┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 29
پارٹ 1

کبھی کوٸ راہنما ملا ہے کیا۔۔۔؟؟وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔۔

نہیں۔۔ وہ نا میں سر ہلا چکی تھی۔۔ 

اگر کوٸ راہنما مل جاۓ تو اسکا ہاتھ تھام لینا۔۔ چھوڑنا مت۔۔ وہ تمہیں کبھی بھٹکنے نہیں دے گا۔۔ جنت کو جانے والے راستوں پر لے جاۓ گا۔۔اور وہاں بھی جہاں تمہارا ہمسفر کھڑا ہے۔۔

 وہ درویش کہہ کر آگے بڑھ گیا۔۔

رکیں پلیز۔۔ بات سنیں۔۔ وہ اسکے پیچھے بھاگی تھی لیکن وہ رکا نہیں۔۔ 

پھر سب کچھ گڈ مڈ ہونے لگا۔۔ یونيورسٹی۔۔ شور۔۔ رون۔۔ ریم۔۔ سب اسے نظر آرہے تھے۔۔ اور پھر دور وہ کھڑی نظر آٸ۔۔ اچانک وہ پلٹی تھی۔۔ معصوم خوبصورت۔۔ حجاب میں لپٹا۔ مسکراتا چہرہ۔۔ 

وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔ کچھ دیر اسے اپنے حواس بہال کرنے میں لگی۔۔ یہ خواب اسے ایک تواتر سے آرہا تھا۔۔ بلکہ یہ خواب نہیں تھا ایک حقیقت تھی۔۔ کچھ مہینے پہلے ٹریوی فاٶنٹین پر جب وہ وش کرنے گٸ تھی تب اسے وہ درویش ملا تھا جس نے اس سے یہ سب کہا تھا۔۔ اور وہ تب سے لے کر آج تک اس سین کو روز خواب میں دیکھتی تھی۔۔ 

لیکن آج عجیب ہوا تھا۔۔ آج اسے حرم نظر آٸ تھی۔۔ ہاں وہ حرم نور ہی تھی۔۔ پر کیوں۔۔ وہ کیوں نظر آٸ مجھے۔۔؟؟ زی سوچتے ہوۓ بیڈ سے نیچے اتر آٸ۔۔ 

ساٸیڈ ٹیبل پر رکھا پانی کا گلاس اٹھا کر پانی پیا۔۔ باہر لاٶنج سے اسے آنی اور ریم کی ہنسے کی آوازیں آ رہیں تھیں۔۔ 

اس نے کمرے کا دروازہ کھول کر دیکھا۔۔ 

ریم کوٸ ویڈیو دکھا رہا تھا آنی جو موبائل پر۔۔ اور خود ہنس ہنس کر پاگل ہو رہا تھا۔۔ ہنس تو آنی بھی رہی تھیں۔۔ 

میں نے کہا تھا آپ سے آنی کہ حرم نور تھوڑی الگ ہے۔۔وہ کہہ رہا تھا۔۔ 

زی اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ کونسی ویڈیو ہے۔۔

اس لڑکی نے تو یونيورسٹی میں کافی رونق لگا دی ہے۔۔آنی نے ہنستے ہوۓ کہا۔۔ 

اور زی نے غصے سے دروازہ بند کر لیا۔۔ ناجانے کیوں آنی اور ریم کے منہ سے اسے حرم کا ذکر اچھا نہیں لگا تھا۔۔ 

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ دونوں گھر کے پچھلے حصے میں لڑکیوں سے آگ جلاۓ اسکے گرد بیٹھیں تھیں۔۔ 

حرم ابھی تک گہرے شاک سے زیرِ اثر تھی۔۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ فرہاد آغا کی زندگی میں پہلےکوٸ اور لڑکی بھی ہو سکتی تھی۔۔

فرہاد بھاٸ ایسے نہیں تھے جیسے وہ اب ہیں۔۔ وہ تین سال پہلے بدل گۓ تھے۔۔ جب انکے ابو کی وفات ہوٸ تھی جی۔۔ شانو نے کہنا شروع کیا۔۔ 

