┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 25
پارٹ 2

مووی۔۔۔ زی نے کہا۔۔

نہیں میچ۔۔۔ ڈیرک نے جواب دیا۔۔ 

ہم مووی دیکھنے جارہے ہیں۔۔ زی نے غصے سے اعلان کیا۔۔ 

جی نہیں۔۔ فٹ بال میچ کی پریکٹس کرنی ہے۔۔ ریم تم بتاٶ۔۔ میچ ضروری ہے یا مووی۔۔؟؟ ڈیرک نے آرام سے بیٹھے ریم کی طرف دیکھا جو ان دونوں کی لڑاٸ دیکھ رہا تھا۔۔ 

ایک ہجوم تھا جو یونی کے مین گیٹ کے سامنے کچھ فاصلے پر لگا تھا۔۔ جس میں زی کے گروپ کے سبھی میمبرز تھے۔۔باقی انکی فٹ بال ٹیم کے کھلاڑی تھے۔۔ جھگڑا اس بات پر تھا کہ آج یونی کے بعد وہ لوگ مووی دیکھنے جاٸیں گے۔۔ زی کے مطابق۔۔ جبکہ ڈیرک کہہ رہا تھا کہ نہیں میچ کی پریکٹس کرنی ہے۔۔ 

جھگڑا بڑھتا ہی جا رہا تھا۔۔ آخر جمی ریم کے پاس گیا۔۔ 

پلیز ریم کچھ کرو۔۔ جمی نے کہا۔۔ 

اوکے۔۔ سٹاپ۔۔ چپ کر جاٶ دونوں۔۔ ریم اٹھتے ہوۓ انکے پاس آیا۔۔ 

ٹاس کرتے ہیں۔۔۔ ریم نے کہا۔۔ 

اوکے ڈن۔۔۔ زی نے کہا۔۔ 

کوٸن ہے کسی کے پاس۔۔ ریم نے پوچھا۔۔ 

ہاں یہ لو۔۔۔ جمی نے کوٸن آگے کیا۔۔ 

 تو ٹاس یہ ہے جو سب سے پہلا سٹوڈنٹ گیٹ سے اندر آیا گا اس سے پوچھا جاۓ گا۔۔ 

لیٹس گو۔۔ ریم نے گیٹ کی طرف دھوڑ لگاٸ۔۔ 

کوٸن کو وہ ہوا میں اچھالنے کے بعد مٹھی میں بند کر چکا تھا۔۔  

اوکے ویٹ۔۔ دیکھتے ہیں کون آتا ہے۔۔ ریم کی نظریں گیٹ پر جمی تھی۔۔ 

اور پیچھے ایک بار پھر ڈیرک اور زی کی بحث شروع ہو چکی تھی۔۔ شور اتنا زیادہ ہو گیا تھا۔۔کہ کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔۔

ہے ریم۔۔ لک۔۔ جمی نے گیٹ کی طرف اشارہ کیا۔۔ 

اور ریم چند سیکنڈز کے بعد اسکے سامنے تھے۔۔سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھ کر وہ چونکا تھا۔۔ اپنی بند مٹھی اس نے اسکے سامنے کی۔۔

Match or Movie...??

اس نے پوچھا۔۔ 

Nothing... 

وہ جواب دے چکی تھی۔۔

Match or movie..??

ریم نے حیرانی سے دوبارہ پوچھا۔۔

I say nothing... 

وہ پھر جواب دے چکی تھی۔۔ 

میں نے پوچھا میچ یا پھر مووی۔۔ اب کی بار وہ اردو میں غصے سے پوچھ رہا تھا۔۔۔

اور میں نے کہا کچھ بھی نہیں۔۔ وہ بھی اردو میں جواب دے چکی تھی۔۔ 

What the hell yar.. 

