┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 31
پارٹ 1

صبح صبح ایش اپنا کوٹ اتارے۔۔جینز کو ٹخنوں سے اوپر فولڈ کیۓ۔۔ ٹھنڈ برستے گراؤنڈ میں ماسٹر ساٸ چن کے ساتھ کنگ فو کی پریکٹس میں مصروف تھی۔۔ ماسٹر ساٸ چن دو بار اسے ہلکے سے پنچ جو کہ اسکی ٹانگوں پر مار کر۔۔۔اسے زمین بوس کر چکے تھے۔۔

کیا بات ہے ایش آج تمہارا دھیان کدھر ہے۔۔۔؟؟ 

نہیں ماسٹر میں پورے دھیان سے کر رہی ہوں۔۔ 

اچھااااااا۔۔۔ ماسٹر نے اسکی بازو کے وار کو روکتے ہوۓ ایک بار پھر نیچے گرا دیا۔۔

نہیں تمہارا دھیان نہیں ہے۔۔ جاٶ پہلے دماغ کو پرسکون کرو۔۔ ماسٹر نے اپنے لمبے گاٶن نما چغے کو ہاتھ کی مدد سے لہراتے ہوۓ کہا اور اندر کی طرف بڑھ گیا۔۔ یہ انکا ایک خاص سٹائل تھا۔۔

ماسٹر۔۔ ایش انکے پیچھے بھاگی۔۔ 

آپکو کیسے پتا۔۔؟؟ 

دنیا میں دو ہی جزبے ہیں جو انسان کو کنٹرول کرتے ہیں۔۔ 
نمبر ایک نفرت۔۔ 
نمبر دو محبت۔۔ وہ رکے۔۔

ایش انکی بات سن کر گڑبڑا گٸ۔۔

اور جہاں تک میرا خیال ہے تم اس وقت نمبر دو کی شکار لگ رہی ہو۔۔ 

وہ حیران رہ گٸ۔۔

ماسٹر ساٸ چن غور سے اسے دیکھ رہے تھے۔۔

اگر تمہارے ہاتھوں میں کپکپاہٹ ہوتی تو ظاہر ہوتا کہ نفرت کا جزبہ تمہارے دماغ کو کنٹرول کر رہا ہے۔۔ پر نہیں۔۔ 

کپکپاہٹ تمہارے ہونٹوں میں ہوٸ ہے۔۔ اور تمہاری پلکوں کا لرزنا اس بات کا ثبوت ہے کہ محبت کا جزبہ تمہارے دل سے ہو کر تمہارے دماغ تک پہنچ رہا ہے۔۔

ہاتھوں کی کپکپاہٹ نفرت کا پتا کیسے دیتی ہے۔۔؟؟ 

اگر ایک انسان کے ہاتھ کسی کے نام یا کسی انسان کے زکر پر کپکپاٸیں اور اسکے فوراً بعد وہ انسان اپنی مٹھیاں بھینچ لے تو یہ نفرت کی ایک نشانی ہے۔۔کیونکہ جب انسان مٹھی بند کرتا ہے تو وہ اپنے غصے یا نفرت کو ضبط کر رہا ہوتا ہے۔۔

آپ کو یہ سب کیسے پتا ماسٹر۔۔؟؟ وہ ابھی بھی حیران تھی۔

محبت کرو۔۔ ضرور کرو۔۔ مگر اسے اپنے دماغ کو کنٹرول مت کرنے دو۔۔ 

نفرت انسان کے دل کو ختم کرتی ہے جبکہ محبت دماغ کو۔۔۔۔ وہ کہہ کر رکے نہیں بلکہ ایک بار پھر چلنا شروع کیا۔۔