حرم اپنی شال اپنے گرد لپیٹےتوجہ سے اسے سن رہی تھی۔۔

فرہاد بھاٸ بہت زندہ دل انسان تھے۔۔ بہت ضدی بھی۔۔ بس اپنی مرضی کرنے والے۔۔ کسی کی نہیں سنتے تھے۔۔ انہیں خوبصورت لڑکیاں بہت پسند تھیں۔۔۔ وہ ڈاکٹر نہیں بننا چاہتا تھے۔۔ لیکن یہ بڑے صاحب کا خواب تھا کہ وہ ڈاکٹر بنیں۔۔ اور انکے نواہی گاٶں حیدر آباد میں ہاسپٹل بنا کر وہاں کے لوگوں کو مفت علاج کریں۔۔لیکن نہیں۔۔ وہ بڑے صاحب کے کہنے پر اس فیلڈ میں آ تو گۓ تھے لیکن وہ سیریس نہیں تھے۔۔ دوستوں کے سارتھ گھومنا پھرنا۔۔ پارٹیز کرنا۔۔کلب جانا۔۔ یہ سب انکے مشاغل تھے۔۔ 
اور پھر۔۔ 

پھر کیا ہوا۔۔۔؟؟ حرم نے پوچھا۔۔

پھر انکی لاٸف میں روشنی میڈم آٸیں۔۔ وہ میڈیکل کے تھرڈ اٸیر میں تھے جب وہ ماٸگریشن کروا کر فرہاد بھاٸ کے کالج میں آٸیں تھیں۔۔ 

خوبصورت تھیں۔۔ماڈرن تھیں۔۔لڑکوں کو اٹریکٹ کرنے کا ہنر آتا تھا انہیں۔۔ باقی لڑکوں کی طرح فرہاد بھاٸ کو بھی وہ پسند آگٸیں۔۔ 
اور روشنی بی بی نے بھی باقی سب کو چھوڑ کر فرہاد بھاٸ کا چنا۔۔ وجہ انکا سٹرونگ بیک گراؤنڈ اور انکی وجاہت تھی۔۔

رفتہ رفتہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آنے لگے۔۔ وہ انہیں فادی بلاتیں تھیں۔۔ سارے کالج میں بس انکے چرچے ہوتے تھے۔۔ انہیں پرفیکٹ کپل مانا جانے لگا۔۔ 

پھر۔۔

پھر فرہاد بھاٸ نے اپنے گھر والوں سے شادی کا کہا۔۔سب حیران ہوۓ کہ اتنی جلدی شادی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔۔ تین سال پہلے وہ باٸیس سال کے تھے۔۔ اتنی چھوٹی عمر میں شادی کسی کو بھی منظور نہیں تھی۔۔ 

سب نے بہت سمجھایا کہ ابھی اسے اپنی سٹڈی پر فوکس کرنا چاہیۓ۔۔ لیکن وہ نہیں مانے۔۔ 

بڑے صاحب اور انکی لڑاٸ ہوگٸ۔۔ فرہاد بھاٸ گھر چھوڑ کر چلے گۓ۔۔ 

حرم کو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ یہ سب فرہاد کے بارے میں سن رہی ہے۔۔ جو اس کے سامنے ہے وہ کوٸ اور فرہاد ہے اور جسکے بارے میں شانو بتا رہی ہے۔۔ یہ تو کوٸ اور ہی لگ رہا تھا۔۔ 

ہادی ایسے بھی تھے۔۔۔؟؟ حرم کو یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا۔۔

سب اسے منانے گۓ باری باری۔۔ سب نے اسے بہت سمجھایا۔۔ لیکن ان ہر روشنی کا پیار سوار تھا۔۔ وہ نہیں مانے۔۔ مجبوراً سب کو اسکے سامنے جھکنا پڑا۔۔ 

پھر۔۔ حرم نے پوچھا۔۔

ہھر جی دونوں کی شادی کا اعلان کر دیا۔۔ میڈیکل کے لاسٹ اٸیر میں تھے وہ دونوں جب کی انکی شادی تھی۔۔ 

جیسے جیسے شادی کے دم نزدیک آرہے تھے روشنی بی بی بدلتی جارہی تھیں۔۔ وہ میڈیکل فیلڈ کو چھوڑنا چاہتیں تھیں۔۔ 

