┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 20۔ پارٹ 2

 آخر اس دشمن ِجان کا گھر بھی آہی گیا تھا۔۔ حمزہ سب سے پہلے گاڑی سے اترا تھا۔۔ گیٹ پر وہاج بھاٸ اور ثانی آپی نے انکا استقبال کیا۔۔ شزا بھی ساتھ تھی۔۔ حمزہ کی نظریں اسے ڈھونڈ رہی تھیں۔۔۔ مگر وہ کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔۔ انہیں برآمدے نما لاٶنج سے گزار کر ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا۔۔ عالیہ تو بیٹھی ہی نہیں۔۔ 

حرم بابھی کدھر ہیں۔۔ اس نے شزا سے پوچھا اور پھر اس کے ساتھ ہی حرم سے ملنے چلی گٸ۔۔ 

کچھ دیر بعد زین اور نبیل آۓ تھے۔۔ حمزہ کو کمپنی دینے کیلیۓ۔۔ خیر وہ ان سے باتوں میں مصروف ہوگیا۔۔ 

عالیہ حرم کو دیکھ کر حیران رہ گٸ تھی۔۔ پیلے رنگ گے سادہ سے سوٹ میں وہ بہت معصوم دکھاٸ دے رہی تھی۔۔ بالوں کی چٹیا بنا کر ایک طرف سے آگے کیا گیا تھا۔۔ بالوں میں پھول لگاۓ گۓ تھے۔۔ کچھ دیر بعد نتاشہ اور فاریہ بھابھی بھی اسکے پاس آگٸ تھیں۔۔ 

اففففف کسی نے نظر اتاری ہماری حرم کی۔۔ فاریہ بھابھی نے پوچھا۔۔ 

خود ہی تو کہا ہے کہ آپ لوگوں کی حرم ہے۔۔ تو پھر اتار لیجیۓ نظر بھی۔۔ ثناء نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ 

رسم شروع ہونے لگی تو زیبا بیگم بھی حرم کے پاس آٸ۔۔ انہوں نے ابھی تک حرم کو نہیں دیکھا تھا۔۔ اور اس وقت دیکھ کر انہوں نے فرہاد چواٸس پر رشک کیا تھا۔۔ وہ بہت اچھی خاتون تھیں۔۔ لیکن ماضی میں ہوۓ حادثے کے باعث وہ ڈر چکی تھیں۔۔ سامنے بیٹھی لڑکی انہیں معصوم اور بے ضرر نظر آرہی تھی۔۔ لیکن دل میں وہی ڈر تھا۔۔ جس نے زیبا بیگم کو حرم سے گھلنے ملنے نہیں دیا۔۔ 

خیر چائے اور دیگر لوازمات سے تواضح کرنے کے بعد ہلدی کی رسم کی گٸ۔۔ نتاشہ بھابھی نے حرم کی نظر اتاری تھی۔۔ 

اور ایک حرم تھی جسے کچھ ہوش ہی نہیں تھا۔۔ یہ کیا ہوتا جارہا ہے اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔ کوٸ فیلنگز کوٸ جزبہ اسے اپنے اندر محسوس نہیں ہو رہا تھا۔۔ سب خوش تھے اسکے لیۓ اتنا ہی کافی تھا۔۔ البتہ کشف فل ناراض تھی۔۔ وہ ابھی بھی پھولا ہوا منہ بنا کر اسے دیکھ رہی تھی۔۔

ایسے کیا دیکھ رہی ہو کشف۔۔ حرم نے پوچھا تھا۔۔ 

دیکھ رہی ہوں۔۔ یقين کرنے کی کوشش کر رہی ہوں کہ سچ میں تمہاری شادی ہو رہی ہے۔۔ ؟؟ کشف نے کہا۔۔ 

کرلو یقين اب۔۔ حرم نے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا۔۔ اور کشف اس سے اتنی دیر ناراض نہیں رہ سکتی تھی۔۔ 

