┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄
ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 33
پارٹ 1
حرم یونيورسٹی آٸ تھی۔سب اسے سے مل کر بہت خوش ہوۓ تھے۔ اور اس نے بھی اپنے کل والے رویے کی معافی مانگی تھی۔
ہے حرم۔۔ کبھی کسی کو مس کیا ہے۔۔ بیلا نے کلاس میں اس سے پوچھا۔
وہ جو نوٹ بک پر کوٸ لیکچر نوٹ کر رہی تھی بیلا کی بات پر چونکی۔
ہممم۔۔ فیملی کو بہت مس کرتی ہوں۔۔ حرم نے مسکرا کر کہا۔
اوو۔۔۔ کوٸ بات نہیں۔۔ ویسے میرا اشارہ کسی لڑکے کی طرف تھا۔۔
کیا تم نے مس کیا کبھی کسی کو۔۔ پیچھے بیٹھی چینگ نے پوچھا۔
ہاں۔۔ چاندنی چوک میں نا ایک لڑکا ہوتا تھا۔۔ پاگل سا۔۔ لیکن وہ میرے بہت کام آتا تھا۔ پتا ہے میری سکوٹی میں پیٹرول ڈلوا کے دیتا تھا۔۔ بیلا نے ہنستے ہوۓ کہا۔۔ باقی سب بھی اسکی بات پر مسکرا دیے۔۔
مطلب تم اسے استعمال کرتی تھی۔۔ سونگ نے پوچھا۔
ہاں جب انسان خود استعمال ہونا چاہے تو اسے یوز کرلینے میں کیا مضاٸقہ ہے۔۔ بیلا نے ایک آنکھ دبا کر کہا۔۔
اوکے گاٸز میں لاٸبریری جا رہی ہوں۔۔کچھ بکس اشو کروانی ہیں۔۔ حرم نے بیگ سمیٹتے ہوۓ کہا۔
لیکچر سٹارٹ ہونے والا ہے۔۔
ابھی ہیں پندرہ منٹس میں تب تک آ جاٶں گی۔۔ وہ اٹھی۔
کبھی مجھ کو ہنساۓ
کبھی مجھ کو رلاۓ
مجھے کتنا ستاتی ہے۔۔
وہ لڑکی بہت یاد آتی ہے۔۔
وہ لڑکی بہت یاد آتی ہے۔۔
بیلا انڈیا سے تھی۔۔ اور اسے انڈین سونگز بھی پسند تھے۔۔ تبھی اس نے اپنے موبائل میں سونگ لگایا۔۔ والیوم کافی زیادہ تھا۔
میرے سپنوں میں آۓ۔۔
میرے دل کو چراۓ۔۔
مجھے کتنا ستاتا ہے۔۔
وہ لڑکا بہت یاد آتا ہے۔۔
حرم کا بکس اٹھاتا ہاتھ ایک دم رکا۔۔ پھر اس نے کانپتے ہاتھوں سے بکس اٹھاٸیں۔۔
”میری دعا ہے کہ فرہاد آغا تمہیں اتنا خوش رکھے کہ اسکے علاوہ تم سب کچھ بھول جاٶ۔۔ شادی مبارک ہو حرم۔۔۔۔
شادی والے دن یہ میسج ملا تھا اسے۔۔
وہ لڑکا بہت یاد آتا ہے۔۔
میوزک چل رہا تھا۔۔ بیلا چینگ اور سونگ کے ساتھ ملی انجواۓ کر رہی تھی۔۔ کلاس روم کا شور مدھم ہونا شروع ہوا۔۔ حرم کو لگا اسکی سماعت نے جواب دے دیا ہو۔۔ اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔۔ صرف یہ الفاظ اسکے زہن میں گونج رہے تھے۔۔
نہیں۔۔ وہ ایک قدم پیچھے ہٹی۔۔ شاید کسی نے بھی اسکی حالت نوٹ نہیں کی تھی۔۔
