┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄
ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 33
پارٹ 2
ہے لٹل لیڈی۔۔ کیسی ہو۔۔؟؟ رون نے حرم کے پاس جا کر پوچھا۔۔
اور حرم حیران ہوٸ۔۔ وہ حال پوچھ رہا تھا۔۔ مطلب کچھ گڑبڑ تھی۔۔ یعنی وہ حال خراب کرنے کا سوچ رہا تھا۔
تم ہمیں سکون سے جینے کیوں نہیں دیتے۔۔؟؟ جب دیکھو جہاں دیکھو ٹپک پڑتے ہو۔۔ اس سے پہلے کہ حرم کوٸ جواب دیتی بیلا نے اسکی طبیعت صاف کی وہ ابھی اپنی سیلری کو نہیں بھولی تھی۔
ششش چپ۔۔ جب دو زہین لوگ بات کر رہے ہوں تو درميان میں کچ کچ نہیں کرتے۔۔ رون نے اسکے سر پر تھپڑ مارا۔۔ جبکہ حرم کو تو حیرانی ہو رہی تھی۔
تو مس لٹل لیڈی کیا پرسینٹیج ہے تمہاری مڈ ٹرم کے رزلٹ میں۔۔؟؟
کیوں کیا تم نے اس میں بھی کوٸ چکر چلانا ہے۔۔ یا حرم کی پرسینٹیج کو اپنی بنانا ہے۔۔ عرش نے پوچھا۔۔
اففف توبہ۔۔ تم لڑکياں کتنا دماغ کھاتی ہو نا۔۔ جو پوچھ رہا ہوں جس سے پوچھ رہا ہوں بس وہ جواب دے۔۔
80%
حرم نے جواب دیا۔
ہممم۔۔ گڈ۔۔ تو ریڈی ہو جاٶ۔۔ نیکسٹ فاٸنل اگزامز میں تم نے
95%
لینے ہیں۔۔
واٹ۔۔ حرم کا دماغ گھوما۔۔
میں نے ریڈی ہو جاٶ۔۔ تمہارا کمپیٹیشن سٹارٹ ہونے لگا ہے۔۔ اس یونيورسٹی کی سب سے زہین لڑکی زی سے میں اناٶنس کرنے جا رہا ہوں۔۔ رون دی ڈون اپنی بات سناتا چھلانگیں لگاتا آڑیٹوریم کی طرف بڑھ گیا۔
واٹ۔۔یہ ہو کیا رہا ہے۔۔ کیسا کمپیٹیشن۔۔ اور میں کیوں کروں گی کمپیٹیشن۔۔؟؟ جبکہ عرش اور بیلا نے افسوس سے حرم کی طرف دیکھا تھا۔۔ وہ ہارنے والی تھی وہ بھی زیشا سے۔۔ جس سے آج تک کوٸ جیت نہیں پایا تھا۔۔
تم دونوں مجھے کچھ بتاٶ گی۔۔ ایسے کیوں دیکھ رہی ہو مجھے۔۔؟؟ حرم نے دونوں کو اپنی طرف تکتا دیکھا تو پوچھا۔
چلو ابھی پتا چل جاۓ گا۔۔ بیلا نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا۔۔اور آڈیٹوریم کی طرف بڑھ گٸیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو حورعین۔۔ کیسی ہو۔۔؟؟ شرجیل اسکے ڈیپارٹمنٹ ٹپک گیا تھا۔
حورعین نے چونک کر اسے دیکھا۔۔ بیشک اسد نے اسے میرا خیال رکھنے کو کہا تھا لیکن یہ کچھ زیادہ ہی چکر لگا رہا ہے۔
اسلام علیکم شرجیل بھاٸ۔۔۔ میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں۔؟؟
میں بھی ٹھیک ہوں۔۔ وہ میں پوچھنے آیا تھا کوٸ پرابلم تو نہیں۔۔
ہم بعد میں ملتے ہیں حورعین۔۔ اسکی فرینڈ نے وہاں سے اٹھتے ہوۓ کہا۔
نہیں سب ٹھیک ہے۔۔ حوعین کو اسکے جانے پر غصہ آیا۔۔ اب یہ شخص پکاۓ گا مجھے۔
کیا میں یہاں بیٹھ جاٶں۔۔؟؟
جی بیٹھ جاٸیں۔۔ حورعین نے زبردستی مسکرا کر کہا ورنہ دل تو کر رہا تھا کہ نا کردے۔
اور اگے تیس منٹ وہ وہاں سے ہلا نہیں تھا۔۔ مجبوراً حورعین کو ہی لیکچر کا کہہ کر اٹھنا پڑا۔۔
