڑکی دیکھنے۔۔ زیبا بیگم کے کالج میں آج کل ایگزامز چل رہے تھے وہ نہیں جا سکتی تھیں۔۔ ہاں البتہ اگل بار وہ ہی جاٸیں گی۔۔ 

عالیہ اور نتاشہ بھابھی تیاریوں میں لگ گٸ تھیں۔۔ آخر کو صبح انہیں لاہور جانا تھا۔۔

 جبکہ فرہاد اپنے کمرے میں آگیا۔۔ پریشانی ابھی بھی اسکے چہرے پر موجود تھی۔۔ 

صبح سے کتنی بار وہ حرم کو کال کر چکا تھا مگر نمبر مسلسل بند جا رہا تھا۔۔ وہ ا س سے پوچھنا چاہتا تھا۔۔ انفیکٹ بتانا چاہتا تھا کہ اسے کوٸ اعتراض تو نہیں ہے نا اس رشتے سے۔۔ لیکن بات ہی نہیں ہوسکی۔۔۔ البتہ کہیں وہ مطمئن بھی تھا کہ سب اچھا ہی ہو گا۔۔ 
 
”کچھ تو ہے اسکی زات میں۔۔۔ 
بےچین میری زات بلاوجہ نہیں ہوتی۔۔ “

            ❤❤❤❤❤

اور اگلے دن جیسے ہی حرم نے نمبر آن کیا تھا سب سے پہلی کال اسے ثانی آپی کی آٸ تھی۔۔ وہ بتا رہی تھیں کہ وہ اس وقت تایا ابو کے گھر ہیں۔۔ خوشی انکے چہرے سے جھلک رہی تھی۔۔ 

خیریت تو ہے نا آپی۔۔ اتنی ایکساٸٹڈ کس لیۓ ہیں۔۔؟؟ حرم نے پوچھا۔۔ 

ہاں میری جان بات ہی خوشی کی ہے۔۔ شہرین کے لیۓ رشتہ آیا ہے۔۔ آج شام کو اسے لڑکے والے دیکھنے آرہے ہیں۔۔ تمہیں پتا ہے لڑکا کون ہے۔۔؟؟ ثانی آپی خوشی سے بول رہی تھی۔۔

مجھے کیسے پتا ہوگا۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔ 

چلو یہ سرپراٸیز ہے۔۔ اب تم جلدی سے آجاٶ۔۔ مجھے ہیلپ کی ضرورت ہے۔۔ بہت سارا کام ہے۔۔ میں ڈرائيور کو بیجھ رہی ہوں گاڑی دے کر۔۔۔ بس تم جلدی سے آ جاٶ۔۔ 

نہیں آپی وہ میں۔۔ وہ۔۔ حرم نے کچھ کہنا چاہا تھا۔۔

جانتی ہوں۔۔ نادر نہیں ہے گھر۔۔ بابا کے ساتھ گۓ ہیں۔۔ کل صبح تک ہی آۓ گا۔۔ ثانی آپی نے اسکی مشکل آسان کی تھی۔۔اب جلدی سے میری چچی جان سے بات کروادو تاکہ میں انسے کہہ دوں کہ تمہیں بیجھ دے۔۔ 

اوکے۔۔۔ حرم نے کہا تھا۔۔ 

      ❤❤❤❤

جب وہ تایا ابو کے گھر آٸ تو ثانی آپی کام میں بزی تھی۔۔ حرم جیا کو اپنے ساتھ لاٸ تھی۔۔ جیا حرم کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بہن تھی۔۔

تاٸ اسکے آنے سے خوش تو نہیں ہوٸ تھی۔۔ لیکن کیا کرتی مجبوری تھی۔۔ اتنا کچھ کرنے والا تھا۔۔ ثانی آپی سے تو اکیلے ہو نہیں سکتا تھا۔۔ ویسے بھی تاٸ امی حرم کو شروع سے ہی ناپسند کرتی تھی۔۔ شاید اس لیۓ کہ انکی بیٹی شہرین ایسی نہیں تھی۔۔ 

