┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄
ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 28
پارٹ 1
ٹن ن ن ن ن۔۔۔ٹن ن ن ن ن۔۔۔ کی زوردار آواز مسلسل گونج رہی تھی۔۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔ اب تک تو آس پاس کے سبھی لوگ اٹھ گۓ ہونگے۔۔
اووو شٹ۔۔ وہ بڑبڑاتی بیڈ سے چھلانگ لکا چکی تھی۔۔ سامنے دیوار پر سوٸچ بورڈ میں لگا ایک بٹن بند کیا۔۔ آواز رک گٸ۔۔
پھر اس نے آگے بڑھ کر ونڈو کھول دی۔۔تیز روشنی کے ساتھ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اسکے چہرے سے ٹکرایا اور اسے اندر تک مسرور کر گیا۔۔ آہستہ آہستہ اس نے آنکھیں کھولی۔۔
سبز آنکھیں۔۔ جن میں زمین و آسمان سما جاٸیں۔۔ لیکن سامنے والے گھر کی ونڈو میں کھڑی مسز مولے جو کہ اسے خونخور نظروں سے گھور رہی تھی۔۔ اسے دیکھ کر اسکے خوبصورت لبوں کی مسکراہٹ سمٹی۔۔
اس نے ونڈو سے باہر سر نکال کر آس پاس کے گھروں کو دیکھا۔۔ سب میں اسے سیم منظر دیکھنے کو ملا۔۔ تقریباً سب ہی گھروں کی کھڑکیاں کھلی تھیں اور ان میں رہنے والے لوگ کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔۔
سوری۔۔۔ وہ کان پکڑتی سب کی طرف دیکھتی معافی مانگ رہی تھی۔۔ اور اسکے ساتھ ہی زور دار آواز کے ساتھ سب کی کھڑکیاں بند ہو گٸیں۔۔
صبح کی روشنی آہستہ آہستہ پھیل رہی تھی۔۔
اس گنٹے کو اتروا دو بیٹا۔۔ اچانک مسز مولے کے گھر سے نیچے والی کھڑکی کھلی تھی۔۔ اور اس میں سے ایک ستر سالہ بزرگ نے سر باہر نکال کر بڑے سے گھنٹے کی طرف اشارہ کیا جو اسکی کھڑکی سے تھوڑا اوپر لٹکا تھا۔۔
اس زندگی میں تو یہ نا ممکن ہے۔۔ وہ مسکراٸ۔۔
صبح صبح سب کی نیند خراب ہو جاتی ہے۔۔ وہ کہہ رہے تھے۔۔
سوری۔۔ مسٹر پارکر۔۔ نیکسٹ میں پہلی ٹن کی آواز پر اٹھ جاٶں گی۔۔ سب کے اٹھنے سے پہلے۔۔ وہ ابھی بھی مسکرا رہی تھی۔۔
اور پھر اس نے چونکتے ہوۓ کمرے کے اندر دیکھا۔۔ ایک لکڑی سے بنی میز پر ریت والی گھڑی رکھی تھی۔۔ ریت آہستہ آہستہ پھسل کر ایک بوتل سے دوسری بوتل میں گر رہی تھی۔۔ یعنی صبح کے کوٸ ساڑھے پانچ کا ٹائم تھا۔۔ کمرے میں اسکے علاوہ اور کوٸ گھڑی نہیں تھی۔۔
کمرے کی دیواریں پرانی اور قیمتی پینٹنگز سے مزین تھیں۔۔ قیمتی خوبصورت مورتیاں۔۔ خوبصورت پتلے اور نا جانے کیا کچھ ایک ترتیب سے سجا رکھا تھا۔۔
کمرے میں پینٹ نہیں تھا اور فرنیچر سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا جیسے وہ سولہویں صدی کا کمرہ ہو۔۔ بلکہ جیسا وقت سولہویں صدی میں واپس چلا گیا ہو۔۔۔۔۔
اچانک کچھ یاد آنے پر وہ چونکی اور پھر جلدی سے سامنے بنے لڑکی کے کبرڈ کی طرف بڑھ گٸ۔۔ ایک ہی پل میں اس نے اندر سے اپنا مخصوص ڈریس نکالا۔۔ جیسے پہلے سے طے کیا ہو کہ یہ پہننا ہے۔۔ اور اسے لے کر ایک دیوار کے سامنے آگٸ۔۔