محبت اور نفرت میں کیا فرق ہے ماسٹر۔۔؟؟

نفرت انسان کو مضبوط بناتی ہے۔۔ ہمارہ کسی سے بدلا لینا بھی نفرت کے جزبے میں آتا ہے۔۔اور کسی سے بدلا لینے کیلیۓ ہم خود کو بہت تیار کرتے ہیں بہت ہی مضبوط بناتے ہیں اپنے آپکو۔۔ کبھی کبھی یہ بہت کارِگر ثابت ہوتا ہے۔۔ لیکن یہ بہت خطرناک جزبہ ہے۔۔ یہ دل کو تباہ کرتا ہے۔۔ ہر خوشی کو ختم کر دیتا ہے۔۔ سکون کو آپکی زندگی سے نکال دیتا ہے۔۔ تب آپکے پاس دھیان لگانے کیلیۓ سکون نہیں ہوتا۔۔ آپ ہر گیان میں پیچھے رہ جاتے ہو۔۔ 

اور محبت۔۔؟؟

محبت دونوں کام کرتی ہے۔۔ یہ جتنا انسان کو مضبوط بناتی ہے اس سے زیادہ اسے کمزور بھی کر دیتی ہے۔۔ یہ آپکے زہن کو بھٹکا دیتی ہے۔۔ یہ دماغ کو اسکے اصل تسلسل سے نکال کر ایسی دنیا میں لے جاتی ہے جہاں صرف دل کا کام ہوتا ہے دماغ کا نہیں۔۔ 

آپ اتنا کچھ کیسے جانتے ہیں۔۔ وہ انکے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔۔

زندگی کا ہر پل انسان کو ایک نیا سبق دے رہا ہوتا ہے۔۔ بس اس سبق کو حاصل کرنے اور دیکھنے کیلیۓ قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔۔ وہ طاقت جو وہ سبق پہچاننے میں ہماری مدد کرے۔۔

محبت انسان کو کمزور کیسے بناتی ہے ماسٹر۔۔؟؟ وہ پوچھ رہی تھی۔۔ اب وہ دونوں قہوہ خانے میں داخل ہو گۓ تھے۔۔

جس انسان سے محبت ہو جب اسے کھونے کا ڈر لاہق ہو جاۓ تو سمجھ جاٶ یہ جزبہ تمہیں کمزور بنا رہا ہے۔۔ اس خوف کو اپنے اوپر ہاوی مت ہونے دو کہ ہمیں ہمارا محبوب ملے گا یا نہیں۔۔ بس اس سے محبت کرو۔۔ کرتے جاٶ۔۔ کرتے جاٶ۔۔ بنا کسی مطلب کے۔۔ بنا کسی امید کے۔۔ جب امید ٹوٹتی ہے تو درد ہوتا ہے اور وہی درد انسان کو کمزور بنا دیتا ہے۔۔ وہ دونوں ایک میز پر بیٹھ چکے تھے۔۔

اور جب تم ایسی زات سے محبت کرتے ہو جو اس محبت کے قابل ہے۔۔جسے کھونے کا ڈر نا ہو تو وہ تمہیں اتنی مظبوطی فراہم کرتی ہے کہ ایک دن تم دنیا فتح کر لیتے ہو۔۔ اسے اپنے سامنے جھکا دیتے ہو۔۔ 

ماسٹر نے کہنے کے بعد قہوہ کی پیالی اٹھا کر منہ سے لگاٸ۔۔ جو بیرا انکے سامنے رکھ کر گیا تھا۔۔

اور ایسی زات کونسی ہے ماسٹر۔۔؟؟ 

یہی تو تمہیں جاننا ہے ایش۔۔ کھوج کرو اس زات کی۔۔ وہ زات تمہیں تم سے ملوادے گی۔۔ پچاس سالہ ماسٹر ساٸ چن کے پاس انکی زندگی سے زیادہ تجربہ تھا۔۔۔ 

ایش اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتی تھی کہ اسے ایسے انسان سے اتنا کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے۔۔ 