وہ بڑبڑاتا ہوا واپس مڑا۔۔ 

ریم کوٸن چیک کرو۔۔ جمی نے کہا۔۔ 

اور ریم نے اپنی بند مٹھی کھول دی۔۔ 

اور رومان_شاہ۔۔۔ وہ حیرت سے گنگ رہ گیا۔۔ 

کیونکہ کوٸن کی جو ساٸیڈ اوپر تھی وہ صاف تھی۔۔ جیسے مٹ چکی ہو۔

وہ ایک جھٹکے سے مڑا تھا۔۔ وہ لڑکی اب بھی وہیں کھڑی تھی۔۔ 

کوٸن کی صاف ساٸیڈ اس بات کی گواہ تھی کہ میچ اور مووی میں سے کچھ بھی نہیں۔۔ 

اور ہواٶں نے ایک شور مچایا۔۔ اس شور کی آواز زی کے گروپ کے شور سے اونچی تھی۔۔ 

تو رومان شاہ تیار ہو جاٶ۔۔ تمہارے ٹھٹکنے کے دن آگۓ ہیں۔۔ وہ جس نے کبھی مڑ کر نہیں دیکھا تھا۔۔ وہ آج پلٹا تھا۔۔ 

اوو ماۓ گاڈ۔۔ جمی کا منہ حیرت سے کھل گیا۔۔ اسکو کیسے پتا کہ کوٸن بلینک ہے۔۔؟ جمی نے کہا۔۔ اور ریم بھی یہی سوچ رہا تھا۔۔ 
کیا وہ جادوگرنی ہے۔۔ جمی کی حیرت ہی ختم نہیں ہو رہی تھی۔۔ 

کم آن ریم۔۔ ڈیرک نے اسے پکڑ کر کھینچا۔۔ 

ہاۓ۔۔ ایک لڑکی انکے گروپ سے نکل کر اس لڑکی کے سامنے گٸ تھی۔۔

آٸ ایم عریشہ مختار۔۔ وہ اب اپنا تعارف کروا رہی تھی۔۔ ایم فرام پاکستان۔۔ اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔۔ 

اوو ہاۓ۔۔ ایم حرم نور۔۔ اور میں بھی پاکستان سے ہوں۔۔ حرم نے مسکرا کر اسکا ہاتھ تھاما۔۔ 

شکر ہے کوٸ اپنا نظر آیا۔۔ ویسے مجھے پیار سے سب عرش بلاتے ہیں۔۔ وہ اب بتا رہی تھی۔۔ 

آپ نیو ہیں۔۔ مجھے لگ رہا ہے۔۔ عرش نے پوچھا۔۔ 

جی آج فرسٹ ڈے ہے۔۔ حرم ابھی بھی کنفیوز تھی۔۔ 

اوو تو آپ ایک ماہ لیٹ آٸ ہیں۔۔۔ عرش نے پوچھا۔۔ 

جی۔۔ حرم نے مسکرا کر کہا۔۔ 

کس ڑیپارٹمنٹ سے ہیں۔۔ 

ماسٹر ان انواٸرمینٹل ساٸنسز۔۔ حرم نے بتایا۔۔ 

واٶ۔۔ میرا بھی یہی ہے۔۔ چلو ساٸنس ڈیپارٹمنٹ کی طرف چلتے ہیں۔۔ عرش نے کہا۔۔ 

ویسے وہ لوگ کون تھے۔۔؟؟ حرم نے پوچھا۔۔  

یہ بزنس ڈیپارٹمنٹ کے سٹوڈنٹس تھے۔۔ یہ سمجھ لو یونی کی رونق ان سے ہے۔۔ 

حرم چاروں طرف نظریں دھوڑا رہی تھی۔۔ صبح صبح کا ٹائم تھا سٹوڈنٹس اپنے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف آ جا رہے تھے۔۔ 

اور اپنے ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہوتے رومان شاہ نے پلٹ کر ایک نظر اسے دیکھا تھا لیکن وہ اتنے سٹوڈنٹس کے ہجوم میں کہیں کھو گٸ تھی۔۔ وہ بھی سر جھٹکتے ہوۓ اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گیا۔۔ 

