┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄
ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 30
پارٹ 1
عالم شاہ۔۔ چھبیس سال پہلے اس یونيورسٹی میں پڑھتے تھے۔۔آپکے سٹوڈنٹ تھے۔یاد ہے آپکو پروفیسرجوزف۔۔ فرہاد نے سامنے بیٹھے شخص سے پوچھا۔۔
پروفیسر نے چونک کر فرہاد کو دیکھا۔۔
تیس سال سے اس یونيورسٹی میں پڑھا رہا ہوں مسٹر آغا۔۔ یاد بھی نہیں ہر سال کتنے سٹوڈنٹس ڈگری لے کر جاتے ہیں یہاں سے۔۔ پروفیسر نے جواب دیا۔۔
غلط۔۔ عالم شاہ کو آپ نہیں بھول سکتے۔۔ آپکے دوست تھے وہ۔۔
میں کسی عالم شاہ کو نہیں جانتا۔۔
آپ جھوٹ بول رہے ہیں پروفیسر۔۔ آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں۔۔ مجھے بس اس شخص کا ایڈریس چاہیۓ۔۔ فرہاد نے کہا۔۔
نہیں جانتا میں کسی عالم شاہ کو۔۔ اگر جانتا ہوتا تو بتا دیتا۔۔ پروفیسر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوۓ۔۔
ٹھیک ہے۔۔ اٹس اوکے۔۔ اگر آپ سچ میں نہیں جانتے تو کوٸ بات نہیں۔۔ فرہاد پروفیسر کے رخ موڑ کر کھڑے ہونے سے سمجھ گیا تھا کہ وہ کچھ بتانا نہیں چاہتے۔۔
جبکہ پروفیسر اپنے تاثرات چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔۔
اوکے پروفیسر گڈ باۓ۔۔ فرہاد چلتا ہوا دروازے تک آیا۔۔پھر وہ رکا۔ پلٹا۔۔ اور بولا۔۔
پروفیسر جوزف۔۔زیبا عالم شاہ تو اچھی طرح یاد ہوگی آپکو۔۔ ہے نا۔۔۔؟؟
پروفیسر جوزف کرنٹ کھا کر پلٹے۔۔ حیرانگی انکے چہرے سے صاف نمایاں تھی۔۔ آہستہ آہستہ وہ حیرانگی خوف میں بدل گٸ۔۔
وہی زیبا عالم شاہ جسکو آپکی وجہ سے طلاق ہوٸ تھی۔۔ عالم شاہ نے اسے طلاق دی تھی۔۔ یاد ہے نا پروفیسر۔۔ فرہاد تاک تاک کر نشانے لگا رہا تھا۔۔
اور پروفیسر جوزف کے چہرے پر بے بسی پھیل گٸ۔۔ وہ اپنی کرسی پر ڈھے گیۓ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حرم اور واصے یونيورسٹی کے گراؤنڈ میں ایک کتاب سامنے رکھے سر جوڑے بیٹھے تھے۔۔ شاید کوٸ بہت اہم ٹاپک تھا جو ڈسکس ہو رہا تھا۔وہیں پر بیلا ساٸیکل پر انکے گرد داٸرے میں چکر لگا رہی تھی۔۔ جبکہ عرش اسکی ویڈیو بنا رہی تھی۔۔ دونوں نے کافی شور مچایا ہوا تھا۔۔ آج رون غائب تھا اور اسی بات کی خوشی بیلا کو اس طرح انجواۓ کرنے پر اکسا رہی تھی۔۔
چپ کرو تم دونوں۔۔ حرم نے انہیں دیکھتے ہوۓ کہا۔۔
پڑھاکو۔۔ اگر تم لوگوں کو اتنی پرابلم ہو رہی ہے تو کہیں اور جا کر بیٹھ جاٶ۔۔ لیکن اس بات کو یاد رکھو کہ ہم وہاں بھی آجاٸیں گے۔۔ بیلا نے جان بوجھ کر انہیں تنگ کرتے ہوۓ کہا۔۔
سسٹر انہیں چھوڑو۔۔ ادھر دھیان دو۔۔ واصے نے حرم سے کہا جو بڑی بڑی آنکھیں نکالے عرش اور بیلا کو گھور رہی تھی۔۔
تبھی ساٸیکل چلاتی بیلا کی نظر سامنے آتے شخص پر پڑی تھی۔۔وہ حیران رہ گٸ۔۔ اسے یاد نہیں رہا کہ وہ ساٸیکل چلا رہی تھی۔۔ زہن بٹھکا تو توازن بھی کھو گیا اور وہ ساٸیکل سمیت دھڑام سے نیچے گری۔۔
ہاہ ہ ہ ہ۔۔ عرش اسے گرتا دیکھ کر حیران رہ گٸ۔۔ اور پھر ہنسی کا فوارہ اسکے منہ سے چھوٹ پڑا۔۔
جبکہ وہ نیچے گری اس شخص کو دیکھ رہی تھی جو انکی طرف آرہا تھا۔۔ بلیک جینز، بلیک شرٹ، اور بلیک ہی جیکٹ کے ساتھ موبائل کان سے لگاۓ وہ انکی طرف بڑھ رہا تھا۔۔ بیلا کو نیچے گرتے دیکھا تو دوسرے ہاتھ سے بلیک چشمہ آنکھوں سے اتارا۔۔
OMG... who is he..??
