┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 15
جب وہ مغرب کی نماز پڑھ کر فارغ ہوٸ تو فرہاد کے گھر والے آچکے تھے اور اس وقت ڈراٸنگ روم میں بیٹھے تھے ۔۔ تاٸ نے اسے سختی سے منع کیا تھا کہ خبردار لڑکے والوں کے سامنے مت آنا۔۔ وہ نماز میں رو کر دعا مانگ کر آٸ تھی یا یوں سمجھ لو کہ دعا مانگتے ہوۓ خود ہی رونا آگیا تھا۔۔ اسے تو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ کتنے لوگ آۓ ہیں۔۔ 

اب میں کیا کروں۔۔۔ ؟؟ مجھے واپس چلے جانا چاہیۓ تھا۔۔ وہ سوچ رہی تھی۔۔ انہی سوچوں میں گم وہ لاٶنج عبور کرتے ہوۓ باہر لان میں آگٸ۔۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے اسکا استقبال کیاتھا۔۔ نماز نے اسکے دل کو کافی سکون پہنچایا تھا۔۔ 

جو جس کا نصيب ہے وہ اسکو مل جاۓ گا۔۔ آخر میں کیوں اتنا سوچ رہی ہوں۔۔۔ مجھے نہیں سوچنا چاہیۓ۔۔ وہ خود کو سمجھا رہی تھی۔۔ پھر وہ گارڈن میں رکھی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گٸ۔۔ کرسی سے ٹیک لگانے کے بعد آنکھیں بند کرلیں۔۔ نا جانے کیوں یہ ٹھنڈ اسے سکون پہنچا رہی تھی۔۔۔ 

حرم کہاں ہے۔۔۔؟؟ ثانی آپی جب کچن میں آٸیں تو انہوں نے کام والی سے حرم کا پوچھا۔۔ 

پتا نہیں جی۔۔ وہ کہہ رہی تھی کہ میں اندر نہیں جاٶں گی۔۔ اور یہ چاۓ کا سامان انہوں نے تیار کردیا ہے۔۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ جب ثانی آپی بلاۓ تو یہ سب لے جانا۔۔ کام والی بتا رہی تھی۔۔ 

ضرور امی نے منع کیا ہوگا۔۔ ذرا احساس نہیں ہے امی کو۔۔ یہ تو اپنے اپنے نصیبوں کی بات ہوتی ہے۔۔ بلاوجہ بیچاری کو ہرٹ کیا ہوگا۔۔ خیر تم یہ ٹرالی لے کر اندر جاٶ میں ذرا شہرین کو دیکھ لوں۔۔ ثانی آپی کہتی ہوٸ شہرین کے کمرے کی طرف چلی گٸیں۔۔ 

ڈراٸنگ روم میں تاٸ، نتاشہ بھابھی کو اپنے بچوں کے بارے میں بتا رہی تھی۔۔ میرے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔۔ شہرین سب سے چھوٹی ہےاور سب سے لاڈلی بھی۔۔ ماشااللہ کسی چیز کی کمی نہیں ہے میری بچی میں۔۔ آپ لوگ دیکھیں گے تو حیران رہ جاٸیں گے۔۔ 

کم تو ہمارا فرہاد بھی نہیں ہے۔۔ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہے ماشااللہ اور اب اسپیشلاٸزیشن کیلیۓ ابروڈ چلا جاۓ گا۔۔ اگر شادی جلدی ہوگٸ تو اپنی واٸف کو بھی ساتھ ہی لے کر جاۓ گا۔۔ نتاشہ بھابھی بتا رہی تھیں۔۔ 

جبکہ عالیہ کی نظریں دروازے پر لگی تھیں جہاں سے فرہاد کی پسند نے اندر آنا تھا۔۔ آخر کچھ دیر بعد ثانی آپی شہرین کو لے کر اندر آٸیں۔۔ 

شہرین واقعی ہی پیاری لگ رہی تھی۔۔ اسے میک اپ کرنا آتا تھا آخر کو وہ یہی سیکھ رہی تھی۔۔۔ بالوں کا اچھا سا سٹاٸل بناۓ وہ بالکل بھی شرما نہیں رہی تھی۔۔ سب کو سلام کرنے کے بعد وہ ایک طرف صوفے پر بیٹھ چکی تھی۔۔ 

شہرین،فاریہ بھابھی اور نتاشہ بھابھی اب اس سے مختلف سوال کر رہیں تھیں۔۔ لاٶنج میں دو لوگ اور بھی تھے ایک ڈاکٹر سمیع اور دوسرا وہاج بھاٸ۔۔ ثانی آپی کا ہزبنڈ۔۔ 

ڈاکٹر سمیع کو ایک عجیب سا احساس ہو رہا تھا کیونکہ جو لڑکی ہاسپٹل میں آتی تھی وہ دبلی پتلی تھی جبکہ یہ لڑکی اچھی خاصی Healthy تھی۔۔ 

