┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄
ناول: لو_مان_لیا_ہم_نے
از: فاطمہ_خان
قسط_نمبر_12
"ہاں جوان کیا خبر ہے کب تک خوشخبری سنانے والے ہوں"
فون کے دوسری طرح موجود افسر نے عزم سے پوچھا
"جلد ہی سر مجھے میرے مقصد میں کامیابی ملنے والی ہے میں اب ٹارکٹ کے بہت قریب ہوں "
جوان نے عقیدت سے جواب دیا
"شاباش میرے بچے مجھے تم سے یہی امید تھی تم مجھے کبھی مایوس نہیں کروں گے مجھے اس اچھے وقت کا بے چینی سے انتظار رہے گا "
افسر نے خوشی سے بھر پور لہجے میں کہا
"انشاء اللہ سر آپ کی دعائیں چاہیے میں آپ کا یقین کبھی نہیں توڑوں گا بس تھوڑا سا وقت اور پھر آپ کو اچھی خبر سناؤں گا جس ک مجھ سے بھی زیادہ آپ کو بےصبری سے انتظار ہے"
جوان نے پر عزم انداز میں کہا
"انشاء اللہ "
.................
"گڈ مارننگ سر "
زرشالہ نے دامیر کو دیکھ کر زور شور سے مارننگ کیا دامیر نے گھور کر اسے دیکھا اس کے انداز سے لگ رہا تھا آج دامیر کی پھر حیر نہیں ہے زرشالہ نے مسکرا کر سر کو دیکھا
دامیر نے کچھ بھی کہے بنا لیکچر شروع کیا
"آج اگر تم نے کوئی گربڑ کی ناں تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا کان کھول کر سن لوں"
روما نے لکچر شروع ہونے سے پہلے اسے وان کیا
"یار میں نے حجاب کر رکھا ہے کان کیسے کھولوں "
اس نے معصومیت سے اسے دیکھ کر پوچھا
روما نے اپنا پاؤں اس کے پاؤں پر مار کر غصے سے گھورا
"ایسے اب آئی سمجھ میں"
زرشالہ نے روما کے کندھے پر زور سے اپنے ہتھوڑے جیسے ہاتھ سے وار کیا وہ بچاری تلملاتی ہوئی آگے ہوئی
"سر آپ کے پاس کوئی آلہ موجود ہے جس سے چیزیں کھولی جا سکتی ہوں"
زرشالہ نے سر کو مخاطب کیا سر نے نظر اٹھا کر حیرانگی سے اس سر پھری کو دیکھا
روما کا دل کیا زرشالہ کا سر دیوار پر دے مارے
"کیوں مس آپ نے کیا کرنا ہے اس کا "
اس نے آبرو اوہ کر کے پوچھا
"سر اپنے کان کھولنے ہیں"
زرشالہ نے سنجیدگی سے جواب دیا
ساری کلاس کا قہقہہ بےسہتا تھا
دامیر نے گھوری سے نوازا
"زرشالہ آپ آرام سے بیٹھ کر کلاس اٹینڈ نہیں کر سکتی تو پلیز یہاں سے تشریف لے جا سکتی ہے"
اس نے بنا لحاظ کیے اسے سنا ڈالی
"سوری سر آپ کو برا لگا تو نہیں ہے تو کہ دیتے اس میں ڈانٹنے والی تو کوئی بات نہیں تھی "
زرشالہ نے منہ لٹکائے جواب دیا روما نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ زور سے رکھا اس نے روما کو شرارت سے دیکھا دوسری طرف حورین نے بھی اسے دیکھا زرشالہ نے اسے دیکھ کر آنکھ ماری
"تم نے اب کوئی بکواس کی ناں تو میں تمہیں کلاس سے باہر پھینک دوں گی زر"