وہ لڑکا بہت یاد آتا ہے۔۔ میوزک چل رہا تھا۔۔ حرم کی ہمت نہیں ہوٸ کہ وہ بیلا سے کہے کہ اسے بند کردے۔۔
نہیں۔۔ وہ مزید ایک قدم پیچھے ہٹی۔۔ اور پر پلٹی۔۔ فل اسپیڈ سے بھاگنا شروع کردیا۔۔
تم فرہاد آغا کےعلاوہ سب کچھ بھول جاٶ۔۔ یہ جملے اسکے زہن میں گونج رہے تھے۔۔
وہ لڑکا بہت یاد آتا ہے۔۔ اور یہ آواز اسکا پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھی۔۔
وہ اندھا دھند بھاگ رہی تھی۔۔وہ دور بھاگ جانا چاہتی تھی ۔۔۔دور۔۔۔ بہت دور۔۔ اب وہ گارڈن میں آچکی تھی۔۔
بس کرو۔۔ حرم چلائی۔۔ اور پھر ایک پودے کے پیچھے چھپ کے بیٹھ گٸ۔۔ جیسے اسطرح چھپنے سے وہ جملے اسکا پیچھا کرنا چھوڑ دیں گے۔۔
پلیز بس کرو۔۔ وہ دونوں ہاتھوں سے اپنے کانوں کو ڈھانپ چکی تھی۔ اور پھر اس نے اپنا سر پکڑا جیسے اس طرح کرنے سے دماغ میں گونجتے الفاظ رک جاٸیں گے۔۔وہ رو دینے کو تھی۔۔۔۔
پھر خاموشی چھا گٸ۔۔ ایک گہری خاموشی۔۔ حرم نے سر اوپر اٹھا کر دیکھا۔۔ کم ہی سٹوڈنٹس تھے وہاں۔۔
پرامس کرو مجھ سے کہ تم آٸندہ بھاگو گی نہیں۔۔ بلکہ حالات کا مقابلہ کرو گی۔۔ فرہاد کے الفاظ اسکے زہن میں گونجے۔۔ اس نے تو پرامس کیا تھا نا۔۔ پھر وہ وہاں سے کیوں بھاگی۔۔
اسکا سانس پھول گیا تھا۔۔کتنے لمحے لگے تھے اسے خود کو کنٹرول کرنے میں۔۔
مس نور۔۔۔ اچانک اسے کسی نے پکارہ تھا۔۔ اور اس طرح بس ایک ہی شخص اسے پکارتا تھا اور وہ تھا رومان شاہ۔۔
وہ اس سے سوری کرنے اسکی کلاس میں آیا تھا۔۔ پھر وہ باہر ہی کھڑا ہو گیا کہ شاید حرم بزی نا ہو۔کلاس روم کی ونڈو کے باہر سے وہ اسے دیکھ رہا تھا۔۔ اسکے بیلا کے ساتھ باتیں کرنا۔۔ پھر اسکا ٹھٹکنا۔۔ اور پھر وہاں سے بھاگ جانا۔۔ وہ سب دیکھ چکا تھا۔۔ اور پھر وہ اسکے پیچھے آیا تھا۔۔
کیا آپ ٹھیک ہیں۔۔ وہ اسکے سامنے آیا۔۔ تب تک حرم بھی کھڑی ہو چکی تھی۔
جی میں ٹھیک ہوں۔۔ حرم نے جواب دیا۔ اور بیگ اٹھا کر لاٸبریری کی طرف چلنا شروع کیا۔۔
سوری فار لاسٹ ڈے۔۔ وہ ساتھ چلتے ہوۓ کہہ رہا تھا۔۔
نو۔۔ نو۔۔ اٹس اوکے۔۔۔ سوری مجھے کہنا چاہیۓ آپ سے۔۔ وہ رکی۔۔ حرم شرمندہ تھی۔
میں نے آپکو بلاوجہ ہی غلط سمجھا۔۔ اور۔۔ حرم سے آگے کچھ بولا نا گیا۔۔
کوٸ بات نہیں کبھی کبھی ہو جاتا ہے۔۔ اب آپکی طبیعت کیسی ہے۔۔؟؟
