┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 29
پارٹ 2

ایش چلتے ہوۓ اسکے قریب آٸ تھی۔اور پھر اسکے داٸیں طرف ٹاٸلوں سے بنے سرخ فرش پر بیٹھ گٸ۔۔ وہ شخص اب دونوں گھٹنوں کو موڑے ان پر ہاتھ رکھے بیٹھا تھا۔۔ پھر اس نے داٸیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کو اٹھایا تھا۔۔ 

ایش اسکی ایک ایک حرکت کو نوٹ کر رہی تھی۔۔ 

سنو۔۔ ایش نے اسے پکارا۔۔ لیکن وہ ہلا تک نہیں۔۔ 

پھر کچھ دیر بعد وہ سلام پھیر چکا تھا۔۔ یہ سب ایش کیلیۓ نیا تھا۔۔ وہ یہ سب نہیں جانتی تھی۔ عبادت کیا ہوتی ہے اس نے کبھی کی نہیں۔۔ اسے چرچ میں کوٸ اٹریکشن فیل نہیں ہوتی تھی۔۔ وہ بچپن میں اپنے ممی پاپا کے ساتھ جاتی تھی چرچ لیکن وہاں بھی ایسی عبادت تو نہیں ہوتی تھی۔۔

کون ہو تم۔۔۔؟؟ ایش نے اسکے سر کو داٸیں باٸیں ہلتے دیکھا تو پوچھا۔۔ 

لیکن وہ ہاتھ دعا کیلیۓ اٹھا چکا تھا۔۔ وہ دونوں بارش میں بھیگ رہے تھے۔۔ فرق صرف یہ تھا کہ کچھ دیر پہلے تک ایش کو یہ بارش عزاب لگ رہی تھی جبکہ اب کوٸ جادوٸ بارش لگ رہی تھی جس نے اس پر طلسم پھونک دیا تھا۔۔ 

  کچھ دیر بعد جب وہ دعا مانگ چکا تو اسکی طرف پلٹا۔۔ اور حیران رہ گیا۔۔ 

وہ اسے پہچان گیا تھا۔۔ سید سمعان حیدر ایک بار کسی کو دیکھ لے پھر کہاں بھولتا تھا۔۔ وہ اسے دس دن بعد مل رہی تھی لیکن سمعان حیدر کو گاڑی میں کی گٸ اسکی ایک ایک حرکت یاد تھی۔۔  

تم یہاں۔۔ وہ پوچھ رہا تھا۔۔ یہاں کیا کر رہی ہو۔۔ اور کیسے آٸ یہاں۔۔ ؟؟ 

تم کون ہو۔۔۔؟؟ ایش نے ایک بار پھر اپنا سوال دھرایا۔۔ اور یہ تم کیا کر رہے تھے۔۔؟؟نظریں اسکے چہرے پر جمی تھیں۔۔ وہ چھبیس ستاٸیس سالا نوجوان تھا۔۔ چہرے سے عجیب سا نور پھوٹ رہا تھا۔۔

میں ایک انسان ہوں۔۔ وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔۔ اور میں وہی کر رہا تھے جسکے لیۓ ایک انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔۔ 

کس لیۓ پیدا کیا گیا ہے انسان کو۔۔۔؟؟ 

عبادت کیلیۓ۔۔ اللہ پاک نے انسان کو اپنی عبادت کیلیۓ پیدا کیا ہے۔۔ وہ اب صحن سے برآمدے کی طرف جا رہا تھا۔۔ بارش ہلکی ہو گٸ تھی لیکن بند نہیں ہوٸ تھی۔۔

اللہ پاک کون ہے۔۔۔؟؟ وہ بھی پیچھے ہوٸ۔۔ اور وہ ایک جھٹکے سے رکا۔۔ حیرانگی سے اسے دیکھا۔۔

