┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 6

جب وہ کمرے میں واپس آیا تو وہ دونوں جا چکی تھیں۔نا جانے کیو عجیب خالی پن سا محسوس ہو رہا تھا اسے۔۔چنبیلی کی خوشبو ابھی تک آرہی تھی۔

چلے گۓ وہ لوگ؟؟ فرہاد نے ڈاکٹر سمیع سے پوچھا۔

ہاں جی چلے گۓ۔بارش کم ہو گٸ تھی پہلے سے تو انہوں نے جانا مناسب سمجھا۔ڈاکٹر سمیع نے جواب دیا۔

اوکے اب ہم بھی گھر چلیں بھابھی انتظار کر رہی ہوگی۔فرہاد نے کہا۔
ہمم۔۔چلتے ہیں۔۔ڈاکٹر سمیع کی نگاہیں فاٸلوں پر جمی ہوٸ تھی جنہیں وہ پوری توجہ سے چیک کر رہے تھے۔

بس کچھ ہی رپورٹس چیک کرلوں اور ڈاکٹر منیب کو آ لینے دو میں اسی کا انتظار کر رہا ہوں۔یہ رپورٹس اسکو دینی ہیں۔ڈاکٹر سمیع نے تفصيل سے بتایا۔

اگر تم جانا چاہو تو جا سکتے ہو گھر میں بعد میں آجاٶں گا۔

ارے نہیں نہیں بھاٸ۔۔مجھے کوٸ جلدی نہیں ہے۔ہم دونوں ایک ساتھ جاٸیں گے۔فرہاد نے مسکراتے ہوۓ کہا۔

کیسی رہی تمھاری میٹنگ؟؟ ڈاکٹر سمیع نے پوچھا۔

ہاں جی اللہ کا شکر بہت اچھی رہی۔۔کافی مدد مل گٸ ہے۔کافی کچھ کلیٸر ہوگیا ہے پیشنٹ کا اب میں بہتر طریقے سے علاج کر سکتا ہوں۔فرہاد نے مسکرتے ہوۓ جواب دیا۔

چلو شکر ہے جس مقصد کے لیۓ اسلام آباد سے لاہور آۓ تھے وہ تو پورا ہوا۔ڈاکٹر سمیع بھی مسکراۓ۔۔وہ اب رپورٹس کی طرف دوبارہ سے متوجہ ہو چکے تھے۔

جی بھاٸ بالکل۔۔فرہاد نے اثبات میں سر ہلایا اور موباٸل پر آنے والی کال کی طرف متوجہ ہوگیا۔
        🌸🌸🌸

ثانی آپی ایسے کیسے دروازے سے واپس چلی گٸ؟ تم انہیں اندر لے آتی۔۔حورعین نے غصے سے کہا۔

ثانی آپی حرم کو دروازے پر ہی اتار کر واپس گھر چلی گٸ تھی اس بات پر اب سب کو غصہ آرہا تھا۔ امی اور آنٹی نے الگ کلاس لی تھی حرم کی اور اب رات کے ساڑھے دس بجے حورعین اور شزا اسے جینے نہیں دے رہیں تھیں۔۔
 
اور نہیں تو کیا۔شام کو بھی اتنی جلدی جلدی میں آٸی تھی بیٹھی بھی نہیں تھی۔واپسی کا وعدہ کیا تھا اور اب ملے بغیر ہی چلی گٸ۔۔شزا کو بھی افسوس ہو رہا تھا۔

اوہو۔۔تنگ آگٸ ہوں میں تم لوگوں کی باتوں سے۔۔ حرم جو لیٹی ہوٸ تھی ایک دم اٹھ کر بیٹھ گٸ۔ کتنی بار بتا چکی ہوں کہ موسم خراب تھا گڑیا کو وہ شہرین کے پاس چھوڑ کر آٸ تھی۔۔ ثانی آپی کو گڑیا کی زیادہ فکر تھی شہرین اپنی مرضی کی ہے وہ پتا نہیں ٹھیک سے دھیان رکھ پاتی یا نہیں۔۔بس اسی لیۓ انہیں جانا پڑا۔۔اب آگٸ سمجھ۔۔حرم نے ہاتھ اٹھا کر پوچها۔

ہاہاہا۔۔ہاں آگٸ سمجھ ۔۔غصہ کیوں کر رہی ہو۔شزا مسکراٸ۔

توبہ دماغ خراب کر دیا۔۔حرم نے دوبارہ لیٹتے ہوۓ کہا۔
ارے ہاں یاد آیا۔۔حرم لیٹتے لیٹتے دوبارہ اٹھ بیٹھی۔چہرے پر ایک دم ہی مسکراہٹ پھیل گٸ۔