ٹھیک ہے۔۔ وہ پہلی بار مسکراٸ۔۔ شاید وہ خود پر قابو پا چکی تھی۔
گڈ۔۔ اب آپ فری ہیں یا بزی۔۔ ؟؟
میں لاٸبریری جا رہی ہوں۔۔ تھوڑا بزی ہوں۔۔ وہ صاف گوٸ سےبولی۔۔ جانے کیوں وہ اسکا سامنا کرنا نہیں چاہتی تھی۔۔
اوکے۔۔ پھر ملتے ہیں۔۔ ریم نے مسکرا کر کہا۔
اور حرم کوٸ جواب دیے بنا ہی آگے بڑھ گٸ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سمعان نہیں آیا تھا۔ ایش نے اسکا بہت انتظار کیا۔ اسکا نمبر بھی آف جا رہا تھا۔کچھ سوچنے کے بعد وہ خود ہی گاڑی سٹارٹ کر چکی تھی۔۔
پندرہ منٹ بعد وہ اس مسجد کے دروازے کےسامنے کھڑی تھی۔۔ جہاں اس رات وہ ملا تھا اسے۔۔ اسکے گھر کا پتا وہ نہیں جانتی تھی۔۔ مجبوراً اسے یہاں آنا پڑا۔۔
مسجد میں خاموشی تھی۔۔ ایک سکون سا تھا۔۔ ایش کو وہی محفوظ سا احساس ہوا تھا جو اس رات اسے ہوا تھا۔۔
کوٸ ہے۔۔۔؟؟وہ آگے بڑھتے ہوۓ بولی کیونکہ آس پاس کوٸ نظر نہیں آ رہا تھا۔
اندر آ جاٶ بیٹا۔۔۔ اچانک ایک کمرے سے سفید کپڑوں میں ملبوس ایک بزرگ نکلے۔۔ ایش کسی ٹرانس کے زیرِ اثر اسکی طرف بڑھی۔۔
وہ اندر جا کر ایک کونے میں نیچے بیٹھ چکے تھے۔۔
وہ ایکچوٸلی میں کسی کو ڈھونڈ رہی ہوں۔۔ ایش نے کہا
سمعان بیٹے کو ڈھونڈ رہی ہو نا۔۔وہ آج کام کے سلسلے میں شہر سے باہر گیا ہے۔۔
اور ایش حیران ہوٸ کہ انہیں کیسے پتا۔
بیٹھ جاٶ۔۔۔بزرگ نے اسے بیٹھنے کیلیۓ کہا۔ وہ ایک طرف بیٹھ گٸ۔
سمعان نے بتایا تھا تمہارے بارے میں۔۔ وہ مسکراۓ۔۔ نرم سی مسکراہٹ۔
سیم آپکے کیا لگتے ہیں۔۔؟؟ ایش نے پوچھا۔
میرا پوتا ہے وہ۔۔ سگہ نہیں۔۔ لیکن سگے بیٹوں سے بھی زیادہ پیارا ہے مجھے وہ۔۔
آج وہ آۓ نہیں۔۔ اس لیۓ میں یہاں آگٸ۔۔ مجھے اسکے گھر کا ایڈریس نہیں معلوم۔۔
کوٸ بات نہیں بیٹا۔۔ آ جایا کرو۔ یہاں آنے پر کسی کو بھی پابندی نہیں۔ یہ تو اللہ ﷻ کا گھر ہے۔۔ وہ تو خوش ہوتا ہے جب اسکا بندہ یہاں آتا ہے۔۔ سفید داڑھی اور سفید پگڑی انکے چہرے کو مزید نورانی بنا رہی تھی۔
وہ سیم چار بجے کے بعد ڈیوٹی نہیں کرتے اسکی کیا وجہ ہے۔؟؟ ایش نے پوچھا۔
چار بجے وہ بچوں کو پڑھاتا ہے۔۔ درس کا سبق دیتا ہے۔۔ قرآن پاک پڑھاتا ہے۔۔ اس لیۓ وہ چار بجے آ جاتا ہے۔۔
ایش نہیں جانتی تھی یہ سب کیا ہوتا ہے۔۔
قرآن پاک مطلب۔۔ ؟؟
Holy Book..