اس کاٸنات کا خالق و مالک۔۔ وہ کہتا آگے بڑھا۔۔ 

لیکن وہ تو God ہے نا۔۔ ایش نے کہا۔۔ 

ہم اسے اللہ پاک کہتے ہیں۔۔ اللہﷻ اسکا نام ہے۔۔ 

مجھ میں تم میں کیا فرق ہے۔۔؟؟ ایش سمجھ نہیں پا رہی تھی۔۔ اس لیۓ وہ سوال کیۓ جا رہی تھی۔۔

میں ایک مسلمان ہوں۔۔ اسکے محبوب مُحَمَّد ﷺ کی امت میں سے۔۔ 
اور تم ایک نان مسلم ہو۔۔ 

مسلم کیا ہوتا ہے۔۔؟؟ ایش نے پھر پوچھا۔۔ 

کمال ہے۔۔ اتنی کتابیں پڑھتی ہیں آپ نے۔۔ اتنے انوکھے کام کرتی ہیں آپ۔۔۔ خود کو بہت زہین سمجھتی ہیں آپ۔۔ اللہ اور مسلمان کو نہیں جانتی۔۔ جاٶ بی بی پہلے خود کا تو پتا کرو کہ کون ہو۔۔ وہ سخت سے لہجے میں کہتا آگے بڑھ گیا۔۔

          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب وہ چاروں بزنس ڈیپارٹمنٹ پہنچے تو ریم انہیں نہیں ملا۔۔ پھر کچھ سٹوڈنٹس سے پوچھنے پر پتا چلا کہ وہ جونيئرز کی ایک کلاس کو کچھ پراجیکٹس کروا رہا ہے۔۔ پانچ منٹ بعد وہ چاروں اسکے سامنے تھے۔۔۔

ایکسیوز می مسٹر رومان شاہ۔۔ ہمیں آپ سے ؟ضروری بات کرنی ہے۔۔ حرم نے کلاس روم کے دروازے پر کھڑے ہو کر اسے پکارہ۔۔

اس آواز کو وہ بنا چہرے دیکھے بھی پہچان سکتا تھا کہ وہ کس کی آواز ہے۔۔ ایک وہ ہی تو تھی پوری یونيورسٹی میں جو اسے پورے نام سے پکارتی تھی۔۔ اسکا ملٹی میڈیا پر اشارے کرتا ہاتھ رکا تھا۔۔ 
سٹوڈنٹس نے چونک کر اسے دیکھا۔۔

وہ پلٹا۔۔ سامنے کھڑی حرم نور کو اس نے دیکھا تھا۔۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ لڑکی کبھی اسکے سامنے نا آۓ۔۔لیکن وہ بار بار سامنے آ جاتی تھی۔۔ 

یس۔۔ وہ کلاس سے ایکسیوز کرتا اسکی طرف بڑھا۔۔

اور پھر کلاس روم سے باہر روتی بیلا کو دیکھ کر وہ ٹھٹکا۔۔ مطلب رون کا پنگا ہے۔۔ وہ سمجھ چکا تھا۔۔ 

اور پھر دس منٹ بعد وہ لوگ اسے سب کچھ بتا چکے تھے۔۔ بیلا کا رونا کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا۔

اوکے میں کرتا ہوں کچھ۔۔ پلیز بیلا روٶ مت۔۔ مجھے روتی لڑکیاں بہت بری لگتی ہیں۔۔ ریم نے بیلا کی طرف دیکھ کر کہا۔۔

رون تو آپ کے پیسے واپس کرے گا نہیں لیکن اگر آپ چاہیں تو میں آپکو آپکی پوری سیلری کے برابر پیسے دینے کو تیار ہوں۔۔ وہ کہہ رہا تھا جبکہ حرم نے چونک کر اسے دیکھا۔۔ 

بےشک بیلا کو اپنی سیلری جانے کا بہت دکھ تھا۔۔ لیکن وہ ریم سے پیسے نہیں لینا چاہتی تھی۔

نہیں مجھے آپ سے پیسے نہیں چاہیۓ۔۔ وہ روتے روتے بولی۔۔ 

تو پھر کیا چاہیۓ مجھ سے۔۔؟؟ وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔۔ بیلا کا دل تو کیا تھا کہ وہ اس سے ایک ڈنر مانگ لے جہاں وہ دونوں ایک ساتھ ہوں اور کوٸ بھی نا ہو۔۔ لیکن وہ کہہ نا سکی۔۔

