┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: میرے راہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 2


میں اسکی زات کا حصہ بن نہیں سکتا۔۔
اور جدا اس سے میری ذات بھی نہیں ہوتی۔۔

تو ڈاکٹر فرہاد علی آغا آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ ایک لڑکی پچھلے چھ ماہ سے آپکو تنگ کر رہی ہے؟ ڈاکٹر سمیع نے مسکراہٹ چھپاتے ہوۓ اپنے سامنے بیٹھے فرہاد سے پوچھا
 
جی۔۔ فرہاد نے جواب دیا

ہاہاہاہاہا۔۔ ڈاکٹر سمیع نے قہقہہ لگایا۔

بھاٸ آپ مزاق مت اڑاٸیں میرا۔۔ فرہاد ناراض ہوا

ارے بھٸ میں اس بات پر حیران ہوں کہ کوٸ لڑکی ڈاکٹر فرہاد علی آغا کو ڈسٹرب کرے اور وہ ڈسٹرب ہو جاٸیں یقین نہیں ہوتا۔۔ ویسے بات تو مزے کی ہے چلو کوٸ تو آٸ آپ جناب کو تنگ کرنے والی۔ ڈاکٹر سمیع نے وضاحت دی۔

نہیں بھاٸ وہ مجھے تنگ نہیں کرتی بس اسکو دیکھ کر میں ڈسٹرب ہو جاتا ہوں۔۔ فرہاد کے وجیہہ چہرے پر پریشانی تھی اب ڈاکٹر سمیع کو سیریٸس ہونا پڑا۔

  اچھا تو بتاٶ کہاں دیکھا تم نے اسے؟کہاں ملے اس سے؟ کون ہے؟کیسی ہے؟ کہاں رہتی ہے؟ نام پتا بتاٶ ہم ابھی مل کر پوچھ لیتے ہیں اس سے؟
 
پتا نہیں۔۔میں نہیں جانتا۔۔ فرہاد نے آہستہ سے جواب دیا۔

واٹ؟یہ کیا بات ہوٸ؟ فرہاد صاف صاف بتاٶ مجھے بات کیا ہے کیوں اتنے پریشان ہو؟ ڈاکٹر سمیع اب فکر مندی سے پوچھ رہا تھا۔
وہ خواب میں آتی ہے میرے۔۔

 کچھ پل کی خاموشی کے بعد فرہاد نے بولنا شروع کیا

سیاہ چادر میں لپٹی۔۔ اسکو دیکھ نہیں پاتا میں۔۔وہ درد میں ہے مجھے محسوس ہوتا ہے۔۔وہ فاصلے پر کھڑی ہوتی ہے مجھ سے اس تک پہنچ نہیں پاتا میں۔۔وہ تکلیف میں ہے ایسی تکلیف جسے میں دور کرسکتا ہوں ایسا محسوس کرتا ہوں میں جیسے وہ مجھے پکار رہی ہے۔۔۔

وہ بولے جا رہا تھا اور ڈاکٹر سمیع حیران تھا کہ یہ وہ فرہاد تو نہیں ہے یہ تو کوٸ اور تھا۔

میں سوتا ہوں تو نیند سے اٹھ جاتا ہوں ایسا لگتا ہے جیسے وہ آس پاس تھی۔۔ کچھ کہتی بھی نہیں۔۔ میں بہت پریشان ہوں سمیع بھاٸ میری مدد کریں۔۔ فرہاد اب سامنے کمرے کی کھڑکی میں جاکر کھڑا ہو گیا تھا سٹی ہاسپٹل کے کمرے سے پورا اسلام آباد دھند میں لپٹا نظر آرہا تھا۔۔

ہمممم۔۔۔تو یہ بات ہے۔۔ ڈاکٹر سمیع نے گہرا سانس لیا۔

میں تھک چکا ہوں سمیع بھاٸ جانے وہ کون ہے؟ ہے بھی یا نہیں؟ ایک سراب ہے جسکے پیچھے بھاگ رہا ہوں۔۔اسکی زات کو جھٹلا بھی نہیں پا رہا ہوں۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ کیا کروں۔۔ جانے وہ کھڑکی سے باہر دھند میں کسے تلاش کر رہا تھا۔

