┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 24
پارٹ 2

گاڑی ایک خوبصورت گھر کے سامنے جا کر رکی تھی۔۔ تیز ہوا نے تقدیر کی کتاب میں لکھے پنّوں کو آگے کی طرف پلٹا۔۔ حرم جو گاڑی کے شیشے سے باہر دیکھتے ہوۓ جانے کن خیالوں میں کھو گٸ تھی ایک دم چونک کر باہر آٸ۔۔ 
فرہاد گاڑی سے باہر نکل چکا تھا۔۔ بابا بخش نے بھی گاڑی سے نکلنے کے بعد گاڑی کی ڈکی سے سوٹ کیس نکالے جن میں دونوں کا سامان تھا۔۔ 

حرم باہر آٸ۔۔ اس نے ایک نظر چاروں طرف دوڑاٸ۔۔ کتنا خوبصورت منظر تھا۔۔۔ اس اب تک لگ رہا تھا کہ وہ خواب کے زیرِاثر ہے۔۔ 

سامنے انکا گھر تھا۔۔ صرف اسکا اور فرہاد کا۔۔ آغا ہاٶس جتنا تو بڑا نہیں تھا لیکن پیارہ تھا۔۔گھر کے چاروں چرف ایک چھوٹی سی باڑ بناٸ گٸ تھی جو گھر کا احاطہ کرتی تھی۔۔ کوٸ تین فٹ کا لوہے کا ایک گیٹ لگا تھا۔۔ یورپ میں کنٹری ساٸیڈ ایریا میں ایسے ہی گھر ہوتے ہیں۔۔ مشرقی ممالک کی طرح بڑی بڑی دیواریں اور گیٹ نہیں ہوتے۔۔ روڈ سے گھر کا منظر صاف نظر آرہا تھا۔۔ کچھ کچھ فاصلے پر اور بھی گھر نظر آرہے تھے۔۔ یہ ایک کنٹری ساٸیڈ ایریا تھا۔۔ شہر نہیں تھا۔۔ 
ہر طرف سکون ہی سکون تھا۔۔ اور حرم کو ایسی جگہیں بہت فیسی نیٹ کرتی تھیں۔۔ اسے بہت زیادہ شور اور ہنگامہ پسند نہیں تھا۔۔۔

چلیں۔۔ فرہاد کے کہنے پر وہ اس کے ساتھ چلتی ہوٸ۔۔ وہ دونوں آگے پیچھے چلتے چھوٹے سے گیٹ سے گھر کے لان میں داخل ہوۓ۔۔ حرم نے دیکھا کہ لان کی جیسے ریسینٹلی صفائی کی گٸ تھی لیکن اس میں لگے پودے مرجھا گۓ تھے۔۔۔ برف باری ہونے کی وجہ سے برف گھر کے اوپر اور ہر طرف نظر آرہی تھی۔۔ حرم کو ایک طلسماتی منظر لگا تھا۔۔ برف سے ڈھکا کنٹری ساٸیڈ ایریا۔۔ 

جانے وہ منظر اتنا ہی خوبصورت تھا۔۔ وہ سب کو ہی اتنا فیسی نیٹ کرتا تھا۔۔ سب کو اتنا ہی طلسماتی نظر آتا تھا۔۔ یا پھر۔۔ صرف حرم کی آنکھوں میں وہ خوبصورتی تھی جو ہر منظر کو طلسماتی بنا دیتی تھی۔۔   

وہ دونوں وہاں سے گزرتے ہوۓ گھر کے دروازے کے قریب آۓ۔۔ 

بخش بابا۔۔ یہ لاک ہے یا کھلا ہے۔۔ فرہاد نے بخش بابا سے پوچھا۔۔ جو سامان لے کر آرہا تھا۔۔ 

میں کھولتا ہوں صاحب جی۔۔ جاتے ہوۓ میں تالا لگا گیا تھا۔۔ بخش بابا سامان وہیں پر چھوڑ کر تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا انکی طرف بڑھا۔۔ 

بخش بابا کتنی بار کہا ہے مجھے صاحب مت بلایا کریں۔۔ میرا نام لیا کریں۔۔ یا پھر بیٹا بلا لیا کریں۔۔ فرہاد نے کہا۔۔ 

آپکا نام لینے سے میری اوقات تھوڑی نا بدل جاۓ گی صاحب۔۔بخش بابا نے جواب دیا۔۔ 

بخش بابا۔۔ ایسی باتیں مت کیا کریں۔۔ فرہاد نے ناراض ہوتے ہوۓ کہا۔۔ 

بخش بابا تین سے چار سال بعد مل اور دیکھ رہا تھا فرہاد کو۔۔ فرہاد اسے اپنے بیٹوں سے بھی بڑھ کر عزیز تھا۔۔ پچھلے تیس سالوں سے بخش بابا کی فیملی وہاں رہ رہی تھی۔۔ فرہاد نے یہ گھر تین سال پہلے ہی خریدا تھا۔۔ ایک کام تھا روم میں جو اسے کرنا تھا۔۔ لیکن پھر کچھ ناخوشگوار واقعات کی وجہ سے وہ کام بیچ میں ہی رہ گیا۔۔ اب فرہاد وہ کام مکمل کرنے آیا تھا۔۔

