┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 28
پارٹ 2

یونيورسٹی میں مڈ ٹرم اگزامز چل رہے تھے۔۔ ہر کوٸ کتابوں میں سر دیے نظر آرہا تھا۔۔ اور تو اور رونل عرف رون بھی لاٸبریری میں گھسا نظر آتا تھا۔  

ہاں البتہ ایک شخص تھا جو لاٸبریری کے پاس بھی نظر نہیں آتا تھا۔۔ اور وہ تھا رومان شاہ۔۔ حرم نے نوٹ کیا تھا لیکن پوچھا نہیں۔۔ 

یہ پڑھتا بھی ہے۔۔۔؟؟ حرم نے رون کو لاٸبریری میں اسے پڑھتے ہوۓ دیکھا تو واصے سے پوچھا۔۔

ہاں۔۔ صرف پیپرز کے دنوں میں۔۔

لیکن وہ تب تک شرافت سے بیٹھ کر پڑھتا تھا جب تک اسے خود پیپر نہیں یاد ہوتا تھا۔۔ اس کے بعد اسکا جسکی دل چاہتا بک چھین کے بھاگ جاتا تھا۔۔ حرم کو خطرہ اپنے ہر طرف منڈھلاتا نظر آتا تھا اس لیۓ وہ لاٸبریری میں کم ہی جاتی تھی۔ زیادہ وہ گھر ہی پڑھتی تھی۔۔ اور یونيورسٹی میں وہ فاٶنٹین کے پیچھے بیٹھ جاتی تھی۔۔ 

آج انکا آخری پیپر تھا۔۔ 

کیسا ہوا پیپر حرم۔۔؟؟ عرش نے پوچھا۔

اچھا ہو گیا۔۔شکر ہے جان چھوٹی۔۔ حرم کی پیپرز سے جان جاتی تھی۔۔

آج مجھے میری پہلی سیلری ملے گی۔۔ بیلا نے خوش ہو کر بتایا۔۔ 

پارٹی بنتی ہے پھر تو۔۔ عرش نے مسکرا کر کہا۔۔ 

ہاں کل لنچ میری طرف سے ہوگا۔۔ بیلا واقی بہت خوش تھی۔۔

پتا ہے میں نے نا ہیوی باٸیک خریدنی ہے۔۔ وہ بتا رہی تھی۔۔ 

اس کا کیا کرو گی۔۔ حرم حیران ہوٸ۔۔ 

ون وہیلنگ۔۔۔ بہت مزا آتا ہے۔۔ سیریسلی۔۔ ہم نا یونيورسٹی کے باہر ون وہیلنگ کریں گے۔۔وہ بتا رہی تھی۔۔

اور ہاں کل سے میں ساٸیکل لےکر آٶں گی۔۔ ہم پہلے اس پر ون وہیلنگ کریں گے۔۔

لیکن مجھے تو آتی ہی نہیں۔۔ میں کیسے کروں گی۔۔ حرم نے منہ بنایا۔۔

ڈونٹ وری میں ہوں نا۔۔ میں سکھادونگی۔۔۔ پتا ہے میں نے انڈیا میں چاندنی چوک میں اپنی سکوٹی گھماتی پھرتی تھی۔۔ اور ساٸیکل پر ون وہیلنگ کرتی تھی۔۔ پھر پاپا سے ڈانٹ بھی پڑتی تھی لیکن مزہ آتا تھا۔۔بیلا بتا رہی تھی۔۔ 

  کچھ کھا لیں۔۔؟؟ مجھے بھوک لگی ہے۔۔حرم نے کہا۔۔ اور وہ لوگ کیفے کی طرف بڑھ گۓ۔۔

     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیلو حمزہ۔۔ فرہاد نے حمزہ کو کال کی تھی۔۔ 

