┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 25
پارٹ 1

حرم نیچے پورے گھر میں گھومتے ہوۓ ایک ایک کمرے کا جاٸزہ لے چکی تھی البتہ اوپر والے کمرے ابھی باقی تھے۔۔وہ تھک کر لاٶنج میں رکھے صوفے پر بیٹھ چکی تھی۔۔ ابھی بیگ سے موبائل نکالنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ اس سے پہلے ہی موبائل پر بیل ہوگٸ۔۔ 

حرم نے دیکھا تو اسکی امی کی کال تھی۔۔ اس نے مسکراتے ہوۓ کال ریسیو کی اور ان سے باتیں کرنے لگ گٸ۔۔۔ وہ انہیں خوشی سے سب بتا رہی تھی۔۔ کہ اتنے میں بخش بابا اپنی بیوی اور بیٹی کو لے کر آگۓ تھے۔۔ 

اسلام علیکم۔۔ بی بی جی۔۔ انہوں نے آتے ہی سلام کیا۔۔ حرم نے بعد کا کہہ کر فون کاٹ دیا۔۔ 

وعلیکم اسلام۔۔ حرم نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا۔۔ بخش بابا کی بیٹی حرم کی عمر ہی کی تھی۔۔ دونوں حرم کو عجیب عجیب نظروں سے دیکھ رہیں تھیں۔۔ 

معذرت بی بی جی۔۔ ہم صفائی ستھراٸ کرنے کے بعد گھر چلے گۓ تھے۔۔ ابھی آنے کا سوچ رہے تھے جی کہ اتنے میں شانو کے ابا لینے آگۓ۔۔ معاف کردیں جی اگر برا لگا ہو تو۔۔ وہ ڈرتے ڈرتے بول رہی تھی۔۔

ارے کیا کہہ رہی ہیں آپ۔۔ معافی کیوں مانگ رہی ہیں۔۔اور اس میں برا لگنے والی کیا بات ہے۔۔ شرمندہ مت کریں پلیز۔۔ آپ میری امی سے بھی زیادہ عمر کی ہیں۔۔ حرم پیار سے کہہ رہی تھی۔۔ 

رضیہ آپا۔۔ فرہاد خوشی سے کہتا آیا اور بخش بابا کی بیوی کے گلے لگ گیا۔۔ 
کیسی ہیں آپ۔۔؟؟ وہ پیار سے پوچھ رہا تھا۔۔ لگتا تھا وہ اسے بہت اچھے سے جانتا ہے۔۔ 

میں ٹھیک ہوں بیٹا۔۔۔ بہت عرصے بعد آۓ ہو اس بار۔۔ اپنی آپا کی ایک بار بھی یاد نہیں آٸ۔۔ وہ شکوہ کر رہیں تھیں۔۔ جبکہ شانو کی نظریں حرم پر جمی تھی۔۔

یہ تو روشنی بی بی جیسی بالکل بھی نہیں لگتی۔۔ وہ تو جی بہت بری تھی۔۔ غصے والی۔۔ یہ تو بالکل فرہاد بھاٸ جیسی لگتی ہے۔۔بہت اچھی۔۔ اور معصوم بھی۔۔ اللہ دونوں کی جوڑی بھی کتنی اچھی ہے جی۔۔ شکر ہے وہ روشنی بی بی چلی گٸیں۔۔ شانو سوچ رہی تھی۔۔ 

آپا ان سے ملیں آپ۔۔ یہ ہے حرم میری سویٹ سی واٸف۔۔ وہ اب حرم کا تعارف کروا رہا تھا۔۔ 

مل لی ہوں بیٹا۔۔۔ بہت چنگی کڑی ہے۔۔ بہت پیاری بھی۔۔ آپا نے جواب دیا۔۔ 

بخش بابا زیبا بیگم کے خاندان کے پرانے ملازم تھے۔۔ البتہ انہیں ملازموں سے اوپر کا درجہ دیا گیا تھا۔۔ جب زیبا بیگم روما پڑھنے کیلیۓ آٸ تھی۔۔ تب بخش بابا کی نٸ نٸ شادی ہوٸ تھی۔۔ اور پھر ان دونوں کو زیبا بیگم کا خیال رکھنے کیلیۓ اسکے ساتھ ہی روما بیجھ دیا گیا۔۔زیبا بیگم بخش بابا کی بیوی کو آپا کہتی تھیں۔۔ اور انکے دیکھا دیکھی فرہاد اور باقی سب بھی انہیں آپا بلانے لگ گۓ۔۔ زیبا بیگم تو واپس چلی گٸیں۔۔۔ لیکن بخش بابا اور آپا وہی بس گۓ۔۔ وہ روما کے ہو کر رہ گۓ تھے۔۔

بہت بھوک لگی ہے کچھ کھانے کو ملے گا۔۔ فرہاد نے کہا۔۔ 

بس کچھ دیر۔۔ ابھی بناتی ہوں میں۔۔ چل شانو۔۔ وہ شانو کو بلاتی کچن میں چلی گٸیں۔۔ 

تھک گٸ ہو۔۔ وہ حرم کے سامنے آیا۔۔ 

جی۔۔ تھوڑا سا۔۔ حرم نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ 

ٹھیک ہے فریش ہو جاٶ۔۔ پھر کھانا کھا کر سو جانا۔۔ مجھے کچھ کام ہے میں ابھی آیا۔۔ وہ اسکا گال تپھتپھاتے باہر کی طرف بڑھ گیا۔۔

          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرم چینج کرنے کے بعد کچن میں آگٸ۔۔ 
میں آپ لوگوں کی ہیلپ کردوں۔۔ حرم نے پوچھا۔۔ 

ارے بی بی جی آپ۔۔ آپ کچن میں کیوں آٸیں۔۔ ہم ہے نا ہم خود کرلیں گے۔۔ آپا نے جواب دیا۔۔ 

