┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 26
پارٹ 1

کوٸ اتنا معصوم اتنا پیارا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ فرہاد صوفے کے پاس پنجوں کے بل بیٹھتے ہوۓ اسکے چہرے کو غور سے دیکھتا ہوا بولا۔۔

جانے کتنے لمحے وہ اسے ایسا ہی دیکھتا رہا۔۔ نظریں ہونٹ کے نیچے چمکتے ہوۓ سیاہ تل پر جمی تھیں۔۔ دل کیا کہ اسے چھو کر محسوس کرے۔۔ 

ابھی نہیں۔۔۔ کبھی پورے حق پورے استحاق کے ساتھ۔۔ جب میرا ٹائم ہوگا۔۔ وہ کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔۔  

حرم۔۔ اس نے اسے جگانے کی کوشش کی۔۔ 

دوبارہ بلانے پر بھی وہ ٹس سے مس نا ہوٸ۔۔ 

لگتا ہے کچھ زیادہ ہی تھک گٸ ہے جو گھوڑے بیچ کر سوٸ ہوٸ ہے۔۔ فرہاد نے جھکتے ہوۓ اسے گود میں اٹھایا اور ایسے ہی اسے کمرے میں لیٹا کر کمبل اوڑھانے کے بعد وہ لیمپ آف کرتا چلا گیا۔۔ 

     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے دن وہ بہت ایکساٸٹڈ تھی۔۔ اسکا یونيورسٹی کا پہلا دن بہت اچھا گزا تھا۔۔ نا کوٸ ریگنگ نا کوٸ بدتمیزی۔۔ وہ خود کو لکی فیل کر رہی تھی۔۔۔ تیار ہونے کے بعد فرہاد نے اسے یونيورسٹی چھوڑا تھا۔۔

یونيورسٹی آتے ہی اسے سب سے پہلے واصے ملا تھا۔۔ 

Good morning sister.. 

واصے خوشگوار لہجے میں کہتا اسکی طرف بڑھا۔۔

Same to you.. 
وہ مسکراٸ۔۔

ٹائم پر آٸ ہو۔۔ جلدی چلو فرسٹ لیکچر شروع ہونے والا ہے۔۔ 

عرش کہاں ہے۔۔ حرم نے پوچھا۔۔ 

وہ کلاس میں ہی ہے۔۔ واصے نے بتایا اور پھر وہ دونوں کلاس کی طرف بڑھ گۓ۔۔

لگاتار ایک ایک گھنٹے کے تین لیکچرز کے بعد وہ اب فری ہوۓ تھے۔ 

حرم بزنس ڈیپارٹمنٹ میں چلتے ہیں۔۔ مجھے کچھ کام ہے۔۔ عرش نے کہا۔۔۔

وہ بزنس ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہوٸیں۔۔۔ حرم نے بیگ سے دو چاکلیٹس نکالی۔۔ اسے میٹھا بہت پسند تھا۔۔ 

ایک عرش کو دی اور دوسری کا ریپر اتارنے لگی۔۔ 

مجھے آج ہوا میں سے خطرے کی بو آرہی ہے۔۔ عرش نے کہتے ہوۓ چاکلیٹ اپنے بیگ میں ڈال لی۔۔

کیسا خطرہ۔۔؟؟ حرم کی اسکی اس حرکت کو حیرت سے نوٹ کیا۔۔ 

وہ آگیا ہے۔۔۔۔ اچانک ایک طرف ایک بلڈنگ پر کھڑے ہو کر ایک لڑکے نے اعلان کیا۔۔اور طرف کھلبلی مچ گٸ۔۔ اس نے سٹوڈنٹس کو بھاگتے ہوۓ دیکھا۔۔ حرم کی سمجھ میں کچھ نا آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔۔ 

اچانک آندھی و طوفان کی رفتار سے کوٸ اسکے پاس سے گزرا۔۔ سپیڈ اتنی تیز تھی کہ حرم ٹھیک سے دیکھ بھی نا پاٸ۔۔ 

اس نے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا تو چاکلیٹ غاٸب تھی۔۔ وہ حیران رہ گٸ۔۔ 