بیلا ایک دم اٹھی۔۔ البتہ ساٸیکل سے پاٶں اٹکنے کے باعث جو اسکے ساتھ ہی نیچے گری تھی۔۔ ایک بار پھر دھڑام سے نیچے گری۔۔
Are you ok..??
وہ اسکے پاس آکر گویا ہوا۔
یس یس۔۔ بیلا اب کی بار زرا دھیان سے کھڑی ہوٸ۔۔ جبکہ عرش بھی دھیان سے اس شخص کو دیکھ رہی تھی۔۔
عرش اسے پہچان گٸ تھی۔ اس شخص کی تصویر اس نے حرم کے موبائل میں دیکھی تھی۔۔
اوو یہ تو حرم کے کزن ہادی ہیں۔۔ وہ چونکی۔
حرم۔۔ اب وہ حرم کو بلا رہی تھی۔۔ جو پوری توجہ کتاب پر مرکوز کیۓ بیٹھی تھی۔۔ لیکن حرم نے کوٸ جواب نہیں دیا۔۔
حرم۔۔۔ اب کی بار عرش نے زرا اونچا پکارا۔۔
عرش مجھے تنگ مت کرو۔۔ حرم نے بنا دیکھے غصے سے جواب دیا۔۔ اسکا چہرہ دوسری طرف تھا اس لیۓ وہ فرہاد کو نہیں دیکھ پاٸ تھی۔۔
فرہاد اسے دیکھ چکا تھا۔۔ جب عرش کے بلانے پر بھی اس نے کوٸ ریسپانس نہیں دیا تو فرہاد نے موبائل سے اسے کال کی۔۔ جبکہ بیلا تو اسکے چہرے کے خدوخال دیکھنے میں مگن تھی۔۔
کوٸ اتنا ڈیشنگ کیسے ہو سکتا ہے۔۔؟؟ وہ سوچے جا رہی تھی۔۔ بیلا کو ہر خوبصورت لڑکے پر کرش ہو جاتا تھا۔۔ ایک دن پہلے تک وہ رومان پر دل و جان سے فدا تھی جبکہ اب فرہاد آغا کو دیکھنے کے بعد وہ اس قدر بد حواس ہوٸ کہ دو بار زمین کو اپنا دیدار کروا دیا۔۔
حرم نے جب فرہاد کی کال دیکھی تو فٹ کتاب کو چھوڑ کر اسکی کال ریسیو کی۔۔ فرہاد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دھوڑ گٸ۔
کہاں ہو حرم۔۔ فرہاد نے فوراً پوچھا۔۔
یونيورسٹی میں ہوں۔۔ کیوں کیا ہوا۔۔ وہ اس سے ناراض تھی۔۔ اچانک اسے یاد آ گیا۔۔ اور لہجے کا جوش و خروش ایک دم مدھم پڑھ گیا۔۔
فری ہو یا بزی۔۔ وہ پوچھ رہا تھا۔۔ جبکہ بیلا اور عرش کبھی حرم کو دیکھ رہی تھیں تو کبھی فرہاد کو۔۔
ابھی فری ہوں۔۔
اور نیکسٹ بھی فری ہو یا بزی۔۔؟؟
نیکسٹ لیکچر فری ہے۔۔ وہ بتا رہی تھی۔۔
تو پھر ٹھیک ہے گھر آجاٶ۔۔
کیوں۔۔؟؟ حرم نے پوچھا۔۔
ویسے ہی خودی تو کہا ہے کہ فری ہو تو گھر آ جاٶ۔۔
آپ کہاں ہیں۔۔؟ حرم نے سوال کیا۔۔
میں اس وقت گھر ہوں۔۔فرہاد کو شرارت سوجھ رہی تھی۔
اچھااا۔۔ تو میں ابھی نہیں آ سکتی میں بزی ہوں۔
مگر ابھی تو تم نے کہا تھا کہ تم فری ہو۔۔
ہاں کہا تھا لیکن ابھی ابھی میں بزی ہو گٸ ہوں۔۔ حرم نے کہا اور اسکی بات پر فرہاد کا قہقہہ بلند ہوا۔۔ حرم نے چونک کر پیچھے دیکھا تو سامنے کھڑے فرہاد کو دیکھ کر حیران رہ گٸ۔۔
