┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 9

وہ ندی کا ایک کنارہ تھا جہاں وہ بیٹھی ہوٸ تھی۔۔ وہی دھند میں لپٹی خاموشی۔۔ وہ پراسرار سی جگہ۔۔ وہ جگہ طلسماتی تھی۔۔ وقت ساحر تھا۔۔۔ یا پھر۔۔ وہ خود ساحرہ تھی۔۔ کہ جب بھی ملتی تھی راز چھوڑ جاتی تھی اپنے پیچھے۔۔۔ 

تم۔۔ یہاں کیوں بیٹھی ہو؟؟ وہ اسکے پاس جانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔ 

اور کہاں جاٶں میں؟؟۔ اس نے الٹا سوال کیا تھا۔۔

یہاں تو کافی ٹھنڈ ہے۔۔ تم بیمار ہو جاٶ گی۔۔ وہ فکرمندی سے بولا تھا۔۔

یہ ٹھنڈ تو رگ و پے میں سراٸیت کر چکی ہے۔۔ اب تو کچھ محسوس ہی نہیں ہوتا۔۔نا ٹھنڈ اور نا درد۔۔ عادت سی ہو گٸ ہے۔۔ وہ بول رہی تھی۔۔

ایک بات پوچھوں تم سے؟؟ اب وہ پوچھ رہا تھا۔

ہمم۔۔ پوچھو۔۔ اس نے کہا۔

کون ہو تم؟؟ میں تمہیں جاننا چاہتا ہوں۔۔ آخر کیا رشتہ ہے تم سے میرا۔۔۔ کون ہو تم؟؟ پلیز بتادو مجھے۔۔

میں تمہارے بہت قریب ہوں۔۔ تم چاہو تو مجھے جان سکتے ہو۔۔ بس ہاتھ بڑھاٶ اور محسوس کر کے دیکھو۔۔۔ اگر کچھ محسوس ہوا تو سمجھ لینا میں تمہارا ہی ایک حصہ ہوں۔۔۔ ایک گمشدہ حصہ جسے اپنے وقت پر اپنے اصل سے آملنا ہے۔۔۔ وہ جواب دے رہی تھی۔۔ اتنی گہری باتیں۔۔ وہ بہت بڑے راز کی بات کہہ گٸ تھی۔۔ شاید وہ یہ سمجھنے میں صدیاں لگا دیتا۔۔۔

جھیل کا پانی بہت آہستگی سے بنا آواز کیۓ بہہ رہا تھا۔۔ اتنی گہری خاموشی اچانک چھا گٸ تھی۔۔ وہ اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھی تھی۔۔ اسکا چہرہ جھیل کی طرف تھا۔۔ پر کمال ہے وہ چہرہ آج بھی نہیں دیکھ پایا تھا۔۔

دیر مت کرو۔۔ اگر دیر کرو گے تو کھو دو گے مجھے۔۔۔ وہ کہہ رہی تھی اور نہ جانے کونسا عجیب سا ڈر تھا اسکے لہجے میں۔۔

اچانک اسکے ارد گرد دھواں اٹھنے لگا تھا۔۔ وہ اس دھوٸیں میں غاٸب ہونا شروع ہو چکی تھی۔۔ 

رکو۔۔ کہاں جا رہی ہو تم۔۔؟؟ اور اس نے واقعی ہی دیر کردی تھی۔۔ وہ اسے ختم ہوتی نظر آرہی تھی۔۔ پھر اچانک سب کچھ ختم ہوگیا۔۔ بس وہاں دھواں ہی دھواں تھا۔۔

نہیں۔۔ وہ ایک کرب سے چلایا تھا۔۔ اور پھر اپنی چینخ کے ساتھ ہی اسکی آنکھ کھل گٸ۔۔۔
فرہاد کا دل زور زور سے ڈھرک رہا تھا۔۔ 