وہاج بھاٸ اب کسی سے فون پر بات کر رہے تھے۔۔ کس کا فون تھا وہاج۔۔ ؟؟ تاٸ امی نے پوچھا۔۔ 
وہ بابا جان کا فون تھا وہ بس پانچ منٹ میں پہنچ رہے ہیں۔۔ وہاج نے بتایا۔۔ 

تو آپ نے کہاں تک study کی ہے۔۔ عالیہ نے پوچھا۔۔

میں نے اسی سال اپنا گریجوایشن کمپلیٹ کیا ہے۔۔ شہرین نے جھوٹ بولا حالانکہ اس نے صرف میٹرک کیا تھا۔۔ پڑھاٸ میں اسے زرا بھی دلچسپی نہیں تھی۔۔۔ 

شہرین سب کو پسند آگٸ تھی۔۔ لیکن عالیہ سوچ رہی تھی کہ ایسی کوٸ خاص بات نہیں ہے شہرین میں۔۔ پھر بھاٸ کو کیسے پسند آگٸ۔۔ ؟؟ خیر چھوڑو۔۔ بھاٸ کو لڑکی پسند آگٸ اتنا ہی کافی ہے۔۔ 

وہاج بھاٸ اور ڈاکٹر سمیع دونوں باتوں میں مصروف تھے۔۔ بیسٹ فرینڈز جو تھے۔۔ منٹ منٹ بعد انکے قہقہے سناٸ دے رہے تھے۔۔ تبھی گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی تھی۔۔ 

لگتا ہے بابا جان آگۓ۔۔ میں دیکھ کر آتا ہوں۔۔ وہاج بھاٸ کہتے ہوۓ باہر چلے گۓ۔۔ 

حرم یہاں کیوں بیٹھی ہو۔۔۔۔؟؟ حرم کو تایا ابو کی آواز سنائی دی۔۔ یقيناً گاڑی سے اترنے کے بعد انہوں نے حرم کو دیکھ لیا ہوگا۔۔ 

بیٹا اتنی ٹھنڈ ہے اندر چلو۔۔ اور حرم ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔۔ 

نہیں وہ تایا ابو۔۔ وہ میں بس ایسے ہی۔۔ حرم سے کوٸ جواب نا بن پایا۔۔ وہ تایا ابو کی بہت عزت کرتی تھی۔۔۔ وہ بھی کافی پیار سے بلاتے تھے اسے۔۔ 

ٹھنڈ لگ جاۓ گی آپکو۔۔ اندر بیٹھنا چاہیۓ تھا۔۔ تایا ابو کہہ رہے تھے۔۔ 

بابا جان۔۔ تبھی وہاج بھاٸ کی آواز ابھری۔۔ اور تایا ابواسے اندر آنے کا کہتے ہوۓ چلے گۓ۔۔ 

وہ پھر وہیں بیٹھ چکی تھی۔۔ اس نے ٹیبل پر پڑا ہوا موبائل اٹھا کر دیکھا۔۔ شام کے ساڑھے چھ بج چکے تھے۔۔ اور سردیوں میں تو اس وقت ہی اتنا اندھیرا چھا جاتا تھا کہ لگتا تھا جیسے نو دس بج چکے ہوں۔۔ 

کچھ سیکنڈز بعد اسکے موبائل پر بیل ہوٸ۔۔ حرم نے نمبر دیکھا۔۔ اور پھر حیران ہوٸ۔۔ اب وہ اس نمبر کو پہچاننے لگی تھی۔۔ کچھ سوچتے ہوۓ آخر اس نے کالاٹینڈ کی۔۔ 

ہیلو اسلام علیکم۔۔۔ کیسی ہیں آپ۔۔۔۔؟؟وہی دلکش سی آواز۔۔ 

 وعلیکم اسلام۔۔ جی کیوں فون کیا ہے آپ نے۔۔؟؟

کمال ہے۔۔۔ آپ اب بھی پوچھ رہی ہیں کہ کیوں فون کیا ہے میں نے۔۔؟؟ اچھا یہ بتائيں میرے فیملی والے آپکے گھر پر موجود ہیں نا اس وقت۔۔۔؟؟ فرہاد آغا پوچھ رہا تھا۔۔ 

جی۔۔ ہیں۔۔ اگر آپ نے ان سے بات کرنی ہے تو پلیز انہیں کال کریں۔۔ مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔۔ وہ سرد سے لہجے میں بولی۔۔ 

آپ نے ہی تو کہا تھا کہ بات کرنے کیلیۓ کسی ریلیشن شپ کا ہونا لازمی ہے۔۔ بنا لیا میں نے ریلیشن اب تو آپ بات کر سکتی ہیں نا۔۔۔؟؟ فرہاد نے کہا۔۔ 

