┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 7

جب وہ لوگ اٸیر پورٹ پہنچے تو فلاٸیٹ کے ٹیک آف کرنے میں پندرہ منٹ باقی تھے۔وہ تینوں گاڑی سے باہر نکل چکے تھے۔

بھاٸ اسلام آباد کا جلدی چکر لگا لیا کریں۔۔ دادو آپکو بہت یاد کرتی ہے۔۔ حمزہ نے ڈاکٹر سمیع سے گلے ملتے ہوۓ کہا۔
جانتا ہوں یار۔۔بس مصروفيات ہی کچھ زیادہ ہو گٸیں ہیں۔وقت ہی نہیں ملتا۔۔ تم دادو کا خیال رکھا کرو۔۔ مجھے جب موقع اور وقت ملا میں چکر لگاتا رہوں گا۔ڈاکٹر سمیع نے پیار سے اپنے بھاٸ کو سمجھایا۔

سمیع بھاٸ آپ چھوڑیں اسکو۔ایک ڈاکٹر کتنا مصروف ہوتا ہے یہ مجھ سے بہتر کو جان سکتا ہے۔ فرہاد نے حمزہ کو ڈاکٹر سمیع سے الگ کرتے ہوۓ کہا اور خود گلے لگ گیا۔بلاشبہ وہ فرہاد کا بہت اچھا دوست تھا۔

جاٶ اب تم لوگ فلاٸیٹ کا ٹائم ہو چکا ہے۔۔ڈاکٹر سمیع نے مسکراتے ہوۓ کہا۔
چلیں۔۔فرہاد نے حمزہ سے پوچھا۔
جی۔۔چلیں۔۔وہ آگے بڑھ گیا۔
فرہاد بھی اسکے پیچھے چلنے لگ گیا۔
ایک منٹ۔۔اچانک حمزہ نے رکتے ہوۓ کہا۔
اب کیا ہوا؟ فرہاد نے پوچھا۔
آج ٣١ دسمبر ہے۔۔مطلب آج سال کا آخری دن ہے۔۔ Happy new year تو بنتا ہے۔

happy new year in advance sami bhai...
حمزہ نے وہیں سے اونچی آواز میں ڈاکٹر سمیع سے کہا جو گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھنے کا سوچ رہا تھا۔
same to you..
ڈاکٹر سمیع نے بھی وہیں سے جواب دیا۔
Happy new year in advance beautiful Lahore .. and good bye.
حمزہ نے پوری قوت سے چلا کر کہا۔آس پاس سے گزرتے لوگ متوجہ ہوچکے تھے اسکی طرف۔کچھ سر جھکاۓ گزر گۓ جبکہ کچھ نے خوبصورت سے سماٸل پاس کی اسکی طرف۔۔ زندگی اسکے روم روم سے دھوڑتی تھی۔وہ ایک زندہ دل انسان تھا۔۔

یہ کیا پاگل پن ہے حمزہ۔۔فرہاد نے برا منہ بناتے ہوۓ پوچھا۔
آپ بھی لاہور کو ہیپی نیو اٸیر بولیں۔حمزہ نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا۔

واٹ؟؟ تمھارا دماغ تو ٹھیک ہے نا؟؟ میں ایسی پاگلوں والی حرکتیں نہیں کرتا۔خوبصورت چہرے پر غصے کی لالی پھیل گٸ۔۔ اور تم تو ایسے باۓ بول رہے ہو لاہور کو جیسے تمھاری رخصتی ہو رہی ہے۔۔مغرور شہزادہ کچھ اور مغرور ہوا۔

میرا دل کرتا ہے میری دلہن بھی لاہور کی ہو۔۔ مگر وہ میرے ساتھ اسلام آباد چلے۔۔

اس جنم میں تو تمھارا یہ خواب پورا نہیں ہونے والا۔۔ اور اسلام آباد کی لڑکیاں مر چکی ہیں کیا۔۔ جو تمھارے دماغ میں یہ خیال آیا؟ وہ پوچھ رہا تھا۔
مجھے نہیں پتا جب تک آپ بولیں گے نہیں میں یہاں سے ہلوں گا نہیں۔۔ حمزہ بضد ہوا۔
فرہاد جانتا تھا کہ وہ جو کہ رہا ہے وہی کرے گا چنانچہ نا چاہتے ہوۓ بھی اب اسے اسکی بات ماننی تھی۔
اوکے ریلیکس۔۔ فرہاد نے گہری سانس لے کر خود کو نارمل کیا۔
Happy new year to you lahore and good bye.
وہ ایک سانس میں کہہ گیا۔
یسسسس۔۔ یہ ہوٸ نا بات۔۔ حمزہ خوش ہوا۔

اب چلیں۔۔ فرہاد نے پوچھا۔۔ عجیب پاگل پن لگ رہا تھا اسے یہ سب حالانکہ تین سال پہلے تک وہ خود یہ سب کرتا تھا۔ وقت وقت کی بات ہے۔۔وہ سر جھٹک کر آگے بڑھ گیا۔۔

اور وقت کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گٸ۔۔۔دسمبر کا مہینہ ہونے کی وجہ سے دھند شام سے پہلے ہی پڑنا شروع ہو چکی تھی۔۔۔ 
تمہیں لوٹ کر آنا ہے۔۔ہواٶں نے سرگوشی کی۔۔ 
ششش۔۔ وقت نے ہواٶں کو چپ رہنے کا اشارہ کیا۔
بےشک اسکا گہرا تعلق جڑنے والا تھا لاہور سے۔۔یہ وہ بھی نہیں جانتا تھا۔
یہ تو وقت ہی جانتا تھا۔۔ اور ہواٶں نے یہ وقت پر چھوڑ دیا تھا۔۔۔ 
              🌸🌸🌸