دیکھو فرہاد سننے میں یہ باتیں بہت عجیب سی ہیں۔مضحکہ خیز۔۔ ڈاکٹر سمیع اب اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکے پاس آکر کھڑا ہو گیا تھا۔شاید کوٸ بھی یقین نہ کرے اور ہم تو پھر ڈاکٹرز ہیں ساٸنس کے پیروکار۔۔ہمارے لیۓ تو یہ باتیں اور بھی فضول ہیں لیکن بات اور بھی ہے۔۔ ہم مسلمان ہیں۔۔ ڈاکٹر سمیع نے فرہاد کے کان کے قریب سرگوشی کی۔ فرہاد نے حیرانی سے ڈاکٹر سمیع کو دیکھا کہ اس بات کا کیا تعلق ہے میرے خواب سے؟

ہمارا دین معجزہ ہے۔۔ ڈاکٹر سمیع نے پھر بولنا شروع کیا
ہماری زندگی میں بھی کچھ ایسے معجزے ہو جاتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے۔ کچھ راز ہیں جو آنکھوں سے اوجھل ہیں۔۔کچھ باتیں ہیں جو شعور سے باہر ہیں۔۔لیکن یاد رکھو اللہ پاک سب جانتے ہیں وہ جو کرتے ہیں سب ٹھیک ہی کرتے ہیں۔۔
اور رہی بات اس لڑکی کی تو اسکا تم سے کچھ تو تعلق ہے۔۔ شاید تمھاری روح سے تعلق ہے اسکا۔۔ فرہاد نے چونک کر ڈاکٹر سمیع کو دیکھا روح سے تعلق بھلا کیسے؟؟

ہاں روح سے۔۔ اسکی روح جڑی ہے تم سے۔۔ اسکے درد کو تمہاری روح محسوس کرتی ہے۔وجہ کچھ تو ہے۔شاید اسکی روح تمہارے ساتھ رہی ہو عالمِ ارواح میں۔۔ یا پھر اس دنیا میں ملنا ہو اس نے تم سے وجہ کچھ بھی ہو لیکن ایک بات تو ہے کہ تمھارا سکون اس کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے اس سکون کو اب تمھیں حاصل کرنا اور روح کا سکون دل کی خوشی سے بڑھ کر ہوتا ہے۔۔سمجھ گۓ نا؟ ڈاکٹر سمیع نے پوچھا۔۔

جی۔۔ فرہاد نے اثبات میں سر ہلایا۔

ویسے یار اسلام آباد میں کچھ زیادہ ہی سردی ہے۔۔ ڈاکٹر نے اب بات کا رخ بدل دیا تھا
کیوں آپکے لاہور میں سردیاں نہیں آتیں کیا؟ فرہاد نے مسکراتے ہوۓ پوچھا

ٹھنڈ تو ادھر بھی ہوتی ہے پر ادھر تو حد ہی ہو گٸ۔اچھا میں چلتا ہوں دادو اور حمزہ انتظار کر رہے ہونگے لاہور سے سیدھا تمھارے پاس ہی آیا ہوں اور ادھر آکر پتا چلا موصوف لڑکی کے چکر میں ہیں۔۔ ڈاکٹر سمیع کی بات پر دونوں نے ہی قہقہہ لگایا۔۔۔

اچھا یار ڈیوٹی ختم ہوتے ہی آجانا۔شام کو ملتے ہیں آغا ہاٶس میں۔۔ ڈاکٹر سمیع نے اپنا کوٹ اور بیگ اٹھاتے ہوۓ کہا 
ٹھیک ہے جناب میں سیدھا گھر آجاٶں گا۔ فرہاد نے مسکراتے ہوۓ کہا۔ اپنا خیال رکھنا ڈاکٹر سمیع نے گلے ملتے ہوۓ کہا اور اللہ حافظ کہتا ہوا چلا گیا۔۔

فرہاد وہیں کھڑاتھا سوچوں کا ایک لا متناہی سلسلہ اسکے سانے تھا وہ تصور میں اس سے مخاطب ہوا۔۔

       کب ملو گی تم مجھے؟ کب آٶ گی میرے سامنے؟ کب کرو گی میری روح کو مکمل۔۔ میرا سکون مجھے واپس کردو۔۔

اس نے ہاسپٹل کے گیٹ سے ڈاکٹر سمیع کی گاڑی باہر نکلتے دیکھی اور خود بھی ایک گہرا سانس لے کر اپنے وارڈ کی طرف چلا گیا جہاں اسکی ڈیوٹی تھی۔