اور حرم کا دماغ اسکی یہ بات سن کر بھک سے اڑ گیا۔۔ اس شخص کو ڈاکٹر کس نے بنایا ہے۔۔۔ ؟؟ اسے تو خود ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔۔ ریلیشن کسی اور سے بنا رہا ہے اور بات مجھ سے کرنی ہے۔۔ حد ہے ویسے۔۔ حرم کو خوب غصہ آیا۔۔۔ 

تو مسٹر فرہاد آغا۔۔۔ جس سے ریلیشن بنا رہے ہیں اس سے بات کریں نا۔۔ میرا دماغ کیوں خراب کر رہے ہیں۔۔ حرم نے غصے سے کہا۔۔

اتنے سخت الفاظ۔۔ فرہاد حیران ہوا۔۔ 

بات تو اسی سے کر رہا ہوں۔۔ جس سے رشتہ بنانے جا رہا ہوں۔۔ لیکن لگتا ہے اسے میرا بات کرنا پسند نہیں۔۔ فرہاد نے جواب دیا۔۔ 

جی نہیں۔۔ آپکو کوٸ غلط فہمی ہوٸ ہے۔۔۔ میں وہ نہیں ہوں جسے آپ سمجھ رہے ہیں۔۔اور برائے مہربانی نیکسٹ ٹائم مجھے نہیں شہرین کو کال کیجیۓ گا۔۔ حرم نے کہتے ہوۓ کال کاٹ دی۔۔ اور فون ایک بار پھر بند کردیا۔

۔ ٹھنڈ تھی کے بڑھتی جا رہی تھی۔۔ اس نے شال کو اچھی طرح سے اپنے ارد گرد لپیٹا اور ایک بار پھر کرسی سے ٹیک لگا لیا۔۔ کیوں کرتا ہے یہ شخص مجھے کال۔۔ آخر اس کو پرابلم کیا ہے۔۔ شاید اسے پتا نہیں کہ اسے دیکھ کر مجھے میری محرومیوں کا اور زیادہ احساس ہوتا ہے۔۔۔ وہ سوچ رہی تھی۔۔۔ 
       
          ❤❤❤❤

سب اپنی باتوں میں مگن تھے عالیہ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔۔ شہرین کو وہ جج کر چکی تھی۔۔ پتا نہیں اس میں اتنا ہی غرور تھا یا وہ اب اترا رہی تھی۔۔ عالیہ کو سمجھ نہیں آٸ۔۔ لیکن ایک بات وہ سمجھ چکی تھی کہ پچھلی بار کی طرح اب کی بار بھی شہرین ویسی لڑکی نہیں ہے جسے وہ اپنی بیسٹ فرینڈ بنا سکے۔۔ اسے فرہاد کیلیۓ نتاشہ بھابھی جیسی گھلنے ملنے والی اور سب سے پیار کرنے والی لڑکی چاہیۓ تھی۔۔ جسے وہ بھابھی کم اپنی بیسٹ فرینڈ زیادہ بنا سکے۔۔ جو خوشی اس کے چہرت پر یہاں آنے سے پہلے تھی شہرین کو دیکھ کر اب وہ مدھم پڑھ گٸ تھی۔۔۔ 

مجھے فرہاد بھاٸ کو کال کرنی چاہیۓ۔۔ لیکن اندر نیٹ ورک پرابلم تھی۔۔ وہ ایکسیوز کرتی ہوٸ اٹھ کر باہر آگٸ۔۔ 

لاٶنج سے گزرتے ہوۓ وہ باہر لان میں آگٸ۔۔ اس نے فرہاد کا نمبر ملایا لیکن کال ریسیو نہیں کی گٸ۔۔ شاید بزی ہو۔۔ اچانک اسکی نظر لان کے بیچوں بیچ ایک کرسی پر بیٹھے وجود پر پڑی تھی۔۔ 

لان کے پودوں پر لاٸٹنگ کی گٸ تھی جس سے لان کا منظر بہت دلکش لگ رہا تھا۔۔ 

 ایسے میں لان کے بیچوں بیچ کرسی سے ٹیک لگاۓ۔۔ آنکھ بند کیۓ۔۔ سیاہ شال کو اپنے گرد لپیٹے۔۔ وہ کتنے سکون سے بیٹھی تھی۔۔۔ گارڈن میں لگی لاٸٹس کی دودھیا روشنی اس چہرے کو اور بھی معصوم بنا رہی تھی۔۔ بالوں کی ایک لٹ جانے کیسے سر پر اچھی طرح سے لپٹے سٹالر سے باہر نکل آٸ تھی اور اب ہوا کے چلنے کے باعث چہرے کوچھو رہی تھی۔۔ عالیہ نے غور سے دیکھا تھا اسے۔۔ 

