┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 4
بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدتوں میں ہم۔۔
قسطوں میں خودکشی کا مزہ ہم سے پوچھیۓ۔۔

حرم آپی۔۔جیا پکارتی ہوٸ کچن میں آٸ۔وہ چاۓ بنا رہی تھی جبکہ ثنا پاس ہی کھڑی تھی۔ادھر ہوں میں۔۔ حرم نے آواز لگاٸ۔
آپی آپکی فرینڈ کی کال آرہی ہے۔۔جیا نے موباٸل آگے کرتے ہوۓ کہا۔حرم نے موباٸل دیکھا جہاں شفق از کالنگ جگمگا رہا تھا۔ماما کہہ رہی ہیں کہ حورعین اور شزا کالج سے آنے والی ہیں انکے لیۓ کھانا بنا دینا وہ پڑوس میں آنٹی کے گھر گٸ ہیں اور ثنا آپی آپکی ماما بھی ساتھ جارہی ہیں کیونکہ وہ آنٹی عمرہ کرکے آٸ ہیں تو۔۔ وہ بولے جا رہی تھی۔
چپ کرو جیا مجھے سمجھ آگٸ ہے حرم نے اسکی بات کاٹتے ہوۓ کہا۔
ٹھیک ہے۔۔جیا کہتے ہوۓ کچن سے باہر چلی گٸ۔
ہیلو اسلام و علیکم! حرم نے کال پک کرتے ہوۓ کہا۔
وعلیکم اسلام کیسی ہو حرم؟دوسری طرف سے شفق کی آواز سناٸ دی۔
میں بالکل ٹھیک ہوں تم سناٶ کیا حال ہے۔۔حرم نے جواب دیا۔
کیا کر رہی تھی؟ وہ پوچھ رہی تھی۔
کچھ خاص نہیں بس چاۓ بنانے لگی تھی۔ٹھنڈ بہت ہے اور نہانے کے بعد تو اور بھی لگتی ہے۔۔حرم نے ہنستے ہوۓ کہا۔ چاۓ سے اسے کچھ یاد آیا اور اس نے فوراً چولہے کی طرف دیکھا جہاں چاۓ کےلیۓ پتیلی میں رکھا ہوا پانی ابل ابل کر خشک ہو چکا تھا۔۔ اووو شٹ۔۔حرم نے فوراً گیس کا بٹن بند کیا۔ یہ کیا ہوا؟پاس ہی سبزی بناتی ثنا بھی متوجہ ہوٸ۔ثنا پتیلی کو ہاتھ میں پکڑے اوپر سے نیچے تک معاٸنہ کر رہی تھی۔
سوری مجھے پتا نہیں چلا۔۔حرم نے معصومیت سے کہا۔
ثنا نے اسکے ہاتھ میں موباٸل دیکھا اور ہنستے ہوۓ کہا کوٸ بات نہیں میں دھو دیتی ہوں تم تب تک بات کرو۔
تھینک یو۔۔حرم مسکراٸ۔
اور شفق تم سناٶ کیا ہو رہا ہے آج کل؟ اب وہ شفق کی طرف متوجہ تھی۔
کچھ نہیں یار ماما حیدرآباد گٸ ہیں اور ادھر میرے پاس خالہ آٸ ہوٸ ہیں۔۔شفق اب اسے بتا رہی تھی۔
ہم م م م ٹھیک۔۔حرم نے کہا۔ تمھیں پتا ہے حرم میں نے اس سے بات کی پھر سے۔۔شفق نے کہا۔
