┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 5


کیا؟کیا کہہ رہی ہیں امی آپ؟ حورعین کا منہ حیرت سے کھلا تھا۔
جی یہی بات ہے اور یہی سچ ہے۔۔صابرہ خاتون نے جواب دیا۔
امی آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟نادر بھاٸ کیلیۓ حرم کا رشتہ۔۔کتنا برا مزاق ہے یہ۔۔حورعین ابھی تک حیرت میں تھی۔
مزاق نہیں ہے یہ تمھارے تایا اور تاٸ دونوں نے بات کی ہے مجھ سے انہوں نے کہا ہے کہ حرم ہماری ہے اور جواب ہاں میں ہی ہونا چاہیۓ۔صابرہ خاتون نے بتایا۔

دماغ خراب ہو گیا ہے تایاابو اور تاٸ دونوں کا۔حرم انکی کب سے ہو گٸ اور اپنے نالاٸق بیٹے کے لیۓ انہیں حرم ہی ملی تھی۔حورعین کا غصے سے برا حال ہو رہا تھا۔نادر بھاٸ نالاٸق،آوارہ،بے روزگار اور مشکل سے میٹرک پاس کیا ہے۔۔سارا دن دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرتے ہیں اور حرم کو دیکھیں امی پورے خاندان میں ایسی لڑکی نہیں ہے پیاری بھی ہے سمجھدار بھی گریجوایشن مکمل ہو گیا ہے وہ ماسٹرز میں ایڈمیشن لینے والی ہے۔۔دونوں کا کوٸ جوڑ نہیں بنتا۔امی آپ کیوں نہیں سمجھ رہی ہیں۔حورعین تو پاگل ہونے کو تھی۔

تو کیا کروں میں؟تمہارے تایا کے بہت احسان ہیں ہم پر اب ہی موقع ہے کہ ہم۔۔ 

کونسے احسان؟حورعین نے انکی بات درمیان میں ہی کاٹی۔۔ کس احسان کی بات کر رہی ہیں آپ۔۔ کبھی تایا اور تاٸ نے آکر پوچھا کہ ہم زندہ ہیں یا نہیں جو تھوڑا بہت انہوں نے کیا وہ انکا فرض بنتا تھا اور بدلے میں کیا مانگ رہے ہیں وہ اپنے آوارہ بیٹے کے لیۓ خاندان کی سب سے بہترین لڑکی۔۔واہ واہ کیا خوب قیمت لگاٸ ہے اپنے احسان کی انہوں نے۔۔حورعین کو لگ رہا تھا کہ اسکے دماغ کی کوٸ رگ پھٹ جاۓ گی۔

تو اب کیا کوٸ شہزادہ آۓ گا تم لوگوں کی لیۓ۔۔حرم کا تو پتا نہیں مگر تم تو خود ہی ڈھونڈ لو گی اپنے لیۓ۔آخر خون تو تم لوگوں میں بھی اسی باپ کا ہے نا جو اپنی مرضی کرتا تھا اب اولاد بھی وہی کرے گی۔۔میرے ہی نصیب برے ہیں۔۔جو اس نے کیا چھوڑ کر چلا گیا اب تم لوگ بھی وہی کرو جاٶ جی لو اپنی زندگی جا کر میرا کیا ہے آج زندہ ہوں کل کا پتا نہیں ساری عمر دکھوں میں ہی گزر گٸ۔۔صابرہ خاتون باقاعدہ رونے لگ گٸ تھی۔ 

امی پلیز روٸیں مت۔۔چپ کر جاٸیں۔اسکے دل پر کسی خنجر کی طرح لگی تھیں امی کی باتیں۔آپ حرم کا بھی تو سوچیں اسکو کیسا لگے گا وہ سخت ناپسند کرتی ہے نادر بھاٸ کو وہ کیسے جیۓ گی۔۔وہ مرجاۓ گی امی۔۔وہ مر جاۓ گی۔۔حورعین کو اپنی آواز بھیگ گٸ۔

جانتی ہوں وہ لڑکا حرم کے لاٸق نہیں ہے میں نے سوچنے کا وقت مانگا ہے اور اللہ پاک پر چھوڑ دیا ہے سب۔۔اب جو گا بہتر ہی ہوگا۔۔امی نے اطمینان سے جواب دیا۔

کچھ بھی ہو جاۓ پر میں حرم کی شادی اس انسان سے نہیں ہونے دونگی۔۔ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا۔۔حورعین نے بھی اتنے ہی یقین سے کہا اور اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گٸ۔
جب وہ اپنے کمرے میں آٸ تو اس نے دیکھا کہ حرم جاۓ نماز پر بیٹھی تھی جبکہ وہ امی کے کمرے میں گٸ تب حرم عشا کی نماز پڑھنے لگی اب اس نے نماز پڑھ لی تھی اسکا مطلب تھا کہ اس نے سب سن لیا تھا۔۔اس نے حرم کو دیکھا حرم کی نگاٸیں سجدے والی جگہ پر جمی تھیں۔۔

حورعین کو حرم پر کسی بت کا گمان ہوا ساکن بت۔۔حورعین کو حرم پر ترس آیا بہت اسکے لیۓ تو ضرور کسی شہزادے کو ہی آنا چاہیۓ کیونکہ وہ ایک اداس شہزادی تھی۔۔پھر اس نے دیکھا کہ حرم کہ ہونٹ ہلے آہستہ سے حرم نے ایک نام پکارہ۔۔حورعین بہت غور سے دیکھ رہی تھی اسے اور اسے محسوس ہوا جیسے حرم نے اللہ کو پکارا ہو۔۔ہاں اللہ ہی کہا تھا حرم نے کتنے ضبط کے ساتھ۔۔وہ اٹھ گٸ جاۓ نماز سے بنا دعا مانگے۔۔مطلب وہ ناراض ہو گٸ تھی اللہ پاک سے۔۔اس نے جاۓ نماز طے کر کے صوفے پر رکھا اور لیٹ گٸ اپنے بستر میں کمبل اوپر کر لیا۔