اور اسے حرم پر کسی معصوم پری کا گمان ہوا۔۔ سفید سفید دھند اسکے چاروں طرف پھیلی تھی۔۔ کیا یہ کوٸ پری زاد ہے۔۔ وہ سوچ رہی تھی۔۔ نہیں یہ کوٸ سوٸ ہوٸ شہزادی ہے۔۔ 

ایسی شہزادی جو سو سالوں سے سوٸ ہوٸ ہے۔۔۔ اس انتظار میں کہ کب کوٸ شہزادہ آۓ اور اسے ہاتھ لگا کر پھر سے زندہ کردے۔۔ 

ایک دم سے تیز ہوا چلی تھی۔۔ اور حرم کی شال ایک طرف سے ہوا میں اڑ گٸ۔۔
 wonderful... How cute... 

عالیہ نے اپنی زندگی اس سے زیادہ طلسماتی منظر نہیں دیکھا تھا۔۔ 

کیا یہ کہیں کوٸ چڑیل تو نہیں جو اتنی رات کو اکیلے یہاں بیٹھی ہے۔۔ پھر اسے خود ہی اپنی سوچ پر ہنسی آگٸ۔۔ مجھے اسے بات کرنی چاہیۓ۔۔ 

ہیلو۔۔ وہ حرم کے پاس جا کر بولی تھی۔۔ 

اور حرم نے ایک دم آنکھیں کھول دی تھیں۔۔ سامنے نیلی آنکھوں والی ایک لڑکی پوری دلچسپی کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی۔۔حرم کو آنکھیں کھولتے دیکھ کر وہ مسکراٸ تھی۔۔ ہاں۔۔ وہی مسکراہٹ۔۔ وہ پہلے بھی دیکھ چکی تھی۔۔ حرم کو ایک پل لگا تھا سمجھنے میں کہ وہ کون ہے۔۔ 

کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں۔۔ عالیہ اب پوچھ رہی تھی۔۔ 

اووو شور۔۔ بیٹھ جاٸیں۔۔ اس میں پوچھنے والی کونسی بات ہے۔۔ حرم مسکراٸ۔۔ اور اسکی مسکراہٹ کے ساتھ اسکے نچلے ہونٹ کی نیچے داٸیں ساٸیڈ پر موجود تل مزید گہرا ہوا۔۔ کتنا دلکش منظر تھا۔۔ کسی کی مسکراہٹ اتنی پیاری کیسے ہو سکتی ہے۔۔۔ عالیہ نے حیران ہوتے ہوۓ سوچا۔۔

آپ ہیں کون۔۔۔؟؟آنٹی بتا رہی تھی کہ انکی دو ہی بیٹیاں ہیں۔۔ عالیہ نے جھجکتے ہوۓ پوچھا۔۔

وہ ایکچوٸلی یہ میرے تایا ابو کا گھر ہے۔۔ شہرین اور ثانی آپی میری کزنز ہیں۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔

اوو اچھا اسکا مطلب آپ بھی اپنی ہی ہیں۔۔ مجھے بہت اچھا لگا آپ سے مل کر۔۔ ایک مزے کی بات بتاٶں۔۔ عالیہ نے کہا۔۔

جی۔۔ حرم نے متوجہ ہوتے ہوۓ کہا۔۔

ابھی کچھ دیر پہلے میں نے آپکو دیکھا تو یقین نہیں آیا۔۔ 

حرم نے نا سمجھی کے عالم میں عالیہ کی طرف دیکھا۔۔

پہلے مجھے لگا کوٸ پری ہے۔۔ پھر لگا شاید کوٸ چڑیل ہو۔۔ جو اس وقت اتنا پیارا روپ لے کر یہاں بیٹھی ہے۔۔ 

ہاہاہا۔۔۔ حرم کو اسکی بات سن کر ہنسی آ گٸ۔۔ 

سیریسلی۔۔ پھر مجھے فیل ہوا کہ آپ وہ سو سال سے سوٸ ہوٸیں شہزادی ہیں۔۔ جو جادو کے اثر سے سو جاتی ہے اور اب شہزادے کے انتظار میں ہے۔۔

ہاہاہا۔۔ اور حرم بس اسکی باتیں سن کر ہنستی جا رہی ہے۔۔ بہت دلچسپ باتیں کرتی ہو آپ۔۔ حرم نے ہنستے ہوۓ کہا۔۔ 

شاید کچھ دیر پہلے وہ روٸ ہو۔۔کیونکہ تھوڑی سی سرخ آنکھوں پر لمبی گھنی بھیگی پلیکیں جھک اور اٹھ رہی تھیں۔۔ اور ان پلکوں پر مو جود ننھے آنسو کے قطرے دودھیا روشنی میں کسی موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔۔ حرم نے ہاتھ سے اچھی طرح آنکھوں کو رگڑا۔۔ 