تایا ابو کے گھر کافی گہمہ گہمی تھی۔۔ پورا لاٶنج پھولوں اور روشنیوں سے سجایا گیا تھا۔اور یہ تیاری اسد نے کی تھی۔۔

[اسد ثانی آپی کا چھوٹا بھاٸ تھا۔۔وہ شہرین سے دوسال بڑا جبکہ نادر سے دو سال چھوٹا تھا۔ ثانی آپی, نادر, اسد اور شہرین چاروں تایا ابو کے بچے تھے]

حورعین اور شزا نے اسد کی پوری مدد کی تھی اس سجاوٹ میں جبکہ شہرین نے بھی تھوڑا بہت ہاتھ بٹا دیا تھا۔۔ 
حرم اور ثناء دونوں شام کو آٸیں تھیں۔
حرم کافی پرسکون تھی کیونکہ نادر ہمیشہ کی طرح اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ آوارگی کرنے کیلیۓ نکلا ہوا تھا اور واپسی اگل صبح تک ہونی تھی اسکی۔ اور حرم کےلیۓ یہ بات کسی نعمت سے کم نہیں تھی کہ اسے اس شخص کا سامنا نہیں کرنا پڑھ رہا تھا۔۔ یہی بات اسکے لبوں پر مسکراہٹ بکھیرے ہوۓ تھی۔۔
وہ سب لاٶنج میں بیٹھی تھیں ثانی آپی کے پاس جبکہ شہرین اپنی دوستوں کے ساتھ مصروف تھی۔۔تیار تو وہ ایسے ہوٸ تھی جیسے گڑیا کا برتھ ڈے نہیں بلکہ اسکا اپنا ریسیپشن کا فنکشن ہو۔۔

اسد بھی تیار ہو کر لاٶنج میں آیا تھا۔اسکی نظریں سامنے بیٹھی حورعین پر گٸ۔ سب وہاں ہی تھے۔۔ حرم کہاں تھی؟ وہ اسے نظر نہیں آٸ۔۔

حورعین پہلے ہی اسے دیکھ رہی تھی نظریں ملنے پر گبھرا کر نگاہیں پھیر گٸ۔۔

 اسد اسکی یہ چوری پکڑ چکا تھا اور اسکے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گٸ جبکہ دوپہر والا واقع پوری آب وتاب سے اسکے زہن کے دریچے میں رونما ہو چکا تھا۔
وہ شرارتی مسکراہٹ لبوں پر سجاۓ انکی طرف بڑھ گیا۔

کیا بات ہے بھٸ۔۔ سارے خوبصورت لوگ تو یہاں بیٹھے ہیں۔۔میں بھی کہوں اتنا نور کیوں برس رہا ہے آج؟ اسکا انداز شرارت لیۓ ہوۓ تھا جبکہ حورعین میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ نظر اٹھا کر دیکھ لے اسکو۔

شزا اور حورعین دونوں ایک صوفے پر بیٹھی تھیں اور دونوں نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہیں تھیں۔
حرم کہاں ہے نظر نہیں آرہی۔۔ بلآخر اس نے پوچھ ہی لیا۔
وہ نماز پڑھنے گٸ ہے۔۔ شزا نے جواب دیا۔

کمال ہے لڑکيوں نے سارا سارا دن لگا دیا تیار ہونے میں۔۔۔اسکا اشارہ شہرین کی طرف تھا۔ اور حرم جناب نماز پڑھنے گٸ ہے۔وضو کرکے اب چار گھنٹے لگاۓ گی وہ بھی تیار ہونے میں جبکہ پاپا آنے والے ہیں۔۔ دس منٹس بعد وہ پہنچ جاٸیں گے۔ اسد نے سر پکڑتے ہوۓ کہا۔

زیادہ ڈرامے مت کرو۔۔ حرم تیار ہونے میں زیادہ وقت نہیں لیتی۔۔ وہ دوسری لڑکيوں کی طرح پاگل نہیں ہے۔۔ اور وہ سادگی میں بھی بہت پیاری لگتی ہے۔۔ ثانی آپی نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا۔
لو وہ آگٸ حرم۔۔ شزا نے اشارہ کیا۔سب کی نظریں حرم کی طرف اٹھی تھیں۔
وہ کمرے کا دروازہ بند کر کے انکی طرف ہی آرہی تھی۔
بلیک ٹراٶزر پر مہرون شارٹ فراک پہنے۔۔ کاندھوں پر مہرون شال لپیٹے ہوۓ وہ سادگی میں بھی آنکھوں کو سکون پہنچا رہی تھی۔ بالوں کا رول بنا کر پیچھے کی طرف فولڈ کیا ہوا تھا جس سے سارے ہی بال فولڈ ہو گۓ تھے۔جبکہ بلیک ریشمی ڈوپٹہ سلیکے سے سر پر اوڑھا ہوا تھا۔۔ وہ مسکراتے ہوۓ انکے پاس آٸ اور حورعین اور شزا کے درميان ہی صوفے پر بیٹھ گٸ۔