بخش بابا کی عمر 60 سال تھی۔۔ لیکن وہ 50 کے ہی نظر آتے تھے۔۔ پر تھے سمجھدار آدمی۔۔

دروازہ کھول دیا گیا۔۔ وہ دونوں اندر داخل ہوۓ۔۔ 

بند گھر میں ایک عجیب سی جو بو پھیلی ہوتی ہے وہ حرم کے نتھنوں سے ٹکراٸ۔۔ اور اسے ایک طمانت کا احساس ہوا۔۔ ایسی چیزیں کس کو اٹریکٹ کرتی ہیں۔۔ کسی کو بھی نہیں ہاں مگر اسکے سوا۔۔ وہ ایک ہی تھی۔۔ حرم نور۔۔ 

 حرم نے چاروں طرف نظر دھوڑاٸ۔۔گھرصاف ستھرا تھا۔۔

کل ہی شانو اور اسکی ماں آ کر صفائی کر گٸ تھی گھر کی۔۔ بخش بابا نے اپنی بیوی اور بیٹی کا بتایا۔۔ 

آپ لوگ بیٹھیں۔۔ میں زراجا کر شانو کی ماں کو لے کر آتا ہوں۔۔ آپ لوگوں کی لیۓ کھانا بنا دے گی۔۔ بخش بابا کہتے ہوۓ گھر سے باہر نکل گیا۔۔ 

     سو یہ رہا آپکا روما کا گھر۔۔۔ کیسا لگا۔۔۔۔ ؟؟ فرہاد نے حرم کے پاس آکر پوچھا۔۔ جو جو گھر کے پچھلی جانب کھلنے والی کھڑکی سے پیچھے کا منظر دیکھ رہی تھی۔۔

So much beautiful.. its really a magical place.. Thank you so much Haadi.. 

حرم نے فرہاد کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ کہا۔۔ اسکی آنکھوں کی چمک اسکی خوشی کا پتا دے رہی تھی۔۔ 

ایسے تھینک یو بولتے ہیں۔۔ فرہاد نے حرم کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔۔ 

اور کیسے کرتے ہیں۔۔؟؟ حرم نے نا سمجھی کے عالم میں پوچھا۔۔ 

یہ تو تمہیں پتا ہونا چاہیۓ۔۔ سوچو۔۔ سوچو۔۔ فرہاد آنکھوں میں شرارت لیۓ۔۔ اس سے اپنا ہاتھ چھڑواتا ایک کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔
 
اور وہیں کھڑی سوچ رہی تھی۔۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اچانک حَرم کی کسی احساس کے تحت آنکھ کھلی تھی۔۔ اسکا سر بھاری ہو رہا تھا۔۔۔ کچھ دیر وہ ایسے ہی لیٹی رہی۔۔ پھر رات کے سارے منظر کسی فلم کی طرح اسکی آنکھوں میں چلنے لگے۔۔ 

ہادی۔۔۔وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔ اپنے داٸیں طرف دیکھا تو اسکے بیڈ کے پاس چیٸر رکھے اس پر فرہاد سویا ہوا تھا۔۔ ایک ہاتھ میں اس نے حرم کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔۔ 

یہ یہاں کیوں بیٹھے ہوۓ ہیں۔۔ وہ آہستہ سے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے نکالتی بیڈ سے نیچے اتری۔۔ فرہاد گہری نیند میں تھا۔۔ 

ہادی اٹھیں۔۔ حرم نے بازو سے پکڑ کر اسے ہلایا۔۔ لیکن بے سود۔۔ صبح کے چار بجنے والے تھے۔۔ 
اففف۔۔ یہ ساری رات ایسے ہی۔۔ حرم کو سوچتے ہوۓ فرہاد پر ترس آیا۔۔ 

ہادی اٹھیں پلیز۔۔ وہ اسے بلا رہی تھی۔۔ ہادی۔۔ حرم نے جھجکتے ہوۓ اسکے گال کو ہاتھ لگایا اور پھر ایک جھٹکے سے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔۔ 

فرہاد کو بہت تیز بخار تھا۔۔ حرم کی ہریشانی بڑھ گٸ۔۔ اب کیا کروں۔۔ اس وقت کس کو اٹھاٶں۔۔ وہ سوچ رہی تھی۔۔  

یہ سب میری وجہ سے ہوا۔۔ وہ ٹہل رہی تھی اور سوچ رہی تھی۔۔ 

 اچانک فرہاد کے وجود میں حرکت ہوٸ۔۔ حرم نے چونک کر اسے دیکھا۔۔ شاید وہ نیند میں بھی اسے پریشان نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔ 