یااللہ۔۔ یہ کیا ماجرہ ہے۔۔ یہ خواب تھا۔۔ اور آج پھر وہ آٸ تھی۔۔ فرہاد اٹھ بیٹھا تھا۔۔ وہ صوفے پر ہی سو گیا تھا۔۔ اس نے ٹائم دیکھا صبح کے تین بج رہے تھے۔۔ وہ صوفے سے اٹھا تھا۔۔ ساٸیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا پانی کا گلاس اٹھا کر پیا۔۔

پھر وہ کمرے میں ٹہلنے لگ گیا۔۔ آخر یہ سب کیا ہے۔۔ کون ہے وہ اور کیوں آتی ہے میرے خواب میں۔۔

اچانک اسکی نظر میز پر رکھی ہوٸ ڈائری پر پڑی تھی۔۔

میں تمہارے بہت قریب ہوں۔۔ تم چاہو تو مجھے جان سکتے ہو۔۔

فرہاد کے زہن میں اسکے الفاظ گونجے۔۔ اور پھر اس نے بنا کچھ سمجھے وہ ڈائری اٹھا لی۔۔ اب وہ اسے پڑھنے والا تھا۔۔

             ❤❤❤ 

وہ پانچوں اس وقت ہوسٹل میں موجود تھے۔۔ جمی کی حالت بہت خراب ہو چکی تھی۔۔ اسے کہیں بھی چوٹ نہیں لگی تھی۔۔ لیکن ڈر اور خوف نے اسکے ہواس گم کر دیۓ تھے۔۔

پلیز تم لوگ میرے پاس ہی رہو۔۔ مجھے چھوڑ کر مت جانا۔۔ ورنہ وہ رون پھر آجاۓ گا۔۔ وہ منمنایا تھا۔۔ اور اس نے ریم کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔۔

آج اسکے ساتھ جو پرانک رون نے کی تھی جمی اسے مرتے دم تک نہیں بھول سکتا تھا۔۔

ریلیکس۔۔ جمی ریلیکس ہو جاٶ۔۔وہ جسٹ ایک فن تھا۔۔ تم جانتے ہو رون ایسی شرارتیں کرتا رہتا ہے۔۔ اسکا مقصد کسی کو چوٹ پہنچانا ہرگز نہیں ہوتا۔۔۔ ریم نے اسے سمجھایا تھا۔۔

اور ویسے بھی ڈیرک تمہارے ساتھ ہی ہے۔۔ اور رون اب تمہیں تنگ نہیں کرے گا۔۔ اوکے؟؟ زی نے بھی اسکی ہمت بڑھاٸ تھی۔

اب ہمیں چلنا چاہیۓ کافی رات ہو چکی ہے۔۔ شالے نے کہا تھا۔۔

ہاں چلو۔۔ ہم تمہیں ڈراپ کردیں گے۔۔۔ زی نے جواب دیا۔۔

اور پھر زی شالے اور ریم ہوسٹل سے باہر آگۓ تھے۔۔ اب انہیں گھر پہنچنا تھا جلد از جلد۔۔ 

آنی آج پھر غصہ ہونگی۔۔ زی نے گاڑی میں بیٹھتے ہوۓ سوچا تھا۔۔ اب انہیں پہلے شالے کو گھر چھوڑنا تھا پھر وہ لوگ اپنے گھر جاتے۔۔ 

ریم پوری سنجیدگی کے ساتھ گاڑی چلا رہا تھا۔۔ وہ خود جلد سے جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا۔۔۔

        ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں ختم ہو رہی ہوں۔۔ میرے اندر سے سب کچھ ختم ہو رہا ہے۔۔۔ سب کچھ موم کی طرح پگھل رہا ہے۔۔ آہستہ آہستہ۔۔ لیکن پھر سوچتی ہوں کہ میرے اندر ہے ہی کیا؟؟

میرے اندر ایک دل ہے۔۔ وہ دل خد کا گھر ہوتا ہے۔۔ پھر کہاں گیا؟؟ کیا وہ میرے اندر ہی ہے۔۔