کیا یاد آیا؟؟ حورعین اور شزا دونوں فوراً متوجہ ہوٸیں۔
آج میں نے ڈاکٹر سمیع کے کلینک پر ایک ڈاکٹر کو دیکھا۔۔ حرم نے کچھ یاد کرتے ہوۓ کہا۔

پھر۔۔شزا نے بے صبری سے پوچھا۔
ظاہر سی بات ہے ہاسپٹل میں یا تو ڈاکٹرز ملے گے ہا مریض۔۔کوٸ ایکٹر تو آنے سے رہا۔۔ حورعین نے لاپرواہی سے کہا۔
قسم سے کسی ایکٹر سے کم نہیں تھا۔۔مجھے تو یقين نہیں ہوا کے یہ ڈاکٹر ہے۔۔ویسے تو ڈاکٹر سمیع بھی کافی ہینڈسم ہیں لیکن وہ تو پرسنیلٹی سے کوٸ بہت بڑا ایکٹر یا بزنس مین لگ رہا تھا۔۔حرم نے مسکراتے ہوۓ بتایا۔

اوووووووو۔۔تو یہ بات ہے۔۔شزا اور حورعین کے ہونٹ سیٹی بجانے کے انداز میں سکڑے۔۔
تو جناب حرم نور کو ایک ڈاکٹر پر کرش ہوگیا۔شزا نے شرارت سے کہا۔

اوہو۔۔ارے ایسی بات نہیں ہے۔۔وہ کافی وجیہہ شخص تھا میں نے تعریف کردی تو اس میں کرش والی کیا بات ہے۔ حرم نے منہ بناتے ہوۓ کہا۔

ہاہاہا۔۔تو بات ہوٸ کیا؟ ارے نمبر شمبر لے لیتی۔۔ویسے نام کیا تھا؟ حورعین نے مسکراہٹ دباتے ہوۓ پوچھا۔

دفعہ۔۔تم دونوں سے تو کوٸ بات کرنا ہی فضول ہے۔۔اب حرم کو سچ میں غصہ آگیا تھا۔میں سونے لگی ہوں لاٸیٹ آف کردو۔حرم نے لیٹتے ہوۓ کہا۔

جی جی کیوں نہیں۔۔سونے دو حرم میڈم کو خواب بھی تو دیکھنے ہیں۔شزا نے کہا

جی بالکل۔۔ڈاکٹر جی کے خواب۔۔حورعین نے شرارت سے کہا اور دونوں کا قہقہہ پورے کمرے میں گونج گیا۔
دفعہ ہوجاٶ تم دونوں۔۔میں نے مڈر کر دینا ہے تم دونوں کا۔۔حرم نے غصے سے لال ہوتے ہوۓ کہا۔اس سے پہلے وہ اپنی جگہ سے اٹھتی وہ دونوں کمرے سے بوتل کے جن کی طرح غاٸب ہو چکی تھیں۔۔جبکہ باہر سے دونوں کی ہنسنے کی آوازیں آرہیں تھیں ۔۔

پاگل نا ہوں تو۔۔حرم بڑبڑاٸ۔۔پھر ایک دم ہی انکی باتیں سوچ کر ہنسنے لگی۔۔
اوہووووووو۔۔۔واٶ۔۔۔ہنسی تو پھنسی۔۔۔شزا کا چہرہ ایک دم ہی دروازہ سے نظر آیا اور پھر غاٸب ہو گیا۔۔
اب نہیں بچو گی تم۔۔ بتاتی ہوں تمہیں۔۔
حرم بیڈ سے اتری۔۔جبکہ شزا برآمدے کی گرل کھول کر صحن کی طرف بھاگ چکی تھی اور حرم شزا کے پیچھے۔۔
صحن میں کافی دیر تک دونوں کی آوازیں گونجتی رہیں۔۔

      🌸🌸🌸

حمزہ جلدی کرو ہم لیٹ ہو رہے ہیں فلاٸٹ کا ٹاٸم ہوچکا ہے۔فرہاد نے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ کہا۔وہ واپس اسلام آباد جارہے تھے۔فرہاد ریڈی تھا جبکہ حمزہ کو نا جانے دنیا کی کون کونسی مصروفیات گھیرے تھیں۔

تم ابھی تک تیار نہیں ہوۓ؟ فرہاد نے حمزہ کو دیکھتے ہوۓ کہا جو آرام سے کانوں میں ہیڈ فون لگاۓ بیٹھا تھا۔
اووو فلاٸٹ کا ٹائم ہوگیا۔۔مجھے پتا ہی نہیں چلا۔حمزہ نے معصومیت سے جواب دیا۔