مجھے اب چلنا چاہیۓ پروفیسر۔۔ لیٹ ہو رہا ہے۔۔ وہ اٹھتے ہوۓ بولی۔۔

پروفيسر نہیں ماسٹر کہا کرو کتنی بار سمجھایا ہے۔۔

اوو سوری ماسٹر بھول گٸ تھی۔۔ ایش نے مسکراتے ہوۓ کہا اور کرسی پر رکھا اپنا وہ چغہ اٹھایا جو وہ وہاں پہن کر آتی تھی۔۔ وہ اسے اتار کر کنگ فو سیکھ رہی تھی کیونکہ وہ ابھی اس قدر ماہر نہیں ہوٸ تھی کہ وہ ماسٹر ساٸ چن کی طرح اتنا بھاری گاٶن نما چغہ پہن کر لڑے۔۔۔ اور ماسٹر تو اگر صرف اپنا چغہ ہوا میں ایک جھٹکے سے لہرا کر سامنے کھڑی ایش کو مارتے تو وہ ہوا میں اچھلتے ہوۓ نیچے گر جاتی تھی۔۔ ہر روز وہ کچھ نیا کرتب دکھاتے تھے اسے۔۔ اور ایش کو ابھی بہت کچھ سیکھنا تھا ان سے۔۔

واقعی آج کل اسکا زہن بھٹکا ہوا تھا۔۔ اسے آج کچھ کرنا تھا۔۔ کچھ خطرناک سا اور وہ خود کو اس کیلیۓ تیار کر رہی تھی۔۔۔

   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رون میرا سوسہ واپس کرو۔۔ حرم ایک جھٹکے سے اٹھنے لگی تھی جب عرش نے اسے ہاتھ پکڑ کر واپس بٹھایا۔۔ 

وہ اب واپس نہیں کرنے والا حرم۔۔ جانے دو اسے۔۔ 

اور رون واقعی خباثت سے مسکراتے بزنس ڈیپارٹمنٹ کی طرف جا رہا تھا۔۔ ریم سے پنگا لینے۔۔ 

کل ہفتہ ہے۔۔ تو ہم گھومنے جارہے ہیں۔۔ آپ چلیں گی ساتھ سسٹر۔۔ واصے نے سموسہ کھاتے ہوۓ کہا۔۔

کیا واقعی۔۔ کہاں جا رہے ہو۔۔؟؟ حرم نے حیران ہوتے ہوۓ پوچھا۔۔

Colosseum museum.. 

اووو واٶ۔۔ میں نے اس کے بارے میں سنا ہے مگر دیکھا نہیں ابھی تک۔۔ 

جانتا ہوں۔۔ اس لیۓ ہم سب کل چل رہے ہیں۔۔ ایک دن کا ٹور ہے۔۔ صبح جاٸیں گے شام تک گھوم پھر کر واپس آ جاٸیں گے۔ واصے بتا رہا تھا۔۔

اور ہم نے تمہاری ٹکٹ بھی لے لی ہے۔۔ عرش نے بتایا۔۔

میوزیم میں انٹر ہونے کیلیۓ ٹکٹ کا ہونا ضروری ہے۔۔ اور اسے لینے کیلیۓ ایک لمبی لاٸن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔۔ اس لیۓ میں نے انکی ویبساٸیٹ سے پہلے ہی ٹکٹس بک کروا لی ہیں۔۔ اب ہمیں لاٸن میں کھڑا ہونا نہیں پڑے گا۔۔ واصے نے تفصيل سے بتایا۔۔ 

اور ایک ٹکٹ کتنے کی ہے۔۔؟؟ حرم نے پوچھا۔۔

پچاس یورو۔۔ پچاس یورو کی ایک ٹکٹ ہے۔۔ 

تو آپ صبح ساتھ بجے یہاں یونيورسٹی میں ہی آ جاٸیۓ گا۔۔ ہم سب یہاں سے ہی اکٹھے ہو کر جاٸیں گے۔۔ 

