┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: لو_مان_لیا_ہم_نے
از: فاطمہ_خان
قسط_نمبر_07

"اسلام علیکم سر "
دامیر کو سامنے دیکھ کر حورین نے سلام کیا
"وعلیکم السلام کسی ہے آپ اور آپ کی دوست صاحبہ کہاں ہے آج نظر نہیں آ رہی ہے"
دامیر نے روک کر اسے دیکھا جو آج اکیلی تھی وہ آفت کی پڑیا آج اس کے ساتھ موجود نہیں تھی
"سر آج زالان بھائی آئے ہیں نہ تو زرشالہ اس وجہ سے نہیں آئی "
حورین نے تمیز سے جواب دیا دامیر اور زرشالہ لوگوں کا آپس میں کیا رشتہ ہے یہ تو حورین جان گی تھی اس لیے اس نے زالان کا زکر کیا
وہ اس وقت ڈیپارٹمنٹ کے باہر پارکنگ ایریا میں کھڑی اگلی کلاس کا انتظار کر رہی تھی اس نے آج پنک جارجٹ کا سوٹ پہن رکھا تھا دوپٹا سائیڈ پر ڈالے ہوئے تھا سکاف چہرے کے گرد لپٹ رکھا تھا وہ سادگی میں بھی بہت معصوم اور خوبصورت لگ رہی تھی 
دامیر کی نظر خود پر محسوس کر کے حورین نے نظر اٹھا کر دیکھا سامنے بھی دامیر ارسلان تھا اس نے ایک دم اپنی نظریں اس کے چہرے سے ہٹائی 
"اچھا اس کا مطلب ہے زالان پر آج زرشالہ کا قبضہ ہے اس لڑکی نے میرے دوست کو مجھ سے چھین رکھا ہے "
دامیر نے شرارت سے مذاق میں کہا 
"سوری سر مائنڈ مت کیجئے گا قبضہ اس نے نہیں آپ نے اس کے دوست پر کر دکھا ہے"
بات اس کی دوست پر آئے اور حورین چپ رہتی یہ ممکن نہیں تھا اس نے ناگواری سے کہا
دامیر نے چونک کر حورین کے غصّے سے ضبط کرتے لال چہرے کو دیکھا 
"ارے آپ تو مائنڈ کر گئی زرشالہ مجھے اپنی چھوٹی بہنوں کی طرح عزیز ہے اسے تنگ کرنے میں مجھے مزا آتا ہے اور بدلے میں زالان کی ڈانٹ بھی سنی پڑتی ہے "
اس نے مسکرا کر ہلکے پھلکے انداز میں جواب دیا
حورین کو اپنے الفاظ پر پچھتاوا ہوا وہ بنا سوچے سمجھے کچھ زیادہ ہی بول گی تھی 
"سوری سر وہ بس مجھے آپ سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی"
اس نے شرمندگی سے کہا 
"اٹس اوکے دوستوں کو ایسے ہی مخلص ہونا چاہیے مجھے خوشی ہے آپ کی دوستی کسی بھی غرض سے پاک ہے"
حورین نے دامیر کو دیکھا جو اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا 
حورین کو عجیب سی الجھن ہوئی 
"اچھا چلے آپ بھی گھر جائے "
"پر سر ابھی تو آپ کی کلاس ہے"
"پہلے لینے کا ارادہ تھا اب نہیں لے رہا آپ بھی اکیلی ہے لیکچر دیتے دیتے لیٹ ہو جائے گا اتنا تو کر ہی سکتا ہو نا آپ کے لیے"
آخری الفاظ دامیر نے آہستگی سے ادا کیے حورین نے پھر بھی سن لیا 
اس نے حیرت سے دامیر کو دیکھا 
"کیا مطلب سر میں سمجھی نہیں"
"میرا مطلب ہے چونکہ آج زرشالہ صاحبہ نہیں آئی اور اگر آج میں نے لیکچر لیا تو زالان صاحب کے کہنے پر کل بھی مجھے یہی ٹاپک پھر سے سمجھانا پڑے گا اس سے بہتر ہے میں آج کی کلاس نہ ہی لوں تو اچھا ہے "
دامیر نے کمال معصومیت سے اپنی بات بدل دی
حورین نے حیرت سے دامیر کی پست کو دیکھ جو اپنی بات مکمل کر کے جا چکا تھا 
کچھ تو تھا جو حورین کو کنفیوز کر رہا تھا اس نے سر جھٹکا جو بھی تھا اس کی سمجھ سے بالاتر تھا 
                ........................