وہ اٹھ کر حرم کے پاس آٸ۔۔ اور اسے گلے لگایا۔۔ بھول مت جانا مجھے۔۔ کشف نے بھراٸ ہوٸ آواز سے کہا۔۔ تم جانتی ہو میں تم سے سب سے زیادہ پیار کرتی ہوں۔۔ 

ارے۔۔ رو کیوں رہی ہو جانتی ہوں۔۔ آج میری رخصتی نہیں ہے کشف۔۔ مجھے بھی رلاٶ گی کیا۔۔ حرم نے پوچھا۔۔

سوری۔۔ کشف کہتے ہوۓ الگ ہوٸ۔۔ 9 سالوں کی دوستی ہے ہماری۔۔ اگر تم شادی کے بعد زرا سا بھی بدلی نا تو تمہاری خیر نہیں۔۔ کشف نے مصنوعی غصے سے کہا۔۔ 

نہیں بدلتی میری جان۔۔ حرم نے مسکرا کر جواب دیا۔۔ 

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمزہ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔۔ ڈراٸنگ روم میں بیٹھے بیٹھے وہ بور ہو چکا تھا۔۔

 اس سے اچھا تو HD صاحب تم آتے ہی نا۔۔ جس کام کیلیۓ آیا تھا وہ تو ہوا ہی نہیں۔۔ حورعین اسے ابھی تک نظر نہیں آٸ تھی۔۔ البتہ کچھ دوسری لڑکیاں اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر گھور رہی تھیں۔۔ 

اوو HD بی کیٸرفل۔۔ مجھے لگتا ہے تمہاری عزت یہاں محفوظ نہیں ہے۔۔ حمزہ نے ان لڑکیوں کی طرف دیکھتے ہوۓ خود سے کہا۔۔

شام کے بعد اب رات ہو رہی تھی۔۔ عالیہ لوگ پتا نہیں کہاں غاٸب ہیں۔۔ وہ سوچ رہا تھا۔۔ 

تبھی اسکے موبائل پر بیل ہوٸ۔۔ فرہاد کی کال ہے۔۔ وہ شکر مناتا کال سننے کیلۓ باہر صحن میں آیا۔۔ اندر نیٹ ورک مسٸلہ کر رہا تھا۔۔  

وہ فون سن رہا تھا تب ہی اسکی نظر سیڑھیاں اترتی حورعین پر پڑھی تھی۔۔ اور وہ تو کیا وقت بھی تھم گیا تھا۔۔ 

ہلکے پیلے رنگ کے چوڑی دار پجامہ کے اوپر اسی رنگ کی گٹھنوں سے زرا اوپر تک آتی شرٹ پہنے۔۔ سبز رنگ کا ڈوپٹہ ہمیشہ کی طرح گلے میں لہراۓ۔۔ پیلے اور سبز رنگ کی چوڑیوں سے بازو بھرے ہوۓ تھے۔۔ وہ ننگے پاٶں سیڑھیاں اتر رہی تھی۔۔ کچھ ڈبے تھے اسکے ہاتھ میں جو شاید وہ اوپر سے لاٸ تھی۔۔ بالوں کی ٹیل پونی کیۓ وہ سیدھا حمزہ کے دل میں اتری تھی۔۔ فرہاد بول رہا تھا مگر حمزہ کہاں سن رہا تھا۔۔ اسکی نظریں بس حورعین پر اٹکی تھیں۔۔ 

وہ جاچکی ہے۔۔ HD بھاٸ۔۔ عالیہ نے اسکی چوری پکڑ لی تھی۔۔

حمزہ چونکا۔۔ وہ میں۔۔۔ وہ میں فرہاد کی کال۔۔ حمزہ بڑبڑایا۔۔ 

سب جانتی ہوں میں۔۔ عالیہ نے ہنستے ہوۓ کہا۔۔ 

آپکے چہرے پر سب کچھ لکھا ہے۔۔ لیکن زرا احتياط کیجیۓ۔۔ اس گھر میں اسکے بھاٸ بھی ہیں۔۔۔ عالیہ نے زین اور نبیل کی طرف اشارہ کیا۔۔ 