کیا ہوا آپکی آنکھیں ریڈ۔۔ عالیہ نے بات درمیاں میں چھوڑ دی
۔۔

وہ مجھے فلو ہوگیا ہے ٹھنڈ کی وجہ سے۔۔ حرم نے بات بناٸ۔۔ 

اور آپ پھر بھی اتنی ٹھنڈ میں بیٹھی ہیں۔۔ 

ایسے ہی دل کررہا تھا۔۔ حرم اسکی بات پر مسکرادی۔۔

کیا آپکو کسی نے بتایا ہے کہ آپکی ہنسی بہت خوبصورت ہے۔۔ ایک لڑکی دوسری لڑکی کی اسطرح کھلے دل سے تعریف بہت کم کرتی ہے۔۔ 

اور آپکو کسی نے بتایا ہے کہ آپکی آنکھوں کی طرح آپکی باتیں بھی بہت پیاری ہیں۔۔ حرم نے اسکی نیلی آنکھوں کی طرف اشارہ کیا۔۔ 

وہ دونوں بہت ہی معصوم اور صاف دل کی مالک تھیں تبھی ایک دوسرے کی اچھاٸ کا اعتراف کیا تھ۔۔ 

جی مجھے پورا آٸڈیا ہے۔۔ میری باتیں بہت اچھی ہیں۔۔ انفیکٹ میں کچھ زیادہ بولتی ہوں ایسا فرہاد بھاٸ کہتے ہیں۔۔ 

ویسے کیا آپ نے فرہاد بھاٸ کو دیکھا ہے۔۔۔ ؟؟ عالیہ نے پوچھا۔۔

جی۔۔۔ دیکھا ہے۔۔ حرم نے کہا۔۔

سچی۔۔ لیکن کہاں۔۔؟؟

ڈاکٹر سمیع کے ہاسپٹل میں۔۔ حرم نے بتایا۔۔

میں حیران ہوں انہوں نے پھر بھی شہرین کو پسند کر لیا۔۔ عالیہ ہلکا سا بڑبڑاٸ۔۔ 

تم دونوں یہاں بیٹھی ہو میں کب سے ڈھونڈ رہی ہوں۔۔ آجاٶ کھانا کھا لو۔۔۔ ثانی آپی نے دونوں کو دیکھتے ہوۓ کہا۔۔ 

ویسے ثانی آپی آپ نے اس اینجل سے مجھے پہلے کیوں نہیں ملوایا۔۔ عالیہ مے شکوہ کیا۔۔ 

ارے خودی تو اینجل بول رہی ہو۔۔ اب اینجل اتنی جلدی سب سے کب ملتی ہے۔۔ ثانی آپی نے مسکرا کر جواب دیا۔۔۔ 

آپی۔۔۔ حرم جھینپ گٸ تھی انکی باتیں سن کر۔۔

بالکل ٹھیک کہہ رہیں ہیں آپ۔۔ عالیہ نے کہا۔۔ 

ویسے آپ نے ابھی تک اپنا نام نہیں بتایا۔۔ اب وہ حرم کی طرف متوجہ ہوٸ۔۔ 

آپ نے پوچھا ہی نہیں۔۔ ویسے میرا نام حرم نور ہے۔۔ حرم نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔

اووو واٶ۔۔ اوسم نیم۔۔ تبھی میں کہوں کوٸ آپ جیسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔ تو یہ اتنے گریس فل نام کا اثر ہے۔۔ جو آپ اتنی گریس فل ہیں۔۔۔ 
By the way i am Aliya Aagha... 

عالیہ نے ہاتھ آگے بڑھایا۔۔جسے حرم نے شیک کیا۔۔ 

تو اب سے ہم فرینڈز ہیں۔۔ عالیہ نے پوچھا تھا بتایا حرم کو سمجھ نہیں آٸ۔۔ 

جی بالکل۔۔۔ اب چلیں اندر۔۔ حرم نے کہا اور پھر وہ دونوں اندر کی طرف بڑھ گٸیں۔۔ 
   
          ❤❤❤❤❤

وہ سب واپس آچکے تھے۔۔ اور اس وقت ڈاکٹر سمیع کے گھر پر تھے۔۔ صبح انہوں نے واپس اسلام آباد چلے جانا تھا۔۔ لڑکی وہ پسند کر چکے اب بس تاٸ اور تایا آفاق نے اسلام آباد جانا تھا فرہاد کو دیکھنے۔۔ ویسے بھی تایا آفاق کی خوش قسمتی تھی کہ اتنے بڑے گھر سے اسکی بیٹی کےلیۓ رشتی آیا تھا۔۔ انہوں نے خود نیا نیا بزنس سٹارٹ کیا تھا جبکہ فرہاد کی فیملی کا بزنس میں ایک نام تھا۔۔ وہ کبھی بھی انکار نہیں کرنے والے تھے۔۔