وہ یونیورسٹی سے سیدھا بچوں کو پڑھانے چلی گئی اب واپس لوٹی تو شام کے سائے بڑھتے جا رہے تھے آج کل اسے لیٹ ہو جاتا تھا بچوں کے فائنل سر پر تھے اس وجہ سے اسے زیادہ وقت دینا پڑ رہا تھا 
تھکی ہاری گھر لوٹی سامنے ابا کو اپنے انتظار کرتے پایا اس نے مسکرا کر اپنے باپ کو دیکھا ان کے چہرے پر فکرمندی تھی 
"کہاں رہ گیا تھا میرا بچہ "
ابا نے فکرمندی سے پوچھا
"سوری ابااج کچھ زیادہ لیٹ ہو گئی آئندہ خیال رکھوں گئی بس بچوں کے فائنل ہونے والے ہیں اسی وجہ سے ٹائم کا پتا ہی نہیں چلا"
اس نے سکاف کے گرد لگے سیفٹی پین کو ہٹاتے ہوئے جوان دیا 
"بس بچے جلدی آنے کی کوشش کیا کروں میں پریشان ہو جاتا ہوں"
"آئندہ ایسا نہیں ہو گاہ کا وعدہ آپ نے ابھی تک کچھ کھایا بھی نہیں ہو گا بس میں فریش ہو کر نماز ادا کر لوں پھر مل کر کھانا کھاتے ہیں"
حورین نے آگے بڑھا کر ابا کی پیشانی کو چھوما ابا نے محبت سے اپنی معصوم سی بچی کو دیکھا جو اتنی سی عمر میں اپنی عمر سے پہلے ہی بہت بڑی ہو گئی تھی حالات بھی بندے کو کیا سے کیا بنا دیتے ہیں 
ابا نے افسردگی سے سوچا 
کھانا کھا کر کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کر کے ابا کو ان کے کمرے میں چھوڑ کر وہ اپنے کمرے میں آ گئی بیڈ پر لیٹی آج کے بارے میں سوچ رہی تھی 
سر کا رویہ ان کا انداز ان کی نظریں سب اسے تنگ کر رہی تھی اپنے پر پڑنے والی نظر کوئی عام نظر نہیں تھی کچھ تو تھا کیا یہ وہ جان کر بھی انجان بن رہی تھی 
اوپر سے آج وہ بالو بھی راستے میں نہیں تھا تو کیا آج اس شخص سے اس کی جان چھوٹ گئی تھی انہی سوچوں میں گم تھی کہ موبائل فون بچا اس نے بے خیالی میں بنا دیکھے ریسیو کیا 
"ہیلو اسلام علیکم "
اسے لگا شاید زرشالہ کا فون ہوں روما اور زرشالہ کے علاوہ اسے اور کون کر سکتا تھا فون 
"وسلام شہزادی کیسی ہے فون مت بند کرنا" 
"کون "
حورین نے پریشانی سے فون کان سے ہٹا کر نمبر دیکھا 
"فون مت بند کرنا شہزادی نہیں تو تو اتنا تو جان چکی ہے مجھے میں معمولی بندہ نہیں ہوں "
بالو نے سنجیدگی سے کہا 
"کیوں فون کیا ہے مجھے اور میرا نمبر کہا سے ملا آپ کو "
حورین نے فون بند نہیں کیا جانتی تھی وہ سر پہرا انسان جب تک اپنی بکواس نہیں کرئے گا تب تک اس کا پیچھا چھوڑنے والا نہیں 
"واہ رہ اپنی شہزادی نے تو اپنے بالو کو ایک ہی آواز میں پہچان لیا"
حورین نے اس کی بکواس پر اپنے دانت پیسے 
"وہ کیا ہے نہ آج تمہیں لگا ہو گا کہ بالو کہی مر گپ گیا ہے تو تمہاری یہ غلط فہمی دور کر دوں بالو اپنی چیزوں کو اتنی آسانی سے بھولنے والا نہیں ہے تو دل کو اچھی لگی ہے تجھے دل نے چاہا ہے تمہیں اپنے دل کا مکین بناؤ گا اس لیے بہتر ہے تو اپنا خیال اپنے لیے بےشک مت رکھوں پر میرے لیے اپنا خیال رکھنا سمجھیں"
وہ گھمبیر آواز میں گویا ہوا 
حورین کے ہاتھوں میں پسینہ آیا اسے لگا یہ دو دن کا کھیل تھا پر اس کا نمبر اس کا پیچھا کرنا 
"مجھے آپ جیسے انسان سے کوئی بھی بات نہیں کرنی آیندہ مجھے فون کرنی کی غلطی مت کیجئے گا "
