┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 32
پارٹ 1

وہ لوگ واپس جانے کیلیۓ تیار تھے۔۔ وجہ بڑھتی ہوٸ سردی تھی۔۔ حرم سب سے آخر میں بس میں آٸ تھی۔۔ وہ فرہاد کو فون کرنے گٸ تھی کہ جلد ہی وہ اسے لینے یونيورسٹی پہنچ جاۓ۔۔ لیکن جب وہ گاڑی میں پہنچی تب تک ساری سیٹس فل ہو چکی تھیں۔۔ صرف ایک خالی تھی وہ بھی ریم کے پاس۔۔ 

میں کہاں بیٹھوں۔۔ وہ روہانسی ہوٸ۔۔ سارے تکھن کی وجہ سے آنکھیں موندے سیٹ سے ٹیک لگاۓ لیٹے تھے۔ کوٸ بھی اٹھنے کو تیار نہیں تھا۔۔ 

آپ یہاں بیٹھ سکتی ہیں۔۔ ریم نے حرم سے کہا۔

اور وہ کچھ سوچتے ہوۓ سیٹ کی طرف بڑھی۔ مجھے اس ساٸیڈ پر بیٹھنا ہے۔۔ حرم نے ونڈو کی طرف اشارہ کیا۔۔

اوکے۔۔ وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا اور اسے گزرنے کا راستہ دیا۔حرم نے بیٹھنے کے بعد اپنا بیگ اپنے اور ریم کے درمیان میں رکھ دیا۔ اور ریم اسکی اس حرکت پر مسکرادیا۔

وہ اب ونڈو کے شیشے سے باہر جھانک رہی تھی۔۔ عرش نے مسکرا کر ریم کی طرف دیکھا اور اسے اشارہ کیا کہ وہ بات شروع کرے۔۔

کیا آپ ابھی تک مجھ سے ناراض ہیں۔۔؟؟ ریم نے پوچھا۔

نہیں تو۔۔ حرم نے جواب دیا۔

اووو تھینکس۔۔ مجھے لگا شاید۔

مسٹر رومان شاہ۔۔ لگنے اور ہونے میں بہت فرق ہوتا ہے۔۔ ضروری نہیں جو آپکو لگے وہی سچ ہو۔۔وہ اسکی بات کاٹ چکی تھی۔۔

یو آر راٸٹ۔۔ ریم مسکرایا۔۔

اور حرم نے کانوں میں ہینڈ فری لگانے کے بعد موبائل میں کوٸ ویڈیو سٹارٹ کردی تھی ۔۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ مزید کوٸ بات نہیں کرنا چاہتی۔۔ اور بلا کہ بولڈ رومان شاہ کو اس سے بات کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنا پڑتا تھا۔۔ جانے کیسا حصار کھینچ رکھا تھا حرم نے اپنے گرد۔۔ کوٸ اس حصار کو توڑ نہیں پا رہا تھا۔۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں شام چار بجے کے بعد تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا۔۔ میں یہ ڈیوٹی صرف چار تک کر سکتا ہوں۔۔ سمعان نے ایش سے کہا۔

پر کیوں۔۔ ؟؟ وہ چونکی۔

کیونکہ چار بجے کے بعد مجھے بہت ضروری کام ہوتا ہے مس ایش ولیم۔۔ 

لیکن۔۔ ایش کچھ کہنا چاہتی تھی۔۔

اگر تمہیں منظور ہے تو ٹھیک۔۔ نہیں تو میں یہ جاب چھوڑنے کو تیار ہوں۔۔

نن۔۔ نہیں۔۔ مجھے منظور ہے۔۔ ایش نے فورا کہا۔۔ وہ بس اسے اپنے سامنے دیکھنا چاہتی تھی۔۔ چلو ایک گھنٹہ کم سہی۔۔

ایسا لگتا تھا کہ ایش نے سمعان کو نہیں بلکہ سمعان حیدر نے ایش ولیم کو جاب پر رکھا تھا۔۔ وہ اسکا باس تھا اور ایش اسکی ہر بات ماننے پر مجبور۔۔

تو اب میں تمہیں گھر چھوڑ دوں۔۔ کیونکہ چار تو بجنے والے ہیں۔۔ پھر مجھے جانا ہوگا۔۔