اور حورعین انہی کے پاس کھڑی تھی۔۔ وہ شزا نبیل اور زین جانے ایک طرف کھڑے کیا باتیں کر رہے تھے۔۔ اور مسکرا رہے تھے۔۔ 

کہاں کھو گۓ۔۔ عالیہ نے اسے گھم سم دیکھ کر کہا۔۔ 

”اس قدر کشش ہے تمہاری اداٶں میں۔۔ 
ہم اگر تم ہوتے۔۔۔۔ تو خود سے عشق کر لیتے۔۔۔ “

بھاٸ۔۔ HD بھاٸ۔۔ عالیہ نے اسے کندھے سے پکڑ کر ہلایا۔۔ 

ہاں۔۔ وہ چونکا۔۔ 

چلیں اندر یہاں بہت ٹھنڈ ہے۔۔ عالیہ نے کہا۔۔ 

 ہاں چلو۔۔ حمزہ نے جواب دیا۔۔ وہ خود وہاں زیادہ دیر کھڑا نہیں ہونا چاہتا تھا۔۔ 

         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور پھر بیس منٹ بعد حورعین ڈراٸنگ روم میں آٸ تھی۔۔ ایک ٹرے میں چاۓ، پین کلرز اور پانی کا گلاس تھا۔۔ حمزہ اسے دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔۔ 

حورعین نے ٹرے اسکے ٹیبل پر رکھی۔۔ یہ میڈیسن کھا لیں آپ۔۔ وہ عالیہ نے بتایا کہ آپکے سر میں درد ہے۔۔ اس لیۓ میں یہ چاۓ بھی بنا کر لاٸ ہوں۔۔ حمزہ حیران ہوا۔۔ 

اسکامطلب حورعین سے عالیہ نے جھوٹ بولا تھا کہ حمزہ کے سر میں درد ہے اسے چاۓ وغيرہ دے دو۔۔ حمزہ سمجھ چکا تھا۔۔ 

تھینک ہو۔۔ وہ خوشدلی سے مسکریا۔۔ اور پینا ڈول کے ساشے سے ساری گولیاں نکالنے لگ گیا۔۔ 

یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔۔ حورعین حیران ہوٸ

آپ نے کہا ہے میڈیسن کھا لیں تو میں کھانے لگا ہوں۔۔ حمزہ نے جواب دیا۔۔ 

اتنی ساری۔۔ حورعین نے کہا۔۔ 

اور حمزہ نے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا جس پر 8 پینا ڈول کی گولیاں نظر آرہی تھیں۔۔ 

یہ مجھے ہو کیا رہا ہے۔۔
سوری۔۔ وہ شرمندہ ہوا۔۔ 

صرف ایک کھا لیں پھر یہ چاۓ پی لیجیۓ گا۔۔ آپ ٹھیک ہو جاٸیں گے۔۔ حورعین کہہ رہی تھی۔۔ 

اور حمزہ کا دل کر رہا تھا کہ کاش وہ ہمیشہ اسکی ایسے ہی فکر کرتی رہے۔۔ اسکا اتنا ہی خیال رکھے۔۔ 

حورعین کو کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔۔ حمزہ کی آنکھوں میں عجیب سا لو دیتا تاثر تھا۔۔ وہ جانے کیلیۓ کھڑی ہوٸ۔۔ وہ گڑبڑا گیا۔۔ 

اچھا سنیں۔۔ حمزہ نے آواز دی۔۔ 

جی۔۔ حورعین نے رکتے ہوۓ کہا۔۔ 

آپکا ڈریس بہت اچھا لگ رہا ہے۔۔ حمزہ نے تعریف کی۔۔ 

اور حورعین نے اپنے ڈریس کی طرف دیکھا۔۔

اسکا مطلب میں اچھی نہیں لگ رہی۔۔ حورعین نے مشکوک نگاہوں سے پوچھا۔۔

نہیں میرا مطلب ڈریس اچھا لگ رہا ہے تو آپ بھی۔۔ حمزہ نے کہا۔۔ 

اچھا اسکامطلب ڈریس زیادہ اچھا لگ رہا ہے اور میں کم۔۔ حورعین نے پوچھا۔۔ 

ارے نہیں۔۔ میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔ اور HD نے ماشااللہ آج تک کسی لڑکی کی تعریف نہیں کی تھی۔۔ وہ بہت پریشان ہوا کہ کیا بول دیا میں نے۔۔ 

