┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

*《▪♡ شمشیرِ بے نیام ♡▪》*

*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*

*( قسط نمبر-41)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*
 *جس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتااور میں نے دیکھاہے کہ دجلہ اور فرات کے درمیانی علاقے میں ہم نے جن مسلمانوں کو آباد کرکے انہیں اپنا غلام بنا رکھا تھا اور جنہیں ہم کیڑے مکوڑوں سے بڑھ کر کچھ نہیں سمجھتے تھے وہی مدینہ والوں کا بازو بن گئے ہیں اور ہمارا لشکر ان کے آگے بھاگا بھاگا پھر رہا ہے۔‘‘’’یہ عقیدے کی طاقت ہے ملکہ فارس!‘‘طبیب نے کہا۔’*
*بوڑھے طبیب نے کہا۔’’ایک بات کہوں گا جو شائد تمہیں اچھی نہ لگے۔ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ بادشاہی صرف اﷲکی ہے اور بندے اسکے حکم کے پابند ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اُس اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔کیا تم اس راز کو سمجھی ہو ملکہ کسریٰ؟‘‘’’نہیں بزرگ طبیب!‘‘ملکہ نے جواب دیا۔’’میں نہیں سمجھ سکی ۔بادشاہی تو ایک خاندان اور اس کے ایک فرد کی ہوتی ہے۔‘‘’’اس کا انجام تم دیکھ رہی ہو ملکہ کسریٰ !‘‘طبیب نے کہا۔’’آج وہ ایک انسان جو اپنے آپ کوانسانوں کا شہنشاہ سمجھتا ہے‘ بے بس اور مجبور اندر پڑا ہے اوراپنی بادشاہی کو بچانہیں سکتا ۔اس کالشکر پسپا ہوتا چلا آ رہا ہے۔ ان سپاہیوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ ایک خاندان اور ایک انسان کی شہنشاہی کی خاطر اپنی جانیں دیں اور وہ جو ہزاروں کی تعداد میں مر رہے ہیں وہ بھاگتے ہوئے مر رہے ہیں وہ جب دیکھتے ہیں کہ مالِ غنیمت تو ہے ہی نہیں پھر لڑیں کیوں ؟وہ تمہارے خزانے سے ماہانہ وصول کرنے کیلئے زندہ رہنا چاہتے ہیں۔‘‘’’اور مسلمان؟‘‘* *’’مسلمان!‘‘ طبیب نے کہا۔’’مسلمان کسی ایک انسان کے آگے جواب دہ نہیں۔وہ اﷲکی خوشنودی کیلئے لڑتے ہیں اور اپنے امیر کاحکم مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اتنی کم تعداد میں بھی طوفان کی طرح بڑھے آرہے ہیں۔ملکہ فارس! عقیدہ اپنا اپنا اور مذہب اپنا اپنا ہوتا ہے۔ میں علم اور تجربے کی بات کرتا ہوں ۔جب ایک خاندان اور ایک انسان اپنے آپ کو شہنشاہ بنا لیتا اور انسانوں کو انسان سمجھنا چھوڑ دیتا ہے تو ایک دن آتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ اپنی فوج کو بھی اور اپنی رعایا کوبھی تباہی کے گڑھے میں پھینک دیتا ہے۔‘‘’’میں نہیں سمجھ سکتی ۔‘‘ملکہ نے کہا۔’’میں سمجھنا نہیں چاہتی۔