نہیں میں خود چلی جاٶں گی۔۔ مجھے ابھی کچھ کام ہے۔۔

کیا کام ہے تمہیں۔۔ تمہاری باکسنگ کلاسز تو رات کو ہیں نا۔۔؟؟ وہ اسکی پوری روٹین سے واقف ہو چکا تھا کب وہ کہاں جاتی ہے کیا کرتی ہے۔۔ کس سے ملتی ہے۔۔ اسکے فرینڈز ہر ایک سے۔۔ 

میری مرضی مسٹر سمعان میں جہاں مرضی جاٶں۔۔ آپکی ڈیوٹی ختم ہو چکی ہے۔۔ آپ جا سکتے ہیں۔۔ ایش کو بھی شاید غصہ آچکا تھا اور اس میں راٸل پرنسز کی روح جاگ اٹھی تھی۔ جس میں انتہا کا غرور تھا۔

 سمعان کو حیرانگی ہوٸ۔۔ لیکن وہ کندھے اچکاتا گاڑی سٹارٹ کر کے یہ جا وہ جا۔۔ جبکہ ایش وہیں کھڑی رہ گٸ تھی۔۔ کون بتاتا سمعان حیدر کو کہ اسکے لہجے اسکے رویے سے راٸل پرنسز ایش ولیم کو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔۔؟؟ لیکن شاید کوٸ بھی بتانے والا نہیں تھا۔

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن یونيورسٹی میں حرم پریٸر روم میں نماز پڑھ رہی تھی۔۔ وہ چار فرض کی نیت باندھ چکی تھی۔ جب اچانک یونيورسٹی میں ایک دل دہلا دینے والا دھماکہ ہوا۔۔ حرم کا نازک سا دل کانپ کر رہ گیا تھا۔ موسم خراب تھا بادل بار بار گرج رہے تھے۔۔ لیکن یہ آواز کسی بادل کے گرجنے کی نہیں تھی۔۔ اچانک ہر طرف سے شور اٹھا تھا سٹوڈنٹس کے بھاگنے کی آوازیں۔۔ اسے محسوس ہو رہا تھا لیکن وہ نیت نہیں توڑنا چاہتی تھی۔۔ 

اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوا اور شاید یونيورسٹی کی کوٸ بلڑنگ گر گٸ تھی۔۔ حرم جو رکوع سے اٹھی تھی اتنے زور دار دھماکے پر اسکی چینخ نکل گٸ جو اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر روکی۔۔ وہ سجدےمیں چلی گٸ۔۔ ایک لمبا سجدہ کیا۔۔ آنسو اسکے گالوں پر لڑک رہے تھے۔اور وہاں سے گزرتے رومان نے وہ سارا منظر دیکھا تھا۔۔ وہ ابھی ابھی وہاں آیا تھا۔۔باہر ایک سٹوڈنٹس کی لمبی لاٸن لگی تھی۔۔ 

پولیس کی گاڑیوں کے ساٸرن کی آواز۔۔ سٹوڈنٹس کی چینخ و پکار۔۔ اسما زہن نماز سے بٹھکا رہے تھے۔ 

پھر اس نے سلام پھیرا تھا۔۔ اور جیسے ہی اسکی نظر دروازے پر پڑی وہاں سٹوڈنٹس حیرت سے بت بنے روتی ہوٸ حرم کو دیکھ رہے تھے۔۔ ایک لڑکے کے ہاتھ میں موبائل تھا۔۔ ویڈیو بن رہی تھی۔۔ حرم کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ ہو کیا رہا ہے۔۔ وہ دعا کیلیۓ ہاتھ اٹھا چکی تھی کیونکہ باقی کی نماز پڑھنے کی اس میں ہمت نہیں ہو رہی تھی۔۔

تبھی سٹوڈنٹس میں ایک ہلچل سی ہوٸ اور ان میں سے عرش اور بیلا بھاگتے ہوۓ اندر آۓ۔۔

حرم تم ٹھیک ہو۔۔ سوری۔۔ یہ سب ایک پرانک۔۔ ایک مزاق تھا۔۔وہ رون نے۔۔ عرش کا سانس پھولا پڑا تھا۔۔اس سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔ حرم نے دیکھا وہ دونوں بھیگے ہوۓ تھے۔۔ یقیناً بارش شروع ہو چکی تھی۔۔ اور وہ شاید کیفے سے وہاں آۓ تھے۔۔ بھاگتے ہوۓ۔۔ تبھی بارش میں بھیگ چکے تھے۔۔