حرم چاۓ لاٶں؟ ثنا نے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ پوچھا۔
نہیں مجھے نیند آٸ ہے سونے لگی ہوں پلیز مجھے کوٸ تنگ نا کرے۔۔حرم نے کمبل کے اندر سے ہی جواب دیا۔
اتنی جلدی سو گٸ آج۔۔ثنا کو کسی گڑبڑ کا احساس ہو۔
اور حورعین جانتی تھی وہ ساری رات نہیں سو پاۓ گی۔۔یا تو روۓ گی یا پھر آنسو روک کر رکھے گی۔۔دونوں کام تکلیف دہ تھے۔
اللہ پاک کوٸ معجزہ کردیں۔۔مدد کریں ہماری۔۔حرم پر رحم کریں۔۔اس شخص سے بچا لیں اسے۔۔پلیز اللہ پاک سن لیں ہماری دعاٸیں۔۔ حورعین نے صدق دل سے دعا کی تھی اور شاید قبولیت کی گھڑی تھی وہ کیونکہ جو ہونے والا تھا وہ بھی معجزہ ہی تھا۔
💥💥💥💥💥💥💥💥
جارہے ہو چھوڑ کر۔۔وہ آج پھر آٸ تھی۔سیاہ چادر میں لپٹی۔۔آج وہ بول رہی تھی کچھ پوچھ رہی تھی۔۔
کون ہو تم؟فرہاد نے الٹا سوال کیا۔

کہاں جاٶ گے مجھے چھوڑ کر۔۔وہ پوچھنے پر بضد تھی۔کیوں جارہے ہو مجھے ساتھ لیۓ بنا ہی۔۔کہاں رہو گے میرے بنا؟ میرے وجود کو جھٹلا رہے ہو نا کہاں تک بھاگو گے مجھ سے؟؟وہ فرہاد کے سامنے کھڑی تھی کچھ فاصلے پر۔چاروں طرف دھند ہونے کے باعث وہ ٹھیک سے دیکھ نہیں پارہا تھا۔فرہاد نے ایک قدم آگے بڑھایا اسکی طرف۔۔اور جیسے ہی فرہاد نے قدم بڑھایا وہ ایک قدم پیچھے ہوٸ تھی۔
کون ہو تم؟بتاٶ تو مجھے آخرمسٸلہ کیا ہے تمھیں؟فرہاد آگے بڑھ رہا تھا اور وہ پیچھے ہٹ رہی تھی۔

دور مت جاٶ مجھ سے۔۔مجھے بتاٶ کیا پرابلم ہے؟کیوں پریشان ہو تم۔۔کیوں پکارتی ہو تم مجھے؟کیا رشتہ ہے میرا تم سے؟فرہاد آگے بڑھتے ہوۓ پوچھ رہا تھا جبکہ وہ تیزی سے پیچھے ہٹ رہی تھی۔
سنو۔۔رکو۔۔دور مت جاٶ۔۔فرہاد نے قدموں کو تیز کرتے ہوۓ کہا۔
مجھے ڈھونڈ لو۔۔پلیز مجھے دھونڈ لو۔۔وہ دھند میں غاٸب ہو رہی تھی۔

رکو۔۔فرہاد نے باقاعدہ بھاگنا شروع کر دیاتھا وہ اس طرف بھاگ رہا تھا جہاں وہ گم ہوٸ تھی۔

سنو۔۔رک جاٶ۔۔اب وہ چلا رہاتھا اور فل اسپیڈ سے بھاگ رہا تھا۔اب اسکا سانس پھولنے لگ گیا تھا۔

مجھے ڈھونڈ لو۔۔بھیگی آواز کے ساتھ ایک سسکی ابھری اور فضا میں گم ہو گٸ۔

وہ خالی سڑک پر پاگلوں کی طرح بھاگ رہا تھا۔۔۔ : رک جاٶ۔۔وہ پوری قوت سے چلایا اور پھر اسکی آنکھ کھل گٸ۔۔فل سردی میں بھی وہ پسینے میں شرابور تھا وہ سانس ایسے چل رہی تھی جیسے وہ میلوں تک بھاگتا ہوا آیا ہے۔کمرے میں اندھیرا پھیلا ہوا تھا فرہاد نے ہاتھ بڑھا کر ساٸیڈ لیمپ آن کیا۔پیاس سے اسکا گلا خشک ہوگیا گیا وہ بیڈ سے نیچے اترا اور سامنے میز پر رکھے ہوۓ جگ سے پانی گلاس میں ڈالا اور ایک ہی سانس میں پی گیا اب وہ پرسکون ہونے کی کوشش کررہا تھا اسے گبھراہٹ محسوس ہو رہی تھی وہ کھڑکی کے پاس آیا اور پورا کھول کر کھڑا ہو گیاٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا اس سے ٹکرایا۔۔بہت عجیب خواب تھا وہ ابھی تک اس خواب کے زیرِاثر تھا اسکو کیسے پتا چلا میں جا رہا ہوں؟ ابھی رات ہی تو بات کی تھی میں نے آغا جی سے کہ میں اسپیشلاٸزیشن کے لیۓ ابروڈ جا رہا ہوں۔۔پر اسے کیسے پتا چلا؟آخر کیسے؟فرہاد کا دماغ ماٶف ہونے لگا۔ ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا اور ساتھ ہی اللہ اکبر اللہ اکبر کی آواز گونجی۔

فرہاد نے ٹاٸم دیکھا صبح کے ساڑھے تین بج رہے تھے مٶذن تہجد کی اذان دے رہا تھا۔۔وہ آنکھیں بند کر کے اذان سننے لگ گیا۔۔آٶ کامیابی کی طرف۔۔مٶذن پکار رہا تھا اور فرہاد کے دل میں سکون اتر رہا تھا اذان ختم ہو چکی تھی فرہاد نے کھڑکی سے باہرسر نکال کر ٹاٶن میں موجود مسجد کی طرف دیکھا جہاں سے کچھ دیر پہلے اذان کی آواز آرہی تھی۔فرہاد نے کھڑکی بند کی اپنا کوٹ اٹھایا اور کمرے کا دروازہ بند کرتے ہرۓ سیڑھیاں اترتے نیچے آیا۔۔آغا جان کے کمرے کی لاٸٹس آن تھی اسکا مطلب وہ بھی اٹھے ہوۓ تھے تہجد پڑھنا انکا معمول تھا۔اب وہ گیٹ کی طرف جا رہا تھا اسے دیکھ کر گارڈ نے گیٹ کھولا وہ گیٹ سے باہر نکل آیا اب اسکے قدم مسجد کی طرف اٹھ رہے تھے اور کانوں میں ایک ہی آواز گونج رہی تھی۔۔آٶ کامیابی کی طرف۔۔آٶ کامیابی کی طرف۔۔