ہادی آپ۔۔ وہ ایک دم کھڑی ہوگٸ۔۔ کتاب گود سے پھسل کر زمین پر جا گری۔۔
کیا ساری لڑکیاں فرہاد آغا کو دیکھ ایسے نروس ہو جاتی تھیں کہ یوں الٹی سیدھی حرکتیں کرنے لگ جاٸیں۔
ہاں میں۔۔ وہ چلتا ہوا اسکے پاس آیا۔۔
آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔؟؟
ایک کام تھا اسی سلسلے میں آیا تھا۔ اب جلدی چلو آپا اور شانو گھر پر تمہارا انتظار کر رہی ہیں۔۔
وہ کہہ رہا تھا اور حرم نے کسی روبوٹ کی طرح اپنا بیگ اٹھایا۔۔ اور جانے کیلیۓ مڑی۔
ویسے اپنے فرینڈز سے میرا تعارف نہیں کرواٶ گی کیا۔۔ فرہاد نے شرارت سے پوچھا۔۔
اوو سوری۔۔ وہ پلٹی۔
یہ واصے بھاٸ ہیں۔۔ یہ عرش ہے اور یہ بیلا ہے۔۔ اس نے ایک ہی بار میں تینوں کا تعارف کروا دیا۔۔
اور گاٸیز یہ ہیں میرے کزن ہادی۔۔
سو ہینڈسم۔۔ بیلا نے فوراً کہا۔۔
تھینک یو پریٹی گرل۔۔ فرہاد نے اسکے کمپلیمینٹ کا جواب فوراً دیا۔۔
اچھا ہم چلتے ہیں۔۔ کل ملیں گے۔ وہ کہتی آگے بڑھ گٸ۔۔ وہ مزید وہاں رکنا نہیں چاہتی تھی جبکہ فرہاد کو اسکے انداز پر رہ رہ کر ہنسی آ رہی تھی جسے وہ مشکل سے کنٹرول کر رہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آج پھر اسے نظر آیا تھا۔۔ایش آج آرٹ گیلری آٸ تھی۔ وجہ پینٹنگز کی ایگزیبیشن تھی جو وہ دیکھنے آٸ تھی۔۔ جیسے ہی وہ گیلری کی سیڑھیوں سے نیچے اتری اسکی نظر سمعان حیدر پر پڑی۔۔ وہ اپنی ٹیکسی سے ٹیک لگاۓ کھڑا تھا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی سے فون پر بات کر رہا ہو۔۔
ایش اسے دیکھ کر خوش ہوگٸ۔۔ اور پھر پرجوش سی اسکی طرف بڑھی۔۔
ہاۓ۔۔ وہ اسکے قریب جا کر بولی۔۔ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔؟؟
آپ کون۔۔؟؟ سمعان حیدر نے اسے دیکھ کر پوچھا۔
دونوں ایک دوسرے کو آپ کہہ کر مخاطب کر رہے تھے۔۔ ایش اس لیۓ آپ کہہ رہی تھی کہ سامنے والے بندے میں رعب بہت زیادہ تھا اسے تم کہنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔۔۔ جبکہ وہ آپ کہہ رہا تھا تو وجہ صاف تھی کہ وہ اسے نہیں جانتا۔۔
ایش کے چہرے پر ایک سایہ سا آ کر گزر گیا۔۔
وہ میں ایش ولیم۔۔ آپ سے دو بار پہلے مل چکی ہوں۔۔ ایش حیران تھی کہ پچھلی بار وہ دس دنوں کے بعد بھی اسے فوراً پہچان گیا تھا جبکہ آج جب دو دنوں بعد ملاقات ہو رہی تھی تو وہ پہچاننے سے عاری تھا۔