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے دو لیکچر لینے کے بعد اب وہ فری تھے۔۔ 
لاٸبریری چلیں۔۔ حرم نے عرش سے کہا۔۔ اب تک دونوں میں کافی انڈرسٹینڈنگ ہو گٸ تھی۔۔ ویسے بھی اسے لاٸبریری دیکھنے کا شوق چڑھا ہوا تھا۔۔ وہ دونوں لاٸبریری کی طرف چل پڑیں۔۔

عرش۔۔ پیچھے سے ایک لڑکے نے آواز دی تھی۔۔ 

دونوں نے مڑ کر دیکھا۔۔ 

پروفسر جوزف کا لیکچر لو گی آج۔۔۔ میں آج نہیں جا رہا انکی کلاس لینے۔۔ 

دبلا پتلا سا۔۔چشمہ لگاۓ۔۔ صاف ستھرے حلیے میں وہ انہی کی عمر کا ایک لڑکا تھا۔۔ 

اچانک اسکی نظر حرم پر پڑھی۔۔ 

واٶ ناٸس۔۔ اس نے حرم کے حجاب کی طرف اشارہ کیا۔۔ 

حرم یہ واصے ہے۔۔ عرش نے لڑکے کا تعارف کروایا۔۔
اظہار
اور واصے یہ حرم نور ہے۔۔ ہماری کلاس میٹ ہے۔۔ آج فرسٹ ڈے ہے۔۔ 

ویلکم سسٹر۔۔ واصے نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ 

اور حرم کو ایک دم اسکے سسٹر کہنے پر بہت خوشی ہوٸ۔۔ حرم کا حلیہ ہی ایسا تھا۔۔ جو واصے کو امپریس کر گیا تھا۔۔ 

تھینک یو واصے۔۔ حرم نے مسکرا کر جواب دیا۔۔ 

کیا میں تم دونوں کو جواٸن کر لوں۔۔ وہ اب پوچھ رہا تھا۔۔ 

Yeah sure.. 

حرم نے جواب دیا۔۔

ویسے بھی میں حرم کو لاٸبریری دکھانے جا رہی ہوں۔۔ 

تم نے سٹوڈنٹ کارڈ بنوالیا حرم سسٹر۔۔ واصے پوچھ رہا تھا۔۔ 

جی یونی آنے کے بعد سب سے پہلا کام وہی کیا تھا۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔ 

بیلا کدھر ہے۔۔آج نظر نہیں آٸ ابھی تک۔۔ واصے نے عرش سے پوچھا۔۔

پتا نہیں مجھے خود نہیں ملی آج۔۔ عرش نے جواب دیا۔۔ حرم خاموشی سے انکی باتیں سن رہی تھی۔۔ 

تم کیوں چپ ہو سسٹر۔۔ واصے نے حرم کی طرف دیکھتے ہوۓ پوچھا۔۔ ایک دم وہ اپنا اپنا سا بن گیا تھا۔۔ 

ویسے ہی۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔

وہ لوگ لاٸبریری پہنچ گۓ تھے۔۔اس طرف کافی خاموشی تھی۔۔ 

حرم بہت ایکساٸٹڈ تھی۔۔ ایک عرصے بعد وہ کتابوں کی دنیا میں واپس جا رہی تھی۔۔ 
The American university of Rome.. 
اس کیلیۓ اچھی ثابت ہوٸ تھی۔۔ صبح سے اب تک اسے دو لوگ جو ملے تھے دونوں ہی اچھے تھے۔۔ 

لاٸبریری کے اندر کافی خاموشی تھی۔۔ 

واٶٶ۔۔ اتنی ساری بکس دیکھ کر حرم نے بے اختیار کہا۔۔ 

سسٹر تمہیں بکس بہت پسند ہیں آٸ تھنک۔۔ واصے نے کہا۔۔ 

ہاں بہت۔۔ حرم نے کھوۓ کھوۓ لہجے میں کہا۔۔ 

کبھی Egypt آیۓ گا آپکو ہسٹری کی بہت سی بکس سے ملواٶں گا۔۔ واصے کہہ رہا تھا۔۔

کیا Egypt.. وہاں کون رہتا ہے۔۔ 

میں Egypt سے ہوں۔۔ واصے نے بتایا۔۔ 

کیا۔۔۔؟؟حرم نے اتنی زور سے کہا کہ کاٶنٹر پر بیٹھی لاٸبریرین نے چونک کر اسکی طرف دیکھا۔۔

