┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 24
پارٹ 1

ایک پل کیلیۓ تو فرہاد کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ آخر ہوا کیا ہے۔۔ پھر اس نے نیچے بکھرے شاپنگ بیگز اور بدحواس سی عالیہ کی طرف دیکھا جو گزر چکی گاڑی کی طرف اشارہ کر رہی تھی تو احساس ہوا۔۔ حرم وہاں نہیں تھی۔۔ وہ لوگ حرم کو لے گۓ۔۔ فرہاد کے ہوش اڑ گۓ۔۔ وہ بھاگتے ہوۓ عالیہ کی طرف آیا۔۔ 

بھا۔۔بھاٸ۔۔ وہ لو۔۔۔لوگ۔۔ حرم۔۔عالیہ سے بولا نہیں جارہا تھا۔۔ 

ریلیکس عالیہ۔۔ چپ کر جاٶ۔۔ تم کال کرو کسی کو گھر جاٶ۔۔ میں آتا ہوں۔۔ وہ کہتا ہوا اپنی گاڑی کی طرف واپس بھاگا۔۔ 

ابھی وہ گاڑی تک نہیں پہنچا تھا کہ اچانک حمزہ کی ہیوی باٸیک اسکے آگے آکر رکی۔۔ 

جلدی بیٹھو فرہاد۔۔ وہ لوگ زیادہ دور نہیں گۓ ابھی۔۔ حمزہ کو عالیہ نے بتایا تھا کہ وہ ڈنر کر رہے ہیں وہ بھی گھر سے باہر۔۔ تبھی وہ اپنی باٸیک لے کر گھر سے نکل آیا تھا۔۔ اس نے کافی فاصلے سے وہ منظر دیکھا تھا کہ ایک لڑکی کو کچھ لوگوں نے زبردستی گاڑی میں ڈالا اور پھر اسے لے گۓ۔۔ البتہ پاس آنے پر اسے پتا چلا کہ وہ حَرم تھی۔۔ 

فرہاد ایک لمحہ بھی ضائع کیا بنا اسکے پیچھے بیٹھ چکا تھا اور حمزہ نے باٸیک گاڑی کے پیچھے لگادی۔۔ رات ہونے کی وجہ سے گاڑی کا پیچھا کرنے میں تھوڑی مشکل پیش آرہی تھی۔۔ لیکن دھند اور سردی کی وجہ سے ٹریفک کم تھی۔۔ جس کا انہیں فائدہ ہو رہا تھا۔۔ 

کچھ سیکنڈز بعد فرہاد کے حواس بہال ہوۓ تو اس نے فوراً پولیس کو فون کیا۔۔ اور انہیں واقعے کی پوری ڈیٹیل بتانے لگ گیا۔۔ 

وہ لوگ حرم کو لے گۓ تھے۔۔ اس بات نے کتنی تکلیف دی تھی اسے۔۔ وہ تو ایک پل کیلیۓ بھی اسے خود سے دور نہیں کر سکتا تھا۔۔ اور وہ لوگ اسکو فرہاد ست چھین کر لے جا رہے تھے۔۔ کیا وہ انہیں بخش دیتا۔۔ 

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ لوگ حرم کو ایک ویران جگہ پر بنے گھر میں لے آۓ تھے۔۔ 

چھوڑ دو مجھے۔۔ کون ہو تم لوگ۔۔ میں نے کیا بگاڑا تم لوگوں کا۔۔؟؟ پہلے تو حرم کے حواس گم تھے۔۔ لیکن جیسے ہی گاڑی ایک جگہ پر جھٹکے سے رکی تو اسے ہوش آیا اور وہ چلانے لگ گٸ۔۔ 

چپ کر۔۔ ایک ماسک پہنے آدمی نے آگے بڑھ کر اسکے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔ 

لے کر جاٶ اسے اندر۔۔ شاید وہ انکا لیڈر تھا۔۔ 

کام ہوگیا۔۔ اب وہ فوب پر کسی سے کہہ رہا تھا۔۔ 

”وہ زندہ نہیں بچنی چاہیۓ۔۔ اسکا چہرہ اتنی بری طرح سے جلاٶ اور مسخ کردو کہ کوٸ دیکھے تو نفرت کرے اس سے اور پہچان بھی نا پاۓ۔۔ اور یاد رہے زندہ نہیں بچنی چاہیۓ۔۔“ کسی نے دوسری طرف سے کہا اور فون بند کردیا۔۔ 