اور شرجیل کتنا غلط کرنے جا رہا تھا وہ جانتا تھا لیکن وہ خاموش تھا۔ یا مجبور۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ہر دفعہ فاٸنل ایگزامز میں بزنس اور ساٸنس ڈیپارٹمنٹ کا کمپیٹیشن ہوتا ہے۔۔ رزلٹ میں جس ڈیپارٹمنٹ کے سٹوڈنٹ کی پرسینٹیج ہاٸ ہوتی ہے وہ ڈیپارٹمنٹ ونر ہوتا ہے۔۔ رون ماٸک ہاتھ میں پکڑے بول رہا تھا۔۔ دونوں ڈیپارٹمنٹس کے سٹوڈنٹس وہاں اکھٹے ہو چکے تھے۔۔
اور ہر دفعہ بزنس ڈیپارٹمنٹ ہی جیتتا ہے رون۔۔ کسی نے ہجوم میں سے چلا کر کہا۔
وہ اس لیۓ کہ بزنس ڈیپارٹمنٹ کے زی کا آٸ کیو لیول بہت ہاٸ ہے۔۔ لیکن اس بار مجھے امید ہے کہ ہم نہیں ہاریں گے۔۔
اچھا تو اس بار کس کو لا رہے ہو کمپیٹیشن کیلیۓ۔۔ ؟؟ بزنس ڈیپارٹمنٹ کے ایک سٹوڈنٹ نے پوچھا۔
اسٹیج پر رون کے پیچھے ریم اور زی بھی تھے۔۔ دو کھلاڑی تھے۔۔ ریم اور رون۔۔ اور دو مہرے تھے ایک زی اور دوسرا ابھی وہاں نہیں تھا۔
ساٸنس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے اب کی بار زی سے کمپیٹیشن کرے گی حرم نور۔۔۔ رون نے کہا۔ پورے ساٸنس ڈیپارٹمنٹ کے سٹوڈنٹس نے زبردست ہوٹنگ کی جبکہ حرم۔۔ اسکا تو رنگ اڑ گیا تھا۔۔ اسکا خیال تھا کہ رون مزاق کر رہا ہے۔۔ لیکن اس نے تو دھماکہ کر دیا تھا۔
زی نے چونک کر حرم کو دیکھا۔۔ اسے نہیں پتا تھا کہ اب کی بار اسکا مقابلہ حرم نور سے ہوگا۔ایک نظر دیکھنے کے بعد اس نے چہرہ نخوت سے موڑ لیا۔۔ کتنی نفرت تھی اسکی نگاہوں میں حرم کیلیۓ یہ حرم دیکھ چکی تھی۔
نو۔۔ نیور۔۔ میں ایسا نہیں کرونگی۔۔ بالکل بھی نہیں۔۔ میری مرضی پوچھے بنا وہ میرا نام کیسے لے سکتا ہے۔۔ حرم نے غصے سے کہا اور واپسی کیلیۓ قدم بڑھا دیۓ۔۔
مس نور۔۔ میں نے سنا ہے مشرق والے کوٸ کام ادھورا نہیں چھوڑتے۔۔ اچانک ماٸیک میں رومان کی آواز گونجی۔ حرم کے قدم رکے۔ سب نے مڑ کر حرم کو دیکھا۔
یہ سب رومان ہی کروا رہا تھا۔۔ اس نے ہی رون کو حرم کا اشارہ دیا تھا۔ آڈیٹوریم میں خاموشی چھاٸ تھی۔
میری مرضی جانے بنا میرا نام کمپیٹیشن کیلیۓ دینا غلط بات ہے۔۔ وہ کہہ رہی تھی۔۔
آپ کمپیٹیشن میں پارٹیسپیٹ نہی کرنا چاہتی تو کوٸ بات نہی لیکن اس وقت آپکو یہاں آنے پڑے گا۔۔ اٹس اے رول۔۔ رومان نے سنجیدہ سے لہجے میں کہا۔۔ کیونکہ وہ جانتا تھا حرم رولز بریک نہیں کرتی۔
سارے سٹوڈنٹس کبھی حرم کو تو کبھی رومان کو دیکھ رہے تھے۔
وہ مرے مرے قدم اٹھاتی اسٹیج کی طرف بڑھی۔۔ ساٸنس ڈیپارٹمنٹ والوں نے ایک بار پھر ہوٹنگ کی۔۔ انہیں بھی اس بار تھوڑی امید بندھی تھی کہ شاید اس بار وہ مقابلہ نا ہاریں۔۔ مگر ایسا تب ہوتا نا جب زی کسی کو جیتنے دے۔
تو تم مجھ سے کمپیٹیشن کرو گی۔۔ زی نے اسکے پاس آکر مزاق اڑاتے لہجے میں کہا۔
میرا ایساکوٸ ارادہ نہیں ہے۔۔ حرم نے صاف لہجے میں کہا۔
ہاہاہا۔۔ مطلب لڑے بنا ہی ہار مان لی۔۔ زی کا قہقہہ ابھرا۔
میں یہاں پڑھنے آٸ ہوں۔۔ لڑنے نہیں مس زیشا۔۔ وہ کہہ رہی تھی۔۔
آلراٸیٹ۔۔ کبھی سوچنا بھی مت کہ تم زی کا مقابلہ کر سکتی ہو۔۔ زی نخوت سے کہتی واپس رومان کے پاس جا کر کھڑی ہوگٸ۔
Are you ready Zee
رون نے زی سے پوچھا۔
Always ready..