ششش۔۔ آہستہ بولو۔۔اتنا اونچا بولنے کی پرمیشن نہیں ہے یہاں پر۔۔ عرش نے اسے ٹوکا۔۔ 

سوری۔۔ حرم نے کہا۔۔ آپ Egypt سے ہو۔۔ واٶٶ۔۔ مجھے وہ بہت پسند ہے۔۔ حرم اب آہستہ آہستہ بول رہی تھی۔۔ 

اوکے۔۔ لاٸبریری سے باہر چلتے ہیں۔۔ میں تم دونوں کو وہاں کی پکس دکھاتا ہوں۔۔ واصے کے کہنے پر وہ دونوں اسکے پیچھے چل پڑیں۔۔ 

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونيورسٹی کے پہلے دن حرم نے صرف وہاں کی سیر ہی کی تھی۔۔ وہ گھوم پھر کر پوری یونی دیکھنا چاہتی تھی لیکن ایک دن میں تو وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ کو بھی پورا نا دیکھ پاتی کہاں پوری یونی۔۔ 

اب وہ ان دونوں کے ساتھ آرکولوجی ڈیپارٹمنٹ میں موجود تھی۔۔ اور یہی تھی وہ دنیا جہاں وہ آنا چاہتی تھی۔۔ ہسٹری ہمیشہ سے اسے اٹریکٹ کرتی تھی۔۔ وہ وہاں بنی ایک ایک چیز کو اپنے ہاتھ سے چھو کر دیکھ رہی تھی۔۔ 

یہ سب کتنا اچھا ہے نا۔۔ کتن اٹریکٹو۔۔ حرم بول رہی تھی جبکہ عرش کو وہاں بلڈنگز ہی دکھاٸ دے رہی تھیں۔۔ اسے کچھ اٹریکٹو فیل نہیں ہوا۔۔ 

یہاں کی سب سے اٹریکٹو چیز یہاں کا گارڈن ہے۔۔ بٹ افسوس اسنو کی وجہ سے وہ پورا کور ہے۔۔ عرش نے بتایا۔۔ 

واٶٶ۔۔ گارڈن بھی ہے۔۔ لیٹس گو۔۔ اسے دیکھتے ہیں۔۔ حرم نے خوش ہوتے ہوۓ کہا۔ 

یار ہم تھک چکے ہیں۔۔ کیا تم نہیں تھکی ابھی تک یونی گھوم گھوم کر۔۔ واصے نے رونا والا منہ بنایا۔۔ 

نہیں بسس گارڈن دکھا دو مجھے اسکے بعد جو تم لوگ کہو گے میں وہی کروں گی۔۔ حرم نے کہا۔۔ 

اور پھر وہ تینوں گارڈن کی طرف بڑھ گۓ۔۔ 

ہر چیز برف سے ڈھکی تھی۔۔ وہاں کے پودے وہاں کے درخت۔۔ وہاں رکھے بینچ۔۔ حرم شاکڈ سی دیکھتی رہی۔۔ 

وہ ویڈیو بنانے لگ گٸ۔۔ 

حرم ہم یہاں پر ہی ہیں۔۔۔ ویڈیو بنانے کی کیا ضرورت ہے پھر۔۔ عرش نے پوچھا۔۔

اپنی کزنز کو دکھاٶں گی۔۔ حرم نے مسکرا کر جواب دیا۔۔ 

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب وہ تینو کیفے میں بیٹھے تھے۔۔ حرم کا پہلا دن تھا اس لیۓ وہ ہر چیز کو غور سے دیکھ رہی تھی جبکہ واصے اور عرش تو پچھلے ایک مہینے سے وہی پر تھے۔۔ وہ لوگ روز انہی چیزوں کو دیکھتے تھے۔۔ 