میری چاکلیٹ۔۔؟؟
اور یہ کون تھا۔۔۔؟؟ اس نے عرش کی طرف دیکھا۔۔ یقیناً اسکے پاس سے گزرنے والا اسکی چاکلیٹ اڑھا چکا تھا۔۔ 

#Ron_The_Villan...
عرش نے بتایا۔۔

چند سیکنڈز بعد ایک اور طوفان اسی کی رفتار سے اسکے پاس سے گزا تھا۔۔ 

سوری۔۔ لیکن اب کی بار وہ گزرتے ہوۓ سوری کہہ رہا تھا۔۔ اچانک چند قدم کے فاصلے پر وہ رکا۔۔ سپیڈ تیز تھی۔۔ اسے اپنی رفتار کم انفیکٹ رفتار ختم کرنے پر بڑی مشکل ہوٸ تھی۔۔ 
چرچراہٹ کی ایک آواز فضا میں گونج گٸ۔۔ جو اسکے یوں بریک لگانے پر پیدا ہوٸ تھی۔۔ 

وہ رکا تھا۔۔ پھر اس نے پلٹ کر حرم کی طرف دیکھا۔۔ کچھ حیرانی تھی اسکی نظروں میں اور کچھ بےاختاری بھی۔۔ ایسا کچھ پل کیلیۓ ہوا تھا۔۔ اور پھر جیسے وہ ہوش میں آیا اور دوبارہ پہلے والے طوفان کے پیچھے بھاگا۔۔ 

اب یہ کون ہے۔۔۔؟؟وہ نیلی آنکھوں والا لڑکا۔۔ حرم اسے پہچان چکی تھی۔۔لیکن پھر بھی اس نے پوچھا۔۔ 

#Rem_The_King
عرش نے بتایا۔۔ 

تبھی پھر ایک تیز رفتار سے دھوڑتی ہوٸ لڑکی اسکے پاس آ کر رکی۔۔ 

This is for you.. and sorry for that.. 

اس نے حرم کو ایک چھوٹا سا باکس پکڑایا اور سوری کرتی ان دونوں کے پیچھے بھاگی۔۔ 

حرم کا تو سر چکرا گیا۔۔ اس نے سوالیہ نظروں سے عرش کی طرف دیکھا۔۔ 
#Zee_The_snow_Queen...
عرش نے اسکا بھی تعارف کروایا۔۔
لیکن یہ ہو کیا رہا ہے۔۔؟؟ کوٸ ریس لگی ہے کیا۔۔؟؟

نہیں۔۔ آج رون کی ٹرن ہے۔۔ بس وہی ہو رہا ہے۔۔کل وہ یونيورسٹی سے غائب تھا۔۔ عرش نے بتایا۔۔ 

کیسی ٹرن۔۔۔؟؟ حرم نے پوچھا۔۔ 

ریم اور رون میں پرانی دشمنی ہے۔۔ ہر روز یونيورسٹی میں کچھ نیا پنگا پڑا ہوتا ہے۔۔ یہ سارے ہنگامے رون کرتا ہے۔۔ لیکن ایک بات تو ہے۔۔ چاہے ہی وہ ولن کیوں نا ہو۔۔ لیکن یونيورسٹی کا مزہ اسی سے ہے۔۔ ایسی ایسی پرانک کرتا ہے کہ اگلے بندے کو چاہے ہارٹ اٹیک ہو جاۓ۔۔ 
کل وہ غائب تھا۔۔ اور آج کسی جن کی طرح حاضر ہو چکا ہے۔۔ تبھی میں کہہ رہی تھی کہ خطرے کی بو آرہی ہے۔۔ عرش بتا رہی تھی۔۔ 

اور اس میں کیا ہے۔۔؟؟ حرم نے باکس کی طرف اشارہ کیا۔۔ 

اس میں جو تم سے چاکلیٹ چھینی گٸ ہے۔۔ اسکا ازالہ ہے۔۔ کوٸ گفٹ ہوگا۔۔ دیکھ لو۔۔

لیکن یہ کوٸ گیم ہے کیا۔۔ حرم کی تو حیرت نہیں ختم ہو رہی تھی۔۔

ہاں کچھ ایسا ہی سمجھ لو۔۔ ایک دن رون کی ٹرن ہوتی ہے اور ایک دن ریم کی۔۔ 
جس دن رون کی ٹرن ہوتی ہے اسے یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ بزنس ڈیپارٹمنٹ میں گھس جاۓ۔۔ جتنے لوگوں سےوہ جو بھی چیزیں چھین کر بھاگ سکتا ہے بھاگ لے۔۔ وہ سب اسکی ہو جاتی ہیں۔۔ ریم اسکے پیچھے اس لیۓ ہوتا ہے تا کہ اسے پکڑ سکے۔۔ جیسے ہی جہاں پر بھی ریم نے رون کو ہاتھ لگا دیا وہیں پر گیم اوور۔۔ 