بےشک وہ اس زات سے ایک عرصہ تک ناراض رہا ہے پر آج اسے کسی اور کےلیۓ کچھ مانگنا تھا اور اس نے ہمیشہ آغا جی سے سنا تھا کہ یہ وقت بہت قبولیت کا ہوتا ہے۔اور آج اسے اپنی دعاٶں کو قبول کروانا تھا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥
ہم اوس کے قطرے ہیں کہ
بھکرے ہوۓ موتی۔۔
دھوکہ نظر آۓ تو 
ہمیں رول کر دیکھو۔۔

سینما ہاٶس کے باہر کافی رش تھا زی کا پورا گروپ مووی ختم ہونے کے بعد سینما سے باہر جا چکا تھا وہ جو اپنا بیگ اندر ہی اپنی سیٹ پر بھول گٸ تھی اسے لینے واپس آٸ تو تبھی وہ زی کے پاس آیا۔ہے زی کیسی ہو؟ زی نے پلٹ کر دیکھا وہ اسکے پیچھے کھڑا تھا۔
تم۔۔ تمہیں اور کوٸ کام نہیں ہے کیا؟ تم یہاں بھی آگۓ۔۔زی کے چہری پر واضح ناگواری تھی۔ایک پل کے لیۓ سامنے کھڑے شخص کے چہرے کا رنگ بدلا دوسرے ہی پل اس نے قہقہہ لگایا۔تمہارا پیچھا نہیں کر رہا میں بھی یہاں مووی دیکھنے آیا ہوں ٣٠ منٹس کی بریک کے بعد سٹارٹ ہوگی۔ویسے میں نے سنا ہے کہ تم لوگوں نے کوٸ لو سٹوری مووی دیکھی ہے۔۔اینڈنگ اچھی ہوٸ کہ نہیں؟ ہیرو کو ہیروٸین ملی کہ نہیں؟وہ زی کو چڑانے کے لیۓ مسکراہٹ دباۓ پوچھ رہا تھا۔
تمہاری فضول باتوں کے لیۓ ٹاٸم نہیں ہے میرے پاس۔زی نے جانے کےلیۓ قدم بڑھایا تو وہ اسکو راستے میں کھڑا ہو گیا بالکل اسکے سامنے راستہ روک کر۔۔چلی جانا پہلے جواب تو دے دو۔
راستہ چھوڑو میرا۔۔زی نے غصے سے کہا۔
اگر نا چھوڑوں تو؟؟ اب وہ پوچھ رہا تھا۔
یہ میرا بیگ دیکھ رہے ہو شاید تم جانتے بھی نہیں ہو کہ اس میں کیا ہے۔یہ تمہارے منہ پر لگے گا مسٹر رون۔۔اور تم یہ بالکل بھی چاہو گے کہ مووی دیکھنے کی بجاۓ تمہیں ہاسپٹل جانا پڑے اپنے ناک کی ٹوٹی ہوٸ ہڈی جڑوانے یا ٹوٹے ہوۓ دانت دوبارہ لگوانے کےلیۓ۔۔زی نے ایک ایک لفظ چبا کر جواب دیا۔

ہاہاہا۔۔رون نے پہلے تو قہقہہ لگایا اور پھر ایک دم سیریس ہوا۔تمہاری یہی باتیں تو جان لیتی ہیں میری۔۔اچھا بس یہ بتا دو کہ کیا ہے ایسا اس ریم<رومان>میں جو مجھ میں نہیں ہے؟ وہ زی کی آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ پوچھ رہا تھا۔بتاٶ مجھے۔۔وہ ایک قدم آگے بڑھا۔کیا ہے اس میں ایسا جو میرے پاس نہیں ہے؟ 

خود پر ایک نظر ڈالو رون اور پھر دیکھو۔۔فرق تمہیں خود ہی پتا چل جاۓ گا۔۔زی نے طنز سے کہا تھا۔ رون گہری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اسے اور اسکی باتوں پر بھی غور کر رہا تھا اور پھر اسے احساس ہو کہ وہ اسکا راستہ روکے کھڑا ہے۔۔وہ اسکے راستے میں حاٸل تھا۔۔اوووو شٹ۔۔ریم تو ایسا کبھی بھی نہیں کر سکتا کہ وہ کسی لڑکی کا خواہ وہ زی ہی کیوں نا ہو اسکا راستہ روکے۔۔۔فرق واضح تھا۔۔رون اور ریم کا فرق واضح تھا رون کو احساس ہوا اور وہ بنا کچھ بولے اسکے راستے سی ہٹ گیا اور اسے گزرنے کے لیۓ راستہ دیا۔ زی دل میں خدا کا شکر کرتے ہوۓ بلڈنگ سے باہر نکل گٸ۔وہ زی کو جاتا دیکھ رہا تھا۔۔محبت۔۔۔محبت انسان کو راستے کا بھکاری بنا دیتی ہے۔۔رون کے گوپ کے لڑکوں نے اسے آواز دی اور پھر وہ سر جھٹک کر انکی طرف بڑھ گیا۔
زی ابھی تک نہیں آٸ۔۔شالے نے رکتے ہوۓ کہا۔زی کے گروپ میں سے چھ لوگ مووی دیکھنے آۓ تھے۔ریم اور ڈیرک سب سے آگے چل رہے تھے جبکہ انکے پیچھے جمی،میشا اور شالے۔۔تبھی شالے کو احساس ہوا کہ زی تو ابھی تک آٸ ہی نہیں جبکہ وہ لوگ کافی آگے نکل آۓ تھے۔

وہ دیکھو۔۔۔ریم نے اشارہ کیا۔۔زی بھاگتی ہوٸ آرہی تھی۔۔

تم لوگ رک نہیں سکتے تھے کیا؟ زی نے ہانپتے ہوۓ کہا۔۔ سوری۔۔شالے جو زی کی بیسٹ فرینڈ تھی اس نے سوری کیا۔انہوں نے دوبارہ چلنا شروع کیا۔پارکنگ ایریا بلڈنگ سے کافی دور تھا۔مووی کافی بورنگ تھی نا اور اینڈنگ بھی اچھی نہیں ہوٸ۔۔میشا نے منہ بناتے ہوۓ کہا۔