آپی ایک بات پوچھوں۔۔ حرم نے کچن میں ثانی آپی کی مدد کرتے ہوۓ کہا۔۔ 

جی پوچھو۔۔ انہوں نے جواب دیا۔ 

شہرین نے ہاں بول دی ہے رشتے کیلیۓ۔۔ آٸ مین آپ تو کہہ رہی تھی کہ شہرین اس لڑکے کو بالکل بھی نہیں جانتی۔۔۔ اور نا اسکو دیکھا ہے تو پھر۔۔ 

ہاں۔۔ پہلے تو با ہی کی تھی کہ میری مرضی ہے میری لاٸف ہے۔۔ وغيرہ وغيرہ ۔۔ پھر جب میں نے لڑکے کی تصویر دکھاٸ تو یقین ہی نہیں آیا اسکو۔۔ پاگل ہی ہوگٸ وہ تو تصویر دیکھ کر۔۔ اور اب دیکھو۔۔ تب سے کمرے میں گھسی ہوٸ ہے۔۔ پتا نہیں کتنا کو تیار ہو کر نکلے گی باہر۔۔ ہاہاہا۔۔ ثانی آپی کی بات پر دونوں ہنس دیں۔۔ 

ویل آپی مجھے بھی تو دکھاٸیں تصویر اس لڑکے کی۔۔ میں بھی تو دیکھوں ایسا کیا ہے اس لڑکے میں جو شہرین ایک نظر دیکھ کر ہی پاگل ہو گٸ ہے۔۔ ویسے بھی وہ عام چیزیں کہا پسند کرتی ہے۔۔ حرم مسکراتے ہوۓ کہہ رہی تھی۔۔ 

واقعی ہی دیکھنا چاہو گی۔۔ ؟؟ ثانی آپی نے پوچھا۔۔

جی بالکل۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔

اور پھر چند سیکنڈز بعد ثانی آپی نے موبائل میں سے Pic نکال کر حرم کے سامنے کی۔۔ 

اور حرم تو اس تصویر کو دیکھ کر سکتے میں آگٸ تھی۔۔ لبوں پر بکھری مسکراہٹ ایک پل میں غائب ہو گٸ۔۔ دل تھا کہ ڈوب کر ابھرا تھا۔۔ 

ہو گٸ نا حیران تم بھی۔۔ ثانی آپی نے اسے خاموش دیکھ کر کہا تھا۔۔ میں بھی حیران ہوٸ تھی جب مجھے پتا چلا تھا کہ ڈاکٹر فرہاد آغا کا رشتہ آیا ہے وہ بھی شہرین کیلیۓ۔۔ مجھے تو یقین ہی نہیں آیا تھا۔۔ ثانی آپی بتا رہی تھی۔۔ 

اور حرم۔۔ وہ تو بولنا ہی بھول گٸ تھی جیسے۔۔ کمال کی قسمت پاٸ ہے شہرین نے۔۔ اس نے دل میں سوچا۔۔ اور پھر اپنی قسمت پر نظر ڈالی تو اندر بہت کچھ ٹوٹ گیا تھا۔۔ کتنی مشکل سے تو وہ خود کو سمیٹ کر رکھتی تھی۔۔ 

ثانی آپی کچھ اور بھی کہہ رہی تھی لیکن وہ سن کہاں رہی تھی۔۔ آپی مغرب کی اذان ہو گٸ ہے میں نماز پڑھ کر آتی ہوں۔۔ ویسے بھی سب کچھ تیار ہے آپ ریڈی ہو جاٸیں۔۔ مہمان بھی آتے ہی ہونگے۔۔ حرم کہتے ہوۓ کچن سے باہر چلی گٸ۔۔ 

ہواٶں نے حیران پریشان نظروں سے وقت اور تقدیر کی طرف دیکھا۔۔ کہ کچھ غلط ہوا ہے۔۔ کچھ غلط ہونے جا رہا ہے۔۔ شہرین نہیں۔۔ حرم۔۔ حرم نور ہے وہ لڑکی۔۔۔ ہواٸیں شور کرتی ہی رہیں مگرمجال ہے جو تقدیر نے نظر اٹھا کر دیکھا ہو۔۔ یا وقت کا ایک بھی پنا آگے پیچھے کیا ہو۔۔ 
تقدیر کی اس ستم ظریفی پر باہر شام کے بعد اترتی دھند کو بھی رونا آیا تھا۔۔ مگر انہونی کو کون روک سکتا تھا۔۔ 

❤❤❤❤

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─