┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: میرے_رہنما
 از: نور راجپوت
قسط نمبر 1

میرے راہنما تو ہے کہاں۔۔؟؟
میرے راہنما تو ہے کہاں۔۔؟؟
میری زندگی کا یہ سفر 
تیرے بن جو ہے رواں دواں۔۔
یہ سفرِصحرا سے کم نہیں ہے
میرے راہنما ذرا دیکھ تو۔۔
میرے سفرِذیست کا سلسلہ
تیرے انتظار سے ہے جڑا ہوا۔۔
میں کھڑی ہوں تنہا راہ پر
نہ ہمسفر ہے کوٸ نہ راہبر۔۔
میرے راہنما تو ہے کہاں۔۔
میرے راہنما تو ہے کہاں۔۔؟؟؟
                                           حرم نور
اس نے ڈاٸری بند کرکے بیڈ کے ساتھ ساٸیڈ ٹیبل پر رکھی اور خود اسی جگہ اپنے بستر پر لیٹ گٸ۔دسمبر کا مہینہ شروع ہو چکا تھا اور سردی کی شدت میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور پورا آسمان سیاہ بادلوں سے چھپ گیا تھا جس نے رات کو اور بھی زیادہ سیاہ بنا دیا تھا۔بادلوں کے گرجنے کی آواز سے اس نے آنکھیں کھولیں۔
لگتا ہے آج موسم کچھ زیادہ ہی خراب ہونے والا ہے۔۔ پاس بیٹھی شزا نے کہا۔
اُسی وقت کمرے کا دروازہ کھلا اور حورعین اندر آٸ اور دروازہ جلدی سے بند کردیا۔بارش شروع ہوگٸی ہے حورعین نے کانپتے ہوۓ کہا۔

اُف۔۔بارش۔۔ حرم نے اکتا کر سوچا۔
دُعا کرو بارش صبح دس بجے تک ہوتی رہے تاکہ کالج سے ہماری چھٹی ہوجاۓ۔حورعین نے بستر میں لیٹتے ہوۓ کہا
اللہ کرے ایسا ہی ہو۔۔شزا نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا۔

بےفکر رہو تم لوگوں کی کالج وین بارش میں بھی آجاۓ گی۔حرم نے جو کب سے انکی باتیں سن رہی تھی لیٹے لیٹے ہی جواب دیا۔

ہاں یہ تو سچ ہے ویسے کبھی تو خوش ہو لینے دیا کرو۔ شزا کا منہ بن گیا

مجھے صبح جلدی مت اٹھانا صبح بارش ہو رہی ہوگی مجھے مدرسے نہیں جانا۔۔یہ جیا تھی جو بستر میں دبکی پڑی تھی۔
تمہیں بڑا پتا ہے کہ صبح تک بارش ہو رہی ہوگی یا نہیں؟ حورعین نے اسے ٹوکا

جی مجھے سب پتا ہے۔۔ جیا نے شرارت سے جواب دیا۔

چپ کر جاٶ تم دونوں چھٹی کرنے کا تو بہانہ چاہیٸے تم لوگوں کو۔۔ حرم نے ان دونوں کو ڈانٹا۔اسے سردیوں کی بارش وہ بھی رات کے وقت بلکل بھی پسند نہیں تھی۔ بارش برسنے کی آواز کمرے تک صاف سناٸ دے رہی تھی

ایک تو یہ بارش اور لاٸٹ بھی چلی گٸ اوپر سے۔۔ وہ بڑبڑا رھی تھی

یہ پاکستان ہے ڈٸیر یہاں آسمان پر بادلوں کے چھانے سے پہلے ہی لاٸٹ کا انتقال ہو جاتا ہےمیں تو لگی ہوں سونے۔۔ حورعین نے مسکراتے ہوۓ کہا اور سونے کیلیۓ لیٹ گٸ