کیا کھاٶ گی حرم۔۔ یہاں پر سب اٹالین چیزیں ملیں گی۔۔ عرش نے پوچھا اور بتایا۔۔ 

نہیں۔۔ مجھے چاۓ چاہیۓ بسس۔۔ کھانا میں گھر جا کر کھاٶں گی۔۔ حرم نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ 

لو۔۔ ہمیں اتنا گھمایا ہے تم نے۔۔ چل چل کر پیٹ میں درد ہوگیا بھوک کی وجہ سے۔۔ واصے نے کہا۔۔ 

لو دیکھو۔۔ بیلا آگٸ۔۔ عرش نے ایک طرف اشارہ کیا۔۔ حرم نے بھی دیکھا۔۔

نیرو جینز میں شارٹ شرٹ کے اوپر بلو جیکٹ پہنے۔۔ ایک خوبصورت اور سٹاٸلش سی لڑکی انکی طرف بڑھ رہی تھی۔۔ 

ہاۓگاٸز۔۔ سوری آج میں لیٹ ہوگٸ۔۔ بہت مزے کی نیند آٸ ہوٸ تھی۔۔ وہ انکے پاس بیٹھتے ہوۓ بولی۔۔ 

جی۔۔ کیوں نہیں۔۔ یونی کے ولن جو غائب ہیں۔۔۔ دو دنوں سے سب کو سکون کی نیند آرہی ہے۔۔ واصے نے کہا۔۔ 

وہ کبھی بھی ٹپک سکتا ہے۔۔ عرش نے جواب دیا۔۔ 

Fresher...??

بیلا نے حرم سے پوچھا۔۔ 

جی۔۔ حرم نے مسکرا کر جواب دیا۔۔

ناٸس ٹو میٹ یو۔۔ بیلا نے اسکی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔ جسے حرم نے مسکراتے ہوۓ تھام لیا۔۔  

پورے کیفے میں ایک وہ ہی چار لوگ تھے جو اردو بول رہے تھے۔۔ لیکن حرم کو ایک بات کی سمجھ نہیں آٸ کہ وہ کس ولن کی بات کر رہے ہیں۔۔؟؟ 

یہ ولن کون ہے۔۔ ؟؟ بالآخر اس نے پوچھ ہی لیا۔۔  

اور تینوں نے چونک کر اسے دیکھا۔۔ 

تم نہیں جانتی۔۔؟؟ بیلا حیران ہوٸ۔۔ 

یہ کیسے جانے گی۔۔ یہ تو آج ہی آٸ ہے۔۔ عرش نے بیلا سے کہا۔۔ 

اوو آٸ سی۔۔ چلو پھر صبح ملواتے ہیں تمہیں یہاں کے ولن سے۔۔ انفیکٹ وہ فریشر کی بو سونگھتے ہوۓ خود ان تک پہنچ جاتا ہے۔۔ بیلا نے پر اسرار لہجے میں کہا۔۔

کیوں کیا وہ کتا ہے جو پولیس والوں کے پاس ہوتا ہے۔۔ حرم نے معصومیت سے کہا۔۔ 

ہاہاہاہاہاہا۔۔ اور اسکی بات پر ان تینوں کا قہقہہ پڑا تھا۔۔ 

میم۔۔ وہ اس سے بھی پہنچی ہوٸ چیز ہے۔۔ ویٹ اینڈ واچ۔۔ اٹس اے بگسٹ سرپراٸز فار یو۔۔بیلا اب ہنستے ہوۓ اسے بتا رہی تھی۔۔ 

تو یہ تھا حرم کا روم یونی کا فرسٹ گروپ۔۔ اور یہ تھے اسکے فرسٹ فرینڈز۔۔۔۔ واصے، بیلا اینڈ عرش۔۔ 

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہاں ہو۔۔؟؟ حرم جو یونيورسٹی کا ٹائم ختم ہونے کے بعد اب گھر جانے کیلیۓ ریڈی تھی۔۔ تبھی اچانک اسے حورعین کا میسج آیا۔۔ 