بزرگ نے کہا۔
آٶ میں تمہیں اس کے گھر والوں سے ملواتا ہوں۔
پانچ منٹ بعد وہ سمعان کے گھر تھی۔۔ چھوٹا سا سادہ سا گھر۔۔ اسکی ایک بہن تھی۔۔ ایش کی عمر کی ہی ہوگی۔ وہ ایش سے مل کر بہت خوش ہوٸ تھی۔۔کچھ دیر مزید وہاں رکنے کے بعد وہ واپس آگٸ تھی۔۔
سمعان حیدر اسکے لیۓ ایک راز تھا۔۔ جانے کب کھلنا تھا اس نے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایش کا وہ دن بہت بے چینی میں گزرا تھا۔۔ اسے خود اندازہ نہیں تھا کہ سمعان اسکے لیۓ اتنا اہم ہو گیا ہے کہ وہ اسے بنا دیکھے ایک دن بھی نہیں رہ سکتی۔
وہ باکسنگ کلاسز کے بعد گھر جا رہی تھی۔ زہن کہیں الجھا ہوا تھا۔ وہ اپنی گاڑی نہیں لاٸ تھی بلکہ لوکل ہی سفر کر رہی تھی۔ وہ اکیڈمی سے باہر نکلنے کے بعد ابھی روڈ پر آٸ ہی تھی کہ اچانک دو لڑکوں نے اسے گھیرا۔۔یہ وہی لڑکے تھے جنہیں اس رات کو مارنے کے بعد وہ مسجد کی طرف بھاگی تھی۔
ہے ایش۔۔ دی راٸل پرنسز۔۔
کیسی ہو۔۔ وہ گراتے ہوۓ پوچھ رہا تھا۔
راستہ چھوڑو میرا۔ ایش کا موڈ پہلے ہی خراب تھا۔
ایسے کیسے۔۔ اس دن کا بدلہ باقی ہے۔۔۔ دوسرے نے کہا۔
دیکھو کانر میں تم دونوں سے لڑنے کے موڈ میں نہیں ہوں۔
ایش نے پہلے لڑکے کی طرف دیکھ کر کہا۔ بدلہ ضرور لینا لیکن کسی اور دن۔۔ آج نہیں۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔ ایش ولیم ڈر گٸ۔۔
نہیں۔۔ ایش ولیم کبھی نہیں ڈرتی۔۔ بس آج میرا موڈ نہیں ہے۔۔
لیکن ہمارا تو ہے۔۔ دوسرے والے نے کہا جس کا نام جیک تھا۔۔ اور ویسے آ ج تم اس لیۓ ہم سے ڈر رہی ہو نا کہ کلاس میں تمہیں بہت برے پنچ لگے ہیں۔۔ وہ بھی ہمارے ہاتھوں۔۔ کانر اور جیک نے قہقہہ لگایا۔۔ آج واقعی کا کلاس میں دھیان نہیں تھا۔اور ان دونوں کو لگ رہا تھا کہ شاید وہ ایش سے بہتر ہیں۔
ایش کا بیگ آج کندھے پر نہیں تھا بلکہ اسکے داٸیں ہاتھ میں لٹک رہا تھا۔۔ اسکے قدموں میں سست پن تھا۔۔ ایسا لگتا تھا جیسے صدیوں سے انتظار کرتے کرتے وہ تھک چکی ہو۔۔
جانے دو مجھے۔۔ ایش نے رفتار تیز کرتے ہوۓ کہا۔۔ آج میں پریشان ہوں۔۔
ایسےکیسے جانے دیں۔۔جیک نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا۔۔
اس نے کتنی بڑی غلطی کی تھی۔۔ یہ جیک کو نہیں پتا تھا۔۔
ایش کو غصہ آیا۔۔ صرف ایک لمحہ۔۔ ایک لمحے میں اس نے اپنا بیگ والا ہاتھ گھمایا۔۔ اور ایک بار پھر پہلے کی طرح بیگ جیک کی گردن پر لگا۔۔ وہ بلبلا کر پیچھے ہٹا تھا۔۔