شزا جلدی سے ایمرجنسی لاٸٹ آن کرو اور اپنی کتابیں اٹھا لو یہاں سے جو ٹاپک رھتاشزا جلدی سے ایمرجنسی لاٸٹ آن کرو اور اپنی کتابیں اٹھا لو جو ٹاپک رہتا ہے وہ صبح کو کروا دونگی تمھیں۔۔ حرم نے کمبل اوڑھتے ہوۓ کہا۔
ٹھیک ہے۔شزا نے ہاں میں سر ہلایا۔۔

بارش تیز ہو چکی تھی وہ جلد از جلد سونا چاہتی تھی لیکن وہ دوبارہ اٹھی ڈاٸری نکالی اور اپنے لکھے گۓ لفظوں کو دوبارہ پڑھا جس شدت سے اس نے وہ الفاظ لکھے تھے وہ آنسوں بن کر اسکی آنکھوں سے نکلنے کو بےتاب تھے اس نے جلدی سے ڈاٸری بند کی اور واپس اسے اسکی جگہ پر رکھ دیا۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ ایک بھی آنسو اسکی آنکھ سے باہر نکلے اور بے انمول ہو جاۓ۔۔ 
میرے راہنما کہاں ہو تم۔۔۔
وہ سونے کےلیے لیٹ گٸ بارش میں بھیگی رات آہستہ آہستہ گزر رہی تھی۔۔
     💥💥💥💥💥


تیرے ساتھ چلے تو احساس ہوا
ہر ساتھ چلنے والا ہمسفر نہیں ہوتا۔۔۔

رکو رکو رکو۔۔زی [zee] نے ایک دم رکتے ہوۓ کہا 

کیا ہوا؟ساتھ چلنے والے نے غصے سے پوچھا 

وہ دیکھو۔۔ زی نے آٸسکریم بار کی طرف اشارہ کیا۔
واٹ؟؟ تمھارا دماغ خراب ہے کیا اتنی ٹھنڈ میں آٸسکریم کون کھاتا ہے۔۔ وہ غصے سے بول رہا تھا 

زی کھاتی ہے نا۔۔ ویٹ فار ٹو منٹس میں ابھی آٸ۔زی نے بے فکری سے جواب دیا اور آٸسکریم بار کی طرف بھاگی۔
اب اسکے پاس انتظار کرنے کے الاوہ اور کوٸ راستہ نہیں تھا 
آج تو روما میں بھی غضب کی سردی تھی اس نے اپنے کوٹ کے کالر سیدھے کھڑے کیۓ اور ہاتھوں کو ایک دوسرے سے رگڑتے ہوۓ آسمان کی طرف دیکھا رات کے اندھیرے میں آسمان کچھ اور بھی سیاہ نظر آرہا تھا چاند اور تارے سیاہ بادلوں میں چھپ گۓ تھے۔

میں آگٸ۔۔ زی نے ہانپتے ہوۓ کہا وہ بھاگتی ہوٸ واپس آٸ تھی۔
اس نے غور سے زی کو دیکھا سیاہ جینز پر براٶن شرٹ پہنے اور جینز جو نۓ فیشن کے مطابق گھٹنوں سے پھٹی ہوٸ تھی۔۔۔بھورے بال جو پونی ٹیل سے باہر نکلے ہوۓ تھے اور ہوا چلنے کے باعث بار بار چہرے کو چھو رہے تھے ناک ٹھنڈ سے سرخ ہوگٸ تھی نیلی نیلی آنکھوں سے پانی نکلنا شروع ہو گیا تھا اور وہ اتنی ہی لا پرواہی سے آٸسکریم کھا رھی تھی وہ زی ہی کیا جو فکر کر لے۔ اسکے پاس کوٹ تو کیا سویٹر بھی نہیں تھا پہننے کے لیے۔ کتنی عجیب تھی وہ اور بہت خوبصورت بھی ویسٹرن بیوٹی۔۔

