┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 3

آغا ہاٶس میں آج کافی رونق لگی تھی۔ڈاکٹر سمیع اور حمزہ ادھر ہی آۓ ہوۓ تھے۔لاٶنج میں اس وقت آغا جی،سجاد علی آغا 
نتاشہ بھابھی،عالیہ اور مسز زیبا بیگم جو فرہاد کی ماما تھی سب اکٹھے بیٹھے ہوۓ تھے جبکہ فرہاد کا انتظار کیا جارہا تھا۔
اور بھٸ ڈاکٹر صاحب کیسا ہے آپکا کلینک؟ آغا جی نے ڈاکٹر سمیع سے پوچھا۔

جی بہت اچھا۔آپ آٸیں کبھی لاہور آپکو سیر کرواٶں۔۔ڈاکٹر سمیع نے آغا جی کی طرف متوجہ ہوتے ہوۓ کہا۔

ارے کہاں مجھے تو کورٹ سے ہی ٹاٸم نہیں ملتا اور اب تو عمر بھی اتنے دور کے سفر کے لیۓ اجازت نہیں دیتی۔آغا جی ریٹاٸرڈ کمشنر ہونے کے ساتھ اب کورٹ میں جج کے فراٸض سر انجام دے رہے تھے۔
ارے آغا جی ابھی سے کہاں ابھی تو آپ بہت جوان اور ہینڈسم ہیں آپکے آگے تو لڑکیاں ہمیں گھاس نہیں ڈالتیں۔۔ حمزہ نے مسکراتے ہوۓ کہا وہ ہر وقت مزاق کے موڈ میں رہتا تھا۔

 اسکی بات سن کر سبھی ہنس تھے۔ شرم کرو برخودار آپکے تو بہت پر نکل آۓ ہیں۔۔آغا جی نے مصنوعی ناراضگی سے غورا اسے۔
اور سمیع بیٹا فاریہ اور بچے کیسے ہیں تمہارے؟ زیبا بیگم ڈاکٹر سمیع سے پوچھ رہی تھی۔
جی ممانی اللہ کا شکر ہیں سب ٹھیک ہیں۔
ہاں ہاں کیوں نہیں آپ اور سجاد بھاٸ دونوں بیوی بچوں والے ٹھیک ٹھاک ہیں کوٸ میرا اور فرہاد کا کیوں نہیں سوچتا۔۔ حمزہ نے رونی صورت بنا کر کہا۔

 ارے فرہاد کو تو کوٸ جلدی نہیں ہے پر لگتا ہے آپکی پہلے کرنی پڑے گی۔۔نتاشہ بھابھی نے حمزہ کو چھیڑتے ہوۓ کہا۔
ارے واہ بھابھی آپ تو کمال کرتی ہیں دل کی بات جان لی آپ نے میری۔۔ حمزہ خوش ہوتے ہوۓ بولا۔سبھی اسکی بات پر مسکراۓ تھے۔
واٶ اسکا مطلب ایک اور بھابھی آجاۓ گی میری۔۔ عالیہ خوش ہوتے ہوۓ بولی۔
ڈاکٹر سمیع اور حمزہ کی کوٸ بہن نہیں تھی جبکہ سجاد اور فرہاد کی بھی ایک ہی چھوٹی بہن تھی عالیہ جو ایم بی اے کر رہی تھی یوں وہ چاروں کی اکلوتی اور لاڈلی بہن تھی۔
ارے عالی دعا کرو تمھاری یہ بھابھی جلدی سے مجھے مل جاۓ۔۔ حمزہ نے حسرت سے کہا۔

اسلام وعلیکم! فرہاد نے لاٶنج میں داخل ہوتے ہوۓ کہا۔
وعلیکم اسلام!سب نے ایک ساتھ جواب دیا۔وہ اپنا بیگ صوفے پر رکھتے ہوۓ زیبا بیگم کے پاس بیٹھ گیا تھا زیبا بیگم اپنے بیٹے کو بہت پیار سے دیکھ رہی تھی جو دو دن کی ڈیوٹی کے بعد آج گھر آیا تھا۔تھکا ہوا لگ رہا تھا۔
کیسے ہو برخودار؟ آغا جی نے پوچھا۔
تھک گیا ہوں بہت مگر یہاں تو کافی رونق لگی ہوٸ ہے۔فرہاد نے خوش ہوتے ہوۓ کہا۔