چھونا مت۔۔۔ وہ وارن کر رہی تھی۔۔
تیری تو۔۔ اب کارنر کسی بھیڑیے کی طرح اسکی طرف بڑھا تھا۔۔ قریب تھا کہ اسکا گھونسا ایش کے منہ پر لگتا۔ وہ ٹیڑھی ہوٸ اور کارنر کا وار خالی گیا۔۔
اب جیک اور کارنر دونوں غصے سے گراتے اسکی طرف بڑھے تھے۔۔ اور ایش نے اپنا کنگ فو استعمال کیا۔۔ وہ کسی جادوگر کی طرح ہوا میں اوپر اٹھی۔۔۔ اتنا اوپر کہ وہ دونوں حیران رہ گۓ۔۔
اور پھر پیچھے کو جھکتے ہوۓ ایش نے اپنی دونوں ٹانگیں ان دونوں کی کمر میں رسید کیں۔۔
ایش دنیا سے چار قدم آگے رہتی ہے۔۔ کیا ہوا اگر تم لوگوں نے آج باکسنگ کلاس میں اچھا پرفام کیا۔۔
کنگ فو نہیں جانتے تم لوگ۔۔اور مارشل آرٹس بھی نہیں۔۔
دوبارہ مجھ سے پنگا لینے کی غلطی مت کرنا۔۔ میں ایش ولیم ہوں۔۔ سمجھ آٸ۔۔
وہ دونوں جو اٹھنے کیلیۓ پر تول رہے تھے ایش کی بات سن کر ٹھنڈے پڑ گۓ۔۔ ایش نے انہیں ریڑھ کی ہڑی پر خاص جگہ مارا تھا۔۔ لیکن اتنا زوردار بھی نہیں مارا تھا کہ وہ ساری عمر اٹھ ہی نا سکیں۔۔ وہ ایسا نہیں چاہتی تھی۔۔
وہ اپنا بیگ اٹھاتے ہوۓ آگے بڑھ گٸ۔۔ وہ اسٹیشن کی طرف جا رہی تھی جب ایک گاڑی اسکے اس آ کر رکی۔۔ ایش پہچان گٸ تھی۔۔ وہ سمعان کی ٹیکسی تھی۔۔ لیکن وہ غصے میں تھی۔۔ گاڑی کی طرف جانے کی بجائے وہ سیدھا چلتی رہی۔۔
اب کی بار گاڑی عین اسکے آگے آکر رکی تھی۔۔ شاید اندر بیٹھے شخص کو بھی اسکی اس حرکت پر غصہ آیا تھا۔۔ایش نے ایک گہرا سانس لیا تھا اور پھر گاڑی کی طرف بڑھ گٸ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لگتا ہے آپکو بارش بہت پسند ہے۔۔ حرم جو کلاس روم کی ونڈو سے باہر برستی بارش کو دیکھ رہی تھی۔ آواز پر چونکی۔۔اسکے پیچھے رومان کھڑا تھا۔۔ جانے وہ کب وہاں آیا تھا۔حرم تو گلاس ونڈو پر پھسلتے پانی کو دیکھ رہی تھی جو بہت ہی خوبصورت لگ رہا تھا۔
نہیں کچھ خاص نہیں۔۔ حرم نے جواب دینے کے بعد چہرہ پھر ونڈو کی طرف موڑ لیا۔
اچھا۔۔ لیکن آپکے اس طرح مگن ہو کر دیکھنے سے تو یہی لگ رہا تھا۔
کس نے کہا ہے کہ مگن ہو کر صرف پسندیدہ چیزوں کو دیکھا جاتا ہے۔۔؟؟ وہ سوال کر رہی تھی۔۔
جو چیزیں یا جو لوگ ہمیں اچھےلگتے ہیں ہم انکو ہی اتنے غور سے سب کچھ بھلا کر دیکھتے ہیں۔۔ جیسے وہ خود اسے دیکھتا تھا۔
ضروری تو نہیں ہے۔۔ میں تو بارش کو اس لیۓ اتنے غور سے دیکھ رہی ہوں کہ جو مجھے تھوڑی سی یہ نا پسند ہے اسکی وجہ مل جاۓ۔۔ شاید پسند ہی آجاۓ۔۔
ناپسند تو آپ مجھے بھی کرتی ہیں۔۔ کبھی مجھ پر بھی اتنا غور کیا آپ نے۔۔؟؟