جی خیریت ۔۔۔ وہ حیران ہوا۔۔ 

ایک ضروری کام ہے۔۔ 

حکم کرو فرہاد صاحب۔۔ وہ شوخ ہوا۔۔ 

صبح تمہیں لاہور جانا ہے۔۔فرہاد نے کہا۔۔

لاہور۔۔ لیکن کس لیۓ۔۔ ؟؟ وہ حیران ہوا۔۔

حورعین کا ایڈمیشن کروانا ہے یونيورسٹی میں۔۔ تو تم جاٶ گے صبح۔۔ فرہاد نے کہا۔۔ 

حورعین کے نام پر دل کی ڈھرکن تیز ہوٸ تھی۔۔ 

لیکن میں۔۔ میرا بہت اہم پروجیکٹ ہے۔۔ وہ بہانا بنا رہا تھا۔

بعد میں ہو جاۓ گا پروجیکٹ بھی۔۔بس تم جا رہے ہو۔۔ فرہاد نے اسے حکم دیا۔۔
میں تمہیں حورعین کا نمبر سینڈ کر رہا ہوں۔۔ اس سے بات کر لینا۔۔ ٹھیک ہے۔۔؟؟

ٹھیک ہے۔۔ حمزہ نے کہا۔۔ دل چاہ رہا تھا اسے ملنے کو۔۔ دیکھنے کو۔۔ لیکن عقل اور دماغ اسے دور رہنے کا سندیسہ دے رہے تھے۔۔ لیکن وہ کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا۔۔ مجبواً ہی سہی مگر سے جانا تھا۔۔ 

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”اترا ہوا زہن سے۔۔ نا چھیڑو زکرِ یار۔۔ 

یاد آگیا تو پھر سے بھلایا نا جاۓ گا۔۔۔“

اس میں میری کوٸ غلطی نہیں ہے۔۔ میں بہت کوشش کرتا ہوں تم دور رہنے کی۔۔ میں نے تو اپنے زہن سے بھی تمہیں نکال دیا تھا۔ لیکن تقدیر مجھے دوبارہ تمہارے سامنے لا رہی ہے۔۔ میں بہت مجبور ہوں۔۔ وہ تصور میں حورعین سے مخاطب ہوا۔۔ 

ہمیں لگتا ہے میں اپنی محبت کو بھول سکتے ہیں۔۔۔ ہم اسے یاد نہیں کرتے۔۔ وہ انسان ہمیں یاد بھی نہیں آتا۔۔ لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہمارے اندر سے نکل جاتا ہے۔۔ یہ تو وقت کی سازش ہوتی ہے۔۔جو محبوب کا خیال نہیں آنے دیتا۔۔ لیکن یہ سازش تب تک ہوتی ہے جب تک کوٸ اسکا ذکر نا کرے۔۔ جب کوٸ اسکا ذکر کرتا ہے ہمارے سامنے تو جسم کا رواں رواں سماعت بن جاتا ہے۔۔ وہ چھم سے ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔۔ ایک ایک بات یاد آنے لگتی ہے۔۔ دل پھر اسی انداز میں دھڑکنا شروع کر دیتا ہے۔۔تب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم تو کچھ بھی نہیں بھولے۔۔کبھی بھول ہی نہیں سکتے۔۔ 

          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بابا۔۔ وہ دروازے پر دستک دیتا اندر آیا۔۔ 

آٶ بیٹا۔۔۔ سفید لباس میں ملبوس شخص نے جو مسجد کے فرش پر بیٹھا قرآن پاک پڑھ رہا تھا۔۔اسے دیکھ کر اندر آنے کی اجازت دی۔۔ 

وہ اسکے سامنے بیٹھ چکا تھا۔۔کپڑوں کی طرح داڑھی بھی سفید تھی۔۔ اور چہرے پر نور پھیلا تھا۔۔ اسے اپنے سامنے بیٹھتا دیکھ جر وہ بزرگ مسکراۓ۔۔

آج تیس دن ہو چکے ہیں میرے وظیفے کو۔۔ کیا وہ مجھے ملے گی۔۔ وہ بزرگ سے پوچھ رہا تھا۔۔