ہیرو اور ہیروٸین کو مل جانا چاہیۓ تھا۔۔زی کو بھی دکھ ہوا۔
پر رٸیل لاٸف میں ایسا ہی ہوتا ہیرو اور ہیروٸین نہیں مل پاتے۔۔شالے نے حقیقت پر نظر ڈالی۔وہ تینوں لڑکیاں مووی پر تبصرہ کر رہی تھیں۔

اوۓ سلی گرلز۔۔لو جیسی کوٸ چیز ایگزسٹ ہی نہیں کرتی یہ جسٹ موویز میں ہوتا۔۔پاگل پن۔۔ایسے ہی فضول ہے یہ سب جو دکھاتے ہیں۔۔ٹاٸم پاس۔۔ریم نے کہا اور پھر ڈیرک اور ریم دونوں ایک ساتھ ہنسے تھے۔
پیار کا وجود ہے۔۔زی نے جواب دیا۔اس سے پیار کی توہین برداشت نا ہوٸ۔
اچھا دکھاٶ زرا ۔۔مجھے تو کچھ نظر نہیں آرہا۔۔: ریم،ڈیرک ارو جمی تینوں کا قہقہہ ریم کی بات پر ایک ساتھ بلند ہو تھا۔
یس یہ ایگزسٹ کرتا ہے اور ریم تم انکار مت کرو میں نے سنا ہے جو اس سے انکار کرتا ہے یہ اسی کو ہوتا ہے اور اپنے آگے جھکا دیتا ہے۔۔شالے نے بھی زی کی تاٸید کی۔

اوو رٸیلی۔۔ریم نے حیران ہوتے ہوۓ کہا آٶ چیک کرتے ہیں۔ریم نے چند قدم آگے بڑھاۓ اور سڑک کے بالکل درمیان میں کھڑا ہو گیا۔۔لیٹس سی۔۔اس نے ان پانچوں کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رے تھے۔۔

”ہے لو۔۔اے محبت۔۔وہ آسمان کی طرف منہ کر کے پوری قوت سے چلایا۔۔یہ دیکھو میں نہیں مانتا تمہیں۔۔
آس پاس سے گزرتے ہوۓ لوگوں نے حیرت سے دیکھا اسے۔
ہے لو(اے محبت) لک ایٹ می۔۔پورے غرور سے کھڑا ہوں تمہارے سامنے۔۔بالکل سیدھا۔۔جھکا کر دکھاٶمجھے اپنے سامنے۔۔“
وہ ہنس رہا تھا ساتھ میں جمی،ڈیرک،میشا اور شالے بھی اسکے پاگل پن پر بس ایک زی خاموش کھڑی تھی۔حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ 

اے محبت سنا تم نے۔۔کہاں رہتی ہو؟ آٶ ڈھونڈو مجھے۔۔جھکا کر دکھاٶ۔۔اگر تم نے جھکا دیا میرا سر تو مان جاٶں گا تمہیں۔۔ہے لو سنا تم نے۔۔اب وہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھے تھوڑا جھکا ہو تھا اور ہنس رہا تھا بے تحاشہ۔۔لو ماٸ فٹ۔۔۔فضا میں نفرت سے بھری آواز گونج گٸ اسکی۔۔

ٹھک۔۔اور کتاب پڑھتی حرم کے ہاتھ سے کتاب اچھل کر نیچے گر گٸ۔۔کمرے کی کھڑکی جو صحن کی طرف کھلتی تھی ایک جٹھکے سے کھلی تھی اور اسکے دیوار سے لگنے کی وجہ سے ٹھک کی بہت تیز آواز پیدا ہوٸ تھی اور حرم جو کتاب پڑھنے میں اتنی مگن تھی اس آواز پر اسکا دل اچھل کر ہلق میں آگیا وہ بری طرح ڈر گٸ تھی۔۔
کیا ہوا حرم؟ شزا نے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ پوچھا اور حرم کا دل ابھی تک زور زور سے دھڑک رہا تھا وہ ابھی تک خوف کے زیرِاثر تھی اور نگاہیں کھڑکی پر تھیں جسکے دونوں پٹ اور آگے لگا ہوا پردہ بھی ابھی رک ہل رہا تھا۔شزا کی آواز پر وہ چونکی۔کچھ نہیں وہ کھڑکی کھل گٸ تھی۔حرم نے کتاب اٹھاتے ہوۓ جواب دیا۔

ہاں باہر بہت تیز ہوا چل رہی ہے۔۔موسم خراب ہو رہا ہے۔شزا نے کہا اور دوبارہ کمرے سے چلی گٸ۔

وہ اٹھ کر کھڑکی کے پاس آٸ اور باہر جھانکا واقعی ہوا بہت تیز چل رہی تھی۔آسمان پر بادل چھا جانے کے باعث ایک بھی ستارہ نظر نہیں آرہا تھا۔ناجانے کیوں اسکا دل ابھی تک دھڑک رہا تھا ایک عجیب سا احساس تھا جو اسے محسوس ہو رہا تھا۔۔

دور کہیں کسی نے محبت کو پکارا تھا بہت شدت سے۔۔کسی نے محبت کا مزاق اڑایا تھا۔۔فضا میں کسی صداکار کی محبت کی صدا دیر تک گونجتی رہی تھی پھر کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ حرم تک کا پہنچتی اسے محسوس نا ہوتی۔۔وہ کھڑکی بند کرکے کتاب اٹھا کر واپس اپنی جگہ پر بیٹھ چکی تھی۔۔مگر فضا میں محبت کی صدا گونجتی رہی کوٸ دیر تک محبت کی صدا لگاتا رہا تھا۔۔وقت تقدیر کے فیصلے کا منتظر تھا۔اور تقدیر نے وقت کے پنّوں پر ملن کی مہر لگاٸ۔۔ملن مقرر کر دیا گیا۔۔تو ملن طے تھا بہت جلد۔۔