حرم نے چونک کر اسے دیکھا۔کس نے کہا میں آپکو ناپسند کرتی ہوں۔۔؟؟
صاف نظر آتا ہے۔۔ وہ کہہ رہا تھا۔کبھی مجھ ہر بھی غور کر کے دیکھیں۔۔ شاید ناپسندیدگی ختم ہو جاۓ۔۔
پہلی بات تو یہ کہ میں آپکو ناپسند نہیں کرتی۔۔ میرا آپ سے کوٸ رشتہ نہیں ہے۔۔ تو پسند یا نا پسند کی کوٸ گنجائش ہی نہیں نکلتی۔۔
اور دوسری بات یہ کہ میں انسانوں کی نہیں چیزوں کی بات کر رہی ہوں۔۔
کیا پسند کرنے کیلیۓ کسی رشتے کا ہونا ضروری ہے مس نور۔۔؟؟
جی بالکل۔۔ پسند کرنے کیلیۓ کسی رشتے کا ہونا لازمی ہے۔۔ ویل میں کیفے جا رہی ہوں۔۔ سب میرا ویٹ کر رہے ہیں۔ میں یہاں اپنا بیگ لینے آٸ تھی۔حرم نے اپنا بیگ اٹھاتے ہوۓ کہا اور دروازے کی طرف بڑھی۔۔
اور اگر کوٸ رشتہ بن جاۓ تو۔۔ وہ پوچھ رہا تھا۔
رشتے بنانے آسان نہیں ہوتے۔۔ وہ رکی پلٹی۔۔ اور ضرری نہیں کہ جو رشتہ ہم بنائیں وہ پسندیدگی کا ہی ہو۔۔ نفرت کا رشتہ بھی بن سکتا ہے۔۔ وہ مسکرا کر کہتی پلٹ گٸ۔۔
اور رومان شاہ کواس دن احساس ہو گیا تھا کہ وہ حرم نور کو کبھی بھی جان نہیں سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی میں خاموشی چھاٸ تھی۔ ایش معمول کے خلاف خاموش تھی۔ اس نے سمعان سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ وہ آج کہاں تھا۔
ویل اچھا کھیلا تم نے۔۔ آخر سمعان نے خاموشی کو توڑا۔۔
وہ کوٸ کھیل نہیں تھا۔۔ایش نے بنا دیکھے جواب دیا۔
میں سوچ رہا تھا کہ تمہاری ہیلپ کردوں۔۔
ایش کو اپنی حفاظت کرنا آتی ہے۔۔ وہ غصے میں تھی اور ابھی تو اسے ان لوگوں سے بھی حساب کتاب کرنا تھا جنہوں نے کل اسکے ڈرنک میں کچھ ملا دیا تھا جس سے وہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں رہی تھی۔۔
اوو رٸیلی۔۔ پھر کل رات کیوں جھوم رہی تھی۔۔ بالآخر سمعان حیدر نے اسے طعنہ مار ہی دیا تھا۔۔
وہ میری غلطی نہیں تھی۔۔ ایش نے جواب دیا۔۔
کہہ دو کہ آج بھی تمہاری غلطی نہیں تھی۔۔
آپ کیا کہنا چاہتے ہیں سیم۔۔؟؟ ایش نے پہلی بار اسکی طرف دیکھا۔۔آج وہ اسکے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھی۔
یہی کہ ساری غلطی تمہاری ہے۔۔وہ صاف گوٸ سے بولا۔
وہ مجھے تنگ کر رہے تھے۔۔ یہ سب میں نے اپنے بچاؤ کیلیۓ کیا۔۔ اس میں کیا غلطی ہے میری۔۔
ایک عورت زات کو اس طرح آدھی رات کو اس طرح کہ کپڑوں میں پھرنے کی اجازت کس نے دی ہے۔۔ اگر تم گھر میں رہتی تو یہ نوبت ہی نا آتی۔۔
