┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 10

وہ پوری توجہ سے گاڑی چلا رہا تھا جب اچانک اسکے موبائل پر بیل ہوٸ۔۔ فرہاد نے موبائل اٹھایا۔۔ ڈاکٹر منیشا از کالنگ دیکھ کر اسکے چہرے پر ناگواریت پھیل گٸ۔۔۔ بیل بار بار ہو رہی تھی۔۔ نا چاہتے ہوۓ بھی اسے کال ریسیو کرنی پڑی۔۔

ہیلو۔۔ ڈاکٹر فرہاد۔۔۔؟؟ اسے منیشا کی بےچین سی آواز سنائی دی۔۔

جی۔۔ بول رہا ہوں۔۔ سخت سے لہجے میں جواب دیا گیا۔۔

کہاں ہیں آپ۔۔؟؟ ہاسپٹل نہیں آۓ؟؟ ڈاکٹر جواد بتا رہا تھا کہ آج آپ آف پر ہیں۔۔

(ڈاکٹر منیشا اور ڈاکٹر جواد,فرہاد کے کولیگز تھے)

کیا بات ہے۔۔ خیریت تو ہے نا؟؟ آپ نے تو کبھی ہاسپٹل سے آف نہیں کیا۔۔ پھر آج کیسے۔۔؟؟ وہ فرہاد کی بات سنے بنا ہی بولے جا رہی تھی۔۔

جی سب خیریت ہے۔۔ ایکچوٸیلی مجھے ایک ضروری کام سے لاہور جانا پڑا ہے۔۔ اب وہیں جارہا ہوں۔۔ اس وقت گاڑی ڈرائيو کر رہا ہوں۔۔ بعد میں بات کروں گا۔۔۔ انداز بالکل ہی نظر انداز کرنے والا تھا۔۔۔

سنیں تو۔۔ اتنی بھی جلدی کیا ہے۔۔ میری تو صبح بھی آپکو دیکھ کر ہی ہوتی ہے اور ایک آپ ہیں کی اتنی بےرخی۔۔۔ مانا بے رخی جچتی ہے آپ پر۔۔ مگر۔۔ میرے دل کا بھی خیال کریں جناب بہت نازک سا ہے۔۔ 

اور ڈاکٹر فرہاد آغا بھلا اتنا کب سن سکتا تھا اسکی برداشت کی حد ختم ہوگٸ۔۔

لسن مس منیشا۔۔مجھے آپ یا آپکے دل میں کوٸ انٹرسٹ نہیں ہے۔۔ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ ڈرائيو کر رہا ہوں میں۔۔ سو پلیز آپ مجھے اگین ڈسٹرب مت کیجیۓ گا۔۔۔ بےرخی کی ساری حدیں پار کرتے ہوۓ اس نے کال ڈراپ کی اور اسکے ساتھ ہی موبائل آف کر کے ایک ساٸیڈ پر رکھ دیا۔۔

ڈاکٹر منیشا پہلے دن سے ہی فرہاد کی شخصيت۔۔۔اسکے رکھ رکھاٶ والے انداز۔۔اور لڑکیوں کو فل اگنور کرنے والے رویے پر مر مٹی تھی۔۔۔ یہ تو فرہاد ہی جانتا تھا کہ وہ اسے کیسے برداشت کرتا تھا۔۔

اچانک اسکی نظر سامنے ڈش بورڈ پر رکھی بلیو فاٸل پر پڑی۔۔اس فاٸل کے اندر موجود ڈائری اور اس میں جو کچھ لکھا تھا وہ فرہاد کے ماٸنڈ میں گھوم رہاتھا۔۔ وہ اس ڈائری کو واپس کرنے جا رہا تھا۔۔ ایک ہی رات میں وہ کتنی اپنی اپنی سی لگنے لگی تھی۔۔ لیکن مجبوری تھی واپس کرنا تھی اسے۔۔ آخر کو کسی اور کی امانت تھی۔۔