پھر اس نے دیوار کی ایک ساٸیڈ پر لگی لکڑی کی ایک چھوٹی سی پلیٹ پر ہاتھ رکھا۔۔ اور یہ کیا دیوار کسی لفٹ کے دروازے کی طرح درمیان سے کھلتی چلی گٸ۔۔ وہ مسکراتی ہوٸ دروازہ پار کر گٸ۔۔ دیوار ایک بار پھر بند ہوگٸ۔۔
یہ ایک دوسرا کمرہ تھا۔۔ کمپيوٹر۔۔ لیپ ٹاپ۔۔۔ اوردیگر بہت سی مشینری سے مزین۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ایک دروازے کے زریعے۔۔ سولہویں صدی سے اکسویں صدی میں واپس لوٹ آٸ ہو۔۔
وہ تھی ہی ایسی۔۔ وقت کو اپنی مٹھی میں بند کر کے رکھنے والی۔۔ وقت کو اپنے حساب سے چلانے والی۔۔ راٸل پرنسز۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورے پندرہ منٹ بعد وہ اسی دروازے سے واپس پہلے والے کمرے میں آٸ تھی۔۔ دیوار گیر آٸینے کے سامنے کھڑی ہو کر اس نے اپنا جاٸزہ لیا۔۔ ہر چیز پر فیکٹ تھی۔۔
اس نے ایک براٶن کلر کا پرانے زمانے کا چاٸینز چغہ پہنا ہوا تھا۔۔ جسکی لمبی لمبی کھلی بازوٶں میں اسکے اپنے ہاتھ کہیں چھپ گۓ تھے۔۔ سب کچھ ٹھیک تھا۔۔ پھر اس نے ایک طرف رکھی ہوٸ ہیٹ اٹھاٸ۔۔ جسکا سر پر ایک دو ہاتھ لمبا تکون بنا تھا۔۔ یعنی تکونی چاٸینیز ٹوپی۔۔ اسکو سر پر اوڑھنے کے بعد اس پر لگی ایک ڈوری کھینچ کر اس نے اپنی تھوڑی کے نیچے کی۔۔ البتہ گرے اور گولڈن کلر کے بال شانوں پر بکھرے تھے۔۔ وہ ایک دم تیار تھی۔۔ ایک آخری نظر خود پر ڈالی جس سے اسکی سبز آنکھوں کی چمک مزید بڑھ گٸ۔۔ اور پھر وہ ایک دوسرا دروازہ کھولتی باہر نکل گٸ۔۔
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی سیڑھیاں اتر رہی تھی۔۔ مبادہ کہیں قدموں کی آواز کسی تک پہنچ نا جاۓ اور وہ اسے دیکھ نا کے۔۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ سب سوۓ ہوۓ ہیں تو وہ بھاگتی ہوٸ لاٶنج عبور کرنے کے بعد جہاز ساٸز کے دروازے کے پاس آٸ۔۔
زور لگاکر اسے کھولا۔۔ ایک چرچراہٹ کی آواز ابھری اور وہ زبان دانتوں تلے دباتی باہر نکلی۔۔ دروازہ بند کیا۔۔ اب وہ فل سپیڈ سے لان سے بھاگ رہی تھی۔۔ اور اسکے قدم میں گیٹ کی طرف اٹھ رہے تھے۔۔
مین گیٹ پار کرنے کے بعد وہ باہر سڑک پر آگٸ تھی۔۔ اب وہ بھاگ نہی رہی تھی بلکہ تیز تیز قدم اٹھاتی داٸیں طرف جا رہی تھی جہاں اسکی متوقع سواری کھڑی تھی۔۔
ہوا اور تیز تیز چلنے کے باعث اسکے بال پیچھے کی جانب اڑ رہے تھے۔۔ بے شک وہ چال سے ہی کسی سلطنت کی شہزادی معلوم ہوتی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچ منٹ بعد وہ اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچ گٸ تھی۔۔ جہاں ایک گھوڑا کھڑا تھا۔۔ اسکے پیچھے ایک بگھی لگی تھی۔۔ سفید رنگ کی بگی۔۔
آج پھر لیٹ۔۔ بگھی دان نے اسے پاس آتے دیکھ کر کہا۔۔
سوری۔۔ وہ کہتی بگھی میں سوار ہوگٸ۔۔