میں صر ف یہ چاہتی ہوں کہ کسریٰ صحت یاب ہو جائیں۔کچھ کرو بزرگ طبیب کچھ کرو۔‘‘’’کچھ نہیں ہو سکتا ملکہ فارس!‘‘طبیب نے کہا۔’’کچھ نہیں ہو سکتا۔صرف یہ خبر لے آؤ کہ مسلمانوں کو فارس کی سرحد سے نکال دیا گیا ہے یاخالد بن ولید کو زنجیروں میں باندھ کر کسریٰ کے دربار میں لے آؤ۔تو کسری اٹھ کھڑے ہوں گے۔‘‘’’ایسی خبر کہاں سے لاؤں؟‘‘ملکہ نے رنجیدہ اور شکست خوردہ لہجے میں کہا۔’’مدینہ کے اس سالار کو کیسے زنجیروں میں باندھ کر لے آؤں؟ اگر میرے سالار شکست کھا کر زندہ آ جاتے تو میں ان کی ٹانگیں زمین میں گاڑھ کر ان پر کتے چھوڑ دیتی۔‘‘وہ سر جھکائے ہوئے چل پڑی۔*
*ایک گھوڑا سر پٹ دوڑتا آیا اور محل کے باہررکا۔ ملکہ دوڑتی باہر گئی۔ بوڑھا طبیب بھی اس کے پیچھے گیا۔وہ ایک کماندار تھا گھوڑے سے کود کر وہ ملکہ کے سامنے دو زانو ہو گیا ‘اس کا منہ کھلا ہوا تھاآنکھیں سفید ہو گئی تھیں۔ چہرے پر صرف تھکن ہی نہیں گھبراہٹ بھی تھی۔’’کوئی اچھی خبر لائے ہو ؟‘‘ملکہ نے پوچھا اور شاہانہ جلال سے بولی۔’’ اٹھو اور فوراً بتاؤ۔‘‘’’کوئی اچھی خبر نہیں۔‘‘کماندار نے ہانپتی ہوئی آواز سے کہا۔’’مسلمانوں نے پورا لشکر کاٹ دیا ہے ۔ انہوں نے ہمارے ہزاروں آدمیوں کو پکڑ کر دریائے خسیف کے کنارے اس طرح قتل کر دیا ہے کہ دریا میں خون چل پڑا ۔دریا خشک تھا مسلمانوں کے سالار نے اوپر سے دریا کا بند کھلوا دیا تو بادقلی خون کادریا بن گیا۔‘‘’’تم کیوں زندہ واپس آ گئے ہو؟‘‘ملکہ نے غضب ناک آواز میں پوچھا۔’’کیا تم میرے ہاتھوں کٹنے کیلئے آئے ہو؟‘‘’’میں اگلی جنگ لڑنے کیلئے زندہ آ گیا ہوں ‘‘۔کماندار نے جواب دیا۔’’ میں چھپ کر اپنے لشکر کے قیدیوں کے سر جسموں سے الگ ہوتے دیکھتا رہا ہوں ۔‘‘’’خبر دار!‘‘ ملکہ نے حکم دیا ۔’’یہ خبر یہیں سے واپس لے جاؤ۔ شہنشاہِ فارس کو……‘‘ ’’شہنشاہِ فارس یہی خبر سننے کیلئے زندہ ہے۔‘‘اردشیر کی آواز سنائی دی۔ ملکہ نے اور طبیب نے دیکھا ۔اردشیر ایک ستون کے سہارے کھڑا تھا ۔دوبڑی حسین اورنوجوان لڑکیوں نے اس کے ہاتھ اپنے کندھوں پر رکھے ہوئے تھے۔ ’’یہاں آؤ۔‘‘اس نے کماندا ر کو حکم دیا۔’’میں نے محسوس کر لیا تھا کوئی آیا ہے ۔کہو کیا خبر لائے ہو؟‘‘کماندار نے ملکہ اور طبیب کی طرف دیکھا ۔’’ادھر دیکھو !‘‘اردشیر نے گرج کر کہا۔’’بولو۔‘‘کماندار نے وہی خبر سنا دی جو وہ ملکہ کو سنا چکا تھا۔ کسریٰ اردشیر آگے کو جھک گیا ۔دونوں لڑکیوں نے اسے سہارا دیا۔ ملکہ نے لپک کر اس کا سر اوپراٹھایا ۔بوڑھے طبیب نے اس کی نبض پر انگلیاں رکھیں۔ملکہ نے طبیب کی طرف دیکھا ۔طبیب نے مایوسی سے سر ہلایا۔’’فارس ‘کسریٰ اردشیر سے محروم ہو گیا ہے۔