حرم آہستہ سےکھڑی ہوٸ۔ اسکا نازک سا دل کانپ رہا تھا۔اسے لگا تھا کہ شاید یونيورسٹی میں کوٸ حادثہ ہو گیا ہے۔۔ شاید کوٸ بم بلاسٹ۔۔ لیکن نہیں۔۔ یہ سب مزاق تھا۔۔ اسکے ساتھ اتنا گھنونا مزاق کیا گیا تھا۔۔ حرم کی نظر دروازے کے پاس کھڑے ریم پر پڑی تھی۔ 

اچھا تو یہ سب اس انسان کی سازش تھی۔۔ حالانکہ وہ تو اتنے سارے سٹوڈنٹس کے ہجوم کو دیکھ کر وہاں آیا تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔۔ کیونکہ اسے خود خبر نہیں تھی کہ رون کے شیطانی دماغ میں کیا چل رہا ہے۔۔ 

حرم نے اپنا بیگ اٹھایا۔۔ عرش اور واصے کی طرف اس نے دیکھا بھی نہیں تھا۔۔ وہ مرے مرے قدموں سے چلتی ریم کے سامنے آٸ تھی۔۔

مجھے افسوس ہوتا ہے مسٹر رومان شاہ کہ آپ اپنا بدلا لینے کیلیۓ اس حد تک گر سکتے ہیں۔۔ آپ نے تو عبادت کا ہی مزاق بنا دیا۔۔ کتنا درد تھا اسکے لہجے میں۔۔ کتنی مشکل سے وہ اپنے آنسوں ضبط کر رہی تھی۔۔ اس سے پہلے ریم کچھ بولتا وہ جھٹکے سے آگے بڑھ گٸ۔۔ سٹوڈنٹس کے ہجوم نے اسے گزرنےکا رستہ دیا۔۔ 

یہ سب رون نے کیا تھا۔۔ حرم لیٹ یونيورسٹی آٸ تھی۔۔ اسکے ساتھ کوٸ پرانک نہیں ہوا تھا۔۔ اور وہ روز نماز پڑھتی تھی اس وقت تو رون نے اسکے ساتھ یہ مزاق کرنے کا پلان بنایا۔۔ اس نے ایک ساٶنڈ سسٹم کے زریعے وہ آواز پیدا کی جیسے یونيورسٹی میں کوٸ بم بلاسٹ ہوا ہو۔۔ چینخ و پکار کی آواز۔۔ دھماکوں کی آوازیں۔۔ اسے لگا تھا کہ شاید وہ نماز چھوڑ کر بھاگ جاۓ گی۔۔ اور پھر اسکا مزاق بنایا جاۓ گا۔۔ ایک طرح سے انہوں نے حرم کے ایمان کا امتحان لیا تھا۔۔لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ رزلٹ کیا نکلے گا۔۔ 

میں نے کچھ نہیں کیا۔۔ ریم حیران ہوا۔۔ اسکی تو کوٸ غلطی نہیں تھی۔۔ وہ حرم کے پیچھے بھاگا۔۔ عرش اور واصے بھی۔۔ 

وہ سیڑھیاں اتر رہی تھی۔۔ اور پھر ہ برستی بارش میں یونيورسٹی کے مین گیٹ کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔ آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔ سب اتنا اچانک ہوا کہ اسکی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا۔۔اگر یہ سب سچ ہوتا تو۔۔؟؟

مس نور۔۔ میری بات سنیں۔۔ 

لیکن وہ چلی جارہی تھی۔۔ اسے لگ رہا تھا کہ اگر وہ رکی تو پتھر کی ہو جاۓ گی۔۔ اسے بارش میں بھیگنا اچھا نہیں لگتا تھا۔۔ لیکن شاید آج اسے ہوش نہیں تھا کہ وہ سر سے پاٶں تک برف برساتی بارش میں بھیگ چکی ہے۔۔