اور پھر وہ دن بھی آگیا جب انکی شادی تھی۔۔ 

تبھی انہیں پورچ میں گاڑی رکنے کی آواز آٸ۔۔ لکڑیاں جل کر اب کوٸلے کی شکل اختیار کر گٸ تھیں۔۔ لیکن اب کوٸلے جل رہے تھے۔۔بجھے نہیں تھے وہ۔۔ 

لگتا ہے ہادی آگۓ ہیں۔۔حرم سب آج ہی جاننا اور سننا چاہتی تھی لیکن اب ممکن نہیں تھا۔۔

باقی کل سنانا۔۔ وہ کہتی ہوٸ اٹھ کھڑی ہوٸ۔۔ 

ٹھیک ہے۔۔ شانو نے مسکرا کر کہا۔۔ 

حرم ۔۔ کہاں ہو۔۔۔؟؟ فرہاد نے لاٶنج میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے اسےپکارے تھے۔۔ 

ادھر ہی ہوں۔۔ آواز سے پیچھے سے آٸ تھی۔۔ 

فرہاد نے مڑ کر دیکھا تو وہ دروازے میں کھڑی تھی۔۔ کچھ عجیب نظروں سے اسے دیکھتی ہوٸ۔۔ فرہاد چونکا تھا۔۔

کیا یہ وہ شخص ہے۔۔ حرم نے اپنے سامنے کھڑے ڈیسنٹ شخص کو دیکھا جسکی Personality بہت سٹرونگ تھی۔۔ کہیں بھی آوارہ پن نہیں جھلکتا تھا۔۔ جیسے کہ تین سال پہلے تھا۔۔

کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہی ہو۔ ۔۔ ؟؟ وہ چلتا ہوا اسکے پاس آیا۔۔ 

کچھ نہیں۔۔ حرم نے آہستہ سے کہا۔۔ اس شخص نے سب سے اہم پہلو چھپایا تھا اپنی زندگی کا۔۔ وہ بھی اس لڑکی سے جسے وہ اپنی بیسٹ فرینڈ کہتا تھا۔۔

  پھر یوں اتنی خاموشی سے کیوں دیکھ رہی ہو مجھے۔۔۔؟؟ وہ پوچھ رہا تھا۔ 

ویسے ہی۔۔ آج آپ لیٹ ہوگۓ۔۔ وہ زبردستی مسکراٸ۔۔ 

ہمم ایمرجنسی کیسسز تھے۔۔ فرہاد نے کہا۔۔

ٹھیک ہے آپ فریش ہو جاٸیں پھر کھانا کھاتے ہیں۔۔ مجھے بھی کافی بھوک لگی ہے۔۔ میں کھانا لگواتی ہوں۔۔ وہ کہتے ہوۓ آگے بڑھ گٸ۔۔ 

فرہاد کو عجیب لگ رہا تھا۔۔حرم کا بجھا بجھا چہرہ کچھ غلط ہونے کا اشارہ دے رہا تھا اسے۔۔ پھر وہ بھی سر جھٹک کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔

         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیلا بہت خوش تھی۔۔ اور وہ اسی خوشی کے ساتھ یونيورسٹی جانے سے پہلےریسٹورینٹ آٸ تھی۔۔ کل وہ اپنی پہلی سیلری نہیں لے پاٸ تھی۔۔ اس لیۓ آج صبح ٰصبح آگٸ۔۔ 

وہ مسکراتے ہوۓ مینیجر کے پاس گٸ۔۔ اور اس سے اپنی سیلری کی ڈیمانڈ کی۔۔ 

لیکن مینیجر نے جو خبر اسے سناٸ اسے سن کر بیلا کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا۔۔ 
اسے لگ رہا تھا کہ اسے ہارٹ اٹیک ہونے والا ہے۔۔ وہ شل قدموں سے چلتے ہوۓ ریسٹورینٹ سے باہر آٸ۔۔ 

رون ن ن ن ن ن ن ن ن ن۔۔۔ وہ پوری وقت سے چلاٸ تھی۔۔ آس پاس سے گزرنے والے لوگوں نے حیرانگی سے اسے دیکھا تھا۔۔غصے اور دکھ کی زیادتی کی وجہ سے اسکا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔۔ 

     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 آج انکا لیکچر فری تھا۔۔ وہ واصے اور عرش کے ساتھ یونيورسٹی کے گارڈن میں بیٹھی تھی۔۔ 

