┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄
ناول: لو_مان_لیا_ہم_نے
از: فاطمہ_خان
قسط_نمبر_13
"یہ آپ کیا کہ رہی ہے مما زرشالہ اور میں... میں نے تو ہمیشہ اسے اپنی بھابھی کے روپ میں دیکھا تھا "
صبا بیگم اس وقت بہروز کے کمرے میں تھی زالان کو بھی انہوں نے وہی بلا لیا تھا رشتے کی بات سن کر زالان کا رنگ سفید پڑھ گیا تھا بہروز کی کچھ ایسی ہی حالت تھی
"ہاں سوچا تو میں نے بھی ایسا ہی تھا پر زالان کو منظور نہیں اس لیے میں نے تمہارے لئے بات کر لی"
"یہ کیا بات ہوئی مما بھائی نہیں تو میں سعی میں نے تو کبھی ایسا سوچا بھی نہیں ہے"
بہروز نے افسوس سے مما کو دیکھا مما نے غصہ سے بہروز کو دیکھا
"ہاں ہاں ناں تم نے سوچا ہے ناں تمہارے بھائی نے ٹھیک ہے ناں کروں تم بھی خبردار آئندہ مجھ سے بات کرنے کی کوشش بھی کی تو "
مما نے ناراض ہو کر جواب دیا
"مما جب وہ نہیں مان رہا تو کیا زبردستی کر رہی ہے آپ اس کے ساتھ"
زالان اس وق ہارے ہوا جواری لگ رہا تھا جو اپناسب کچھ اپنی آنا کی خاطر قربان کرنے پر تلا ہوا تھا
بہروز نے نظر اٹھا کر زالان کو دیکھا اس کی نظروں میں کچھ تو تھا جس نے بہروز کو سوچنے پر مجبور کر دیا وہاں سب کچھ ہار جانے کا غم تھا
"او تو یہ بات ہے زالان بھائی آپ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر کہ رہے ہیں بچہ تو میں بھی نہیں ہو جو آپ کے دل کا حال ناں سمجھ سکوں مگر میں یہ بھی جانتا ہوں اس وقت آپ مر کر بھی اس بات کا اعتراف نہیں کروں گے کہ آپ زرشالہ کے بنا ادھورے ہوں ..اب مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا "
بہروز نے گہری نظروں سے زالان کو دیکھ کر دل میں سوچھا
"ٹھیک ہے مما مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے شادی تو مجھے کرنی ہی ہے زرشالہ بھی اچھی لڑکی ہے مجھے یقین ہے میں اس کے ساتھ بہت خوش رہوں گا"
اس کے چہرے پر پہلے کی طرح کوئی بھی بےزاری نہیں تھی اب کی بار وہ بہت خوش دیکھائی دے رہا تھا زالان نے چونک کر بہروز کو دیکھا جو اپنے فیصلے پر مطمئن لگ رہا تھا زالان کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا آنکھیں ضبط سے سرخ پڑ گئی تھی اس نے اپنے ہاتھوں کو مظبوطی سے آپس میں بھنچ لیا اس کے ہاتھوں کی رگیں اُبھر گئی تھی کسی اپنے کو کھونے کا درد کیسا ہوتا ہے وہ آج جان پایا تھا
"تم سچ کہ رہے ہوں ناں"
مما نے بےیقنی سے پوچھا
"بلکل سچ مگر اس سے پہلے میں آسٹریلیا ایم فل کرنے جاؤ گا مجھے اپنا کیریئر بنانا ہے زرشالہ بھی اچھی پڑھ رہی ہے میں ابھی کوئی بھی فنگشن نہیں کرنا چاہتا واپس آ کر ڈائرکٹ شادی کرو گا "