سمجھ گٸ میں آپکا مطلب۔۔ ڈریس زیادہ اچھا ہے اس لیۓ میں اچھی لگ رہی ہوں۔۔۔ ورنہ میں پیاری نہیں ہو ہے نا۔۔ حورعین نے منہ پھلایا۔۔ بلکہ وہ اسے جان بوجھ کر تنگ کر رہی تھی۔۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اتنا بولڈ لڑکا جس نے پورا آغا ہاٶس سر پر اٹھا یا ہوا تھا۔۔ آج اسے کیا ہوا ہے۔۔ 

نہیں آپ زیادہ پیاری ہیں۔۔وہ اپنی جگہ سے اٹھا۔۔ مجھے لگا آپ برا نا مان جاٸیں اس لیۓ ڈریس کی تعریف کردی۔۔ حمزہ نے بھولا سا منہ بنا کر کہا۔۔ 

اور حورعین کو ہنسی آگٸ۔۔ وہ جو پریشان پھر رہی تھی کہ اسد نہیں آیا۔۔ حمزہ کی باتوں نے اس پریشانی کا اثر کم کردیا تھا۔۔ 

تھنک یو۔۔ آپ بھی بہت اچھے لگ رہے ہیں۔۔ وہ کہتی ہوٸ چلی گٸ۔۔ اور حمزہ بس دیکھتا رہ گیا۔۔ 

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 #26_ january 
#Islamabad

فرہاد ہاسپٹل سے نکلنے کی جلدی میں تھا۔۔ کل سے اسے ہزار فون آچکے تھے کہ جلدی آجاٶ تمہاری شادی ہے۔۔ اور آج اسکی فلاٸیٹ تھی۔۔ 

تب ہی اچانک ڈاکٹر منیشا اس کے پاس آٸ۔۔ 

یہ کیا مزاق ہے۔۔ وہ غصے سے بولی۔۔ 

اور فرہاد نے چونک کر اسے دیکھا۔۔ اور پھر ٹیبل پر پڑے ہوۓ کارڈ کو جو ڈاکٹر منیشا نے پھینکا تھا۔۔ 

فرہاد نے کارڈ اٹھایا اور پھر اسے دیکھ کر وہ خود حیران رہ گیا۔۔ 

وہ اسکی اور حرم کی شادی کا کارڈ تھا۔۔ مگر اسے حیرانگی اس بات کی ہوٸ کہ اس نے تو کارڑ نا بنواۓ تھے اور نا کسی کو انویٹیشن بھیجا تھا۔۔ وہ سادگی سے شادی کر رہا تھا۔۔ کسی کو بھی نہیں پتا تھا سواۓ چند خاص خاص لوگوں کے۔۔ اس نے سوچا تھا کہ جب ریسپشن کرے گا تو سب کو پتا چل جاۓ گا۔۔ تو پھر یہ کہاں سے آیا۔۔؟؟ 

کیا بکواس ہے یہ۔۔ فرہاد کو یوں خاموش دیکھ کر ڈاکٹر منیشا کو اور غصہ آیا۔۔ 

بکواس نہیں ہے یہ سچ ہے۔۔ فرہاد نے کہا۔۔ 

حمزہ۔۔شیطان کی روح۔۔ یہ ضرور اسی کا کام تھا۔۔ اس نے یہ گفٹ بیجھا تھا ڈاکٹر منیشا کو۔۔ وہ کب کسی کا ادھار رکھتا تھا۔۔ 