اور یہ باکس ریم اپنے پیسوں سے ان ان سٹوڈنٹس کو دیتا ہے جس سے رون نے کوٸ چیز چھینی ہوتی ہے۔۔ عرش بتا رہی تھی۔۔ 

لیکن بزنس ڈیپارٹمنٹ ہی کیوں۔۔۔؟؟ حرم نے پوچھا۔۔ وہ اب چلتے ہوۓ واپس اپنے کیمپس میں آگٸیں تھیں۔۔ 

کیونکہ ریم بزنس کا سٹوڈنٹ ہے۔۔ اس لیۓ۔۔ اور جب ریم کی ٹرن ہوتی ہے تو وہ یہ کام ساٸنس ڈیپارٹمنٹ میں کرتا ہے۔۔ سیم کام جو رون کر رہا ہے۔۔
اب تم پوچھو گی کہ ساٸنس ڈیپارٹمنٹ ہی کیوں۔۔ ؟؟ عرش نے حرم کی طرف دیکھا۔۔ 

ہاں۔۔ ساٸنس ڈیپارٹمنٹ ہی کیوں۔۔۔؟؟ حرم نے پوچھا۔۔ 

کیونکہ بدقسمتی سے رون ساٸنس کا سٹوڈنٹ ہے۔۔ یعنی وہ ہمارا سینٸر ہے۔۔وہ تو اپنے ڈیپارٹمنٹ کے سٹوڈنٹس کو بھی نہیں بخشتا۔۔۔ ناک میں دم کیا ہوا اس نے سب کے۔۔ عرش نے بے چارگی سے بتایا۔

اووو شٹ۔۔۔نکلو یہاں سے۔۔ عرش نے سامنے بیٹھے ہوۓ رون کو دیکھ کر کہا۔۔ اگر اس نے ہمیں دیکھ لیا نا تو خیر نہیں۔۔ ٹرن اوور ہو چکی تھی۔۔ ریم اسے پکڑ چکا تھا اور اب وہ سٹوڈنٹس سے چھینا ہوا سامان دیکھ رہا ہے۔۔ 

وہ دونوں اب کیفے کی طرف بڑھ گٸیں تھیں۔۔ 

کیا یہ بھی جب ریم ہمارے سٹوڈنٹس سے چیزیں چھینتا ہے تو بدلے میں انکو باکس گفٹ کرتا ہے۔۔ کیونکہ اسے دیکھ کر لگتا تو نہیں کہ اسکا دل اتنا بڑا ہوگا۔۔ حرم نے کہا۔۔

جی بالکل۔۔ یہ تو اپنے ہی ڈیپارٹمنٹ کے سٹوڈنٹس سے چیزیں چھین لیتا ہے۔۔ انہیں کہاں گفٹ دے گا۔۔ لیکن بات یہ ہے کہ ریم کسی سے بھی کوٸ چیز نہیں چھینتا۔۔ وہ بس رون کو بھگاتا ہے۔۔ پوری یونيورسٹی میں۔۔ عرش نے ہنستے ہوۓ کہا۔۔ 

تبھی تو ریم کو کنگ اور رون کو ولن کہا جاتا ہے۔۔ 

وہ دونوں اب ایک ٹیبل پر بیٹھ چکیں تھیں۔۔ 

لیکن اس دشنمی کی وجہ کیا ہے۔۔ ؟؟ حرم نے تجسس سے پوچھا۔۔۔ 

دو ہی چیزیں۔۔ جو پوری دنیا میں دشمنی کی زمہ دار ہیں۔۔ عرش نے جواب دیا۔۔ 

مطلب۔۔۔؟؟

مطلب۔۔ عورت اور عہدہ۔۔ زی ریم کی فرینڈ ہے۔۔ انفیکٹ وہ دونوں آپس میں کزنز ہیں۔۔وہ ریم کو لاٸک کرتی ہے۔۔ جبکہ رون چاہتا ہے کہ زی اسکی فرینڈ بنے۔۔ اور زی مانتی نہیں۔۔ اس وجہ سے۔۔ 