١٠ منٹ میں تیار ہو کر نیچے آجاٶ۔ فرہاد کو سچ مچ غصہ آگیا تھا۔حد ہے لاپرواہی کی بھی۔

آرہا ہوں یار۔اسلام آباد ہی تو جانا ہے نا کونسا اٹلی جا رہے ہیں ہم۔ حمزہ نے اسکے غصے کی زرا بھی پرواہ نہیں کی تھی۔
ا٠ منٹ۔۔ فرہاد نےاسے انگلی اٹھا کر وارن کیا اور کمرے سے چلا گیا۔

ہاں ہاں آرہا ہوں جانتا ہوں ڈاکٹر فرہاد علی آغا دنیا کے سب سے بزی انسان ہیں جسکے پاس کسی سے بات کرنے تو کیا کسی کی بات سننے کا بھی ٹائم نہیں ہے۔۔حمزہ اسکے جانے کے بعد بڑبڑا رہا تھا۔۔ اور پھر واقعی دس منٹ کے بعد وہ نیچے تھا انکے پاس۔

تم لوگوں سے کافی رونق لگی ہوٸ تھی۔فاریہ بھابھی نے کہا وہ انکے واپس جانے پر بہت افسردہ تھی۔ اسے فرہاد اور حمزہ کی نوک جھونک بہت پسند تھی۔اور حمزہ کی باتیں تو اسکا دل لگا کر رکھتی تھیں۔

ارے بھابھی ہم کہتے تو ہیں سمیع بھاٸ کو وہ اسلام آباد ہمارے پاس ہی شفٹ ہو جاٸیں۔لیکن جب سے آپ سے شادی کی ہے نا تب سے بس لاہور کے ہو کر رہ گۓ ہیں۔فرہاد نے مسکراتے ہوۓ کہا۔

ارے یار کیا بتاٶں۔۔لاہور میں بات ہی کچھ ایسی ہے۔۔ڈاکٹر سمیع نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا جبکہ نگاٸیں فاریہ بھابھی پر جمی تھیں۔
اوۓ ہوۓ۔۔ کیا بات ہے۔۔حمزہ نے شرارتی لہجے میں کہا۔
تم دونوں بھی بچ کر رہو لاہور سے۔۔اب وہ فرہاد اور حمزہ کی طرف متوجہ تھا۔
لاہور سے یا لاہور والوں سے؟؟ فرہاد نے مسکراتے ہوۓ پوچھا۔
لاہور والوں سے نہیں بلکہ لاہور والیوں سے۔۔۔ بھاٸ کا اشارہ لاہور والیوں کی طرف ہے۔۔حمزہ نے ایک آنکھ دباتے ہوۓ کہا۔ جبکہ حمزہ کی بات پر ان سب کا قہقہہ بلند ہوا۔

      🌸🌸🌸🌸

حرم تم بتاٶ کونسے کپڑے پہن کر جاٸیں ہم۔۔ شزا نے کمرے میں داخل ہوتی حرم سے پوچھا۔

حورعین نے الماری سے سارے کپڑے نکال کر بیڈ پر پھیلاۓ ہوۓ تھے۔جبکہ شزا بیڈ پر آلتی پالتے مارے بھیٹی تھی اور اسکی نگاہیں کپڑوں پر جمی ہوٸ تھیں۔حورعین بھی پاس ہی کھڑی تھی دونوں کنفیوزڈ تھیں۔

یہ کیا حال بنایا ہوا ہے کمرے کا؟؟ حرم نے کمرے کا بگڑا ہوا منظر دیکھ کر پوچھا۔

یار ہماری ہیلپ کردو پلیز۔۔شزانے معصومیت سے کہا۔
تم لوگوں نے Birthday party پر جانا ہے کسی کی شادی پر نہیں جو تم دونوں یوں ری ایکٹ کررہی ہو۔

ہاں وہی نا پارٹی پر جانا ہے وہ بھی تایا ابو کے گھر۔ہمیں یقین نہیں ہو رہا۔ حورعین نے خوش ہوتے ہوۓ کہا۔

ہوا کچھ ہوں تھا کہ ثانی آپی کی تین سالا گڑیا کا برتھ ڈے تھا۔ان سب کو انواٸیٹ کیا گیا تھا اور خوشی کی بات یہ تھی کہ انہیں جانے کی پرمیشن بھی مل گٸ تھی۔

سنا ہے بہت پیارہ اور بڑا گھر بنایا ہے تایا ابو نے بلکل محل جیسا۔۔اور ہم وہاں جارہے ہیں۔۔