جی جی جناب بس آپکا انتظار کیا جا رہا تھا کہ آپ آٸیں تو ہم کچھ کھاٸیں۔ قسم سے بہت بھوک لگی ہے مجھے۔حمزہ نے جلتے ہوۓ کہا۔

ہاہا اوکے میں فریش ہو کر آتا ہوں اور تم ہمیشہ بھوکے ہی رہنا بھوکڑ کہیں کے۔۔ فرہاد نے اٹھتے ہوۓ کہا اور سیڑھیاں چڑتا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔۔ 
ہاں تمھیں تو جیسے بھوک لگتی ہی نھیں۔۔ پیچھے سے حمزہ کی آواز آٸ تھی دونوں کی نوک جھونک ایسے ہی چلتی رہتی تھی۔
💥💥💥💥💥💥💥💥

اب بتا بھی دو شزا کیا خوشخبری ہے؟ حرم نے اکتاۓ ہوۓ لہجے میں کہا وہ پچھلے دس منٹوں سے شزا کی منتیں کر رہی تھی۔حوعین جو کہ رسالا پڑھ رہی تھی اب اسے بند کر کے انکی طرف متوجہ ہو چکی تھی۔
ویسے خوشخبری اتنی بڑی نہیں ہے۔حورعین کو بھی پتا ہے اس بات کا۔۔شزا نے سوچتے ہوۓ کہا۔
تم بتاٶ اب جلدی سے۔۔حرم نے حورعین کی طرف دیکھا۔
بات یہ ہے کہ ثانی آپی آٸ ہوٸ ہیں اور وہ دسمبر کی چھٹیاں ادھر کی تایا ابو کے گھر گزاریں گی۔شزا نے آخر بتا ہی دیا۔
واٶ یہ تو مزے کی بات ہے پر تم لوگوں کو کیسے پتا؟ حرم کو تجسس ہوا۔
آج فون آیا تھا انکا تم ویسے بھی اس دنیا میں نہیں رہتی تمہیں کیا خبر ہوگی کہ کون آجا رہا ہے۔ شزا نے منہ بسورتے ہوۓ کہا۔
ویسے انہوں نے ہمیں بلایا ہے چلو اس بہانے ہم تایا ابو کا نیا گھر بھی دیکھ لیں گے۔حورعین خوش تھی۔
ہممم۔۔حرم کچھ سوچ رہی تھی۔
یہ لو تمھاری چاۓ۔۔ثنا نے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ کہااور چاۓ کاکپ حرم کے آگے کیا۔
شکریہ۔۔حرم نے مسکرا کر جواب دیا۔
کبھی مجھے بھی پلادیا کرو چاۓ۔بہن تم میری ہو اور چاۓ حرم کو پلاتی ہو روز۔۔ شزا نے خفا ہوتے کہا۔
اووووو ہو۔۔ جیلس نہیں ہوتے بچے۔۔ ثنا مسکراٸ۔
ویسے ثنا تم حرم سے اتنا پیار کیوں کرتی ہو؟ حورعین رازداری سے پوچھ رہی تھی۔

کیوں بتاٶں؟ یہ راز ہے۔۔ ثنا نے صاف انکار کیا بتانے سے۔
حرم انکی باتیں سن رہی تھی اور ساتھ ساتھ چاۓ پی رہی تھی۔اوکے میں نماز پڑھ لوں عشا کی تم لوگ باتیں کرو ۔ حرم نے اٹھتے ہوۓ کہا اور کپ ثنا کو واپس کردیا۔ 
ویسے کیا ہمیں وہاں جانے کی اجازت مل جاۓ گی؟ حرم کے جانے کے بعد شزا نے حورعین سے پوچھا۔