ہادی اٹھیں پلیز۔۔ یہاں کیو بیٹھے تھے آپ۔۔ پلیز اٹھیں۔۔ حرم نے اسے اٹھانے کی کوشش کی۔۔ حرم اسے پکار رہی تھی ایسا ہو سکتا تھا کہ وہ پکارے اور فرہاد نا سنے۔۔ 

اس نے مشکل سے آنکھیں کھولیں۔۔ 
اٹھیں پلیز۔۔ حرم نے اسے سہارا دے کر اٹھانے کی کوشش کی۔۔ لیکن وہ ایک بھر پور نوجوان اس نازک کی لڑکی سے کیسا اٹھایا جاتا۔۔ 

فرہاد اسکی بازو کا سہارا لیتے ہوۓ اٹھا۔۔ حرم نے اسے بیڈ پر لٹا دیا۔۔۔ حرم نے اسے کمبل اوڑھایا۔۔ اور دروازے کی طرف جانے کیلیۓ مڑی ہی تھی کہ فرہاد نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔ 

کدھر جارہی ہو حرم۔۔۔؟؟ فرہاد نے پوچھا۔۔ 

وہ میں۔۔ 

بیٹھ جاٶ یہی ہر پلیز۔۔ کہیں مت جانا۔۔ وہ سختی سے اسکا ہاتھ پکڑ چکا تھا۔۔ وہ شاید ہوش میں نہیں تھا۔۔ 

حرم بیٹھ گٸ۔۔ کچھ دیر بعد وہ پھر شاید سو گیا تھا۔۔ تو حرم نے آہستہ سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور کمرے سے باہر نکل گٸ۔۔ اب وہ زیبا بیگم کے کمرے کی طرف جا رہی تھی۔۔ 
   
        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
#14_Feb

حرم ٹیرس پر کھڑی تھی۔۔ اور اسکی نگاہیں اپنے داٸیں ہاتھ پر بنے اس نشان پر تھی جو اس رات اس تیزاب کے قطرے نے عطا کیا تھا۔۔ جب سے وہ واقع ہوا تھا حرم خاموش ہو گٸ تھی۔۔ اسکی ہنسی اور آنکھوں کی چمک کہیں کھو گٸ تھی۔۔ 

تلخ یادوں کو بھلا دینا بہتر ہوتا ہے۔۔ فرہاد نے چلتے ہوۓ اسکے پاس آ کر کہا۔۔ 

حرم چونک کر خیالوں سے باہر آٸ۔۔ یہ نشان تو فرہاد کو بھی اندر سے جلا دیتا تھا جب جب اسکی نظر اس پر پڑتی تھی۔۔ لیکن حرم کو یہ نشان اس رات سے باہر نہیں نکلنے دے رہا تھا۔۔ 

حرم نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔ بلیو شرٹ میں نکھرا نکھرا وہ حرم کے سامنے کھڑا تھا۔۔ پٹی ابھی تک بندھی ہوٸ تھی۔۔ زخم پوری طرح ٹھیک نہیں ہوا تھا۔

جانتی ہوں۔۔ مگر۔۔ 

کیا مگر۔۔؟؟ فرہاد نے پوچھا۔۔

میں بھول نہیں پا رہی۔۔ حرم نے نظریں جھکا کر کہا۔۔ اس واقعے نے دونوں کو بہت تکلیف پہنچائی تھی۔۔ اور فرہاد جانتا تھا اسکی جھکی نظروں میں اس وقت پانی تیر رہا تھا جسے وہ ضبط کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ اور فرہاد کو ماحول بدلنے کا یہ ہی سہی وقت لگا تھا۔۔ 

ویسے تم کتنی کام چور ہو یار۔۔ کتنی لاپرواہ۔۔ فرہاد نے منہ بناتے ہوۓ کہا۔ 

میں نے کیا کیا۔۔؟؟ حیرت سے پوچھا گیا۔۔ 

کچھ بھی نہیں کرتی تم۔۔ تبھی تو تمہیں کام چور کہہ رہا ہوں۔۔ 

مجھے کوٸ کچھ کرنے نہیں دیتا۔۔ آپ بتاٸیں کیا کرنا ہے میں کردونگی۔۔ حرم نے روہانسی ہو کر کہا۔۔   

جاٶ پہلے میرے لیۓ کافی بنا کر لاٶ۔۔ فٹا فٹ۔۔ پھر میرے ڈھیر سارے کپڑے پریس کرنے ہیں۔۔ 

ڈھیر سارے کپڑے کیوں۔۔ 

بتاتا ہوں۔۔۔ جاٶ پہلے کافی بنا کر لاٶ۔۔ مانا تم فرینڈ ہو میری۔۔ پر بیوی بھی تو ہو۔۔ کبھی بیویوں والے کام بھی کرلیا کرو۔۔ فرہاد نے جان بوجھ کر لہجے سخت کرتے ہوۓ کہا۔۔ 