             ❤❤❤❤

دھڑام سے گیٹ کھلا اور اس میں سے حرم جلدی میں گھر کے اندر آٸ۔۔ برآمدے کی گرل کھول کر اندر چلی گٸ۔۔ صابرہ خاتون (حرم کی امی) جو کہ صحن میں بیٹھی سبزی بنا رہی تھی حرم کی اس حرکت پر تو حیران رہ گٸ کہ یہ کیسے اور کہاں سے آٸ ہے؟؟ 

حرم۔۔ باقی سب کہاں ہیں۔۔ اور تم کس کے ساتھ آٸ ہو۔۔ وہ پوچھ رہی تھی۔۔

کچھ لمحے بعد حرم فاٸل کے ساتھ کمرے سے برآمد ہوٸ۔۔

امی میں ہاسپٹل جا رہی ہوں ثانی آپی کے ساتھ۔۔ وہ باہر گاڑی میں بیٹھی ہیں۔۔ شام کو سب ادھر ہی آٸیں گے۔۔ میں آپکو آ کر بتاتی ہو سب۔۔ اور کھانا بنا کر رکھیۓ گا۔۔۔ ثانی آپی آج ہمارے پاس ہی رکیں گی۔۔ وہ کہتی ہوٸ جس رفتار سے آٸ تھی اسی رفتار سے گیٹ کھول کر یہ جا وہ جا ہوگٸ۔۔۔ جبکہ صابرہ خاتون دیکھتے ہی رہ گٸ۔۔ عجیب آندھی کی رفتار والی لڑکی ہے کچھ سنتی ہی نہیں۔۔ وہ بڑبڑا رہی تھیں۔۔ 

        ❤❤❤❤

وہ پچھلے ایک گھنٹے سے ہاسپٹل کے پیچھے والے لان میں بیٹھا اسکا انتظار کر رہا تھا۔۔موسم آج بھی ابر الود تھا۔۔ جنوری کا مہینہ تھا۔۔ سردی کی شدت میں بھی اضافہ ہی ہو رہا تھا۔۔ برسات کی جھڑی لگی ہوٸ تھی۔۔ بادلوں کا جب دل چاہتا تھا برسنا شروع کر دیتے تھے۔۔۔

لاہور تو وہ دوپہر کو ہی پہنچ گیا تھا۔۔ پھر ساری بات ڈاکٹر سمیع کو بتانی پڑی جو اسے یوں لاہور میں اچانک دیکھ کر حیران ہوۓ تھے۔۔

جب سے اسے پتا چلا تھا کہ حرم ہاسپٹل کیلیۓ نکل چکی ہے تب سے وہ اسی لان میں بیٹھا تھا۔۔ گول میز کے گرد دو کرسیاں رکھی تھیں۔۔ شام ہو چکی تھی۔۔ پھر وہی وقت ہو چکا تھا جس وقت وہ پہلی بار ملے تھے۔۔

 لگتا ہے بارش ہوگی آج پھر۔۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اچانک لاٸیٹ چلی گٸ۔۔۔ اوہوووو۔۔ یہ لاٸیٹ لاہور والوں کو کتنا تنگ کرتی ہے نا۔۔۔ خیر مجھے کیا وہ بڑبڑایا۔۔۔ اس نے چیٸر سے ٹیک لگا لی اور آنکهيں بند کرلیں۔۔ اتنا لمبا سفر تھا کہ وہ تھک چکا تھا۔۔ 

ابھی تھوڑی دیر گزری تھی کہ ایک مخصوص جانی پہچانی سی خوشبو ہوا کے ایک جھونکے کے ساتھ اسکے نتھنوں سے ٹکراٸ۔۔ چنبیلی کی خوشبو۔۔ یہ تو وہی خوشبو ہے جو ڈائری میں سے بھی آتی ہے۔۔ فرہاد نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔۔

اور وہ سامنے کھڑی تھی۔۔ شیشے کی دیوار والے کمرے کے دروازے میں جس کے پار ڈاکٹر سمیع کا آفس تھا۔۔

وہ ویسی ہی تھی۔۔ شال میں لپٹی ہوٸ۔۔ وہی اندھیرا۔۔۔ وہی خاموشی۔۔۔ وہی پراسراریت۔۔۔

فرہاد ایک دم کھڑا ہوگیا۔۔ دل تھا کہ اپنی رفتار سے بھی تیز دھڑکنا شروع کر دیا تھا۔۔