تمہارا کام ہے اپنا کام اپنا فرض پورا کرنا۔۔ پھل کی فکر مت کرو۔۔ وہ جو اوپر بیٹھا ہے نا وہ بنا کہے سب سنتا ہے۔۔ لیکن وہ نیتوں کو دیکھ کر پھل دیتا ہے۔۔بزرگ نے مسکرا کر کہا۔۔

میں بس اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔۔ کہ آخر وہ ہے کیسی۔۔۔؟ جسے خدا پاک نے آخرت میں میرے لیۓ بنایا ہے۔۔وہ بتا رہا تھا۔

اللہ پر بھروسہ رکھو۔۔ اگر اسے تمہارے لیۓ یہ ٹھیک لگا۔۔ تمہاری لگن سچی ہوٸ تو وہ تمہاری ملاقات اس سے ضرور کرواۓ گا۔۔ کیا پتا تمہارے چالیس دن کے وظیفے کے پورے ہونے سے پہلے ہی وہ تمہیں اس سے ملوادے۔۔ بزرگ کے چہرے پر نرم سی مسکراہٹ پھیلی تھی۔۔

 ان شاء اللہ بابا جی۔۔ وہ بھی مسکرا دیا۔۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج تو میں لیٹ ہوگٸ۔۔۔ آج تو مام مجھے نہیں چھوڑیں گی۔۔ وہ بڑ بڑا رہی تھی اور تیز تیز قدم اٹھاتی چل رہی تھی۔۔ 

ایش کچھ سوچو۔۔ وہ خود سے مخاطب تھی۔۔ رات کے دس بجنے والے تھے بس پانچ منٹ رہتے تھے۔۔ مسز ولیم نے سختی سے اسے رات دس بجے کے بعد گھر سے باہر رہنے سے منع کیا ہوا تھا۔۔

باکسنگ کلاسز لینے کے بعد وہ اسٹوڈیو چلی گٸ تھی جہاں سے وہ مصوری سیکھ رہی تھی۔۔ اسکے بعد وہ اپنے فرینڈز کے ساتھ ایک چیریٹی شو تھا اس میں چلی گٸ۔۔ اب اچانک اسے احساس ہوا تو وہ شو چھوڑ کر آگٸ تھی۔۔ لیکن پرابلم یہ تھی کہ وہ اپنے فرینڈ کی گاڑی میں آٸ تھی یہاں پر۔۔ اب اسکے پاس جانے کیلیۓ کوٸ گاڑی نہیں تھی۔۔ 

موسم خراب ہو رہا تھا۔۔ بادلوں کی گرج اور بجلی کی چمک اسے بارش کے آنے کا پتا دے رہی تھی۔۔ 

اففف بارش نا ہو۔۔ وہ تیز تیز روڈ پر چل رہی تھی۔۔ اس وقت یہاں اسے کوٸ بس بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔۔ 

ایک ہاتھ میں اسکا واٸلن اور ایک ہاتھ میں وہ پہلی پینٹنگ تھی جو اس نے اتنے عرصے میں بناٸ تھی۔۔

بارش شروع ہوگٸ تھی۔۔

یہ تو بھیگ جاۓ گی۔۔ اب کیا کروں۔۔۔ وہ پینٹنگ کی طرف دیکھ کر بولی۔۔ 

اچانک اسکی نظر ایک ٹیکسی پر پڑی جو روڈ کے دوسری ساٸیڈ پر کھڑی تھی۔۔ اسے امید کی ایک کرن نظر آٸ تھی۔۔ وہ خوشی سے اچھلتی ہوٸ ٹیکسی کی طرف بھاگی۔۔ 

راٸل پیلس چلیں پلیز۔۔ وہ گاڑی کا دروازہ کھولنے کے بعد جھٹ سے اندر بیھٹتے ہوۓ بولی۔۔