یونيورسٹی ہوں۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔ 

شام 5 بجے۔۔۔؟؟ ایوننگ کلاسز سٹارٹ کی ہیں کیا تم نے۔۔؟؟

جی نہیں پاکستان میں پانج بج رہے ہیں جبکہ روما میں تو ابھی دو بجے کا ٹائم ہے۔۔ حرم نے ریپلاۓ کیا۔۔ 

حرم تم کہاں رہتی ہوں۔۔ ہاسٹل یا۔۔ عرش نے اسکے پاس آکر پوچھا۔۔ 

نہیں ہاسٹل نہیں۔۔ میں گھر میں رہتی ہوں۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔ 

اکیلے۔۔؟؟ وہ حیران ہوٸ۔۔ 

نہیں میرے ایک کزن بھی ساتھ رہتے ہیں۔۔ انہی کے ساتھ روما آٸ ہوں۔۔ حرم نے بتایا۔۔ 

فرہاد اسے یونی چھوڑ کر خود اپنے انسٹیٹیوٹ چلا گیا تھا جہاں وہ اسپیشلاٸزیشن کر رہا تھا۔۔ اس نے حرم کو کہا تھا کہ جب وہ فری ہوجاۓ تو بخش بابا کو فون کردے۔۔ وہ لینے آ جاٸیں گے۔۔ کیونکہ خود تو وہ شام کو ہی فری ہوتا۔۔ 

تو ابھی وہ لینے آٸیں گے تمہیں۔۔؟؟

نہیں ڈرائيور۔۔۔ 

ہممم اوکے تب تک ہم تمہارے ساتھ انکا ویٹ کرتے ہیں۔۔ عرش نے کہا۔۔ 

ویسے یونی رات تک بھی خالی نہیں ہوتی۔۔ شام کو پریکٹس ہوگی یہاں پر فٹ بال ٹیم کی۔۔ ارے یاد آیا آج تو زی کا پورا گروپ گراؤنڈ میں موجود ہے۔۔ چلتے ہیں۔۔ انکی پریکٹس دیکھیں گے۔۔ عرش نے کہا۔۔

لیکن اس سے پہلے کہ حرم کوٸ جواب دیتی بخش بابا کی اسے کال آگٸ۔۔ وہ باہر اسکا انتظار کر رہے تھے۔۔ 

سوری مجھے جانا ہوگا۔۔ کل دیکھتے ہیں پریکٹس۔۔ حرم نے معزرت کی۔۔ 

اٹس اوکے۔۔ تم جاٶ۔۔ میں زرا بیلا اور واصے کو ڈھونڈ لوں۔۔ انکے ساتھ ہی ہاسٹل جاٶں گی۔۔ عرش نے کہا۔۔ 

ٹھیک ہے پھر کل ملتے ہیں۔۔ حرم نے کہا۔۔ 

اوکے ٹیک کیٸر۔۔ عرش نے جواب دیا۔۔ 

حرم گیٹ ک طرف چل دی۔۔ 

ایک بار پھر وہ نیلی آنکھوں والا لڑکا جو اسے صبح ملا تھا۔۔ اپنے پورے گروپ کے ساتھ گراؤنڈ کی طرف جاتا ہوا دکھاٸ دیا۔۔ 

اس لڑکے کی آنکهيں کسی سے ملتی ہیں۔۔ ان آنکھوں کو میں نے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔۔ حرم نے سوچا۔۔ 

تبھی اسکے موبائل پر بپ ہوٸ۔۔ 

اون لاٸن آٶ۔۔ حورعین کا میسج تھا۔۔ وہ دیکھ کر مسکرادی۔۔بے شک انٹرنيٹ نے میلوں کے فاصلے پر ہوتے ہوۓ بھی انہیں جوڑ کر رکھا تھا۔۔ 

         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

یہاں سب کچھ بہت اچھا ہے بہت اٹریکٹیو۔۔ یہ ویسی ہی جگہ ہے جہاں میں آنا چاہتی تھی۔۔ اور یہ ویسی ہے دنیا ہے جہاں شزا تم کہتی تھی کہ مجھے ہونا چاہیۓ۔۔ وہ ایکساٸٹڈ سی شزا کو کال پر بتا رہی تھی۔۔ 