اپنے کانپتے آواز پر مشکل سے قابو کیا وہ دل سے ڈر گی تھی مگر وہ اپنی کمزوری کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی 
"چل آرام کر شہزادی مجھے غصہ نہ دیلانا یہی تمہارے حق میں بہتر ہو گا 
اور ہاں پنک ڈریس میں تو واقعی آج میری پیاری سی شہزاد ہی لگ رہی تھی"
بالو اپنی بات مکمل کر کے فون کر چکا تھا حورین نے موبائل سائیڈ پر رکھ کر اپنا سر ہاتھوں میں گرا دیا یہ سب اس کے ساتھ ہو کیا رہا تھا وہ سمجنے سے قاصر تھی وہ آج اس کے راستے میں نہیں آیا تھا مگر آج اس نے جو ڈریس پہنا تھا وہ بالو کو پتا تھا مطلب بالو نے اسے آج بھی دیکھا تھا 
وہ سوچ سوچ کر پاگل ہو رہی تھی کوئی بھی حل نہیں مل رہا تھا وہ کرے بھی تو کیا کریں 
اس نے بےبسی سے اپنا سر تکیے پر گرا دیا آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر اس کے بالوں میں جذب ہو گیا اس نے قرب سے آنکھیں موند لی 
               .......................
"تم سب کے لیے میرے پاس ایک بہت بری خبر ہے "
عمار نے زرشالہ کے کمرے میں داخل ہو کر ڈرامائی انداز میں سب کی طرف دیکھ کر سنجیدہ انداز میں کہا 
"تمہیں نظر نہیں آ رہا یہاں اس وقت ہم چاروں لڑکیوں کا گروپ موجود ہے تمہارا یوں بہانے سے کمرے میں آنے کا مقصد خوب سمجھتے ہیں ہم "
روما جو مووی دیکھنے میں غرق تھی اس کے اچانک آنے پر چڑ کر بولی 
باقی تینوں نے بھی اسے گھوری سے نوازا 
"ٹھیک ہے جا رہا ہوں میں بھی مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے تم سب کی بورنگ باتیں سنے کا "
اس نے وہی سے ناراض نظروں سے ان چاروں کو دیکھا جو پھر سے مووی دیکھنے میں مگن ہوں گئی تھی 
"ہاں جانے سے پہلے ایک بات پوچھنا تھی یہ کل تم چاروں کہاں گئی تھی گھر والوں سے چھپ کر "
عمار کی آخری بات پر سب نے حیرت سے عمار کو دیکھا جس کی آنکھوں میں کمنگی صاف دکھائی دے رہی تھی 
چاروں لڑکوں نے ایک دوسرے کو دیکھا 
"اتنا سوچنے کی ضرورت نہیں ہے جہاں بھی گئی ہوں میں جانتا ہوں بلکہ میں ہی کیا وہ باقی کے تینوں لڑکے بھی جانتے ہیں"
عمار نے اندار آ کر ٹی وی کا ریموٹ روما کے ہاتھ سے چھینا وہی صوفے پر پاؤں پھیلا کر بیٹھ گیا 
سب سے پہلے زرشالہ ہوش میں آئی
"کون کہاں گیا ہے جھوٹے مکار انسان اٹھو شرافت سے اور یہاں سے نکلتے بنو"
زرشالہ نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے ریموٹ واپس لیا اور ہاتھ کے اشارے سے اسے دروازے کی طرف اشارہ کیا 
"ولید کے پاس ثبوت موجود ہے جب تم چاروں تھیلے والے کے پاس گول گپے کھانے میں مصروف تھیں 
زرشالہ کے ہاتھ سے ریموٹ واپس لے کر اس نے مزے سے ان سب کے سر پر دھماکہ کیا 
"ہم کیسے مان لے تم سچ کہ رہے ہوں ویڈیو بنائی ہوتی تو ہم میں سے کسی ایک کو تو پتا چلتا نہ "
رانیہ نے اس کی بات کو رد کر کے کہا 
"ہاہاہا جب تم دنوں نے ولید شارق اور بہروز کی ویڈیو بنائی تھی تو انہیں پتا چلا تھا کیا"
عمار نے چالاکی سے ہنس کر انہیں مزید پریشان کیا 