الٹے سیدھے خواب مت دیکھو۔۔ جلدی بولو۔۔ واصے نے اسے ٹہوکا دیا وہ جیسے اسکی سوچ پڑھ گیا۔۔ بیلا گڑبڑاٸ۔۔

وہ میں نے ہیوی باٸیک لینی تھی لیکن اب نہیں لے سکتی۔۔ آپ ایسا کریں مجھے ایک ساٸیکل لادیں۔۔ بیلا نے کہا۔۔ 

ساٸیکل کا کیا کریں گی آپ۔۔؟؟ 

ہاۓ اتنا نرم لہجہ۔۔ بیلا تو سرشار ہی ہو گٸ۔۔ 

وہ میں عرش اور حرم کو ون وہیلنگ سکھاٶں گی۔۔ بیلا نے جواب دیا۔۔

اور اسکے اس جواب پر حرم گڑبڑاٸ۔۔ وہ جھینپ گٸ تھی۔۔اس نے بیلا کو ایک چونٹی کاٹی۔۔ اسے ریم کے سامنے بیلا سے ایسی بے و قوفی کی توقع نہیں تھی۔۔ 

رومان اسکی یہ حرکت دیکھ چکا تھا۔۔ ایک شرارتی سی مسکراہٹ اسکے لبوں کو چھو گٸ۔۔ بےشک وہ اسے دیکھنے سے گریز کر رہا تھا لیکن اسکی ایک ایک حرکت کو نوٹ بھی کر رہا تھا۔۔

ٹھیک ہے کل آپکو تین ساٸکلز مل جاٸیں گی۔۔ وہ کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔۔ جانتا تھا مزید بیٹھا تو نظریں بھٹک جاٸیں گی۔۔

تین کس لیۓ۔۔ عرش حیران ہوٸ۔۔ 

آپ تینوں کے لیۓ۔۔ بیلا، آپ اور مس نور کیلیۓ۔۔ وہ کبھی اسے حرم نہیں کہتا تھا۔۔ مس نور ہی بلاتا تھا۔۔ مس نور کہنے سے وہ اجنبی لگتا تھا۔۔ اگر حرم کہتا تو اپناٸیت جھلکتی۔۔ لیکن شاید وہ اسے اجنبی ہی رکھنا چاہتا تھا۔۔ اور حرم اسے تو کوٸ فرق ہی نہیں پڑتا تھا۔۔ وہ بس اسکی نیلی آنکھوں کے بارے میں سوچتی تھی کہ وہ کسی سے ملتی ہیں مگر کس سے۔۔۔؟؟

واٶٶٶ۔۔ اب مزہ آۓ گا۔۔ بیلا اچانک خوش ہوگٸ۔۔ ریم ایک نرم دل شہزادہ ہے۔۔

میرا نام بھی کے لیتی تو مجھے بھی ایک ساٸیکل مل جاتی۔۔ واصے نے منہ بنایا۔۔ 

تم میرے والی لے لینا۔۔حرم نے ہنستے ہوۓ کہا۔۔ 

کیا رومان شاہ کے پاس بہت پیسا ہے۔۔۔؟؟ حرم نے عجیب سا سوال کیا تھا۔۔ 

ہاں شاید بہت۔۔ اسکے فادر بہت بڑے بزنس مین تھے۔۔ اب وہ سب کچھ ریم کا ہے۔۔ یونيورسٹی کے بعد وہ خود آفس جاتا ہے۔۔مینیجر کے ساتھ مل کر وہ اپنا بزنس بھی سھنبال رہا ہے۔۔ عرش نے بتایا۔۔