💥💥💥💥💥💥💥💥

لاہور میں صبح سے ہی بادل چھاۓ ہوۓ تھے۔سردی کی شدت میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ موسم خاصہ خوشگوار ہو گیا تھا۔خلاف توقع آج حرم کا موڈ کافی اچھا تھا۔دل میں جو غبار تھا وہ پچھلی رات کو آنسوٶں میں بہا دینے کے بعد اب وہ کافی پرسکون تھی۔اس نے سیاہ رنگ کا ٹراٶزر اور مہرون رنگ کی ٹخنوں سے ذرا اوپر تک آتی فراک پہن رکھی تھی۔سیاہ سویٹر پہنے ہوا تھا۔اپنے دھلے دھلاۓ چہرے اور اپنی نرم سی مسکراہٹ کے ساتھ وہ سیدھا دل میں اترتی محسوس ہو رہی تھی۔شزا اور حورعین نے ٹی وی کے آگے ڈیرا لگایا ہوا تھا دونوں بہت خوش نظر آرہی تھیں کیونکہ آج انہیں دسمبر کی چھٹیاں ہو گٸ تھیں۔پورے ایک ہفتے کےلیۓ وہ دونوں فارغ تھیں اور اسی خوشی کو سیلیبریٹ کرنے کے لیۓ انہوں نے ثنا کو پکوڑے بنانے پر لگایاہواتھا۔موسم بھی بارش کا تھا اور سونے پرسہاگہ یہ ہوگیا تھا کہ ساجدہ اور صابرہ خاتون دونوں بازار گٸ ہوٸ تھیں اسطرح جوٸ روک ٹوک نہیں تھی ان پر اور وہ سب کھل کر انجواۓ کر رہی تھیں۔حرم نے چاۓ بنا کر تھرمس میں ڈالی۔پورے کچن میں پکوڑوں کی خوشبو پھیلی ہوٸ تھی۔خوشبو تو شزا اور حوعین کے کمرے تک بھی پہنچ گٸ تھی لیکن وہ دونوں صبر و شکر سے کام لے کر وہیں پر بیٹھی رہیں کہ اگر کچن میں گٸ تو کام کرنے پڑے گا اور وہ دونوں تو پہلے ہی کام چور تھیں پھر رسک کیوں لیتیں۔۔۔
میں چھت کا راٶنڈ لگا آٶں۔۔حرم نے پلیٹ میں پکوڑے رکھتے ہوۓ کہا۔اسے یہ موسم اچھا لگتا تھا اور چھت سے کھلے آسمان کو دیکھنا وہ بھی اس موسم میں تو جیسے پاگل کرتا تھا۔
ہمیں خواب کیوں نظر آتے ہیں؟؟۔وہ حورعین اور شزا کے کمرے کے پاس سے گزری تو یہ آواز سن کر چونکی۔آواز اندر سے آٸ تھی۔غالباً کوٸ ٹی وی پروگرام چل رہا تھا۔وہ بھاگنے کے انداز میں کمرے میں داخل ہوٸ۔
پیچھے کرو۔۔ پیچھے کرو۔۔ وہ ان دونوں کے درمیان صوفے پر ہی جگہ بناتے ہوۓ بیٹھ گٸ۔ریموٹ شزا کے ہاتھ میں تھا اور چینل سرچ کرتا ہوا اسکا ہاتھ رکا اب وہ دونوں حرم کو حیرت سے دیکھ رہی تھیں۔
ارے وہاں لگاٶ نا جہاں خواب کے بارے میں بتایا جا رہا تھا۔۔حرم نے کہا۔
لو اب یہ میڈم خوابوں کی تعبیر جانے گی۔حورعین نے منہ بنایا۔شزا چینل بیک کر رہی تھی جبکہ حرم کی نگاہیں ٹی وی پر ہی جمی ہوٸ تھیں اور وہ پلیٹ سے پکوڑے اٹھا کرکھا رہی تھی۔تبھی باہر گیٹ پر بیل ہوٸ۔ 
جاٶ حورعین دروازہ کھولو لگتا ہے نبیل آگیا ہے۔
میں نہیں۔۔۔حورعین نے منہ بناتے ہوۓ کہا گرم بستر سے نکلنا عزاب لگتا تھا۔
جاٶ اب۔۔برگر بھی تو تم لوگوں نے ہی منگواۓ ہیں وہ ٹھنڈ میں باہر کھڑا ہے۔۔حرم نے غصے سے کہا۔
مرو تم لوگ۔۔حورعین بڑبڑاتے ہوۓ چلی گٸ۔

حرم لگتا ہے اس چینل پر بریک آگٸ ہے۔۔نہیں مل رہا پتا نہیں کہاں لگا ہوا تھا۔شزا نے اکتا کر کہا۔
تبھی ثنا ٹرالی پر چاۓ اور پکوڑے رکھ کر کمرے میں لے آٸ اور اس کے پیچھے پیچھے نبیل اور حورعین بھی آگۓ۔نبیل فوراً بیڈ پر پڑے ہوۓ کمبل میں گھس گیا وہ حرم، حورعین کا بھاٸ تھا اور حورعین سے چھوٹا تھا۔ ثنا نے سب کو انکی کھانے کی چیزیں دی وہ کھانے کے ساتھ ساتھ ہارر مووی دیکھنے میں مگن تھے۔
ایک بار پھر گیٹ پر بیل ہوٸ۔

ہیں اب کون آگیا۔۔وہ سبھی ایک دم اچھلے۔
اس گھر کی مالکنیں شاپنگ سے واپس آگٸ ہیں۔۔نبیل کا اشارہ امیّوں کی طرف تھا۔

اوو شٹ۔۔ہم نے تو کچن بھی اتنا گندا کیا ہوا ہے۔۔ ایسا حال دیکھ کر بہت ڈانٹ پڑے گی۔۔ثنا کے منہ سے نکلا۔
اب بیٹھ جاٶ آرام سے کچھ نہیں ہوتا۔۔حرم نے اسے بٹھاتے ہوۓ کہا وہ جو برتن سمیٹنے لگ گٸ تھی۔نبیل دروازہ کھولنے چلا گیا۔جبکہ شزا اور حورعین پوری طرح مووی دیکھنے میں غرق تھیں۔
دیکھو کون آیا ہے؟؟ نبیل نے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ کہا اور اسکے پیچھے ثانی آپی کمرے میں داخل ہوٸ۔۔ثانی آپی کو دیکھ کر ان چاروں کے منہ حیرت سے کھلے۔۔ اور پھر وہ چاروں خوشی سے چینختی ہوٸ اپنی جگہ سے اٹھیں۔ثانی آپی،حرم نے بڑے تایا کی بیٹی تھی۔
سب سے پہلے حرم ان سے گلے ملی اور پھر باری باری وہ تینوں۔ایک سال کا عبداللہ جو ثانی آپی کا بیٹا تھا اسے انکی گود سے شزا نے لے لیا۔
ہمیں تو یقین نہیں آرہا۔۔حرم نے کہتے ہوۓ انہیں بستر پر بٹھایا۔۔چچی لوگ کدھر ہیں؟؟ ثانی آپی نے پوچھا۔