💥💥💥💥💥💥💥💥

حرم۔۔ صابرہ خاتون نے اسے آواز دی۔

جی امی۔۔حرم نے پلٹتے ہوۓ کہا 
یہاں کیوں کھڑی ہو؟ اندرآجاٶ بہت ٹھنڈ ہے باہر۔وہ حرم کو بلاتے ہوۓ اندر چلی گٸ۔۔۔

آرہی ہوں تھوڑی دیر تک۔۔حرم نے ادھر ہی کھڑے کھڑے جواب دیا۔۔۔

شام ہونے کی وجہ سے سردی کی شدت میں اضافہ ہو رہاتھا پرندوں نے اپنے اپنے گھونسلوں کا رخ کیا۔۔وہ وہیں کھڑی تھی کسی غیر مرعی نقطے پر سوچتی ہوٸ اسک آنکھیں صحن میں رکھے گملوں پر تھیں جبکہ زہن کہیں اور پھر آہستہ آہستہ اسکی آنکھیں جلنے لگیں۔۔

 پلکیں بھیگنے لگیں۔۔ڈھلتی شام میں گرل سے ٹیک لگاۓ سیاہ شال کو اپنے ارد گرد لپیٹے وہ اداسیوں کی ساحرہ لگ رہی تھی۔۔کب آٶ گے تم؟آخر کب؟ مجھے یقین تو ہے پر میں ڈر جاتی ہوں میرے رہنما کے کہیں امید دم نا توڑ دے میری آنکھیں انتظار کرتے کرتے تھک نا جاٸیں۔۔ کیا تم سکون میں ہو میں ازیت میں ہوں کیا تم محسوس کر سکتے ہو؟ پلیز محسوس کرکے دیکھو ایک بار صرف ایک بار۔۔۔۔

حرم۔۔ شزا نے پکارا وہ چونک کر خیالوں سے باہر آٸ۔۔۔

کیاکر رہی ہو یہا؟شزا نے پوچھا
کچھ نہیں ایسے ہی اندر دم گھٹ رہا تھا۔۔وہ آنکھوں میں آۓ پانی کو واپس اندر اتار گٸ کمال کا فن تھا یہ بھی۔۔

ہاہاہا اچھا جس لڑکی کو دنیا میں سب سے زیادہ ٹھنڈ لگتی ہے وہ کہہ رہی ہے کہ اسکا دم گھٹ رہا ہے وہ بھی اتنی ٹھنڈ میں۔۔جھوٹ تھوڑا زیادہ نہیں ہوگیا حرم۔۔ اچھا بتاٶ کسکو سوچ رہی تھی؟ شزا نے دلچسپی سے پوچھا۔۔۔

ارے نہیں تو۔۔حرم مسکراٸ ٹیسٹ ہو گیا تیار تمھارا؟

بہت تیز ہو تم حرم بات بدل دی نا تم نے۔۔شزا نے خفا سے لہجے میں کہا۔

اچھا ہاہاہا مجھے نہیں پتا تھا حرم ہنس رہی تھی۔۔ ہنستی رہا کرو بہت پیاری لگتی ہو شزا نے بھی مسکراتے ہوۓ کہا۔ 
اور حورعین اور ثنا کیا کر رہیں ہیں؟ 
[حوعین حرم کی چھوٹی بہن جبکہ ثنا شزا کی بڑی بہن تھی]

 کرنا کیا ہے ڈرامہ لگا ہوا ہے آٶ اندر تمہیں ایک خوشخبری سناٶں۔شزا نے اندر جاتے ہوۓ کہا۔

ارے رکو تو کیسی خوشخبری؟ حرم پیچھے لپکی۔آٶ تو اندر بتاتی ہوں۔۔

شام رات میں بدلنے کو بے چین تھی جبکہ گملوں میں رکھے پودے ویسے ہی پر سکون تھے۔۔

💥💥💥💥💥💥💥💥

آنی ایک بات پوچھوں ماٸنڈ تو نہیں کرینگی نا آپ؟ زی نے چاۓ بناتی آنی سے پوچھا ادر خود کچن کے دروازے میں ہی کھڑی رہی۔۔

پہلے یہ بتاٶ رومان اٹھا کہ نہیں؟ آنی نے الٹا سوال کیا
جی اٹھ گیا ہے تیار ہو رہا ہے۔۔۔

اب پوچھو کیا پوچھنا ہے آنی نے چاۓ کپ میں ڈالتے ہوۓ کہا۔
سچ سچ بتاٸیں گی نا آپ؟ زی نے امید سے آنی کی طرف دیکھتے ہوۓ پوچھا۔۔۔