کیا؟؟ تمھارا دماغ خراب ہو گیا ہے میں نے منع کیا تھا نا تمھیں؟ حرم نے غصے سے کہا اور پاس ہی پتیلی دھوتی ہوٸ ثنا نے چونک کر اسے دیکھا ثنا کو بس اسکی پشت نظر آرہی تھی حرم کا منہ دوسری طرف تھا لمبے شہد رنگ کے بال پوری حرم کی کمر پر بکھرے ہوۓ تھے۔۔
سوری حرم مجھے پتا نہیں کیا ہو گیا تھا مجھے پتا ہی نہیں چلا۔۔شفق رونے والی ہو گٸ تھی۔ 
چھوڑی ہوٸ چیز،راستے اور انسان کو مڑ کر نہیں دیکھتے۔۔ حرم نے شدت سے کہا تھا
جانتی ہوں حرم مگر خود کو چھوڑ دینا آسان نہیں ہوتا۔۔ مجھ سے نہیں رہا جاتا اسکے بنا۔شفق نے روتے ہوۓ کہا۔
اچھا اب رونا بند کرو تمھیں پتا ہے مجھے روتی ہوٸ لڑکیاں بالکل بھی پسند نہیں۔حرم نے بے زاری سے کہا۔
جانتی ہوں۔۔حرم تم بہت لکی ہو اور سمجھدار بھی۔ شفق نے ہنستے ہوۓ کہا۔۔
مجھے پتا ہے۔۔حرم اسکی بات پر مسکراٸ۔
تم دنیا کی سب سے خوش نصیب لڑکی ہو کیونکہ محبت تمہیں چھو کر تو کیا تمہارے پاس سے بھی نہیں گزری۔۔
حرم کا اسکی بات سن کر کیبن سے چینی نکالتا ہاتھ کانپا۔۔ ہونٹوں کی مسکراہٹ غاٸب ہوٸ۔۔ دل ڈوب کر ابھرا تھا اور چہرے پر گہری اذیت پھیل گٸ۔۔یہ کیا کہہ دیا تھا شفق نے؟؟۔یہ لو ثنا نے پتیلی دھو کر چولہے پر رکھی اب دھیان سے بنانا اور مجھے بھی دے دینا ایک کپ۔۔وہ کہتے ہوۓ کچن سے باہر چلی گٸ۔
کیاہوا؟ تم خاموش کیوں ہوگٸ ہو حرم؟ شفق کی آواز ابھری۔
کچھ نہیں۔۔ حرم نے مری مری آواز جواب دیا۔
اچھا ٹھیک ہے مں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں۔۔اللہ حافظ۔۔شفق نے کہا۔
اللہ حاف۔۔حرم نے کہتے ہوۓ کال کاٹ دی۔اور دونوں ہاتھوں سے شیلف کو تھام لیا کہ کہیں گر ہی نا جاۓ۔۔آنکھوں سے آنسو نکلے اور گالوں پر پھیل گۓ۔
نہیں میں اتنی کمزور نہیں ہوں اس نے خود سے کہتے ہوۓ ہاتھوں سے بے دردی کے ساتھ گال رگڑ ڈالے۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔اسنے خود سے کہا اور بالوں کو فولڈ کیا۔۔ایک لمحہ لگا تھا حرم کو نارمل ہونے میں۔۔بہت سٹوپڈ ہو تم حرم۔۔اس نے خود کو ڈانٹا اب ایسی غلطی مت کرنا۔۔اب وہ خود کو سمجھا رہی تھی بالکل پہلے والی حرم بن گٸ اور چاۓ بنانے لگ گٸ تھی۔۔مگر کون جانے اندر دل نے کب تک رونا تھا۔۔
   محبّتوں نے کس کس کو برباد کیا کون جانے۔۔