۔۔لوگ اسے دیکھنے کے لیے رکتے تھے پھر مڑتے تھے اور پھر پتھر کے ہو جاتے تھے۔۔

اب چلیں یا ادھر ہی کھڑے رہنے کا ارادہ ہے؟زی نے ہاتھ ہلا کر پوچھا۔

ہاں چلو۔۔اس نے سر جھٹکتے ہوۓ کہا اور چلنا شروع کردیا۔
تمہیں پتا ہے رات کو اتنی ٹھنڈ میں آٸسکریم کھانے کا اپنا ہی مزہ ہے انسان اندر تک ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے ہم ہواٶں میں اڑ رہے ہوں۔۔وہ چپ بھی نہیں رہ سکتی تھی تبھی بولے جارہی تھی یہ جانے بنا ہی کہ ساتھ چلنے والا سن بھی رھا ھے یا نہیں؟تم بھی کھا کر دیکھو اور پھر ہواٶں میں اڑنے کا مزہ لو۔ زی نے مسکراتے ہوۓ مشورہ دیا۔

نہیں مجھے زمین پر ہی رہنا ہے وہ پھر غصے سے بولا تھا۔گاڑی کو بھی آج ہی خراب ہونا تھا اس راستے پر تو کوٸ لفٹ بھی نہیں ملتی۔ وہ بڑبڑا رہا تھا۔ہم گھر پہنچ جاٸیں گے زی نے سکون سے جواب دیا۔

چپ کر کے چلو زی اب مجھے تمھاری آواز نا آۓ سمجھ آٸ تمہیں۔۔ وہ گرجا تھا

اوکے زی نے لاپرواہی سے شانے اچکاۓ اب وہ لوگ پیدل چلتے چلتے کافی آگے نکل آۓ تھے
رکو رکو رکو۔۔۔ زی نے ایک بار پھر اسے بازوسے پکڑ کر روکا 
اب کیا ہوا۔۔ اس نے پھر پوچھا 
زی نے فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوۓ شخص کی طرف اشارہ کیا۔لمبے لمبے الجھے بال۔۔پھٹے پرانے کپڑے۔۔ گلے میں منکے۔۔ وہ آنکھیں بند کیے دیوار سے ٹیک لگاۓ بیٹھا تھا۔۔

اُف۔۔ یقین نہیں آتا کہ روم جیسے شھر میں بھی ایسے ملنگ لوگ پاۓ جاتے ہیں۔۔ وہ کتنی نفرت سے بول رہا تھا۔

وہ درویش ہے نا؟آنی کہتی ہے ایسے لوگ Godکے بہت قریب ہوتے ہیں۔۔ مجھے اس سے بات کرنی ہے۔۔زی نے خوش ہوتے ہوۓ کہا۔

واٹ نان سینس۔۔ یہ سب بکواس ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔وہ بھلا کب ماننے والا تھا۔
تم رکو میں ابھی آٸ۔۔اور پھر وہ بھی کب رکنے والی تھی۔وہ چلتے ہوۓ اسکے پاس گٸ اسے اب سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا بات کرے۔۔

بابا جی۔۔۔ زی نے اسے پکارا۔۔ میں جانتی ہوں کہ آپ گوڈ کے نیک انسان ہیں مجھے آپ سے کچھ پوچھنا کیا آپ مجھے سن سکتے ہیں؟؟درویش نے کوٸ جواب نہیں دیا وی چند سیکنڈ کھڑی رہی اور پھر واپس جانے کےلیے مڑی تبھی اسے آواز آٸ
ہمسفر یا راہنما؟؟؟

وہ ایک دم پلٹی اور دیکھا کہ درویش اسی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا

جج۔۔ جی۔۔ میں سمجھی نہیں وہ ہکلاٸ۔
 ہمسفر یا راہنما؟؟
درویش نے دوبارہ پوچھا 

وہ میں چاھتی ہوں کے جو اس وقت میرا ہمسفر ہے وہ ہمیشہ کیلیے میرا ہمسفر بن جاۓ زی نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا اور دور کھڑے ہوۓ شخص کی طرف دیکھا۔۔