‘‘ طبیب نے کہا۔محل میں ہڑبونگ مچ گئی۔اردشیرکی لاش اٹھا کر اس کے اس کمرے میں لے گئے جہاں اس نے کئی بار کہاتھا کہ عرب کے ان لٹیرے بدوؤں کو فارس کی سرحد میں قدم رکھنے کی جرات کیسے ہوئی ہے۔اس نے اسی کمرے میں ولید کے بیٹے خالدؓ اور حارثہ کے بیٹے مثنیٰ کو زندہ یا مردہ لانے کاحکم دیا تھا۔اپنے حکم کی تعمیل سے پہلے ہی اس کمرے میں اس کی لاش پڑی تھی۔ وہ شکستوں کے صدمے سے ہی مر گیا تھا۔ملکہ نے حکم دیا کہ لڑنے والے لشکر تک کسریٰ کی موت کی خبر نہ پہنچنے دی جائے ۔مسلمانوں کے پڑاؤ میں ایک گھوڑا سرپٹ دوڑتا داخل ہوا۔اس کاسوار چلّارہاتھا۔’’کہاں ہے ولید کا بیٹا؟‘‘گھوڑ سوار بازو بلند کرکے لہراتا آ رہا تھا۔’’باہرآ ابنِ ولید!‘‘خالدؓ بڑی تیزی سے سامنے آئے۔’’ابنِ ولید!‘‘سوار کہتا آ رہا تھا۔’’تجھ پر اﷲکی رحمت ہو۔تیری دہشت نے اردشیر کی جان لے لی ہے۔‘‘’’کیا تو پاگل ہو گیا ہے ابنِِ حارثہ!‘‘خالدؓ نے آگے بڑھ کر کہا۔*
*ان سے تنگ آئی ہوئی رعایا ان کا ساتھ دے گی جو باہر کےحملہ آور ہوں گے۔میری عمر ابھی اتنی زیادہ نہیں کہ تجربے کی بناء پر بات کروں لیکن میں محسوس کر رہا ہوں کہ آنے والا وقت فارس کیلئے اپنے ساتھ کیا لارہا ہے۔‘‘اب عبدالمسیح کی عمر اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ کمر جھک گئی تھی۔کندھے سکڑ گئے تھے ۔رعشہ ایسا کہ اس کا سر ہلتا اور ہاتھ کانپتے تھے،نوشیرواں عادل کی دوسری نسل کا شہنشاہ شکست کے صدمے سے مرچکا تھااور فارس کا زوال شروع ہوچکاتھا۔خالدؓ کے لشکر نے آج عبدالمسیح اور اس کے سرداروں کے قلعوں کو محاصرے میں لے رکھا تھااور اس کی قلعہ بند فوج کا حوصلہ کمزور ہوتا جا رہا تھا۔ تفصیل سے پڑھئے*

*اس میں اتنی طاقت نہیں رہی تھی کہ دیوار پر جا کر دیکھتا کہ محاصرے کی اور مسلمانوں کی کیفیت کیا ہے اور مسلمانوں کی نفری کتنی ہے۔اسے شاید مسلمانوں کی نفری کا اندازہ نہیں تھا۔مسلمان صرف اٹھارہ ہزار تھے اور انہوں نے چار قلعوں کو محاصرے میں لیا ہوا تھا بلکہ بڑھ بڑھ کر حملے کررہے تھے۔عبدالمسیح اپنے محل میں گیا تو دو پادری اس کے انتطار میں کھڑے تھے۔’’کیا گرجے میں اپنی فتح اور دشمن کی تباہی کی دعائیں ہو رہی ہیں؟‘‘عبدالمسیح نے پادریوں سے پوچھا۔’’ہورہی ہیں۔‘‘بڑے پادری نے جواب دیا۔’’اور تم یہاں کیوں آگئے ہو؟‘‘عبدالمسیح نے کہا۔’’ جاؤاور گرجے کے گھنٹوں کو خاموش نہ ہونے دو۔‘‘’’ہم اپنی فوج اور لوگوں کو قتلِ عام سے اور ان کے گھروں کو لٹ جانے سے بچانے آئے ہیں۔‘‘بڑے پادری نے کہا۔’’کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہمارے کتنے سپاہی زخمی اور ہلاک ہو چکے ہیں؟