اوو ہو۔۔ یہ آپ مجھے بی بی جی مت بلاٸیں۔۔ہادی کو آپ بیٹا بلاتی ہیں تو مجھے بھی بیٹی کہہ لیں یا پھر حرم جو آپکو اچھا لگے۔۔ وہ وہیں پر اسٹول کھینچ کر ایک طرف کو بیٹھ گٸ۔۔ اور وہ دونوں اسکے اتنے اچھے انداز پر حیران ہوٸیں۔۔ 

تو میں آپکو حرم بھابھی بلا لوں۔۔ شانو نے پوچھا۔۔ 

بلا لو۔۔ حرم نے مسکرا کر جواب دیا۔۔

ویسے مجھے کافی بھوک لگی ہے۔۔ حرم نے کہا۔۔ 

اوو آپ یہ کھا لیں۔۔ شانو نے فریرزر سے ایک سیب نکال کر دیا۔۔ جو بخش بابا کچھ دیر پہلے سارا سامان لاۓ تھے۔۔ 

تھینک یو۔۔ حرم نے سیب پکڑتے ہوۓ کہا۔۔ 

آج سے ہم آپکا سارا کام کیا کریں گے۔۔ صبح صبح آ جاٸیں کریں گے اور رات کو جایا کریں گے۔۔ شانو بتا رہی تھی۔۔ 

جانا کیو ہے آپ لوگوں نے۔۔؟؟ ادھر ہی رہیں ہمارے پاس۔۔ اتنا بڑا گھر ہے۔۔ ویسے بھی میں اتنے بڑے گھر میں کیا کرونگی۔۔ بور ہو جایا کرونگی۔۔ اور ایک بات۔۔ مجھے ڈر بھی لگتا ہے۔۔ حرم نے آگے ہوتے ہوۓ آہستہ سے کہا تو اسکی بات وہ دونوں ہنس دیں۔۔ 

بہت اچھی ہو آپ۔۔ بالکل زیبا جیسی۔۔ آپا نے کہا۔۔ 

کیا واقعی۔۔ حرم حیران ہوٸ۔۔ 

جی۔۔ انہیں بھی اکیلے گھر میں ڈر لگتا تھا۔۔ آپا اب حرم سے ڈر نہیں رہی تھی۔۔ وہ اب بہت کچھ بتا رہی تھی۔۔ جب تک کھانا بنا حرم ان دونوں سے بہت گھل مل گٸ تھی۔۔ باہر رات آہستہ آہستہ اتر رہی تھی۔۔ 

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھانے کی میز پر وہ دونوں اکیلے تھے۔ ۔۔ حرم کو بہت عجیب لگا۔۔ اسے ایک دم سب کی یاد آٸ تو بے اختیار اسکی آنکھوں میں آنسو آگۓ۔۔ فرہاد نے جب دیکھا تو آپا شانو اور بخش بابا کو زبردستی ڈاٸنگ ٹیبل پرکھانے کیلیۓ بلا لیا تا کہ حرم کا دل لگا رہے۔۔ 

اور پھر ان سے باتیں شروع کردیں۔۔ حرم کا دھیان کافی حد تک بٹ چکا تھا۔۔

 کھانے کے بعد وہ لاف چلے گۓ تو حرم اور فرہاد اکیلے رہ گۓ تھے۔۔ 

کیا سوچ رہی ہو حرم۔۔۔ فرہاد کمرے میں آیا تو حرم کو کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوۓ خیالوں میں گم پایا۔۔ 

کچھ نہیں وہ چونک کر باہر آٸ۔۔ میں سوچ رہی تھی کہ اکیلے کیسے رہوں گی۔۔ آپ تو اپنے انسیٹیوٹ چلے جایا کریں گے۔۔ میں کیا کرونگی۔۔ میرا دل نہیں لگے گا ایسے۔۔ مجھے لگتا ہے میں نے یہاں آکر غلطی کر دی ہے۔۔ حرم کو سب لوگ یاد آرہے تھے۔۔ تو جو اسے محسوس ہو رہا تھا اس نے سب بتادیا۔۔ 

نہیں غلطی بالکل بھی نہیں کی۔۔ اور کس نے کہا تم سارا دن گھر میں فارغ رہو گی۔۔ ڈٸیر مجھ سے بھی زیادہ بزی ہو جاٶ گی تم۔۔ 

اچھا۔۔ وہ کیسے۔۔ حرم نے نا سمجھی کہ عالم میں پوچھا۔۔ 

یہ تمہارا دوسرا سرپراٸز۔۔ وہ چلتا ہوا اسکے پاس آیا اور فاٸل اسے تھماٸ۔۔ 

حرم نے حیران ہوتے ہوۓ فاٸل پکڑی۔۔ 

کھولو اسے۔۔ فرہاد نے کہا۔۔ 

اور جیسے ہی حرم نے فاٸل کھول کر اندر موجود ڈاکومنٹس کو دیکھا تو حیرت سے اسکی آنکھیں مزید بڑی ہو گٸیں۔۔ وہ گنگ سی ان فارمز کو دیکھ رہی تھی۔۔ 

یہ۔۔ میرے۔۔ اس سے بھولا بھی نہیں گیا۔۔ 

وہ ایڈمیشن فارمز تھے۔۔ حرم کا ایڈمیشن ہو چکا تھا۔۔ روم یونی میں۔۔ 

جی یہ آپکے ہیں۔۔ فرہاد نے ہنستے ہوۓ کہا۔۔ 

واٶٶٶٶ۔۔ وہ خوشی سے اچھلنے لگی۔۔ آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔۔ وہ پوچھ رہی تھی۔۔اسکا خواب تھا بہت سارا پڑھنے کا۔۔ اسے پاکستان میں بھی کسیی یونی جانے کا موقع نہیں ملا۔۔ اور کہاں کہ روم یونی میں۔۔ وہ شاکڈ نا ہوتی تو کیا کرتی۔۔  