آٸیں جناب آپ کا ہی انتظار ہو رہا تھا۔۔کہ حرم میڈم آٸیں تو کیک کٹنگ کی سیریمنی ہو۔۔ اسد نے مسکراتے ہوۓ کہا۔

اوہو۔۔۔ میں اتنی ہم کب سے ہوگٸ۔۔ حرم نے جواب دیا۔

اسد فیصلہ نہیں کر پارہا تھا کہ کون زیادہ خوبصورت ہے۔۔ وہ تینوں ایک ہی صوفے پر بیٹھیں تھیں۔۔شزا حورعین اور حرم۔۔
چلو شزا کو نکال بھی دو تب بھی وہ حرم اور حورعین میں سے فیصلہ نہیں کر پارہا تھا۔

وہ دونوں بہنیں تھیں مگر مکمل طور پر ایک دوسرے سے مختلف تھیں۔۔ حورعین کو دیکھ کر لگتا تھا کہ اسے فیشن کا شوق ہے شہرین کی طرح۔۔اور اسکے سٹیپ کٹنگ بال اس بات کے گواہ تھے جو کچھ ٹیل پونی میں مقید تھے جبکہ باقی چہرے پر بکھرے تھے۔۔ڈوپٹہ بھی گلے میں تھا۔۔
جبکہ حرم۔۔۔ ہاں حرم۔۔ اسکی ذات کو دیکھ کر پر دو باتیں زہن میں آتی تھیں۔۔
معصومیت۔۔۔اور۔۔۔ وقار۔۔ 
وقار جھلکتا تھا اسکی ذات سے حالانکہ وہ بہت کم عمر تھی۔۔۔ پھر ایسی کونسی بات تھی جو اسے اس پارٹی میں موجود باقی لڑکیوں سے الگ بنا رہی تھی۔۔اسد سمجھ نہیں پارہا تھا۔۔ وہ سمجھ بھی کیسے سکتا تھا۔۔

دوپہر جب اس نے حورعین کو دیکھا تھا تو پہچانا نہیں کہ کون ہے کونکہ وہ زیادہ ٹائم اپنی یونيورسٹی میں گزارتا تھا اگر کبھی گھر آبھی جاتا تھا تو اپنے چچاٶں کے گھر جانے کا اس نے کبھی سوچا ہی نہیں۔۔  
پہلے وہ حورعین کو حرم سمجھا تھا۔۔مگر جب اسے پتا چلا کہ وہ حورعین ہے حرم نہیں تو وہ بہت حیران ہوا کہ اسکی اتنی پیاری پیاری اور معصوم کزنز بھی ہیں۔۔
 اگر چھوٹی ایسی ہے تو بڑی کیسی ہوگی۔۔ اس نے سوچا تھا اور پھر حرم کو دیکھ کر اسے احساس ہوا تھا کہ وہ واقعی ہی نور تھی۔۔۔#حرم_نور۔۔۔
حرم اور نور کیا ہوتا ہے یہ بس کوٸ کوٸ ہی جان پاتا ہے۔۔ ہر کوٸ نہیں۔۔۔
             ❤❤❤❤❤  

 وہ بہت مصروف نظر آرہا تھا۔۔کچھ رپورٹس اور فاٸلز اسکے سامنے کھلی پڑی تھیں۔ایک طرف لیپ ٹاپ رکھا تھا جو آن تھا اور اسکی سکرین پر دماغ کے اندرونی حصے کی کچھ تصاویر جگمگا رہی تھیں۔اسکی نظریں کبھی رپورٹس اور کبھی لیپ ٹاپ کا مشاہدہ کر رہی تھیں۔خوبصورت آنکھیں مسلسل جاگنے اور تکھن کی وجہ سے سرخ نظر آرہی تھیں۔۔ بال بھی بکھرے بکھرے سے پیشانے پر پڑے تھے۔۔ آخر کار اس نے تھک کر پیچھے چیٸر سے ٹیک لگا لی تھی۔۔۔

مے آٸ کم ان سر۔۔۔ اچانک دروازے پر دستک ہوٸ۔ اس نے آنکھیں کھولیں۔۔
سامنے حمزہ کا چہرہ پوری بتّیسی کے ساتھ دروازے سے نظر آرہا تھا۔
اگر میں اجازت نا دوں تو تم نے کونسا رک جانا ہے۔۔ فرہاد نے جواب دیا۔
ہاں یہ بھی ہے۔۔میں نے کونسا رک جانا ہے۔۔حمزہ مسکراتے ہوۓ اندر آیا۔۔لگتا ہے بہت مصروف ہو؟؟ اس نے ٹیبل پر بکھری فاٸلز کو دیکھ کر پوچھا۔۔

ہمممم م۔۔ کام کی بات کرو حمزہ۔۔ فرہاد نے سیدھے ہوتے ہوۓ کہا۔
کام تو کچھ بھی نہیں۔۔بس میں سوچ رہا تھا کہ جناب فرہاد آغا لاہور سے واپس آنے کے بعد کیا کر رہے ہونگے۔۔ہاسپٹل سے تو تمہارا آج آف تھا ہے نا؟ تو پھر میں نے سوچا چلو گھر چلا جاٶں سب سے مل بھی لوں گا۔۔
حمزہ نے ازلی مسکراہٹ چہرے پر جماۓ جواب دیا تھا۔یہ مسکراہٹ اسکی زات کی خاصیت تھی۔۔