کیا آپ دشمن کی للکار اور اس کے نعرے نہیں سن رہے ہیں؟‘‘’’کیا تم مجھے یہ کہنے آئے ہو کہ میں ہتھیار ڈال دوں؟‘‘’’آپ کی جگہ کوئی اور قلعہ دار ہوتا تو ہم ایسا مشورہ کبھی نہیں دیتے۔‘‘دوسرے پادری نے کہا۔’’لیکن آپ دانشمند اور تجربہ کار ہیں۔جو آپ سمجھ سکتے ہیں وہ کوئی اور نہیں سمجھ سکتا۔حقیقت کو دیکھیں۔اس سے پہلے کہ مسلمان قلعہ سر کر لیں اور قلعے میں داخل ہوکر قتلِ عام اور لوٹ مار کریں اور ہماری عورتوں کو اپنے ساتھ لے جائیں،آپ قلعہ کچھ شرائط پیش کرکے ان کے حوالے کر دیں۔یہ بہت بڑی نیکی ہوگی۔‘‘’’مجھے سوچنے دیں۔‘‘عبدالمسیح نے کہا۔’’سوچنے کا وقت کہاں ہے!‘‘پادری نے کہا۔’’اوپر دیکھیں۔مسلمانوں کے تیر دیواروں کے اوپر سے اندر آرہے ہیں……اور وہ دیکھیں۔زخمیوں کوکندھوں پر اٹھا کر اوپر سے نیچے لا رہے ہیں۔کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ دیوار پر اور برجوں میں ہمارے تیر اندازوں کی تعداد کس تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے؟ناحق خون نہ ہونے دیں۔‘‘قلعے کے باہر مسلمانوں کے ہلّے اور تیروں کی بوچھاڑیں تیز ہو گئی تھیں۔حالانکہ ان کے زخمیوں اور شہیدوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔عبدالمسیح نے پادریوں کی موجودگی میں قاصد کو بھیجا کہ وہ قلعے کے دفاع کی صورتِ حال معلوم کرکے فوراًآئے۔قاصد نے واپس آکر جو صورتِ حال بتائی وہ امید افزا نہیں تھی،دوسرے قلعوں کی کیفیت بھی ایسی ہی تھی جو عیسائیوں کے حق میں نہیں جاتی تھی۔قلعے کا دروازہ کھل گیا۔ایک ضعیف العمر آدمی گھوڑے پر سوار باہرنکلا۔اس کے ساتھ دو تین سردار تھے۔ان میں سے ایک سردار نے بلند آواز سے کہا کہ وہ دوستی کا پیغام لے کر باہر نکلے ہیں۔*

*ان کے پیچھے قلعے کا دروازہ بند ہو گیا۔’’ہم تمہارے سالار سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘عبدالمسیحکے اس سردار نے بلند آوازسے کہا۔دیوار سے تیر آنے بند ہو گئے تھے ۔مسلمانوں نے بھی تیر اندازی روک لی ۔خالدؓ کو کسی نے بتایا کہ دشمن باہر آگیا ہے۔’’کون ہیں وہ؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’قلعہ دار عبدالمسیح خود آیا ہے۔‘‘خالدؓ کو جواب ملا۔’’اسے کہو مجھے اس سے ملنے کی کوئی خواہش نہیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’میں جانتا ہوں وہ ان سب کا سردار ہے۔اسے کہو کہ شام تک باقی تینوں قلعہ داروں نے بھی ہتھیار نہ ڈالے تو ہم انہیں اس حال تک پہنچا دیں گے جس میں وہ ہماری ہرشرط قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔کسی ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑا جائے گا۔