بیلا نہیں آٸ ابھی تک۔۔ ؟؟ وہ اسی کا انتظار کر رہے تھے۔۔ کیونکہ آج لنچ اسکی طرف سے تھا۔۔

کچھ دیر بعد انہیں ایک شور سنائی دیا۔۔ 

رون منحوس کہاں ہو تم۔۔۔؟؟ ایک طرف سے انہیں بیلا رونے کے ساتھ ساتھ چلاتے ہوۓ اپنی طرف آتی نظر آٸ تھی۔۔ 

تم مر جاٶ۔۔ رون۔۔ تمہارا ایکسیڈینٹ ہو جاۓ۔۔ وہ بد دعائيں دے رہی تھی۔ وہ تینوں اسکی طرف لپکے۔۔ بیلا کے پیچھے سینکڑوں سٹوڈنٹس تھے۔۔

رون کا نام سن کر سب متوجہ ہوۓ تھے۔۔ یعنی کہ ایک نیا کارنامہ سر انجام دے چکا ہے وہ۔۔ 

کیاہوا بیلا۔۔ ؟؟ رو کیوں رہی ہو۔۔ ؟؟ واصے نے اس سے پوچھا۔

کہاں ہے رون۔۔ میں آج اسکا مڈر کردونگی۔۔ بیلا نے اپنے بیگ سے چھری نکالی۔۔۔ جو وہ ریسٹورینٹ سے اٹھا کر لاٸ تھی۔۔۔ 

 ہوا کیا ہے کچھ بتاٶ تو۔۔؟؟ عرش نے پوچھا۔۔ 

رون باہر نکلو۔۔ میں تمہیں مار ڈالوں گی۔۔وہ چلائی تھی۔۔ 

ابھی کوٸ ایسا انسان پیدا نہیں ہوا جو مجھے رون دی ڈون کو مار سکے۔۔ 

کمینے۔۔ منحوس۔۔ بھوکے۔۔ تم مرو گے آج۔۔ میری ساری سیلری کھا گۓ۔۔ بیلا اپنا بیگ وہیں گرا کر اسکے پیچھے چھری لے کر بھاگی۔۔

ہاہاہاہاہا آ جاٶ۔۔۔ رون نے دھوڑ لگاٸ۔۔ وہ بیلا کو یونيورسٹی کی سیر کروانے والا تھا۔۔ 

بیلا رکو۔۔واصے۔۔عرش اور حرم بھی اسکے پیچھے بھاگے۔۔ 

ہوا کچھ ہوں تھا کہ جیسے ہی رون کو بیلا کی جاب کا پتا چلا تھا وہ اسکے ریسٹورینٹ ٹپک پڑا۔۔ ویٹر سے اس نے کہا بیلا اسے جانتی ہے۔۔۔ کافی پی اور بل نہیں دیا۔۔ رون نے کہا کہ بل بیلا کے کھاتے میں لکھ کیا جاۓ۔۔اور اسکی سیلری سے پیسے کاٹ لیۓ جاٸیں۔۔ 

ویٹر نے حیران ہو کر بیلا کو دیکھا تھا۔۔ بیلا مسکرادی تھی۔۔ مطلب وہ رون کو جانتی تھی۔۔ لیکن وہ تو صرف اس لیۓ مسکراٸ تھی کہ رون پھر کوٸ نیا پنگا نا ڈال دے۔۔ لیکن اسے کیا پتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔۔پھر رون روز آنے لگا۔۔ لنچ کرتا اوربنا کچھ غلط کیۓ مسکراتا ہوا چلا جاتا۔۔ 
پھر وہ اپنے دوستوں کو ساتھ لانے لگ گیا۔۔ اور پھر آہستہ آہستہ یونيورسٹی کے غریب ترین سٹوڈنٹس کو بھی۔۔۔ یوں وہ پورا مہینہ لگا تار آیا اور بل بیلا کی سیلری سے کاٹنے کا کہتا رہا۔۔ ویٹر جب بل مانگتا تو رون بیلا کی طرف اشارہ کر دیتا تھا۔۔اوربیلا مسکرا دیتی۔۔ بس پھر کیا۔۔ ساری سیلری وہ کھا چکا تھا۔۔ جب بیلا نے مینیجر سے سیلری کا کہا تو اس نے وہ بل بیلا کے سامنے کر دیۓ۔۔ جو رون نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر لنچ کیۓ تھے۔۔ 