اور حرم حیران رہ گٸ۔۔ فرہاد نے ایسے تو کبھی اس سے بات نہیں کی تھی۔۔ وہ بےچاری تو ڈر گٸ۔۔ 

جاٶ ابھی کھڑی ہو۔۔ فرہاد نے اسے اپنی طرف تکتا پا کر حکم دیا۔۔ 

جج۔۔ جی۔۔ جاتی ہوں۔۔ حرم سرپٹ بھاگی۔۔ اور وہ اپنی مسکراہٹ دبا گیا۔۔ 

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب وہ کافی لے کر آٸ تو فرہاد سوٹ کیس نکالے کبرڈ سے اپنے کپڑے نکال رہا تھا۔۔

یہ آپکی کافی۔۔ حرم نے ٹیبل پر کپ رکھتے ہوۓ کہا۔۔ 

آپ کہیں جا رہے ہیں۔۔ حرم نے پوچھا۔۔ 

ہاں بتایا تو تھا لندن جانا ہے میں نے اسپیشلاٸزیشن کیلیۓ۔۔ تو اسکی سیٹ کنفرم ہو گٸ ہے۔۔ فرہاد نے چہرہ کبرڈ کی طرف کیۓ ہوۓ جواب دیا۔۔ 

کب جانا ہے۔۔ ؟؟

صبح۔۔ ایک لفظی جواب آیا۔۔ 

کیا۔۔ اتنی جلدی۔۔ حرم حیران ہوٸ۔۔ 
آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔۔ وہ صدمے کے زیرِاثر تھی۔۔ 

تمہیں ہر بات بتانی لازمی ہے کیا۔۔ وہ غصے سے بولا۔۔ 

نن۔۔ نہی۔۔وہ میں ایسے۔۔ 

چپ چاپ پیکنگ کرو میری۔۔ 

یہ آج ہادی کو ہو کیا گیا ہے۔۔ کس طرح سے بات کر رہے ہیں مجھ سے۔۔اسے رونا آیا تھا۔۔ وہ اس واقعے کو مکمل طور پر بھول گٸ تھی جو پچھلے دو دنوں سے ایک منٹ کیلیۓ بھی اسکے زہن سے نہیں نکلا تھا۔۔ 

وہ پیکنگ کر رہی تھی۔۔ ایک تو اسے فرہاد کے اتنی جلدی جانے کے کا صدمہ تھا۔۔ اور دوسرا وہ جس طرح بات کر رہا تھا۔۔اسکا کچھ زیادہ تھا۔۔ اور فرہاد آرام سے بیٹھ کر کافی پی رہا تھا۔۔ مسکراہٹ دباۓ اسکی نظریں کام کرتی حرم پر جمی تھی۔۔ اسکا ناراض سا پھولا ہوا رونے والا منہ دیکھ کر فرہاد کو ترس بھی آیا۔۔لیکن ابھی نہیں۔۔ اتنی جلدی کیسے سرپراٸز دے دوں۔۔جو سرپراٸز وہ اسے دینے والا تھا نا کیا پتا اسے پا کر حرم خوشی سے اسکے گلے ہی لگ جاتی۔۔ 
 
مجھے کچھ کام ہے میں ابھی آتا ہوں۔۔۔ میرے آنے سے پہلے میرا کام ختم ہونا چاہیۓ۔۔ اور ہاں آج میں ڈنر کمرے میں ہی کرونگا تو پلیز وقت پر میرا کھانا لے آنا۔۔وہ آڈر دیتا۔۔ گاڑی کی چابی اٹھاتا چلا گیا۔۔۔ جب کہ حرم پیچھے حیران پریشان سی کھڑی رہ گٸ۔۔ 

         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ رات کو آیا تھا۔۔ تب تک حرم نے اسکا سارا کام مکمل کر دیا تھا۔۔ کسی نے بھی مجھے نہیں بتایا کہ فرہاد صبح جا رہے ہیں۔۔ اور ممانے انہیں ایسے جانے کی پرمیشن کیسے دی۔۔ ابھی تک انکی طبیعت پوری طرح ٹھیک نہیں ہوٸ۔۔ وہ بیٹھی انہی خیالوں میں گم تھی۔۔ اسے فرہاد کے آنے کا پتا ہی نا چلا۔۔ 

یہاں بیٹھی کیا سوچ رہی ہو۔۔ تمہیں پتا نہیں چلا کہ میں آگیا ہوں اور میرے لیۓ کھانا بھی لانا ہے۔۔ وہ غصے سے بولا۔۔ اور حرم ایک دم ڈر گٸ۔۔ 