اب بگھی کا رخ ایک پہاڑی علاقے کی طرف تھا۔۔ خوبصورت سبزہ زاروں اور جنگلوں سے گزرتے ہوۓ وہ پھر ایک سولہویں صدی میں لوٹ آٸ تھی۔۔ جیسے کسی چاٸینیز شہزادی کی سواری گزر رہی ہو۔۔ اور وہ صرف چہرے کے علاوہ ہر طرح سے ایک چینی لڑکی لگ رہی تھی۔۔ جیسے جیسے منزل قریب آرہی تھی اسکی سبز آنکھوں کی چمک بڑھتی جا رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیس منٹ کے بعد وہ اپنی منزل پر پہنچ چکی تھی۔۔ وہ بگھی سے نیچے اتری۔۔ اور دلچسپی سے سامنے بنی بلڈنگ کی طرف دیکھا۔۔ جو ریسٹو رینٹ یا ہوٹل کے درجے پر تو فاٸز نہیں تھا۔۔ لیکن اگر اسے ڈھابہ کہہ دیتے تو بھی غلط تھا۔۔ وہ ایک قہوہ خانہ تھا۔۔ ایک چاٸنی قہوہ خانہ۔۔ جس سے اٹھتی چاۓ اور قہوے کی دلفریب خوشبو اس تک پہنچ رہی تھی۔۔
اب وہ اس قہوے خانے کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔ صبح صبح کے وقت بھی یہاں پر کافی رونق تھی۔۔ یہ ایک پہاڑی علاقہ تھا۔۔ اور وہ قہوہ خانہ بھی پہاڑ کے اوپر بنا تھا۔۔ پہاڑ زیادہ اونچا نہیں تھا۔۔ بلکہ ایک چھوٹی سی پہاڑی تھی۔۔ جس پر لکڑی سے خوبصورتی کے ساتھ وہ قہوہ خانہ بنایا گیا تھا۔۔
وہ اندر آچکی تھی۔۔ بہت سی لکڑی کی کرسیاں اور ٹیبل فل تھے۔۔ جبکہ کچھ خالی بھی تھے۔۔ وہ چلتے ہوۓ ایک ٹیبل کے پاس آٸ اور پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گٸ۔۔ دھوٸیں اور قہوے کی خوشبو اندر بہت زیادہ پھیلی ہوٸ تھی۔۔
یہاں سب نے ویسے ہی کپڑے پہنے تھے جیسے وہ پہن کر آٸ تھی۔۔ اور اکثریت یہاں چاٸنی لوگوں کی تھی۔۔ بڑے بڑے مٹی اور سلور کے گلاسوں میں وہ نا جانے صبح صبح کیا پی رہے تھے۔ لیکن وہ سب خوش تھے۔۔ انکا شور انکی خوشی بتا رہا تھا۔۔
اسکی نظریں کسی کو ڈھونڈ رہی تھیں۔۔ وہ اسے نظر نہیں آ رہا تھا۔۔
وہ جانتی بھی تھی جسکا وہ انتظار کر رہی تھی وہ اس وقت کہاں ہوگا۔۔ پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوۓ اس قہوے خانے کے پیچھے کی جانب کھلنے والی کھڑکی میں آگٸ۔۔۔
نیچے ایک وادی تھی۔۔ وہاں لکڑی سے گھر بنے تھے۔۔ اور اسکی نظریں وادی میں بنے اس گراؤنڈ کا جاٸزہ لے رہیں تھیں۔۔۔ لیکن خلاف توقع آج وہاں خاموشی تھی۔۔ یعنی سب چلے گۓ۔۔ وہ تھوڑی مایوس ہوٸ اور پھر واپس اپنی جگی پر آکر بیٹھ گٸ۔۔
تقریبا دس منٹ اسے اپنا مطلوبہ شخص آتا دکھاٸ دیا۔۔۔ اسے دیکھتے ہی اسکے ہونٹوں پرمسکراہٹ کے ساتھ سبز آنکھوں کی چمک بھی واپس آگٸ تھی۔۔
اب وہ ایک ٹیبل پر بیٹھ چکا تھا کچھ دیر بعد ایک بیرا قہوے کا کپ اسکے سامنے رکھ چکا تھا۔۔ اور اسے لگا یہی بہترین وقت ہے اس سے ملنے کا۔۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور چلتے ہوۓ اسلے ٹیبل کے پاس جا کر رکی۔۔
ہیلو پروفیسر #ساٸ_چن۔۔۔
میں ہوں #ایش۔۔ #ایش_ولیم۔۔۔
مجھے آپ سے #کنگ_فو سیکھنا ہے۔۔
وہ مسکراہٹ سے کہہ رہی تھی۔۔ اور پروفیسر ساٸ چن نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔ اور پھر اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حرم یونيورسٹی جانے کیلیۓ تیار ہو رہی تھی جب اسکے موبائل پر بیل ہوٸ۔۔ وہ جلدی میں تھی۔۔ موبائل دیکھا تو حورعین کی کال تھی۔۔ اس نے ریسیو کرنے کے بعد فون اسپیکر پر ڈالا اور اسے بیڈ پر رکھ دیا۔۔