پتا نہیں میں بھی یہی سوچ رہی ہوں۔حورعین نے کہا اور اپنا رسالا دوبارہ اٹھا لیا۔
مجھے بھی سناٶ کہانی۔شزا سکے پاس ہی لیٹ گٸ
پہلے میں پڑھ لوں تم بعد میں پڑھنا۔ حورعین نے منع کردیا۔
بہت خراب ہو تم۔۔شزا نے حورعین کے بازو پر تھپڑ مارتے ہوۓ کہا۔
اور تم تو جیسے بہت معصوم ہو حوعین نے الٹا مار کر بدلا لیا اپنا۔۔ دونوں نے ہنسنا شروع کیا 
اوکے جلدی پڑھو پھر میں نے بھی پڑھنا ہے۔
اوکے حورعین نے اثبات میں سر ہلایا۔
💥💥💥💥💥💥💥💥

پھرتی ہوں در بدر تجھے ڈھونڈتے ہوۓ۔۔
تو اپنے ہونے کا کوٸ نشان تو دے۔۔

مدر مارگریٹ آپ سے ملنے کوٸ آیا ہے۔۔مس میری نے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوۓ کہا۔

مدر مارگریٹ نے جو بڑی سی میز کے پیچھے کرسی پر بیٹھی فاٸلز پر جکی ہوٸ تھی چونک کر سر اٹھایا اور سوچا کہ اتنی صبح صبح کون آسکتا ہے؟ ٹھیک ہے آپ اسے اندر بیجھ دیں۔
مارگریٹ ایک عمر رسیدہ خاتون تھی جو پچھلے 30 سالوں سے ایک orphanage institute چلا رہی تھی institute کافی بڑا تھا جہاں یتیم بچوں کی پرورش کے ساتھ انکو تعلیم بھی دی جاتی تھی۔۔سکول کے سارے ٹیچرز اور بچے اسے مدر مارگیٹ ہی پکارتے تھے جو ان سب کیلیۓ ماں کا درجہ ہی رکھتی تھی وہ مخصوص قسم کا سیاہ گاٶن پہنتی تھی انہیں موٹے شیشوں والا چشمہ لگا ہوا تھا وہ ایک سمجھدار لیڈی تھی۔ انکے آفس میں میز کے عین پیچھے دیوار پر ایک بڑا سا صلیب کا نشان تھا اور داٸیں طرف لکڑی کے شیلف تھے جن میں بہت سی فاٸلز اور کتابیں ترتیب سے رکھی تھیں جبکہ باٸیں طرف دیوار پر ایک بورڈ لگا ہوا تھا جس پر سکول کے مختلف ایوینٹس اور فنکشنز پر لی گٸیں بچوں اور ٹیچرز کی تصویریں چسپاں تھیں۔۔!
گڈ مارننگ مدر۔۔اندر والے انسان نے دروازہ کھولتے ہوۓ کہا۔
اوو زی۔۔ماٸ چاٸلڈ۔۔اندر آٶ۔۔اینڈ مارننگ ٹو یو۔۔مدر مارگریٹ نے خوشی سے کہا۔وہ اندر آگٸ ۔
بیٹھو۔۔انہوں نے سامنے رکھی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔کیسی ہو ماٸ چاٸلڈ؟ اب وہ پیار سے پوچھ رہی تھی۔

آٸ ایم گڈ۔۔زی نے مسکراکر جواب دیا۔
آج اتنی صبح صبح۔۔سب ٹھیک تو ہے نا؟ مدر مارگیریٹ تھوڑا پریشان ہوٸ۔

جی مدر سب ٹھیک ہے بس آپ سے ملنے کو دل کر رہا تھا۔
زی نے اسی سکول سے پڑھا تھا اور وہ مارگریٹ کی فیوریٹ بچوں میں سے تھی۔سکول سے جانے کے بعد بھی بچے ان سے ملنے آتے رہتے تھے۔
کافی پیو گی؟
جی بہت ٹھنڈ ہے باہر۔۔ زی نے جواب دیا۔
ٹو کافی پلیز۔۔مارگریٹ نے انٹرکام پر کہا اور زی کی طرف متوجہ ہوٸ۔
مدر مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔۔ زی نے کہا۔