اب آ ہی گۓ ہو تو ہیلپ کرو میری اور پلیز کم بولنا۔۔ فرہاد آغا نے حمزہ سے درخواست کی تھی اور یہ کبھی کبھی ہی ہوتا تھا ورنہ وہ تو بس حکم دینے کےلیۓ بنا تھا۔۔۔

اوکے اوکے۔۔۔ حمزہ نے جواب دیا۔

وہ سامنے شیلف پر بلیو فاٸل رکھی ہے۔۔اس میں کچھ رپورٹس ہیں وہ لے کر آٶ۔۔فرہاد نے فاٸل کی طرف اشارہ کیا۔

اوکے۔۔ وہ چند سیکنڈ بعد شیلف کے پاس تھا۔۔ فاٸل اٹھاٸ۔۔ کھولی۔۔لیکن یہ کیا؟؟ اندر رپوٹس نہیں بلکہ ایک سیاہ جلد والی موٹی سی ڈائری تھی۔۔۔ کچھ رنگ برنگے پیچز تھے۔۔۔
ایک نازک سے برسلیٹ اور کچھ نوٹس تھے۔۔۔وہ اچنبھےسے ڈائری اور چیزوں کو دیکھ رہا تھا۔۔ پھر اس نے بھنویں اچکا کر فرہاد کو دیکھا جو اپنے کام میں مگن تھا۔۔
اس نے ڈائری باہر نکالی۔۔ اس کھولوں یا نہیں اس نے سوچا۔۔ پھر ڈائری کھول لی۔۔ جیسے جیسے وہ صفحے پلٹ رہا تھا حیرت اسکے چہرے پر بڑھ رہی تھی۔۔۔۔
حمزہ لے بھی آٶ۔ ادھر ہی جم گۓ ہو کیا۔۔ اسے فرہاد کی آواز سناٸ دی۔۔

”وہ میری روح کی چادر میں چھپ گیا ہے کچھ ایسے۔۔
روح نکلے رو وہ نکلے، وہ نکلے تو روح نکلے۔۔“

حمزہ نے ڈائری سے بلند آواز میں ایک شعر پڑھا۔۔
کیا بکواس ہے یہ حمزہ۔۔ میں تم سے رپورٹس مانگ رہا ہوں اور تمہیں شعروشاعری کی سوج رہی ہے۔۔ فرہاد غصہ ہوا۔۔

تو ڈاکٹر فرہاد علی آغا نے ڈائری لکھنا کب سے شروع کردی ہے۔۔

 ”میرے راہنما تو ہے کہاں۔۔۔
میرے راہنما زرا دیکھ تو۔۔
میرا آج جو بھی یہ حال ہے۔۔
مجھے سر سے لے کر پاٶں تک
محبتّوں کا ملال ہے۔۔۔۔۔۔۔

واٶ کمال لکھا ہوا ہے وہ پڑھ رہا تھا۔۔اور فرہاد کی برداشت کی حد ختم ہوچکی تھی وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور حمزہ کے پاس آکر جھٹکے سے ڈائری اسکے ہاتھ سے چھین لی۔۔
ارے ارے پڑھنے تو دو۔۔حمزہ منمایا۔۔ 
جبکہ فرہاد فاٸل کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا۔۔ فاٸل تو اسی کی تھی۔۔ہاں بلیو فاٸل۔۔لیکن یہ ڈائری اور چیزیں کس کی ہیں۔۔
اب وہ ڈائری اور فاٸل بیڈ پر رکھ چکا تھا اور ہر جگہ اپنی فاٸل ڈھونڈ رہا تھا کہ شاید کہیں اور رکھ دی ہو۔۔لیکن وہ ایک ڈاکٹر تھا۔۔اسکی یادداشت اتنی کمزور کیسے ہو سکتی تھی کہ وہ اپنی ہی فاٸل رکھ کر بھول جاۓ۔۔

وہ اب تھک کر بیڈ پر بیٹھ چکا تھا۔۔ جبکہ صوتحال حمزہ کی سمجھ سے باہر تھی۔۔ تبھی وہ خاموش تھا۔۔اب فرہاد نے ڈائری کھولی تھی۔۔

 ”میرے راہنما زرا دیکھ تو۔۔
میری زندگی ہے تڑپ رہ۔۔
 دور کنارے پر کھڑی ہوٸ۔۔
 میرے راہنما میرے پاس آ۔۔
میرا ہاتھ پکڑ کر لے کر جا۔۔
میری زندگی سے مجھے ملا۔۔
میرے راہنما تو ہے کہاں۔۔۔؟؟
                             #حرم_نور

 وہ پڑھ رہا تھا پیج کے آخر پر نام لکھا تھا۔۔ حرم نور۔۔۔
پریشانی کی لکیریں اسکے چہرے پر صاف نظر آرہی تھیں۔۔
حمزہ پہلی بار فرہاد کو اتنا کنفیوز دیکھ رہا تھا۔۔
کون ہے یہ حرم نور۔۔۔؟؟ 
بلآخر اس نے پوچھ ہی لیا۔
میں نہیں جانتا۔۔۔فرہاد نے جواب دیا۔۔
تو پھر یہ فاٸل اور ڈائری تمھارے پاس کیسے آٸ۔۔؟