سلام دعا کے بعد اب وہ حورعین سے گھر والوں کے متعلق پوچھ رہی تھی۔۔ اور ساتھ ساتھ حجاب کر رہی تھی۔۔
میرا رزلٹ آگیا ہے۔۔ حورعین نے بتایا۔۔ A پلس گریڈ ہے۔۔
واٶٶ۔۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔
اب مجھے نیکسٹ ایڈمیشن لینا ہے۔۔ وہ بتا رہی تھی۔
شکر ہے ورنہ مجھے تو لگا تھا کہ تم سٹڈی نا چھوڑ دو کہیں۔۔ حرم نے کہا۔۔ اب وہ بیڈ پر بیٹھی اور اپنے جوتے نیچے رکھے جنہیں وہ پہننے لگی تھی۔۔
مجھے سول انجينئرنگ میں ایڈمیشن چاہیۓ۔۔ وہ بھی لاہور لیڈز یونيورسٹی میں۔۔ حورعین نے کہا اور حرم کے جوتے پہنتے ہاتھ ایک لمحے کیلیۓ رکے۔۔
یونيورسٹی میں۔۔ ؟؟
ہاں لیڈز یونيورسٹی میں۔۔ حورعین نے کہا۔۔
تم ابھی بی ایس سی انجينئرنگ کرلو۔۔ ماسٹر کرلینا یونيورسٹی سے۔۔ ابھی یونيورسٹی رہنے دو۔۔ حرم نے کہا۔۔
کیوں۔۔ کیوں رہنے دوں۔۔؟؟ حورعین نے غصے سے پوچھا۔۔
کیونکہ امی کے پاس اتنے پیسے نہیں ہونگے کہ وہ اتنی مہنگی یونيورسٹی میں تمہارا ایڈمیشن کروا سکیں۔۔ حرم نے کہا۔۔
کیوں تم ابراڈ جا کر اتنی مہنگی یونيورسٹی میں پڑ سکتی ہو تو کیا میں پاکستان کی کسی یونيورسٹی میں بھی نہیں پڑ سکتی۔۔ اتنی بے ایمانی کیوں۔۔؟؟ حورعین نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا تھا۔۔
اور حرم نے اسکی بات سن کر اپنے دانتوں کو بھینچا جیسے کچھ ضبط کرنا چاہ رہی ہو۔۔
میرا یہ آخری فیصلہ ہے۔۔ مجھے اسی یونی میں پڑھنا ہے۔۔ تم کوٸ مہارانی نہیں ہو جو تمہاری ہر خواہش ہوری ہو اور میری نہیں۔۔ حورعین پتا نہیں کونسا غصہ اس پر اتار رہی تھی۔
حورعین تمیز سے بات کرو۔۔ حرم سے بدتمیزی برداشت نہیں ہوتی تھی۔۔
تو ٹھیک ہے پھر۔۔ امی سے کہو مجھے ایڈمیشن دلواۓ۔۔ وہ دو ٹوک لہجے میں بولی۔۔
ہمممم۔۔ ابھی میں یونيورسٹی جا رہی ہوں۔۔ شام کو کال کرونگی کی تمہیں۔۔ حرم نے کہا اور فون بند کر دیا۔۔ کیونکہ باہر سے وہ فرہاد کی آواز سن چکی تھی۔۔ جو اسے بلا رہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کنگ فو کیوں سیکھنا چاہتی ہیں آپ۔۔ ساٸ چن نے پوچھا۔۔
میرا شوق اور ضرورت دونوں ہیں کنگ فو سیکھنا۔۔ وہ بتا رہی تھی۔۔
جانتی ہو کتنا ٹف ہے۔۔ بچوں یا لڑکیوں کا کھیل نہیں ہے یہ۔۔
جانتی ہوں۔۔ میں بچی نہیں ہو اور میں نے دیکھا ہے کہ آپکے سکول میں لڑکیاں بھی ہیں۔۔ آپ انہیں بھی کنگ فو سکھاتے ہیں۔۔ ایش نے کہا۔۔
وہ عام لڑکیاں نہیں ہیں۔۔ ان میں بہت سے گن ہیں۔۔ اپنی کوٸ ایسی خوبی بتاٶ جسکی وجہ سے میں تمہیں اپنے سکول میں ایڈمیشن دوں۔۔ وہ پوچھ رہے تھے۔۔
مجھے راٸڈنگ۔۔ سوٸمنگ۔۔آتی ہے۔۔ اور میں شام کو باکسنگ کی کلاسز بھی لیتی ہوں۔۔ اور کیا کرنا ہوگا مجھے جسکی بنا پر آپ مجھے کنگ فو سکھاٸیں گے۔۔۔؟؟ وہ پوچھ رہی تھی۔۔