پلیز مس نور۔۔ رکیں۔۔ ریم اسکے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ اب وہ اسکے قریب پہنچ چکا تھا۔۔

پلیز ایک بار میری بات سنیں۔۔ جب حرم نے کوٸ جواب نہیں دیا اور وہ نہیں رکی تو ریم اسکا ہاتھ پکڑا۔ اسے روکنے کیلیۓ۔۔ اور یہ شاید اسکی سب سے بڑی غلطی تھی۔۔

حرم ایک جھٹکے سے پلٹی۔۔ اور پھر ایک زاودار تھپڑ ریم کے منہ پر مارا تھا۔۔ وہ تو گنگ ہی رہ گیا۔۔

تمہاری ہمت کیسے ہوٸ مجھے چھونے کی۔۔ دوسرے جٹھکے میں وہ اپنا ہاتھ چھڑوا کر پیچھے ہوٸ جیسی بہت ہی بری چیز کےپاس کھڑی تھی۔۔

تم ایک انتہا کے چیپ انسان ہو۔۔ یہ مجھے آج پتا چل گیا۔۔ وہ انگلی اٹھا کر کہہ رہی تھی۔اسکا نازک وجود غصے اور خوف کی وجہ سے لرز رہا تھا۔۔ شرم آتی ہے مجھے یہ سوچ کر تمہاری رگوں میں مسلم خون دھوڑتا ہے۔۔ 

مس نور آپکو کوٸ غلط فہمی۔۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا۔

ہاں بہت بڑی غلط فہمی تھی مجھے کہ میں نے یہاں پر سب کا دل جیتی لیا ہے۔۔ یہ غلط فہمی تھی کہ یہاں سب اپنے ہیں۔۔ وہ رو رہی تھی۔۔ اور مشکل سے ہی بول پا رہی تھی۔۔ اسکے آنسو رومان کو اپنے دل پر گرتے محسوس ہو رہے تھے۔۔ وہ دونوں بھیگ چکے تھے۔۔ آدھی یونيورسٹی وہاں اکھٹی ہوچکی تھی اور سب نے دیکھا تھا کہ حرم نور نے رومان شاہ کو تھپڑ مارا تھا۔۔ اس غلطی کی وجہ سے جو اس نے کی بھی نہیں۔۔

حرم تم غلط سمجھ رہی ہو وہ رون۔۔ عرش آگے بڑھی۔۔

میں کچھ نہیں سمجھ رہی۔۔ اور نا مجھے کچھ سمجھنا ہے۔۔حرم نے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کے ساتھ بے دردی سے اپنے آنسوں رگڑ ڈالے۔ خدا کیلیۓ مجھے معاف کردو تم سب لوگ۔۔ وہ ہاتھ جوڑ کر کہتی آگے بڑھی۔۔

اس نے فرہاد کو فون کیا تھا کہ وہ اسے لینے آجاۓ۔۔ نماز شروع کرنے سے پہلے۔۔ اور اب تک تو وہ آ بھی چکا ہوگا۔۔ 

اس سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔۔ حرم کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔۔یونيورسٹی میں موت کی سی خاموشی چھاٸ تھی۔۔ صرف بارش برسنے کی آواز آ رہی تھی۔۔ آج زی نہیں آٸ تھی۔۔ اسے بخار تھا۔۔ اگر وہ یہ سب دیکھ لیتی تو شاید برداشت نا کر پاتی۔۔

کسی کی بھی ہمت نا ہوٸ تھی کہ وہ حرم کے پیچھے جا کر اسے روک سکے۔۔ 

وہ اپنی ساری ہمت جمع کر کے یونيورسٹی کے گیٹ تک پہنچی تھی۔۔ اسکے باہر اسے فرہاد کی گاڑی نظر آگٸ تھی۔۔ وہ کب سے اندر بیٹھا اسکا نمبر ملا رہا تھا۔۔ مگر حرم کو ہوش کہاں تھا۔ وہ اپنے حواسوں میں نہیں تھی۔۔ 

ہادی۔۔۔وہ اسے دیکھ چکی تھی اور پھر لرزتے لبوں سے اسے پکارہ۔ فرہاد نے بھی گاڑی کے گلاس سے اسے دیکھ لیا تھا۔۔ وہ وہیں کھڑی تھی۔۔ فرہاد کو کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ سمجھ پاتا۔۔ حرم یونيورسٹی کے گیٹ میں ڈھیر ہوگٸ۔۔ 