اندر موجود شخص گاڑی کی لاٸیٹس جلاۓ اپنے موبائل میں ایک بک کھولے بہت توجہ اور لگن کے ساتھ اسے پڑھنے میں مصروف تھا۔۔ایش کی آواز پر وہ چونکا۔۔ 

وہ موبائل بند کرنے کے بعد اسکی طرف متوجہ ہوا۔۔ 

نہیں جانا سوری۔۔ وہ کہہ کر پھر سیدھا ہوا۔ہاٸیں۔۔۔ کیوں۔۔کیوں نہیں جانا۔۔ ایش نے حیران ہوتے ہوۓ پوچھا۔۔ 

کیونکہ مجھے یہاں کوٸ اور پسینجر لے کر آیا ہے۔۔ میں اسی کا انتظار کر رہا ہوں وہ آتا ہی ہوگا۔۔ 

دیکھیں پلیز جب تک وہ نہیں آتا آپ مجھے چھوڑ آٸیں۔۔ کافی رات ہو چکی ہے۔۔ 

سوری میڈم۔۔ میں اس سے پوچھے بنا نہیں جاٶں گا۔۔ اس نے یہاں رکنے کے پیسے دیۓ ہیں مجھے۔۔ میں بے ایمانی نہیں کر سکتا۔۔ وہ صاف صاف کہہ چکا تھا۔۔ 

میں آپکو بہت زیادہ پیسے دونگی۔۔ جتنے آپ چاہیں اتنے لے لینا۔۔ لیکن آپ مجھے راٸل پیلس چھوڑ آٸیں۔۔ یہاں اس وقت کوٸ اور ٹیکسی بھی نظر نہیں آرہی۔۔

ایش کے پیسے دینے کی بات وہ چونکا۔۔ مڑ کر اسے دیکھا۔۔ تبھی بجلی چمکی اور وہ گھبراٸ گھبراٸ سی لڑکی اسے نظر آٸ۔۔ کیونکہ اسکے بیٹھتے ہی وہ ٹیکسی کی لاٸیٹ آف کر چکا تھا یہ اسکا رول تھا کہ جب بھی کوٸ فی میل اسکی گاڑی میں رات کو بیٹھتی تھی وہ لاٸیٹ آف کر دیتا تھا تاکہ غلطی سےبھی نظر اس پر نا پڑے۔۔ 

وہ کچھ سخت سا بولنے والا تھا لیکن پھر رات کے اس وقت وہ اکیلی لڑکی کو دیکھ کر کہ وہ اس وقت مصیبت میں خاموش ہو گیا۔۔۔ 

ہممم۔۔ ٹھیک ہے۔۔ چھوڑ آتا ہوں۔۔ وہ شاید اس پر ترس کھا رہا تھا۔۔

تھینک یو۔۔ تھینک یو سو مچ۔۔ ایش خوش ہو گٸ۔۔ 

وہ گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا۔۔ 

وہ اکچوٸلی آج میں لیٹ ہو گٸ۔۔ چیریٹی شو کی وجہ سے۔۔ مام سے بہت ڈانٹ پڑنے والی ہے۔۔ پلیز آپ تھوڑا تیز چلاٸیں۔۔ وہ خود ہی بول رہی تھی۔۔ ٹائم دیکھا تو دس بج چکے تھے۔۔

بارش زور و شور سے برس رہی تھی۔۔ 

پلیز میوزک لگا دیں۔۔ وہ بولی۔۔

اور وہ اسکی اس عجیب وہ غریب فرماٸش پر حیران رہ گیا۔۔ اتنی تیز برستی بارش میں رات کے اس وقت جب وہ خود اپنی پریشانی کا ذکر کر رہی تھی۔۔ کمال ہے میوزک لگانے کا بول دیا۔۔ 