مجھے سوچنے دو۔۔ فرہاد اب کمرے میں ٹہل رہا تھا۔۔
وہ دماغ پر زور دے رہا تھا۔کیسے کیسے؟؟۔۔۔۔
اچانک اسکے زہن میں دھماکے ہونے لگے۔۔۔ 
اووو شٹ۔۔۔ اس نے ایک ہاتھ کا مکا بنا کر دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر مارا۔۔

اور پھر ڈاکٹر سمیع کے ہاسپٹل میں گزری بھیگی شام کا ایک منظر اسکی نظروں کے آگے گھوم گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ اس سے ٹکراٸ تھی۔۔۔۔

تو وقت اپنا کام کر چکا تھا۔۔۔ اب وقت مسکرا رہا تھا۔۔ 
تقدیر نے ایک پنا پیچھے پلٹا۔۔ دور کہیں ہواٶں نے شور مچایا۔۔
اب تقدیر اپنے پنے آگے پلٹ رہی تھی۔۔۔۔ وقت مسلسل مسکرا رہا تھا۔۔۔ ایسی ہی مسکراہٹ تقدیر کے چہرے پر پھیلی ہوۓ تھی۔۔ 

وقت نے اپنا کام کر دکھایا۔۔ ہواٶں نے شور مچایا۔۔۔
ششششش۔۔۔ وقت نے ہواٶں کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔۔ ابھی تو شروعات ہوٸ تھی۔۔
اور پھر تقدیر کی طرف دیکھا۔۔
اور 
تقدیر نے ہلکے سے وقت کے کچھ پنے آگے پلٹ دیے۔۔۔۔۔
   
                              ❤❤❤❤❤❤❤❤❤

: کیا ہوا ہے فرہاد مجھے کچھ بتاٶ گے کیا؟اور یہ حرم نور کون ہے؟ حمزہ پوچھ رہا تھا۔۔ جبکہ فرہاد شدید پریشانی کے زیراثر تھا۔۔
وہ بہت ہی اہم فاٸل تھی۔۔ بہت سے پیشنٹ کی رپورٹس تھیں اس میں۔۔ ریسینٹلی وہ جس پیشنٹ کا علاج کر رہا تھا اور جس پیشنٹ کی رپورٹ کو ڈسکس کرنے وہ لاہور گیا تھا وہ بھی اسی فاٸل میں تھی۔۔پچھلے ایک گھنٹے سے وہ اسی پریشانی میں تھا کہ اب کیا کیا جاۓ۔۔
حمزہ کے بار بار پوچھنے پر بلآخر اس نے ہاسپٹل میں پیش آیا پورا واقعہ اسے سنا دیا۔۔

بات تو پریشانی کی ہے۔۔لیکن اب کیا کیا جا سکتا ہے۔۔ ویسے بھی یہ فاٸل جس لڑکی کی ہے وہ لاہور میں رہتی ہے۔۔ اتنی جلدی ہم اس تک پہنچ بھی نہیں سکتے۔۔ آج ہی تو واپس آۓ ہیں۔۔ حمزہ کہہ رہا تھا۔۔
 
بات یہ نہیں ہے کہ وہ لاہور میں رہتی ہے اور ہم اسلام آباد میں۔۔بلکہ پریشانی یہ ہے کہ اس سے رابطہ کیسے ہو تاکہ اسے بتایا جاۓ کہ جو فاٸل اسکے پاس ہے وہ بہت امپورٹنٹ ہے۔۔ وہ اسے سنبھال کر رکھے۔۔ فرہاد نے جواب دیا۔۔

ایک منٹ۔۔ وہ ڈائری دکھاٶ مجھے۔۔ حمزہ نے پرجوش سے لہجے میں کہا۔۔

تم اسکا کیا کرو گے۔۔ فرہاد نے پوچھا۔

یار تم نہیں جانتے ان لڑکیوں کو۔۔ بہت بھلکڑ ہوتی ہیں۔۔ ہر چیز ڈائری پر لکھتی ہیں۔۔ ہو سکتا ہے اس نے اپنا نمبر بھی ڈائری پر لکھا ہو کہ گم ہونے کی صورت میں ڈائری واپس ملنے کا امکان ہو۔۔۔ حمزہ نے ڈائری چیک کرتے ہوۓ جواب دیا۔۔
یہ رہا۔۔۔دیکھو۔۔
اور پھر اسے واقعی ہی نمبر مل گیا۔۔ 
میں کال کرتا ہوں۔۔ حمزہ نے فرہاد کے موبائل سے نمبر ملایا۔۔

فرہاد پرامید نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔

وقت کیسے کیسے کھیل کھیل رہا تھا یہ وہ بھی نہیں جانتا تھا۔۔مگر یہ تو طے تھا کہ تقدیر ملن کے مواقع پیدا کر رہی تھی۔۔

کال جا رہی ہے۔۔کوٸ ریسیو نہیں کر رہا۔۔ حمزہ نے فرہاد کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔

بارا بجنے والے تھے۔۔ ادھر لاٶ مجھے دو میں کوشش کرتا ہوں۔۔فرہاد نے اسکے ہاتھ سے موبائل لے لیا اور نمبر دوبارہ ڈاٸل کیا۔۔ کال جارہی تھی۔۔

کیا پتا وہ سو گٸ ہو۔۔ کافی ٹائم ہو چکا ہے۔۔ حمزہ نے کچھ سوچتے ہوۓ کہا۔

حمزہ مجھے کل صبح لاہور جانے والی فلاٸیٹ کی ٹکٹ چاہیۓ۔۔ فرہاد نے حمزہ سے کہا۔

اوکے میں کوشش کرتا ہوں۔۔ حمزہ نے اپنا موبائل نکالا اور ایک نمبر ملاتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا۔۔