میں ابھی کنفرم کچھ نہیں کچھ سکتی۔۔ مجھے ہادی سے پوچھنا پڑے گا۔۔۔ اگر انہوں نے اجازت دی تو۔۔ ورنہ نہیں۔ 

کیوں نہیں۔۔ ادھر دو فون ہم ابھی اس سے بات کر لیتے ہیں۔۔ 

نہیں میں خود ہی کرلوں گی۔۔حرم نے جواب دیا۔۔

تم کل آ رہی ہو بس۔۔ ہمیں اور کچھ نہیں سننا۔۔۔عرش نے منہ بنا کر کہا۔۔ 

اوکے بابا۔۔ آجاٶں گی۔۔ حرم اسکے پھولے منہ کو دیکھ کر مسکرادی۔۔

     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فون کی گھنٹی کب سے بج رہی تھی۔۔ مسز ولیم بڑبڑاتے ہوۓ فون کی طرف بڑھیں۔

اور پھر فون اٹھانے کے بعد جو پہلی خبر انہیں ملی وہ گنگ رہ گٸ۔۔ 

کیا۔۔ کہاں اب ایش۔۔ ؟؟ وہ تو ٹھیک تو ہے نا۔۔ وہ بدحواس سی پوچھ رہی تھیں۔۔

کیا ہوا ایش کو۔۔؟؟ کسکا فون ہے۔۔ پاس سے گزرتی گرینی نے پوچھا۔۔

ایش کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔۔ وہ ہاسپٹل ہے۔۔ مسز ولیم اب کپکپاتے ہاتھوں سے کسی کا نمبر ڈاٸل کر رہی تھیں۔۔۔ اور یہ خبر سن کر گرینی کا دل بھی دہل گیا۔۔

     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیسے ہوا یہ سب۔۔۔؟؟ مسز ولیم سنے بیڈ پر بیٹھی ایش کو گھور رہی تھی۔۔ جسکے چہرے پر اطمينان پھیلا تھا۔۔ ماتھے پر پٹی لگی تھی اور داٸیں ہاتھ کی ایک ہڈی فریکچر ہوگٸ تھی۔۔

پتا نہیں مجھے پتا ہی نہیں چلا۔ 

کیوں آنکھیں بند کر کے گاڑی چلا رہی تھی تم۔۔۔مسز ولیم کو غصہ آیا ہوا تھا۔۔ 

وہ مام ایک چھوٹی سی بلی آگٸ تھی گاڑی کے سامنے۔۔ اسکے بچانے کیلیۓ میں نے گاڑی کا رخ موڑ دیا اور پھر وہ ساٸیڈ پر لگے درخت سے جا ٹکراٸ۔۔ 

بہت خوب۔۔

بس کرو اب بچی کی جان لو گی کیا۔۔ گرینی نے اسے ٹوکا۔

 کہا تھا میں ولیم سے کہ بچی کو ایک ڈرائيور لگوا دو۔۔ مگر نہیں اس نے تو اسے نا جانے کیا سمجھ رکھا ہے۔۔ آج آنے دو اسے میں اسکی کلاس لونگی۔۔ اب گرینی بول رہی تھیں۔۔ وہ بھی غصے سے اور ایش کے ہونٹوں پر پر اسرار سی مسکراہٹ دھوڑ گٸ۔۔

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کب سے ہسٹری میوزیم کی سیڑھیوں پر بیٹھی سمعان حیدر کا انتظار کر رہی تھی۔ مگر شاید وہ بھول چکا تھا کہ اسے ایش سے ملنا ہے۔۔ 

اسکے پٹی سے لپٹے ہاتھ میں درد ہو رہا تھا۔۔ جان بوجھ کر درخت سے گاڑی ٹھوک دینے کا حوصلہ بھی صرف ایش ولیم میں تھا۔۔ لیکن اسکی یہ حرکت کام آگٸ تھی۔۔ گرینی نے ڈیڈ سے اسے ڈرائيور رکھنے کی پرمیشن دلا دی تھی۔۔ 