اور ساٸ چن نے چونک کر اپنے سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھا۔۔ جو اتنی عام نہیں تھی جتنی وہ سمجھ رہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بگھی واپس اسی جگہ پر آچکی تھی۔۔ ایش نے بگھی سے چھلانگ لگاٸ اور اپنے گھر کی طرف دھوڑ لگا دی۔۔
سر پر پہنی ٹوپی وہ اتار چکی تھی۔۔ جیسے ہی وہ گیٹ سے اندر داخل ہوٸ تو اسے ایک چہل پہل نظر آٸ تھی۔۔ یعنی سب اٹھ گۓ تھے۔۔
وہ لان پار کرنے کے بعد بڑا سا دروازہ کھول کر لاٶنج میں داخل ہوٸ۔۔ اوربھاگتے ہوۓ سیڑھیاں چڑھنے لگی۔۔
ایش۔۔ نیچے سے اسے مسز ولیم نے پکارا تھا۔۔
یس مام۔۔ وہ رکے بنا ہی بولی۔۔
کہاں جا رہی ہو۔۔۔؟؟
جاگنگ کیلیۓ جانا ہے مام۔۔ چینج کرنے جا رہی ہوں۔۔ وہ کہتے اوپر کہیں غائب ہو چکی تھی۔۔
دس منٹ بعد وہ اسی سپیڈ سے واپس آٸ تھی۔۔
رکو ایش۔۔۔ مسز ولیم نے پھر پکارا۔۔
مام مجھے جاگنگ کیلیۓ لیٹ ہو رہا ہے۔۔ بریک فاسٹ پر ملتے ہیں۔۔ وہ جاگنگ ڈریس میں ملبوس تھی۔۔ کہتے ہوۓ ایک بار پھر بڑا سا لکڑی کا دروازہ پار کر گٸ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ یونيورسٹی آگٸ تھی۔۔ سب سے پہلے ملنے والا شخص رون تھا۔۔ جو اسکے پیچھے لپکا تھا۔۔
تم جانتی ہو نا تم نے کیا کیا ہے۔۔ وہ غصے سے بولا۔۔
میں نے کچھ نہیں کیا۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔
تو بتاٶ پھر کس نے کیا ہے۔۔؟؟
مجھے کیا پتا رون۔۔ وہ رکتے ہوۓ بولی۔۔
ہاۓ حرم۔۔ اس سے پہلے رون کچھ کہتا عرش وہاں آگٸ۔۔
یہ دیکھ رہی ہو۔۔؟؟ وہ اپنے مسلز پر بنے منہ کھولے اینا کونڈا کی طرف انگلی کا اشارہ کر کے بولا۔۔
ہاں تو۔۔ کیا خاص بات ہے اس میں۔۔ حرم نے پوچھا۔۔
یہ انسان کو پورا کا ہورا نگل جاتا ہے۔۔ رون نے اسے ڈرانے کی کوشش کی۔۔
#رونل_مارٹے۔۔۔ عرف رون میں اس سے ڈرتی نہیں ہوں۔۔ انفیکٹ میں نے لاہور میں اپنے جوتے کے ساتھ ایسے سینکڑوں اینا کونڈاز کو ابدی نیند سلایا ہے۔۔ حرم اسے پورے نام سے مخاطب کرنے کے بعد کس قدر خطرناک انداز میں بھولی تھی۔۔
ایناکونڈاز لاہور میں۔۔۔؟؟ رون کے ساتھ ساتھ عرش نے بھی حیرانگی سے اسے دیکھا۔۔
مزاق ہے کیا۔۔ رون کا اسکی بات پر قہقہہ بلند ہوا۔۔ ۔
بالکل بھی نہیں۔۔ وہ سیریس انداز میں بولی۔۔
لاہور میں اینا کونڈا کہاں سے آۓ حرم۔۔۔۔؟؟ عرش نے اسکے کان کے قریب سرگوشی کی۔۔
ہاں ہوتے ہیں۔۔ تم نے نہیں دیکھے کیا۔۔ حرم حیران ہوٸ۔۔
نہیں تو۔۔ عرش نے جواب دیا۔۔
یہ تم دونوں کان میں کیا باتیں کر رہی ہو۔۔ اور حرم اب بچ کر رہنا۔۔ اب میری ٹرن ہے۔۔ تم شاید جانتی نہیں ہو رون کو۔۔ میں جو کرتا ہوں کسی کو بتاتا نہیں ہوں۔۔۔ لیکن تمہیں انفارم کر رہاں ہوں۔۔ بی کٸیر فل۔۔ اب جو ہوگا نا۔۔ وہ تمہاری سوچ میں بھی نہیں ہوگا۔۔ وہ صاف صاف دھمی دیتا چلا گیا۔۔