زی نے خوبصورت مسکراہٹ چہرے پر سجا کر کہا۔
And you miss Haram noor..?
اس سے پہلے حرم نا کرتی رون بے خود ہی کہہ دیا
Yes she is ready..
اور پورا ہال ایک بار پھر تالیوں اور ہوٹنگز سے گونج اٹھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ڈین سے کملپین کروں گی۔۔ وہ ایسا نہیں کر سکتا۔۔ مجھے یہ کمپیٹیشن نہیں کرنا۔۔ مجھے اپنا تماشہ نہیں بنوانا۔۔ حرم تپی ہوٸ تھی۔
ایسا تب ہوگا نا جب وہ تمہیں ڈین کے آفس تک جانے دے گا۔ بیلا نے کہا۔
اور ایسا سوچنا بھی مت۔۔ تمہیں ہر حال میں یہ کمپیٹیشن جیتنا ہے۔۔ رون جانے کہاں سے ٹپک پڑا تھا۔
میں یہ کمپیٹیشن نہیں کر رہی۔۔ حرم نے صاف جواب دیا۔
اگر تم ہاری۔۔ تو وہ بلڈنگ دیکھ رہی ہو نا۔۔ رون سے سب سے اونچی بلڈنگ کی طرف اشارہ کر کے کہا۔۔
تمہیں وہاں لے جا کر دھکہ دے دونگا۔۔ سمجھ آٸ۔۔ وہ اسکی بات سنے بنا۔۔ اپنی سناتا یہ جا وہ جا۔
کیا مصيبت ہے یار۔۔ حرم روہانسی ہوٸ۔
ریلیکس ہو جاٶ حرم۔۔ کچھ سوچتے ہیں۔۔
ڈین سے نہیں کسی اور سے تو مل ہی سکتی ہوں نا۔۔ حرم نے سوچا۔۔اور پھر کچھ دیر بعد وہ پروفيسر جوزف کے سامنے تھی۔
مجھے یہ کمپیٹیشن نہیں کرنا پروفیسر۔۔ وہ سب کچھ بتانے کے بعد بولی تھی۔
ہمممم۔۔۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے وقت ایک بار پھر سے لوٹ آیا ہے۔۔
میں کچھ سمجھی نہیں۔۔۔ حرم نے پروفيسر کی بات سننے کے بعد کہا۔
چھبیس سال پہلے بھی ایک ایسا ہی کمپیٹیشن ہوا تھا۔۔ساٸنس اور بزنس ڈیپارٹمنٹ کے درمیان۔۔ ساٸنس ڈیپارٹمنٹ کی پارٹیسپیٹر تب بھی ایک لڑکی تھی ایک پاکستانی لڑکی۔۔ فرق صرف یہ تھا کہ بزنس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے یونيورسٹی کا سب سے وجیہہ، امیر اور زہین سٹوڈنٹ تھا۔۔ عالم شاہ۔۔ جس کا دماغ ہمیشہ ساتویں آسمان پر رہتا تھا۔
پھر کیا ہوا پروفيسر۔۔ ؟؟ حرم نے پوچھا لیکن وہ سمجھی نہیں تھی کہ پروفيسر اسے یہ سب کیوں بتا رہے ہیں۔۔
اور پھر عالم شاہ کمپیٹیشن میں اس نازک سی لڑکی سے ہارنے کے ساتھ ساتھ اپنا دل بھی ہار گۓ تھے۔۔ اور پھر یہاں سے ایک داستانِ محبت شروع ہوٸ تھی۔۔
لیکن پروفيسر مجھے نا تو کوٸ داستان لکھنی ہے اور نا کوٸ کمپیٹیشن کرنا ہے۔۔ مجھے دونوں چیزوں میں انٹرسٹ نہیں ہے۔۔ حرم جھنجھلا گٸ تھی۔
ہممم۔۔۔ تو ٹھیک ہے۔۔جاٶ نا کہہ دو۔۔ اپنے مشرق کو کمزور ثابت کردو۔۔ جو نام چھبیس سال پہلے اس لڑکی نے بنایا تھا اسے ختم کردو۔۔ پروفيسر نے صاف لہجے میں کہا۔
اوکے تھینکس پروفيسر ۔۔۔ حرم کہتی باہر آگٸ۔۔ اسے قیمت پر بھی یہ کمپیٹیشن نہیں کرنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورا راٸل پیلس روشنیوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔۔ سیاہ رات میں روشنیوں سے سجا پیلس پورے غرور سے کھڑا تھا۔ اور اندر وہ شہزادہ تیار ہو رہی تھی جسکی آج بیسویں سالگرہ تھی۔۔ شہر کے سارے معزز لوگ وہاں اکٹھے ہوۓ تھے۔ ایش کی ساری فرینڈز۔۔ اسکی کلاس میٹس۔۔ سب ہی وہاں تھیں۔۔ اور اسکو بس ایک شخص کا انتظار تھا۔۔ اسی وجہ سے وہ تیار ہونے میں وقت لگا رہی تھی کہ کہیں نہیں جا کر کیک نا کاٹنا پڑے۔۔ اسے دیکھے بنا وہ یہ کیسے کر سکتی تھی۔