     ”جا۔۔جا کر راہنما مانگ۔۔اسے ڈھونڈ۔۔۔وہ تجھے اس راستے پر لے جاۓ گا جس پر تیرا ہمسفر کھڑا ہے۔۔جا چلی جا۔۔ جا مانگ اسے جا کر۔۔ جا راہنما ڈھونڈ۔۔ نہیں تو تڑپتی رہے گی۔۔ بٹھکتی رہے گی۔۔ کبھی نہیں ملے گا تیرا ہمسفر تجھے۔۔ جا چلی جا۔۔ جا کر راہنما مانگ۔۔“

درویش اتنی زور سے چلایا تھا کہ زی ڈر کر دو قدم پیچھے ہو گٸ تھی۔۔ درویش نے دور کھڑے شخص کی طرف دیکھ کر کہا تھا اور آنکھیں دوبارہ بند کرلیں۔۔

وہ جلدی سے پلٹی اور چلتی ہوٸ اسکے پاس آگٸ تھی 
کیا کہہ رہا تھا وہ؟ یقین نہیں آتا کہ تم ایسی باتوں اور چیزوں کو مانتی ہو۔۔ پتا ہے زی میری لاٸف میں ایسی باتوں کی کوٸ جگہ نہیں ہے وہ چلتے ہوۓ کہہ رہا تھا جبکہ زی ابھی تک اسی ملنگ کی باتوں میں الجھی ہوٸ تھی۔۔

   ”جلد آرہی ہے وہ مشرق سے  
   تیری دنیا بدلنے کےلیے۔۔رومان شاہ۔۔۔“

پتا نہیں الفاظ تھے یا کچھ اور وہ دونوں کرنٹ کھا کر پلٹے تھے مگر وہ ملنگ غاٸب تھا۔۔رات کی خاموشی ساٸیں ساٸیں کر رہی تھی۔۔ راستہ سنسان تھا۔۔برف باری شروع ہوچکی تھی۔۔
تم نے میرا نام کیوں بتایا اسے؟ وہ زی پر دھاڑا تھا روم کی سڑکوں پر اسکی آواز گونج کر رہ گٸ تھی۔۔

میں نے کب بتایا۔وہ حیران ہوٸ
اب ڈرامے بند کرو جلدی چلو گھر آنے ہی والا ہے اور کیا کہا اس نے کہ مشرق سے کوٸ آنے والا ہے؟

 ہاہاہاہاہا مشرق سےتو سورج نکلتاہے کوٸ انسان نہیں آتا۔۔ وہ ہنس رہا تھا میری مرضی کے بنا تو کوٸ مجھ سے بات بھی نہیں کر سکتا دنیا بدلنا تو بہت دور کی بات ہے۔۔ مغرور شہزادے نے فخر سے کہا۔۔۔اب جلدی چلو۔۔
زی نے اسے ستاٸش سے دیکھا اور چلنا شروع کردیا۔

اندھیری رات کی خاموشی نے مغرور شہزادے کے غرور اور نادانی پر بڑی زور سے قہقہا لگایا تھا۔
 
ہواٶں نے منادی کرادی کہ مغرورشہزادے کے کہے گۓ لفظوں کو وقت کے پنّوں پر لکھ لیا جاۓ کیونکہ بہت جلد اسے اپنے کہے گۓ لفظوں کو بدلنا تھا وہ چلتے جارہے تھے برف کے بنے قالین پر۔۔
   سفید برف سفید پنّوں میں ڈھل گٸ۔۔
رات کی سیاہی نے قلم کا کام کیا۔۔
وقت نے کرداروں کے نام لکھنے شروع کیۓ۔۔۔ کیونکہ
روم کی سڑکوں پر بکھری محبت کی ایک داستان کا آغاز ہو چکا تھا۔۔۔!!

جاری ہے۔۔۔۔

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─