یہاں سب کچھ بہت فاسٹ ہے۔۔ لیکن کہیں کچھ ہے جو ٹہر سا گیا ہے۔۔ایسے لگتا ہے کچھ ایسا ہے جو برسوں پہلے شروع ہوا تھا لیکن ابھی تک ختم نہیں ہوا۔۔ کوٸ قصہ کوٸ کہانی۔۔ کچھ تو ہے۔۔ 

 حرم نے چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہوۓ کہا۔۔ وہ بخش بابا کو ڈھونڈ رہی تھی۔۔ 

طلسماتی شہر میں جا کر تم بھی طلسماتی ہوتی جا رہی ہو حرم۔۔ سمجھ سے اوپر کی باتیں کر رہی ہو۔۔ شزا نے کہا۔۔ 

شاید۔۔ حرم مسکراٸ۔۔ لیکن اتنی جلدی کہاں۔۔ ابھی تو بس تین دن ہوۓ ہیں مجھے یہاں آۓ ہوۓ۔۔ 

یہ بھی ہے۔۔ ویسے تم تھک گٸ ہوگی۔۔ رات کو بات کریں گے۔۔ شزا نے کہا۔۔

میں نے ویڈیو بھیجی ہے ایک دیکھنا تم۔۔ حرم نے کہتے ہوۓ فون بند کردیا کیونکہ اب اسے بخش بابا نظر آگۓ تھے۔۔ اور وہ انکی طرف بڑھ گٸ۔۔ 

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 بخش بابا رکیں۔۔ حرم نے گاڑی کے شیشے سے باہر ایک بلڈنگ کو دیکھتے ہوۓ کہا۔۔ یہ بلڈنگ وہ صبح بھی دیکھ چکی تھی۔۔ اور اب پھر اسکی نظر اس بلڈنگ پر پڑھ چکی تھی۔۔ جانے کیوں وہ اسے اپنی اپنی سی لگی تھی۔اپنی طرف کھنچتی ہوٸ۔۔۔اس نے بخش بابا کو رکنے کا کہا۔۔ 

کیا میں اس بلڈنگ کو اندر سے دیکھ سکتی ہوں۔۔ اس نے بخش بابا سے پوچھا۔۔ 

ہاں جی بیٹا ضرور دیکھو۔۔ انہوں نے مسکرا کر جواب دیا۔۔ 

اوکے۔۔ میں بس پانچ منٹ میں آٸ۔۔ وہ کہتے ہوۓ گاڑی سے اتر گٸ۔۔ 

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرہاد ایک کلاس کے بعد ابھی فری ہوا تھا۔۔ صبح سے اب تک اسکی حرم سے بات نہیں ہوٸ تھی۔۔چناچہ موبائل نکالا اور پہلے اسکی لوکیشن چیک کی۔۔ 

وہ یونيورسٹی میں نہیں تھی۔۔ موبائل کسی Law college میں اسکی موجودگی کا پتا دے رہا تھا۔۔ 

یہ یہاں کیا کر رہی ہے۔۔۔ ؟؟ فرہاد نے سوچا۔۔ تبھی اسکا دوست ارباز چلتے ہوۓ اسکے پاس آیا اور فرہاد نے موبائل آف کر دیا۔۔ 

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ روما کا سب سے مشہور اور بڑا لا کالج تھا۔۔ اسے تو لا میں بھی بہت انٹرسٹ تھا۔۔ کیا دنیا کا کوٸ ایسا شعبہ تھا جس میں حرم کو انٹرسٹ نا ہو۔۔ 

وہ بہت توجہ سے کالج کو دیکھ رہی تھی۔۔ سٹوڈنٹس آ جا رہے تھے۔۔ بلیک کوٹ پہنے۔۔ لاٸیرز والے۔۔ جو اسے بہت فیسی نیٹ کرتے تھے۔۔ 

اچانک حرم کو عجیب سا احساس ہوا تو اسے کچھ فاصلے پر ایک لڑکا کھڑا دکھاٸ دیا۔۔ وہ بھی بلیک کوٹ میں تھا لیکن وہ اسے گھور رہا تھا۔۔ 

حرم اسکے اس طرح دیکھنے پر سٹپٹاٸ۔۔ اور اپنے قدم پیچھے کی طرف بڑھا دیے۔۔ 

وہ لڑکا بھی حرم کو پیچھے جاتا دیکھ چکا تھا۔۔ تبھی وہ اسکی طرف بڑھتے ہوۓ چلایا۔۔ 

Hey stop.. i say stop.. 