و۔۔ سوری۔۔ میں لے کر آتی ہوں۔۔ وہ کہتے ہوۓ باہر کی طرف بھاگی۔۔ 

جب وہ کھانا لے کر آٸ تو فرہاس فریش ہو کر صوفے پر بیٹھا اسی کا ویٹ کر رہا تھا۔۔ 

رکھ دو یہاں۔۔اسے ڈش ہاتھ میں پکڑے دیکھ کر کہا۔۔حرم نے ڈش ٹیبل پر رکھ دی۔۔ 

اب جاٶ۔۔ کھڑی کیوں ہو۔۔ کیا میرے ساتھ کھانا ہے۔۔۔ وہ حرم کو دیکھتے ہوۓ بولا۔۔ 

جج۔۔ جی جاتی ہوں۔۔۔ وہ جلدی ٹیرس کی طرف کھلنا والا دروازہ کھول کر وہاں آگٸ۔۔ اسکی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔۔ فرہاد تو اس سے اتنے پیار سے بات کرتا تھا۔۔ پھر ایک دم انہیں کیا ہو گیا۔۔ کہاں وہ خود اسے زبردستی کھانا کھلاتا تھا اور آج۔۔۔ 

یہ امیر لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔۔ وہ ٹیرس کی ریلنگ پر دونوں ہاتھ جماۓ اور ان پر چہرہ رکھے سوچ رہی تھی۔۔ بس اتنی ہی ضرورت تھی انکو میری۔۔ ٹھنڈی ہوا اسکے چہرے کو چھو رہی تھی۔۔ فولڈ کیۓ گۓ بالوں کی کچھ آوارہ لٹیں۔۔ بار بار آنکھوں اور پلکوں کو چوم رہی تھیں۔۔ اسے تو اسکے پیار بھرے لہجے کی عادت تھی۔۔ 

تو یہ تھا آپکا اصلی چہرہ فرہاد آغا۔۔ مجھے چھوڑ کر جا رہے ہیں۔۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ مٕں اکیلے کیسے رہوں گی۔۔ مجھے کتنی عادت ہو گٸ ہے آپکی۔۔ آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر نکل آۓ تھے۔۔ اس نے ہاتھ بڑا کر بےدردی سے انہیں صاف کیا۔۔

حرم۔۔۔کتنی شدت سے پکارہ گیا تھا۔۔ وہی پیار بھرا لہجہ۔۔ لیکن اب وہ اسطرح کب پکار رہا تھا۔۔ حرم کو لگا اسکا وہم ہے۔۔ 

ہر امیر لڑکا ایک جیسا نہیں ہوتا۔۔ اور کس نے کہا میں تمہیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔۔ وہ جانے کب سے وہاں کھڑا تھا۔۔ حرم کرنٹ کھا کر پلٹی۔۔ اففف۔۔ یہ شخص تو سوچ بھی پڑ لیتا ہے۔۔ 

حرم نے کچھ بھی نہیں کہا بلکہ چہرا دوسری جانب کرلیا۔۔ جو اسکا روپ وہ دیکھ چکی تھی اب کسی دھوکے میں نہیں رہنا چاہتی تھی۔۔ 

ایم سوری میں مزاق کر رہا تھا۔۔ وہ چلتا ہوا اسکے پاس آیا۔۔ تمہیں اس واقعے سے باہر نکالنے کیلیۓ میں نے یہ سب کیا۔۔ 

مگر وہ ایک لفظ بھی نا بولی۔۔ فرہاد نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اسکا چہرہ اپنی جانب کیا۔۔ ٹیرس پر اندھیرا تھا۔۔ کمرے سے آتی روشنی میں اسکا چہرہ صاف نظر آیا۔۔ ٹھنڈ اور رونے کی وجہ سے آنکھیں ناک اور پورا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔۔ اور فرہاد کے دل کو کچھ ہوا۔۔ 

میں تمہیں چھوڑ کر کہیں بھی نہیں جا رہا ڈیٸر۔۔ یہ سب ایک مزاق تھا۔۔ وہ اسکی ہر سوچ پڑھ گیا تھا۔۔ 

ایسا مزاق کرتا ہے کوٸ۔۔ حرم کو یقین نہیں آیا۔۔ ایسے بی ہیو کرتے ہیں کسی کے ساتھ۔۔ پتا ہے مجھے کتنا ہرٹ ہوا۔۔ اگر مجھے ہارٹ اٹیک ہو جاتا تو۔۔ وہ روتے ہوۓ غصے سے بول رہی تھی۔۔ 

شششش۔۔۔۔ پاگل۔۔ ایسی بات کبھی مت کرنا دوبارہ۔۔ فرہاد نے آگے بڑھتے ہوۓ اسے بازٶں کے حصار میں لیا۔۔ اور وہ دھک سے رہ گٸ۔۔ 

وعدہ کرتا ہوں نیکسٹ کبھی ایسے بات نہیں کرونگا۔۔مگر تم بھی ایک پرامس کرو کہ آٸندہ اتنی سیڈ اور خاموش نہیں رہو گی۔۔ بالکل بھی اچھی نہیں لگتی۔۔ اور ہاں تمہارے لیۓ ایک زبردست سا سرپراٸز ہے۔۔ آٸ ہوپ اسے دیکھ کر تم مجھے اسطرح بی ہیو کرنے پر معاف کردو گی۔۔ وہ اسے سینے سے لگاۓ بول رہا تھا۔۔  