اور دوسری بات عہدے کی تو وہ ہے فٹ بال ٹیم کا کیپٹن۔۔ جو کہ ریم ہے۔۔ جبکہ رون چاہتا ہے کہ اسے کیپٹن بنایا جاۓ۔۔ 

اوووو۔۔۔۔ اچھا۔۔۔۔۔ حرم نے سمجھتے ہوۓ سر ہلایا۔۔

میں اس رون کے بچے کا سر پھاڑ دونگی۔۔ مر جاۓ گا میرے ہاتھوں یہ کسی دن۔۔ اچانک بیلا آگ بگولا سی وہاں آٸ اور دھپ سے انکے ٹیبل پر بیٹھ گٸ۔۔ 

خوبصورت چہرہ غصے کی وجہ سے لال ہو چکا تھا۔۔ 

 رون کا سر تو اس یونی کا ڈین بھی نہیں پھاڑ سکتا۔۔ عرش نے کہا۔۔

لالچی۔۔۔ کمینہ۔۔ منحوس مارا۔۔ میرا نیو واٸلن لے گیا۔۔ 
پتا ہے کتنی مشکل سے پیسے اکٹھے کر کے واٸلن لیا تھا آج میری فرسٹ میوزک کی کلاس تھی۔۔۔۔ وہ چھین کر لے گیا۔۔ بیلا رونے والی ہوٸ پڑی تھی۔۔ 

اچانک حرم کے سامنے والی میز سے کوٸ ٹکرایا تھا۔۔ وہ کوٸ اور نہیں بلکہ واصے تھا۔۔ وہ سوری کرتا انکی طرف بڑھا۔۔

کیا ہوا واصے تم ٹھیک ہو نا۔۔؟؟ اور تمہارا چشمہ کہاں ہے۔۔؟؟ عرش نے واصے کو دیکھتے ہوۓ پوچھا۔۔ واصے کی نظر کافی کمزور تھی تبھی وہ میز سے ٹکرا گیا تھا کیونکہ اسکا چشمہ غاٸب تھا۔۔ 

وہ لے گیا۔۔ واصے نے بیٹھتے ہوۓ کہا۔۔ 

کون۔۔؟؟ حرم نے پوچھا۔۔ 

رون۔۔۔ اور کون۔۔ واصے بھی جلا بیٹھا تھا۔۔ 

حرم کواتنی سیڈ سی سیچویشن میں بھی ہنسی آگٸ۔۔ رون واقعی بڑی پہنچی ہوٸ چیز تھا۔۔ 

ہنس لو۔۔ اور ہنسو سسٹر۔۔۔ جب تمہارا اس سے پالا پڑا نا تب تمہیں پتا چلے گا۔۔ 

لیکن وہ اتنی چیزوں کا کرے گا کیا۔۔ حرم حیران تھی۔۔ 

بیچے گا۔۔ اور پیسے خود رکھے گا۔۔ جو سٹوڈنٹس اپنی چیزیں واپس لینا چاہیں انہیں ڈبل قیمت میں دیتا ہے۔۔ حالانکہ وہ انکی ہی چیز ہوتی ہے۔۔ 

کوٸ اسکی کمپلین کیو نہیں کرتا۔۔ ؟؟ 

ہر کسی کو اپنی جان پیاری ہے۔۔ ایک بار ریم کے گروپ کے ایک لڑکے جمی نے اسکی کمپلین کی تھی۔۔ اسکے ساتھ کیا یوا یہ تم نہیں جانتی۔۔ لیکن جو ہوتا رہے گا وہ اب تم دیکھ لینا۔۔ 