"ٹھیک ہے مان لیا تم سب ملے ہوئے تھے اب تم اپنے آنے کا مقصد بتاؤ "
افشاں نے مزید کیسی بحث میں پڑنے کے بجائے ڈائرکٹ اس کا مقصد پوچا 
"آہا یہ ہوئی نا بات .... وہ کیا ہے ناں کل سنڈے ہے تو کل لنچ داجی کی طرف کرے گئے سب ہی ناں "
عمار نے باری باری سب کو دیک کر پوچھا
"ہاں تو "
رانیہ نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
"تو یہ کوئی بھی ایسی ویسی بات تم لوگ داجی کو سنڈے والے دن ہی بتاتی ہوں ناں "
عمار نے ہنس کر انہیں دیکھا
"دیکھو تم اپنے مطلب کی بات کروں تو زیادہ بہتر ہے"
زرشالہ نے باظاہر خود کو مضبوط بنا کر پوچا دل ہی دل میں وہ چاروں سہی معنوں میں ڈر گئی تھی کل وہ چاروں دوپہر کو کسی کو بھی بتائیں بنا چپکے سے باہر نکل گئی تھی زرشالہ اور رانیہ کا گول گپے کھانے کا دل تھا آج تو انہیں کل والی بات بھول بھی گئی تھی مگر بلا ہوں ان کے فتنہ کزن کا جنہوں نے ناجانے کہاں سے انہیں دیکھ لیا تھا "میں ان کے ساتھ داغا بازی کرنے کو تیار ہوں اگر تم لوگ میرے مطالبات مان لوں تو "
عمار نے معصومیت سے کہا
"بکو تمہارے کیا مطالبات ہے "
زرشالہ نے ہار مانتے ہوئے پوچھا
"یہ کی نا عقل مندوں والی بات .... بات یہ ہے کہ تم سب سب سے پہلے میرے کمرے کی صفائی کروں گئی الماری سیٹ کروں گی اور کمرے کو ایک دم پہلے والے حلیے میں لے کر آؤ گئی "
اس نے چاروں کو دیکھ کر کہا 
"واٹ پاگل واگل تو نہیں ہو تم ہم اور تمہارے کمرے کی صفائی"
روما نے نحوست سے ناک چڑا کر اس کی نقل اتاری 
عمار کا کمرا گھر میں موجود سب لڑکوں سے زیادہ گندہ ہوتا تھا اسے اس کی اصلی حالت میں واپس لینا ان کے بس سے باہر تھا 
"ٹھیک ہے پھر کل کی ڈانٹ کے لیے تیار ہو جاؤ"
عمار بھی مزید کچھ بھی کہے بنا اٹھ کر جانے لگے 
چاروں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں راضامندی دی کل کی ڈانٹ سے بہتر تھا وہ آج عمار کا گندہ غلیظ کمرا ہی صاف کر دے کمرے کا سوچ کر ہی چاروں کو قہ انے لگی 
"مگر ہماری بھی ایک شرط ہے اس کے بدلے تم نے ہمیں بھی کچھ لا کر دینا ہے "
روما نے کچھ سوچ کر اسے کہا 
"بدلے میں کچھ اور بھی مجھ سے چائیے تو ٹھیک ہے راکھوں میرے ہاتھ پر دو دو ہزار روپے "
عمار نے ہاتھ پھیلا کر ان کے سامنے کیا 
"زیادہ پھیلنے کی ضرورت نہیں ہے اتنا کر رہے ہیں اسے ہی غنیمت جانو"
زرشالہ نے ہری جھنڈی دکھائی 
"ٹھیک ہے پھر مجھ سے مزید اچھے کی امید مت رکھوں "
"ہم تمہیں پیسے دینے کو تیار ہے بدلے میں تمہیں بھی ہمارا کام کرنا ہو گا "
افشاں نے تینوں کو آنکھوں ہی آنکھوں میں تسلی دی 
اب کل لڑکیوں کے بجائے لڑکوں کی بینڈ بجنے والی تھی 
اب اپنی ہی مرغی بےوفا نکل آئے تو بندہ کیا کر سکتا ہے عمار نے بھی اپنے ساتھیوں کے پیٹ پیچھے وار کیا تھا اس کی اس داغا بازی سے بےحبر وہ تینوں ان کی کل ہونے والی ڈانٹ کو سوچ سوچ کر خوش ہو رہے تھے 
                      ..................
جاری ہے....

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─