حرم اسکے سینے میں دھڑکتے دل کو واضح محسوس کر رہی تھی۔۔ اسکی دھڑکن کی آواز اسے صاف سنائی دے رہی تھی۔۔ پہلے تو حرم کو کچھ سمجھ ہی نہیں آیا۔۔ اور پھر جب اسے کچھ سمجھ آیا تو وہ ایک جھٹکے سے اس سے الگ ہوٸ۔۔ 

فرہاد نے اسکی اس حرکت کو واضح نوٹ کیا۔۔ اور پھر اسکی لرزتی پلکوں کو دیکھ کر اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گٸ۔۔

کیا ہوا حرم۔۔اس نے جان بوجھ کر پوچھا۔۔  

کک۔۔ کچھ۔۔ نہیں وہ کھانا۔۔۔ حرم نے ہچکچاتے ہوۓ کہا۔۔۔وہ اسکی قربت کو زرا بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی۔۔ 

ہاں آ جاٶ کھانا کھاتے ہیں۔۔ مجھے پتا ہے تم نے بھی نہیں کھایا۔۔ اس نے اندر کی طرف بڑھتے ہوۓ کہا۔۔ اور وہ اسکے پیچھے اندر کی طرف چل پڑی۔۔ اندر آنے کے بعد فرہاد نے ٹیرس کی طرف کھلنے والا دروازہ بند کیا کیونکہ اس سے ٹھنڈ اندر آرہی تھی۔۔۔

کونسا سرپراٸز ہے۔۔؟؟ حرم نے پوچھا۔۔
پہلے کھانا کھا لو نہیں تو بعد میں تم نے کھانا ہی نہیں۔۔ فرہاد نے جواب دیا۔۔ 

ایسا بھی کیا خاص ہے۔۔ وہ سوچتے ہوۓ کھانا کھانے لگ گٸ۔۔ فرہاد کی نظریں اس پر ہی جمی تھیں۔۔ وہ اسکی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہا تھا۔۔ 

   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھانا کھانے کے بعد وہ ٹرے اٹھا کر نیچے لےگٸ تھی اور واپسی پر چاۓ ساتھ لاٸ تھی۔۔ 

اب تو بتا دیں ہادی۔۔ اس سے صبر نہیں ہو رہا تھا۔۔ 

اور فرہاد چلتے ہوۓ اسکے سامنے آیا تھا اسکے ہاتھ میں دو انویلپ تھے اس نے دونوں حرم کے آگے کیۓ۔۔ 

کھولو انہیں۔۔ جب حرم نے انہیں پکڑا تو فرہاد نے کہا۔۔ 

حرم نے نا سمجھی کے عالم میں ایک انویلپ کھولا۔۔ تو اندر سے ایک ٹکٹ نکلی تھی۔۔ اٹلی کی۔۔ وہ حیران رہ گٸ۔۔ آپ اٹلی جارہے ہیں۔۔ وہ حیرانگی سے پوچھ رہی تھی۔۔ 

اب دوسرا انویلپ بھی کھولو۔۔ 

حرم نے جب دوسرا انویلپ کھولا تو اسکی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رپ گٸیں۔۔ وہ اسکی ٹکٹ تھی۔۔ 

میں نہیں ہم جا رہے ہیں اٹلی۔۔ فرہاد نے اسکے حیران ہوتے چہرے کو دیکھ کر کہا۔۔ 

فرہاد نے جب اسکی ڈاٸری پڑھی تھی تو اسے پتا چل گیا تھا کہ حرم کو اٹلی اور خاص طور پر روما بہت پسند ہے۔۔ پھر جب انکی شادی کی ڈیٹ فکس ہوٸ تو اس نے اپنے دوست ارباز کو فون کیا جو اٹلی میں تھا اور اسے حرم کے ویزہ کا بولا۔۔ خوف فرہاد کے پاس اٹلی کی نیشنیلٹی تھی۔۔ اور کیوں تھی یہ بھی ایک کہانی ہے۔۔ 
روم تو اسے ویسے بھی جانا ہی تھا۔۔ ایک ادھورا کام پورا کرنے۔۔ تو اسپیشلاٸزیشن کا تو بس ایک بہانہ تھا۔۔ پھر جس دن انکی شادی تھی تب ارباز کا فون آیا کہ ویزہ لگ چکا ہے۔۔ اور پھر اب 14 فروری کی ان دونوں کی سیٹس کنفرم تھیں۔۔ 

Wowwww what a pleasant surprise.. 