ایش جلدی چلو سب تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔۔ مسز ولیم نے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ کہا۔
بس مام ہوگٸ ہوں تیار۔۔ آرہی ہوں۔۔
واٶٶٶ بیوٹی فل۔۔ گاڈ بلیس یو ڈیٸر۔۔ مسز ولیم نے اپنی اکلوتی شہزادی کی پیشانی چومی۔
مسٹر ولیم راٸل خاندان میں سے تھے۔۔ اور یہ راٸل خاندان کا آخری فرد تھا۔۔ جسکی ایک ہی بیٹی تھی ایش ولیم۔۔
کچھ دیر بعد وہ نیچے آٸ تھی۔۔ سیاہ زمین کو چھوتی سلیو لیس میکسی میں ملبوس وہ واقعی راٸل پرنسز لگ رہی تھی۔۔
سب کی نگاہیں سیڑھیوں کی طرف اٹھیں تھیں۔۔ وہ شہزادی کی طرح سیڑھیوں کے آغاز میں کھڑی تھی۔۔ پھر وہ نیچے اترنے لگی تھی کہ مسٹر ولیم نے اسےاشارہ کیا۔
وہ وہیں کھڑی ہوگٸ۔۔ مسٹر ولیم سیڑھیاں چڑھتے اوپر گۓ۔۔ اور اپنا بازو آگے کیا۔۔ جس میں سے ایش نے مسکراتے ہوۓ اپنا دایاں بازو نکالا۔۔ اور وہ دونوں ایک خوبصورت کپل کی مانند چلتے ہوۓ نیچے آۓ تھے۔۔سبھی مہمانوں نے تالیاں بجاٸ تھیں۔۔
ایش کھڑی سب سے دعائيں اکٹھی کر رہی تھی البتہ اسکی نظر پیلس کے جہاز سازی دروازے کی طرف بار بار اٹھ رہی تھی۔ وہ ابھی تک نہیں آیا تھا۔
گہری سبز آنکھیوں میں انتظار کی جوت جل رہی تھی۔۔
چلیں بیٹا۔۔ مسٹر ولیم نے اسے پکارہ انکا اشارہ کیک کی طرف تھا۔
ایش مسکاتی انکے ساتھ آگے بڑھ گٸ۔۔ ایک ماٸیک تھا جسکی نظریں ایش سے نہیں ہٹ رہی تھیں۔۔
اب کس کا انتظار ہے۔۔ مسز ولیم نے اس سے پوچھا۔۔ وہ جو کنفیوژڈ سی کیک کے سامنے کھڑی تھی۔
سٹارٹ کرو ایش۔۔ ماٸیک نے اسکے پاس آکر کہا۔۔
ہمم۔۔ اوکے۔۔ ایش نے کہا۔
آخر آپ نہیں آۓ سیم۔۔ ایش کا دل بجھ چکا تھا۔
وہ کیک پر جھکی۔۔ کینڈل لاٸیٹس کو بجھانے کیلیۓ اس نے پھونک ماری۔۔ اور تھبی پیلس کا دروازہ کھلا اور وہ اندر آیا۔۔ ایش کی نظر اسی طرف تھی۔۔ وہ حیران رہ گٸ۔۔
وہ آگیا تھا۔۔ بلیک جینز اور واٸٹ شرٹ پہنے۔۔ ہلکی ہلکی داڑھی اسکے چہرے کو اور خوبصورت بنارہی تھی۔
ایش کو لگا اچانک ہر طرف اجالہ پھیل گیا ہو۔۔ سب مکمل ہو چکا تھا۔۔ اسکی سبز آنکھوں کی چمک ایک دم بڑھ گٸ تھی۔۔ وہ آگےنہیں آیا تھا بلکہ دروازے کے پاس کھڑے نوکروں کی فوج کے پاس کھڑا ہو گیا تھا۔
تھینک یو۔۔ ایش نے زیرِ لب کہا تھا۔۔ وہ بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
اور پھر اس نے کیک کاٹا۔۔ ہرطرف سے ہیپی برتھ ڈے کی پکار سناٸ دے رہی تھی۔
ایش نے باری باری سب کو کیک کھلایا تھا۔۔ شدید خواہش کے باوجود وہ بھی وہ اسکی طرف نہیں بڑھ سکی۔۔
میوزک سٹارٹ ہو چکا تھا۔۔سارے کپلز اکٹھے ہو چکے تھے۔۔