سرپراٸز تھا نا۔۔ فرہاد نے کہا۔۔ 

اتنا اچھا سرپراٸز۔۔ یہ تو روما آنے سے بھی بڑا سرپراٸز ہے۔۔ واٶٶ۔۔ وہ ابھی بے یقینی کے عالم میں تھی۔۔ 

مجھے سمجھ نہیں آرہا آپکو کیسے تھینک یو بولوں۔۔ حرم نے کہا۔۔ 

بہت سمپل ہے۔۔ ویسےمیں نے دو سرپراٸز دیے ہیں تمہیں۔۔ مجھے کیا ملے گا بدلے میں۔۔؟؟ وہ پوچھ رہا تھا۔۔ 

کیا چاہیۓ آپکو۔۔ حرم نے نظریں فارمز پر جماتے ہوۓ ہی پوچھا۔۔ 

جو مانگوں وہ ملے گیا کیا۔۔ فرہاد نے اسکے خوشی سے چمکتے چہرے کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔۔ 

جی جی مانگیں۔۔۔ آج تو حرم آپکو اپنی جان بھی دے دے گی۔۔ وہ اپنی دھن میں بول رہی تھی۔۔ 

سوچ لو۔۔ لہجہ گھمبیر تھا۔۔ حرم ایک دم چونکی۔۔ اور فرہاد کو دیکھتے ہوۓ فاٸل ایک طرف رکھ دی۔۔ 

جی۔۔ بولیں۔۔ وہ اب سنجیدگی سے پوچھ رہی تھی۔۔ 

ایک اسٹرانگ سی Hug۔۔۔۔ فرماٸش بتا دی گٸ۔۔ دونوں ہاتھ سینے پر باندھے وہ اسے ہی دیکھنے میں مگن تھا۔۔ 

کیا۔۔ وہ حیران ہوٸ۔۔ 

جی بالکل۔۔ اتنی کاسٹلی تو کچھ نہیں مانگا میں نے۔۔ 

یہ کیا بات ہوٸ۔۔ وہ منہ پھلاۓ پوچھ رہی تھی۔۔ 

بسس یہی بات ہے۔۔ 

کچھ اور مانگ لیں۔۔ حرم نے بےچارگی سے کہا۔۔ ویسے بھی وہ اس سے فاصلہ رکھتی تھی۔۔ جب کبھی وہ اس کے قریب ہوتا تو وہ پزل ہو جاتی تھی۔۔ اور کہاں خود اسکے قریب جانا۔۔ حرم کی تو سوچ کر ہی جان ہوا ہونے لگی۔۔ 

نہیں بالکل بھی نہیں۔۔ وہ بضد تھا۔۔ اگر تمہیں منظور ہے تو ٹھیک ہے ورنہ رہنے دو۔۔۔
ویسے مجھے لگا تھا کہ تم اپنے ہادی کیلیۓ اتنا تو کر ہی سکتی ہو نا۔۔۔؟؟ ہم بیسٹ فرینڈز ہیں نا۔۔ لیکن اگر دل نہیں مانتا تو اٹس اوکے۔۔ وہ اسکے قریب آتے کہتا ہوا پھر دور چلا گیا۔۔ 

اچھا رکیں۔۔ حرم نے اسے جاتے دیکھا تو پکارا۔۔ اور وہ رک گیا۔۔ 

یہ چیٹنگ کر رہے ہیں آپ۔۔ حرم نے منہ پھلاتے ہوۓ کہا۔۔ 

میں نے فورس تو نہیں کیا نا۔۔ وہ گویا ہوا۔۔ 

یہ فرسٹ اور لاسٹ ٹائم ہے اوکے۔۔۔ پھر کبھی بھی نہیں۔۔ حرم نے انگلی اٹھا کر جیسے وارن کیا۔۔ 

اوکے۔۔ فرہاد کو اسکے انداز پر ہنسی آٸ۔۔ 

پھر وہ کنفیوز کنفیوز سی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اسکی طرف بڑھی۔۔ وہ جینز کی پاکٹس میں ہاتھ ڈالے۔۔ مسکراہٹ دباۓ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ کمرے میں دھیمی دھیمی روشنی پھیلی تھی۔۔ 

حرم نے آنکھیں بند کی اور آہستگی سے اسکے سینے سے لگ گٸ۔۔ ہاتھ پاٶں البتہ کانپ رہے تھے۔۔ ویسے بھی وہ اسکا شوہر تھا کوٸ غیر نہیں۔۔ اتنی رعایت تو اسکو تھی نا۔۔۔ 

اففف۔۔ فرہاد کے لبوں سے نکلا اور اس نے اپنے ہاتھ پاکٹس سے نکال کر اسکے گرد پھیلا دیے۔۔ جہاں کلون کی تیز مہک حرم کے نتھنوں سے ٹکراٸ تھی وہیں اسکے بالوں کی خوشبو فرہاد کے اندر تک اتر گٸ تھی۔۔ سکون اسکی روح تک گیا تھا۔۔ اور وہ سرشار ہو گیا۔۔۔ یہی تو چاہتا تھا وہ۔۔ کہ حرم اسکے اتنے قریب رہے اتنے قریب کہ باقی کوٸ اسے ڈھونڈ نا پاۓ۔۔ 

وہ پزل ہو رہی تھی۔۔ جہاں اسے ٹھنڈ لگ رہی تھی۔۔ وہیں فرہاد کی گرم بازٶں میں سکون سا آگیا تھا۔۔ لیکن اسکے دل کی تیز دھڑکن حرم کو اور بوکھلا رہی تھی۔۔ 

ویسے Hug دس منٹ کی ہے۔۔ وہ بولا۔۔ 

واٹ۔۔۔؟؟ وہ ایک جھٹکے سے الگ ہوٸ۔۔ 

کیوں کیا ہوا۔۔ ہگ میری مرضی کی ہے تو ٹائم ڈیوریشن بھی میری مرضی کا ہوگا نا۔۔ فرہاد نے سنجیدگی سے کہا۔۔ 