ہاں وہ میرے اندر ہی ہے۔۔ لیکن اس میں ایک گھر تھا۔۔ ایک چھوٹا سا گھر۔۔ وہ گھر جو اللہ پاک ایک انسان کیلیۓ مخصوص کر دیتا ہے۔۔
     کہاں گیا وہ گھر۔۔ وہ گھر تو ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔۔ جل چکا ہے۔۔ راکھ بجھی پڑی ہے۔۔ ارمان ختم ہو چکے ہیں۔۔ سب کچھ تو ختم ہو چکا ہے۔۔۔ 
           پھر درد کیوں ہوتا ہے۔۔۔؟؟
کیوں شدت سے منتظر ہوں میں کسی کی۔۔ آخر کیوں؟؟

میرے اندر میری روح بھی ہے جو تڑپ رہی ہے۔۔جو جسم کی سلاخوں میں قید ہے۔۔ اسے رہائی چاہیۓ۔۔

        روح تو کسی روح کیلیۓ ہی تڑپتی ہے نا۔۔۔کیا زمین پر کوٸ ایسی روح کوٸ ایسی زات بھی ہے جو میری روح کی بے چینی کو محسوس کر سکے۔۔؟؟

کہاں سے لاٶں ان سب سوالوں کے جواب؟؟ میرے رہنما تم کہاں ہو۔۔ میری مدد کرو اس سے پہلے کے میرے اندر سب کچھ جاننے کی حسرت بھی دم توڑ دے۔۔۔۔
            #حرم_نور

وہ ڈائری پڑھتا جا رہا تھا۔۔ الفاظ تھے کہ اسے کچھ اور سوچنے کا موقع نہیں دے رہے تھے۔۔ اور پھر اس نے پہلے صفحہ سے لے کر آخر والے صفحے تک وہ ڈائری پڑھ ڈالی۔۔۔ ایک لفظ بھی نہ چھوڑا تھا اس نے۔۔ ہوش اس وقت آیا جب فجر کی اذان شروع ہوٸ۔۔۔ 

اس نے ڈائری بند کر کے ایک ساٸڈ پر رکھ اور اذان کا جواب دینے لگا۔۔۔ 
    
 تو وہ تم ہو حرم نور۔۔ جس نے میرے اندر اتنی بے چینی بھر دی ہے کہ مجھے لگتا ہے میرے اندر میں نہیں کوٸ اور آبسا ہے۔۔ اب وہ سوچ رہا تھا۔۔

    ڈائری میں کہیں کسی لڑکے کا زکر نہیں تھا۔۔ کہیں کسی کی بے وفاٸ کا زکر نہیں تھا۔۔ 
                کہیں اس بات کا زکر نہیں تھا کہ اس نے محبت کی ہے۔۔ سب کچھ ہی تو لکھا تھا اس ڈائری میں۔۔ ایک ایک احساس کو لفظوں کا رنگ دے کر قید کیا گیا تھا۔۔ لیکن پھر بھی۔۔ کچھ بھی تو نہیں تھا ڈائری میں۔۔ جیسا وہ چاہ رہا تھا۔۔ سوچ رہا تھا۔۔ ویسا کچھ بھی نہیں تھا۔۔
 
            وہ لڑکی نہیں ایک بھید ہے۔۔ ایک راز ہے۔۔ وہ راز جسے اب اسے جاننا تھا۔۔

اذان کب کی ختم ہو چکی تھی۔۔ بہت سے لمحے صرف اسی کے بارے میں سوچتے ہوۓ گزر گۓ۔۔۔ پھر وہ اٹھا تھا اور نماز کیلیۓ قدم بڑھا دیۓ۔۔ بے شک اس ذات کے پاس ساری الجھنوں کے ساری سوالوں کے جواب ہیں۔۔

اور فرہادآغا کب ایسا تھا۔۔ کب وہ نماز پڑھنے جاتا تھا۔۔ کب اس نے کسی کیلیۓ کچھ مانگا تھا۔۔ سب کچھ تھا اسکے پاس۔۔ پھر اسکو ایسا بنا دیا گیا۔۔ کبھی کبھی ہمیں توڑ مروڑ کر ایک نۓ سانچے میں ڈالا جاتا ہے۔۔ کسی اور کے لیۓ بنایا جاتا ہے۔۔ اسے بھی بنادیا گیا تھا۔۔ لیکن پہلے توڑا گیا۔۔ پھر جوڑا گیا۔۔