انہوں نے اندر لے جاکر حرم کو لکڑی کی ایک کرسی پر بٹھا کر رسی سے باندھ دیا۔۔  

کون ہو تم لوگ۔۔ مجھے یہاں کیو لاۓ ہو۔۔؟؟ حرم نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تھا۔۔ 

پھر ایک آدمی اندر آیا تھا۔۔ وہ بوتل لے کر آٶ تیزاب والی۔۔ اس نے آتے ہی سخت لہجے میں کہا۔۔ اور یہ سن کر حرم کا رنگ فق ہو گیا۔۔
وہ اندر تک لرز گٸ تھی۔۔ کچھ بول ہی نا پاٸ۔۔ فوراً ہی دوسرا آدمی ایک بوتل لے آیا تھا۔۔ 

اب تینوں نے اپنے چہرے سے ماسک اتار دیے تھے۔۔ 
کیا کرنے۔۔ لگے ہو۔۔ حرم کی مشکل سے آواز نکلی تھی۔۔ 

ان تینوں نے حرم کی بات پر قہقہہ لگایا تھا۔۔ پھر انکا لیڈر جسکے ہاتھ میں تیزاب کی بوتل تھی وہ آگے بڑھا۔۔ 

یا اللہ پاک مدد کریں۔۔ حرم نے دل ہی دل میں اللہ کو پکارا۔۔ 

حکم ہے جی کہ اسکا چہرہ جلا دیا جاۓ۔۔ انکے لیڈر نے کہا۔۔ 

تو پھر دیر کس بات کی ہے۔۔ دوسرے نے کہا۔۔ اور پھر قہقہہ پڑا۔۔ 

نن۔۔نہیں۔۔ پلیز ایسامت کرو۔۔ حرم کے سانس اٹکنا شروع ہو گۓ تھے۔۔ 

اور پھر وہ عین حرم کے پاس آیا۔۔ اس نے بوتل کا ڈھکن کھولا۔۔ 

نہیں۔۔ حرم چیخ رہی تھی۔۔ 

اور پھر اس نے کچھ سوچتے ہوۓ تیزاب کا ایک قطرہ حرم کرسی سے بندھے ہوۓ داٸیں ہاتھ پر گرا دیا۔۔

حرم کی ایک دلخراش چینخ نکلی تھی۔۔ 

تبھی ایک جھٹکے سے کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔۔ اور اس سے فرہاد اندر آیا۔۔ 

ہادی۔۔ اسکو دیکھتے ہوۓ حرم نے پکارا۔۔ 

فرہاد نے حرم کی طرف دیکھا۔۔آنسو اسکے چہرے پر لڑھک رہے تھے۔۔درد اور ضبط کی شدت کی وجہ سے اسکا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔۔ فرہاد کو ایسا لگا جیسے کسی نے اسکی روح کھینچ لی ہو۔۔

وہ ایک سرعت سے اس آدمی کی طرف بڑھا جس کے ہاتھ میں بوتل تھی۔۔ ایک زوردار گھونسا اسکے منہ پر مارا تھا۔۔ وہ پیچھے دیوار سے ٹکرایا اور بوتل اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے کر گٸ۔۔ وہ اس حملے کیلیۓ تیار نہیں تھا۔۔ وہ لوگ تو فرہاد کو وہاں دیکھ کر حیران رہ گۓ تھے۔۔ 

کون ہو تم۔۔ دوسرا فرہاد کی طرف بڑھا تبھی دروازے سے حمزہ اندر داخل ہوا۔۔ اور اس نے فرہاد کی طرف جاتے ہوۓ آمی کو پیچھے لات ماری۔۔ اب فرہاد تیسرے آدمی سے نمٹ رہا تھا جبکہ حمزہ نے آگے بڑھ کر حرم کی رسیاں کھولی۔۔ 

کون ہو تم۔۔ رک جاٶ وہیں نہیں تو گولی مار دونگا۔۔ پہلا والا آدمی سنبھل چکا تھا اور اب اسکے ہاتھ میں گن تھی۔۔ 
اس لڑکی کو ہمارے حوالے کردو۔۔ نہیں تو۔۔ 

نہیں تو کیا۔۔ فراد آگے بڑھا۔۔ اور اس آدمی نے گن کا ٹریگر دبا دیا۔۔ ایک زور دار دھماکہ ہوا۔۔ حرم کی چیخ کہیں دب کر رہ گٸ۔۔ 
   