بہت بڑے چیٹر ہیں آپ۔۔ حرم نے غصے سے کہا۔۔ 

اوں ہوں ں ں ں۔۔ چیٹر مت بلاٶ مجھے۔۔ فرہاد نے بازو سے پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا۔۔ وہ ایک بار پھر اس سے آ لگی۔۔ 

نہیں تو کیا۔۔ آپ ہیں چیٹر۔۔ حرم نے بازو چھڑواتے ہوۓ غصےسے کہا۔۔ 

اگر مجھے کوٸ چیٹر بولے تو میرا دل مزید چیٹنگ کرنے کو کرتا ہے۔۔ وہ شرارت سے کہہ رہا تھا۔۔ 

اللہ پوچھے آپکو۔۔ حرم کی آواز بھراگٸ۔۔ وہ کیسے بتاتی کہ فرہاد کی قربت اس سے برداشت نہیں ہوتی تھی۔۔ 

سوری۔۔ فرہاد نے اسے ایک دم الگ گیا۔۔ میں مزاق کرتا ہوں یار۔۔ سیریس مت ہوا کرو۔۔ صرف تمہیں خوش دیکھنے کیلیۓ ایسا کرتا ہوں۔۔ تمہیں جان بوجھ کر تنگ کرتا ہوں۔۔ وہ اسکی بھراٸ آواز پر پریشان ہو گیا تھا۔۔ مبادہ کہیں وہ سچ میں رونے نا لگ جاۓ۔۔ وہ حرم سے کافی دور ہوگیا۔۔ 

ہاں تو میں بھی مزاق کر رہی تھی۔۔میں کونسا سیریس ہوں۔۔حرم نے جھکی ہوٸ گردن اٹھا کر ہنستے ہوۓ کہا اور اس سے پہلے فرہاد کچھ سمجھ پاتا وہ چھپاک سے کمرے سے نکل گٸ۔۔

بہت تیز ہوگٸ ہو۔۔ فرہاد نے ہنستے ہوۓ کہا۔۔ لیکن تب تک وہ جا چکی تھی۔۔ 

وہ چلتا ہوا اس کھڑکی میں آیا جہاں کچھ دیر پہلے وہ کھڑی تھی۔۔ کمرے میں جیسمین کی خوشبو پھیلی تھی۔۔ جو حرم کی تھی۔۔ وہ یہ خوشبو استعمال کرتی تھی۔۔ 

ایسی کونسی بات ہے حرم جوتمہیں میرے قریب نہیں آنے دیتی۔۔ وہ کونسی ان دیکھی دیوار ہے جو تمہیں مجھ سے دور رکھتی ہے۔۔ وہ کونسی زات ہے جو ہمارے درمیان ہے لیکن مجھے نظر نہیں آتی۔۔ میں جتنا قریب ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔۔ تم اتنا ہی دور ہو جاتی ہو مجھ سے۔۔ وہ سنجیدگی سے سوچ رہا تھا۔۔ کیونکہ وہ جان چکا تھا۔۔ تھوڑی دیر پہلے اسکے قریب آنے پر حرم رونے والی ہو گٸ تھی۔۔ وہ سوچ رہا تھا لیکن جواب نہیں مل سکا۔۔ 

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلا پورا دن وہ بزی رہی تھی۔۔فرہاد ناشتے کے بعد کسی ضروری کام سے چلا گیا تھا۔۔حرم نے آپا اور شانو کے ساتھ مل کر پورے گھر کی سیٹنگ کی تھی۔۔ اس نے ہر چیز کو اپنے حساب سے سیٹ کیا تھا۔۔ 

ایک چیز جس کا وہ بے صبری سے انتظار کر رہی تھی وہ تھی Snow falling۔۔۔۔ وہ بار بار کھڑکی سے باہر جھانکتی کہ سنو فالنگ شروع ہوٸ کہ نہیں۔۔ 
اس نے کبھی سنو فالنگ دیکھی جو نہیں تھی۔۔ بہت شوق تھا اسے دیکھنے کا۔۔ ویسے تو ہر جگہ برف ہی برف نظر آرہی تھی لیکن جس ٹائم سے وہ آٸ تھی۔۔ ایک بار بھی روما میں سنو فالنگ نہیں ہوٸ۔۔ اور یہی بات اسے غصہ دلا رہی تھی۔۔ 

آپ یہ سنو فالنگ کیو نہیں ہو رہی۔۔ میں کل سے ویٹ کر رہی ہوں۔۔ حرم نے منہ پھلاتے کچن میں لنچ بناتی آپا سے کہا۔۔ اور وہ اسکے پھولے ہوۓ منہ کو دیکھ کر ہنس پڑی۔۔ 

آپ ہنس کیو رہی ہیں۔۔ حرم مزید روہانسی ہوٸ۔۔ 

پلیز سنو فالنگ آجاٶ نا۔۔ دیکھو حرم تمہیں بلا رہی ہے۔۔ میں تمہیں اپنے ہاتھوں پر گرتا ہوا محسوس کرنا چاہتی ہوں۔۔ پلیز کم پلیز۔۔

 وہ کچن کی ونڈو سے باہر کی جانب آسمان کی طرف منہ کر کے سنو فالنگ سے آنے کی ریکویسٹ کر رہی تھی۔۔

وہ کسی کے بلانے پر تھوڑی نا آتی ہے۔۔ اپنی مرضی سے آتی ہے۔۔ اور جتنا تم اب اسکا انتظار کر رہی ہو نا بہت جلد اکتا بھی جاٶ گی اس سے۔۔۔ آپا بتا رہی تھی۔۔ 

ایک بار آ تو جاۓ۔۔ بعد کی بعد میں دیکھی جاۓ گی۔۔ حرم نے کہا۔۔ 

ویسے تمہیں دیکھ زیبا کی یاد آرہی ہے مجھے۔۔ وہ بھی تمہارے جیسی تھی۔۔ ایسی ہی باتیں کرتی تھی۔۔ آپا بتا رہی تھی۔۔ 