واۓ ناٹ۔۔مدر مسکراٸ۔
اسے سمجھ نہیں آرہاتھا کہ کیسے بات شروع کرے؟ مارگریٹ جانتی تھی کہ زی کیسے بات شروع کرے گی وہ اپنی کرسی سے اٹھی اور میز سے چند فاٸلز اٹھا کر شیلف میں رکھنے لگی۔تم بولو زی میں سن رہی ہوں۔۔انہوں نے زی کو کمفرٹیبل کرتے ہوۓ کہا۔

مدر یہ رہنما کیا ہوتا ہے؟ زی نے آخر پوچھ ہی لیا۔
مارگریٹ کا فاٸلوں پر سرکتا ہاتھ ایک پل کو رکا انہوں نے پلٹ کر زی کو دیکھا اور مسکراٸ بس اتنی سی بات اور تم اتنا پریشان تھی۔

رہنما کا مطلب ہے رہنما مطلب گاٸڈر مطلب لیڈر جو ہمیں گاٸیڈ کر سکتا ہو۔۔جو ہمیں غلط اور درست میں فرق بتاتا ہو۔۔جو ہمیں درست راستے کی طرف لے کر جاتا ہو۔۔جب ہم بھٹک جاٸیں تو رہنماٸ کرتا ہو۔۔ مارگریٹ پیار سے سمجھا رہی تھی۔
مگریہ تو صرف گوڈ کہ ہی پتا ہوتا ہے کہ ہم بھٹک گۓ ہیں یا نہیں؟کونسا راستہ ہمارے لیۓ ٹھیک ہے اور کونسا نہیں؟ رہنماٸ کرنے کی طاقت تو بس اسی کے پاس ہوتی ہے تو پھر؟؟ زی نے الجھتے ہوۓ پوچھا۔

مس میری کافی رکھ کر جا چکی تھی مارگریٹ نے اسکا کپ اسکے آگے کیا۔ بالکل ٹھیک کہا تم نے زی۔۔اتنی طاقت تو صرف اسی کے پاس ہوتی ہے کبھی کبھی وہ خود ہمیں گاٸیڈ کرتے ہیں اور جب ہم انکا اشارہ سمجھ نہیں پاتے تو وہ کچھ لوگوں کو چنتے ہیں۔۔ کچھ اچھے انسانوں کو ہماری رہنماٸ کے لیۓ تاکہ ہم بھٹکنے سے بچ جاٸیں اور سیدھے راستے پر آجاٸیں۔۔ انہوں نے وضاحت دی۔

تو کیا مجھے اپنا رہنما ڈھونڈنا پڑے گا؟ پتا نہیں کہاں ہوگا وہ؟ زی نے کافی پیتے ہوۓ سوچا۔

اور کچھ پوچھنا ہے ماٸ چاٸلڈ؟ مارگریٹ نے پیار سے پوچھا۔
نو۔۔ تھینک یو سو مچ مدر۔۔زی نے کپ رکھتے ہوۓ کہا۔
ہاں مگر رہنمائی کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں ورنہ گمراہ کرنے والوں سے تو دنیا بھری پڑی ہے۔۔ مارگریٹ نے رازداری سے کہا۔
زی اپنے اکثر سوال اور باتیں مارگریٹ سے ہی شیٸر کرتی تھی اور اسے ہمیشہ ہی فاٸدہ ہوتا تھا۔

اب مجھے جانا چاہیۓ۔۔زی نے اٹھتے ہوۓ کہا۔
آتی رہا کرو ماٸ چاٸلڈ۔۔گوڈ بلیس یو۔۔

زی چلتی ہوٸ دروازے تک آٸ پھر رکی اور پلٹ کر پوچھا کہ کیا رہنما کوٸ بھی ہو سکتا ہے مدر؟؟ہاں کوٸ بھی ہو سکتا ہے مگر ہر کوٸ نہیں۔۔مارگریٹ نے مسکرا کر جواب دیا۔
اوکے۔۔زی نے اثبات میں سر ہلایا۔