تم ایسا کیسے کر سکتے ہو میرے ساتھ۔۔ اور یہ کیسی شادی ہے جو اتنی جلدی میں ہو رہی ہے۔۔ کسی کو کانوں کان خبر نہیں۔۔ ڈاکٹر منیشا کو غصہ ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا۔۔ 

میں نے آپکے ساتھ کچھ نہیں کیا۔۔ اور بہتر ہوگا اب آپ سمجھ جاٸیں۔۔ وہ جانے کیلیۓ بڑھا۔۔ 

وہ اسکے راستے میں آکر کھڑی ہوگٸ۔۔ 

میں ایسا نہیں ہونے دونگی۔۔ میری فیلنگز کو تم جانتے ہو فرہاد آغا۔۔ پھر تم ایسا نہیں کر سکتے میرے ساتھ۔۔ وہ چلاٸ۔۔ 

یہ آپکی اپنی غلطی ہے میں نے کبھی آپکی حوصلہ افزاٸ نہیں کی۔۔ یہ آپکے دماغ کو فتور تھ جو آپ ایسا سوچتی رہی۔۔اور اب میرا راستہ چھوڑیں۔۔ مجھے لاہور جانا ہے۔۔ لیٹ ہو رہا ہوں میں۔۔ کل میرا نکاح ہے۔۔ فرہاد آغا نے سخت لہجے میں کہا۔۔

اووو اچھا۔۔ تو اس لیۓ بھاگ بھاگ کر لاہور جایا جاتا تھا۔۔ ڈاکٹر منیشا کو تو سر سے پاٶں تک آگ لگ چکی تھی۔۔ 

فرہاد نے اسے کندھے سے پکڑ کر ایک ساٸیڈ پر کیا۔۔ 

Don't cross your limit.. 

وہ اسے انگلی کے اشارے سے وارن کرتا چلا گیا۔۔ 

تمہیں بہت مہنگا پڑے گا یہ فرہاد آغا۔۔ بہت مہنگا۔۔ وہ چلا رہی تھی جبکہ فرہاد تیز تیز قدم اٹھاتا اسکی نگاہوں سے اوجھل ہو چکا تھا۔۔ 

         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

وہ قبرستان میں ایک قبر کے سامنے کھڑا تھا۔۔ اور قبر پر نام لکھا تھا۔۔ ”اعظم علی آغا۔۔ “
وہ فرہاد کے والد کی قبر تھی جس کا تین سال پہلے انتقال ہو چکا تھا۔۔ فاتحہ پڑھنے کے بعد وہ اب اس سے باتيں کر رہا تھا۔ 

مجھے معاف کردیجیۓ گا بابا جان۔۔ میری وجہ سے یہ سب ہوا۔۔ میں ہرگز اچھا بیٹا نہیں بن پایا۔۔ لیکن آج ایک کام کرنے جا رہا ہوں۔۔ میں شادی کر رہا ہوں۔۔ لیکن اس بار لڑکی بالکل آپکے پسند کی ہے۔۔ وہ جیسی آپ میرے لیۓ چاہتے تھے۔۔ 

کاش میں تب سمجھ جاتا تو آج آپ میرے ساتھ ہوتے۔۔ فرہاد کی آنکھوں سے آنسو نکلے۔۔ فرہاد نے ہاتھ بڑھا کر صاف کیا۔۔ 

لیکن میں اب کوشش کر رہا ہوں کہ ویسا بن جاٶں جیسا آپ چاہتے تھے۔۔۔ 

پھر کچھ اور باتیں کرنے کے بعد وہ قبرستان سے واپس جارہا تھا۔ اب اسے اٸیر پورٹ جانا تھا۔۔ آدھے گھنٹے بعد اسکی فلاٸیٹ تھی۔۔ 

            ❤❤❤❤#27_january 
#Lahore

حرم جلدی کرو ہمیں پارلر کیلیۓ نکلنا ہے۔۔ شزا نے کمرے کے دروازے سے آواز دے کر کہا اور پھر غائب ہو گٸ۔۔ 