حرم اسکی آواز سن کر سرپٹ بھاگی تھی۔۔ وہ لڑکا بھی اسکے پیچھے بھاگا۔۔ 

وہ بھاگتے ہوۓ گاڑی تک آٸ۔۔ بخش بابا جلدی چلیں۔۔ اس نے بیٹھتے ہی کہا۔۔ اور بخش بابا نے گاڑی آگے بڑھا دی۔۔ کالج کے گیٹ پر وہ لڑکا اسکی 
فراٹے بھرتی گاڑی کو دیکھ کر رہ گیا۔۔۔ 

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھر آۓ ابھی با مشکل اسے آدھا گھنٹا ہوا ہوگا جب اسے دروازے پر بیل سنائی دی۔۔ آپا ہمیشہ کی طرح کچن میں تھی۔۔ تو وہ خود ہی اٹھ کر دروازے پر آٸ۔۔ لیکن جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا وہاں کوٸ بھی نہیں تھا۔۔ 

اس نے حیرت سے چاروں طرف دیکھا ابھی وہ پلٹنے ہی لگی تھی کہ اچانک اسکی نظر دروازے کے پاس نیچے پڑے ایک کارڈ پر پڑی۔۔ اس نے جھک کر کارڈ اٹھایا۔۔ لیکن جیسے ہی اس بے اسے کھولا تھا تو خوف اور حیرت سے اسکی آنکھیں پھیل گٸیں۔۔ 

”تم اتنی ڈرپوک تو کبھی بھی نہیں تھی۔۔ پھر اب کیا ہوا #ایش۔۔۔“

  دو لاٸنوں پر لکھا جملہ اسکے چہرے کے رنگ اڑا چکا تھا۔۔ لیکن جلد ہی اسکا خوف غصے میں بدل چکا تھا۔۔ 

میں ایش نہیں ہوں ۔۔ وہ غصے سے چلاٸ۔۔ اور کارڈ پھاڑ کر وہیں پھینک دیا۔۔ دروازہ وہ غصے سے بند کر چکی تھی۔۔

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور پھر رات کو وہ کمبل اوڑھے لاٶنج کے صوفے پر بیٹھے فرہاد کو دن بھر روداد سنا رہی تھی۔۔ وہ ایک ایک چیز جو اس نے یونيورسٹی میں دیکھی تھی اسکی تفصيل اسے بتا رہی تھی۔۔ مجال ہو اسکے ہاسپٹل کے بارے میں بھی پوچھا ہو۔۔ بس خود ہی بچوں کی طرح بولے جا رہی تھی۔۔ 

فرہاد اسے اتنا خوش دیکھ کر مسکرا دیا۔۔ 

ایک منٹ میں آیا۔۔ وہ اٹھ کر کچن میں آیا۔۔۔ اسکا ارادہ چاۓ بنانے کا تھا۔۔

پانچ منٹ بعد جب وہ لاٶنج میں واپس آیا تو حرم وہاں بیٹھے بیٹھے صوفے کی ساٸیڈ سے ٹیک لگا کر سو چکی تھی۔۔ 

وہ چاۓ کے کپ میز پر رکھ چکا تھا۔۔ سارا دن گھومنے کی وجہ سے وہ تھک چکی تھی۔۔ اسے پتا ہی نا چلا اور سو گٸ۔۔ 

سوتے ہوۓ اسکا چہرہ بہت ہی معصوم اور پیارہ لگ رہا تھا۔۔ فرہاد بے اختیار اسکی طرف بڑھا۔۔ 

        جاری ہے۔۔۔۔۔۔


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─