بس کرو اب۔۔ اس منحوس کا نام مت لو میرے سامنے۔۔ بیلا تپی بیٹھی تھی۔۔۔

اب کیسے ملے گا واٸلن۔۔ عرش نے پوچھا۔۔ 

میں ریم کے پاس جا رہی ہوں۔۔ ایک وہ ہی جو میری ہیلپ کر سکتا ہے۔۔ بیلا نے اٹھتے ہوۓ کہا۔۔ 

لیکن وہ تو آپس میں دشمن ہیں نا رون اسکی بات کیوں مانے گا۔۔؟؟ حرم نے پوچھا۔۔

وہ بیسٹ فرینڈز بھی ہیں۔۔ کیا تم نہیں جانتی۔۔ بیلا نے کہا۔۔ 

اور حرم حیران رہ گٸ۔۔ اتنی دشمنی کے باوجود بیسٹ فرینڈز۔۔ 

وشواس نہیں ہوتا ہے نا۔۔ ؟؟ بیلا نے جاتے جاتے کہا۔۔وہ انڈیا سے تھی۔۔۔اور کبھی کبھی ہندی کے لفظ استعمال کرتی تھی۔۔  

But its reality....
عرش نے کہا اور حرم سوچ میں پڑ گٸ۔۔ 

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن پر لگا کر اڑھ رہے تھے۔۔ حرم ایک ماہ لیٹ آٸ تھی اور اسکا پچھلے ایک ماہ کا سلیبس رہتا تھا جسے وہ عرش واصے اور بیلا کے ساتھ مل کو کور کر رہی تھی۔۔ وہ تینوں اسکی ہیلپ کر رہے تھے۔۔ زیادہ وقت انکا لاٸبریری میں گزرتا تھا۔۔ رون کے روز نۓ قصے اسے سننے اور دیکھنے کو ملتے تھے۔۔ کسی پر اسے بہت غصہ آتا اور کسی پر وہ ہنس ہنس لے لوٹ پوٹ ہو جاتی تھی۔۔لیکن صد شکر ابھی تک ڈاٸریکٹلی اسکا رون ولن سے پالا نہیں پڑا تھا۔۔ 

اور ایک ایسا ہی دن تھا جب وہ رون تو کیا باقی سب کی نظروں میں بھی آگٸ تھی۔۔ 

تین لیکچرز اور پھر ایک گھنٹے کی بریک کے بعد ایک لیکچر پوفیسر #جوزف کا ہوتا تھا۔۔ یہ لیکچر سٹڈی سے متعلق نہیں ہوتا تھا بلکہ اس لیکچر میں دنیا کے ہر ٹاپک پر بحث کی جاتی تھی۔۔ سٹوڈنٹس کے کریکٹر کو گریٹ بنانے کیلیۓ پروفیسر مختلف ٹاپکس رکھتے تھے جن کے بارے میں لیکچر کے دوروان ان سے پوچھا جاتا تھا۔۔ اور اس لیکچر میں سارے ڈیپارٹمنٹس کے سٹوڈنٹس ہوتے تھے۔۔ صرف وہی جو اس لیکچر میں انٹرسٹ رکھتے تھے۔۔ 

حرم جو پروفیسر جوزف کے لیکچر اٹریکٹ کرتے تھے۔۔ نٸ نٸ چیزوں کے بارے میں جاننے کو ملتا تھا۔۔ 

پوری کلاس میں خاموشی چھاٸ تھی۔۔ اور پروفیسر مزہب کے بارے میں کچھ بتا رہے تھے کہ اچانک ایک آواز کلاس روم میں گونجی۔۔ 

اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔ 

سب نے چونک کر دیکھا۔۔ آواز کہاں سے آ رہی تھی۔۔ 

پہلے تو حرم بھی حیران ہوٸ پھر اچانک اسے کچھ یاد آیا تو اس نے اپنے بیگ میں ہاتھ مارا اور اس سے اپنا موبائل نکالا۔۔ 

اشھد ان الہ ال اللہ۔۔۔ آواز متواتر سے گونج رہی تھی۔۔ 

یہ ازان الارم تھا۔۔ جو حرم نے اپنے موبائل پر لگایا ہوا تھا۔۔ اسے ازان کا پتا نہیں چلتا تھا تو اس نے الارم لگا لیا۔۔ جب جس نماز کا وقت ہوتا تھا تو ازان اسکے موبائل پر خود بخود شروع ہو جاتی تھی۔۔ اور اسے پتا چل جاتا کہ نماز کا وقت ہو چکا ہے۔۔ اور اب ظہر کا وقت تھا۔۔ تو ازان اپنے وقت پر ہو رہی تھی۔۔ 
 
What the hell is this.. 