سوری میں میوزک نہیں سنتا۔۔ 

کیا۔۔ وہ حیران ہوٸ۔۔کس پلینٹ سے ہیں آپ۔۔؟؟ جو میوزک نہیں سنتے آپ۔۔

مجھے نہیں پسند۔۔ وہ بتا رہا تھا۔۔ 

مجھے جب شدید ٹینشن ہو نا تب میں میوزک سن کر اسے دور کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔۔ ایش کہہ رہی تھی لیکن وہ کچھ نا بولا۔۔ خاموشی سے ڈرائيونگ کرتا رہا۔۔ 

پتا نہیں یہ شخص اتنا کم کیوں بولتا ہے۔۔ وہ سوچ رہی تھی۔۔ اور پھر اپنا واٸلن اٹھا کر اسے بجانے لگی۔۔ ایک خوبصورت سی دھن گاڑی میں گونج گٸ۔۔

چند ہی پل بعد وہ بور ہوگٸ۔۔ کیونکہ آگے بیٹھا شخص کوٸ ریسپانس نہیں دے رہا تھا اور ایش کبھی خاموش نہیں رہ سکتی تھی۔۔ 

آپ نے لاٸیٹ آف کیوں کی ہے۔۔؟؟ اب وہ پوچھ رہی تھی۔۔

میرا رول ہے یہ۔۔ وہ کہہ کر خاموش ہو گیا۔۔

عجیب شخص ہے۔۔ ایش حیران ہوٸ۔۔ پھر اس نے اپنے بیگ کو ٹٹولا اور اس میں سے ایک ٹارچ نکالی۔۔ اب وہ اسے جلانے کے بعد گاڑی کے شیشے پر روشنی ڈالتے ہوۓ باہر دیکھنے لگی۔۔ شیشے پر بارش کا پھسلتا ہوا پانی اسے خوش کر گیا۔۔ وہ دیکھتی رہی لیکن پانچ منٹ بعد وہ اس سے بور ہو چکی تھی۔۔

آپ کہاں رہتے ہیں۔۔؟؟ وہ اب سے پوچھ رہی تھی۔

اپنے گھر میں رہتا ہوں۔۔ سخت سا جواب آیا۔

عجیب پاگل لڑکی ہے۔۔آدھی رات کو اکیلی ایک مرد کے ساتھ ہے اسے ڈر نہیں لگ رہا اور اوپر سے اول فول بولے جا رہی ہے۔۔

میں راٸل پیلس میں رہتی ہوں۔۔ وہ اب بتا رہی تھی۔۔ آج صبح سات بجے میں گھر سے نکلی تھی۔۔ ١ بجے تک کالج میں رہی۔۔پھر لاٸبریری چلی گٸ۔ وہاں پر میں نے دو ہسٹری کی بکس پڑیں۔ تین بجے میں فرینڈز کے ساتھ لنچ کرنے گٸ۔۔

وہ بولے جا رہی تھی۔۔

پھر شام کو پانچ بجھے میری باکسنگ کلاس تھی۔۔ اسکے بعد میں سٹوڈیو چلی گٸ۔۔ ساڑھے سات بجے میری میوزک کلاس تھی۔۔اسکے بعد میں یہاں آگٸ۔۔تقریبا ساڑھے آٹھ بجے۔۔ تب سے یہی ہوں۔۔۔۔ اب لیٹ ہوگٸ ہوں گھر سے۔۔ 
وہ اپنے دن بھر کی روداد سنا چکی تھی۔۔ 

آپ کچھ بولتے کیوں نہیں۔۔ وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔

میڈم آپکا گھر آچکا ہے۔۔ گاڑی کب رکی اسے پتا ہی نہیں چلا۔۔ ٹارچ کی روشنی باہر ڈالی تو سامنے راٸل پیلس تھا۔