حرم کو تو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا۔۔ اسکا خواب پورا ہونے جا رہا تھا۔۔ وہ شخص اسکی ہر خوشی ہر خواہش کو بنا پوچھےبنا بتاۓ پوری کیۓ جا رہا تھا۔۔ 

میں مما اور عالیہ کو بتا کر آتی ہوں۔۔ حرم کہتے ہوۓ مڑی۔۔

انہیں پتا ہے۔۔ سب کو پتا ہے۔۔ فرہاد نے اسکا ہاتھ پکڑ کر روکا۔۔ 

تو مجھے کیوں نہیں بتایا۔۔ حرم نے منہ بنا کر کہا۔۔ 

سرپراٸز تھا۔۔ اگر بتا دیتے تو سرپراٸز کیسا ہوتا۔۔ فرہاد نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ 

آپکو پتا ہے آپ بہت اچھے ہیں۔۔ 

اچھا۔۔ مکھن لگا رہی ہو۔۔فرہاد نے پوچھا۔

نہیں تو۔۔ بالکل بھی نہیں۔۔۔ 

ابھی کچھ دیر پہلے تو مجھے ظالم کہہ رہی تھی۔۔ 

میں نے کب کہا۔۔ حرم الزام لگانے پر روہانسی ہوٸ۔۔ اور پھر فرہاد کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر وہ خود بھی کھلکھلا کر ہنس دی۔۔ 

باہر سفر کرتے چاند نے اسکے ہنسنے پر اپنی روشنی مزید بڑھا دی تھی۔
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مما کبھی آپ نے بتایا ہی نہیں کہ آپ روم یونی میں پڑھتی تھیں۔۔ وہ لاٶنج میں صوفے پر بیٹھی زیبا بیگم کی گود میں سر رکھے لیٹی ان سے پوچھ رہی تھی۔۔ 

بس ایسے ہی۔۔ آپ نے بھی تو کبھی نہیں پوچھا۔۔ انہوں نے حرم کے بالوں کو اپنی انگلیوں سے سلجھاتے ہوۓ کہا۔۔ 

اوو ہاں میں نے کبھی پوچھا ہی نہیں۔۔ وہ ان سترہ اٹھارہ دنوں میں آگے ہاٶس کے ایک ایک فرد کی جان بن چکی تھی۔۔ 

یہ وہی جگہ ہے نا جہاں #سر_الیگزینڈر نے #اشفاق_احمد سے پوچھا تھا۔۔ 

”کیا تم گاڈ کو مانتے ہو۔۔۔۔؟؟“
اچھا اور اشفاق احمد نے کیا کہا تھا۔۔ زیبا بیگم نے کہا۔۔ 

”ہاں جی۔۔ وہ تو ہے ہی ہمارا۔۔۔“

یہ کہا تھا اشفاق احمد نے حرم نے مسکراتے ہوۓ بتایا۔۔ 

پتا ہے مما مجھے لگتا ہے یہ اور اس جیسے کٸ جملے وہاں کی فضاٶں میں وہاں کی عمارتوں پر اپنے نشان چھوڑ گۓ ہیں۔۔ حرم نے اٹھتے ہوۓ کہا۔۔ 
میں وہ ایک ایک لفظ محسوس کرنا چاہتی ہوں۔۔ میں وہ ایک ایک جگہ دیکھنا چاہتی ہوں۔۔ 
وہ ایکساٸٹڈ سی بتا رہی تھی۔۔ اور زیبا بیگم اسکے چہرے کی چمک دیکھ رہی تھی۔۔ 

کچھ پرانی یادیں زیبا بیگم کی آنکھوں کے سامنے ناچنے لگیں۔۔ 

یاد رکھنا بیٹا۔۔۔ وہاں پر طلسم بکھرتا ہے۔۔ جو وہاں جاتا ہے وہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے۔۔ زیبا بیگم نے ناجانے کیا سوچتے ہوۓ کہا۔۔ 

حرم خود کیا کسی طلسم سے کم ہے۔۔ نتاشہ بھابھی نے ہنستے ہوۓ کہا۔۔ 

جی بالکل۔۔ ابھی دو طلسم آپس میں ٹکرانے والے ہیں۔۔ دیکھتے ہیں کون زیادہ پاور فل ہے۔۔ حمزہ نے مسکراتے ہوۓ کہا وہ نا جانے کب وہاں انٹری مار چکا تھا۔۔ 

آپ ہمیں بھول تو نہیں جاٸیں گی نا ادھر جا کر۔۔ وہ حرم سے پوچھ رہا تھا۔۔ 

تم بھولنے دوگے اسے تو وہ بھولے گی نا۔۔ فرہاد نے وہاں سے گزرتے ہوۓ کہا۔۔ اسکا رخ آغا جی کے کمرے ک طرف تھا۔۔

ویسے یہ بات تو بالکل ٹھیک کہی فرہاد نے۔۔HD اتنی جلدی اپنا آپ کسی کو بھولنے نہیں دیتا۔۔ حمزہ نے ہنستے ہوۓ کہا۔۔ 

حرم بھابھی آٸیں آپکے گھر والوں سے بات کرتے ہیں۔۔۔ حورعین اون لاٸن ہے۔۔ اور آپکہ مما بھی آپکا پوچھ رہی ہے۔۔ عالیہ نے سیڑھیاں اترتے ہوۓ کہا۔۔