لیٹس ڈانس۔۔ مسٹر ولیم نے ایش کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔
آفکورس ڈیڈ۔۔ ایش نے مسکراتے ہوۓ ہاتھ تھاما۔۔
ہونہہ۔۔ فرنگیوں کے چونچلے۔۔ سمعان نے غصے سے سوچا۔۔
اتنا کافی تھا۔۔ وہ واپس جانے کیلیۓدروازے کی طرف بڑھا۔۔
ایش نے اسے جاتے ہوۓ دیکھ لیا تھا۔۔
ویٹ اے منٹ ڈیڈ۔۔ میں ابھی آٸ۔۔ وہ اپنا ہاتھ چھڑاتی اپنی میسکی کو سھنبالتی اسکے پیچھے بھاگی۔۔
سیم۔۔ رکیں۔۔ پلیز۔۔ وہ گیٹ کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔ اسکی آواز سن کر رکا۔
اتنی بھی جلدی کیا ہے جانے کی۔۔ ابھی تو میں آپ سے ملی بھی نہیں۔۔ وہ بھاگتے ہوۓ آٸ تھی۔۔ تنفس کی رفتار تیز ہو چکی تھی۔۔
سمعان اسکی طرف دیکھنے سے گریز کر رہا تھا۔۔ اسکی گردن اور کانوں میں چمکتے ڈاٸمنڈز سے زیادہ اسکی آنکھوں کی چمک اور ہونٹوں کی مسکراہٹ اسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ ایمان ڈگمگانے کا پورا انتظام کر رکھا تھا ایش نے۔۔ اور سمعان کو اپنا ایمان بہت پیارہ تھا۔
ویسے تھینک یو۔۔ آپ آگۓ۔۔ میری خاطر۔۔
میں یہاں آکے لیۓ نہیں آیا ایش ولیم۔۔ لہجے میں بلا کی کاٹ تھی۔۔
تو پھر۔۔ ایش حیران ہوٸ۔۔
مجھے میری سیلری چاہیۓ۔۔۔ میں اپنی سیلری لینے آیا ہوں۔۔ وہ سپاٹ سے لہجے میں بولا تھا۔۔
ایش کے دل کو ایک دھچکہ لگا تھا۔اسے اس جواب کی امید نہیں تھی۔۔
میں نے سوچا آج شہزادی کا جنم دن ہے۔۔ نوکروں میں خاص تحائف بانٹے جا رہے ہونگے۔۔ تو میں بھی اپنی سیلری لے آتا ہوں۔۔ جانے کیوں اسکا لحظہ اتنا تلخ ہو جاتا تھا۔
تین مہینے ہو گۓ ہیں سیم۔۔ آپکی سیلری کبھی لیٹ نہیں ہوٸ۔۔ اس بار بھی نہیں ہوگی۔ آپ ویٹ کریں میں لے کر آتی ہوں۔۔ شہزادی کی آنکھوں کی چمک غائب ہو چکی تھی۔۔ آنکھوں میں نمی ابھری تھی جسے چھپانے کیلیۓ وہ واپس مڑی۔۔
رہنے دو۔۔ صبح دے دینا۔۔ ابھی تم اپنی پارٹی انجواۓ کرو۔۔
ایش کے قدم رکے تھے۔۔
ویل ہیپی برتھ ڈے۔۔ میں کوٸ گفٹ نہیں لایا۔۔ کیونکہ میرے پاس پیسے نہیں تھے۔۔ اور نا ہی نوکروں کا حق بنتا ہے کہ وہ مالک کو گفٹ دیں۔۔۔ وہ سادھے سے لہجے میں کہہ رہا تھا لیکن ایش کا اسکا سادھا سا لہجہ بھی چبھ رہا تھا۔۔
تھینکس۔۔ ایش مڑی۔۔ اور زبردستی مسکرا کر کہا۔۔ پھر وہ بنا کچھ بولے آگے بڑھ گٸ۔۔ روشنیوں کی شہزادی روشنیوں میں گم ہونے جا رہی تھی۔ اب اسکی چال میں وہ جوش نہیں تھا۔۔ وہ تھکی تھکی سی آگے بڑھ گٸ۔۔ سمعان جان چکا تھا وہ اپنے آنسوں صاف کر رہی تھی۔۔
وہ اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔۔ جانے کیوں وہ دھندلی دھندلی سی نظر آرہی تھی۔۔ شاید اسکی آنکھوں میں کچھ چلا گیا تھا۔۔ جسکی نمی اسکی آنکھوں میں ابھر رہی تھی۔۔
تمہارے لیۓ وہی دنیا ٹھیک ہے ایش۔۔ وہ جلتی آنکھوں سمیت بولا تھا۔۔ اور پھر سر جھٹک کر گیٹ کی طرف بڑھ گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے یہ کمپیٹیشن ہرگز نہیں کرنا۔۔ وہ گاڑی میں بیٹھی فرہاد کو سنارہی تھی۔۔