حورین نے چبا چبا کر غصے سے کہا
"مس حورین آپ کا اگر موڈ نہیں ہے کلاس لینے کا تو آپ بھی جاسکتی ہے میرا اور باقی سٹوڈنٹس کا ٹائم ویسٹ نہ کریں"
دامیر نے خاصے سخت نظروں سے حورین کو دیکھ کر کہا
زرشالہ سے اپنی ہنسی کنڑول کرنا مشکل تھی دامیر ہمیشہ حورین کو ہی باتیں سنتا تھا
"سر آپ ہر وقت مجھے کیوں ڈانٹے ہیں میں نے کیا کیا ہے "
وہ روہنسی ہو کر بولی
"آپ نے تو کچھ نہیں کیا میں ہی تو باتیں کر رہا ہوں"
اس نے اسے دیکھ کر سنجیدگی سے کہا
روما اور زرشالہ نے جلدی سے اپنا منہ نیچے کیا انہیں بہت زیادہ ہنسی آ رہی تھی
حورین نے سر جھکا لیا اسے رہ رہ کر سر پر غصہ آ رہا تھا دامیر نے اپنا لیکچر شروع کیا
ابھی دس منٹ ہی گزرے تھے کہ زرشالہ کو سر اٹھا کر سامنے سر کو دیکھا جو بہت مگن انداز میں سمجھا رہے تھے روما نے اس کی طرف دیکھ کر اپنے دونوں ہاتھ جوڑے سرزر نے سر دائیں بائیں ہلا کر نفی میں اشارہ کیا اور ایک آنکھ بند کر کے زبان نکال کر اسے مزید تھپیا اس نے چہرے پر ہاتھ پھیر کر اسے وان کیا
"کسی کو بھی کوئی سوال پوچھنا ہے اباوٹ ٹاپک "
اس نے پروفیشنل انداز میں سب کی طرف نظر اٹھا کر پوچھا
"یس سر مجھے ایک سوال پوچھنا ہے پر ٹاپک سے زرا ہٹ کر سوال ہے میرا "
اس نے ہاتھ اٹھا کر معصومیت سے کہا
"میں نے کہا ہے جیسے ٹاپک کے بارے میں کچھ پوچھنا ہے تو وہ پوچھے فضول سوالوں کے میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے"
دامیر نے سنجیدگی سے کہا
"پلیز سر میرا سوال بہت ضروری ہے"
زرشالہ نے ضدی انداز میں کہا دامیر نے سر ہلا کر ہاں میں سر ہلایا
"سر یہ جو آپ نے سٹائلش سی سن گلاسز پہن رکھی ہے یہ کہاں سے لی ہے آپ نے"
زرشالہ نے معصومیت سے پوچھا
دامیر نے گھور کر اسے دیکھا
"مس زرشالہ یہ سن گلاسز نہیں ہے میری آئی سائیڈ ویک ہے "
اس نے چبا کر کہا
"بس رہنے دے سر صاف نظر آ رہا ہے یہ سن گلاسز ہے اب بتا بھی دے مجھے اپنے دوست کے لیے لینی ہے پلیز"
زرشالہ نے مسکرا کر اسے تپایا
"آپ کو کیا لگتا ہے مس میں چھوٹ بول رہا ہوں"
اس نے چڑ کر پوچھا
"اب میں نے ایسا بھی کچھ نہیں کہا آپ تو غصہ ہی کر گئے سر "
اس نے مسکرا کر اسے دیکھا
"آپ سے مطلب میں جو بھی پہن کر آؤ آپ کو اپنے پڑھنے سے مطلب ہونا چاہیے زرشالہ صاحبہ کوئی کیا پہن کر آتا ہے کیا نہیں یہ آپ کا مسلئہ نہِیں ہَے "
دامیر نے چڑ کر کہا
"سوری سر آپ تو مائنڈ کر گئے حالانکہ میں نے اب ایسا تو کچھ بھی نہیں کہا آپ سے صرف اتنا ہی پوچھا ہے کہا سے لی ہے "
اس نے دامیر کو مزید غصہ دیلانا چاہا