لمبے بالوں والا جن۔۔ اللہ جانے وہ کونسی آیت ہے جس کو پڑھنے سے یہ منحوس ہم سے دور رہے گا۔۔ حرم نے اسے جاتے ہوۓ دیکھ کر کہا۔۔
پر حرم لاہور میں کس جگہ پر اینا کونڈا پاۓ جاتے ہیں۔۔اور تم نے انہیں اپنے جوتے سے کیسے مارا۔۔۔؟؟ عرش کی سوٸ وہیں اٹکی تھی۔۔
لو۔۔ تمہیں اتنا بھی نہیں پتا۔۔ حرم نے چلتے ہوۓ کہا۔۔ عرش نے بھی اسکا ساتھ دیا۔۔
یار جب لاہور میں بارش ہوتی ہے نا تو اسکے بعد دیواروں کی سراخوں سے باریک باریک بلیک کلر کے سانپ نکلتے ہیں نا۔۔؟؟ وہ عرش کی طرف دیکھ کر بولی۔۔
ہاں۔۔ عرش نے اثبات میں سر ہلایا۔۔
وہی تو۔۔ وہی تو اینا کونڈا ہیں۔۔ میں نے اپنے جوتوں کے ساتھ بچپن میں بہت سے مارے ہیں۔۔ حرم نے تفاخر سے بتایا۔۔
تم ایک ہاتھ کی لمباٸ کے چھوٹے سے سانپ کے بچے کو سو فٹ کے اینا کونڈا سے ملا رہی ہو۔۔ انفیکٹ تم نے اسے اینا کونڈا بنا دیا۔۔ عرش حیران تھی۔۔
ہاں تو اس میں حیران ہونے والی کیا بات ہے۔۔ ؟؟ سانپ تو سانپ ہی ہے نا۔۔ رون بھی آٸندہ مجھے انکی دھمکی دے جر ڈراۓ گا تو نہیں نا۔۔ حرم بتا رہی تھی۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔ عرش کا قہقہہ بلند ہوا۔۔ تم کچھ بھی کہہ دیتی ہو۔۔ کچھ بھی کر دیتی ہو۔رون جیسا انسان بھی کنفیوز ہو جاتا ہے۔۔ وہ ہنس رہی تھی۔۔
Harram you are the great..
یس آٸ نو۔۔۔ حرم نے مسکرا کر کہا۔۔ اور آگے بڑھ گٸ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گرینی۔۔۔۔ وہ اندر داخل ہوا۔۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔۔ اندر آنے کے بعد اس نے کھڑکی سے پردے ہٹاۓ اور کمرے میں روشنی پھیل گٸ۔۔
گرینی۔۔ وہ اب انکی وہیل چیٸر کی طرف متوجہ ہوا۔۔ جس پر گرینی بیٹھی خلاٶں میں کچھ ڈھونڈ رہی تھی۔۔
گرینی۔۔۔ وہ لوٹ آٸ ہے۔۔ وہ پنجوں کے بل نیچے بیٹھتا ہوا بولا۔۔
ایش لوٹ آٸ ہے گرینی۔۔ ایش کے نام پر گرینی نے چونک کر اسے دیکھا۔۔ آنکھوں میں بے یقینی تھی۔۔
یہ دیکھیں۔۔ وہ ایک تصویر گرینی کے سامنے کرتا ہوا بولا۔۔
صرف آنکھوں کے کلر کے علاوہ وہ بنی بناٸ ایش ہے۔۔ وہ کہہ رہا تھا۔۔
گرینی اس تصویر میں موجود لڑکی کو دیکھ رہی تھی جو سفید فراک پہنے ہوۓ تھی۔۔
ایش۔۔گرینی بڑبڑاٸ۔۔ وہ ایش تھی۔۔۔ گرینی کی ایش۔۔
جی گرینی۔۔ میں بہت جلد اسے آپ سے ملوانے لاٶں گا۔۔ وہ ٹھوس لہجے میں کہہ رہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گرینی آپ اسکو سمجھا دیں۔۔ مسز ولیم نے ایش کو ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھتے دیکھا تو گرینی سے کہا۔۔ صبح صبح اسکی شکایتیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔۔ وہ کافی غصے میں تھی۔۔
اب کیا کردیا میں نے مام۔۔۔؟؟ ایش حیران ہوٸ۔۔
وہ جو اتنا بڑا گھنٹا لٹکایا ہوا ہے نا۔۔ اسے اتار دو۔۔ خود چاہے اٹھو یا نا اٹھو پورے ٹاٶن کو اٹھا دیتی ہو۔۔ عام انسانوں کی طرح الارم نہیں لگا سکتی تم۔۔