آخری بار ملاتا ہوں۔۔ فرہاد نے سوچا۔۔ اور نمبر ملایا۔۔ شاید کوٸ ریسیو کر ہی لے۔۔ 

اور اس بار واقعی ریسیو کر لیا گیا تھا۔۔ ہیلو۔۔۔ وہ بول رہا تھا۔

           ❤❤❤

حرم۔۔ یہ لو کب سے تمہاری کال آرہی ہے۔۔ ساری پکچرز کا مزا خراب کر دیا۔۔۔ حورعین جو شزا اور شہرین کے ساتھ مل کر پکس بنا رہی تھی منہ بصورتی ہوٸ حرم کے پاس آٸ اور موبائل اسے دیا۔۔
اس وقت کس کا فون ہو سکتا ہے؟ حرم نے سوچا۔۔ 
نمبر بھی ان ناٶن ہے۔۔ اوکے اب آۓ گا تو ریسیو کرلونگی۔۔ شاید کوٸ ارجنٹ کال ہو۔ وہ سوچ رہی تھی۔۔
تایا ابو کے گھر انہوں نے کافی ہلا گلا مچا یا ہوا تھا۔۔ 
برتھ ڈے پارٹی کب کی ختم ہو چکی تھی۔۔ لیکن وہ اب بھی موج مستی میں لگے ہوۓ تھے۔۔

نیو اٸیر کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔۔ اسد نے مسکراتے ہوۓ کہا۔ 
کیک بھی ریڈی ہے۔۔ میں نے خود اپنے ہاتھو ں سے بنایا ہے۔۔ وہ بتا رہا تھا۔۔
اب وہ سب اوپر اسد کے کمرے میں جمع تھے۔۔
ثانی آپی کیک لے کر آرہی ہیں۔۔ سب ریڈی ہو جاٶ۔۔ شزا نے اونچی آواز میں کہا۔

اوو ششش۔۔۔ شور کم کرو۔۔ تایا ابو ناراض ہونگے۔۔ حرم نے انہیں ٹوکا۔۔

کمشنر صاحب کب ناراض نہیں ہوتے۔۔۔ ہر وقت غصہ ناک پر رہتا ہے۔۔اسد نے مزاق اڑایا۔۔ سب اسکی بات پر ہنس پڑے تھے۔۔
ثانی آپی کیک لاچکی تھیں۔۔

اچانک حرم کا موبائل واٸبریٹ ہوا۔۔ اسی نمبر سے کال آرہی تھی۔۔ 
ہیلو اسلام علیکم! حرم نے کال ریسیو کی۔۔
 جی وعلیکم اسلام۔۔ آپ حرم نور بات کر رہی ہیں۔۔

یہ تو کسی مرد کی آواز ہے۔۔ حرم تھوڑا پرشان ہوٸ۔۔

جی میں حرم نور۔۔۔ آپ کون؟؟

تبھی اچانک اتنا شور ہوا۔۔
ہیپی نیو اٸیر۔۔۔ حرم کے پاس سب شور کر رہے تھے۔۔ اور یہ آواز کال کرنے والے کو بھی سناٸ دے رہا تھا۔۔

اووو ہو۔۔ اس شور میں تو کچھ سناٸ نہیں دے رہا تھا۔۔ کال کرنے والا کچھ کہہ رہاتھا۔ مجبوراً حرم جو ٹیرس پر جانا پڑا۔۔۔
جی اب بولیں آپ کون ہیں؟؟وہ پوچھ رہی تھی۔

جی میں ڈاکٹر فرہاد علی آغا بات کر رہا ہوں۔۔ اسلام آباد سے۔۔کال کرنے والا بتا رہا تھا۔

ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا حرم کے چہرے سے ٹکرایا تھا۔۔
دل ایک دم زور سے دھڑکا تھا۔۔

 فرہاد آغا۔۔۔ یہ تو وہی ہے ہاسپٹل والا۔۔ جسے دیکھ کر وہ کچھ غلط بولتے بولتے رک گٸ تھی۔۔ اس نے مجھے کال کی۔۔؟؟ لیکن کیوں۔۔۔
نمبر کہاں سے لیا اس شخص نے۔۔ حرم کو کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔

موسم آج پھر شام سے ہی خراب تھا۔۔ اب تو بادل گرجنے لگے تھے۔۔ تیز ہواٸیں حرم کے چہرے کو چھو رہیں تھیں۔۔
ایک دم بجلی چمکی اور حرم ہاسپٹل میں ہونے والے واقعے سے سیدھا حال میں واپس آگٸ تھی۔۔
ہیلو۔۔۔ مس حرم نور۔۔ کیا آپ میری آواز سن رہی ہیں۔۔۔؟
فرہاد بول رہا تھا۔۔
     
                   ❤❤❤❤❤❤❤❤

                جی جی۔۔میں سن رہی ہوں۔۔ آپ نے کیسے کال کی مجھے۔ ۔ آٸ مین نمبر کہاں سے لیا۔۔ وہ پوچھ رہی تھی۔۔

مجھے آپ سے بہت ضروری بہت ضروری بات کرنی ہے مس حرم۔۔ معذرت کہ آپکو اس وقت ڈسٹرب کیا۔۔ فرہاد بتا رہا تھا۔