        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گولی فرہاد کی بازو کو کندھے کے پاس سے چھو کر گزری تھی۔۔ فرہاد ایک قدم لڑکھڑایا پھر دوبارہ اسکی طرف بڑھا۔۔اور اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔ اسے اس طرح سے مروڑا کہ اس آدمی کی چینخ نکل گٸ۔۔ حرم کو چھونے والا اور اسکی طرف بڑھنے والا، اسکو تکلیف پہنچانے والا ہاتھ فرہاد نے توڑ دیا تھا۔۔ 

تبھی اچانک دروازے سے پولیس والے اندر داخل ہوۓ۔۔ 
خبردار جو کوٸ اپنی جگہ سے ہلا تو۔۔ ہتھار نیچے پھینک دو۔۔ 

اتنے سارے پولیس والوں کو دیکھ کر دوسرے آدمی نے زمین سے اٹھاتی ہوٸ گن واپس نیچے پھینک دی۔۔ اب پولیس والے انہیں گرفتار کر رہے تھے۔۔۔ 

فرہاد کی نظر حرم پر پڑی جو منہ پر ہاتھ رکھے پھٹی پھٹی نظروں اسکے کندھے سےنکلتے خون کو دیکھ رہی تھی جس نے سفید شرٹ کو سرخ بنا دیا تھا۔۔ 

حرم۔۔ فرہاد کہتا ہوا آگے بڑھا اور ایک شدت سے اسے گلے سے لگا لیا۔۔۔ اس نے ایسے حرم کو باہوں کے حصار میں لیا تھا جیسے کہیں سینے میں چھپانا ہو اسے۔۔ فرہاد کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ سب دنیا والوں سے بچا کر کہیں اپنے اندر چھپا لے حرم کو۔۔

آٸ ایم سوری حرم۔۔ یہ سب میری وجہ سے ہوا۔۔ تم ٹھیک ہو نا۔۔ وہ ایسے ہی اسے اپنے سینے سے لگاۓ پوچھ رہا تھا۔۔ 

یا تو فرہاد بھول گیا تھا کہ وہاں اور بھی لوگ ہیں۔۔۔ یا پھر اسے اس وقت کسی کی پرواہ نہیں تھی۔۔ 

ہادی۔۔ حرم نے کس کرب سے پکارہ تھا اسے اور پھر اسکی بازٶں میں جھول گٸ۔۔ 

         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پولیس انہیں گرفتار کر کے پولیس اسٹیشن لے گٸ تھی۔۔ جبکہ فرہاد نے پانی کے چھینٹے حرم کے منہ پر مار کر اسے ہوش دلایا۔۔ 

اسے اپنی تکلیف کی اتنی ہرواہ نہیں تھی۔۔ اسے احساس ہی نہیں تھا کہ اسکے بازو سے کتنا خون نکل رہا ہے۔۔ اس نے حرم کے جلے ہوۓ ہاتھ کو دیکها تو دکھ اور غصے کے انتہا کی ایک لہر اسکے اندر اٹھی تھی۔۔ 

وہ گاڑی میں بیٹھے تھے۔۔ یہ پولیس کی گاڑی تھی۔۔ اور اسکا رخ ہاسپٹل کی طرف تھا۔۔ 
فرہاد کے بازو پر ایک رومال باندھا گیا تھا تاکہ زیادہ بلیڈنگ نا ہو۔۔ 

حرم تم ٹھیک ہو۔۔ ہوش میں آٶ پلیز۔۔ وہ اسے آنکھیں کھولتا دیکھ کر بولا۔۔ 

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ دیر بعد وہ ہاسپٹل میں تھے۔۔ فرہاد بچ گیا تھا گولی صرف کاندھے کو چھو کر گزری تھی۔۔ اسکی اور حرم کی بینڈج کی گٸ تھی۔۔ 

حرم کو تو جیسے سکتہ ہو گیا تھا۔۔ البتہ خون نکلنا کےباعث فرہاد پر غنودگی طاری ہونے کے باوجود بھی وہ مکمل ہوش میں تھا۔۔ اور انتہاٸ غصے میں بھی۔۔ 

کچھ دیر بعد حمزہ عالیہ کو لے کر وہاں پہنچا تھا۔۔ وہ گاڑی لے کر آیا تھا۔۔ اور باٸیک وہیں۔۔ ریسٹورینٹ کے باہر چھوڑ آیا تھا۔۔ اس نے سجاد آغا کو فون کردیا تھا۔۔ پندرہ مٹ بعد وہ بھی ہاسپٹل میں موجود تھا۔۔ 