عالیہ جب سے واپس آٸ تھی اس کے لبوں پر ایک ہی نام تھا۔۔ حرم نور۔۔۔ 
ناجانے فرہاد بھاٸ کو شہرین میں کیا نظر آیا۔۔ کاش انہوں نے حرم کو دیکھا ہوتا۔۔۔ 

پسند تو حرم نتاشہ اور فاریہ بھابھی کو بھی بہت آگٸ تھی لیکن مسٸلہ فرہاد کی پسند کا تھا۔۔ وہ معصوم سی لڑکی سیدھا دل میں اتری تھی۔۔ 

بھابھی آپ نے دیکھا نہیں شاید حرم جب مسکراتی ہے تو اتنی پیاری لگتی ہے۔۔ اور۔۔۔

ارے عالیہ۔۔۔ بس کرو۔۔ لگتا ہے تم اس پر عاشق ہوگٸ ہو۔۔ فاریہ بھابھی نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ 

قسم سے بھابھی میں لڑکا ہوتی نا تو آج اس سے انکاح کر کے ہی آتی۔۔ عالیہ نے کہا۔۔ اور اسکی بات پر سب نے قہقہہ لگایا تھا۔۔ 

ویسے میں اسکا نمبر لے کر آٸ ہوں۔۔ کچھ دیر بعد بات کروں گی۔۔ مجھے جیسی بیسٹ فرینڈ چاہیۓ وہ ویسی ہی ہے۔۔ عالیہ بتا رہی تھی جبکہ نتاشہ اور فاریہ بابھی اسکی باتوں پر مسکرا رہی تھیں۔۔ 

ایک منٹ۔۔ فرہاد بھاٸ کو کال کر کے بتاتی ہوں۔۔ عالیہ نے کہا اور وہاں سے اٹھ کر چلی گٸ۔۔ 

اس نے فرہاد کا نمبر ملایا تھا۔۔ پہلی بیل پر ہی کال ریسیو کر لٸ گٸ تھی۔۔ 

مبارک ہو بھاٸ آپکا کام ہوگیا۔۔ عالیہ نے بتایا۔۔ 

اچھا۔۔۔ تھینک گاڈ۔۔ فرہاد کی اٹکی ہوٸ سانس بحال ہوٸ تھی۔۔ انہوں نے کوٸ بات تو نہیں کی۔۔ ؟؟ فرہاد نے پوچھا۔۔ 

نہیں۔۔ ایک دو دن تک وہ اسلام آباد آٸیں گے۔۔ عالیہ بتا رہی تھی۔۔ 

ویسے ایک بات کہوں بھاٸ۔۔ 

جی۔۔۔ فرہاد نے کہا۔۔

آپکو کیا نظر آیا تھا اس لڑکی میں۔۔ آٸ مین۔۔ عالیہ نے بات ادھوری چھوڑ دی۔۔ 

ہمممم۔۔۔ میں خود نہیں جانتا۔۔ فرہاد نے جواب دیا۔۔

بھاٸ آپ حرم کو جانتے ہیں۔۔۔ کیا آپ اس سے ملے ہیں۔۔ وہ بتا رہی تھی کہ اس نے آپکو سمیع بھاٸ کے ہاسپٹل میں دیکھا تھا۔۔  
She is awesome.. 

کاش بھاٸ آپ پہلے حرم سے نلے ہوتے تو آج ہم۔۔ اس نے بات پھر ادھوری چھوڑ دی۔۔ 

اور فرہاد کو لگ رہا تھا کہ سب پاگل ہو چکے ہیں۔۔ کبھی عالیہ پوچھ رہی ہے کہ مجھے حرم میں کیا نظر آیا اور کبھی کہہ رہی ہے کہ شی از اوسم۔۔۔ 

اور وہ حرم۔۔۔ وہ اتنا روڈ کیسے ہوسکتی ہے۔۔۔ وہ کہہ رہی تھی کہ جس سے ریلیشن بنا رہے ہو اس سے بات کرو۔۔ میں وہ نہیں ہوں۔۔ فرہاد سوچ رہا تھا۔۔

لگتا ہے آج زیادہ بزی ہونے کی وجہ سے میرا دماغ کام نہیں کر رہا۔۔ مجھے آرام کرنا چاہیۓ۔۔ فرہاد نے سوچا اور کچھ کہے بنا فون کاٹ دیا۔۔