تم کچھ پوچھو گے تو ہی میں کچھ بتاٶں گی نا۔۔اب آنی ناشتہ ٹیبل پر لگا رہی تھی۔۔۔۔

 آنی رہنما کونسی مارکیٹ سے ملے گا؟؟زی نے ہمت جمع کی اور ڈرتے ڈرتے پوچھ ہی لیا۔۔۔۔

ہاہاہاہاہا۔۔سیڑھیوں پر کھڑے رومان کا قہقہہ پورے گھر میں گونج گیا غالباً اس نے زی کا سوال سن لیا تھا۔ زی نے پہلے رومان کو دیکھا اور پھر آنی کی طرف جو کچن کے دروازے میں کھڑی مسکرارہی تھیں۔۔۔

کیا ہوا تم لوگ ہنس کیوں رہے ہو میں نے کچھ غلط پوچھ لیا کیا؟ زی روہانسی ہوٸ۔۔۔

تم جتنی شکل سے سٹوپڈ لگتی ہو نہ ایکچولی اس سے بھی زیادہ سٹوپڈ ہو۔۔رومان نے سیڑھیاں اترتے ہوۓ کہا۔بڑی آٸ اردو سیھکنے والی۔۔ اب وہ کرسی پر بیٹھ کر اسکا مزاق اڑا رہا تھا۔۔آنی اسے بولیں کہ چپ کر جاۓ۔۔ زی نے خفا ہوتے ہوۓ کہا۔

 بس کرو رومان۔۔ آنی نے اسے کچن سے ہی ڈانٹا۔۔۔

اوکے۔۔اوکے۔۔پھر اسے بھی بول دیں کے ایسے سٹوپڈ سے سوال مت کیا کرے اور خود ناشتہ کرنے لگ گیا۔۔۔

ایسا بھی کیا غلط پوچھ لیا میں نے اگر آپ لوگوں کو نہیں پتا تو نا بتاٸیں وہ غصے سے بول رہی تھی۔۔۔

اوکے آنی ہم چلتے ہیں رومان نے چاۓ کا کپ میز پر رکھا اور اٹھتے ہوۓ کہا۔
پر میں نے تو ابھی ناشتہ بھی نہیں کیا زی نے احتجاج کیا۔

جو ٹاٸم تم نے ضاٸع کیا ہے بولنے میں اس ٹاٸم میں ناشتہ کر لیتی میں گاڑی میں انتظار کر رہا ہوں تمھارا اگر ایک منٹ سے ایک سیکنڈ بھی اوپر ہوا تو میں چلا جاٶں گا۔۔رومان نے گاڑی کی چابی اور اپنا بیگ اٹھایا اور بگڑے شہزادے کی طرح حکم دیتا چلا گیا۔
 
او شٹ۔۔ زی نے جلدی جلدی ٹھنڈی ہو چکی چاۓ پی اپنا بیگ اٹھایا اور باہر کی طرف بھاگی وہ جانتی تھی وہ جو کہتا ہے وہ کرتا بھی ہے۔۔۔

زی اپنا کوٹ لے لینا یاد سے بہت ٹھنڈ ہے باہر۔۔اسے آنی کی آواز آٸ۔۔وہ رکی پلٹی کوٹ اٹھایا اور پھر دوبارہ باہر کی طرف بھاگی۔۔

باہر واقعی بہت ٹھنڈ تھی ہر چیز سفید برف سے چپھی نظر آرہی تھی لوگ اپنے گھروں کے آگے سے برف ہٹا کر گاڑی نکالنے کا راستہ بنا رہے تھے ۔۔۔

تم ہر دفعہ ایسے کیوں کرتے ہو؟ زی نے گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی کا دروازہ بند کرتے ہوۓ کہا۔ میں نے کیا کیا؟ رومان نے لا پرواہی سے پوچھا۔

کچھ نہیں زی نے کہا اور شیشے باہر دیکھنے لگ گٸ جبکہ وہ مزے سے ڈراٸیونگ کر رہا تھا۔

تم کب سمجھو گے؟ کب رومان؟ تم اتنے بے پرواہ کیو ہو؟ زی نے آنکھوں سے باہر تیزی سے گزرتے نظاروں کو دیکھتے ہوۓ دل میں سوچا۔۔

وہ ہی تو سارے جہاں سے عزیز ہے مجھ کو۔۔
وہ ایک شخص جو بے حس ہے پتھروں کی طرح۔۔۔ 

جاری ہے۔۔۔۔
  ❤❤❤❤

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─