دامیر نے چڑ کر اسے دیکھا پھر کوئی بھی جواب دیے بنا اپنا سامان اٹھا کر وہاں سے چلا گیا سارے سٹوڈنٹس بھی آہستہ آہستہ باہر جانے لگے
روما اور حورین نے افسوس سے اسے دیکھا
"پھر کیسا لگا میری دوستوں بہت سوبربن رہے تھے ناں میر بھائی کیسے بچارے بوکھلا کر رہ گئے "
اس نے حورین کے ہاتھ پر زور سے مار کر کہا حورین بلبلا کر رہ گئی
"اللّٰہ پوچھے تم سے ظالم لڑکی ٹیچر ہے تمہارے کچھ تو شرم کر لیا کروں ہر وقت انہیں تنگ کرتی رہتی ہوں"
روما نے افسوس سے سر ہلا کر اسے سمجھایا
"بس بس رہنے ہی دوں میں نے اب ایسا بھی کچھ نہیں کر دیا "
زرشالہ نے بیگ اٹھا کر بے فکری سے کہا حورین ابھی تک اپنا ہاتھ پکڑے بیٹھی تھی روما نے اس کی طرف دیکھا
"اب آٹھ بھی جاؤ اس ہتھوڑے کیا ہاتھ کی عادت ڈال دوں یہ ایسے ہی کسی بھی وقت حملہ آوار ہو جاتا ہے"
روما نے حورین کا بیگ اس کی طرف اٹھا کر بڑھایا حورین نے کھا جانی والی نظروں سے اسے دیکھا روما نے مسکرا کر اسے اور چھڑایا
"ویسے حور یار میر بھائی کی تم سے پرانی دشمنی ہے کیا جو ہر وقت تمہیں ڈانٹنے کے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں"
زرشالہ نے گردن موڑ کر حورین کی طرف دیکھ کر پوچھا
"مجھے کیا پتا کیا پتا کس جنم کا بدلہ لے رہے ہیں مجھ سے جب دیکھو مجھے ڈانٹنے رہتے ہیں"
اس نے منہ بنا کر کہا
"تم نے سنا نہیں جاہا لڑائیاں زیادہ ہوتی ہے وہاں محبت بھی بہت زوروں کی پروان چڑھاتی ہیں "
زرشالہ نے سنجیدگی سے جواب دیا بات جب تک حورین کو سمجھ آتی زرشالہ نے ڈور لگائی
"آج تم میرے ہاتھوں قاتل ہو کر رہوں گی"
حورین اس کے پیچھے بھاگی
حورین بھاگتے ہوئے سامنے سے آتے ہوئے دامیر سے ٹکرائی
دامیر نے بروقت اسے تھام لیا زرشالہ نے روک کر پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں حورین دامیر کے باہوں میں تھی اس نے آنکھیں پھاڑے انہیں دیکھا
"آرام سے حور ابھی گر جاتی تو چھوٹ آ جاتی دیکھ کر چلا کرے"
دامیر نے نرم لہجے میں اس کے کان میں سرگوشی کی حورین ہوش میں آتے ہوئے ہی ایک دم پیچھے ہٹی اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا دامیر اسے نرم نگاہ سے دیکھ کر وہاں سے چلا گیا حورین اس کے نرم لہجے میں کھو کر رہ گئی
"آہم آہم لڑکی ہوش میں آؤ وہ جا چکے ہیں"
زرشالہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر شرارت سے کہا روما بھی اس کی حالت دیکھ کر قہقہہ لگا کر ہنس رہی تھی حورین نے شرمندگی سے انہیں دیکھا وہ دونوں ہی مسکرا رہی تھی اس نے دونوں کو غصے سے گھورا
"کس خوشی میں تم دونوں کی بتیسی نکل رہی ہیں"
حورین نے خفا خفا انداز میں چڑ کر پوچھا وہ دامیر کی ان حرکتوں سے سخت عاجز آ گئی تھی