اوو مما۔۔ شی از سو بیوٹیفل۔۔ انہیں آنکھیں دیکھیں آپ نے۔۔ بلیو آٸز ہیں مما کی۔۔ اور عالیہ نے ان سے ہی لی ہیں اپنی آنکھیں۔۔ حرم پرجوش سی بتا رہی تھی۔۔ 

حرم بھابھی باہر چلیں۔۔ گھومنے۔۔ میں آپکو ایریا کا چکر لگواتی ہوں۔۔ شانونے کچن میں آ کر کہا۔۔ 

ہاں یہ ٹھیک ہے۔۔ حرم ایک دم اٹھ کھڑی ہوٸ۔۔

شانو۔۔ فرہاد بیٹے کو برا لگے گا۔۔ آپا نے شانو کو ڈانٹتے ہوۓ کہا۔۔ 

ارے اماں نہیں لگتا برا۔۔ میں کرلوں گی فرہاد بھاٸ سے بات۔۔ شانو نے لا پروہی سےجواب دیا۔۔ 

اور ہاں ہادی کونسا گھر پر ہیں۔۔ ویٹ میں اپنا کوٹ لے لوں۔۔۔ اگر ٹھنڈ لگ گٸ نا مجھے تو پھر ڈانٹ ضرور پڑ جاۓ گی۔۔ حرم کہتے ہوۓ کمرے کی طرف بھاگی۔۔ 

ابھی وہ دونوں گیٹ سے باہر نکلی ہی تھیں کہ فرہاد کی گاڑی آکر رکی۔۔ 

کہاں جا رہی ہو دونوں۔۔۔ وہ گاڑی سے باہر نکلتے ہوۓ انکے پاس آکر بولا۔۔ 

وہ میں حرم بھابھی کوبستی کی سیر کروانے جا رہی ہوں۔۔ کیونکہ وہاں فاصلے پر کچھ کچھ ہی گھر بنے ہوۓ تھے اس لیۓ شانو اس ایریے کو بستی کہہ رہی تھی۔۔ 

ہاں۔۔میں نے سوچا میں اسنو فالنگ بھی دیکھ لوں گی۔۔ کب سے ہو ہی نہیں رہی ہے۔۔ میں باہر آٸ ہوں تو شاید اب ہو جاۓ۔۔ یے نا شانو۔۔ حرم نے اس سے پوچھا۔۔ 

اچھاااااا۔۔۔ تمہیں دیکھ کر اسنو فالنگ کیو ہوگی۔۔ فرہاد نے مسکراہٹ دباتے ہوۓ پوچھا۔۔ 

وہ میری فرینڈ ہے نا اس لیۓ۔۔ ایک فرینڈ دوسری فرینڈ کے بلانے پر آ جاتی ہے نا۔۔ تو اس لیۓ اب وہ آ جاۓ گی۔۔ 

ہاہاہاہا۔۔ سو سویٹ۔۔ فرہاد ہنسا۔۔ تمہاری فرینڈ ہے بھی بہت ظالم بچ کر رہنا۔۔ لیکن ابھی تم لوگ باہر نہیں جا سکتے۔۔ فرہاد نے کہا۔۔

لیکن کیوں۔۔ حرم حیران ہوٸ۔۔ 

کیونکہ ہم شاپنگ پر جا رہے ہیں۔۔ کل یونی میں پہلا دن ہے۔۔ اور یہاں موسم کی مناسبت سے کپڑے بھی نہیں ہیں تمہارے پاس۔۔ تو ابھی جانا ہے اور شام سے پہلے واپس آ جاٸیں گے۔۔ فرہاد نے بتایا۔ 

جی حرم بھابھی ابھی چلے جاٸیں آپ لوگ۔۔ شام تک تو برف باری شروع ہو جاۓ گی۔۔ پھر مشکل ہوگا۔۔شانو نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔۔ 

ٹھیک ہے۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔ 

لیکن اس سے پہلے لنچ کرلیں آپ لوگ۔۔ شانو نے کہا۔۔ 

نہیں ہم باہر سے کھا لیں گے۔۔ چلو حرم جلدی کرو دیر ہو رہی ہے۔۔ وہ گاڑی کی طرف بڑھتے ہوۓ بولا۔۔  

اور حرم اسکے پیچھے چل دی۔۔ جبکہ شانو واپس گھر کی طرف مڑ گٸ۔۔ 

         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حرم کو اپنی پسند کے ڈریسز بہت مشکل سے ملے تھے۔۔ وہ روما گھوم رہی تھی۔۔ سب کچھ خوب نما لگ رہا تھا۔۔ سب اچھا لگ رہا تھا اسے۔۔ ہر چیز برف سے ٹھکی ہوٸ تھی۔۔ لوگ موٹے موٹے کوٹ پہنے خود کو چھپاۓ پھر رہے تھے۔۔ ایک وہ تھی جو بہت ایکساٸٹڈ تھی۔۔ وہ ہر چیز کو اپنے ہاتھوں سے چھو کر دیکھ رہی تھی۔۔ انکا لمس اپنے اندر اتار رہی تھی۔۔ اور فرہاد اسے دیکھ رہا تھا۔۔ اسکے پاگل پن پر وہ مسکرا رہا تھا۔۔ 

ایک پل کیلیۓ بھی مسکراہٹ اسکی آنکھوں اور ہونٹوں سے دور نہیں ہوٸ تھی۔۔ یہی چمک تو وہ دیکھنا چاہتا تھا۔۔ 

2سے 3 گھنٹے شاپنگ کرنے کے بعد فرہاد اسے وہاں کے مشہور اٹالین ریسٹورینٹ میں لے آیا تھا۔۔ 

یہاں پر اٹالین کھانے ملتے ہونگے۔۔ میں انہیں کیسے کھاٶں گی۔۔ حرم نے پوچھا۔۔ 

چلو پھر کسی اور میں چلتے ہیں۔۔ ایک ایسا ریسٹورینٹ ہے جہاں تمہاری پسند کے کھانے مل جاٸیں گے۔۔ ویسے اب تم یہاں رہنے آٸ ہو تو یہاں کے کھانے بھی کھاٶ۔۔۔ فرہاد نے کہا۔۔ 