مجھے اپنا تماشہ نہیں بنوانا ہادی۔۔ کوٸ میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتا۔۔ وہ فرہاد کو سب کچھ بتا چکی تھی۔۔
لیکن اس میں براٸ ہی کیا ہے۔۔ فرہاد نے گاڑی چلاتے ہوۓ پوچھا۔
براٸ ہے۔۔ براٸ کیوں نہی ہے۔۔ ساٸنس اور بزنس ڈیپارٹمنٹ کا کوٸ کمپیٹیشن نہیں بنتا۔۔ آپکو پتا بھی ہے ساٸنس کتنی مشکل ہے۔۔
ہاں مجھے کیا پتا بھٸ۔۔ فرہاد نے اسکی بات دہراٸ۔۔
اتنی مشکل سٹڈی۔۔ آپکو کیا پتا۔۔
واقعی مجھے کیا پتا۔۔ فرہاد نے سر ہلایا۔۔
اوپر سے اتنے مشکل پریکٹکلز ہوتے ہیں۔۔ ہادی آکو کیا پتا۔
اور فرہاد نے مشکل سے اپنی مسکراہٹ ضبط کی تھی۔۔۔
آپکو پتا بھی ہے ساٸنس میں ہوتا۔۔۔۔ وہ اسکی طرف دیکھ کر بول رہی تھی اور پھر اچانک خاموش ہوگٸ۔۔ شاید اسے کچھ یاد آگیا تھا۔
وہ ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر جو کہ اسپیشلاٸزیشن کر رہا تھا اسے کہہ رہی تھی آپکو ساٸنس کے بارے میں کیا پتا۔۔
ہاں بھٸ۔۔ مجھے کیا پتا ساٸنس میں کیا ہوتا ہے۔۔ فرہاد کے لہجے میں شرارت تھی۔۔
وہ میں بھول گٸ۔۔ تھی۔۔ کہ آپ۔۔حرم سے بولا نہیں جارہا تھا۔۔
ہاہاہاہاا۔۔ فرہاد کا قہقہہ گونجا۔۔ کمال ہے۔۔ ویسے تم ٹھیک کہہ رہی ہو حرم مجھے بالکل بھی ساٸنس کا نالج نہیں ہے۔۔
اسکی لہجے میں چھپی شرارت کو حرم بھانپ چکی تھی۔۔
ویری فنی۔۔ اسکے قہقہہ لگانے پر حرم نے منہ پھلاتے ہوۓ چہرہ دوسری جانب کر لیا۔۔۔ اور فرہاد کو روٹھی روٹھی حرم پر بے پناہ پیار آ رہا تھا۔۔ وہ ناراض ہو گٸ تھی۔۔ اب وہ اسے گھر جا کر ہی منا سکتا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن سمعان نہیں آیا تھا۔۔ ایش نے بھی اسے کال نہیں کی۔۔ وہ رات کو اسکی نازک سی فیلنگز کو اتنی بری طرح ٹھیس پہنچا چکا تھا۔۔ وہ رات کو ٹھیک سے سو نہیں پاٸ تھی۔۔ وہ جس کے لیۓ اتنے اچھے طریقے سے تیار ہوٸ تھی اس شخص نے ایک نظر دیکھنا بھی گنوارا نہیں کیا تھا۔۔
ڈیڈ۔۔ میں آجاٶں ۔۔ مسٹر ولیم سٹڈی روم میں تھے جب وہ انکے پاس آٸ۔۔
آجاٶ ایش۔۔۔ تمہیں اجازت لینے کی ضرورت نہیں میری جان۔۔
اور وہ مسکراتے ہوۓ اندر آگٸ۔۔ سٹڈی میں دنیا جہان کی کتابیں تھیں۔۔ وہ ساری پڑھ چکی تھی۔۔ کمال کی بات تھی ایک بھی کتاب ایسی نہیں تھی اسلام کے بارے میں کچھ لکھا ہو۔۔
ایک بات پوچھوں ڈیڈ۔۔ ایش نے کتابوں کے شیلف کے پاس کھڑے ہو کر پوچھا۔۔
جی پوچھو۔۔۔ مسٹر ولیم نے مسکرا کر کہا۔
ڈیڈ یہ مسملز کون ہیں۔۔ ایش نے شیلف سے ایک کتاب نکالتے ہوۓ پوچھا۔
اور فاٸل پر جھکے مسٹر ولیم کو ایک جھٹکا لگا۔۔
کیوں پوچھ رہی ہو۔۔؟؟ وہ سرد سے لہجے میں بولے۔۔
ویسے ہی۔۔ مجھے بچپن سے ہر چیز کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔۔ سواۓ اسلام کے۔۔ ہر چیز کے بارے میں میں نے بک پڑی ہے۔۔ سواۓ اسلام کے بارے۔۔ ایسا کیوں ہے ڈیڈ۔۔