وہ تو شاکڈ رہ گٸ تھی۔۔ اور اب وہ انتہائی غصے میں تھی۔۔ یعنی آج رون کا مڈر پکا تھا۔۔

         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتنی تیز بارش ہو رہی تھی کہ بارش کی بوندیں پتھر کی طرح لگ رہی تھیں اسے۔۔ پولیس کے ساٸرن کی آواز گونج رہی تھی۔۔ اور وہ فل اسپیڈ سے بھاگ رہی تھی۔۔ اندھیرا ہونے کی وجہ سے راستے میں پڑے ہوۓ کسی پتھر سے ٹکراٸ تھی وہ۔۔ اور گرتے گرتے بچی۔۔ 

بھاگو ایش۔۔ اگر آج تمہیں پولیس نے پکڑ لیا تو خیر نہیں۔۔ وہ گلیوں میں سے بھاگ رہی تھی۔۔ بارش کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں میں دبکے پڑے تھے۔۔

ہوا کچھ یوں تھا کہ باکسنگ کلاسز میں اسکی دو لڑکوں سے ان بن تھی۔۔ دونوں انتہا کے آوارہ تھے۔۔ ایش کو ان سے بہت الرجی تھی۔۔ باکسنگ کے دوران وہ ایک دوسرے کو جان بوجھ کر مارتے تھے۔۔ وہ دو تھے اور ایش اکیلی۔۔ کوچ نے نوٹ کرلیا تھا کہ وہ پریکٹس نہیں کرتے بلکہ سچ میں ایک دوسرے کو مار رہے ہوتے ہیں۔۔ کوچ نے انہیں وارن بھی کیا تھا لیکن وہ لڑکے باز نہیں آۓ۔۔ جان بوجھ کر ان میں ایک لڑکا پریکٹس کے دوران ایش کو ہٹ کرتا تھا۔۔ پہلے تو ایش نے برداشت کیا لیکن جب وہ نہیں سدھرے تو وہ بھی کسی کا ادھار نہیں رکھتی۔ اتنی زور سے اس لڑکے کے ناک پر پنچ مارا تھا ہڈی تو ٹوٹ ہی گٸ ہوگی۔۔ 

کوچ نے اسے کافی ڈانٹا تھا حالانکہ ساری غلطی اسکی نہیں تھی۔۔وہ بہت خراب موڈ میں اکیڈمی سے باہر نکلی تھی۔۔ اور پھر اپنے سٹوڈیو چلی گٸ۔۔ 

رات کو گھر جانے سے پہلے وہ کوچ سے سوری کرنا چاہتی تھی۔۔ تبھی وہ دوبارہ اکیڈمی آٸ تھی لیکن جو اس بے اکیڈمی کے باہر دیکھا اس نے اسکا غصہ مزید بڑھا دیا تھا۔۔

اس نے دیکھا کہ وہ دونوں لڑکے ایک لڑکی کا راستے روکے کھڑے تھے۔۔۔ موسم خراب ہونے کی وجہ بارش پھر شروع ہو گٸ تھی لیکن ابھی ہلکی تھی۔۔ ایش نے انہیں اندھیرے میں بھی پہچان لیا تھا۔۔ 

اب وہ اس لڑکی کو اٹھا کر زبردستی گاڑی میں ڈال لے رہے تھے۔۔۔ وہ لڑکی مدد کیلیۓ چلا رہی تھی۔۔ کچھ لوگ وہاں سے گزر رہے تھےمگر کوٸ بھی آگے نہیں بڑھا۔۔

ایش غصے سے آگے بڑھی اور اپنا بھاری وزنی بیگ گھما کر اس لڑکے کو مارا جس نے لڑکی کو پکڑ رکھا تھا۔۔بیگ اسکے سر کے پچھلے حصے میں لگا تھا اور ایک چینخ مارنے کے بعد زمین بوس ہو چکا تھا۔۔ 