‘‘جب عبدالمسیح کوخالدؓ کایہ پیغام ملا تو وہ جان گیا کہ فتح آخر مسلمانوں کی ہی ہوگی۔اس نے اسی وقت اپنے سرداروں کو دوسرے قلعوں کی طرف دوڑایا،دوسرے قلعوں کے اندر بھی یہی کیفیت تھی جو عبدالمسیح کے قلعے کے اندر تھی۔فوجوں کا حوصلہ کمزور پڑ گیا تھا اور لوگوں پر خوف و ہراس طاری تھا ۔ان قلعوں کے سردار ہتھیار ڈالنے کیلئے تیار تھے لیکن کوئی قلعہ دار یہ نہیں چاہتا تھا کہ ہتھیار ڈالنے میں وہ پہل کرے اور یہ تہمت اس پر لگے کہ ہتھیار سب سے پہلے اس نے ڈالے تھے ورنہ کوئی بھی ہتھیار نہ ڈالتا۔عبدالمسیح کا پیغام ملتے ہی انہوں نے تیر اندازی بند کر دی اور تینوں قلعہ دار باہر آگئے۔انہیں خالدؓ کے سامنے لے گئے۔اس وقت خالدؓ ایک گھنے درخت کے نیچے کھڑے تھے۔’’کیا تم نے ہمیں کمزور سمجھ کر ہمارا مقابلہ کیاتھا؟‘‘خالدؓ نے ان قلعہ داروں سے کہا۔’’کیا تم بھول گئے تھے کہ تم عربی ہو؟کیا تمہیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ ہم بھی عربی ہیں؟اگر تم عجمی ہوتے تو بھی تمہیں یہ امید نہیں رکھنی چاہیے تھی کہ تم اس قوم کو شکست دے سکو گے جو عدل و انصاف میں یکتا ہے اور جس کی تلوار کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے۔‘‘’’تو جو کچھ بھی کہنا چاہتا ہے کہہ سکتا ہے۔‘‘ضعیف العمر عبدالمسیح نے کہا۔’’تو فاتح ہے۔ہمیں کچھ کہنے کا حق حاصل نہیں کیونکہ ہم نے تیرے آگے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔‘‘مشہور مؤرخ ابو یوسف نے خالدؓ اور عبدالمسیح کے مکالمے لکھتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ عبدالمسیح اس قدر بوڑھا ہوچکا تھا کہ اس کی بھنویں دودھ کی مانند سفید ہو چکی تھیں اور اتنی نیچے آگئی تھیں کہ ان سے اس کی آنکھیں ڈھک گئی تھیں ۔اسی مؤرخ کے مطابق خالدؓ عبدالمسیح سے متاثر ہوئے۔’’تمہاری عمر کتنی ہے؟‘‘خالدؓ نے عبدالمسیح سے پوچھا۔’’دوسوسال۔‘‘عبدالمسیح نے جواب دیا۔خالدؓ یہ جواب سن کر بہت حیران ہوئے۔انہوں نے اس بوڑھے قلعہ دار کو اور زیادہ غور سے دیکھا جیسے انہیں یقین نہ آرہا ہو کہ یہ شخص دوسوسال سے زندہ ہے۔کسی بھی مؤرخ نے عبدالمسیح کی صحیح عمر نہیں لکھی۔واقعات سے پتا چلتا ہے کہ اس کی عمر ایک سو سال سے کچھ اوپر تھی۔’’تونے بڑی لمبی عمر پائی ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’یہ بتا کہ اتنی لمبی زندگی میں تم نے سب سے زیادہ عجیب چیز کیا دیکھی ہے؟‘‘*