ایش نے اپنے کپڑوں کی طرف دیکھا تھا۔۔ جینز، شرٹ اور جیکٹ۔۔ وہ دوسری لڑکيوں کے مقابلے میں بہتر کپڑے پہنتی تھی۔۔ اور یہ شخص ان پر بھی اعتراض کر رہا تھا۔
کس نے منع کیا ہے عورت کو اس طرح کے کپڑے پہن کر باہر گھومنے سے۔۔؟؟ ایش نے پوچھا۔۔
اسلام نے۔۔۔ سمعان نے کہا۔
اوپسسسسس سوری۔۔ میں تو بھول ہی گیا تھا کہ تم مسلمان نہیں ہو۔۔
جانے کیا تھا اسکے لہجے میں ایش کو اپنے اندر سے کچھ ٹوٹتا محسوس ہوا۔
مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔ ایش اسے اپنی فیلنگز کے بارے میں بتانا چاہتی تھی۔
بولو۔۔ میں سن رہا ہوں۔سپاٹ سا لہجہ۔۔
گاڑی میں ایک بار پھر خاموشی چھا گٸ۔۔ کتنے ہی پل ایسے گزر گۓ۔۔ گاڑی ایک جھٹکے سے رکی۔
تمہارا پیلس آگیا ہے۔۔ سمعان نے کہا۔
وہ کل میرا برتھ ڈے ہے۔۔بہت بڑی پارٹی ہے۔۔ میں آپکو انواٸٹ کرتی ہوں۔۔ آپ آٸیں گے نا۔۔ ایش پر امید نظروں سے اسکی طرف دیکھ رہی تھی۔
اوو ہیپی برتھ ڈے ان اڈوانس۔۔ اور کچھ۔۔؟؟ وہ بنا کسی تاثر کے بولا تھا۔
میں نے کچھ پوچھا ہے آپ سے سیم۔۔ آپ آٸیں گے نا۔۔ ایش نے جو کہنا تھا وہ بات تو بدل دی تھی۔ جو کہہ رہی تھی وہ شخص اس میں بھی کوٸ انٹرسٹ شو نہیں کر رہا تھا۔
ہونہہ۔۔ ویسے ہی کپڑے پہنو گی جیسے کل پہنے تھے۔۔ بلا کی کاٹ تھی اسکے لہجے میں۔
اور ایش اپنی نظریں اور اپنا سر جھکا گٸ۔۔
سوری۔۔ میں نے ایسے ہی ہوچھ لیا تھا۔ ایش نے کہا اور گاڑی سے اتر گٸ۔۔ سمعان ایک جھٹکے سے گاڑی بڑھا کر لے گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو نا۔۔؟؟ شہرین نے سامنے بیٹھے شرجیل سے پوچھا۔۔ جو ثانی آپی کا دیور تھا۔
جی کرنا چاہتا ہوں۔۔
تو ٹھیک ہے جیسے میں کہوں گی تم ویسے ہی کروگے۔۔
حورعین تمہاری یونيورسٹی میں پڑھتی ہے نا۔۔ شہرین نے کچھ سوچتے ہوۓ پوچھا۔
جی ہاں۔۔اچھی لڑکی ہے وہ۔شرجیل نے جواب دیا۔
اسے اسد بھاٸ کی لاٸف سے نکالنا ہے۔۔ کچھ ایسا کرنا ہے کہ اس بھاٸ اسکے نام سے بھی نفرت کرے۔۔ بولو تیار ہو ایسا کچھ کرنے کیلیۓ۔۔۔ شہرین کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ دھوڑ رہی تھی۔
لیکن۔۔ شرجیل نے کچھ کہنا چاہا۔۔
بولو منظور ہے یا نہیں۔؟؟
منظور ہے۔۔ شرجیل نے سوچتے ہوۓ کہا۔۔ بتاٶ مجھے کیا کرنا ہے۔۔ شرجیل نے مرے مرے لہجے میں کہا۔۔ کبھی کبھی محبت بھی انسان سے بڑے بڑے گناہ کروا دیتی ہے۔۔