"یہ تو تم ہمیں بتاؤ کیا کہ رہے تھے اور تمہارے کان میں جو تم اتنا بلش ہو رہی تھی٬
روما نے مسکرا کر اسے چھڑا
"یہ کیا بتائیں گئی مجھے پتا ہے کیا کہا ہو گا "
زرشالہ نے شرارت سے آنکھ مار کر کہا
"آرام سے جانم میری جگہ کوئی اور ہوتا اور تم اس سے ایسے ٹکرا گئی ہوتی تو کیا گزرتی میرے دل پر "
زرشالہ نے رازداری سے آگے ہو کر کہا حورین سن کر آگ بگولا ہو گئی روما کا ہنس ہنس کر برا حال تھا
"تم خون کی تو سوچ ہی بلوا ہے خبریں جو مجھ سے بات کرنے کی کوشش بھی کی تو"
اس نے ناراض نظروں سے دونوں کو گھورا وہ اس وقت ان دونوں کے کسی بھی بات کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں تھی ناں اس نے دامیر کا اپنے گھر میں آنے کا ان لوگوں کو تایا تھا زرشالہ کا کیا بھروسہ وہ ساری وہ جا کر زالان بھائی کو سب کہ دیتی اور دامیر کو پتا چل جاتا وہ تو خوش ہوتا کے اسے ڈسکس کیا جاتا ہے اس لیے فل وقت وہ کوئی بھی بات نہیں بتانا چاہتی تھی پھر آئے روز کے ڈراموں سے تنگ آ گئی تھی راستے میں بالو اور یونیورسٹی میں دامیر اس کی پریشانی میں اضافہ کر رہے تھے
.......................
اس وقت سب بڑوں کی پریس کانفرنس چل رہی تھی ان کے پریس کانفرنس میں بچوں کو آنے کی اجازت نہیں تھی
صمد احمد اور ولی صاحب بھی موجود تھے اور ان کی بیگمات صبا صائمہ اور صبا بھی وہی دادو کے ساتھ صوفے پر پرجمان تھی داجی نے ایک نظر سب کو دیکھا پھر انہیں یہاں بولنے کے بارے میں بتانے لگے
"چونکہ میرے پوتے پوتیاں ماشاءاللہ سے سب جوان ہو گئے ہیں اب وقت آ گیا ہے کہ ان کی شادیوں کا فیصلہ کیا جائے کل صمد اور صبا بیٹی ایسی سلسلے میں میرے پاس آئیے تھے زرشالہ کا رشتہ بہروز کے لیے مانگنے چونکہ میری اور تمہاری ماں کی خواہش ہے کہ سارے بچے گھر کے ہو جائے اس سلسلے میں آج آپ سب کو یہاں بولایا ہے"
داجی نے سنجیدگی سے اپنا مدعا بیان کیا سب انہیں غور سے سن رہے تھے
"داجی آپ کا ہر فیصلہ سر آنکھوں پر آچھا ہوا آپ نے آج حود ہی ہمیں بولایا ہے میں بھی ایسی سلسلے میں آپ سے بات کرنا چاہتا تھا "
احمد صاحب نے باپ کی طرف دیکھ کر کہا
"ہاں ہاں کہوں بیٹا "
داجی نے اسے بولنے کی اجازت دی
"میرا اپنا دل تھا زرشالہ کو اپنی بہو بنانے کا پر بہروز بھارت اپنا بچہ ہے اس سے زیادہ تو مجھے لگا تھا زرشالہ کو بھائی صاحب اپنے زالان کی دلہن بنائے گئے اس لیے ہم نے اپنے تینوں بیٹوں کے لیے ولی اور صفا بھابھی کی بیٹیوں کا سوچ رکھا ہے اگر آپ سب کو مناسب لگے تو جیسے ولی اور بھابھی کا فیصلہ ہو گا ہمیں منظور ہو گا .."
