┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: لو_مان_لیا_ہم_نے
از: فاطمہ_خان
قسط_نمبر_08

'یار ولید تمہیں نہیں لگ رہا داجی ہمیں بہت سخت نظروں سے گھورنے رہے ہیں"
بہرور نے ولید کے کان میں کھا کر سرگوشی کی
"ہاں یار لگ تو مجھے بھی کچھ ایسا ہی رہا ہے داجی کچھ زیادہ ہی آج ہمیں گھورنے میں مگن ہے بلکہ آنکھوں ہی آنکھوں میں ہمیں کھا جانے والے ہیں"
بہرور نے بھی داجی کی سرد نظروں کو محسوس کر کے کہا 
"یہ تم دنوں کیا ایک دوسرے کے کانوں میں کھسے سرگوشیاں کر رہے ہوں"
شارق نے کان لگا کر ان کی باتیں سنے کی کوشش کی جب باتیں سنائی نہیں دی تو چڑ کر بولا 
عمار البتہ مطمئن سا ایک سائیڈ پر بیٹھا موبائل فون میں گیم کھیلنے میں مگن تھا 
لڑکیوں نے بھی رسالہ درمیان میں رکھا ہوا تھا نئے ڈیزائن کے کپڑے بنانے کے لیے ڈیزائن پسند کر رہی تھی 
بڑے سب سامنے صوفے پر بیٹھے باتیں کرنے میں مصروف تھے اس دوران داجی خشمگیں نظروں سے ان تینوں کو گھور رہے تھے 
"یار تمہیں نہیں لگ رہا داجی آج ہمارا پوسٹ مارٹم کرنے میں مصروف ہے"
ولید نے آگے بڑھ کر سرگوشی کے انداز میں شارق کو کہا 
شارق بھی مزید قریب ہو کر بیٹھ گیا 
"کوئی نہیں ہم آج داجی کو لڑکیوں کے کارنامے دیکھئے گئے ناں تو داجی کا سارا نزلہ ان چاروں پر اترے گا"
بہرور نے ہنس کر ان چاروں کی طرف اشارہ کر کر کہا
عمار دل ہی دل میں ان کی خوش فہمی پر ہنس رہا تھا 
"بچارے میرے بھائی اللّٰہ ہی تم لوگوں کی مدد فرمائیں"
عمار نے ایک ترچھی نگاہ ان پر ڈال کر دل میں دعا دی 
"بہرور ولید شارق تم تینوں آدھر آؤ"
بڑے ابو نے رعب دار آواز میں انہیں مخاطب کیا 
لڑکیوں نے بھی رسالہ سائیڈ پر رکھ دیا عمار نے موبائیل جیب میں واپس رکھا وہ بچارے تینوں اپنی ہٹایں سوچنے پر مجبور ہو گئے بڑے ابو نے جس انداز میں انہیں مخاطب کیا تھا ضرور کوئی گھر بھر تھی 
"تم تینوں نے سنا نہیں کیا کہا میں نے"
اب کی بار آواز میں پہلے سے زیادہ سختی تھی
وہ تینوں کلمہ پڑھ کر ایک ساتھ اٹھے 
"اللّٰہ خیر کرے مجھے تو اپنے ستارے گردش میں دیکھائی دے رہے ہیں"
ولید نے آگے چلتے شارق کو کہنی مار کر کہا 
"اللّٰہ ہی خیر کرے "
بہرور نے مڑی آواز میں دعا کی 
جس پر تینوں نے سچے دل سے آمین کہا 
"یہ سب کیا ہے"
بڑے ابو نے موبائل ان کے سامنے کیا 
ان تینوں نے پھٹی آنکھوں سے موبائل کو دیکھا ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا یہ تصویریں داجی یا گھر کے بڑوں میں سے کسی کے پاس ہو سکتی ہے 
ولید نے نظر اٹھا کر شارق اور بہرور کو دیکھا ان کی آنکھیں ابھی بھی بےیقنی سے موبائل کو تک رہی تھی 
"مارے گئے"
شارق کی سرگوشی نما آواز نکلی 
"کیا ہے یہ سب"
اب کی بار داجی گرج کر بولے 
"داجی ...یہ سب جھوٹ ہے قسم لے لے یہ ہمارے خلاف سازش کی گئی ہے"
ولید نے روہانسی آواز میں داجی کو یقین دلانا چاہا