بہروز نے حتمی لہجے میں کہا
"یہ کیا کہ رہے ہوں تم کہی نہیں جا رہے اتنا دور تو میں تمہیں جانے نہیں دوں گی"
مما اس کی باہر جانے کی بات سن کر پریشان ہو گئی تھی
"مما کچھ نہیں ہوتا پلیز یہ میری زندگی کا سب سے بڑا خواب ہے پلیز اسے مجھ سے مت چھینے "
"بھائی پلیز مما کو سمجھائے ناں"
بہروز نے اپنے خیالوں میں کھوئے ہوئے زالان کو متوجہ کیا
"آہ کیا کیا ہوا"
وہ جیسے گہری نیند سے جگا بہروز اس کی اس حرکت پر زیر لب مسکرائے بنا ناں رہ سکا
"بھائی مما کو سمجھائے ناں میں آسٹریلیا جانا چاہتا ہوں واپسی میں آ کر زرشالہ سے شادی کر لوں گا"
آخری بات زالان کے دل پر لگی زالان نے ضبط مٹھیاں بھینچ لی
"مما اگر اس کا شوق ہے تو جانے دیں اسے کیوں مانا کر رہی ہے آپ"
اس نے مما کو دیکھ کر کہا کوئی اور وقت ہوتا زالان اس کا سر پھوڑ دیتا باہر جانے کی بات پر مگر اس وقت تو اس کا اپنا دماغ ماؤف ہوا تھا وہ کیا سوچتا
"پر بیٹا دو سال بہت بڑا عرصہ ہوتا ہے تم دونون دنیا کے نرالے بیٹے ہوں ایک کو پولیس میں جانے کا شوق ہوا دوسرے کو باہر جانے کا دو ہی اولادیں ہو میری دونوں ہی ایک دوسرے سے بڑھ کر نکمے "
مما نے ناراضگی سے دونون کو گھورا
ان کی بات پر بہروز کا قہقہہ بےسہتا تھا زالان مسکرا بھی نہیں سکا
"چلو ٹھیک ہے چلے جاؤ میں نے منع بھی کر دیا تو کون سا تم نے ان لینا ہے"
انہوں نے روٹھے لہجے میں کہا
"اچھا مما میں چلتا ہوں مجھے ضروری کام سے جانا ہے"
وہ سب سے لاتعلق بیٹھا تھا وہاں سے اٹھ کر جانے لگا
"بھائی ایسے کیسے جا رہے ہیں میری بات پکی ہوئی ہے گلے لگا کر مبارک باد تو دے دے ناں "
بہروز نے اٹھ کر اس کے سامنے کھڑے ہو کر معصومیت سے کہا
"مبارک ہو "
اس نے لٹ مار انداز میں جواب دیا
"یہ کیا بات ہوئی نا جوش نا جذبہ لگتا ہے آپ کو کوئی حاص خوشی نہیں ہوئی"
وہ مسکراہٹ دباتے ناراضگی سے گویا ہوا
زالان کی آنکھیں دکھ سے لال ہو رہی اس نے آگے بڑھ کر بہروز کو گلے لگایا
"مبارک ہو میرے بھائی مجھے بہت خوشی ہوئی ہے میں بلا کیوں خوش نہیں ہو گا مجھے یقین ہے شالہ تمہارے ساتھ بہت خوش رہے گئی"
اس نے دل پر پتھر رکھ کر مسکرا کر کہا پھر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا سے چلا گیا مما نے حیران نظروں سے اسے جاتا دیکھا
"ایسے کیا ہوا "
مما نے حیران نظروں سے بہروز کو دیکھ کر پوچھا
"کچھ نہیں مما شاید کوئی مسلئہ ہو گا ٹھیک ہو جائے گے آپ ٹنشن ناں لے "
اس نے مما کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر انہیں یقین دلایا
خود کچھ سوچ کر سکون سے وہی بیٹھ گیا
......................