گڈ باۓ مارگریٹ۔۔زی نے دروازہ کھولتے ہوۓ کہا اور باہر نکل آٸ باہر کاری ڈور میں لکڑی کے فرش پر اسکے ہل والے جوتوں کی آواز دیر تک گونجتی رہی پھر جب وہ کاری ڈور سے باہر نکلی تو سرد ہوا کے جھونکے اسکا استقبال کیا رات بھر برف باری ہوتی رہنے کی وجہ سے پورا انسٹیٹیوٹ برف سے ڈھکا ہوا تھا۔۔ہمیشہ کی طرح کھلے بال البتہ آج اس نے گٹھنوں تک آتا اوور کوٹ پہنا ہوا تھا اس نے جلدی جلدی مین گیٹ کی طرف قدم بڑھاۓ۔

ٹن ن ن ن۔۔ٹن ن ن ن ۔۔کی آواز متواتر سے گونج وہی تھی اور اسکے قدم رک گۓ فوراً نگاہ انسٹيٹيوٹ کے داٸیں طرف بنے چرچ پر گٸ۔۔ مارگریٹ کے آفس کی بلڈنگ درمیان میں تھی جبکہ ایک طرف سکول کی بلڈنگ تھی جبکہ دوسری طرف چرچ تھا جہاں روز صبح دعا ہوتی تھی۔۔

      جا جاکے پہلے رہنما مانگ۔۔
       اسے ڈھونڈ۔۔ زی کے کانوں میں اچانک کچھ دن پہلے کہے گیۓ اس ملنگ کے الفاظ گونجے اور اسکے قدم چرچ کی طرف اٹھنے لگے۔۔وہ چلتی ہوٸ چرچ میں داخل ہوٸ۔۔چرچ میں دونوں طرف بیٹھنے کے لیۓ بینچ رکھے ہوۓ تھے درمیان سے گزرنے کا راستہ تھا اور آخری سرے پر بڑا سا صلیب کا نشان تھا جو مسیح کو ظاہر کرتا تھا۔۔صلیب کے آگے دونوں طرف کینڈلز جلی ہوٸ تھیں۔۔ زی نے بالکل صلیب کے پاس جا کر دونوں گٹھنوں کو زمین پر رکھا۔۔دونوں ہاتھوں کو آپس میں جوڑ کر بند کیۓ پھر آنکھیں بند کی اسکے ہونٹ ہلنا شورع ہوۓ۔۔
پلیز گوڈ یو نو ایوری تھینگ۔۔آپکو تو سب پتا ہے پلیز مجھے وہ دے دیں جو مجھے چاہیۓ۔۔مجھے نہیں معلوم میرا رہنما کدھر ہے آپ جلد ہی مجھے اس سے ملوادیں کیونکہ جو چیز مجھے پسند ہے صرف وہ ہی مجھے اس تک لے کر جا سکتا ہے۔۔پلیز میرے رہنما کو جلد ہی میرے پاس بیجھ دیں۔۔پلیز پلیز پلیز۔۔اس نے آنکھیں کھولی پیشانی اور سینے پر کراس کا نشان بنایا اور پھر کھڑی ہو گٸ۔۔ 

اتنی صبح صبح جو تم نے اتنی شدت سے مانگا ہے آٸ وش وہ تمھیں ضرور ملے گا۔۔ اسے ایک طرف سے چرچ کے فادر کی آواز سناٸ دی۔۔
تھینک یو فادر۔۔زی نے مسکرا کر کہا اور واپسی کے لیۓ قدم بڑھا دیۓ۔۔اسے اب گھر جلدی پہنچنا تھا۔۔رومان کے اٹھنے سے پہلے۔
پتا نہیں صلیب کے اس نشان نے اسکی آواز سنی تھی یا نہیں لیکن تقدیر نے وقت کے پنوں پر کچھ لکھ لیا تھا جسے ہر صورت پورا ہونا تھا۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

💥💥💥💥💥💥💥💥

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─