ہممم۔۔ تبھی سٹوڈنٹس کو اتنے مہنگے مہنگے ٹرن گفٹس دیتا ہے۔۔ حرم نے سوچا۔۔

رون اب دو دن یونيورسٹی نہیں آنے والا۔۔ اب دو دن ہم سکون سے گزار سکتے ہیں۔۔

کیوں۔۔ رون کہاں گیا ہے۔۔؟؟ حرم نے پوچھا۔۔

وہ ہر مہینے کے آخر پر جانے کہاں جاتا ہے۔۔ دو دن غاٸب رہتا ہے۔۔شاید یہ ریم بھی نہیں جانتا۔۔ واصے نے کہا اور وہ چاروں اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گۓ۔۔ 

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حرم آج پھر شانو کے ساتھ گھر کے پچھلے حصے میں آگٸ تھی جہاں کل اس نے فرہاد اور روشنی کی کہانی سننا شروع کی تھی۔۔ 

آج موسم خراب ہے۔۔ بارش آنے کے امکان نظر آ رہے ہیں۔۔ شانو نے آسمان کی طرف دیکھا۔۔۔۔

ایسا کرتے ہیں آج کاریڈور میں بیٹھ جاتے ہیں۔۔ گھر کے پیچھے بھی ایک دروازہ تھا جو پچھلے حصے میں کھلتا تھا اور اس دروازے کے آگے ایک چھوٹا سا برآمدہ تھا۔۔ آگ انہوں نے باہر جلاٸ تھی۔۔ جبکہ دونوں اپنی اپنی شالیں لپیٹتی برآمدے میں دو چیٸرز رکھ کر ان پر بیٹھ چکی تھیں۔۔ 

یہاں بارشیں شروع ہوتی ہیں تو دس دن لگاتار ہوتی رہتی ہیں۔۔ روما میں حرم کی پہلی بارش تھی۔۔  

   پھر کیا ہوا تھا شانو۔۔ بلآخر حرم نے بات شروع کی۔ 

ہونا کیا تھا جی شادی تھی اس دن دونوں کی موسم ایسے ہی خراب تھا۔۔ بڑے صاحب کی طبیعت بھی خراب تھی۔۔ نکاح کا وقت روشنی اور اسکی ماں نے آغا ہاٶس کو حق مہر میں مانگ لیا۔۔ سب حیران رہ گۓ تھے۔۔ روشنی بی بی پہلے ہی بہت کچھ اپنے نام کرواچکی تھیں۔۔ بڑے صاحب نے آغا ہاٶس اسکے نام کروانے سے منع کردیا۔۔ برا تو فرہاد بھاٸ کو بھی لگا تھا کیونکہ دن بدن روشنی بی بی کی ڈیمانڈز بڑھتی جارہی تھیں۔۔لیکن انہیں کسی بھی چیز سے زیادہ روشنی بی بی اہم تھیں۔۔ بڑی مشکلوں سے نکاح ہوا۔۔ فرہاد بھاٸ کی آدھی پراپرٹی روشنی بی بی کے نام ہو چکی تھیں۔۔ نکاح کے بعد فرہاد بھاٸ اور بڑے صاحب میں جھگڑا ہو گیا۔۔ کیونکہ بڑے صاحب نے فرہاد بھاٸ سے کہا تھا کہ روشنی انکے لیۓ اچھی لڑکی نہیں ہے۔۔ لیکن فرہاد بھاٸ مزید غصہ ہو گۓ۔۔ 

  نکاح شام کو ہوا تھا رات کو بڑے بھاٸ کی طبیعت خراب ہوگٸ اور وہ بے ہوش ہوگۓ۔ 

انہیں ہاسپٹل لے جایا گیا۔۔ وہاں جا کر پتا چلا کہ بڑے صاحب کو برین ٹیومر ہے۔۔ وہ بھی آخری اسٹیج پر۔۔ انہوں نے یہ راز سب سے چھپایا۔۔ جب فرہاد بھاٸ کو پتاچلا تو وہ بہت روۓ۔۔ بہت پچھتاۓ۔۔ لیکن تب تک دیر ہوچکی تھی۔۔ 