        ❤❤❤❤❤

”کوٸ دیوار ہے نا در ساٸیں۔۔ 
ہم فقیروں کا کیا ہے گھر ساٸیں۔۔۔ 

آبلے پڑھ گۓ ہیں پیروں میں۔۔ 
ختم ہوتا نہیں سفر ساٸیں۔۔ 

کون رھتا ہے اس خرابے میں۔۔ 
ڈھونڈتی ہے کسے نظر ساٸیں۔۔

اک قیامت گزر گٸ مجھ پر۔۔ 
اور مجھ کو نہیں خبر ساٸیں۔۔ 

اک بھٹکے ہوۓ مسافر کو۔۔ 
اور رہنا ہے در بدر ساٸیں۔۔ “

حرم نے ڈائری بند کی اور اسے اٹھا کر الماری میں رکھ دیا۔۔ وہ عالیہ لوگوں کے جانے کے بعد فوراً واپس آچکی تھی کیونکہ وہ نادر کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ پورے ایک گھنٹے تک اسے امی اور آنٹی نے اپنے پاس بٹھا کر رکھا تھا۔۔ ساری ڈیٹیل لے کر پھر جان چھوڑی تھی۔۔ 

عشإ کی نماز کے بعد وہ اپنی ڈائری لکھنے بیٹھ گٸ تھی۔۔ ایک دو پوٸٹری لکھنے کے بعد ڈائری بھی واپس رکھ دی کسی چیز میں بھی دل نہیں لگ رہا۔۔ اسے پہلی بار اپنی زندگی میں کسی پر رشک آیا تھا اور وہ تھی شہرین۔۔ کچھ لوگ بنا کچھ مانگے ہی اتنا کچھ پا لیتے ہیں۔۔ اور ایک ہم جیسے ہیں۔۔ جنکا سفر ہی ختم نہیں ہوتا۔۔ 

آخر مجھے اتنی بے چینی کیوں ہو رہی ہے۔۔؟؟
 شزا، ثناء اور حورعین تینوں ٹی وی روم میں تھیں۔۔ یہ شہرین کی قسمت تھی جو اسے اتنا اچھا انسان ملنے جا رہا ہے۔۔ حالانکہ وہ شہرین کی باتیں سن چکی تھی جو وہ فون پر کسی سے کر رہی تھی۔۔ 

آفاق تایا کے گھر جب وہ باہر گارڈن میں جا رہی تھی تب اس بے شہرین کو کسی سے فون پر بات کرتے سنا تھا۔۔ 

میں تم سے شادی نہیں کر سکتی۔۔ شہرین کسی سے کہہ رہی تھی۔۔ 

تم پاگلوں والی باتیں مت کرو شرجیل۔۔ میں نے کہا نا میرا رشتہ ہو چکا ہے اب۔۔ میںتم سے شادی نہیں کر سکتی۔۔ اب شہرین کو غصہ آیا تھا۔۔ 

اگر تم ایسا کچھ کرو گے تو نقصان تمہارا ہی ہوگا۔۔ شہرین نے فون پر دوسری جانب موجود شخص کی بات سننے کے بعد کہا تھا۔۔ 

تو مر جاٶ۔۔ بس آج کے بعد مجھے کال یا میسج مت کرنا۔۔ وہ پھر کچھ کہہ رہا تھا۔۔ شاید اس نے مرنے کی بات کی تھی۔۔ اور پھر شہرین نے یہ کہتے ہوۓ کال کاٹ دی۔۔ 

یہ باتیں سن کر حرم سکتے میں آگٸ تھی۔۔ اگر وہ کسی اور کو چاہتی تھی پہلے تو پھر ایک شخص کی صرف تصویر دیکھنے کے بعد اسکی سمارٹنس پر مر کر کسی اور کا دل بری طرح سے ٹوڑ رہی تھی۔۔ خیر مجھے کیا وہ سوچوں سے باہر نکل آٸ۔۔ 

وہ تھک چکی تھی لیکن سویا نہیں جا رہا تھا۔۔موبائل اس نے خود آف کیا ہوا تھا۔۔ کیا کروں میں۔۔ ؟؟ کس سے شیٸر کروں اپنی فیلنگز کو۔۔۔ ؟؟ 

اور کتنے ازیت ناک پل ہوتے ہیں نا جب آپکو کسی ایسے انسان کی ضرورت ہوتی ہے جسے آپ سب کچھ کہہ سکیں لیکن افسوس آپکے پاس ایسا کوٸ بھی نہیں ہوتا۔۔ تنہائی بھی ایک سزا ہے ایک ازیت ہے۔۔ کچھ لوگوں کو یہ سزا دی جاتی ہے اور کچھ لوگ خود اس سزا کو اپنے لیۓ چنتے ہیں۔۔ 
  
شاید یہ میری کوٸ آزمائش ہو حرم سوچ رہی تھی۔۔ مجھ صبر کرنا چاہیۓ۔۔ اور #قرآن_پاک میں اللہ پاک فرماتے ہیں۔۔ 

   ”اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔۔۔ “

پھر اسکی نظر سامنے شیلف پر رکھی تفسیر و قرآن کی کتاب پر پڑی۔۔ حرم نے آگے بڑھ کر اسے اٹھا یا۔۔ 