وہ اس وقت گھر سے کہی دور جانا چاہتا تھا جہاں اسے یہ سب یاد نہ رہ سکے وہ ان سب باتوں سے دور بھاگ جانا چاہتا تھا اس کے دل میں انجانہ سا درد جگ اٹھا تھا سب کچھ کھو دینے کا درد
اس نے جیسے ہی دورازہ کھولے سامنے سے عجلت میں آتی زرشالہ سے زور تصادم ہوا وہ چکرا کر رہ گئی
"ہائے زالان آپ کو لگی تو نہیں"
اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں تھامے وہ اس کی فکر میں ہلکان ہو رہی تھی زالان نے پیھکی مسکراہٹ سے اسے دیکھا
"لگی ہے ناں بہت زور کی اتنے زور کی کہ میں چاہ کر بھی اس درد کو کم نہیں کر سکتا"
اس نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا
"کہا لگی ہے "
اس نے اندار آکر اس کا ہاتھ تھام کر فکرمندی سے پوچھا
"یہاں "
اس نے دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیا
"مگر میرا سر دوسری طرف ٹکرایا تھا"
اس نے حیران نظروں سے اسے دیکھا
"ہاں پر درد یہاں ہو رہا ہے ناں بہت زیادہ ہو رہا ہے میرا دل درد سے پھٹا جا رہا ہے"
اس نے اب بھی کھوئے کھوئے انداز میں جواب دیا
اب کی بار زرشالہ نے پریشانی سے اسے غور سے دیکھا
"سب ٹھیک تو ہے ناں مجھے ٹینشن ہو رہی ہے مجھے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی "
اس نے فکرمندی سے کہا
"ہاں میں ٹھیک نہیں ہو سب حتم ہو گیا ہے مجھے پتا ہی نہیں چلا اور سب میرے نظروں کے سامنے حتم ہوتا چلا گیا"
اس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نکال کر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا
"حیر مبارک ہو بہت بہت مجھے تو خیال ہی نہیں رہا تمہیں مبارک باد بھی تو دینی تھی ناب"
"اس نے چونک کر زالان کو دیکھا
"مبارک باد کس بات کی مبارک باد کیا ہوا ہے"
اس نے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھا
"داجی نے تمہارا اور بہروز کا رشتہ پکا کرلیا ناں تمہیں تو پتا ہی ہوں گا ناں خوش ہو ناں"
زالان نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر کئی سوال کیے
"واٹ یہ کیا کہ رہے ہیں آپ ایسے کسیے ہو سکتا ہے مجھے تو داجی نے کچھ بھی نہیں بتایا"
اس نے پریشان ہو کر کہا
"ہہہہم شاید آج بتا دے تمہیں تم خوش تو ہو ناں"
اس نے تھکے ہوئے لہجے میں پوچھا
"خوش اور میں آپ کو لگتا ہے میں اس گھوڑی سے شادی کروں گی ناممکن "
وہ غصّے میں بولی زالان کو لگا وہ پھر سے جی اٹھا ہو اس کی شالہ اس کی ہے وہ کہی نہیں جانے والی
"پر ایک بات ہے اس بہانے مجھے ہمیشہ کے لیے یہاں رہنے کا موقع مل جائے گا پھر تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے آپ کا کیا حیال ہے"
اس نے چہک کر کہا زالان نے بےیقنی سے شالہ کو دیکھا
"تو تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہے "
"نہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے داجی جہاں چاہے میری شادی کر دے مگر ابھی نہیں مجھے آرام سے پڑھنا ہے اس کے بعد سوچوں گی"
اس نے سنجیدگی سے جواب دیا اس کا دل کر رہا تھا وہ ابھی جا کر داجی کو انکار کر دے وہ بہروز سے کسی بھی حال میں شادی نہیں کرنا چاہتی تھی
"بہروز دو سال کے لیے باہر جا رہا ہے واپس آکر ہی شادی کرنا چاہتا ہے"
"تو تب کی تب دیکھے گے زالان میں آنے والے وقت کا پہلے سے سوچ کر اپنا یہ وقت خراب نہیں کر سکتی "
اس نے باظاہر لاپرواہی سے جواب دیا
"تمہیں بہروز کیسا لگتا ہے"
"اچھا ہے بہت اچھا ہے میرا کزن ہے سب میں جان ہے میری مگر آپ جو پوچھ رہے ہیں ویسا اچھا نہیں لگتا میں نے ایسا کبھی سوچا بھی نہیں ہاں کل کو شادی ہو گئی تو شاید مجھے وہ اچھا لگنے لگے مگر یقین مانے ابھی میرے دل میں اس کے لیے ایسا جو جذبہ نہیں ہے "
اس نے کہ کر زالان کو دیکھا جو اجڑا اجڑا لگ رہا تھا آنکھیں سرخ ہوئی تھی
"آپ کو کیا ہوا ہے زالان کچھ دنوں سے دیکھ رہی ہوں آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی مجھے کوئی پریشانی ہے کیا"
اس نے فکرمندی سے پوچھا
"میری فکر کرنا چھوڑ دوں ٹھیک ہو میں مجھے دیر ہو رہی ہے مجھے کہی بہت ارجنٹ جانا ہے خدا خافظ"
وہ اسے نظر انداز کرتا وہاں سے چلا گیا اپنے کمرے کے دروازے میں کھڑے بہروز نے افسوس سے سر ہلایا
وہ پریشانی سے اسے جاتا دیکھتی رہ گئی اتنے اچانک سے وہ بدل گیا تھا کہ زرشالہ کو بھی یقین کرنے میں وقت لگ رہا تھا
..................
جاری ہے....
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─