ادھر روشنی بی بی اپنی شادی کی پہلی رات کو یہ سب ڈرامہ دیکھ کر غصے سے پاگل ہوگٸیں۔۔ اس نے ہاسپٹل میں سب کے سامنے فرہاد بھاٸ سے بدتمیزی کی۔۔ بڑے صاحب کو انکی خوشیوں میں کانٹا قرار دیا۔۔ یہ سب سن کر فرہاد بھاٸ کا بڑے صاحب کیلیۓ سویا ہوا پیار جاگ اٹھا۔۔ 

انہوں نے روشنی بی بی کو سب کے سامنے تھپڑ مار دیا۔۔ 

تو روشنی بی بی بھی آپے سے باہر ہو گٸیں۔۔ اس نے فرہاد بھاٸ کے سامنے آپشن رکھے کہ یا تو وہ بڑے صاحب کو چھوڑ دے یا روشنی کو۔۔ 

اور فرہاد نے بڑے صاحب کو چنا۔۔ اس بے روشنی بی بی کو سب کے سامنے ہاسپٹل میں طلاق دے دی۔۔ ابھی انہوں نے ایک بار طلاق دی تھی کہ زیبا بیگم نے آگے بڑھ کر فرہاد کو تپھڑ مارا۔۔ 

یوں شادی کی پہلے دن ہی دونوں کی زندگیاں تباہ ہوگٸیں۔۔
حرم نے افسردگی سے باہر برستی بارش کو دیکھا۔۔ جلتی لکڑیاں بارش پڑنے کی وجہ سے بھیگ کر مکمل بجھ چکی تھیں۔۔ دھواں بھی نا اٹھ سکا۔۔

اور اتنا ہی نہیں اسی رات دو بجے زندگی اور موت کی جنگ لڑتے لڑتے بڑے صاحب زندگی ہار گۓ۔۔ یہ کہتے ہوۓ شانو کی آنکھیں بھیگ گٸیں۔۔۔ 

فرہاد بھاٸ تو جیسے پتھر کے ہوگۓ تھے۔۔ جو خوشی دن میں تھی وہ اب منحوسیت کا روپ دھار چکی تھی۔۔ اتنا ہی نہیں اسی رات فرہاد بھاٸ کے بیسٹ فرینڈ تھے یہاں روما میں انکا انتقال ہوگیا۔۔

اور حرم پھٹی پھٹی نظروں سے شانو کی باتیں سن رہی تھیں۔۔ جو اسکے ہوش اڑا رہی تھیں۔۔ 

فرہاد بھاٸ پورے ٹوٹ چکے تھے۔۔انہیں بالکل بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں۔۔ پھر کچھ دنوں بعد روشنی بی بی کا فون آیا فرہاد بھاٸ کو لیکن انکا وہ پیار جو روشنی بی بی سے تھا انتہا کی نفرت میں بدل گیا۔۔ پھر فرہاد بھاٸ نے باقاعدہ چلاق کے پیپر بجھوادیے روشنی بی بی کو۔۔ 

کیا سب ہادی کے ساتھ ہوا تھا۔۔ حرم حیران تھی۔۔ اسکا دل رونے کو چاہ رہا تھا لیکن یہ کام بارش باخوبی پورا کر رہی تھی۔۔ 

وہ دن اور آج کا دن فرہاد بھاٸ سر سے پاٶں تک پورے کے پورے بدل گۓ۔۔ وہ ہنسنا بھول چکے تھے۔۔ بڑے صاحب کی خواہش پوری کرنے کیلیۓ انہوں نے اپنے میڈیکل کے آخری سال پر پوری توجہ دی۔۔ اور اسی وجہ سے آج وہ نیورواشپیلسٹ بن رہے ہیں۔۔ اب انکے نزدیک انکی فیملی سے زیادہ اہم کوٸ چیز نہیں۔۔ تین سال کا عرصہ بہت ہوتا ہے۔۔ لیکن اب انہیں ہم ہنستا دیکھتے ہیں۔۔ 

وجہ آپ ہیں حرم بھابھی۔۔ شانو نے کہا۔۔ حرم نے چونک کر اسے دیکھا۔۔

ہاں۔۔ آپکی وجہ سے وہ زندگی کی طرف واپس لوٹے ہیں۔۔ آپ انہیں کبھی چھوڑ کر مت جانا پلیز۔۔ آخر میں شانو نے التجا کی۔۔ اور حرم کے اندر کوٸ چیز ڈوب کے ابھری تھی۔۔