اوو واٶ۔۔ حرم کسی چھلاوے کی طرح اٹھی اور عالیہ کی طرف بھاگی جو لیپ ٹاپ اون کیۓ صوفے پر بیٹھ چکی تھی۔۔ 

حورعین کے نام پر حمزہ کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔ لیکن وہ کچھ بول نا سکا۔۔ میں زرا فرہاد کو دیکھ لوں۔۔ وہ کہتا ہوا آغا جی کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔ 

جبکہ حرم اور عالیہ دونوں لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھی خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔۔ حرم کے گھر والے سبھی جانتے تھے کہ وہ روم جا رہی ہے۔۔ مگر کسی نے بھی زکر نہیں کیا تھا اس سے۔۔ کیونکہ یہ سرپراٸز تھا اسکا۔۔ 

وہ ایک گھنٹہ ان سے باتیں کرتی رہی۔۔ اپنی امی سے بات کرت ہوۓ وہ خود پر کنٹرول نا کر پاٸ اور رو دی۔۔ مشکل سے اسے چپ کروایا گیا۔۔ انکے پاس سے تو وہ 27 جنوری کو ہی آگٸ تھی۔۔ وہ کیسے حرم کے بنا جی رہی تھی یہ کوٸ صابرہ خاتون سے پوچھتا۔۔ اپنا سب سے قیمتی خزانہ اس نے فرہاد آغا کے حوالے کر دیا تھا۔۔ 

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آغا جی مجھے دعا دیجیۓ کہ جس کام کیلیۓ میں وہاں جا رہا ہوں اس میں کامیاب ہو جاٶں۔ فرہاد نے آغا جی سے کہا۔۔ 

ایسا کونسا کام ہے۔۔۔ مجھے بھی کچھ پتا چلے۔۔ حمزہ نے ٹانگ اڑاٸ۔۔ 

تمہیں نہیں بتانا۔۔ فرہاد نے جوا دیا۔۔ 

ٹھیک ہے نا بتاٶ میں ابھی حرم بھابھی کو جا کر بتاتا ہوں کہ فرہاد نے آپکے موبائل میں ٹریسر لگوایا ہے۔۔ حمزہ نے سیدھا دھمکی دی۔۔ 

دھمکی دے رہے ہو۔۔ فرہاد نے پوچھا۔ 

کچھ ایسا ہی سمجھ لیں۔۔ وہ اٹھتے ہوۓ بولا۔۔ 

مرو ادھر ہی۔۔ بیٹھ جاٶ۔۔ بتاتا ہوں۔۔ اس نے حمزہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے بٹھایا۔۔ کیونکہ اسکا بھروسہ نہیں تھا جا کر سچ مچ حرم کو بتا دیتا۔۔ 

پھر آدھے گھنٹے میں وہ اسے سب بتا چکا تھا۔۔ اور حمزہ حیران رہ گیا۔۔ 

میری دعائيں تمہارے ساتھ ہیں نواب صاحب۔۔ بس کام پورا کر کے لوٹنا۔۔ بےشک زیبا بیٹی نے آج تک یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ اسے کتنا یاد کرتی ہے۔۔ لکین میں جانتا ہوں۔۔ وہ اس کیلیۓ کتنا تڑپتی ہے۔۔ اسے دیکھنے کیلیے۔۔ آخر وہ اسکا خون ہے۔۔ آغا جی نے کہا۔۔ 

ہاں جی۔۔ تمہیں اب اسے ڈھونڈ کر ممانی سے ملوانا ہے۔۔ پرامس کرو۔۔ یہ کام پورا کرو گے۔۔ حمزہ نے ہاتھ آگے بڑھایا۔۔ اور فرہاد نے اسکے ہاتھ ہر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔۔ اور ان دونوں کے ہاتھ پر آغا جی نے اپنا ہاتھ رکھا۔۔ 

#Best_of_luck

اور پھر اگلے دن یعنی 14 فروری کو ان دونوں کو بھیگی پلکوں کے ساتھ ڈھیر ساری دعاٶں کے ساۓ میں اٹلی روانہ کردیا گیا۔۔ عالیہ حرم سے گلے لگ کر بہت روٸ تھی۔۔ اور اسے حورعین یاد آگٸ۔۔ اور حرم کو آج پھر لگا تھا کہ اسکی ایک اور رخصتی ہو گٸ ہے۔۔ سفر کے دوران وہ خاموش تھی۔۔ مشکل سے اپنے آنسو کنٹرول کیۓ تھے اس نے۔۔ 

ایک اور سرپراٸز ہے تمہارے لیۓ۔۔ حرم۔۔ جو تمیں وہاں جا کر دونگا۔۔ فرہاد نے اسکے چہرے کی طرف دیکھتے ہوۓ سوچا۔۔ 

 جاری ہے۔۔۔۔۔۔
      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─