   اس توڑ جوڑ کا بھی اپنا ہی ایک مزہ ہے۔۔ اور وہ رب توڑتا اسی کو ہے۔۔ جسے اپنے ہاتھوں سے سنوارنا ہو اس نے۔۔۔

             ❤❤❤

ثانی آپی مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔ حرم جیسے بہت جلدی میں تھی۔۔۔

کیا ہوا حرم سب ٹھیک ہے نا؟؟ ثانی آپی نے اسکی پریشانی بھانپ لی تھی۔۔ تبھی پوچھا تھا۔

نہیں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے آپی۔۔ حرم نے کہا۔۔
اور پھر ثانی آپی کے پوچھنے پر اس نے ہاسپٹل سے لے کر کل رات تک کا سارا واقع سنا دیا۔۔

صبح صبح کا وقت تھا۔۔ ثانی آپی کچن میں تھی۔۔ باقی سب سوۓ ہوۓ تھے۔۔ اور وہ نماز پڑھ کر کچن میں ہی آگٸ تھی۔۔ اسے لگ رہا تھا کہ اگر اب بات نا ہوٸ تو پھر سب اٹھ جاٸیں گے۔۔ اور اسے موقع نہیں ملے گا۔۔

تو اس میں اتنا پریشان ہونے والی کیا بات ہے۔۔ ثانی آپی نے اسکی پوری بات سننے کے بعد کہا۔۔

پریشانی والی با تو ہے ہی۔۔ اب میں کیسے اسے اسکی فاٸل واپس کرونگی۔۔ حرم روہانسی ہوٸ۔۔ وہ منہ پھلا کر ایک طرف رکھی چیٸر پر بیٹھ چکی تھی۔۔

ارے بابا پریشان کیوں ہوتی ہو۔۔ آج میں نے دوبارہ ہاسپٹل جانا ہے۔۔ چیک اپ کیلیۓ تو تم میرے ساتھ چلنا۔۔ ڈاکٹر سمیع نے آج کی ڈیٹ دی تھی اگین چیک اپ کیلیۓ۔۔ ثانی آپی نے پیار سے کہا۔

کیا واقعی؟؟ آپ سچ کہہ رہی ہیں۔۔ اللہ پاک شکر ہے آپکا۔۔ حرم خوش ہوٸ۔۔ 

ہاں اسے آج شام کا وقت بتادو۔۔ او ر کہنا کہ وہ ہاسپٹل میں ہی آجاۓ۔۔ جہاں فاٸلز بدلی گٸ تھیں۔۔ وہیں سے پھر بدل لینا۔۔ ثانی آپی نے اسے سمجھایا۔۔

ویسے سچویشن کافی فلمی سی نہیں ہوگٸ۔۔۔ ثانی آپی نے اسے چھیڑا۔۔

ہاہا۔۔ آپی آپ بھی نا۔۔ ہم اتنے پریشان ہیں۔۔ اور آپ اس بات کو فلمی سچویشن بنا رہی ہیں۔۔ حرم نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔

اوکے اب میں ڈاکٹر فرہاد علی آغا کو انفارم کردوں کہ میری فاٸل واپس کرنے وہ اسلام آباد سے لاہور واپس آجاۓ۔۔۔ حرم نے ایک ادا سے کہا تھا اور کچن سے باہر نکل گٸ۔۔ ثانی آپی اسکی باتوں پر ہنستی رہی۔۔

            ❤❤❤
جب وہ گھر واپس آیا تو سب ناشتے پر اسکا انتظار کر رہے تھے۔۔ فرہاد بیٹا۔۔ کہاں گم ہو تم؟؟ کوٸ پریشانی ہے کیا؟؟ زیبا بیگم نے پیار سے پوچھا تھا۔۔ وہ ماں تھی اور ماں اپنے بچوں ہی پریشانی نہیں سمجھے گی تو کون سمجھے گا۔۔