پروفیسر نے چونک کر حرم کو دیکھا اور پھر غصے سے کہا۔۔ 

بند کردو اسے۔۔ عرش نے پاس بیٹھی حرم کو کہنی ماری۔۔ 

حرم نے الارم بند کرنے کیلیۓ ہاتھ بڑھایا۔۔ اور پھر اسکے دل کو جانے کیا ہوا کہ اسکا ہاتھ رک گیا۔۔ 

کچھ لوگ حیرت سے حرم اور اسکے ہاتھ میں پکڑے موبائل کو دیکھ رہے تھے۔۔ کیسی پر سکون آواز تھی۔۔   

پروفیسر خود حرم کی جرات پر حیران ہوا۔۔ 

کلاس میں پیچھے چہ میگوٸیاں سی ہو رہیں تھیں۔۔ 

Silence...

پروفیسر نے غصے سے کہا اور سب خاموش ہو گۓ۔۔

جبکہ حرم کی نظریں موبائل پر جمی تھیں۔۔ اس کے لب آہستہ آہستہ ہل رہے تھے۔۔۔ شاید وہ ازان کا جواب دے رہی تھی۔۔   

حی الفلاح۔۔ 
   آٶ کامیابی کی طرف۔۔ 

اذان متواتر سے ہو رہی تھی۔۔ 

اللہ اکبر ۔ہ۔ اللہ اکبر۔۔ 

اللہ سب سے بڑا ہے۔۔ اور اللہ سب سے بڑا ہے۔۔ 

لا الہ ال اللہ ۔۔ 

   اور اس کے سوا کوٸ معبود نہیں۔۔ 

اذان ختم ہوچکی تھی۔۔ الارم خود ہی بند ہو گیا۔۔ 

وہ اور اسکے ساتھ سینکڑوں نان مسلم سٹوڈنٹس کسی ٹرانس کی کیفیت سے باہر آۓ تھے۔۔ 

 Stand up.. 

پروفیسر نے حرم کی طرف اشارہ کیا۔۔ 

وہ کھڑی ہو گٸ۔۔ 

Whats your name..??

حجاب سے وہ اندازہ لگا چکے تھے کہ وہ ایک مسلم لڑکی ہے۔

Harram Noor.. 
حرم نے نام بتایا۔۔ 
Well sorry professer.. 
اب وہ سوری کر رہی تھی۔۔

مجھے کلاس کے بعد میرے آفس میں ملیے گا۔۔ 
پروفیسر نے کہا۔۔ اور حرم کے ساتھ ساتھ واصے اور عرش کے پاٶں کے نیچے سے بھی زمین نکل گٸ۔۔ 

     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب وہ سر جھاۓ پروفیسر جوزف کے آفیس میں انکے ساتھ کھڑی تھی۔۔ 

کیا آپ جانتی ہیں لیکچر کے دوران اسکی طرح کی حرکت کرنا میرے رولز کے خلاف ہے۔۔ پرفیسر نے کہا۔۔ 

آٸ نو پروفیسر۔۔ بٹ ازان کے دوران اسکی رسیپیکٹ نا کرنا ہمارے مزہب کے رولز کے خلاف ہے۔۔ حرم نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔۔ 

رولز بریک کرنے پر میں آپکو بہت سٹریکٹ پنشمینٹ دے سکتا ہوں۔۔ 

اٹس اوکے پروفیسر۔۔ مجھے کوٸ ایشو نہیں۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔
پروفیسر چونکا۔۔ 

اور پنش مینٹ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میں آپکو یونيورسٹی سے نکلوادوں۔۔ پروفیسر نے سختی سے کہا۔۔ 

حرم نے اب کی بار سر اور نگاہیں اٹھا کر پروفیسر کو دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہے تھے۔۔