ہمیں ابھی پتا چلنا چاہیۓ کہ آغا ہاٶس کے کسی فرد کو کڈنیپ کرنے کی جرات کس نے کی۔۔ وہ کافی غصے میں تھا۔۔ 

فرہاد کو حرم کی زیادہ فکر ہو رہی تھی۔۔ وہ پتھراٸ پتھراٸ نظروں سے فرہاد کو دیکھ رہی تھی۔۔ اور فرہاد کا دل اسکی اس حالت پر اندر ہی اندر رو رہا تھا۔۔ 

ڈاکٹر۔۔ فرہاد نے ایک ڈاکٹر کو بلایا۔۔ اور پھر اسے کچھ کہا۔۔ وہ سر ہلاتا چلا گیا۔۔ 

پولیس والے ہاسپٹل میں موجود تھے۔۔ سجاد آغا نے ایک پل میں انکے ہوش ٹھکانے لگا دیے تھے۔۔ اور ابھی تو فرہاد نے کچھ نہیں کیا تھا۔۔ ابھی تو بس وہ حرم کو دیکھ رہا تھا۔۔ اگر وہ ہوش میں آتا تو پورا اسلام آباد جلا کر راکھ کر دیتا۔۔

کچھ دیر بعد انہیں ڈسچارج کردیا گیا۔۔ اب وہ لوگ گھر کی طرف جا رہے تھے۔۔ 

حرم کو فرہاد سجاد آغا کی گاڑی میں پیچھے بیٹھے تھے۔۔ حرم کو جانے کیسا ڈر تھا اس بے فرہاد کو بازو سے پکڑا ہوا تھا۔۔ وہ اسکے داٸیں طرف بیٹھی تھی اور اسی بازو کو وہ اپنے دونوں بازٶں سے پکڑے اسکے کندھے سے ٹیک لگاۓ بیٹھی تھی۔۔ 

اگر ہادی کو کچھ ہو جاتا تو۔۔۔ وہ سوچ رہی تھی اور آنسو اسکی آنکھوں سے پلکوں کی باڑ توڑ کر فرہاد کے بازو میں پیوست ہوگۓ۔۔ وہ دونوں ایک دوسرے کیلیۓ کتنے اہم تھے یہ سب دیکھنے والے جان چکے تھے۔۔ 

فرہاد کو جب گرم گرم سیال اپنی بازو پر گرتا محسوس ہوا تو اس نے چونک کر حرم کو دیکھا۔۔۔ 

پلیز حرم روٶ مت۔۔ پلیز ریلیکس ہو جاٶ سب کچھ ٹھیک ہے۔۔۔ فرہاد بے آہستہ سے کہا۔۔۔ اور پھر اپنا بازو چھڑوا کر اسی بازو سے اسے پھر اپنے گھیرے میں لیا۔۔
حرم کا رونا اب سسکیوں میں بدل گیا تھا۔۔ اسکا وجود ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا۔۔۔ اور یہ بات فرہاد کو کتنی تکلیف دے رہی تھی یہ صرف وہ ہی جانتا تھا۔۔

پانچ منٹ بعد حرم کی سسکیوں کی آواز بند ہو چکی تھی۔۔ فرہاد نے ڈاکٹر کو اسے سکون آور انجیکشن دینے کو کہا تھا۔۔ اب وہ فرہاد کے سینے سے سر لگاۓ سوٸ ہوٸ تھی۔۔۔ اور فرہاد نے کسی متاع جاں کی طرح اسے سمیٹا ہوا تھا۔۔ 

          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔ سامنے بیڈ پر حرم ہوش سے بگانہ پڑی تھی۔۔ وہ کمرے کی کھڑکی کھول کر اس میں کھڑا تھا۔۔ وی اپنی اسٹڈی سے ایک سگریٹ نکال لایا تھا اور اب اسے پھونک رہا تھا۔۔ 

کسی کی حرم سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے۔۔؟؟ وہ تو یہاں کسی کو جانتی بھی نہیں۔۔ کون ہو سکتا ہے۔۔ دو گھنٹے گزر گۓ تھے اس واقعے کو۔۔ ابھی تک پتا نہیں چلا تھا کہ آخر کس نے کروایا یہ سب۔۔ 