حرم۔۔۔ فرہاد چلاتا ایک جٹھکے سے گاڑی سے نکلا تھا اور پھر اسکی طرف بڑھا جو ہوش و حواس سے بےگانہ۔۔ برستی بارشیں میں گیٹ میں پڑی بھیگ رہی تھی۔۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرہاد حرم لے کر سیدھا ہاسپٹل چلا گیا تھا۔۔ گھر دور تھا اور وہ کوٸ رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔۔ ڈاکٹر ابھی اسکا چیک اپ کر رہے تھے۔۔ 

وہ بےچینی سے ہاسپٹل کے کاریڈور میں چکر لگا رہا تھا۔اچانک فرہاد کے موبائل پر بیل ہوٸ۔۔ کوٸ اجنبی نمبر تھا۔۔ فرہاد نے کال ریسیو کی۔۔

ہیلو۔۔ ہادی۔۔ حرم سسٹر گھر پہنچ گٸ کیا۔۔۔؟؟ میں واصے بات کر رہا ہوں۔۔

اور فرہاد نے حرم کے منہ سے واصے کا زکر سنا تھا۔

کیا آپ بتا سکتے ہیں واصے کہ یونيورسٹی میں کیا ہوا تھا۔۔ فرہاد نے سنجیدگی سے پوچھا۔

جی۔۔وہ۔۔ سب ٹھیک تو ہے نا۔۔ واصے کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔

میں اس وقت ہاسپٹل میں ہوں۔۔ بعد میں بات کرتا ہوں آپ سے۔۔

ہاسپٹل۔۔لیکن کیوں۔۔؟ اور حرم سسٹر کدھر ہے۔۔ اسکا نمبر بھی آف جا رہا ہے۔۔

مسٹر واصےحرم مجھے یونيورسٹی کے گیٹ میں بےہوش پڑی ملی تھی۔۔ یونيورسٹی میں کیا ہوا تھا یہ میں آپ سے بعد میں پوچھوں گا۔۔ فرہاد نے غصے سے کہا اور کال ڈراپ کردی۔۔

پلیز ہاسپٹل کا نام بتا دیں۔۔ عرش پوچھ رہی ہے۔۔ پلیز ہادی بھاٸ۔۔ تھوڑی دیر بعد اسے واصے کا میسج موصول ہوا۔۔ فرہاد نے کچھ سوچتے ہوۓ اسے ہاسپٹل کا اڈریس سینڈ کردیا۔۔

مسٹر آغا۔۔ ایک ڈاکٹر نے پیچھے سے اسے پکارہ۔۔

یسس ڈاکٹر۔۔ فرہاد بےچینی سے اسکی جانب بڑھا۔

آپکی مسز ابھی ٹھیک ہیں۔۔ انہیں کوٸ شدید زہنی شاک لگا ہے۔۔ شاید وہ شاک کوٸ معمولی بھی ہو بٹ آپکی مسز کیلیۓ بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔۔ ڈاکٹر بتا رہا تھا اور فرہاد کا دل بیٹھ رہا تھا۔

بٹ ڈاکٹر ایسے کیسے۔۔ وہ زرا سے بھی شاک کو برداشت نہیں کر پاتی۔۔ 

شاید آپ جانتے نہیں ہے مسٹر آغا کہ آپکی مسز کا سینٹرل نروس سسٹم یعنی کہ برین۔۔ عام انسان کے نروس سسٹم کے مقابلے میں بہت ویک ہے۔۔ وہ میجر شاک بیٸر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔۔ یہ بہت خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔۔سو پلیز نیکسٹ ٹائم بی کیٸر فل۔۔ ڈاکٹر کہتا ہوا چلا گیا۔۔ جبکہ فرہاد پریشان سا کھڑا تھا۔۔ وہ کیسے بھول گیا تھا کہ حرم کا دماغ معمولی سے صدمے کو بھی برداشت کرنے کی صلاحيت نہیں رکھتا۔۔ 

وہ پریشانی سے اپنا سر پکڑتا ہوا کاریڈور میں رکھی چیٸر پر بیٹھ چکا تھا۔۔ ابھی اسے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گٸ تھی۔۔