فرہاد بھاٸ نے اپنے ماں باپ دونوں کو کھویا ہے۔۔ بےشک زیبا بیگم نے سگی ماں سے بھی زیادہ انہیں پیار کیا ہے۔ لیکن۔۔

کیا مطلب۔۔۔ حرم چونکی۔۔ زیبا مما ہادی کی سگی ماں نہیں ہے کیا۔۔؟؟ شانو نے ایک اور دھماکہ کیا۔۔ 

نہیں۔۔ انکی ماں تو جب وہ ایک دو سال کے تھے تبھی چل بسی تھیں۔۔ شانو کہہ رہی تھی جبکہ حرم پھٹی پھٹی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ 

زیبا بیگم تو بڑے صاحب کی بہت اچھی دوست تھیں۔۔ اور وہ آپس میں کزنز بھی تھے۔۔ سب کے اصرار پر بڑے صاحب نے زیبا بیگم سے نکاح کرلیا۔۔ 

اس وقت سجاد بھاٸ آٹھ نو سال کے تھے اور فرہاد بھاٸ دو سال کے۔۔ بڑے صاحب کے زیبا بیگم سے نکاح کے تین سال بعد عالیہ پیدا ہوٸیں۔۔ وہ فرہاد بھاٸ سے پانچ سال چھوٹی ہیں۔۔ لیکن جان بستی ہے دونوں کی ایک دوسرے میں۔۔ زیبا بیگم اس گھر کیلیۓ مثالی بہو اور ماں ثابت ہوٸیں تھی۔۔ شانو بتا رہی تھی لیکن حرم میں اور کچھ سننے کی ہمت نہیں رہی تھی۔۔ 

شام اب رات میں بدل رہی تھی۔۔فرہاد ابھی تک گھر نہیں آیا تھا۔ 

میرے سر میں درد ہو رہا ہےشانو۔۔ میں سونے جا رہی ہوں۔۔ ہادی آٸیں تو انہیں بتادینا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں۔۔ وہ کہتے ہوۓ اٹھ کھڑی ہوٸ۔۔ تبھی ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اس سے ٹکرایا تھا لیکن وہ بھی اسکے اندر جلنے والی آگ کو بجھا نا پایا تھا۔۔ 

کیسے کیسے انکشاف تھے جو آج فرہاد کے بارے میں اس بے سنے تھے۔۔ 

اتنا درد۔۔ ہادی اتنا درد آپ اپنے اندر لیۓ گھومتے ہیں۔۔ اور مجھے کبھی محسوس بھی نہیں ہونے دیا۔۔ کیوں۔۔ کیوں چھپایا آپ نے مجھ سے یہ سب۔۔ وہ اپنے کمرے میں آکر دروازہ بند کرنے کے بعد بیڈ پر لیٹے اب تصور میں فرہاد سے شکوہ کر رہی تھی۔۔ 

آپ نے اچھا نہیں کیا ہادی۔۔ مجھ سے شیٸر نہیں کیا۔۔ اتنی تکلیف لے کر آپ جیتے کیسے ہیں۔۔ وہ جب تھک چکی تو پھوٹ پھوٹ کر رودی۔۔ 

حرم کو بارشیں نہیں پسند تھیں۔۔یہ ہمیشہ ہی اسکے لیۓ اداسی کا پیغام لاتی تھیں۔۔ اور آج پھر اس بارش نے اسے اداس کر دیا تھا۔۔

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس رات ایش سو نہیں پاٸ۔۔ وہ بڑی مشکلوں کے ساتھ راٸل پیلس تک واپس پہنچی تھی۔۔اسکا زہن بھٹک چکا تھا۔۔ بھیگے کپڑوں کے ساتھ جب وہ گھر پہنچی تو مسز ولیم نے اسے خوب ڈانٹا لیکن آج وہ آگے سے بولی نہیں تھی۔۔ اسکا زہن بس سمعان حیدر کی باتوں میں اٹکا تھا۔۔ 