اوو شٹ۔۔ وہ چونکی۔۔ پلیز یہاں سے چلیں۔۔ وہ کہہ رہی تھی۔ 

کیا۔۔ وہ حیران ہو۔۔ خود ہی تو راٸل پیلس آنے کو کہا تھا۔۔

میرا مطلب پلیز گاڑی پیلس کے پیچھے لے جاٸیں جلدی۔۔اس سے پہلے کے کوٸ دیکھ لے۔۔ 

اور وہ غصہ ضبط کرتا گاڑی کو پیلس کے پیچے لے آیا۔۔

اوو تھینک یو سو مچ۔۔ وہ اپنی چیزیں اٹھانے لگی۔۔ بارش اب کم ہو چکی تھی۔۔ وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکل آٸ۔۔

یہ میرا کارڈ ہے۔۔ اسکی طرف آ کر وہ نیچے جھکتے ہوۓ بولی۔۔میرے پاس ابھی پیسے نہیں ہیں۔۔ آپ مجھ سے کنٹیکٹ کیجیۓ گا میں آپکو یہاں تک آنے کے پیسے دے دونگی۔۔ 

کمال ہے راٸل پیلس میں رہتی ہے اور پیسے ہیں نہیں۔۔ وہ سوچ رہا تھا۔

وہ میں نے سارے پیسے چیریٹ شو میں دے دیۓ۔۔ وہ جیسے اسکی سوچ پڑھ چکی تھی تبھی بولی۔۔بارش کم ہوٸ تھی لیکن رکی نہیں۔۔

میں ایش ولیم ہوں۔۔ اس کارڈ پر میرا نام لکھا ہے۔۔ وہ بتا رہی تھی اور پھر اس شخص کی بے زاری جو اسکے چہرے سے عیاں تھی دیکھ کر جانے کیلیۓ مڑی۔۔ 

گھر کے سامنے گاڑی رکوانے کی بجائے گھر کے پیچھے کیوں۔۔ وہ سوچ رہا تھا۔۔

اور پھر اس نے دیکھا کہ وہ پیلس تک پہنچ چکی تھی۔۔ اپنا بیگ نیچے رکھا اور اس میں واٸلن ڈالا۔۔ ایک ہاتھ میں وہ پینٹنگ پکڑی اور پھر ایک ونڈو پر چڑھی جو شاید اندر سے بند کی۔۔ ونڈو کے اوپر ایک روشن دان تھا جسے کھول کر اس نے پینٹنگ اندر پھینکی۔

اب وہ نیچے اتر چکی تھی۔۔ بیگ اٹھایا اسے شولڈر پر پہنا اور ایک پاٸپ کے زریعے اب وہ پیلس کے اوپر چڑھ رہی تھی۔۔ کمال مہارت سے۔۔

وہ حیران رہ گیا۔۔ اپنے ہی گھر میں کوٸ چوروں کی طرح کیوں جاۓ گا۔۔ ؟؟

اب وہ کافی اونچا چڑھنے کے بعد اپنی مطلوبہ ونڈو تک آٸ۔۔ اسے کھولا اور وہ کھل بھی گٸ۔۔ شاید اندر سے کھلی تھی۔۔ 

میں اسے کیوں دیکھ رہا ہوں۔ وہ بڑ بڑایا اور پھر گاڑی سٹارٹ کرنے کے بعد بیک کی۔۔

اب ایش اندر کود چکی تھی۔۔

اور وہ گاڑی موڑ چکا تھا۔۔۔ 

باۓ۔۔ وہ اب ہاتھ ہلا رہی تھی۔ اور پھر وہ اندر کہیں غائب ہو گٸ۔۔ ونڈو بند ہو چکی تھی۔۔ کیا چیز تھی یہ۔۔۔؟؟ وہ حیران سا تھا۔۔ اب وہ فل اسپیڈ سے گاڑی چلا رہا تھا۔۔ اسے واپس اس جگہ جلدی پہنچنا تھا۔۔

اور یہ #سید_سمعان_حیدر کی #ایش_ولیم سے پہلی ملاقات۔۔۔

وہ دونوں الگ ہو چکے تھے۔۔کبھی نا ملنے کیلیۓ۔۔ لیکن تقدیر بہت جلد پھر انہیں ملانے والی تھی۔۔ 