اسلام علیکم۔۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوۓ قریب آٸ۔۔ یہ آپکی فاٸل۔۔ سلام کرنے کے بعد اس نے فاٸل میز پر رکھ دی۔۔۔

اتنی دھیمی آواز۔۔ فرہاد کو لگا اسکی سماعت میں کوٸ مسٸلہ ہوگیا ہے شاید۔۔ جو اتنا دھیما سنائی دیا۔۔۔

وعلیکم اسلام۔۔ فرہاد نے شاٸستگی سے جواب دیا۔۔

اب مجھے میری فاٸل واپس کردیں۔۔ وہ بول رہی تھی۔۔ نظریں ایک بار بھی فرہاد کی طرف نہیں اٹھی۔۔ ورنہ فرہاد آغا کو یوں اگنور کرنا۔۔ یہ نظریں ایک مرتبہ اسکی طرف اٹھنے کے بعد۔۔ اسکے چہرے سے ہٹانا صنف نازک کے لیۓ خاصہ مشکل کام تھا۔۔

فرہاد نے میز سے فاٸل اٹھانے کے بعد اسکے سامنے کی۔۔ جسے حرم بے پکڑنے کے بعد کھول کر چیک کیا کہ آیا اندر ڈائری ہے بھی یا نہیں۔۔

 حرم کی اس حرکت پر ایک دھیمی سی مسکراہٹ فرہاد کے لبوں کو چھو گٸ۔۔۔۔

آپکی ڈائری سیف ہے۔۔ فرہاد نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔

اوکے۔۔ شکریہ۔۔ حرم نے جواب دیا اور واپسی کے لیۓ مڑی۔۔

ایک منٹ۔۔ آپ بیٹھ جاٸیں پلیز۔۔ فرہاد کواسکے اتنا جلدی جانے کی توقع نہیں تھی۔۔

وہ رکی۔۔ پلٹ کر فرہاد کو الجھی نظروں سے دیکھا۔۔

کیا ہم کچھ دیر بات کر سکتے ہیں۔۔ فرہاد آغا نے درخواست کی تھی۔۔ کسی لڑکی سے بات کرنے کی۔۔ یقین ہی نہیں ہو رہا تھا۔۔

نہیں۔۔ سوری۔۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔

کیوں۔۔ 

کیوں کہ اندھیرا بڑھ رہا ہے۔۔

فرہاد کے چہرے پر الجھن پھیلی۔۔ اندھیرے کا اس بات اے کیا تعلق۔۔؟؟

تعلق ہے۔۔ حرم نے کہا۔

وہ کیسے۔۔؟؟ پوچھا گیا۔۔

کیا آپ نہیں جانتے کہ اندھیرا کا تعلق گناہوں سے ہے۔۔ اندھیرا گناہوں کی طرف لے کر جاتا ہے۔۔۔ کس موقع پر وہ کیا بات کہہ گٸ تھی۔۔

فرہاد کا منہ حیرت سے کھل گیا۔۔ اسے اس جواب کی امید نہیں تھی۔۔ وہ کچھ بول ہی نا سکا اور حرم آگے بڑھ گٸ۔۔

اچھا سنیں۔۔ وہ ایک بار پھر بولا۔

حرم رکی۔۔ لیکن پلٹ کر نہیں دیکھا۔۔۔

آپکی پوٸٹری کافی اچھی ہے۔۔ وہ خبر دے رہا تھا کہ وہ ڈائری پڑھ چکا ہے۔۔ 

حرم کا نازک سا دل کانپا۔۔ مگر وہ کچھ کہے بنا ہی اندر کی طرف بڑھ گٸ۔۔۔

بارش شروع ہوچکی تھی۔۔ ایک بار پھر وہ اسی ہاسپٹل کے لان میں اکیلا رہ گیا تھا۔۔مگر اس بار وہ فرہاد کی نہیں بلکہ اپنی فاٸل لے کر گٸ تھی۔۔ پھر وہ کیوں اتنا خالی خالی محسوس کر رہا تھا۔۔ جیسے کوٸ قیمتی چیز چلی گٸ ہو۔۔