وہ لوگ بازار گٸ ہیں۔۔ثنا نے جواب دیا۔حرم نے ثانی آپی کے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھے۔

آپی سب ٹھیک تو ہے نا؟تایا اور تاٸ سب خیریت سے تو ہے نا؟ حرم نے پریشان ہوتے ہوۓ پوچھا۔
ہاں اللہ کا شکر سب ٹھیک ہیں۔۔ابس جس دن سے ادھر آٸ ہوں اسی دن سے عبداللہ بیمار ہے۔امی ابو دونوں کسی شادی کی تقریب میں گۓ ہیں۔۔ثانی آپی نے بتایا۔
شادی کس کی ہے؟حورعین نے پوچھا۔
پتا نہیں ابو کے کسی دوست کے بیٹے کی تھی۔عبداللہ کی طبیعت آج زیادہ خراب تھی اس لیۓ میں ادھر آگٸ کہ چلو دونوں چچیوں میں سے کسی ایک کو اپنے ساتھ ہاسپٹل لے جاٶں گی۔

گڑیا کہاں ہے؟ آپ اسکو نہیں لے کر آٸیں؟ ثنا نے انہیں چاۓ کا کپ پکڑاتے ہوۓ پوچھا۔ ثانی آپی کے دو ہی بچے تھے بڑی تین سالا گڑیا اور ایک سالا عبداللہ جو اس وقت انکے ساتھ تھا۔
اسے میں شہرین کے پاس چھوڑ کر آٸ ہوں۔ثانی آپی نے جواب دیا۔شہرین ثانی آپی کی چھوٹی بہن تھی جو خرم اور ثنا کی ہی ہم عمر تھی۔
میں فون کر کے پوچھتی ہوں شاید امی اور آنٹی آنے ہی والی ہوں۔۔ حرم نے کال ملاتے ہوۓ کہا۔
انہیں پریشان مت کرو۔۔تم چلو میرے ساتھ۔۔ باہر ڈراٸیور گاڑی لے کر کھڑا ہے۔ثانی آپی نے مسٸلے کا حل پیش کیا۔

اوکے۔۔پانچ منٹ دیں مجھے میں بس ابھی ریڈی ہو کر آتی ہوں۔۔حرم نے کچھ سوچتے ہوۓ کہا اور وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گٸ۔۔
 پورے پانچ منٹس کے بعد وہ واپس کمرے آٸ تھی۔سیاہ رنگ گے گرم سٹالر سے اس نے نقاب کیا ہواتھا۔ سیاہ اور مہرون رنگوں کے امتزاج کی گرم شال کو اس نے اپنے چاروں طرف پھیلا لیا تھا۔بند جوتے پہنے وہ ثانی آپی کے ساتھ جانے کے لیۓ ریڈی تھی۔
ویسے آپی جانا کونسے ہاسپٹل ہے؟ حرم نے پوچھا۔
ڈاکٹر سمیع کے کلینک وہ چاٸلڈ اسپیشلسٹ ہیں۔۔ثانی آپی نے بتایا۔
ڈاکٹر سمیع اور ثانی آپی کے ہیسبنڈ وہاج بھاٸ دونوں بیسٹ فرینڈز ہیں۔۔وہاج بھاٸ کام کے سلسلے میں ملک سے باہر گۓ ہوۓ تھے اس لیۓ ثانی آپی اپنے ماٸیکے میں آٸ ہوٸ تھی۔
ارے حورعین وہ سامنے والی الماری سے میری بلیو رنگ کی فاٸل لے کر آنا کچھ نوٹس ہیں مجھے وہ کشف کو دینے ہیں اسکا گھر کلینک کے پاس ہی ہے۔
فاٸل لینے کے بعد اب وہ دونوں گیٹ سے باہر نکلیں۔ موسم کافی خراب ہو گیا تھا۔بارش شروع ہونے والی تھی جیسے۔وہ دونوں اب گاڑی میں بیٹھ گٸ تھیں جبکی شزا،حورعین اور ثنا گیٹ سے منہ باہر نکالے انہیں دیکھ رہیں تھیں۔
اب تم لوگ اندر چلو یا اعلان کروانا پڑے گا۔۔نبیل نے تینوں کو دیکھتے ہوۓ کہا۔اور وہ تینوں ہی منہ بنا کر اندر چلی گیٸں۔
ثانی آپی نے خیریت و عافیت کی دعا کی۔ڈرائيور گاڑی زن سے نکال کر لے گیا جبکہ حرم کو نہیں پتا تھا کہ اسکی زندگی کونسا نیا موڑ لینے والی ہے۔