تم جاٶ۔۔ بھاگو یہاں سے۔۔ ایش نے لڑکی سے کہا۔۔ 

جبکہ دوسرا لڑکا ایش کی طرف بڑھا تھا۔۔ وہ ایش کو منہ پر مکا مارنے والا تھا تبھی وہ گھوم گٸ اور اپنا کنگ فو جو نیا نیا سیکھ رہی تھی اسکے دو تین شاندار مظاہرے دوسرے لڑکے کو دکھا چکی تھی۔۔ تبھی اچانک پولیس کے ساٸرن کی آواز ابھری۔۔ کسی نےپولس کو کال کردی تھی۔۔ 

ایش نے ایک گلی میں دھوڑلگا دی۔۔ وہ پولیس کے معاملے میں نہیں گھسنا چاہتی تھی۔۔ لیکن پولیس والوں نے شاید اسے ہی قصوروار سمجھ لیا تھا اور گاڑی اسکے پیچھے لگا دی۔۔

بے وقوف ۔۔۔ انہیں اتنا نہیں پتا کہ میری غلطی نہیں ہے۔۔ وہ بھاگ بھاگ کر تھک چکی تھی۔۔ اوپر سے بارش بھی۔۔ 

اچانک اسے ایک دروازہ کھلا نظر آیا تھا۔۔ جسکے اوپر کچھ لکھا تھا لیکن وہ کسی اور زبان میں تھا۔۔ایش کو سمجھ نہیں آٸ۔۔ اور وہ فورا ً اندر داخل ہوگٸ۔۔ اندر داخل ہونے کے بعد وہ دروازہ بند کر چکی تھی اور دروازے کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو چکی تھی۔۔ پولیس کی گاڑی پاس میں ہی تھی کہیں۔۔ پھر اسکے ساٸرن کی آواز کم ہونا شروع ہوٸ۔۔ اب بالکل مدھم ہو چکی تھی۔۔ اسکا مطلب گاڑی وہیں سے گزر چکی تھی۔۔ 

ایش کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔۔ وہ واپس جانا چاہتی تھی کہ اچانک اسکی نظر اس گھر کے صحن میں پڑی۔۔ بارش ابھی بھی ہو رہی تھی۔۔ وہ کچھ عجیب سا منظر تھا۔۔ وہ بلا ارادہ صحن کی طرف بڑھی۔۔ 

ایک شخص سفید رنگ کے کپڑے پہنے اتنی بارش میں ننگے پاٶں صحن کے بیچوں بیچ کسی روبوٹ کی طرح سیدھا کھڑا تھا اور اسکی نظریں سامنے زمین پر جمی تھیں۔۔ 

پورے پانچ منٹ وہ ایسے ہی کھڑا رہا۔۔ پھر وہ جھکا۔۔ دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھ کر۔۔ پورے پانچ منٹ بعد وہ پھر سیدھا ہوا۔۔ اور پھر وہ نیچے ہوا اور زمین پر جھکا۔۔ سر زمین پر رکھ چکا تھا۔۔

ٕیہ کون ہے اور کیا کر رہا ہے۔۔ ایش حیران ہوٸ۔۔ اس نے اپنی زندگی میں پہلے ایسا کوٸ منظر نہیں دیکھا تھا۔۔ 

عجیب سی کشش تھی۔۔ وہ دیکھے جا رہی تھی۔۔ اسکے قدم رک چکے تھے۔۔ 
 

اتنی تیز بارش اور اتنی ٹھنڈ میں کوٸ ایسے کیسے کر سکتا ہے۔۔ کیا یہ کوٸ عبادت کر رہا ہے۔۔ وہ ذہین تھی فوراً سمجھ گٸ۔۔ لیکن کونسی عبادت۔۔ ؟؟ وہ یہ نہیں جانتی تھی۔۔ 

اور اتنی رات کو صرف ایک در ہے جو ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔۔اور وہ ہے اللہ پاک کا گھر۔۔ اسکے در کا دروازہ ہمیشہ ہر ایک کیلیۓ کھلا رہتا ہے۔۔ اور یہ ایک چھوٹی سی مسجد تھی۔۔ اور وہ شخص نوافل میں مشغول تھا۔۔ 

کوٸ ایسے عبادت کیسے کر سکتا ہے۔۔ وہ حیران تھی۔۔ اسکے سفید کپڑے رات کی سیاہی کو اپنے آس پاس سے مٹا رہے تھے۔۔ 