جی بولیں۔۔ حرم نے جواب دیا۔

میری فاٸل ہے آپکے پاس۔۔ جس میں کچھ پیشنٹس کی بہت ہو اہم رپورٹس ہیں۔۔ کچھ ٹیسٹس ہیں اور کچھ ریسرچ ورک ہے۔۔آپ جانتی نہیں شایہ کہ میں ایک ڈاکٹر ہوں اور وہ فاٸل۔۔۔

وہ سب تو ٹھیک ہے۔۔ لیکن میرے پاس آپکی فاٸل کہاں سے آٸ ہے؟؟ حرم نے اسکی بات درميان سے کاٹی۔۔۔

آپکو شاید یاد ہوگا کہ سمیع بھاٸ کے ہاسپٹل میں آپ مجھ سے ٹکرا گٸ تھی۔۔ ہم دونوں کے پاس سیم کلر کی فاٸل تھی۔۔ نیچے گرنے اور اندھیرا ہونے کے سبب ہماری فاٸل ایکسچينج ہوگٸ تھی اور ہمیں پتا نہیں چلا۔۔ فرہاد نے تفصيل سے بتایا۔۔

کیا؟؟ حرم حیران ہوٸ تھی۔

آپ چاہیں تو وہ فاٸل چیک کر سکتی ہیں۔۔ جو آپکے پاس ہے۔ وہ میری ہے اور جو میرے پاس ہے وہ آپکی ہے۔۔ فرہاد نے کہا۔

اور آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جو فاٸل آپکے پاس ہے وہ میری ہی ہے؟؟ عجيب بےوقوفانہ سوال کیا تھا حرم نے۔

ہلکی سی مسکراہٹ فرہاد کے چہرے پر ابھری تھی۔۔
میڈم اگر وہ فاٸل آپکی نہیں ہے تو میرے پاس آپکا نمبر کہاں سے آیا؟؟ فرہاد نے پوچھا تھا۔۔
اس فاٸل میں ایک ڈائری ہے۔۔ ایک بریسلیٹ ہے۔۔ کچھ پیچز ہیں۔۔ اور بھی کچھ چیزیں ہیں۔۔ اور ہاں جو ڈائری کا کور ہے وہ بلیک کلر کا ہے۔۔ ڈائری میں پوٸٹری لکھی ہوٸ ہے۔۔ آپکا نام بھی لکھا ہوا ہے۔۔ حرم نور۔۔ آپکے نمبر سمیت۔۔ اب بتاٸیں یہ فاٸل آپکی ہے یا نہیں؟؟ فرہاد کے لہجے میں ہلکہ سا طنز شامل تھا۔

وہ پوچھ رہاتھا جبکہ حرم کو لگ رہا تھا کہ اسکے اردگرد دھماکے ہو رہے ہیں۔۔یہ حورعین نے مجھے کونسی فاٸل لاکر دی تھی۔۔ میں نے تو اسے نوٹس والی فاٸل کا کہا تھا۔۔یہ کیا ہوگیا۔۔ میری ڈائری۔۔ افففف۔۔ حرم کو لگ رہا تھا ٹھنڈ اسکے اندر سراٸیت کر رہی ہے۔۔

ہاں۔۔جج۔۔۔جی۔۔ وہ میری فاٸل ہے۔۔وہ میری پرسنل ڈائری ہے۔۔ پلیز اسے سنبھال کر رکھیں۔۔وہ میرے لیۓ بہت ہی اہم ہے۔۔ میں اس وقت اپنے تایا ابو کے گھر ہوں۔۔ اور آپکی فاٸل بھی میرے پاس سیف ہے۔۔ پلیز میری ڈائری۔۔

اٹس اوکے۔۔ ڈونٹ وری مس حرم۔۔۔آپکی فاٸل بھی میرے پاس محفوظ ہے۔۔ میں اسلام آباد سے ہوں۔۔ اور صبح واپس لاہور آرہا ہوں اپنی فاٸل لینے۔۔ میں آپکو ٹائم کنفرم بتا دیتا ہوں کچھ دیر تک آپ مجھے پلیز جگہ بتا دیں کہ کہاں ملنا ہے۔۔ تاکہ ہم اپنی اپنی فاٸل دوبارہ حاصل کر سکیں۔۔ کتنے دھیمے لہجے میں وہ بتا رہا تھا۔۔

حرم تم یہاں کیا کر رہی ہو وہ بھی اتنی ٹھنڈ میں۔۔ موسم کافی خراب ہو چکا ہے۔۔ اندر آجاٶ۔۔ سب تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔۔ پیچھے سے اسد کی آواز آٸ تھی۔۔

فرہاد نے وہ آواز اچھی طرح سے سنی تھی۔۔ اسکا مطلب وہ باہر کہیں تھی۔۔ وہ خود بھی تو ٹیرس پر کھڑا تھا۔۔ ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا فرہاد آغا کے چہرے سے ٹکرایا تھا۔۔ اور ایک عجیب سا احساس چھوڑ گیا تھا۔۔۔

جبکہ حرم کو تو فرہاد آغا کی بات سن کر ہی اتنی ٹھنڈ میں بھی پسینہ آگیا تھا۔۔
نن۔۔۔ نہیں۔۔ میں آپ سے نہیں مل سکتی۔۔ حرم نے صاف انکار کیا۔