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایش کا رویہ اب سمعان کے ساتھ ویسا ہی ہو گیا تھا جیسا ایک مالک کا ڈرائيور کے ساتھ ہونا چاہیۓ۔۔ پہلے وہ اسے سب بتاتی تھی کہ کیا ہوا آج۔۔ کہاس جانا ہے۔۔ اس نے کیا کرنا ہے۔۔ لیکن پچھلے کچھ دنوں سے وہ خاموش رہنے لگی تھی۔۔ سمعان نے اسکی خاموشی واضح محسوس کی تھی لیکن پوچھا نہیں کہ کیوں خاموش ہے۔۔بھلا پوچھ کر وہ اپنے پیروں پر کلہاڑی کیوں مارتا۔۔ ورنہ وہ پھر سے اپنی کچ کچ سٹارٹ کر دیتی۔۔ 

شام کے تین بج رہے تھے اور وہ پیلس کے باہر اسکا انتظار کر رہا تھا۔۔ 

کچھ دیر بعد سمعان کو وہ آتی دکھاٸ دی۔۔ اسے دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔۔ شارٹ بلیک سکرٹ پر سلیولیس ڈارک ریڈ بلاٶز پہنے وہ وہ ایش نہیں تھی جسے وہ روز دیکھتا تھا۔۔ نفاست سےکیا گیا میک اپ۔۔ گلے میں نازک بلیک موتیوں کی مالا پہنے بےشک وہ نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی۔۔ 

سمعان سے اسے اوپر سے نیچے تک غور سے دیکھا تھا اور پھر ناگواری سے چہرہ دوسری طرف کر لیا۔۔ اتنا چھوٹا ڈریس۔۔ 

ایش کے دل کو اسکے یوں منہ موڑ لینے پر دھچکہ ضرور لگا تھا لیکن وہ خود کو سمجھاتے آگے بڑھ گٸ۔

مجھے کلب جانا ہے۔۔ میری فرینڈ کی برتھ ڈے پارٹی ہے۔۔ مجھے کلب چھوڑ دیں۔۔ وہ اسے کلب کا نام بتا کر خاموش ہو گٸ تھی۔ اور سمعان کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسے اتنا غصہ کیوں آرہا ہے۔۔ وہ ریش ڈرائيونگ کر رہا تھا۔۔ شاید اپنا غصہ اتارنے کی کوشش۔۔۔ اور ایش کونسا عام لڑکی تھی جو اسکی ریش ڈرائيونگ سے ڈر جاتی۔۔ وہ پرسکون بیٹھی رہی۔

سمعان نے کلب کے سامنے گاڑی روکی تھی۔۔ کلب شام 5 بجے کھلنا تھا۔۔ تو وہ اتنی جلدی کیوں آٸ تھی۔۔ 

اب آپ جا سکتے ہیں۔۔ میرا ویٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ میں رات کو خود ہی گھر۔۔ وہ گاڑی کے شیشے میں جھکی ہوٸ کہہ رہی تھی۔۔ اس سے پہلے وہ اپنی بات پوری کرتی۔۔ سمعان فراٹے سے گاڑی نکالتا لے گیا۔

شاید آپکو کوٸ فرق نہیں پڑتا۔ایش نے افسوس سے سوچا تھا۔

     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیلا، واصے، عرش،سونگ،چینگ،ڈیرک اور جمی ہاسپٹل آۓ تھے۔۔جب واصے نے انہیں بتایا کہ حرم ہاسپٹل میں ہے۔ وہ سب اس کیلیۓ پریشان تھے۔ عرش نے فرہاد کو پوری سٹوری سنادی تھی۔۔ کہ آج کیا ہوا تھا۔

بات اتنی بڑی بھی نہیں تھی اور اتنی معمولی بھی نہیں۔۔ 
وہ ایک مزاق تھا۔۔ رون کو ایسے مزاق کرنے کی عادت ہے۔ جب ہم یونيورسٹی میں آۓ تھے تو ہمارے ساتھ بھی ایسا ہوا تھا۔تب رومان نے بھی رون کا ساتھ دیا تھا۔۔ لیکن آج جو ہوا اس میں رومان کی کوٸ غلطی نہیں تھی۔۔ 