اچانک بجلی کی چمک کے ساتھ بادل اتنی زور سے گرجے کے ایش کو اپنی چینخ روکنے کے لیۓ اپنے منہ پر ہاتھ رکھنا پڑا۔۔

لیکن اس شخص کے وجود میں کوٸ حرکت نہیں ہوٸ۔۔ اتنی ٹھنڈ اور بارش بھی اسے اسکی عبادت سے روک نہیں پا رہی تھی۔۔ 

اور یہی وہ لمحہ تھا جب ایش پتھر کی ہوٸ۔۔ یہی وہ منظر تھا جسکے لیۓ وہ بھٹکتی پھرتی تھی۔۔ جسے وہ ڈھونڈتی تھی یہی وہ یقین تھا ۔۔ اسکے قدم پتھر کے ہوۓ۔۔ یہی وہ جگہ تھی جس نے اسکےبھاگتے قدموں کو جکڑ دیا۔۔ یہی وہ انوکھی جگہ تھی جسے وہ دیکھنا چاہتی تھی۔۔ شاید اسی چیز کی اسے تلاش تھی۔۔ ہر انسان کی زندگی میں ایک ایسا لمحہ ضرور آتا ہے جس میں وہ ہمیشہ کیلیۓ قید ہو کر رہ جاتا ہے۔۔ اور ایش کی زندگی میں یہی وہ لمحہ تھا۔۔وہ خود نہیں جانتی تھی کہ وہ خود کب سے بارش میں کھڑی بھیگ رہی ہے۔۔ وہ ایک ٹرانس کے زیرِ اثر تھی۔۔

بجلی ایک بار پھر چمکی اور وہ شخص روشنی میں نہا گیا۔۔

یہ تو وہی ٹیکسی ڈراٸیور ہے۔۔ وہ چونکی۔۔ ایک خواب تھا جس سے وہ بیدار ہوٸ تھی۔۔

         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رون تمہیں کیڑے پڑیں۔۔ تمہارا ایکسڈینٹ ہو جاۓ۔۔۔ تمہارے ہاتھ ٹوٹ جاٸیں جس سے تم نے میری سیلری سے کھانا کھایا تھا۔۔ تمہارے سارے دانت ٹوٹ جاٸیں۔۔ تمہاری آنتیں باہر نکل آٸیں۔۔۔ میں تمہیں شراپ دیتی ہوں رون۔۔۔ 

وہ لوگ رون کے پیچھے بھاگ بھاگ کر تھک چکے لیکن وہ پتا نہیں اچانک جن کی طرح غائب ہو چکا تھا۔۔ 

بیلا اب بیٹھی رونے کے ساتھ ساتھ اسے بددعاٶں سے نواز رہی تھی۔۔ 

اور حرم جو سوچ رہی تھی کہ کچھ دنوں سے روما میں سکون ہے رون نے کچھ غلط نہیں کیا۔۔ لیکن انہیں کیا پتا تھا کہ یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ تھی۔۔ 

رون دی ڈون نے اپنے ڈون ہونے کا ثبوت دے دیا تھا۔۔ وہ بنا کچھ کیۓ بیلا کی ایک مہینے کی سیلری ہڑپ کر چکا تھا۔۔ شیطانی دماغ۔۔

میں نے ہیوی باٸیک لینی تھی۔۔ میں نے اتنا کچھ کرنا تھا۔۔ وہ بے طرح سے رو رہی تھی جبکہ واصے اسے ٹشو پیپر نکال نکال کر دے رہا تھا۔۔ پورا ڈبہ ختم ہو چکا تھا۔۔ 

یہ تو بہت ہی برا ہوا۔۔ رون نے تو واقعی حد کردی۔۔ عرش کو غصہ آیا ہوا تھا۔ کسی کی محنت کی کماٸ وہ کیسے ہڑپ کر گیا۔۔ 

ہمیں ریم سے بات کرنی چاہیۓ۔۔ شاید وہ کچھ ہیلپ کردے ہماری۔۔ حرم نے کہا۔۔

ہاں یہ ٹھیک ہے صرف ایک وہی رون سے ٹکر لے سکتا ہے۔۔واصے نے کہا اور پھر وہ چاروں بزنس ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گۓ۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔
       ❤❤❤❤❤❤
  ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─