"سازش کون سی سازش تصویر غور سے دیکھوں اور بتاؤ اس میں کس کی سازش شامل ہیں"
بڑے ابو نے غصے سے گھور کر کہا 
"داجی .. وہ یہ سب تو یونیورسٹی لائف میں ہوتا رہتا ہے "
شارق نے آہستہ آواز میں کہا 
"شاباش برخوردار شاباش تمہیں ہم یونی ورسٹی اس وحیات کام کے لیے بھجواتے ہیں کیا "
داجی نے عینک کے نیچے سے غورا 
"داجی اس میں کیا ہے دیکھے ہم تینوں آگے ہے وہ لڑکی ہمارے پیچھے فاصلے پر کھڑی ہے سیلفی لے رہے تھے ہم داجی دوست ہے یہ ہماری اور کچھ نہیں"
بہرور نے روانی میں کچھ زیادہ ہی کہ دیا تھا "ماشاءاللہ ماشاءاللہ سن رہے ہوں صمد احمد تم دونوں کے بچے یونیورسٹی میں لڑکیوں سے دوستیاں کرتے پھر رہے ہیں "
داجی نے طنزیہ لہجے میں کہا
"داجی یہ سب تو یونیورسٹی میں چلتا رہتا ہے"
بہرور کی زبان کو کھجلی ہوئی ولید نے اپنا پاؤں زور سے اس کے پاؤں پر مارا بہروز بچارا درد سے بلبلا اٹھا خون خوار نظروں سے ولید کو گھورا جو اسے ہی گھورے جا رہا تھا الفاظ کی سنگینی کا احساس بہرور کو بعد میں ہوا 
"تم لوگ وہاں پڑھنے جاتے ہوں یا وہاں پرائی ماں بیٹیوں سے دوستیاں گاڑنے"
"داجی قسم لے لے وہاں لوگوں کی بہن بیٹیاں آتی ہے پڑھنے ان کی اماں نہیں آتی "
شارق نے عاجزی سے کہا احمد صاحب نے گھور کے اپنے صاحب زادے کو دیکھا مگر وہاں پرواہ کیسے تھی
"شرم تو تم لوگوں میں ہے ہی نہیں بغیرت بنے ہوئے ہوں کہی سے نہیں لگتا تم پھٹان خاندان سے ہے پھٹانوں کا نام ڈبو کر رکھ دیا"
"لو داجی کو اس عمر میں بھی خاندان کی پڑی ہوئی ہے اب یہ کون سی کتاب میں لکھا ہے کہ سارے پھٹان مرد غیرت مند ہوتے ہیں کچھ ہماری طرح بغیرت بھی ہو سکتے ہیں"
بہرور نے آگے بڑھ کر ولید کے کان میں سرگوشی کی بڑے ابو کے کانوں نے اس کے نادار خیالات سن کر غصے سے اپنے لاڈلے کو دیکھا
"شاباش بچے اب سب اپنے اپنے وائلٹ رکھوں یہاں میز پر "
بڑے ابو نے اب کی بار نرمی سے کہا تینوں نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا 
"شاباش برخورداروں رکھوں میز پر "
تینوں نے بنا چو و چرا کے اپنے اپنے جیب سے وائلٹ نکال کر ٹیبل پر رکھے 
"گاڑی کی چابی کس کے پاس ہے "
بڑے ابو نے تینوں کا باری باری دیکھ کر پوچھا اب کی بار ولید کو سعی مانوں میں جھٹکا لگا یہ بزرگ کرنے کیا والے تھے ان کے ساتھ
"چابی کے ساتھ آپ نے کیا کرنا ہے ڈیڈ "
بہرور نے حیرانی سے باپ کو دیکھا ان چاروں لڑکوں کے پاس ایک ہی گاڑی تھی جس پر وہ لوگ یونیورسٹی آتے جاتے تھے جب کبھی جس کسی کو بھی چاہیے ہوتی لے جاتے گو کہ وہ ایک گاڑی ان چاروں کی تھی وائلٹ جانے کا غم اتنا نہیں ستا رہا تھا جتنا گاڑی کے چلنے جانے کا غم تھا 
"اچار ڈالنا ہے مجھے !" بڑے ابو نے گھورا 
ولید نے جیب سے گاڑی کی چابی نکال کر ٹیبل پر رکھی
"آج سے تم لوگ بس پر یونیورسٹی آیا جایا کروں گے اور ایک ہفتہ مجھے تم چاروں اپنی شکل نہیں دیکھاؤ گے اگر اس ہفتے کے دوران کوئی اور شکایت ملی تو یاد رکھنا میں یہ گاڑی بیجھ ڈالوں گا اس کے بعد مستقل طور پر تم لوگوں کو بس پر جانا پڑے گا "