حالانکہ ایک پل بھی ایسا نہیں تھا جب وہ اسے بھولی ہو۔۔ پچھلے دو دنوں سے وہ بہت بزی تھی۔ آج وہ اس مسجد میں جانے کا سوچ رہی تھی۔ انفیکٹ وہ ایگزیبیشن سے سیدھا وہی جانے والی تھی لیکن پھر اسے سامنے دیکھ کر اسکی طرف آٸ۔
ہممم۔۔ ملیں ہونگے۔میں ایک ٹیکسی ڈرائيور ہوں روزانہ سینکڑوں مسافروں سے ملتا ہوں۔۔ وہ سرد سے لہجے میں کہہ رہا تھا۔
ہاں پر ہماری ملاقات ایک Mosque میں ہوٸ تھی۔ دو دن پہلے رات کو۔۔ کچھ یاد آیا۔ ایش نے امید بھری نظروں سے اسے دیکھا۔۔
اووو۔۔ تو وہ آپ تھیں۔۔؟؟
جی۔۔ اسکے پیچاننے پر ایش کے چہرے پر رونق سی آگٸ۔
ہمم اوکے۔۔ وہ اپنے کان کو چھوتا آرٹ گیلری کی طرف بڑھ گیا۔۔
آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔؟؟ وہ اسکے پیچھے ہوٸ۔
ڈرائيور ہوں تو مسافر کو لے کر ہی آیا ہونگا نا۔ وہ رکا نہیں
مجھے آپ سے ملنا تھا۔ انفیکٹ میں سیدھا یہاں سے آپ کے پاس جانے والی تھی۔
کیوں۔۔؟؟ وہ اچھنبے سے پوچھ رہا تھا۔
وہ آپ نے بتایا تھا نا کہ آپ مسلم ہیں تو۔۔
تو۔۔
افف۔۔ ایش کا سارا کانفیڈینس اسکے سخت لہجے نے ہوا کر دیا تھا۔
تو مجھے آپکے ریلیجن کے اباٶٹ جاننا تھا۔۔ وہ اتنی تیز چل رہا تھا کہ ایش کو اسکے ساتھ چلنے کیلیۓ بھاگنا پڑا۔
کیوں مزہب بدلنا ہے آپ نے۔۔ وہ ایک دم پلٹا۔۔ ایش اسکے سینے سے ٹکراتے ٹکراتے بچی کیونکہ وہ اسکے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔۔
نہیں۔۔ وہ۔ ایش گڑبڑا گٸ۔۔ لفظوں سے زیادہ اس شخص کا لہجہ کاٹ دار تھا۔
تو پھر میرا دماغ کیوں کھا رہی ہو۔۔؟؟ وہ غصے سے بولا۔
سوری وہ۔۔ مم۔۔میں۔۔ ایش سے کچھ بولا ہی نہیں گیا۔
اب میرے پیچھے مت آنا۔۔ وہ ہاتھ اٹھا کر وارن کرتا چلا گیا۔۔
جبکہ وہ وہیں کھڑی رہ گٸ۔۔ کیا بتاتی اسے کہ بس اسے دیکھنے کو دل کرتا ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گھر کے پچھلے کاریڈور میں کرسی پر بیٹھی تھی۔۔ سیاہ شال اس نے اپنے گرد لپیٹ رکھی تھی۔ بارش آج پھر ہو رہی تھی لیکن آج اسکے ساتھ والی کرسی پر شانو نہیں تھی۔۔ وہ اکیلی بیٹھی تھی۔۔
یہاں کیوں بیٹھی ہو۔۔۔؟؟ اسے اپنے پیچھے سے فرہاد کی آواز آٸ۔۔
وہ کچھ نا بولی۔۔
حرم۔۔ ناراض ہو مجھ سے۔۔؟؟
وہ پھر بھی نا بولی۔۔
میں کچھ پوچھ رہا ہوں۔۔ وہ اب اسکے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ چکا تھا۔
مجھے کوٸ خق نہیں آپ سے ناراض ہونے کا۔۔
کیوں حق نہیں ہے۔۔؟؟ سارے حق تمہارے پاس ہی تو ہیں۔۔وہ پوچھ رہا تھا۔