احمد صاحب نے بھی اپنے دل کی بات بتائی
"ارادہ تو ہمارا بھی یہی تھا سچ پوچھیں بھائی صاحب ہم نے تو شروع سے زرشالہ کو اپنے زالان کے ساتھ ہی دیکھا ہے مگر زالان اس رشتے کو ماننے کو تیار نہیں ہیں وہ کہتا ہے زرشالہ سے شادی کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا اس لیے ہم سے اپنے بہروز کے لیے زرشالہ کا ہاتھ مانگ لیا آگے فیصلے کا حق تو ابا اور اماں جی کے پاس ہے"
صبا بیگم نے مؤدب انداز میں جواب دیا
داجی نے پر سوچ انداز میں سب کو دیکھا
"یہ تو بہت ہی اچھی بت ہے کہ گھر کی بچیاں گھر کی ہی ہوں جائے گی بس زالان کے لیے بھی خاندان سے باہر کوئی لڑکی دیکھنا شروع کروں صبا ہمارا بچہ آپ بڑا ہو گیا ہے اور گھر کا سب سے بڑا بیٹا وہی ہے شادی بھی پہلے اسی کی ہو گئی اس کے بعد باقیوں کی باری آنی ہے "
دادو بھی اپنے بچوں کی سوچ سے بہت خوش تھی
"انشاء اللہ اماں اس کے لیے بھاگ اب لڑکی دیکھتے ہیں پہلے یہ گھر کی بات تو طے ہو جائے"
صائمہ بیگم نے بھی اپنی رائے دی
"ابھی بچے بہت چھوٹے ہیں شادیوں کی عمریں ابھی نہیں ہے سال دو سال وہ سب اپنے اپنے کاروبار اچھے سے سنبھال لے پھر شادی بھی کر لے گے ..مگر چونکہ یہ بھی اچھا ہے کہ سب کی بات پکی کر لی جائے تاکہ انہیں بھی اپنی زمیداریوں کا احساس ہو سکے آپ سب کا اس بارے میں کیا حیال ہے"
داجی نے سب کی طرف دیکھ کر پوچھا وہ کسی پر بھی اپنا فیصلہ مسلت نہیں کرنا چاہتے تھے
"ولی بیٹا تم بتاؤ تم نے اپنی بچیوں کے لیے کیا سوچا ہے ہمیں تمہارے فیصلے پر کوئی اعتراز نہیں ہو گا تم اپنی بچیوں کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہوں"
اماں نے ولی سے پوچا
ولی صاحب نے بیوی کی طرف دیکھا صفا بیگم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں راضامندی دی وہ سب اپنے سسر کے فیصلے کو دل سے مانتے تھے
"ابا ہمیں آپ کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں ہے یہ تو احمد بھائی کی محبت ہے جو انہوں نے اپنے گھر کی بیٹیوں کے بارے میں سوچا ماشاءاللہ ساعت بچے ہی ایک دوسرے سے اچھے ہیں اور ایک دوسرے میں جان ہے ان کی یہی سب سے اچھی بات ہے "
ولی صاحب نے خوشی کی نویدِ سنائی
"بےشک اللّٰہ بری نظر سے بچائے ہماری اولادوں کو بس پھر طے ہو گیا بہروز اور زرشالہ کی بات "
داجی نے خوشی سے اپنا فیصلہ سنایا
"ولید کے لیے اپنی افشاں شارق کے لیے اپنی رانیہ اور عمار کے ساتھ تو ہماری پیاری سی بیٹی روما ہی اچھی لگے گی "
احمد صاحب نے بھی اپنے دل کی بات سامنے رکھی سب ہی بہت خوش تھے ان کے فیصلے سے
"بھائی صاحب ابا جی آپ برا ناں مانے تو ہم سب ایک بار اپنے اپنے بچوں سے بھی پوچھ لے مجھے یقین ہے انہیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا پھر ان سے پوچھنا بھی ضروری ہے آخر کو یہ ان کی پوری زندگی کا سوال ہے"
صفا بیگم نے ہچکچاتے ہوئے اپنی بات کی انہیں ڈر تھا کہی ابا برا نہ مان لے
"یہ تو تم نے میرے دل کی بات کر دی بیٹی ٹھیک ہے آپ سب پوچھ لے انشاء اللہ مجھے امید ہے ان کو ہمارے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا "
داجی نے مسکرا کر کہا صفا بیگم کی جان میں جان آئی سب ہی بہت خوش تھے کہ اس گھر کے مکین ایک نئے رشتے سے پھر سے منسلک ہونے جا رہے تھے.
جاری ہے....
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─