مسلمز ٹیرورسٹ ہیں۔۔ یہ دنیا میں جتنی بھی دہشت پھیلی ہوٸ ہے۔۔ جتنے بھی بم بلاسٹ ہوتے ہیں سب مسلمز نے کیا ہے۔۔ پت ہے مسلمانوں نے ہم یہودیوں کے کتنے خاندانوں کو زندی جلا دیا تھا۔۔ وہ نفرت سے کہہ رہے تھے۔۔ اور انکا لہجہ مسلمانوں سے انکی نفرت کو ظاہر کر رہا تھا۔
اور ایش نے حیرانی سے اپنے ڈیڈ کو دیکھا جو کبھی ہاٸپر نہیں ہوتے تھے۔۔ اور آج مسلمانوں کا نام سن کر کیسے ری ایکٹ کر رہے تھے۔۔ جو وہ بتا رہے تھے وہ ایش نے پہلی بار سنا تھا۔
اسکی نگاہوں میں سمعان، بابا جی اور سمعان کی بہن زارا کا معصوم سا چہرہ گھوم گیا۔۔ انہيں دیکھ کر بالکل نہیں لگتا کہ ایک مسلمان ایسا کچھ کر سکتا ہے۔۔
ڈیڈ میرا ڈرائيور ایک مسلم ہے۔۔ لیکن وہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔۔
جو جاب سے نکال دو ایش۔۔ مسٹر ولیم نے سپاٹ سے لہجے میں کہا۔
پر کیوں۔۔ ؟؟ وہ پوچھ رہی تھی۔۔
بس میں کہہ رہا ہوں نا۔۔ اسے نکال دو۔۔
اوکے ڈیڈ۔۔ منتھ کمپلیٹ ہونے کے بعد نکال دونگی۔۔ابھی اسے پیسوں کی ضرورت ہے۔۔ ایش نے کہا اور سٹڈی سے چلی گٸ۔۔وہ جان چکی تھی کہ اسکا ڈیڈ مسلمز سے بے انتہا نفرت کرتا ہے۔۔
ایک وہ تھی جو اس کھڑوس سے مسلمان پر اس وقت فدا ہوگٸ جب وہ عبادت میں مگن تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں سیم۔۔ اگلے دن وہ میوزک کلاس کیلیۓ آٸ تھی۔۔ اسٹوڈیو کے سامنے سمعان نے گاڑی روکی تو ایش نے کہا۔
ہممم۔۔۔ کہو۔۔ وہ جیسے جانتا تھا کہ وہ کیا کہنے والی ہے۔
وہ میں۔۔ وہ۔۔ ایکچوٸلی۔۔
کتنا مشکل ہوتا ہے ایک لڑکی کیلیۓ ایک لڑکے کو اپنی فیلنگز کے بارے میں بتانا۔۔ پھر چاہے وہ لڑکی مشرق کی ہو یا مغرب۔۔ عورت تو عورت ہی ہوتی ہے نا۔۔ ایک فطری سی حیا اسکے آڑے آ رہی تھی۔۔
اور اللہ پاک نے ہر انسان کو اسکی حیا سمیت پیدا کیا ہے۔۔ پر انسان بےوقوف ہے۔۔ جو وقت کے ساتھ ساتھ اسے کھو دیتا ہے۔۔ اور ایش کے پاس بھی ابھی حیا بچی ہوٸ تھی۔۔ کیونکہ آغ تک اس نے کسی لڑکے سے کوٸ ریلیشن نہیں بنایا تھا۔۔
جلدی بولو ایش۔۔ وہ بے زار سا کھڑا تھا۔۔
میں آپکو بہت لاٸک کرتی ہوں۔۔ آ تھنک آٸ ایم ان لو ود یو سیم۔۔ ایش کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔
واٹ۔۔ سمعان نے جھٹکے سے اسکی طرف دیکھا۔۔
تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے نا۔۔وہ غصے سے کہہ رہا تھا۔۔۔ اور پھر اسکا ایک قہقہہ گونجا۔۔
جاٶ بی بی کام کرو اپنا۔۔ وہ تنفر سے کہتا گاڑی میں بیٹھنے لگا۔۔
ایش کو لگا تھا وہ اسکے منہ پر تمانچہ مار چکا ہو۔۔
میری بات کا جواب دیے بنا آپ یہاں سے نہیں جا سکتے سیم۔۔ ایش نے اسکا بازو پکڑا۔۔
تم مجھے بالکل بھی پسند نہیں ہو۔۔ اور نا میری چواٸس کبھی تم جیسی لڑکی ہو سکتی ہے۔۔سمجھی۔۔ اور کیا تم مجھ سے شادی کر سکتی ہو۔۔؟؟ نہیں نا۔۔ وہ ہنسا۔۔ اب جان چھوڑو۔۔۔ اور آٸندہ ایسا ایک لفظ بھی مت کہنا۔۔