اتنی اوقات نہیں ہے میری کہ میں کسی حق کی بات کروں آپ سے۔۔ پچھلے دو دنوں کا غبار اسکے اندر بھرا ہوا تھا۔۔
اور فرہاد اسکے لہجے اسکے لفظوں پر حیران رہ گیا۔
کیا ہوا ہے۔۔؟؟ ادھر میری طرف دیکھ کر بات کرو حرم۔۔
مجھے آپ سے کوٸ بات نہیں کرنی۔۔ وہ کہتی اٹھ کھڑی ہوٸ۔۔
لیکن مجھے بات کرنی ہے تم سے۔۔ برستی بارش میں اسکا ہاتھ پکڑ کر التجا کی گٸ۔۔
اور حرم کو اسکے نرم لہجے پر مزید رونا آیا۔۔
بیٹھ جاٶ حرم۔۔ فرہاد نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر بٹھایا۔۔ اور وہ بیٹھ گٸ۔۔
اب بتاٶ کیا بات ہے۔۔ کیا چیز جو تمہیں پریشان کر رہی ہے۔۔؟؟
آپ نے اتنی بڑی بات چھپاٸ مجھ سے۔۔؟؟ بارش کے ساتھ وہ بھی رو دی۔۔ اس قابل نہیں سمجھا آپ نے مجھے۔۔
اور فرہاد اسکے رونے پر بوکھلا گیا۔۔
رو کیوں رہی ہو پاگل۔۔؟؟ چپ کرو پلیز میں روتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تمہیں۔۔ وہ شاید پہلی بار یوں اسکے سامنے روٸ تھی۔۔ اور فرہاد تو اسے خواب میں روتا ہوا دیکھ کر بھی پریشان ہو جاتا تھا۔۔
اچھا چلو شاباش یہاں سے اٹھو پہلے اندر چلو۔۔ بہت ٹھنڈ ہے یہاں پر۔۔وہ اسے کندھوں سے پکڑ کر اٹھا چکا تھا۔۔ اور پھر دونوں چلتے ہوۓ حرم کے کمرے میں آۓ۔۔
بیٹھ جاٶ یہاں۔۔ وہ اسے بیڈ ہر بٹھا چکا تھا اور خود پاس رکھی کرسی کھینچ کر اسکے سامنے بیٹھ گیا۔۔
اب بتاٶ۔۔؟؟ کیا چھپایا میں نے تم سے۔۔؟؟
آپ نے مجھ سے روشنی والی بات چھپاٸ۔۔ آپ نے مجھے اس قابل نہیں سمجھا کہ مجھ سے اپنا دکھ درد بانٹ لیں۔۔
فرہاد حیران ہوا۔ وہ جانتا تھا کہ ایک نا ایک دن حرم جو پتا چل ہی جاۓ گا۔وہ پہلے سے خود کو تیار کر چکا تھا لیکن اتنی جلدی حرم کو پتا چک جاۓ گا یہ اسے بھی اندازہ نہیں تھا۔۔
بتایا اس انسان کے بارے میں جاتا ہے حرم جسکی کوٸ اہمیت ہو آپکی زندگی میں۔۔ جس انسان کی کوٸ اہمیت ہی نا ہو اسکے بارے میں کیا بتانا کسی کو۔۔ وہ اسکے پاس سے اٹھ کر سامنے ونڈو میں جا کر کھڑا ہو گیا۔
وہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔۔ اتنی سنگین خطا جسکی سزا میں آج تک بھگت رہا ہوں۔۔ میں نے اپنا بہت کچھ کھویا ہے صرف اس روشینہ کی وجہ سے جس سے آج میں بہت نفرت کرتا ہوں۔
حرم بھی اٹھ کر اسکے پاس جا کر کھڑی ہو گٸ۔