بڑےابو نے سخت نظروں سے دیکھ کر اپنا فیصلہ سنایا 
تینوں نے بےبسی سے سر ہلایا 
ولید کو ایک دم پیچھے بیٹھی کھی کھی کرتی لڑکیوں کا خیال آیا جو بدقسمتی سے ان کی کزن لگتی تھی 
"بڑے ابو میرے پاس آپ کو دیکھانے کے لیے ایک چیز ہے پلیز آپ وہ بھی دیکھ لیجیے گا "
اس نے جلدی سے موبائل جیب سے نکال کر گیلری اوپن کی ایک اور جھٹکا تب لگا جب وہاں ان تصویروں کا نام و نشان بھی دیکھائی نہیں دیا اس نے موبائل شارق اور بہرور کو دیکھایا ان بچاروں کے بھی منہ بن گئے داجی نے ترچھی نظروں سے انہیں دیکھا پھر ہاتھ بڑھا کر موبائل ولید کے ہاتھ سے چھینا ولید تو ولید پاس کھڑے شارق اور بہرور کی بھی سانس بند ہونے لگی 
"اس میں کیا ہے برحودار ذرا میں بھی تو دیکھوں"
دارو کو ان کے حال پر کچھ رحم آیا موبائل داجی سے لے کر واپس ولید کو تھمایا
اگر داجی اس میں موجود ان کی بنا شرٹ کی باڈی دیکھاتے پیک دیکھ لیتے تو آج غیرت کے نام پر تین تین قتل ہو جانے تھے تینوں نے شکر کی سانس لی 
"اب تم تینوں جاؤ یہاں سے یہاں کھڑے ہمارا منہ کیا دیکھ رہے ہوں"
داجی نے برہمی دیکھائی
"داجی وہ کچھ کرایے کے پیسے ہی دے دیتے تو......وہ کیا ہے ناں کے بس میں بھی جانے کے لئے کرایے کی ضرورت ہوتی ہے ناں "
شارق نے نظریں جھکائے شرمندگی سے کہا 
"ہاں ہاں کیوں نہیں ضرور اتنے پیسے تو ضرور ملے گئے تم لوگوں کو اب پتا چلے گا تم لوگوں کو کہ یونیورسٹی پڑھنے کی جگہ ہے یا وہاں غیروں کی بہن بیٹیوں کے ساتھ تصویریں نکالنے کی جیب میں ایک روپیہ نہیں ہو گا نہ تو دیکھاتا ہوں کتنے موج مستیاں کرتے ہوں تم لوگ پہلے لڑکیوں کے نمبر لینے کے بہانے ان کا ہاتھ دیکھتے پکڑے گئے اب لڑکیوں کے ساتھ تصویریں بناتے آگے آگے پتا نہیں تم بغیرت ہمیں کیا کارنامہ دیکھانے والے ہوں "
داجی جب شروع ہوئے تو اگلی پیچھلی ساری بھڑاس نکال کر چھوڑی  
"اب بس بھی کریں ابا حضور بچے ہیں "
ولی صاحب جو کی کے چپ بیٹھے تھے بچوں کی معصوم شکلیں دیکھ کر بول اٹھے 
"ہاں ہاں برخوردار تم ان بچوں کا سائیڈ نہیں لو گے تو اور کون لے گا تمہاری جوانی بھی تو انہی کی طرح رنگین جو گزری ہے"
داجی نے رخ موڑ کر ولی صاحب کو کھری کھری سنائی 
ولی صاحب بچارے بول کر پچھتائے
"ہائے سچی داجی چاچو بھی ہماری طرح ذندہ دل تھے"
ولید اپنی ابھی ابھی تازہ ہوئی بےعزتی بھول کر پرجوش ہوا داجی کے ساتھ ساتھ ولی چاچا نے بھی گھوری سے نوازا 
"اب تم تینوں یہاں سے چلتے بنو اور خبردار جو ایک ہفتہ اپنی شکل بھی دیکھائی ہمیں "
بڑے ابو نے گرج کر کہا وہ تینوں اپنا سا منہ لے کر باہر نکلے جاتے جاتے ایک سخت نظر اور چاروں فساد کی جڑوں کو دیکھا جو اپنی ہنسی ضبط کرنے کے چکروں میں ایک دوسرے کے پیچھے چھپنے کے چکر میں ہلکان ہو رہی تھی 
             .............................   