 جو اپنے مزہب کو ڈیفینڈ نہیں کرسکتا وہ خود کو کیا کرے گا۔۔ میں نے اپنا فرض نبھایا ہے پروفیسر۔۔ آٸ ڈونٹ نو آپکا کیا مزہب ہے۔۔ اگر آپکا مزہب آپکا ضمیر آپکو اس بات کی اجازت دیتا ہے تو ٹھیک ہے۔۔ مجھے کوٸ ایشو نہیں۔۔ 

اور پروفیسر جوزف اسکی بات سن کر حیران رہ گیا۔۔ کوٸ تو بات ہے اس لڑکی میں۔۔ وہ سوچ رہے تھے۔۔ کیونکہ انکے سوالوں کے جواب دینا کسی عام سٹوڈنٹ کے بس کی بات نہیں تھی۔۔۔ 

تو آپ تسلیم نہیں کریں گی کہ آپکی غلطی ہے۔۔  

کیا واقعی میں غلط ہوں پروفیسر۔۔؟؟ حرم نے الٹا سوال کیا۔۔ اگر آپکو لگتا ہے کہ میں نے آپکے رولز بریک کر کے غلطی کی ہے تو اسکے لیۓ میں آلریڈی آپ سے سوری کرچکی ہوں۔۔ بٹ اگر آپکو لگتا ہے کہ اذان کی ریسپیکٹ کر کے میں نے غلطی کی ہے تو ایکسٹریملی سوری۔۔اس بات کیلیۓ میں آپ سے معافی نہیں مانگ سکتی۔۔ حرم نے نظریں جھکاتے ہوۓ کہا۔ 

 آپ مجھ سے بحث کر رہی ہیں۔۔ پروفیسر نے کہا۔۔ 

سوری پروفیسر آپ میرے استاد ہیں۔۔۔ اور ہمارے مذہب میں جو شخص آپکو ایک لفظ بھی سکھا دے تو آپ اس کے غلام بن جاتے ہو۔۔ میری اتنی ہمت کہاں کہ میں اپنے استاد سے بحث کروں۔۔   

کچھ تھا جو پروفیسر کے اندر ہوا تھا۔۔ کچھ ہلا تھا اپنی جگہ سے۔۔ شاید دل تھا جو ڈھرکا تھا۔۔ وہ اپنی چیٸر سے اٹھ کھڑے ہوۓ۔۔ 

Now you can go... but next time be careful..

پروفیسر نے اسے جانے کا کہا۔۔۔ 

Thank you... professor..
حرم نے مسکراتے ہوۓ کہا اور دروازے کی طرف چل پڑی۔۔ البتہ دروازے کے پاس وہ پھر رکی۔۔ 

پروفیسر۔۔۔۔ حرم نے پکارہ۔۔ 

پروفیسر جو کہ کبرڈ کی طرف منہ کر کے کھڑے تھے۔۔ چونک کر اسے دیکھا۔۔ 

لیکن اگر بات میرے مذہب اور میرے اللہ پر آۓ گی تو میں چپ نہیں رہوں گی۔۔۔ شاید آپ سے بحث بھی کرنی پڑھ جاۓ۔۔ لیکن میرا خیال ہے کہ مذہب کو Base بنا کر جھگڑا کرنا بہت بڑی بےوقوفی ہے۔۔ 

Good noon professor.. 

وہ مسکرا کر کہتی دروازہ پار کر گٸ۔۔ اور پرفیسر حیران و پریشان سا کھڑا رہ گیا۔۔ 

          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کہا پروفیسر نے۔۔۔؟؟ عرش اور واصے جو اسکا باہر انتظار کر رہے تھے۔۔ اسے باہر آتا دیکھ کر اسکی طرف لپکے۔۔ 

کچھ بھی نہیں۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔ 

کچھ نہیں کیا مطلب۔۔ اتنی دیر سے وہ تمہیں چاۓ پلا رہے تھے کیا۔۔ عرش نے حیران ہوتے ہوۓ کہا۔۔ 

انہوں نے کہا کہ نیکسٹ ٹائم میں احتیاط کروں۔۔۔ 

کیا واقعی۔۔ واصے حیران ہوا۔۔ وہ دونوں اسکے سارھ ساتھ چل رہے تھے۔۔ جبکہ حرم کا رخ لاٸبریری کی طرف تھا۔۔ 