تبھی اسکی نظر سمعان کی ٹیکسی پر پڑی جو اسکی طرف آرہی تھی۔۔ ایش دور سے ہی اسکی ٹیکسی کو پہچان گٸ تھی اور پھر ایک دم خوشی سے کھڑی ہوٸ تو ہاتھ میں جٹھکا لگنے کے باعث درد سے بلبلا اٹھی۔۔ 

وہ اپنی گاڑی کو ایک طرف پارک کرتا اسکی طرف بڑھا تھا۔۔ اور پھر اسے یو پٹیوں میں جکڑا دیکھ کر حیران رہ گیا۔

میں کب سے انتظار کر رہی تھی۔۔ شکر ہے آپ آگۓ۔۔ تھوڑا جلدی آ جاتے تو اچھا تھا۔۔ 

یہ کیا ہوا۔۔؟؟ وہ اسکے ہاتھ کی طرف اشارہ کر کے پوچھ رہا تھا۔۔

وہ ایک چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا صبح۔۔ 

ایش ولیم۔۔ اور اس سے ایکسیڈنٹ۔۔ بات ہضم نہیں ہورہی۔۔ 

سچ میں ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔۔ یقین نہیں ہو رہا تو بینڈج اتار کر دیکھ لیں۔۔

اووکے۔۔ مجھے کوٸ ضرورت نہیں چیک کرنے کی۔۔ جلدی بولو جو کہنا تھا مجھے ایک ضروری کام سے جانا تھا۔۔

کل سے آپ اپنی ٹیکسی ڈرائيو نہیں کریں گے۔۔ ایش نے جیسے آڈر دیا اور پھر سمعان ک ابرو اچکا کر دیکھنے پر گڑبڑا گٸ۔

میرا مطلب رات کو چلا سکتے ہیں۔۔ دن میں تو آپ میری گاڑی ڈرائيو کریں گے نا۔۔ 

ہممم۔۔۔ وہ کچھ سوچتا آگے بڑھا۔۔ 

رکیں۔۔ کہاں جا رہے ہیں آپ۔۔ ایش اسکے پیچھے لپکی۔۔ جانے وہ ہمیشہ اتنی جلدی میں کیوں ہوتا تھا۔۔ 

تمہیں گھر چھوڑنے جا رہا ہوں۔۔ جلدی گاڑی میں بیٹھو۔۔ اور پلیز بولنا مت۔۔ خاموش رہنا۔۔ 

ہنہہ۔۔۔ مجھ سے چپ نہیں بیٹھا جاتا۔۔ 

تو ٹھیک ہے پھر جاٶ کسی بس میں۔۔ وہ صاف انکار کرتا گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔۔ 

نن۔۔ نہیں۔۔۔ آپکے ساتھ ہی جاٶں گی۔۔ وہ فٹا فٹ گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گٸ۔۔ 

اور سمعان نے اسکی اس حرکت پر اسے گھورا۔۔ 

اب کیا ہوا۔۔ ایش نے روہانسی ہو کر پوچھا۔

پیچھے جا کر بیٹھو۔۔ میں تمہارا ڈرائيور ہوں۔۔ اور کبھی آگے بیٹھنے کی حرکت مت کرنا۔۔ وہ غصے سے بول رہا تھا۔۔

اوکے۔۔ ایش منہ بناتی پیچھے جا کر بیٹھ گٸ۔۔ وہ کچھ کہنے والی تھی پھر کچھ یاد آنے پر خاموش ہوگٸ۔۔ اور سمعان حیدر پوری توجہ سے گاڑی چلا رہا تھا۔۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح وہ آٹھ بجے یونيورسٹی پہنچ گٸ تھی۔۔ اور سٹوڈنٹس کے ہجوم کو دیکھ کر وہ حیران رہ گٸ۔۔ 