اسے اسطرح دیکھ کر ہواٶں کی ہنسی تمھی۔۔وقت اداس ہوا۔۔اور پھر وقت نے امید سے تقدیر کی طرف دیکھا۔۔تقدیر بھیگی پلکوں سے مسکراٸ۔۔اور پھر اس نے مسکراتے ہوۓ سفید پنوں پر نا جانے کیا لکھا جسے پڑھ کر ہواٶں کی ہنسی لوٹ آٸ اور وقت نے بھی گنگناتے ہوۓ گزرنا شروع کر دیا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥

اسلام و علیکم آغا جان!وہ ہاسپٹل سے سیدھا آغا جی سے ملنے انکی کمرے میں آیا تھا جو اپنے بستر پر لیٹے کوٸ کتاب پڑھ رہے تھے۔
آٶ بھی نواب صاحب کیسے ہو؟ آغا جی نے سلام کا جوب دیتے ہوۓ کہا کتاب بند کرکے ساٸیڈ ٹیبل پر رکھی اور سیدھے ہو کر بیٹھ گۓ۔
جی میں ٹھیک ہوں۔۔ فرہاد نے مسکرا کر جواب دیا۔
کہاں ہوتے ہو بھٸ آج کل مجھے تو نظر ہی نہیں آتے ہو۔۔ آغا جی نے پوچھا۔
بس وہ ہاسپٹل میں کام زیادہ بڑھ گیا ہے ٹاٸم ہی نہیں ملتا اور کچھ کرنے کا۔۔فرہاد نے جواب دیا۔
وہ تو ٹھیک ہے نواب صاحب مگر تمہیں اپنا بھی تو خیال رکھنا چاہیۓ یوں تو مریضوں کو دیکھتے دیکھتے تم خود بھی مریض بن جاٶ گے اور بھٸ گھوما پھرا کرو۔۔زندگی کو اچھے طریقے سے جیو۔۔یہ عمر تمہاری عیش کرنے کی ہے۔۔اتنا بورنگ تو میں بھی نہیں ہوا ابھی۔۔ اور تم ابھی سے اتنے سنجیدہ اور اداس رہنے لگے ہو۔۔آغا جی نے اسے سمجھایا۔
جی آغا جی۔۔فرہاد نے مسکراتے ہوۓ کہا۔
ایک حل میرے پاس بھاٸ کی اداسی دور کرنے کا۔۔ عالیہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ کہا وہ آغا جی کے لیۓ چاۓ لاٸ تھی اور اس نے غالباً دونوں کی باتیں بھی سن لی تھیں۔
بھٸ وہ کیا؟؟ آغا جی نے اشتیاق سے پوچھا۔

ہمیں نا بھاٸ کی شادی کر دینی چاہیۓ جب بھابھی آ جاٸیں گی نا تو وہ ساری اداسی ختم کر دینگی بھاٸ کی۔کیوں آغا جی ٹھیک کہا نا میں نے؟ عالیہ نے خوش ہوتے ہوۓ پوچھا۔
عالیہ کی بات سن کر آغا جی کے چہرے کا رنگ بدل گیا جبکہ فرہاد کی مسکرہٹ غاٸب ہوٸ اور اسکی جگہ اب چہرے پر سردوجامد سے تاثرات تھے۔

ویسے کہہ تو تم ٹھیک ہی رہی ہو۔۔آغا جی نے فرہاد کی طرف دیکھتے ہوۓ عالیہ سے کہا۔

 ہر وقت فضول باتیں مت کیا کرو عالیہ۔۔ فرہاد نے آغا جی بات سنتے ہوۓ عالیہ کو ڈانٹا۔ میں ابھی آتا ہوں آغا جی اور اتنا کہہ کر کمرے سے چلا گیا۔پیچھے آغا جی اور عالیہ رہ گۓ تھے۔۔
یہ کیا ہو گیا ہے بھاٸ کو وہ ایسے تو نہ تھے؟ عالیہ نے روتے ہوۓ کہا۔
وہ ابھی تک ماضی کو نہیں بھلا پایا ہے اور پھر بیٹا دودھ کا جلا تو چھاج بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ آغا جی نے عالیہ کو چپ کرواتے ہوۓ کہا۔
پر بھاٸ نے تو کبھی کسی کے ساتھ برا نہیں کیا پھر انکے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ عالیہ نے پوچھا۔
شاید اللہ پاک کی کوٸ بہتری ہو اس میں۔۔آغا جی نے جواب دیا۔
وہ کونسی بہتری ہے آغا جی جس نے بھاٸ کی زندگی اجاڑ دی وہ جینا بھول گۓ ہیں وہ تو ہمیں محسوس بھی نہیں ہونے دہتے کہ انہیں کوٸ دکھ بھی ہے بس اندر ہی اندر مر رہے ہیں وہ ایک مشین کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔
 
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر۔۔
غم سے پتھر ہو گیا مگر رویا نہیں وہ۔۔

 عالیہ کے رونے میں اور شدت آگٸ تھی۔ بس کرو عالیہ آغا جی نے اسے اپنے قریب کرتے ہوۓ کہا تم دیکھنا اسکی زندگی میں ایک ایسا انسان آۓ گا جو نی صرف اسکو ہنسنا اور جینا سکھا دے گا بلکہ اسکے ماضی کے زخموں پر ایسا مرہم رکھے گا فرہاد کو محسوس ہوگا کہ کبھی ایسے ناخوشگوار دن اسکی زندگی میں آۓ ہی نہیں تھے۔
اللہ کرے ایسا ہی ہو عالیہ نے آنسوں صاف کرتے ہوۓ کہا۔
آمین۔۔ آغا جی نے بھی صدق دل سے کہا اور چاۓ اٹھا کر پینے لگ گۓ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
    ❤❤❤❤❤❤

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─