ایش کی آنکھوں میں پانی ابھرنے لگا۔۔ اتنی ہتک۔۔ اتنی نفرت۔۔ وہ خاک ہو رہی تھی۔۔ اور سمعان حیدر فراٹے سے گاڑی بھگا کر لے گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنے پیلس کے پچھلے حصےمیں کھڑی پینٹنگ بنا رہی تھی۔۔ جانے کیوں کچھ بھی اسکے زہن میں نہیں آرہا تھا۔۔ کوٸ شبیہہ نہیں ابھر رہی تھی۔۔
وہ برش ہاتھ میں پکڑے آسمان کو تکتی کوٸ اداس سا بت لگ رہی تھی۔۔
ہیلو ایش۔۔ عقب سے کسی نے پکارہ۔۔ وہ ماٸیک تھا۔۔اسکا دور کا رشتے دار۔۔ لیکن اسکے ڈیڈ کا فیورٹ بواۓ تھا وہ۔۔ انکی نظر میں لڑکوں کو ماٸیک جیسا ہونا چاہیۓ۔۔ زہین، محنتی اور باادب۔۔
کہاں کھوٸ ہوٸ۔۔ وہ اسکے نا دیکھنے پر اسکے سامنے چٹکی بجاتا بولا۔۔
اووو ماٸیک۔۔ تم کب آۓ۔۔
ابھی جب تم آسمان پر جانے کس ستارے کو ڈھونڈ رہی تھی۔۔ وہ بھی دن میں۔۔
آج سنڈے تھا۔۔ وہ فری تھی۔۔
کچھ نہیں۔ بس ایسے ہی۔ وہ پلٹ کر جانے لگی۔
مجھ کچھ بات کرنی تھی تم سے۔۔ وہ کہہ رہا تھا۔۔
بولو۔۔ میں سن رہی ہوں۔۔ اب وہ اپنے رنگوں کو اکٹھا کر رہی تھی۔۔
ایش۔۔۔ ماٸیک نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے سامنے کیا۔۔ اور ایش اسکی اس حرکت پر بھوکلا گٸ۔۔ اس نے فٹا فٹ اپنا ہاتھ چھڑوایا۔۔
ماٸیک اسکے چہرے پر ناگواری دیکھ چکا تھا۔۔
انکل تمہاری شادی مجھ سے کرنا چاہتے ہیں۔۔ ماٸیک نے دھماکہ کیا۔۔
واٹ۔۔ ایش کو لگا زمین ہل گٸ ہو۔۔
ہاں۔۔ وہ تمہارے برتھ ڈے والے دن یہ اناٶس کرنا چاہتے تھے۔۔ وہ تو میں نے انہیں منع کردیا تھا۔۔ کیونکہ میں تمہاری مرضی جاننا چاہتا تھا۔۔
ڈیڈ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔۔ میری مرضی جانے اور پوچھے بنا۔۔ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔۔ ایش بڑ بڑا رہی تھی۔۔
ایش میں تمہیں بہت چاہتا ہوں۔۔ آج سے نہیں بچپن سے۔۔ ماٸیک کی آنکھیں اسکے لفظوں کی سچاٸ کی گواہی دے رہی تھیں۔۔
لیکن میں نے کبھی ایسا نہیں سوچا ماٸیک۔۔ وہ بھڑک اٹھی۔۔ اور نا مجھے ابھی شادی کرنی ہے۔۔
ریلیکس ایش تمہاری مرضی جانے بنا ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔ وہ اسکے اس طرح ری ایکٹ کرنے پر حیران ہوا تھا۔۔
میں ایسا نہیں چاہتی۔۔ اور نا کبھی چاہوں گی۔۔ اور ماٸیک کا دل ڈوبا تھا۔۔
کوٸ اور ہے تمہاری لاٸف میں۔۔ وہ پوچھ رہا تھا۔
بات کسی اور کے ہونے یا نا ہونے کی نہیں ہے ماٸیک۔۔ مجھ سے ہوچھے بنا ڈیڈ یہ فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں۔۔ اور مجھے ابھی شادی نہیں کرنی۔۔ وہ غصے سے کہتی۔۔ برش وہیں پھینکتی۔۔ تن فن کرتی اندر کی طرف بڑھ گٸ۔۔ ماٸیک افسوس سے کھڑا رہ گیا۔۔
جانے ہم وہ ازیت دوسرے انسان کو کیوں دیتے ہیں جیسی ہمیں ملی ہو کس اور سے۔۔ جو سمعان نے کچھ دن پہلے ایش کے ساتھ کیا تھا ایش نے آج وہ ماٸیک کے ساتھ کیا۔۔ بنا یہ سوچے کہ اسے بھی وہی تکلیف ہوٸ ہوگی۔۔ جس سے وہ خود گزر رہی ہے۔۔
❤❤❤❤❤❤❤
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─