     💥💥💥💥💥
عالیہ اپنی فاریہ بھابھی کو تو فون لگاٶ زرا انہیں پوچھو کہ حمزہ اور فرہاد خیر خیریت سے لاہور پہنچ گۓ کہ نہیں۔۔پتا نہیں کیوں دونوں کا نمبر بند ہے۔ اب تک تو انہیں پہنچ جانا چاہیۓ تھا۔زیبا بیگم گے لہجے میں پریشانی تھی۔
فاریہ بھابھی ڈاکٹر سمیع کی واٸف تھی جو لاہور ہی میں رہتی تھی۔
جی ماما کرتی ہوں۔۔عالیہ نے کال ملاٸ۔دو تین بیل جانے کے بعد کال فاریہ بھابھی نے کال ریسیو کی۔اچھا بھابھی یہ بتاٸیں آپ کے دونوں دیور پہنچ گۓ؟سلام دعا کے بعد عالیہ نے پوچھا۔
ہاں جی وہ دونوں دو گھنٹے پہلے ہی پہنچ گۓ تھے۔پریشان والی کوٸ بات نہیں ہے۔فاریہ بھابھی نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا۔
مما پوچھ رہی ہیں کیا کر رہے ہیں بھاٸ؟انکی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ عالیہ نے پوچھا۔
حمزہ توکھانا کھانے کے فوراً بعد سو گیا تھا جبکی فرہاد ہاسپٹل جانے کیلیۓ ریڈی ہو رہا ہے۔فاریہ بھابھی نے بتایا۔
اچھا یہ آپ مما سے بات کریں انہیں آپ سے بات کرنے کی جلدی ہر رہی ہے۔ عالیہ نے فون زیبا بیگم کی طرف بڑھایا۔۔اسلام علیکم کیسی ہیں ممانی آپ؟ فاریہ بھابھی اب زیبا بیگم سے بات کر رہی تھی۔ 
ارے فاریہ تم اسلام آباد کا چکر کب لگاٶ گی؟ زیبا بیگم مسکرا جر پوچھ رہی تھی۔
ممانی جب آپ فرہاد کی شادی کریں گی تب آٶں گی۔۔ فاریہ بھابھی نے مسکراتے ہوۓ کہا۔
اسکا مطلب آپ نےاسلام آباد کبھی بھی نہیں جانا؟ پیچھے سے فرہاد نے ہانک لگاٸ۔اس نے فاریہ بھابھی کی آخری بات سن لی تھی۔
کیوں تم نے شادی نہیں کروانی کیا؟ فاریہ بھابھی نے بھی الٹا سوال کیا۔
اوکے میں چلتا ہوں۔۔سمیع بھاٸ میرا ویٹ کر رہے ہونگے۔۔آپ مما سے بات کریں۔۔وہ بنا جواب دیۓ چلا گیا۔اسکے جانے کے بعد فاریہ بھابھی دوبارہ زیبا بیگم کی طرف متوجہ ہو چکی تھی۔
وہ جا رہا تھا۔۔اسے نہیں پرا تھا زندگی کے اس راستے پر ایک نیا موڑ اسکا منتظر ہے۔۔کچھ بدلنے والا ہے یا سب کچھ۔۔کون جانے؟؟ تو ملن طے تھا۔۔ہاں آج ملن ہی تو تھا۔۔
       ❄❄❄❄❄

آپ لوگ ادھر بیٹھیں۔ڈاکٹر سمیع اس وقت میٹنگ میں ہیں بس کچھ ہی دیر میں آجاٸیں گے۔ملازم انہیں ڈاکٹر کے آفس میں بٹھا کر چلا گیا۔کمرہ کافی بڑا اور کھلا تھا۔کمرے میں سو دروازے تھےایک وہ جس سے وہ لوگ اندر آۓ تھے اور دوسرا دروازہ دوسری جانب تھا جو ہاسپٹل کے پیچھے کے لان میں کھلتا تھا۔جس دیوار میں دوسرا دروازہ تھا وہ پوری شیشے کی بنی ہوٸ تھی البتہ اس وقت اس پر پردے لگے ہوۓ تھے۔
آپی ڈاکٹر سمیع کا ہاسپٹل کافی شاندار ہوتا جارہا ہے دن بدن۔۔حرم نے کمرے کا تفصيلی جاٸزہ لینے کے بعد کہا۔
ہاں۔۔کافی اچھا ہو گیا ہے۔ثانی آپی نے جواب دیا۔
ہمم۔۔میں تو یہاں تین سال بعد آٸ ہوں۔فرسٹ ٹائم بھی آپکے ساتھ ہی آٸ تھی۔حرم نے مسکراتے ہوۓ کہا۔
تبھی دروازہ کھلا اور ملازم اندر آیا اور چائے رکھنے کے بعد واپس چلا گیا۔کمرے کی خاموشی کو ثانی آپی کے موبائل پر ہونے والی بیل نے توڑا۔۔وہاج بھاٸ کی کال ہے۔۔حرم نے موبائل انکی طرف بڑھایا۔جبکہ وہ خود چائے پینے کے ساتھ ساته شیشے کی دیوار کے باہر لان کو دیکھ رہی تھی۔شام ہو گٸ تھی اور بارش بھی شروع ہو چکی تھی۔۔

   ❄❄❄❄❄❄
اس نے دروازہ کھولنے کیلیۓ ہاتھ دروازے پر بنے ہینڈل پر رکھا اور پھر اندر سے آتی آواز پر چونک گیا۔
میں نے کہا نا نہیں جانا۔۔مجھے اکیلا چھوڑ کر۔۔مجھ سے ملے بنا۔۔پلیز مت جاٶ نا ابھی۔۔
وہ حیران ہوا وہی لہجہ۔۔اسکے زہن میں کچھ دن پہلے نظر آنے والا خواب گھوم گیا۔۔
جا رہے ہو مجھے اکیلا چھوڑ کر۔۔کہاں جاٶ گے مجھے چھوڑ کر۔۔ کیوں جا رہے ہو میرے بنا۔۔
ہاں یہی تو کہا تھا اس نے خواب میں۔۔اور ایسا ہی کچھ اندر موجود لڑکی بول رہی تھی۔
اسکا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔تبھی موبائل پر بیل ہوٸ اور وہ ٹرانس کی کیفیت سے باہر نکلا اور موبائل کو دیکھتے ہوۓ واپس چلا گیا۔
کچھ دیر بعد وہ ڈاکٹر سمیع کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔
اسلام علیکم۔۔ ڈاکٹر سمیع نے سلام کیا۔
ثانی بھابھی ان ست ملو یہ ہیں میرے بہت ہی پیارے کزن بھاٸ اور فرینڈ ڈاکٹر فرہاد علی آغا۔۔اور فرہاد یہ ہیں میرے بیسٹ فرینڈ وہاج کی بیگم۔۔ڈاکٹر سمیع نے تعارف کروایا۔
سمیع بھاٸ آپ بھول گۓ ہیں شاید میں انسے پہلے بھی ملا تھا آپکے گھر پر ہی۔۔فرہاد نےمسکراتے ہوۓ کہا۔
اووو ہاں۔۔میں تو سچ میں ہی بھول گیا تھا۔۔ڈاکٹر سمیع بھی مسکراۓ۔۔۔فرہاد کی نگاہیں کمرے میں کسی کو ڈھونڈ رہی تھی۔۔تو فون پر بات ثانی بھابھی کر رہی تھی؟ کیونکہ روم میں تو اور کوٸ بھی نہیں تھا۔ڈاکٹر سمیع اب مکمل طور پر عبداللہ کا چیک اپ کر رہے تھے اور ثانی آپی اسکی کنڈیسن بتا رہی تھی۔
آپ اکیلی آٸ ہیں؟ بالآخر فرہاد نے پوچھ ہی لیا۔
نہیں میری چھوٹی سسٹر ساتھ ہے وہ فون سننے باہر گٸ ہے موسم کی وجہ سے ادھر روم میں نیٹ ورک پرابلم ہو رہا تھا۔ ثانی آپی نے بتایا جبکہ فرہاد کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ ایک چھوٹی سی بات کو اتنا کیوں سر پر سوار کر رہا تھا۔
تبھی لاٸٹ چلی گٸ کمرے میں صرف ایک ایمرجنسی بلب آن ہوا اور اسکی روشنی بھی دھیمی تھی۔ 