یہاں آٸ ضرور ہوں اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ میں اپنی چواٸس بدل دوں۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔ 

چواٸس بدل ہی جاتی ہے ایک نا ایک دن۔۔ 

لیکن حرم نور کی نہیں بدل سکتی۔۔ میں نٸ چیزیں ایڈ ضرور کرتی ہوں۔۔ لیکن پرانی نہیں چھوڑتی۔۔ اس نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ 

اب وہ اسے دوسرے ریسٹورینٹ لایا تھا۔۔ ماحول سے کھانے کی خوشبو سے ہی پتا چل رہا تھا کہ یہاں دیسی کھانے بنتے ہیں۔۔ 

فرہاد اسے لے کر ایک کونے والی ٹیبل پر آگیا تھا۔۔ بیٹھنے کے بعد اس نے ویٹر کو اشارہ کیا۔۔ 

حرم کی نظریں ماحول کا جاٸزہ لے رہیں تھیں۔۔ اور وہاں کوٸ اور بھی تھا۔۔ جسکی نظریں حرم پر پڑیں اور پھر پلٹنا بھول گٸیں۔۔ 

وہ وہی تھی۔۔ سب کچھ وہی تھا۔۔ وہی چہرہ۔۔ وہی مسکراہٹ۔۔ وہی حجاب۔۔۔وہ تین سال پہلے والی۔۔ ہو بہو وہی۔۔ ایک چیز میں فرق تھا۔۔ وہ تھا آنکھوں کا رنگ۔۔۔ جو گہری سبز آنکھوں کی بجاۓ۔۔ اب شہد رنگ تھا۔۔ 

وہی ڈریسنگ۔۔جس میں خود کو پورا کور کیا ہوا تھا۔۔ تو وہ لوٹ آٸ تھی۔۔۔  

ویٹر آڈر بک کرنے آیا تھا۔۔ فرہاد نے مینیو کارڈ کو حرم کی بڑھا دیا۔۔ 

حرم نے جیسے ہی کارڈ کھولا اندر سے ایک چھوٹا سا کارڈ پھسل کر اسکی گود میں جا گرا۔۔  

”تمہیں یہاں کی بریانی بہت پسند تھی۔۔ ہے نا #ایش۔۔ کیا آج بھی اتنی ہی پسند ہے۔۔؟؟“

وہ لاٸنوں پر لکھا گیا تھا۔۔ حرم نے حیرت سے ویٹر کو دیکھا لیکن وہ وہاں سے تب تک جا چکا تھا۔۔ اور اسکی جگہ دوسرا ویٹر آتا دکھاٸ دیا۔۔ 

یہ دوسری بار ہوا تھا۔۔ پہلی بار اسے لگا غلطی سے کسی نے کارڈ اور پھول بیجھ دیے تھے۔۔ لیکن دوبارہ وہی غلطی کون کر گا۔۔ مخاطب تو ابھی بھی ایش ہی تھی۔۔ مگر وہ تو ایش نہیں تھی۔۔ 

کیا ہوا حرم۔۔ فرہاد نے اسے خاموش دیکھا تو پوچھا۔۔ 

یہ کارڈ۔۔ اس نے کارڈ فرہاد کی طرف بڑھا دیا۔۔

غلطی سے آگیا ہوگا۔۔ فرہاد نے کارڈ کو ایک طرف رکھتے ہوۓ کہا۔۔ 

ہمم تو بتاٶ پھر کیا کھانا ہے۔۔؟؟

بریانی۔۔ وہ بے اختار بولی تھی۔۔ اور پھر کھانے کے دوران بھی اسکا زہن اٹکا رہا۔۔ شاید غلطی سے آگیا ہو۔۔ شاید یہاں کوٸ ایش ہو۔۔ اس نے سر جھٹکتے ہوۓ خیالوں کو زہن سے نکالا۔۔ 

   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  وہ شام کے وقت گھر پہنچے تھے۔۔ آپا اور شانو انکا ہی انتظار کر رہی تھیں۔۔ 

سوری آپا تھوڑا لیٹ ہو گۓ۔۔ حرم نے شاپنگ بیگز ایک ساٸیڈ پر رکھتے ہوۓ کہا۔۔ میں جیسے ڈریسز ڈھونڈ رہی تھی وہ بہت مشکل سے ملے ہیں۔۔ 

کوٸ بات نہیں۔۔ دیر سویر تو ہو ہی جاتی ہے۔۔ آپا نے کہا۔۔ 

آپکی شاپنگ دیکھ لوں۔۔ شانو نے پوچھا۔۔ 

ہاں جی دیکھ لو۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔ 

اور یہ آپ لوگوں کیلیۓ۔۔ فرہاد نے تین بیگ آپا کی طرف بڑھاۓ۔۔ 

ارے بیٹا اسکی کیا ضرورت تھی۔۔ بخش بابا نے کہا۔۔ 

رکھ لیں آپا۔۔ حرم نے خریدے ہیں۔۔ آپ لوگوں کیلیۓ۔۔ فرہاد نے کہا۔۔ اور پھر آپا نے بیگز پکڑ لیۓ۔۔ 

اچھاا تو ہم چلتے ہیں۔۔ شام ہوچکی ہے۔۔ آپا نے اٹھتے ہوۓ کہا۔۔ 

سب کچھ بنا کر فریزر میں رکھ دیا ہے۔۔ باقی حرم بیٹی کو میں نے ہر چیز کا بتادیا تھا۔۔ کوٸ مسٸلہ ہو تو مجھ سے فون پر پوچھ لینا۔۔ 