سگریٹ جل رہا تھا۔۔ اور اندر سے فرہاد کا دل بھی۔۔ اسکا دل کر رہا تھا کہ وہ ان تینوں آدمیوں کا خون کردے۔۔ ہاتھ تو وہ سکا توڑ ہی چکا تھا۔۔ 

اگر حرم کو آج کچھ ہو جاتا تو۔۔ وہ جھرجھری سے لے کر رہ گیا۔۔ تبھی اسکے موبائل پر بیل ہوٸ تھی۔۔ 
     
     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بے چینی سے کمرے میں ٹہل رہی تھی۔۔ سب الٹا ہو گیا۔۔۔ گولی فرہاد کو لگ گٸ۔۔ اگر اسےکچھ ہو جاتا تو وہ سوچ رہی تھی۔۔ 
 
تبھی پورچ میں اسے گاڑی رکنے کی آواز آٸ۔۔ اتنی رات کو کون ہو سکتا ہے۔۔۔ اس نے ونڈو سے جھانکا۔۔ 

اندھیرے میں ایک وجود اسے تیز تیز چلتا اندر آتا دکھاٸ دیا۔۔ 

اور پھر کچھ دیر بعد ایک جھٹکے سے اسکے کمرے کا دروازہ کھلا۔۔ اور سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر وہ حیران رہ گٸ۔۔ 

فرہاد۔۔ تت۔۔ تم۔۔ وہ ہکلاٸ۔۔ 

اور فرہاد غصے سے آگے بڑھا۔۔ 

چٹاخ۔۔ کی آواز گونجی۔۔ فرہاد اسکے منہ پر ایک زوردار تپھڑ مار چکا تھا۔۔ 

مجھے یقین نہیں آتا تم اتنا بھی گر سکتی ہو ڈاکٹر منیشا۔۔ 

ارے بھٸ کون ہو تم۔۔ بنا بتاۓ اندر کیوں گھسے جارہے ہو۔۔ غالباً وہ منیشا کی والدہ تھی جو فرہاد کے پیچھے پیچھے آٸ تھی۔۔ اور پھر اندر کا مظر دیکھ کر ششد رہ گٸیں۔۔ 

مم۔۔ میں نے کیا کیا۔۔ ؟؟ ڈاکٹر منیشا نے پوچھا۔۔ 

تمہاری ہمت کیسے ہوٸ میری حرم کو تکليف پہنچانے کی۔۔ اپنی حرم کی طرف بڑھنے والے ہر ہاتھ کو میں اسکے جسم سے الگ کردونگا۔۔ وہ غصے سے بول رہا تھا۔۔ 

ڈاکٹر منیشا کو تپھڑ نے اتنی تکليف نہیں پہنچائی تھی جتنی فرہاد آغا کے الفاظ ”میری اور اپنی حرم“ نے پہنچائی تھی۔۔ 

وہ حرم۔مری نہیں۔۔ بالآخر وہ بھی غصے پھنکاری۔۔ 

چٹاخ۔۔ ایک اور تپھڑ اسکے اسی گال پر پڑا۔۔۔ 
خبردار جو اپنی گندی زبان سے حرم کا نام لیا تو۔۔ فرہاد نے شاید ہی پہلی بار کسی عورت پر ہاتھ اٹھایا تھا۔۔ دل تو کر تھا کہ وہ اسکا گلا دبا دے۔۔

کمشنر فرقان بھی وہاں آچکے تھے۔۔ وہ فرہاد آغا کو اچھے سے جانتے تھے۔۔ وہ احتشام آغا کا پوتا تھا۔۔ اور انہیں پورا اسلام آباد جانتا تھا۔۔

یہ کیا ہو رہا ہے۔۔؟؟انہوں نے غصے سے پوچھا۔۔ 

پوچھ لیں اپنی بیٹی سے۔۔فرہاد نے رخ انکی طرف کرتے ہوۓ کہا۔۔ غصے اور ضبط کی وجہ سے اسکی آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہیں تھی۔۔ 

کیا کہہ رہا ہے یہ منیشا۔۔ انہوں ڈاکٹر منیشا سے پوچھا۔۔ 

تم عورت زات ہو۔۔ تو اپنی عزت کا خیال کرو۔۔ میں چاہوں تو ابھی اسی وقت تمہارے اور تمہارے خاندان کی عزت کو خاک میں ملا سکتا ہوں۔۔ انفیکٹ ایک رات پولیں اسٹیشن میں گزارو کی تو اپنے باپ کا کمشنر ہونے کا عہدہ بھول جاٶ گی۔۔ لیکن میری تربیت مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں ایک عورت زات کو پولیس اسٹیشن بھیجوں۔۔ صرف تمہاری غلطی کی وجہ سے میں تمہارے پورے خاندان کا تماشہ نہیں بنانا چاہتا۔۔ آخری بار کہہ رہا ہوں۔۔۔ میری حرم اور میری فیملی سے دور رہو۔۔ورنہ۔۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر وارننگ دی تھی۔۔