جو صفحہ اس نے کھولا اس پر لکھا تھا۔۔۔ 

 ”اور ہم ضرور آزماٸیں گے تم کو تھوڑے سے ڈر سے اور بھوک اور مالوں، جانوں اور پھلوں کے نقصان سے۔۔ اور خوشخبری دے دیجیۓ ان صبر والوں کو کہ جب انہیں کوٸ مصيبت پہنچتی تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔۔۔ “ البقرہ155۔156

اور حرم کے اندر تک سکون اتر گیا۔۔ اب اسے سمجھ آگٸ تھی کہ یہ اسکی آزمائش ہے اسے بس صبر کرنا ہے۔۔ اب وہ آرام سے سو سکتی تھی۔۔ چناچہ سونے کیلیۓ لیٹ گٸ۔۔۔ دھند میں لپٹی ایک اور رات آہستہ آہستہ گزر رہی تھی۔۔۔ 

          ❤❤❤❤❤

میں نے سنا آج شہرین کو دیکھنے والے آۓ تھے۔۔ حورعین اسد سے چیٹنگ میں مصروف تھی جب اسد نے پوچھا۔۔ 

جی۔۔۔ اور لڑکا کمال ہے۔۔ حورعین نے کہا۔۔ 

حرم نے دیکھا ہوا ہے اس لڑکے کو۔۔ اور وہ کہہ رہی تھی کہ شہرین بہت خوش قسمت ہے جسے وہ شخص مل رہا ہے۔۔ حورعین بتا رہی تھی۔۔ 

اور مجھے لگتا ہے کہ نادر بھاٸ سب سے خوش قسمت ہے جسے حرم ملے گی۔۔ سیریسلی یار۔۔ نادر بھاٸ اس قابل نہیں کہ انہیں حرم ملے۔۔۔ 
Haram is a gorgious Girl... innocent and sweet.. 

اسد کہہ رہا تھا۔۔ انفیکٹ تعریف کر رہا تھا۔۔ 

بس بس۔۔۔ مجھے لگتا ہے کچھ زیادہ ہی تعریف ہوگٸ ہے۔۔ حورعین نے کہا۔۔ شاید اسے اسد کے منہ سے حرم کی تعریف اچھی نہیں لگی تھی۔۔  

اور ویسے بھی اگر حرم کی شادی نادر بھاٸ سے ہو جاتی ہے تو ہمارے لیۓ بھی آسانی ہوگی۔۔شاید تاٸ امی مان جاٸیں۔۔ حورعین نے امید سے کہا۔۔ 

سچ کہا تھا کسی نے کہ محبت بہت خود غرض ہوتی ہے۔۔ کل تک جس حورعین کو نادر پسند نہیں تھا۔۔جو کہتی تھی کہ حرم کی شادی نادر سے کبھی بھی نہیں کرنی۔۔ آج اسے اسی نادر میں کوٸ برائی نظر نہیں آرہی تھی۔۔ صرف اس لیۓ کہ حرم کے بدلے میں اسد اسے ملنے والا تھا۔۔ واہ ری خود غرض محبت۔۔۔ 

ارے ماما نا بھی مانی تو اسد کو اپنی بات منوانی آتی ہے۔۔ جانِ اسد پریشان مت ہوا کرو۔۔ اسد تمہارا ہے بس۔۔ اور مجھے لگتا ہے کہ سب سے زیادہ خوش نصیب ہم دونوں ہیں۔۔۔ جو ایک دوسرے کو اتنا چاہتے بھی ہیں اور دوسرے کو ہمیشہ کیلیۓ اپناٸیں گے بھی۔۔اسد کہہ رہا تھا اور حورعین کو لگ رہا تھا کہ ایک امرت سا اسکے کانوں میں گھل رہا ہے۔۔ 

”فضا میں خوشبو کا۔۔
کوٸ ایک رقص جاگا ہے۔۔ 

سنہری تتلیاں پھر سے گلابوں 
کے لبوں کو چھو کر آٸیں ہیں۔۔ 

دھند میں لپٹا چاند۔۔ 
زرا سا گنگناتا ہے۔۔ 

کوٸ روشن ستارہ ۔۔۔
آسمان پر مسکراتا ہے۔۔ 

سمندر گیت گاتا ہے۔۔ 
کمال عہد مستی میں۔۔۔ 

جہاں پر موسمِ جاں بھی۔۔ 
بہت حیران لگتا ہے۔۔۔ 

کوٸ چہرہ میرے دل کے بدن سے آن لگتا ہے۔۔ 

یہی چپکے سے کہتا ہے۔۔۔ 
مجھے تم سے محبت ہے۔۔ 
مجھے تم سے محبت ہے۔۔ 

❤❤❤❤


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─