کوٸ بات نہیں۔۔ آپ لوگ بے فکر ہو کر جاٸیں۔۔ فرہاد نے ہنستے ہوۓ کہا۔۔

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان لوگوں کے جانے کے بعد حرم کچن میں چاۓ بنانے آٸ تھی۔۔ صبح سے اب تک اسے گھر والوں کو کتنے فون آچکے تھے مگر کسی سے بھی ٹھیک سے بات نہیں ہوٸ تھی۔۔ اس سوچتے ہوۓ چاۓ کیلٕۓ پانی ڈال کر پتیلی برنر پر رکھی۔۔ 

صبح میں یونيورسٹی جاٶں گی وہ بھی روم میں۔۔ اسے سوچ کر ہی خوشی ہو رہی تھی۔۔ اچانک اسکی نظر اپنے ہاتھوں پر پڑی۔۔ جن پر مہندی لگی ہوٸ تھی۔۔ اور چوڑیاں بھی پہنی ہوٸیں تھیں۔۔ یہ سب دادو نے پہنایا تھا اسے۔۔ اور سختی سے کہا تھا کہ سہاگ کی نشانی ہے اتارنا مت۔۔ 

میں یہ پہن کر یونی جاٶں گی۔۔ ؟؟ اتار دیتی ہوں کونسا دادو یہاں پر ہیں۔۔ اور مما نے بھی کہا تھا کہ اگر دل نا مانے تو اتار دینا۔۔ 

اس نے چوڑیاں اتار کر ساٸیڈ پر رکھیں اور پھر کچن میں بنے سنک پر کھڑے ہو کر مہندی اتارنے لگ گٸ۔۔ کافی کوشش کے بعد مہندی کا رنگ کافی حد تک ہلکا ہو چکا تھا۔۔ 

اچانک اسکی نظر ونڈو سے باہر لان میں پڑی۔۔ اور پھر ساکت رہ گٸیں۔۔۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے باہر کا نظارہ دیکھ رہی تھی۔۔ 

باہر اسنو فلنگ ہو رہی تھی۔۔ جس کا وہ کل سے انتظار کر رہی تھی۔۔ وہ چیخ مار کا باہر کی طرف بھاگی۔۔ 

دروازے سے باہر آنے کے بعد وہ رک چکی تھی۔۔۔ شام کی ہلکی ہلکی روشنی میں اسنو فالنگ کا منظر اسے ششدرہ کر گیا تھا۔۔ اس نے دھیرے سے اپنا ایک پاٶں لان میں رکھا۔۔ جہاں برف پڑھ رہی تھی۔۔ اور پھر دایاں ہاتھ بھ باہر نکالا۔۔ 

کچھ روٸ کے گالے اسکی ہتیھلی پر آکر گرے تھے۔۔ حرم نے انہیں محسوس کیا تھا۔۔ وہ واقعی ہی اسنو تھی۔۔ 

اسنے ایک اور خوشی سے چیخ ماری اور لان میں دوڑ گٸ۔۔ اب وہ چاروں طرف گھوم رہی تھی۔۔ اسنو کو اپنے اوپر گرتا محسوس کر رہی تھی۔۔ سب خواب نما تھا۔۔۔ اینیمیٹڈ موویز جیسا۔۔ 

حرم کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔۔ وہ جیسے سب کچھ بھول گٸ تھی۔۔ 

” میں تمہیں روما میں ویلکم کرتی ہوں ڈٸیر اسنو۔۔۔ تم تو ہر سال آتی ہو۔۔ مگر میں تو اس سال ہی آٸ ہوں۔۔ اس لیۓ ابھی ویلکم کر رہی ہوں۔۔ “

وہ خوشی سے چلا رہی تھی۔۔ 

حرم۔۔ کہاں ہو تم۔۔ اسکا موبائل کب سے بج رہا تھا۔۔ فرہاد موبائل ہاتھ میں لے کر اسے ڈھنڈتا ہوا کچن تک آیا تھا۔۔ اور پھر اسے وہاں ناپاکر حیران رہ گیا۔۔ چولہے پر رکھی ہوٸ پتیلی سے دھوٸیں نکل رہے تھے۔۔ اس نے آگے بڑھ کر چولہا بند کیا۔۔ 

کہاں چلی گٸ یہ پاگل لڑکی۔۔ 

حورعین بار بار کال کر رہی تھی۔۔ بالآخر اس نے فون اٹھا لیا۔۔ وہ اس سے باتیں کر رہا تھا کہ اچانک اسکی نظر کچن کی ونڈو سے باہر اچھلتی کودتی حرم پر پڑی۔۔ وہ حیران رہ گیا۔۔ 

   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حرم اب اسنو سے اسنو میں بنا رہی تھی۔۔ اور فرہاد نے باہر آکر حورعین کو ویڈیو کال کا کہا۔۔ اور اسے حرم کی حرکتیں اون لاٸن دکھا رہا تھا۔۔ 

حرم کو فرہاد کے آنے کا احساس ہی نہیں ہوا وہ اپنے کام میں مگن تھی۔۔ 

حرم۔۔ اس نے پکارا تو حرم نے چونک کر دیکھا۔۔ 

ہادی دیکھیں۔۔ میری فرینڈ آگٸ۔۔ یہ دیکھیں سب کتنا اچھا لگ رہا ہے نا۔۔ اور ادھر آپ وہاں کیوں کھڑے ہیں۔۔ میری ہیلپ کریں اسنو مین بنانے میں۔۔ وہ اپنی دھن میں بول رہی تھی۔۔ 

پہلے حورعین سے بات کرلو۔۔ سب اون لاٸن تمہاری حرکتیں دیکھ رہےہیں۔۔ فرہاد نے ہنستے ہوۓ موبائل کی طرف اشارہ کیا۔۔ 

واٶ۔۔ حورعین کی کال ہے مجھے دیں جلدی سے۔۔ میں انہیں بھی دکھاتی ہوں۔۔حرم نے اسنو مین کو چھوڑ کر فٹا فٹ موبائل پکڑا۔۔ 

اور پھر وہ گھنٹا ان سے باتیں کرنے میں لگی رہی۔۔ باہر سے انہیں گھر دکھایا۔۔ اسنو فالنگ ہوتے دکھا رہی تھی۔۔ وہ بہت خوش تھی۔۔ وہ سب بھی خوشی سے اسے دیکھ رہے تھے۔۔