کیا مطلب آپکا نہیں مل سکتی؟؟ تو پھر مجھے میری فاٸل کیسے ملے گی واپس؟؟ وہ پوچھ رہا تھا۔۔ جبکہ حرم نے کوٸ جواب دیۓ بنا ہی کال کاٹ دی تھی۔۔

حرم تم سن رہی ہو۔۔اسد بھی وہیں کھڑا تھا۔۔

ہاں میں آرہی ہوں۔۔ حرم گھبراٸ ہوٸ تھی۔۔ اب وہ اس لمحے کو کوس رہی تھی جب وہ فرہاد آغا سے ٹکراٸ تھی۔۔۔ افف اللہ اب کیا کروں میں؟؟ وہ اپنی ہی سوچ میں گم اندر آرہی تھی اور سامنے سے آتی ہوٸ حورعین سے ٹکرا گٸ۔۔۔

اوووو ہو۔۔ کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نا۔۔ یوں ہوا پر سوار ہو کر کہاں جا رہی ہو؟؟ حورعین نے پوچھا۔

تم نے کونسی فاٸل اٹھا کر دی تھی مجھے جب میں ثانی آپی کے ساتھ ہاسپٹل گٸ تھی؟؟ حورعین کو دیکھ کر حرم کو غصہ آگیا تھا اور اب وہ غصے سے پوچھ رہی تھی۔۔ سب اسکی وجہ سے ہوا ہے۔۔

وہی بلیو والی دی تھی جو تم نے کہا تھا۔۔ حورعین نے جواب دیا۔۔

پاگل تم نے مجھے ڈائری والی فاٸل دہ تھی جبکہ میں نے تم سے وہ فاٸل مانگی تھی جس میں کمیسٹری کے نوٹس تھے جو مجھے کشف کو دینے تھے۔۔ حرم کو کافی غصہ آیا ہوا تھا۔

لیکن ہوا کیا ہے کچھ بتاٶ تو۔۔ اور ویسے بھی مجھے کیا پتا تھا کونسی فاٸل میں نوٹس ہیں اور کونسی میں ڈائری ہے۔۔ وہ حرم کے چہرے پر پھیلی پریشانی دیکھ چکی تھی۔

اب تم دونوں یہاں کیا کر رہی ہو؟؟ اسد کسی بوتل کے جن کی مانند حاضر ہوا تھا۔۔۔ 
کوٸ پریشانی ہے تو بتاٶ۔۔ وہ دونوں کو یوں خاموش دیکھ کر بولا تھا۔۔

نہیں کوٸ پریشانی نہیں ہے۔۔ وہ ایکچوٸلی حرم کی فرینڈ کی کال تھی کچھ نوٹس کا پوچھ رہی تھی۔ حورعین نے جواب دیا تھا۔

اوکے اب اندر چلو آپی بلا رہی ہے تم دونوں کو۔۔ اسد کہہ کر آگے بڑھ گیا تھا جبکہ وہ دونوں بھی اسکے پیچھے پیچھے ہی کمرے میں داخل ہوگٸ تھیں۔
              🌸🌸🌸

کیاہوا فرہاد بات ہوٸ اس لڑکی سے۔۔ حمزہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ پوچھا تھا جبکہ حمزہ صوفے پر بیٹھا تھا اور اس نے دونوں ہاتھوں سے سر کو پکڑ رکھا تھا۔۔ 

ہاں یار۔۔ عجیب پاگل لڑکی ہے۔۔ فرہاد نے جواب دیا۔

کیوں کیا کہا اس نے؟؟ فرہد نے پوچھا۔

پہلے تو اسے میری بات پر یقین ہی نہیں آیا۔۔ اور پھر جب میں نے ڈائری کا بتایا تو اسکو یقین ہوا۔۔ لیکن جیسے ہی میں نے کہا کہ مجھے ایڈریس بتادو جہاں پر ہم مل سکیں اور اپنی اپنی فاٸل کو ایکسچينج کر سکیں تو انکار کردیا اور کال کاٹ دی۔۔ اور تو اور اوپر سے فون بھی آف کردیا۔۔ فرہاد جھنجلاہٹ کا شکار تھا۔۔
تم بتاٶ۔۔ ٹکٹس کنفرم ہوٸ؟؟ فرہاد نے پوچھا۔۔

نہیں یار۔۔ سوری۔۔ حمزہ نے مایوسی جواب دیا۔۔ 

ہممممم۔۔۔ چلو میں اپنی گاڑی میں چلا جاٶں گا۔۔ ویسے بھی لاہور ہی جانا ہے لندن تو نہیں۔۔ فرہاد نے کہا۔
اور یہ محترمہ میرا فون اٹھاۓ تب نا۔۔۔ ہو بار بار کال ملا رہا تھا۔

حمزہ کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اس وقت کیا کرے۔۔

اوکے حمزہ تم سو جاٶ جا کر۔۔ کافی ٹائم ہو چکا ہے۔۔

حمزہ اسے مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا لحاظہ کچھ بھی بولے بنا کمرے سے چلا گیا۔۔
جب کہ فرہاد بار بار کال ملا رہا تھا کہ اچانک اسکی نظریں سامنے رکھی ڈائری پر پڑیں۔۔ وہ نا چاہتے ہوۓ بھی اپنی جگہ سے اٹھا اور ڈائری کی طرف قدم بڑھا دیۓ۔۔۔ نیند تو ویسے بھی اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔


  ❤❤❤❤❤
     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─