ڈاکٹر منیشا چپ کھڑی تھی۔۔ دو تپھڑ کھانے کے بعد۔۔ یا پھر اپنے باپ کی وجہ سے۔۔یہ تو وقت ہی بتاتا۔۔ 

وہ پھر چلتا ہوا کمشنر فرقان اور مسز فرقان کی طرف آیا تھا۔۔ 
 اپنی بیٹی کی تربیت ہر دھیان دیں آنٹی۔۔ عزت ایک بار چلی جاۓ تو واپس نہیں ملتی۔۔وہ آرام سے بولا۔۔ انہوں نے دیکھا تھا کہ اسکے بازو پر پٹی بندھی ہے۔۔ 

اور آپ کمشنر فرقان۔۔ اپنی بیٹی کو اسکی لمٹ میں رہنا سکھاٸیں۔۔ ورنہ نتیجہ اچھا نہیں ہوگا۔۔ پھر اس بے کمشنر فرقان کو وارن کیا۔۔ اور تیز تیز قدم اٹھاتا نیچے آیا۔۔ 
گاڑی میں بیٹھا اور زن سے اسے اڑا کر لے گیا۔۔ 

 
     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تجھے کیا خبر میرے بےخبر۔۔،،
کہ صبح سے لے کر۔۔۔
شام تک۔۔

تیری جستجو۔۔،، 
تیری آرزو۔۔،،

کہ،
سانس چلتی ہے تجھ سے۔۔،،

میں نے جینا بھی سیکھا تو 
تجھ سے۔۔،،

کوٸ پل بھی ایسا نہیں۔۔ 
جب دل میں تیرا خیال 
نہیں۔۔،،

میں نے ہنسنا سیکھا بھی تو 
تجھ سے۔۔،،

کبھی دور نا ہونا 
 تو مجھ سے۔۔،،

فرہاد اسکے بیڈ کے قریب چیٸر رکھے بیٹھا تھا۔۔ اسکے بینڈج والے ہاتھ کو اسنے اپنے ہاتھ میں لیا ہوا تھا۔۔ اور پھر آہستہ سے اسے لبوں سے لگایا۔۔ 

کتنی مشکل سے اس نے جینا سیکھا تھا۔۔ ہنسنا سیکھا تھا۔۔ وہ فرہاد کی عادت نہیں بلکہ ضرورت بن چکی تھی۔۔ اور عادتیں تو بدلی بھی جاسکتی ہیں۔۔ خواہشیں تو چھوڑی بھی جاسکتی ہیں۔۔ مگر ضرورتوں کے بنا کون جی پاتا ہے۔۔؟؟

وہ ہمیشہ اسے اپنے دھیان میں رکھتا تھا۔۔صرف اور صرف آج۔۔ وہ بھی چند پل کیلیۓ اس نے اپنی نظریں حرم سے ہٹاٸ تھیں۔۔ صرف وہ گاڑی لینے گیا تھا اور اتنا کچھ ہو گیا۔۔ وہ خود کو کبھی معاف نہیں کر پاتا۔۔ 

”مجھے ایسا ٹریسر چاہیۓ جسے میں حرم کے موبائل میں لگا سکوں۔۔ جس سے مجھے اسکی ہر پل ہر لمحے کی رپورٹ ملتی رہے کہ وہ اس وقت کہاں ہے۔۔ اس جگہ کی لوکیشن نام کے ساتھ شو ہو مجھے۔۔۔ چودہ فروری سے پہلے پہلے مجھے یہ چاہیۓ۔۔“ 

فرہاد نے موبائل نکال کر حمزہ کو میسج کیا اور پھر موبائل ساٸیڈ پر رکھ دیا۔۔ 

رات کا کافی وقت ہو چکا تھا۔۔ آہستہ آہستہ غنودگی اسکے دماغ ہر چھا رہی تھی اور پھر کتنی کوشش نا سونے کی کرنے کے باوجود وہ نیند کی وادی میں اتر گیا۔۔ 

         جاری ہے۔۔۔۔۔۔

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─