بارش ایک بار پھر متواتر سے ہو رہی تھی۔۔ ان بارشوں کا بھی محبتوں سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔۔ ہوائیں جو دم سادھے ان دونوں کو دیکھ رہی تھیں۔۔ حرم کے جانے کے بعد پھر سے جھومنے لگ گٸ تھیں۔۔

دور کہیں بے چینی کی ب کا نگاڑہ بجا۔۔۔ یعنی بے چینی کی شروعات ہو چکی تھی۔۔ 
وقت حرم کے کہے گۓ لفظوں پر اتراہٹ سے مسکرایا۔۔۔ اور تقدیر نے وقت کے کچھ پنے آگے کی طرف پلٹ دیۓ۔۔۔

         💕💕💕💕

یہ جب بھی ہم ہاسپٹل آتے ہیں بارش شروع ہو جاتی ہے۔۔جب وہ لوگ ہاسپٹل سے باہر سے باہر
 نکل رہے تھے تب حرم نے کہا۔۔

موسم ہی آج کل بارشوں والا ہے۔۔ ثانی آپی نے جواب دیا۔۔ 

اب وہ لوگ گاڑی میں بیٹھ چکی تھیں۔۔ ڈرائيور انکل ہمارے گھر چلیں۔۔ تایا ابو کے گھر نہیں جانا۔۔ حرم نے ہنستے ہوۓ کہا۔۔

ٹھیک ہے بیٹا۔۔ ڈرائيور نے کہا اور گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی۔۔ 

حرم۔۔ لیکن۔۔ 

ارے خاموش۔۔ آپ کچھ نہیں بولیں گی۔ ۔۔ میں نے امی کو بتا دیا تھا کہ سب شام کو ادھر ہی آٸیں گے۔۔ اب آرام سے چلیں۔۔ پچھلی بار بھی آپ دروازے سے ہی واپس چلی گٸ تھیں۔۔ حرم نے منہ پھلاتے ہوۓ کہا اور چہرہ باہر کی طرف موڑ لیا۔۔۔ 

ہاہا۔۔ ثانی آپی کو اسکے یوں بولنے پر ہنسی آگٸ تھی۔۔ اچھا ناراض مت ہو نا۔۔ پتا ہے جب یوں منہ پھلاتی ہو نا تم تو بہت پیاری لگتی ہو۔۔۔ 

اور حرم بھی ہنس دی۔۔ وہ مزید ناراض نہیں رہ سکتی تھی۔۔ 

ویسے ڈاکٹر فرہاد کافی اچھے انسان ہیں۔۔ ہے نا؟؟ ثانی آپی نے تصدیق چاہی۔۔ 

ہاں جی۔۔ مجھے تو کچھ ایکسٹرا ہی ہینڈسم نظر آتے ہیں۔۔ حرم نے کہا۔۔
ویسے مردوں کو اتنا وجیہہ نہیں ہونا چاہیۓ۔۔ 

کیوں؟؟ کیوں وجیہہ نہیں ہونا چاہیۓ۔۔ مردوں کا کیا حق نہیں ہوتا خوبصورتی پر۔۔ ثانی آپی نے پوچھا۔۔ 

ہونا چاہیۓ۔۔ مگر اتنا پرسینیلٹڈ نہیں ہونا چاہیۓ کہ میرے جیسی عام سی لڑکی انکے سامنے کچھ بول ہی نا سکے۔۔۔ حرم نے صاف گوٸ کا مظاہرہ کیا۔۔ 

ہاہا۔۔ کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو۔۔ وہ ماشااللہ واقع بہت وجیہہ ہیں۔۔ لیکن تم نے آخر والی بات غلط کہہ دی۔۔ حرم نور بھلا عام سی ہو سکتی ہے کیا۔۔۔ ؟؟ میری حرم سب سے خاص ہے۔۔ ثانی آپی نے بڑے پیار سے کہا تھا۔۔

اور ثانی آپی کے اس پیار حرم کچھ بول ہی نا سکی۔۔ وہ باہر تیزی سے گزتے ہوۓ نظاروں میں گم ہو گٸ۔۔ لیکن اسکا ماٸنڈ کہیں الجھا رہا۔۔