 سنا اسد بھی آرہا ہے۔۔ہاۓ کتنا مزا آۓ جب وہ لوگوں سے ہمارا تعارف کرواۓ گا کہ ہم اسکی کزنز ہیں۔بھٸ بڑی پارٹی ارینج کی ہوگی نا تاٸ امی نے لوگوں کو دکھانے کےلیۓ۔۔خیر ہمیں کیا ہم بس وہاں جا رہے ہیں ہمارے لیۓ اتنا ہی کافی ہے۔ حورعین نہ جانے کن خیالوں میں کھوٸ بول رہی تھی۔

اوہو۔۔بند کرو یہ الٹ سیدھی باتیں۔۔وہ ہمارا گھر نہیں ہے اور یاد رکھو تاٸ امی ہمیں پسند نہیں کرتی۔ حرم نے اسے حقیقت کا احساس دلایا۔

اچھا چھوڑو ان سب باتوں کو حرم بس تم ہمیں ڈریس کنفرم کردو کہ کونسا پہنے ہم۔ شزا نے بات کا رکھ موڑتے ہوۓ کہا۔
کوٸ بھی پہن لو تم دونوں پر ہر ڈریس سوٹ کرتا ہے۔اور پھر حرم نے دو ڈریس انکے لیۓ نکالے ۔یہ پہن لو۔اس نے ڈریس شزا کو پکڑاتے ہوۓ کہا۔

اور تم کونسا پہنو گی؟ حورعین نے پوچھا۔

کوٸ بھی پہن لونگی اب کوٸ ڈیساٸیڈ نہیں کیا۔ حرم نے جواب دیا۔اب تم دونوں جلدی کرو یہ نا ہو کہ نبیل تم دونوں کو چھوڑ کر خود ہی چلا جاۓ۔١١ بجے تک کا ٹاٸم دیا ہے نبیل نے کہ ریڈی رہنا تم دونوں میں لینے آجاٶں گا اور خود وہ ریڈی ہو کر باہر چلا گیا ہے۔حرم نے انکو بتایا۔

ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو تم۔ شزا تم کپڑے پریس کرلو تب تک میں شاور لے لوں۔حورعین نے وہاں سے اٹھتے ہوۓ کہا۔

تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔اب میں اور شام میں کیا فرق ہے شام کو بھی تو آنا ہی ہے نا تم نے تو اب کیوں نہیں۔۔شزا نے حرم سے کہا۔ 

فنکشن رات کو ہے اور ایک باٸیک پر نبیل کے ساتھ تم دو لوگ ہی جا سکتے ہو۔مجھے ویسے بھی بازار جانا ہے۔گفٹس بھی تو لینے ہیں نا۔اور پھر شام کو میں اور ثناء آجاٸیں گے۔ابھی تم لوگ جاٶ۔ حرم نے اسکی بات کا جواب دیا۔

ہممم۔۔کہہ تو تم ٹھیک ہی رہی ہو۔شزا نے سوچتے ہوۓ کہا۔

اوکے اب ریڈی ہوجاٶ۔ حرم نے اٹھتے ہوۓ کہا اور بیڈ پر بکھرے کپڑے سمیٹنے لگ گٸ۔کونکہ وہ جانتی تھی کہ حورعین تو کبھی بھی نہیں اٹھاۓ گی۔اور شزا بھی کپڑے پریس کرنے کےلیۓ جاچکی تھی۔

افف۔۔شزا کے جانے کے بعد حرم بیڈ پر واپس بیٹھ گٸ۔اسکا دل نہیں کر رہا تھا وہاں جانے کو۔اسے تایا ابو کا بیٹا نادر سخت نا پسند تھا اور جب اسکے ساتھ حرم کے رشتے کی بات ہوٸ تھی تب سے حرم کو وہ زہر لگنے لگ گیا تھا۔اسکی غلیظ نگاہوں کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی وہ۔لیکن مجبوری تھی۔ جانا بھی ضروری تھا۔ثانی آپی کی بات نہیں ٹال سکتی تھی وہ۔ کیا کرے اب وہ سوچ سوچ کر اسے رونا آرہا تھا۔۔اللہ جی میری مدد کریں۔۔اسکی پلکیں بھیگنا شروع ہوٸیں۔۔

اور دور کہیں فضا میں پرواز کرتے جہاز میں بیٹھے شخص نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں۔۔پھر وہی منظر۔۔ وہ بھیگی پلکوں والی لڑکی کہیں بھی چین نہیں لینے دیتی تھی اسے۔۔۔۔ 

جاری ہے۔۔۔۔۔۔
       🌸🌸🌸🌸

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─