نہیں ایسی کوٸ بات نہیں ہے۔۔ بس تھوڑا تکھاوٹ ہوگٸ تھی۔۔ اس لیۓ۔۔ فرہاد نے جواب دیا۔

آہمم۔۔۔ حمزہ نے جان بوجھ کر فرہاد کی بات پر آہمم کیا اور چاۓ کا کپ اٹھا کر پینے لگ گیا۔۔۔۔ ایک شریر سی مسکراہٹ ابھی بھی اسکی آنکھوں میں چمک رہی تھی۔۔

فرہاد نے آنکھوں ہی آنکھوں میں حمزہ کو گھورا تھا۔۔ تبھی فرہاد کا موبائل واٸبریٹ ہوا۔۔

”آپکو آپکی فاٸل شام 5 بجے مل جاۓ گی۔۔ آپ پلیز ہاسپٹل ہی آجاٸیۓ گا۔۔ اور میری فاٸل یاد سے لے آیۓ گا۔۔۔ حرم نور۔۔۔“ 

میسج پڑھ کر فرہاد کے اعصاب ڈھیلے پڑھ گۓ۔۔ مسکراہٹ خود بخود اسکے لبوں پر بھکر گٸ تھی۔۔ اور وہ اپنی چیٸر سے اٹھا اوراپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔ 

ارے نواب صاحب ناشتہ تو کرلو؟؟ آغا جی بولے تھے۔۔

نہیں مجھے بھوک نہیں ہے۔۔ وہ مجھے ایک کام سے باہر جانا ہے۔۔ رات کو واپسی ہوگی۔۔ آپ لوگ پریشان مت ہوٸیۓ گا۔۔ فرہاد نے رکتے ہوۓ کہا۔۔ اور پھر دو دو سیڑھیاں پھلانگتا اوپر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔

کر کیا رہا ہے یہ لڑکا آج کل؟؟ زیبا بیگم نے تشویش سے کہا۔

ریلیکس ماما وہ ایک ڈاکٹر ہے کوۓ بچا تھوڑی ہے جو آپ پریشان ہو رہی ہیں۔۔ سو کام پڑتے ہیں انسان کو۔۔ آنا جانا پڑتا ہے۔۔ سجاد آغا نے جو کہ فرہاد آغا کا بڑا بھاٸ تھا مسکراتے ہوۓ کہا۔۔۔

فرہاد کے موبائل پر میسج کے آنے اور پھر اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ کے بکھرنے اور پھر اوپر اپنے کمرے تک جانے کے سین کو عالیہ اور نتاشہ بھابھی نے غور سے دیکھا تھا۔۔ فرہاد کے جانے کے بعد دونوں نے حمزہ کی طرف دیکھا۔۔ اشاروں اشاروں میں پوچھا کہ آخر چکر کیا ہے۔۔ فرہاد بھلا کب یوں مسکراتا تھا۔۔۔ لیکن حمزہ نے گڑبڑاتے ہوۓ کندھے اچکاۓ کے میں کچھ نہیں جانتا۔۔۔
ایسا ہو سکتا تھا بھلا کہ حمزہ کو فرہاد کی خبر نا ہو کہ وہ کیا کر رہا ہے۔۔ ناشتہ کرتے ہوۓ عالیہ نے سوچا۔۔ میں خو ہی پتا لگاتی ہوں۔۔

اور فرہاد جلدی جلدی تیار ہو رہا تھا۔۔ آخر کو اسے لاہور جانا تھا۔۔ مسکراہٹ ابھی بھی اسکے چہرے پر تھے۔۔ فاٸل واپس ملنے کی اتنی خوشی ہو رہی تھی اسے یا حرم کے ملنے کی۔۔ وہ خود نہیں جانتا تھا۔۔ اسے جلدی سے لاہور پہنچنا ہے بس وہ یہ جانتا تھا۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
         ❤❤❤


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─