جانتا ہوں یہ اتنی بڑی بات نہیں ہے۔۔ لیکن حرم کا دماغ ایسے شاک برداشت کرنے کا عادی نہیں۔۔ 

تبھی اچانک انہیں رون آتا دکھاٸ دیا۔۔ اسے بھی اندازہ نہیں تھا کہ اسکا مزاق کسی کو اتنا ہرٹ بھی کرسکتا ہے۔ 

فرہاد کتنی ہی دیر حرم کے پاس بیٹھا رہا تھا۔وہ سکون آور انجیکشنز کے زیرِاثر سوٸ ہوٸ تھی۔ 

وہ ایک پرانک تھی۔۔ جسٹ فار فن۔۔ رون نے فرہاد کے قریب آ کر کہا۔۔ مجھے آٸڈیا نہیں تھا کہ ایسا کچھ بھی ہوگا۔ اسکے لمبے بال چھوٹی سی پونی میں مقید تھے۔۔ چہرے پر شرارت نہیں تھی۔ 

اٹس اوکے مین۔۔ ہوتا رہتا ہے۔۔ فرہاد نے خوشدلی سے کہا۔ سب حرم کیلیۓ آ رہے تھے۔۔ یہ ہی کافی تھا۔

وہ ایچکوٸلی ریم باہر کھڑا ہے۔۔ رون نے کہا۔۔ اور فرہاد کے کان کھڑے ہوۓ۔۔ یہ تو وہی نام ہے۔۔ جو زیبا مما کے بیٹے کا ہے۔۔ 

حرم نے کبھی اسکا زکر نہیں کیا تھا۔۔ البتہ رومان کا کیا تھا۔۔ 

ریم کون ہے۔۔ فرہاد نے پوچھا۔۔

رومان کو ہی ریم بلاتے ہیں سب۔۔ وہ شاید حرم کو۔۔ عرش نے بات ادھوری چھوڑی۔۔ 

اوکے میں دیکھتا ہوں اسے۔۔فرہاد باہر کی طرف بڑھا۔۔ لیکن وہاں کوٸ بھی نہیں تھا۔ 

مجھے لگتا ہے وہ چلا گیا ہے۔۔ پیچھے سے عرش نے کہا۔حرم نے بلاوجہ ہی اسے تپھڑ مار دیا۔حالانکہ قصور اسکا نہیں تھا۔

ہمم۔۔۔ میں اس سے معزرت کرلوں گا۔ فرہاد کہتا ہوا اندر کی طرف بڑھا۔ اور عرش نے بھی قدم اسکے پیچھے بڑھاۓ۔۔
   
        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کے 9 بج چکے تھے ایش ابھی تک کلب سے باہر نہیں آٸ تھی۔۔ سمعان کب سے اسکا انتظار کر رہا تھا۔۔ بیشک اسنے کہا تھا وہ خود چلی جاۓ گی۔۔ لیکن پتا نہیں وہ کیوں آگیا تھا۔۔ پورا ایک گھنٹا ہوگیا تھا اسے وہاں کھڑے ہوۓ۔۔ بارشوں کا موسم تھا۔۔ روزانہ بارش ہوتی تھی۔۔ کبھی صبح تو کبھی شام۔۔ کبھی کبھی دونوں وقت۔۔

سمعان نے آسمان کی طرف دیکھا جو سیاہ بادلوں کی وجہ سے اور بھی سیاہ ہو گیا تھا۔۔ دور کہیں آسمان پر بجلی چمکی تھی۔۔۔ یعنی بارش کے آنے کا اشارہ۔۔ 

وہ کلب کے اندر نہیں جانا چاہتا تھا۔۔لیکن اب وہ مزید صبر نہیں کر سکتا تھا۔ ویسے بھی وہ اسے دس بجے سے پہلے گھر پہنچانا چاہتا تھا۔۔ 

کچھ سوچتے ہوۓ وہ کلب کے اندر کی طرف بڑھا۔۔

ڈم لاٸٹس اور تیز میوزک کانوں کے پردے پھاڑ رہا تھا۔۔ بے ڈھنگے لباسوں میں بے ڈھنگی لڑکیاں۔۔ اسے انتہا کا غصہ دلا رہی تھیں۔۔ وہ ایش کو ڈھونڈ رہا تھا جو اسے نظر نہیں آرہی تھی۔۔