اگر خاص ہوتی۔۔ تو نادر جیسے شخص کے ساتھ نہیں جوڑا جاتا مجھے۔۔ مسکراہٹ غائب ہو گٸ۔۔ پھر دل تھا کہ ڈوب کر ابھرا تھا۔۔۔
اس نے زہن کو جھٹکا کہ مجھے یہ سب نہیں سوچنا چاہیۓ۔۔ اور پھر کچھ اور سوچنے لے گٸ۔۔ 

آپ کی پوٸٹری کافی اچھی ہے۔۔ 
ایک آواز گونجی۔۔ اور اسکا سارا دھیان ڈائری کی طرف مبزول ہوگیا۔۔

ہاۓ اللہ وہ شخص میری ڈائری پڑھ چکا ہے۔۔ کیا سوچتا ہوگا وہ میرے بارے میں۔۔ ہنستا ہوگا۔۔ ح صحیح کہتے ہیں لوگ کہ انسان کو ڈائری نہیں لکھنی چاہیۓ۔۔ بس۔۔ آج کے بعد میں بھی کوٸ ڈائری نہیں لکھوں گی بالکل بھی نہیں۔ یہ آخری ہے۔۔ 

پتا نہیں کیا بات کرنا چاہتا تھا وہ۔۔ مجھے اسکی بات سن لینی چاہیۓ تھی۔۔ حرم کے دل کی دھڑکن تیز ہوٸ۔۔ 
اچھا کیا نہیں سنی۔۔ ثانی آپی کیا سوچتی میرے بارے میں۔۔ 
اس نے ایک منٹ میں اپنے دل کی سن کر ان سنی کردی۔۔ 

اب اس نے گاڑی کی سیٹ سے ٹیک لگا لی۔۔ ثانی آپی کچھ بول رہی تھیں۔۔ اور وہ ہوں ہاں میں جواب دے رہی تھی۔۔

یہ بارشیں بھی نا کتنے دکھ تازہ کر دیتی ہیں۔۔ 

          ❤❤❤❤

فرہاد نے انہیں گیٹ سے نکلتے ہوۓ دیکھا تھا۔۔ایک گہری سانس لی اور پھر وہ واپس ڈاکٹر سمیع کے کمرے میں آگیا۔۔

مجھے بھی اب جانا چاہیۓ۔۔ اس نے ڈاکٹر سمیع سے کہا۔۔

ارے اس وقت۔۔ رہنے دو صبح چلے جانا۔۔ ڈاکٹر سمیع نے موسم اور وقت کو دیکھ کر کہا۔۔

نہیں بھاٸ جانا بہت ضروری ہے۔۔ مجھے صبح ہاسپٹل بھی جانا ہے۔۔ آپ فکر نا کریں میں آرام سے چلا جاٶں گا۔۔ فرہاد نے جواب دیا۔۔

ڈاکٹر سمیع نے نوٹ کیا تھا کہ فرہاد کا چہرہ بجھ چکا تھا۔۔ کچھ دیر پہلے والا فرہاد جو تین سالوں بعد نظر آیا تھا۔۔ پھر کہیں گم ہوگیا۔۔

کیا ہوا ہے تم اداس کیوں ہو؟؟ ڈاکٹر سمیع اسکے ہر رنگ کو جانتا تھا۔۔ وہ اداس تھا یہ وہ جان چکا تھا۔۔

نن۔ نہیں۔۔ ایسی کوٸ بات نہیں ہے۔۔ فرہاد اپنی چوری پکڑے جانے پر گڑبڑا گیا۔۔

فرہاد۔۔ میں تمہیں اچھے سے جانتا ہوں۔۔ کچھ دیر پہلے تمہارے چہرے پر عجیب سے بہت خوبصورت سے رنگ تھے۔۔ مگر اب وہ غائب ہو چکے ہیں۔۔ آخر وجہ کیا ہے؟؟

کوٸ وجہ نہیں ہے بھاٸ۔۔ آپکو وہم ہو رہا ہے۔۔ فرہاد نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔

چلو۔۔ ابھی تم بتانا نہیں چاہ رہے۔۔ تمہاری مرضی۔۔ لیکن جب دل کرے تو مجھے لازمی بتا دینا۔۔ ڈاکٹر سمیع نے کہا۔۔

جی ضرور۔۔ فرہاد نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔

اور وہ کب جابتا تھا کہ جس بے چینی کی ب کا نگاڑہ بج چکا ہے۔۔ وہ کچھ دیر تک ب سے بڑھ کر بے ہونے والی ہے۔۔ 

اور بے چینیاں کہاں سکون لینے دیتی ہیں۔۔۔

         ❤❤❤❤

جب وہ لوگ گھر پہنچے تو کافی گہما گہمی لگی ہوٸ تھی۔۔ لگتا ہے سب آگۓ ہیں۔۔ حرم نے اندر سے آتی آوازوں کو سنتے ہوۓ کہا۔۔

وہ مسکراتے ہوۓ اندر داخل ہوۓ۔۔ واقعی سب آچکے تھے۔۔ ثانی آپی کی بیٹی گڑیا بھی انکی ساتھ تھی۔۔ شزا ثنا خورعین اور امی لوگ سب لاٶنج نما برآمدے میں بیٹھے تھے۔۔ اتنی رونق دیکھ کر حرم کو بہت خوشی ہو رہی تھی۔۔ 

ثانی آپی سب سے مل رہی تھی۔۔ اور یہ کیا۔۔۔ ؟ حرم کے ہونٹوں کی مسکراہٹ اچانک غائب ہوگٸ۔۔ سامنے کمرے میں نادر بیٹھا تھا نبیل اور زین کے ساتھ۔۔

 اسکا آنا لازمی تھا کیا۔۔ ناجانے کیوں اسکا نام بھی سنتی تھی تو یوں لگتا تھا جیسے گرم پگھلا ہوا سیسہ کانوں میں انڈھیل دیا ہے۔۔ 

اور نادر کی نظریں حرم پر جمی تھی۔۔ مجال ہے جو حرم نے سلام کیا ہو۔۔ 

اسلام علیکم۔۔ بالآخر وہ خود ہی بول پڑا۔۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ حرم تو اسے بلانے والی نہیں ہے۔۔

وعلیکم اسلام۔۔ مجھے کام ہے۔۔ میں آتی ہوں۔۔ وہ کہتے ہوۓ باہر نکل گٸ۔۔۔

حرم چاہے بنا لو۔۔۔ صابرہ خاتون نے اسے کچن کی طرف جاتے دیکھ کر کہا تھا۔۔ 

جی۔۔ وہی بنانے جا رہی ہوں۔۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔

اور کچن میں آنے کے بعد آنسوں اسکی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرنے لگے تھے۔۔ یااللہ پاک اس شخص کو میری زندگی کا حصہ مت بناٸیے گا۔۔ میں جیتے جی مر جاٶں گی۔۔ وہ دعا مانگ رہی تھی۔۔ اور ساتھ ساتھ چاہے اور دیگر لوازمات کی تیاری شروع کردی تھی۔۔ اسے پتا تھا کچھ دیر بعد ثناء اسکی مدر کرنے آجاۓ گی۔۔ اور پھر شزا بھی۔۔ البتہ حورعین تو بلانے سے بھی نا آتی۔۔

کچھ دیر بعد اسے کچن میں آہٹ سی محسوس ہوٸ مگر اس نے مڑ کر نہیں دیکھا۔۔ شکر ہے ثنا تم آگٸ ہو۔۔ آٶ یہ شامی کباب فراٸ کردو۔۔ وہ بول رہی تھی۔۔ مگر کوٸ جواب نہیں آیا۔۔

اچانک اسے کچھ غیر معمولی سا محسوس ہوا۔۔ حرم نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔ اور اسکے رنگ اڑ گۓ۔۔ کچن کے دروازے میں نادر کھڑا تھا۔۔ اور اب وہ کچن کا دروازے بند کر کے اندر کی طرف آرہا تھا۔۔ چہرے پر شیطانی مکروہ مسکراہٹ پھیلی تھی۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

           ❤❤❤❤