اتنے سارے سٹوڈنٹس۔۔؟؟ مجھے لگا بس ہم چار لوگ جاٸیں گے۔۔ میں،تم،واصے اور بیلا۔۔ حرم نے عرش کو دیکھتے ہوۓ کہا۔۔

نہیں تقریباٍ بیس سٹوڈنٹس کا ٹور ہے۔۔ عرش نے جواب دیا۔

تبھی ایک طرف سے اسے زی اور یم آتے دکھاٸ دیے۔۔ جبکہ شالے جمی اور ڈیرک وہاں پہلے ہی موجود تھے۔۔حرم نے ریم کو دیکھ کر اپنے چہرے کا رخ دوسری طرف کر لیا۔۔ 

پروفيسر جوزف کی کلاس میں ہوٸ بحث کے بعد سے حرم ریم سے کترا رہی تھی۔۔ عجیب سی چڑ ہو رہی تھی اسے اس شخص کو دیکھ کر۔۔ وہ دوبارہ پروفيسر جوزف کی کلاس میں بھی نہیں گٸ۔۔

ہاۓ لٹل لیڈی۔۔ اسکے عین پیچھے رون کھڑا تھا اپنے لمبے بال اپنے چہرے کے آگے ڈال رکھے تھے۔۔ جس سے وہ بھیانک بلا لگا رہا تھا۔۔ 

حرم نے جیسے ہی چہرہ اسطرف کیا وہ اپنے سامنے ایک خوفناک چہرہ دیکھ کر ڈر گٸ۔۔ اور اسکی چینخ نکل گٸ۔۔ سارے سٹوڈنٹس نے چونک کر اسے دیکھا۔

جبکہ رون کا قہقہہ بلند ہوا۔۔ 

تو لٹل لیڈی کو جن بھوتوں سے ڈر لگتا ہے۔۔ وہ ہنس رہا تھا۔

دفع ہو جاٶ رون۔۔ ڈر کی وجہ سے حرم کے دل کی دھڑکن تیز ہو گٸ تھی۔

دفع نہیں ہو سکتا لٹل لیڈی۔۔ وہ خباثت سے مسکرایا۔۔

ویسے سنا ہے میرے جانی دشمن سے تم نے بھی دشمنی مول لے لی ہے۔۔ رون نے ریم کی طرف دیکھتے ہوۓ پوچھا۔

ہنہہ۔۔ میں کیوں دشمن بنانے لگی۔۔ اور ویسے بھی ایسے لوگوں سے میں دشمنی نہیں رکھتی۔۔ میں دشمن اور دوست دونوں اپنے جیسے بناتی ہوں۔۔ 

اووو کول۔۔ ناٸس۔۔ تو رون دی ڈون کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔۔ رون نے ایک آنکھ دبا کر پوچھا۔۔

تمہیں جہنم میں بیجھنے کا خیال ہے میرا۔۔۔ حرم نے غصے سے کہا۔۔

افففف۔۔ ہاہاہا۔۔ رون کا چھٹ پھاڑ قہقہہ بلند ہوا۔

ویسے تو ہم ابھی میوزیم جا رہے ہیں۔۔ جہنم کی بھی سیر کرنے کو تیار ہو میں۔۔ لیکن لٹل لیڈی تمہیں میں ساتھ لے کر جاٶں گا۔ وہ اسکے سر پر تھپڑ مارتا آگے بڑھ گیا۔۔

جبکہ ریم حیران تھا حرم کے اسے دیکھ کر یوں منہ موڑ لینے پر۔۔ اسے کچھ عجیب سا محسوس ہوا تھا۔۔ شاید اسے برا محسوس ہو رہا تھا۔ آج تک کسی لڑکی نے تو کیا کسی لڑکے نے بھی یوں نا کیا ہوگا اسکے ساتھ۔۔