"سچ سچ بتاؤ تم نے کتنے پیسے لئے اس کام کے لیے "
ولید نے عمار کو ایک طرف سے گیر رکھا تھا دوسری طرف سے شارق نے اسے دبوچا ہوا تھا بہروز اس کے سامنے تھانے دار بنا کھڑا تفسیسی انداز میں پوچھ ریا تھا 
عمار نے بےبسی سے ان تینوں ظالموں کو دیکھا 
"دیکھوں میرا یقین کروں میں نے کچھ نہیں کیا میں کیوں تم لوگوں کے ساتھ بےایمانی کروں گا"
اس نے شارق کا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹانے کی کوشش کی شارق نے مزید دباؤ ڈال کر اس کی کوشش کو ناکام بنایا 
"اچھا اچھا تمہیں لگتا ہے تم ہمیں بےوقوف بنوں گے اور ہم بن جائے گے اس راز کے بارے یہ ہم چاروں کے علاؤ کسی کو نہیں پتا تھا پھر یہ تم نے نہیں کیا تو کس نے کیا ہے "
بہروز نے آگے آ کر اس کے گلے پر ہاتھ رکھ کر غصے سے کہا 
"ہاں تو ہم چاروں کو پتا تھا ناں پھر میں ہی کیوں بتاؤ گا تم تینوں میں سے کسی نے بتایا ہو گا دیکھوں تم تینوں بنا ثبوت کے مجھ پر الزام نہیں لگا سکتے "
عمار نے اپنے ہاتھوں کو ان کے مضبوط حصار سے نکالنے کی ایک بار پھر ناکام کوشش کی "اچھا ہم تمہیں اتنے بےوقوف لگتے ہیں کہ اپنے آپ کو خود ہی پھسوائے گے انہیں جا کر بتائیں گے اور پھر خود ہی انہیں اپنی تصویروں دے گے "
بہروز نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا
"یہاں کیا ہو رہا ہے کیا کر رہے ہوں تم لوگ عمار کے ساتھ"
زرشالہ عمار کے کمرے میں داخل ہوئی اسے اپنے لیے کچھ منگوانا تھا بازار سے سامنے کا منظر دیکھ کر اس کا بی پی ہائی ہوا عمار بچارہ تین غنڈوں میں بری طرح پھنسا ہوا تھا زرشالہ نے آگے آکر بہروز کا ہاتھ اس کے گردن سے ہٹایا
"تم بیچ میں مت بولو فساد کی چڑ تو تم ہوں میرا بس چلے تمہیں اٹھا کر اس کھڑکی سے باہر پھنک دوں"
بہروز نے مڑ کر اسے گھور کر کہا 
"ہاہاہا تمہاری اتنی جرات زرا ہاتھ لگا کر تو دیکھاؤ بدلے میں پوری عمر جیل میں سرتے رہوں گے اور تم دنوں چھوڑوں اسے ایک منٹ کے اندر اندر نہیں تو میں داجی کو جا کر وہ تصویریں بھی بتا دوں گئی جس میں تم تینوں اکیلے اکیلے اپنی گرل فرینڈز کے ساتھ کھڑے مسکرا رہے ہوں پھر جانتے ہوں ناں داجی تو داجی بڑے ابو اور چاچو بھی تم لوگوں کو گھر سے نکالنے میں ایک لمحہ نہیں لگائے گے یہ تو میرا احسان مانو جو وہ پیک نہیں دیکھائی آئندہ ہم سے پنگا لینے سے پہلے سو بار سوچنا "
زرشالہ نے کہ کر شارق اور ولید کو پیچھے دھکیلا عمار نے اپنی سانس بحال کی بہروز ولید اور شارق نے زرشالہ کو صرف گھونے میں ہی افیات جانی وہ مزید کوئی پنگا نہیں لے سکتے تھے ایک غلط نگاہ ان دونوں پر ڈال کر وہ تینوں تن فن کرتے وہاں سے چلے گئے عمار نے شکر کا سانس لیا زرشالہ نے اس کی شکل دیکھی جو ڈر سے پہلی زرد ہو رہی تھی زرشالہ نے قہقہہ لگایا عمار نے خفگی سے اسے گھورا 
               ......................