یہ کونسا مزہب ہے جسکے بارے میں مجھے نہیں پتا۔۔ یہ کونسا دین ہے جس میں اتنی اٹریکشن ہے کہ ایک شخص ایک گھنٹے تک تیز برستی بارش میں اپنے خدا کی عبادت میں اس قدر مشغول تھا کہ اپنے ارد گرد کی ہر چیز بھلا چکا تھا۔۔

ایش کا سرکل ایسا تھا جیسا کوٸ مسلمان نہیں تھا۔۔ اس نے تو آج پہلی بار اس مزہب کا نام سنا تھا۔۔ اسکے پیروکار کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔ اور وہی چیز اسے بے چین کیۓ جارہی تھی۔۔ 

وہ کسی چیز کو نہیں چھوڑتی تھی۔۔ پھر اللہ کی زات اس سے مخفی کیسے رہ گٸ تھی۔۔؟؟ وہ سوچ رہی تھی۔۔ 

پھر وہ اپنے بستر سے اٹھی اپنے سولہویں صدی کے کمرے سے اکسویں صدی کے کمرے میں گٸ ۔۔ وہاں سے لیپ ٹاپ اٹھا کر واپس اسی کمرے میں آٸ۔۔ پھر وہ نیٹ آن کیۓ اسلام کے بارے میں سرچ کر رہی تھی۔۔ 

اور اسکی وہ پوری روت ایسے ہی گزر گٸ۔۔ جانے کیسی اٹریکشن تھی وہ بس اس مزہب کے بارے میں لکھی ہر بات پڑھتی جا رہی تھی۔۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 میں نے کہا تھا نا تمہارے وظیفہ پورا ہونے سے پہلے وہ تم سے آ ملے گی۔۔ بابا جی نے کہا۔۔اور سمعان نے چونک کر انہیں دیکھا۔۔

آج تمہارے وظیفے کا آخری دن تھا اور وہ خود تم تک پہنچ گٸ۔۔

اب کس کی بات کر رہے ہیں بابا۔۔ سمعان کے دل کی دھڑکن تیز ہوٸ تھی۔۔ 

وہی لڑکی۔۔ جو آج آٸ تھی۔۔ 

ایش ولیم۔۔ سمعان حیدر کی آنکھوں میں اسکا بھیگا بھیگا سراپا گھوم گیا۔۔ اسکی سبز آنکھوں میں سمعان کو گہری حیرت نظر آٸ تھی۔۔

نہیں بابا جان۔۔ وہ نہیں ہو سکتی۔۔ وہ کیسے۔۔؟؟ وہ ہو نہیں سکتی۔۔ سمعان نے ماننے سے انکار کیا۔۔

کیوں نہیں ہو سکتی۔۔؟؟

کیونکہ وہ ایک یہودن ہے۔۔ سمعان نے کہا۔۔

تو کیا ہوا۔۔؟؟

مجھے ایک یہودن اپنے لاٸف پارٹنر کے طور پر قطعی منظور نہیں۔۔

ہممم۔۔۔ بابا ہلکا سا مسکراۓ۔۔ تم اور میں کون ہوتے ہیں خداٸ کاموں میں دخل دینے والے۔۔

وہ مجھ سے ملی۔۔ یہاں تک آٸ وہ ایک حادثہ تھا بابا۔۔ سمعان نے بے بسی سے کہا۔۔ 

کوٸ حادثے نہیں ہوتے۔۔ ہر چیز کے پیچھے وجہ ہوتی ہے۔۔ اور جہاں تک بات ہے اسکے یہودی ہونے کی تو جو خدا اسے اپنے گھر تک لا سکتا ہے۔۔ وہ اسے اپنی زات سے بھی روشناس کروادے گا۔۔ بابا جی مسکرا کر کہا۔۔ 

اور سمعان حیدر صرف دیکھ کر رہ گیا۔۔ اسکا زہن کسی گہری سوچ کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔
         ❤❤❤❤❤

─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─