اور شہرین نے فاتحانہ نگاہوں سے نفیسہ تاٸ کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔ جنکی نظروں میں حورعین اور حرم کیلیۓ انتہا کی نفرت تھی۔۔
تو سنو پھر۔۔ شہرین نے کہنا شروع کیا۔۔ جیسے جیسے وہ کہہ رہی تھی شرجیل کے چہرے کا رنگ سرخ ہوتا جا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تم ساٸنس ڈیپارٹمنٹ کے اتنے چکر کیوں لگانے لگ گۓ ہو۔۔؟؟رون نے ریم کا راستہ روکتےہوۓ پوچھا۔۔
کیوں یونيورسٹی تمہارے باپ کی ہے۔۔ جو میں یہاں آ جا نہیں سکتا۔۔ ریم نے اسے دھکہ دینے کے بعد آگے بڑھتے ہوۓ کہا۔
باپ کا تو پتا نہیں لیکن ساٸنس ڈیپارٹمنٹ رون دی ڈون کا ہے۔۔ اس میں میری مرضی کے مطابق ہوتا ہے سب کچھ۔۔
فاٸنل اگزامز سٹارٹ ہونے والے ہیں۔۔ کیا خیال ہے۔۔ ہے کوٸ کمپیٹیشن کیلیۓ تمہارے پاس۔۔۔؟؟ اور ریم کی بات سن کر رون پیچھے ہٹا۔۔ وہ جانتا تھا اسکے ڈیپارٹمنٹ سے مقابلہ کرنے کیلیۓ اسکے پاس ایسا کوٸ سٹوڈنٹ نہیں ہے۔۔
تمہارے پاس زی ہے۔۔ اس لیۓ تم جیت جاتے ہو۔۔ کیونکہ اسکا IQ لیول 130 پلس ہے۔۔ کوٸ بھی یونيورسٹی میں اسکے مقابلے کا نہیں ہے۔۔
اور رون دی ڈون ہر کام میں جیتنے والا اس راٶنڈ میں آ کر زی اور ریم سے ہار جاتا ہے۔۔ ریم نے مسکرا کر کہا۔
کبھی تو ہمارے ڈیپارٹمنٹ بھی جیتے گا۔۔ رون نے امید سے کہا۔
کب۔۔ اگلے جنم میں۔۔ ریم پھر ہنسا وہ رون کو غصہ دلا رہا تھا۔۔
ریم تم۔۔ رون نے کچھ کہنا چاہا تھا۔۔
کیا پتا اب کی بار تم جیت جاٶ۔۔ تمہارے ڈیپارٹمنٹ میں بھی ایک سٹوڈنٹ ہے ایسی۔۔ جو کبھی ہار نہی سکتی۔۔ ریم کہہ رہا تھا۔۔ اور رون نے اسکی نظروں کا تعاقب کیا تو اسکی نظر سیڑھیوں پر بیلا اور عرش کے ساتھ بیٹھی حرم پر پڑی تھی۔۔
وہ لٹل لیڈی۔۔ نو۔۔ نیور۔۔ رون نے فورا کہا۔۔
اوکے تو پھر ہارنے کیلیۓ پھر سے تیار ہو جاٶ۔۔ رون دی ڈون۔۔ ریم اسے چڑاتا آگے بڑھ گیا۔۔
لٹل لیڈی۔۔۔ اور کمپیٹیشن۔۔ وہ بھی زی کے ساتھ۔۔ یہ کیسے پاسیبل ہے۔۔ وہ سوچ رہا تھا۔اور پھر وہ چھلانگے لگاتا ایک طرف کو بڑھ گیا۔
نوٹس بورڈ پر انکا مڈ ٹرم کا رزلٹ چسپاں تھا۔۔ وہ تو کبھی خود اپنا رزلٹ بھی دیکھنے نہیں آیاتھا۔ مگر آج اسے آنا پڑا تھا۔
حرم نور۔۔ پرسنٹیج۔۔ 80 پرسنٹ۔۔ وہ ایک ماہ لیٹ آٸ تھی۔۔ پھر اسکی پرسینٹیک باقیوں کے مقابلے میں کافی اچھی تھی۔۔
اب آۓ گا مزہ۔۔ رون خوش ہوتا واپس مڑا اب اسکا رخ حرم کی طرف تھا۔ اور حرم ک کم بختی آگٸ تھی یہ وہ نہیں جانتی تھی۔۔
❤❤❤❤❤
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─