"ہاہاہا تم ایک دن ان سب کے ہاتھوں قتل ہو جاؤں گی گڑیا "
زالان اس کی بات سن کر بےتحاشہ ہنسا وہ دنوں اس وقت سکائیپ پر بات کر رہے تھے "ایسے ہی قتل کر دے گے مجھے مجھے ہاتھ تو لگا کر دیکھائیں میرا زالان ان سب کو پھانسی پر چڑھا دے گے"
اس نے ناز سے کہا 
"ہاں اور تم ان بچاروں کو ہر وقت بےعزت کرواتی رہا کروں "
"میں نے کچھ نہیں کیا ہمیں تو پتا بھی نہیں تھا وہ تو ان کا اپنا ہی ساتھی بےایمان نکلا تو ہماری کیا غلطی تھی اس نے ہمارے ساتھ سودہ بازی کی ویسے قسم سے آپ ان تینوں کی شکلیں دیکھ لیتے تو آپ کو بھی ہنسی آ جاتی یہ جو چوبیس گھنٹے آپ کے چہرے پر بارہ بچ رہے ہوتے ہیں ناں سخت چڑ ہوتی مجھے بندہ کبھی مسکرا کر بھی بات کر لیتا ہے"
زالان اس کے سفید جھوٹ پر تلملا کر رہ گیا 
"میں ہنس کر بات نہیں کرتا یہ جو تم سے ہر وقت ہنس ہنس کر اپنے جبڑوں پر ظلم کرتا ہو وہ تمہیں نظر نہیں آتا ناشکری عورت"
یہ سچ تھا زالان کسی سے اتنی باتیں نہیں کرتا تھا ناں ہی ہر وقت ہنستا تھا بہت مذاق کی بات پر بھی بس مسکرا دیتا تھا مگر زرشالہ کے ساتھ وہ بلکل بچہ بن جاتا تھا جیسے جیسے زرشالہ اسے کرنے کو کہتی وہ ویسا ہی کرتا رہتا تھا بنا کچھ کہے 
"یہ عورت آپ نے کس کو کہا میں آپ کو عورت نظر آتی ہوں ابھی میری عمر ہی کیا ہے ابھی تو میں لڑکی ہوں کھڑورس خان "
وہ جب بھی اس کی کسی بات پر ناراض ہوتی اسے کھڑورس خان ہی کہتی تھی 
اس نے ماتھے پر ائے بال ایک ادا سے پیچھے کرتے ہوئے ناک بسوری 
"ہاہاہا اچھا گڑیا سوری سو بار کہا ہے مجھے اس واہیات نام سے مت پکڑا کروں مگر مجال ہے جو تمہیں میری کوئی بات سمجھ آ جائے "
"ہاہاہا آپ بھی آئندہ مجھے عورت کہنے کی غلطی دوبارہ مت کیجئے گا "
"اوکے میری ماں اب سو جاؤ مجھے بھی سونے دوں صبح ڈیوٹی پر بھی جانا ہے نکمی عورت"
"زالان "
وہ چلائی زالان نے ہنس کر اسے دیکھا 
"کھڑورس خان" اس نے اپنا بدلہ لے کر فون بند کیا 
زالان کو اس لفظ سے سخت چڑ تھی زرشالہ جان کر اسے تنگ کرتی تھی دونوں ایسے ہی پاگل تھے ایک دوسرے کو تنگ کیے بنا ان کو نیند نہیں آتی تھی زرشالہ کے لیے زالان نے اپنا ٹرانسفر بھی لاہور کر دیا تھا وہ اپنی گڑیا کے بغیر وہاں اکیلا تھا اس کے ہر کام کا حیال رکھنا زرشالہ نے اپنی زمیداری بنا لی تھی 
                     .................
جاری ہے.....


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─