اتنی مشکل سے میں نے پاسٹ لک کری ایٹ کی ہے۔۔ میں اسے نہیں اتارنے والی۔۔ جسکو پرابلم ہے وہ اپنا گھر ساٶنڈ پروف بنوالے۔۔ یا پھر اپنے کان۔۔
دیکھ رہی ہیں اسکو گرینی آپ۔۔ دن بدن بگڑتی جا رہی ہے۔۔ انہوں نے درمیان سے ایش کی بات کاٹی۔۔
اگر اتنا ہی شوق تھا تو پاسٹ میں پیدا ہو جاتی کسی سولہویں صدی میں۔۔ ماڈرن زمانے میں پیدا ہونے کی کیا ضرورت تھی۔۔ انکا پارہ زیادہ ہی ہاٸ تھا۔۔
شکر ہے میں اکسویں صدی میں پیدا ہوٸ ہوں۔۔ اپنی مرضی سے پاسٹ پریزنٹ اور فیوچر تینوں میں جی سکتی ہوں۔۔ایش نے جوس کا گلاس منہ سے لگاتے ہوۓ کہا۔۔
کیا کرو گی اتنا سب کر کے ایش۔۔؟؟ گرینی نے پوچھا۔۔
گرینی۔۔ لاٸف بہت چھوٹی ہے۔۔ اور ایک ہی لاٸف ہے میرے پاس۔۔ میں آزاد پنچھی کی طرح گزارنا چاہتی ہوں اسکو۔۔ سب کرنا چاہتی ہوں۔۔ ایک ساتھ ماضی حال اور مستقبل جینا چاہتی ہوں۔۔ وہ بتا رہی تھی۔۔
چرچ گٸ تھی تم۔۔۔؟؟ مسز ولیم نے پوچھا۔۔ اور ایش اپنی زبان دانتوں تلے دبا گٸ۔۔
دیکھا گرینی پھر آپ مجھے کہتی ہیں۔۔ میوزک کلاس کیلیۓ اسکے پاس وقت ہے لیکن چرچ جانے کیلیۓ نہیں۔۔ وہ مزید غصہ ہوٸیں۔۔
وہ سب مجھے اٹریکٹ کرتا ہے۔۔ اس لیۓ سب کرتی ہوں۔۔ایش نے جواب دیا۔۔
تو چرچ تمہیں اٹریکٹ نہیں کرتا۔۔ مسز ولیم نے پوچھا۔۔
نہیں۔۔وہ بھلا کی صاف گو تھی۔۔ صاف صاف بتا دیا۔۔ اور مسز ولیم کا چہرہ غصے سے سرخ ہوا۔۔
لو سن لیں گرینی۔۔ کیا کہہ رہی ہے راٸل پرنسز۔۔ ماں باپ اتنے مزہبی ہیں اور بیٹی دیکھو۔۔۔
مجھے کچھ اور چاہیۓ۔۔
آخر ایسی کیا چیز نہیں ہے تمہارے پاس جو تمہیں چاہیۓ۔۔پھر بھی سارا دن بھاگتی رہتی ہو کبھی ادھر تو کبھی ادھر۔۔گرینی نے پوچھا۔۔
کچھ ایسا گرینی جسکی طرف میرے قدم خو بخود اٹھیں۔۔ کچھ ایسا اٹریکٹیو لمحہ جس میں قید ہو کر رہ جاٶں۔۔ کسی ایسی چیز کی تلاش ہے گرینی جو میرے بھاگتے قدموں کو باندھ دے۔۔ چاہے پتھر کا بنادے۔۔ لیکن وہ ہو سب سے جدا۔۔ وہ بتا رہی تھی۔۔۔
ایش۔۔ تم عام انسانوں کی طرح زندگی نہیں گزار سکتی۔۔ مسز ولیم نے پوچھا۔۔
مام اگر عام انسان ہوتی تو گزار لیتی عام انسانوں سی زندگی۔۔ لیکن میں عام نہیں ہوں۔۔ راٸل خاندان میں سے ہوں۔۔ میں ایش ہوں۔۔ ایش ولیم۔۔۔ وہ اب سنجیدہ تھی۔۔
اور مسز ولیم کو لگ رہا تھا کہ انکی وہ خواہش جس میں وہ اپنی بیٹی کو عام انسانوں کی زندگی گزارتے ہوۓ دیکھیں۔۔ وہ کبھی پوری نہیں ہوگی۔۔
باۓ دا وے ڈیڈ کہاں ہیں۔۔؟؟
پہلے تو تم پاپا کہتی تھی نا۔۔۔ اب ڈیڈ کیوں کہتی ہو۔۔۔؟؟
مام پہلے میں چھوٹی تھی۔۔ تب پاپا کہنا اچھا لگتا ہے۔۔ اب میں بڑی ہو ہو گٸ ہوں۔۔ ماڈرن دور ہے تو پاپا کہنا سوٹ نہیں کرتا۔۔
اور مسز ولیم کو لگا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو کبھی بھی سمجھ نہیں سکیں گی۔۔ کبھی وہ پاسٹ میں جیتی ہے ۔۔۔ اور ماڈرن دور میں۔۔