تقریباً دس بجے وہ لوگ یونيورسٹی سے نکلے تھے۔۔ پورے دو گھنٹے انہوں نے یونی میں مستیاں کی تھیں۔۔ حرم تو کچھ سٹوڈنٹس کا بریک ڈانس اور نۓ نۓ کرتب دیکھ کر حیران رہ گٸ تھی۔۔ اب وہ لوگ بس میں بیٹھے تھے اور سٹوڈنٹس نے اچھی خاصی محفل لگائی ہوٸ تھی۔۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرہاد ایک گھر کے سامنے کھڑا تھا۔۔ اس گھر کے سامنے جس کا پتا وہ پروفيسر جوزف سے لے کر آیا تھا۔۔ حرم گھر نہیں تھی۔۔ تو آج وہ یہ کام نمٹاٹے والا تھا۔

گھر کا میں گیٹ کھلا تھا وہ اندر داخل ہونے کے بعد لان سے گزر کر گھر کے اندر داخل ہونے والے دروازے کے پاس آیا لیکن وہ لاکڈ تھا۔

وہ اب گھوم اب گھر کے پچھلے حصےمیں آیا۔۔ آس پاس کے گھروں میں نظر دوڑاٸ مگر اسے کوٸ نظر نہیں آیا۔۔ پھر وہ اوپر ایک ونڈو کا جاٸزہ لے رہا تھا جو تھوڑی سی کھلی تھی۔۔ یعنی اندر داخل ہونے کا راستہ مل گیا تھا۔۔پھر وہ پاٸپ کے زریعے اوپر چڑھا اور کھلی ونڈو سے اندر کود گیا۔۔ اور پھر اندر کا منظر دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔۔

     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب وہ لوگ وہاں پہنچے تو جس حصےمیں میوزیم کی عمارت تھی وہاں جانے کیلیۓ ٹیورسٹ کی ایک لمبی لاٸن لگی تھی۔۔ اس طرف سے آٶ۔۔ ریم نےسب کو دوسری طرف بلایا جہاں سے وہ اندر داخل ہوۓ کیونکہ انہوں نے پہلے ہی ٹکٹس بک کر لی تھیں۔۔ 

حرم کے سامنے 
Colosseum museum 
کی عمارت پورے شان و شوکت سے کھڑی تھی۔۔ 48 میٹر اونچی عمارت۔۔ 

چلو حرم۔۔ عرش نے اسے پکارہ تو وہ اسکے ساتھ چلتے ہوۓ آگے بڑھی۔۔ سارے سٹوڈنٹس بکھر گۓ تھے۔۔

وہ میوزیم کو باہر سے دیکھنے کے بعد اندر داخل ہوۓ۔۔

پراچین سامراج کا سب سے اتحازک اور سب سے بڑا تھیٹر۔۔ بیلا نے انکے پاس آتے ہوۓ کہا۔۔ میں نے سکول میں ہسٹری کی بک میں پڑا تھا اسکےبارے میں۔۔

واٶٶٶ کمال ہے یہ۔۔ حرم واقعی اسے دیکھ کر خوشی ہوٸ تھی۔۔

دوہزار سال پرانا ہے یہ میوزیم سسٹر۔۔ واصے بھی انکے قریب آیا۔۔ سن 72 AD میں اسکی بنیاد رکھی گٸ تھی اور 80 AD میں یہ مکمل ہوا۔۔ آٹھ سال لگے تھے اسکو تعمیر ہونے میں۔۔ 

وہ کیا ہے۔۔ حرم نے ایک گراؤنڈ کی طرف اشارہ کیا جو میوزیم کے بیچ میں بنایا گیا تھا۔۔ 

وہاں پر گلیڈیٹوریل فاٸٹس ہوتی تھیں۔۔ 

کیا واقعی۔۔؟؟ حرم حیران ہوٸ۔

ہاں دوہزار سال پہلے اسے تہوار کے منانے۔۔ گیمز کھیلنے اورگلیڈیٹوریل فاٸٹس کیلیۓ بنوایا گیا تھا۔۔