پہلی ملاقات۔۔شروعات بارش سے ہوٸ۔۔۔ ناجانے محبتوں کی شروعات ہمیشہ بارش سے کیوں ہوتی ہے۔۔؟؟

     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج موسم اچھا تھا۔۔ حرم کا دل کر رہا تھا کہ وہ باہر گھومے۔۔ 

شانو۔۔ وہ اسے پکارتی ہوٸ لاٶنج میں آٸ جو ٹی وہ دیکھ رہی تھی۔۔ 

جی حرم بھابھی۔۔ وہ جلدی سےکھڑی ہوگٸ۔۔ 

مجھے قصبے کا ایک چکر لگوا لاٶ۔۔ دل کر رہا ہے آج۔۔ پیپرز بھی ختم ہو گۓ ہیں تو فری ہوں آج۔۔ حرم نےکہا۔۔ 

جی ابھی چلیں۔۔ وہ کہتے ہوۓ آگے بڑھی۔۔ 

ٹہرو۔۔حرم نے اسے پکارہ۔۔ میں اپنی شال لے آٶں۔ وہ کہتے ہوۓ اپنے کمرے کی طرف گٸ۔۔ 

تھوڑی دیر بعد وہ حجاب کیۓ اپنی شال اچھی طرح لپیٹے جانے کیلیۓ تیار تھی۔۔

جب وہ دونوں لان میں آٸیں تو لان کی حالت دیکھ کر حرم کو ایک خیال سا آیا۔ 

واپس آکر لان کی صفائی کریں گے۔۔ پودوں کی زمین کی کھداٸ کریں گے۔۔ وہ شانو سے کہہ رہی تھی۔۔ ویسے بھی اب سردی کی شدت پہلے سے تھوڑی کم ہو گٸ تھی۔۔

ٹھیک ہے۔۔ جیسے آپ کہو۔۔ شانو نے جواب دیا۔ 

یہ گھر مسز البرڈ کا ہے۔۔جو پچھلے آٹھ سالوں سے یہاں رہ رہی ہیں۔۔ شانو نے ایک سامنے بنے ایک گھر کی طرف اشارہ کیا۔۔ 

اچھا۔۔ حرم نے گھرکو دیکھتے ہوۓ جواب دیا۔۔

ویسے آپ بہت اچھی ہیں حرم بھابھی۔۔ بہت سیدھی سادھی۔۔ لیکن روشنی بی بی تو ایسی نہیں تھیں۔۔ انہیں یہ سب نہیں پسند تھا۔۔ انہیں تو بس فیشن کرنا پسند تھا جی۔۔ 

تبھی حرم کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا۔۔ یہ روشنی بی بی کون تھی۔۔۔ ؟؟

ہیں۔۔ آپ نہیں جانتی۔۔ شانو حیران ہوٸ۔۔ 

نہیں تو۔۔۔ حرم نے رکتے ہوۓ کہا۔۔

تم بتاٶ کون تھی وہ۔۔؟؟ حرم نے پوچھا۔۔

وہ جی۔۔ شانو ہچکچا رہی تھی۔ اسکا خیال تھا کہ شاید حرم پہلے سے جانتی ہو۔۔ 

بتاٶ نا۔۔۔ رک کیوں گٸ۔۔ میں کسی سے شیٸر نہیں کرونگی۔۔ حرم نے اسکے چہرے پر الجھن کے آثار دیکھے تو کہا۔۔ 

وہ جی۔۔روشنی بی بی۔۔ فرہاد بھاٸ کا سب کچھ تھیں جی۔۔ انکی پہلی واٸف۔۔ بہت پیار کرتے تھے وہ انکو۔۔ شانو نے کہا۔۔

کیا۔۔۔؟؟ حرم کو لگا جیسے زمین اسکے پاٶں کے نیچے سے سرک گٸ ہو۔۔ 

جاری ہے۔۔۔۔

      ۔❤❤❤❤❤❤


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─