اور فرہاد پچھلے ایک گھنٹے سے اپنی پاگل حرم کے پاگل پن کودیکھ رہا تھا۔۔ 

صابرہ خاتون نے اپنی بیٹی کو اتنا خوش دیکھا تو سکون انکے اندر تک اتر گیا۔۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات ہو چکی تھی۔۔ اب وہ لاٶنج پر رکھے صوفے پر کمبل اوڑھے گھر کے پچھلی جانب کھلنے والی کھڑکی کے شیشے سے ابھی بھی اسنو فالنگ ہوتا دیکھ رہی تھی۔۔

رات کے وقت سفید دودھیا بلب کی روشنی میں وہ منظر اور بھی طلسماتی لگ رہا تھا۔۔ 

فرہاد چاۓ بنا کر لایا تھا جبکہ اسے تو فرصت کہ نہیں تھی۔۔ 

بس کر جاٶ حرم۔۔۔ اسنو فالنگ روز ہی ہوگی۔۔ تم روز دیکھ لیا کرنا۔۔ اگر آج ہی ساری دیکھو گی تو کل کیا کرو گی۔۔ فرہاد نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ 

کل بھی دیکھوں گی نا۔۔ اور جو میرا اسو مین رہ گیا ہے اسے بھی پورا کررونگی۔۔ جواب حاضر تھا۔۔ 

فرہاد نے چاۓ ٹیبل پر رکھی اور پاس ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔۔ 

بات سنو میری۔۔ اس نے حرم کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ کہا۔۔ اور حرم نے حیرانی سے اسے دیکھا۔۔ 

”کل سے تم یونيورسٹی جا رہی ہو۔۔ جہاں تم پہلے کبھی بھی نہیں گٸ۔۔ پاکستان نہیں ہے یہ۔۔ یہاں کا کلچر اور لوگ پاکستان سے بہت الگ ہیں۔۔ وہ بتا رہا تھا۔۔ 

ہر طرح کے لوگ ملیں گے تمہیں۔۔ عجیب بھی اور عجیب تر بھی۔۔ اچھے اور برے دونوں طرح کے۔۔ یونيورسٹی کے اندر میں تمہارے ساتھ نہیں ہونگا۔۔ 

تمہارے کلاس فیلوز کیسے ہیں میں یہ نہیں جانتا۔۔ جتنی تم سمجھدار ہو اس سے زیادہ تم معصوم اور نادان ہو۔۔ 

تم یہاں پر ڈر کر نہیں رہ سکتی۔۔ اپنا کونفیڈینس لوز نہیں کرنا۔۔ کوٸ کیسا ہے کیسا نہیں۔۔ اس بات سے تمہیں مطلب نہیں ہونا چاہیۓ۔۔ وہ اسے سمجھا رہا تھا اور وہ سمجھ رہی تھی۔۔ 

تمہیں اسٹرونگ بن کر رہنا ہے۔۔ یہاں کے لوگوں سے قدم سے قدم ملا کر چلنا ہوگا۔۔ راٸٹ۔۔ 

وہ اسے اور کچھ بھی سمجھا رہا تھا۔۔ گاٸیڈ کر رہا تھا اسے۔۔ 

اور ہواٶں کو اب پتا چلا تھا حرم نے اسے ہادی کیوں بلایا تھا۔۔ 

ہادی یعنی ہدایت دینے والا۔۔ یعنی راہنماٸ کرنے ولا۔۔ یعنی کہ راہنما۔۔۔

اور راہنماٶں کی دنیا میں ایک انسان نے اپنا راہنما پا لیا تھا۔۔ 

     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلی صبح وہ بالکل تیار تھی۔۔ آٸینے میں خود پر آخری نظر ڈالی تھی۔۔ سب کچھ ٹھیک تھا۔۔ حجاب سے ڈھکا ہوا سر۔۔ بلیک جینز پر براٶن کلر کی ٹخنوں سے زرا اوپر تک فراک کی طرح گول آتی شرٹ۔۔ اس پر بلیک کلر کا اوو کوٹ پہنے وہ بالکل کورڈ تھی۔۔ 

وہ نیچے آٸ۔۔ آپا کو سلام کیا اور باہر کی طرف بڑھ گٸ۔۔ 

فرہاد جو اسکا انتظار کر رہا تھا سر سے پاٶں تک اسے دیکھا۔۔ 

اب اسے سمجھ آیا تھا وہ ایسے گاٶن جیسے کپڑے کیوں ڈھونڈ رہی تھی۔۔ وہ ایسے ہی لگ رہی تھی جیسے عبایا پہنا ہو۔۔ 

چلیں۔۔ حرم نے اس سے کہا۔۔ 

ایک منٹ۔۔۔ وہ ادر کی طرف بڑھ گیا۔۔ کچھ دیر بعد آیا تو اسکے ہاتھ میں جوتے والا ایک ڈبا تھا اسکے اندر سے اس نے شوز نکالے تھے۔۔ جو دو انچ کی ایڑھی کے ساتھ موجود تھے۔۔ 

یہ پہن لو۔۔ اور وہ اتار دو۔۔ اس نے حرم کے سلیپر شوز کی طرف اشارہ کیا۔۔ اور حرم شوز چینج کر لیۓ۔۔ جانے اس نے وہ کب خریدے تھے۔۔ 

سارا سفر خاموشی سے کٹا تھا۔۔ تقریباً آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد وہ یونيورسٹی کے گیٹ کے سامنے تھے۔۔ حرم بہت کنفیوز ہو رہی تھی۔۔ 

یہ آگٸ تمہاری یونيورسٹی۔۔ جاٶ اب۔۔ فرہاد نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ 

وہ گاڑی سے اتری.. 

فرہاد نے کہا۔۔ 

تھینک یو۔۔ حرم کے دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔ 

      ❤❤❤❤❤❤❤


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─