آج 27 جنوری تھی۔۔ آج حرم نور کی شادی تھی۔۔ وہ اپنے کمرے میں تھی۔۔ اتنی جلدی دن گزر گۓ پتا ہی نہیں چلا۔۔ آج اسکا اس گھر میں اس کمرے میں آخری دن تھا۔۔ پھر یہ سب پرایا ہو جاتا۔۔ حرم اپنے کمرے کی ایک ایک چیز کو ہاتھ سے چھو کر دیکھ رہی تھی۔۔ وہ سب کچھ اپنے اندر اتارنا چاہتی تھی۔۔ 

عباس چاچو۔۔ شزا کے والد۔۔ وہ بھی دبٸ سے نہیں آسکے تھے۔۔ اتنی جلدی میں شادی ہورہی تھی کہ انہیں موقع ہی نہیں مل سکا آنے کا۔۔ البتہ وہ فون پر بات کر چکے تھے حرم سے۔۔ اسے ہمیشہ خوش رہنے کی دعائيں دی تھیں۔۔ 

اور حرم کے والد۔۔عمر دراز۔۔ جو پانچ سال پہلے گھر چھوڑ کر چلے گۓ تھے۔۔ کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا۔۔ کوٸ نہیں جانتا تھا وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔۔ حرم کو آج شدت سے یاد آۓ تھے۔۔ 

آج مجھے آپکی سب سے زیادہ ضرورت تھی پاپا۔۔ آپ نے کبھی سوچا بھی ہے ہم نے کیسے زندگی گزاری ہے آپکے بنا۔۔ وہ تصور میں انہیں مخاطب کر رو دی تھی۔۔ 

آج کے دن ایک بیٹی کو اپنے باپ کی مزبوط بازوٶں کا سہارہ چاہیۓ ہوتا ہے۔۔ آج بھی آپ میرے پاس نہیں ہیں۔۔ خیر چھوڑیں اب آپکی مجھے ضرورت بھی نہیں ہے۔۔ عادت ہوگٸ ہے اب ایسے جینے کی۔۔ وہ آنسو صاف کرتی کمرے سے باہر چلی گٸ۔۔ 

اب وہ گھر کی ایک ایک چیز کو دیکھ رہی تھی۔۔ گملوں میں لگے چنبیلی کے پودوں کو اس نے چھوا تھا۔۔ آج سے تمہارہ مالکن کوٸ اور ہوگی۔۔۔ حرم نے انسے کہا۔۔ 

چلیں حرم۔۔ شزا نے اسکے پاس آتے ہوۓ کہا۔۔ اور پھر اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اسکا خود کا دل بھر آیا تھا۔۔

پلیز رو مت یار۔۔ تمہاری طبیعت خراب ہو جاۓ گی۔۔ تمہارا فریش ہونا اور نظر آنا بہت ضروری ہے۔۔ 

گھریں کوٸ بھی نہیں تھا سب میرج ہال جا چکے تھے۔۔ بس وہ شزا اور حورعین تھیں۔۔ اسد باہر گاڑی لے کر کھڑا تھا۔۔ انہیں پارلر پہنچاے کی زمہ داری اسکی تھی۔۔ 

حرم نے ایک الوداٸ نظر گھر پر ڈالی اور پھر گیٹ سے باہر نکل آٸ۔۔ 

گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر حورعین اور اسد دونوں بیٹھے تھے۔۔ اسد بنا سنورا بہت اچھا لگ رہا تھا۔۔ اور حورعین ابھی تیار نہیں ہوٸ تھی۔۔ اس نے بھی پارلر سے تیار ہونا تھا۔۔ البتہ آج وہ دونوں بہت خوش تھے۔۔ کیا راز تھا یہ تو وقت ہی بتا سکتا تھا۔۔ 

حرم اور شزا گاڑی میں بیٹھ چکی تھیں۔۔ اور پھر اسد نے گاڑی سٹارٹ کی اور ایک فراٹے سے لے کر آگے بڑھ گیا۔۔ 

         جاری ہے۔۔۔۔۔۔


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─