میں اسے بھلا چکا ہوں۔۔ صرف اس لیۓ کہ میں اسے معاف نہیں کر سکتا۔ کبھی بھی نہیں۔۔ نفرت کرتا ہوں میں اس سے۔۔ میں اسے معاف کی کوشش کرتا ہوں تاکہ اسے بھول سکوں۔۔ لیکن جب کبھی اسکا زکر آ جاۓ تو میرے بھرے ہوۓ زخموں سے بھی لہو رسنے لگتا ہے حرم۔۔
آپ اسے معاف کردیں۔۔ حرم نے آہستہ سے کہا۔
فرہاد چونکا۔۔
ہاں جسے ہم بھول نا پاٸیں یا جس سے نفرت کرتے ہوں اسے معاف کردینا چاہیۓ۔۔
ہمم۔۔ تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔میں کوشش کرتا ہوں۔
کوشش نہیں اگر آپ اس نفرت کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپکو اسے معاف کرنا ہوگا۔
اچھا۔۔ وہ پلٹا۔۔ تم کہتی ہو تو کر دیتا ہوں معاف۔۔ آج کی یہ بارش گواہ ہے۔ میں اسے معاف کیا۔ جو جگہ نفرت نے بنا رکھی تھی میرے دل میں اسکے لیۓ آج سے وہ بھی ختم۔۔ وہ مسکرایا۔
اب کوٸ فرق نہیں پڑتا وہ کون ہے کیا ہے کہاں ہے۔۔
تھینک یو ہادی۔۔ حرم نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا۔
نہیں تھینک یو مجھے تمہیں کہنا چاہیۓ۔۔ دل سے ایک بوجھ کم ہو گیا۔۔
اچھا میں چاۓ بنا کر لاتی ہوں۔۔ وہ جانے لگی۔۔
ابھی نہیں۔۔ یہاں بیٹھو۔۔ فرہاد نے اسکا ہاتھ نہیں چھوڑا
جانتی ہو میں ایسا نہیں تھا جیسے تمہارے سامنے کھڑا ہوں۔۔ میں بہت آوارہ لڑکا تھا حرم۔۔
وہ کہہ رہا تھا جبکہ حرم کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ یہ کیوں کہہ رہا ہے۔۔
مجھے تمہارے لیۓ ایسا بنایا گیا ہے۔۔ توڑ مروڑ کر۔۔ اگر روشنی میری لاٸف میں نا آتی تو میں کبھی بھی نہیں ٹوٹتا۔۔۔ کبھی بھی نہیں بکھرتا۔۔ وہ آٸ اس نے مجھے فادی بنادیا۔۔
پھر اللہ پاک نے مجھے ایسا توڑا کہ فادی کہیں دفن ہو گیا۔۔ پھر اس زات نے مجھے خود جوڑا۔۔ جانتی ہو کس لیۓ۔۔؟؟
نہیں۔۔
تمہارے لیۓ۔۔ تم جیسی اچھی لڑکی کیلیۓ۔۔ تمہارے جیسی اچھی لڑکی کو پانے کیلیۓ میرا اچھا بننا۔۔ ہادی بننا ضروری تھا نا۔۔ بس اس لیۓ۔۔
یہ سب لکھا ہوا تھا۔۔ مجھے تمہارے لیۓ تیار کیا جا رہا تھا۔۔ کسی اور کے زریعے۔۔ اس لیۓ وہ سب تقدیر کا کھیل تھا۔۔ اسے بھول جاٶ۔۔ اب جو میں ہوں تمہارے سامنے ہوں اور ہمیشہ ایسے ہی رہوں گا۔۔ وہ مسکرایا۔۔
اور حرم بھی اسکی باتوں کو سمجھ کر مسکرادی۔۔
یہ سچ ہے ہمیں بنایا جاتا ہے۔۔ تیار کیا جاتا ہے۔۔ کسی اور کے ہاتھوں۔۔ کسی اور کیلیۓ۔۔
”بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے“
جاری ہے۔۔۔۔۔
❤❤❤❤❤❤
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─