وہ لڑکے لڑکيوں میں سے جگہ بناتا مزید آگے بڑھا۔۔ 

تب اسکی نظر ایک کونے میں رکھے ٹیبل پر پڑی جس پر ایش بیٹھی تھی۔۔ وہ شاید نشے میں تھی۔۔ اور دو لڑکے اسے تنگ کر رہے تھے۔ 

دور رہو مجھ سے۔۔ ہاتھ مت لگاٶ۔۔ وہ انہیں کہہ رہی تھی۔۔نا تو وہ باز آرہے تھے اور نا ایش میں اٹھنے کی ہمت تھی۔۔شاید وہ ضرورت سے زیادہ ڈرنک کر چکی تھی۔۔ 

سمعان انتہاٸ غصے سے آگے بڑھا تھا۔۔ اس نے ایک لڑکے کو پیچھے کالر سے پکڑ کر جٹھکا دیا اور اسے دور پھینکا جبکہ دوسرے کا منہ وہ اپنی طرف موڑ کر دو تین تپھڑ مار چکا تھا جو ایش کو زیادہ تنگ کر رہا تھا۔۔ 

اوو سیم آپ۔۔ ایش نے اتنے نشے میں بھی اسے پہچان لیا۔۔ ایش نے اپنی سبھی فرینڈز سے اسکا تعارف سیم نام سے کروایا تھا۔۔ سمعان نام تو اس سے لیا بھی نہیں جاتا تھا۔۔

سمعان نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر کھینچا اور باہر کی برف بڑھا۔۔ 

آس پاس کے ڈانس کرتے کپل سمعان کو غصےمیں دیکھ کر ڈانس کرنا بھول گۓ تھے۔۔ 

چھوڑو مجھے۔۔ کہاں لے جارہے ہو۔۔ میں نے کہا تھا۔۔ مم۔۔۔میں۔خود آجاٶں گی۔۔ ایش سے بولا تو جا نہیں رہا تھا۔۔وہ ا س سے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔

ایش گھر چلو۔۔ سمعان نے غصے سے کہا۔

نہی۔۔ جا۔۔نا۔۔ مجھے۔۔ چھوڑو مجھے۔۔ وہ بضد تھی۔۔

اور تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے۔۔ وہ اسکے پیچھے چلتے چلتے بول رہی تھی اور ساتھ ہی اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش بھی کر رہی تھی۔۔

تم میرے ڈرائيور ہو۔۔ تو ڈرائيور بن کر۔۔ اس سے پہلے ایش کچھ اور کہتی سمعان پلٹا ایک زوردار تھپڑ اسکے نازک گال پر رسید کیا۔۔

چپ۔۔۔ بالکل چپ۔۔ اب تمہاری آواز نا نکلے۔۔ سمعان نے ہونٹ پر انگلی رکھ کر اسے وارن کیا۔

اور ایش کا اتنا زوردار تپھڑ کھانے کے بعد تھوڑا ہوش واپس لوٹا تھا۔۔ 

تم بہت برے ہو۔۔ مجھے نہیں جانا تمہارے ساتھ۔ وہ اب کلب سے باہر نکل آۓ تھے۔۔

تم جاٶ کام کرو اپنا۔۔ میں خود چلی جاٶں گی۔۔ تپھڑکھانے کے بعد بھی وہ چپ نہیں ہوٸ تھی۔بارش شروع ہوچکی تھی۔۔ سمعان نے اسے گاڑی میں ڈالا اور آگے بیٹھنے کے بعد گاڑی سٹارٹ کی۔۔

میں اپنے ڈیڈ کو بتاٶں گی۔۔
تم نے ایک راٸل پرنسز پر ہاتھ اٹھایا۔۔ 
تم۔۔ تم۔۔ نے ایش ولیم کو مارا۔۔ وہ پیچھے گاڑی میں بڑبڑاۓ جا رہی تھی۔۔ 

سمعان کا پورا دھیان گاڑی چلانے میں تھا۔۔ اچانک ایک جھٹکے سے گاڑی رکی۔۔

     ❤❤❤❤❤❤
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─