فرہاد یہاں پچھلے لان میں مالی بابا ہونگے اور ادھر ہی جنریٹر رکھا ہوا ہے مجھے لگتا ہے اس میں کچھ پرابلم ہو گیا ہے تبھی ساری لاٸٹس آن نہیں ہوٸ تم زرا چیک کرو۔۔ڈاکٹر سمیع نے پچھلے لان کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔بارش کافی تیز ہو رہی تھی۔فرہاد جو ہاتھ میں پکڑی فاٸل کھولنے والا تھا ڈاکٹر سمیع کی بات سن کر پچھلے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ یہاں کافی اندھیرا تھا اور بادلوں کی گرج و چمک نے کافی وحشت پھیلاٸ ہوٸ تھی۔اندھیرے ہونے کی وجہ سے اسے کچھ نظر نہیں آیا اور تبھی اندر آتے ہوۓ ایک وجود سے بری طرح ٹکرا گیا۔۔۔

ہلکی سی نسوانی چینخ ابھری اور فاٸل اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گری۔جبکہ حرم جو پہلے ہی بجلی کی گرج و چمک سے ڈر گٸ تھی اس نٸ افتاد پر اچھل پڑی اسکا دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا کہ ابھی پسلیاں ٹوڑ کر باہر آجاۓ گا۔ 
ایم سوری۔۔ وہ اندھیرا ہونے کی وجہ سے مجھے نظر نہیں آیا۔۔وہ معزرت کر رہا تھا اور ساتھ ہی جھک کر فاٸل اٹھا رہا تھا۔۔ تبھی ایک بار پھر بجلی چمکی اور وہ دونوں چاندنی میں نہا گۓ۔۔حرم جو کوٸ سخت سا فقرہ بولنے والی تھی ایک دم چپ ہو گٸ۔۔سامنے کھڑا شخص بہت سے بھی بہت وجیہہ تھا۔۔۔حرم سے نظریں اسکے چہرے سے ہٹانا مشکل ہو گیا تھا۔ 
سوری اگین۔۔مجھے اندھیرے کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آیا۔۔وہ فاٸل پکڑاتے ہوۓ بولا۔۔تبھی بجلی ایک بار اور چمکی اور اس دفعہ وہ چونکا۔۔وہ وہی تو تھی سیاہ شال میں لپيٹی۔۔اندھیرا اور دوپٹہ آگے ہونے کی وجہ سے اسکا چہرہ صاف نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔ کچھ تھا۔۔کچھ اپنا سا۔۔وہ سمجھ نہیں سکا اور کچھ بول بھی نہیں سکا۔۔خاموشی گفتگو چاہتی تھی پر الفاظ تو جیسے گم ہو گۓ تھے۔۔بس بارش برسنے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔۔
اٹس اوکے۔۔میں ہی جلدی میں بنا دیکھے اندر آرہی تھی۔۔وہ بولی تھی اتنی دیر میں پہلی بار ۔۔ہاں۔۔وہی آواز تھی۔۔۔ وہ کچھ نا بولا۔۔خاموشی نے پھر چاہا کہ کچھ کہا جاۓ پر لفظوں نے ایک بار پھر دم ٹوڑ دیا وہ ایک مری مری سی نظر ڈال کر اس پر اندر کی جانب بڑھ گٸ۔۔ چلی گٸ۔۔؟ ہاں وہ اندر جا چکی تھی شیشے کی دیوار کے اس پار۔۔

جبکہ وہ وہیں اسی کاریڈور میں کھڑا تھا۔۔بارش متواتر سے ہو رہی تھی۔۔ وقت نے خاص موقع پر ملن کروایا تھا۔۔بارش کا میوزک بج رہا تھا جبکہ وہ اجنبیوں کی طرح آگے بڑھ چکی تھی تو پھر وہ کیوں کھڑا تھا وہیں پر۔۔ بارش کے قطرے بجلی کی چمک میں موتیوں کی طرح ہی چمک رہے تھے۔۔اور فرہاد لگ رہا تھا کہ جیسے آج کی بارش کوٸ پیغام دے رہی ہے اسے۔۔کوٸ بہت ہی خاص پیغام۔۔وہ پیغام جو اس وقت دیا جاتا۔۔وہ نگاڑہ جو اس وقت بجتا ہے جب۔۔ جب محبت حملہ آور ہوتی ہے۔۔ پر محبت تو اسکی زندگی سے کب کی نکل چکی تھی تو پھر یہ کیا تھا؟
چنبیلی کی بھینی بھینی خوشبو آرہی تھی وہ اپنی فاٸل سینے سے لگائے اس کاریڈور میں پلر سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔۔برستی بارش سے اسے ان کہی داستانوں کی سرگوشیاں سنائی دے رہی تھیں۔۔کچھ ہوا تھا یا ہونے والا تھا۔۔۔فرہاد کا دل گبھرا رہا تھا وہ ایسی کسی کہانی کا مرکزی کردار نہیں بننا چاہتا تھا۔۔مگر تقدیر کے اپنے ہی فیصلے ہوتے ہیں۔۔۔جس کے آگے سبھی بے بس ہوتے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

   ❤❤❤❤

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─