ویل میں جا رہی ہوں۔۔ اور ویٹ مت کرنا آپ لوگ میرا۔۔ آج میری میوزک کلاس ہے اور پھر باکسنگ کلاس۔۔ تو میں۔۔ تھوڑا لیٹ۔۔
تم ایسا کرو گھر ہی نا آیا کرو۔۔ اپنی کلاسز لیتی رہا کرو بس۔۔ مسز ولیم نےغصے سے اسکی بات کاٹی۔۔
اوکے سوری بیوٹی فل لیڈیز۔۔ میں ٹراۓ کروں گی کہ جلدی گھر آجاٶں۔۔ وہ کہتے ہوۓ دونوں کے گال چومنے کے بعد بیگ اٹھا کر باہر کی طرف بڑھ گٸ۔۔
یہ سب آپکے بیٹے کی غلطی ہے۔۔ انہوں نے اتنا سر پر چڑھا رکھاہے ایش کو۔۔ مسز ولیم کی توپوں کا رخ اب گرینی کی طرف تھا۔۔
خیر ہے صبح صبح میری براٸیاں کی جا رہی ہیں۔۔ مسٹر ولیم نے وہاں انٹری مارتے ہوۓ کہا۔۔
سب آپکی بیٹی کی عنایت ہے۔۔ مجال ہے جو کبھی بات سن لے۔۔
جینے دو اسے اسکی زندگی۔۔ یہی دن ہیں زندگی جینے کے۔۔
وہ ایک لڑکی ہے ولیم۔۔ انہوں نے پریشانی سے کہا۔۔
وہ کوٸ عام لڑکی نہیں ہے۔۔ وہ راٸل خاندان ہے۔۔ وہ سب جو سیکھ رہی ہے اسے سیکھنے دو۔۔ اسے سیکھنا بھی چاہیۓ۔۔ مسٹر ولیم نے جواب دیا۔۔
اور ہاں وہ ابھی نادان ہے بچی ہے۔۔ سمجھ جاۓ گی۔۔ گرینی نے کہا۔۔
اگلے منتھ بیس سال کی ہو جاۓ گی وہ۔۔ آپ لوگ اسے بچی کہہ رہے ہیں۔۔
میں نے کہا نا وہ عام لڑکیوں جیسی نہیں ہے۔۔ وہ میری ایش ہے۔۔ وہ میرا بیٹا ہے۔۔ وہ کبھی کچھ غلط نہیں کر سکتی۔۔ مجھے اس پر پورا بھروسہ ہے۔۔ انفیکٹ مجھے اس پر فخر ہے۔۔ مسٹر ولیم کے لہجے میں اپنی بیٹی کیلیۓ پیار ہی پیار بھرا تھا۔۔
اور مسز ولیم اپنے غصے کو اندر ہی کہیں دبا کر رہ گٸ تھیں۔۔ کیونکہ اس وقت کچھ بھی کہنا فضول تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی تو جانِ اسد ٹریٹ کب دے رہی ہو۔۔ رزلٹ کی خوشی میں۔۔ اسد نے مسکراتے ہوۓ پوچھا۔۔وہ ایک دوسرے سے کال پر بات کر رہے تھے۔۔
جب نیکسٹ میرا ایڈمیشن ہو جاۓ گا تب۔۔۔ حورعین نے جواب دیا۔۔
صبح ہی کروالو ایڈمیشن اس میں کونسا بڑی بات ہے۔۔
وہ ایکچوٸلی مجھے لیڈز یونيورسٹی میں ایڈمیشن لینا ہے۔۔ سول انجينئرنگ میں۔۔ اور امی نہیں مان رہیں۔۔ حورعین نے بتایا۔۔
اوو تیری خیر۔۔ تو میری پرنسز کو یونيورسٹی جانا ہے۔۔
ہممم۔۔۔ وہ بولی۔۔
اگر چچی نہیں مان رہی تو رہنے دو۔۔ ویسے بھی جس کالج سے حرم نے گریجوایشن کی ہے وہاں سے تم بھی گریجوایشن کرلو۔۔
میں حرم نہیں اسد۔۔ میں حورعین ہوں۔۔ اور مجھے اپنی زندگی سے جینا ہے۔۔ حرم نے کیا کیا ہے کیا نہیں مجھے اس سے کوٸ مطلب نہیں۔۔ مجھے یونيورسٹی جانا ہے۔۔ اگر آپ میری ہیلپ نہیں کر سکتے تو ٹھیک ہے لیکن بات بات پر مجھے حرم جیسا بننے یا اس کے جیسا کام کرنے پر مجبور مت کیا جاۓ۔۔ تھک گٸ ہوں میں ایک ہی بات سن سن کر۔۔ وہ کافی غصے میں لگ رہی تھی۔۔
اس سے پہلے اسد کچھ کہتا وہ فون بند کر چکی تھی۔۔ اور اسکے بعد سینکڑوں مرتبہ اسد کے ملانے پر بھی نمبر آف تھا۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
❤❤❤❤❤❤
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─