*’نوشیرواں کا عدل و انصاف۔‘‘عبدالمسیح نے جواب دیا۔’’اس دور میں حکومت اس کی ہوتی ہے جس کے بازو میں طاقت اور ہاتھ میں تلوار ہوتی ہے ،لیکن نوشیرواں نے عدل و انصاف کے ذریعے لوگوں کے دلوں پر فتح پائی۔تم کہتے ہو کہ مسلمان عدل و انصاف میں یکتا ہیں……نہیں۔میں نوشیرواں کو عادل مانتا ہوں۔‘‘’’تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘خالدؓ نے عبدالمسیح سے پوچھا۔’’کہاں کے رہنے والے ہو؟‘‘’’ایک گاؤں ہے۔‘‘عبدالمسیح نے جواب دیا۔’’جہاں تک کوئی عورت بھی سفر کرے تو اس کیلئے ایک روٹی کا ایک ٹکڑہ بھی کافی ہوتا ہے۔‘‘’’کیا تم احمق نہیں ہو؟‘‘خالدؓ نے کہا۔’’میں پوچھ کیا رہا ہو ں اور تم جواب کیا دے رہے ہو؟……میں نے پوچھا تھا کہاں سے آئے ہو؟‘‘’’اپنے با پ کی ریڑھ کی ہڈی سے۔‘‘عبدالمسیح نے جواب دیا۔’’تم قلعہ دار بننے کے قابل کب ہوئے تھے؟‘‘خالدؓ نے جھنجھلا کرکہا۔’’میں نے پوچھا ہے تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘*
*’’اپنی ماں کے رحم سے۔‘‘عبدالمسیح نے جواب دیا۔خالدؓ نے جب دیکھا کہ اس بوڑھے کا بولنے کا سوچنے کا اور جواب دینے کا انداز مضحکہ خیز سا ہے تو انہوں نے تفریح طبع کیلئے اس سے ویسے ہی سوال کرنے شروع کردیئے۔یہ سوال و جواب تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھے ہیں۔’’تم کہاں جاؤ گے؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’آگے کو۔‘‘عبدالمسیح نے جواب دیا۔’’تمہارے آگے کیا ہے؟‘‘’’آخرت۔‘‘عبدالمسیح نے جواب دیا۔’’تم جانتے ہو کہاں کھڑے ہو؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’زمین پر۔‘‘عبدالمسیح نے جواب دیا۔خالدؓ اس کی بے رخی اور لا پرواہی دیکھ کر اسے یہ احساس دلانا چاہتے تھے کہ وہ فاتح سالارِاعلیٰ کے سامنے کھڑا ہے۔خالدؓ نے معلوم نہیں کیا سوچ کر اس سے پوچھا۔’’تم کس چیز کے اندر ہو؟‘‘’’اپنے کپڑوں کے اندر۔‘‘عبدالمسیح نے کہا۔اب خالدؓ کو غصہ آنے لگا۔انہوں نے طنزیہ لہجے میں کہا۔’’دنیا کم عقلوں کو تباہ کرتی ہے۔لیکن دانالوگ دنیا کو تباہ کرتے ہیں۔مجھے معلوم نہیں کہ تم کم عقل ہو یا دانا ۔مجھے صحیح جواب تمہارے لوگ ہی دے سکتے ہیں۔‘‘’’اے فاتح سالار!‘‘عبدالمسیح نے کہا۔’’چیونٹی بہتر جانتی ہے کہ اس کے بل کے اندر کیا کچھ رکھا ہے ۔اونٹ نہیں بتا سکتا۔‘‘خالدؓ نے چونک کر عبدالمسیح کی طرف دیکھا۔ان کا غصہ ختم ہو گیا۔انہوں نے محسوس کر لیا کہ یہ شخص احمق یا کم عقل نہیں۔خالدؓ نے اسے اپنے برابر میں بٹھا لیا۔اب خالدؓ کے انداز میں احترام تھا۔*

*جزاکم اللہ خیرا۔*

*جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔👇🏻
       *اسلامک ہسٹری*

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─