سیڑھیاں چڑھتے ہوۓ اچانک انکے سامنے کوٸ آیا۔۔ 

رون اپنی لمبی ٹانگ کی مدر سے گزرنے کا راستہ بندکر کے گرل سے ٹیک لگاۓ کھڑا تھا۔۔اسکے پیچھے اسکے دو چیلے کھڑے تھے۔۔ انہیں دیکھ کر ڈر کر عرش اور واصے ایک قدم پیچھے ہو گۓ۔۔ 

یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔ حرم نے غصے سے کہا۔۔ 

کیا تم جانتی ہو میں کون ہوں۔۔ رون نے حرم کو دیکھتے ہوۓ پوچھا۔۔ 

No.. who are you...?

اور حرم کی بات سن کر رون سیدھا ہوگیا۔۔ اسے تو پورا روما جانتا تھا پھر یہ کون تھی جو اسے نہیں جانتی تھی۔۔ 

I am Ron.. the Don.. 
رون نے شان سے کہا۔۔ 

اتنی ٹھنڈ میں بھی وہ بنا بازو کی شرٹ پہنے ہوۓ تھا۔۔ ایک بازو پر بڑا سا اینا کونڈا کا ٹیٹو بنا تھا جو اپنا بڑا سا منہ کھولے کھانے کو تیار تھا جبکہ دوسری بازو پر رون دی ڈون۔۔ انگلش میں لکھا تھا۔۔ لمبے لمبے بال تھے جو آنکھوں کے آگے اور کندھوں تک بکھرے پڑے تھے۔۔ ایک رومال اس نے اپنے ماتھے پر باندھا ہوا تھا۔۔ 

اچھا تو تم ہو وہ منگتے۔۔ جو بچوں سے انکی چیزیں چھین چھین کر بھاگتے ہو۔۔ 
ہاااااااااا۔۔۔۔ کانفیڈنس تو چیک کرو حرم کا۔۔ 

اور اسکی بات ہر واصے اور عرش نے مشکل سے اپنا قہقہہ روکا۔۔ 

انہیں ہنستا دیکھ کر رون کو غصہ آگیا۔۔ لیکن اسے اس بات کی سمجھ نہیں آٸ تھی کہ حرم نے اسے کیا بولا تھا۔۔ 

واٹ۔۔۔ کیا کہا اس نے۔۔ اسے غصہ کرتے دیکھ کر عرش اور واصے کی ہنسی کو بریک لگا۔۔ 

کیا بولا تم نے مجھے۔۔۔؟؟ وہ غصے سے حرم کی طرف بڑھا۔۔ 

منگتا۔۔۔ حرم نے پیچھے ہٹتے ہوۓ کہا۔۔ 

واٹ ڈو یو مین باۓ منگ۔۔۔تا۔۔ رون نے مشکل سے لفظ ادا کیا۔۔ 

خود ہی تو کہا ہے کہ تم ڈون ہو۔۔ پھر خود ہی ڈھونڈ لو مطلب بھی۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔ 
اور واپس جانے کیلیۓ مڑی کیونکہ وہ جان چکی تھی رون انہیں اب لاٸبریری تو جانے نہیں دے گا۔۔ 

رون نے اسکے بیگ کو پیچھے سے پکڑ کر کھینچا۔۔ وہ گرتے گرتے بچی۔۔ 

رون سے پنگا۔۔ رون نے اسکےسر پر تپھڑ مارا۔۔ 

جاٶ پہلے مطلب تو ڈھونڈ لو منگتے۔۔ حرم نے بھی غصے سے کہا۔۔ اور عرش اور واصے کے ساتھ سیڑھیاں اتر گٸ۔۔ ڈر تو اسے بھی لگتا تھا رون سے۔۔ لیکن کیا کرتی وہ۔۔ 

اور ایک شخص ایسا بھی تھا جس نے سارا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور حرم کی باتیں اسے ہنسنے پر مجبور کر گٸ تھیں۔۔ رون اچانک اس پر پڑی۔ وہ ریم تھا۔۔ جو دور کھڑا ہنس رہا تھا۔۔رون غصے سے اسکی طرف بڑھا کیونکہ ریم اردو جانتا تھا۔۔ وہی رون کی مدد کر سکتا تھا۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔

      ❤❤❤❤❤❤


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─