گلیڈی ٹوریل فاٸٹس ایسی لڑاٸیوں کو کہا جاتا یے جس میں پرانے زمانے میں دو غلاموں کو آپس میں لڑوایا جاتا تھا۔۔ یا ایک غلام کو ایک جانور سے لڑوایا جاتا تھا۔۔

یہ جو تم سیڑھیاں دیکھ رہی ہو نا۔۔ یہاں عوام بیٹھ کر تماشہ دیکھا کرتی تھی۔۔ درمیان میں وہ گراؤنڈ بنا تھا جبکہ اسکے چاروں جانب گولاٸ میں عوام کے بیٹھنے کیلیۓ سیڑھیاں سی بناٸ گٸ تھیں۔۔

یہ واقعی ادھ بدھ سا ہے۔۔ زرا امیجن کرو دو ہزار سال پہلے یہاں کیسے عوام بیٹھتی ہوگی۔۔ کیسے بادشاہ بیٹھتے ہونگے۔۔ 

وہ وہیں کھڑی تھی جبکہ بیلا واصے اور عرش آگے بڑھ گۓ تھے۔۔

کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں مس نور۔۔؟؟ اچانک ایک طرف سے ریم اسکے پاس آیا۔۔ 

حرم اسے دیکھ کر چونکی۔۔ اسکے بدلے بدلے لہجے پر اسے حیرت ہوٸ۔۔

میں آپ سے کیوں ناراض ہونگی مسٹر رومان شاہ۔۔ 

وہ ایکچوٸلی آپ نے شالے اور ڈیرک کے بارے میں ایک غلط بات کی تو مجھے غصہ آگیا تھا۔۔ وہ شرمندہ سا کھڑا تھا۔۔ 

میں نے انکے بارے میں بات نہی کی تھی رومان شاہ۔۔ میں نے آپکے مغرب کے بارے میں کہا تھا۔۔کونکہ پہلے آپ نے میرے مشرق کو غلط کہا تھا اس لیۓ۔۔ 

اوکے سوری۔۔ وہ آہستہ سے بولا۔۔ جبکہ حرم کو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ واقعی سوری کر رہا ہے یا یہ اسکی کوٸ چال ہے۔۔ 

اٹس اوکے۔۔۔ حرم بھی نرم لہجے میں کہتی آگے بڑھ گٸ۔ 

اور وہ وہی کھڑا رہ گیا تھا۔۔ جانے وہ اتنی عجیب کیوں ہے۔۔ وہ عام لڑکیوں کی طرح مجھ سے بی ہیو کیوں نہیں کرتی۔۔؟؟ وہ سوچ رہا تھا۔۔

 جبکہ دور کھڑی زی کی نظریں اس پر جمی تھی۔۔ کتنی تکلیف تھی ان نظروں میں یہ دیکھ کر کہ ریم حرم کے پاس گیا۔۔ کیوں گیا۔۔ آخر کیوں۔۔ ریم تم سمجتے کیوں نہیں ہو آخر۔۔؟؟ کیوں تم حرم کو اتنی ویلیو دے رہے ہو۔۔؟؟ اسے عام لڑکيوں کی طرح ٹریٹ کرو۔۔ جنکا نام تک بھی تمہیں یاد نہیں رہتا۔۔ 

لیکن کیوں حرم کا نام تمہارے زہن سے نہیں نکلتا۔۔ ؟؟ اس اداس سی عمارت نے اسے بھی اداس کر دیا تھا۔۔ 

جبکہ ریم کو اس پراسرار سی عمارت کی طرح حرم بھی پراسرار سی لگتی تھی۔۔ گہری پراسرار جھیل کی طرح۔۔۔ جہاں انسان ایک بار ڈوبے تو ابھر ہی نا سکے پوری زندگی۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔
      ❤❤❤❤❤❤

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─