┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: لو_مان_لیا_ہم_نے
از: فاطمہ_خان
قسط_نمبر_10

حورین گھر آئی تو ابا کو گھر پر موجود ناں پا کر پریشان ہو گئی ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ ابا گھر سے بنا بتاۓ کیے جاتے جب سے بیمار ہوئے تھے گھر کے ہی ہوں کر رہ گئے تھے حورین کی پریشانی مزید بھر گئی جب آگے بیس منٹ تک بھی ان کا پتا ناں چلا اس نے ابا کے فون پر بار بار کال کی نمبر مسلسل بند جا رہا تھا وہ پریشانی میں گھر کے چھوٹے سے صحن میں ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھی مزید آدھا گھنٹہ گزرا تھا اسنے اپنی چادر لی اب وہ انہیں ڈھونڈنے خود ہی جانے لگی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی اس نے چادر چارپائی پر رکھ کر دروازا کھولنے آگے بڑھی 
دروازا کھولتے ہی سامنے آبا کا چہرہ دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی 
"کہاں تھے آپ ابا میں کب سے آپ کو فون ملا رہی تھی نمبر مسلسل بند جا رہا تھا میں کتنی پریشان ہو گئی تھی اس بات کا آپ کو اندازہ بھی ہے ضرورت کیا تھی باہر جانے کی کچھ بھی چاہیے تھا تو مجھے بتا دیتے میں لے آتی مگر نہیں آپ کو مزہ آتا مجھے یوں تڑپنے میں"
حورین نان سٹاپ شروع ہو گئی تھی پیچھلے ایک گھنٹے سے وہ بہت پریشان کو گئی تھی اب ابا کو سامنے دیکھتے ہی حود پر قابو نہیں پا سکی 
ابا نے مسکرا کر اپنی معصومیت سی بیٹی کو دیکھا جو واقعی پریشان لگ رہی تھی 
"آرام سے بیٹا اندار تو آنے دوں پہلے باہر ہی کھڑا رکھنے کا ارادہ ہے کیا "
انہوں نے مسکرا کر کہا 
"او سوری ابا پریشانی میں پتا ہی چلا آپ آئے اندار "
حورین نے ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا 
ابا نے اندار آ کر اپنے پیچھے کسی کو آنے کا اشارہ کیا 
"بیٹا یہ دامیر بیٹا ہے راستے میں میری طبیعت خراب کو گئی تھی انہوں نے دیکھا تو ہوسپٹل لے گئے بس ایسی وجہ سے دیر ہو گئی موبائل میں بھی شاید چارج حتم ہو گیا ہو گا میں نے دیکھا ہی نہیں"
ابا محبت سے حورین کے سر پر ہاتھ پھیرا سامنا سر دامیر کو دیکھ کر اس کے اوسطان حطا ہو گئے اس نے اپنے آپ پر غور کیا اس کا دوپٹہ گلے میں جھول رہا تھا خوبصورت کالے بال کھولے ہوئے تھے اس نے آتے ہی اسکاف اتار کر پھینک دیا بال کھول دیے تھے گرمی بہت تھی بالوں میں بھی پسینہ آ گیا تھا دامیر نے بہت غور سے اس کا جائے لیا اس نے کل سے ڈوپٹہ سر پر لیا 
"اسلام میں سر آپ یہاں "
ہوش میں آتے ہی اسے آداب میزبانی یاد آ گئی دامیر اس کی اس حرکت پر مسکرائے بنا نا رہ سکا 
"تم جانتی ہوں انہیں"
ابا نے تعجب سے اپنی بیٹی کو دیکھا 
"جی ابا یہ ہمارے ٹیچر ہے یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں "
اس نے ابا کا ہاتھ تھام کر جواب دیا 
"اچھا یہ تو اچھی بات ہے بہت ہی نیک بچہ ہے ماشاءاللہ آؤ بیٹا میرے ساتھ "
ابا نے اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا 
"یہ تو آہی نہیں رہا تھا میں سے زبردست اندار لایا اسے ایک گپ چائے تو پی سکتا ہے یہ میرے ساتھ"
ابا نے شفقت سے دامیر کو دیکھ کر کہا 
"آپ ٹھیک کہ رہے ہیں ہے آپ زبردستی لے آئے ورنہ مجھے پوری عمر اپنی اندار نہ انے پر افسوس ہوتا "
دامیر نے ایک نظر حورین کے چہرے کو دیکھ کر معنی خیز آندا میں مسکرا کر کہا  
خود پر مسلسل دامیر کی نظروں کی تپش محسوس کر کے ثوری مزید کنفیوز ہو رہی تھی
"سر آپ پلیز بیٹھے میں آپ کے لیے چائے بنا کر لاتی ہوں"
حورین نے بہت مشکل سے قابو کیا اور چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ سجائے کہا دامیر نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا اور ابا کے پاس جا کر بیٹھ گیا 
کچن میں آ کر اس نے گہری سانس لی اسے رہ رہ کر سر کا دیکھنا کا انداز یاد آ رہا تھا کتنی محبت تھی ان کی آنکھوں میں اس نے سر جھٹکا جلدی جلدی چائے بنا کر لائی دامیر ابھی بھی ابا کے سامنے کرسی پر نظریں نیچے جھکاؤ بیٹھا تھا
"ڈرامے باز ناں ہو تو"
حورین بڑبڑا کر آگے بڑھی 
"چینی کتنی لے گے سر "
اس نے چاہے گپ میں ڈال کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا
"آپ نے اتنی محبت سے اپنے ہاتھوں سے بنا کر لائی ہے چینی کی تو ضرروت نہیں اب یہ خود بخود میٹھی ہی ہو گئی"
اس نے آہستہ سے کہا حورین نے ڈر کر ابا کو دیکھا وہ سائیڈ ٹیبل پر اپنی دوائیاں ڈھونڈنے میں مصروف تھے 
اس نے غصہ سے سر کو گھورا 
ابا بھی اب اس کی طرف متوجہ ہو گئے 
"سر چینی کتنی لے گئے"
اب کے اس نے چبا چبا کر الفاظ ادا کیے 
دامیر زیر لب مسکرا اٹھا 
"ایک چمچ "
اس نے آنکھوں کے نیچے سے مسکرا کر اسے دیکھ کر کہا حورین نے جلدی جلدی چائے بنا کر اسے دی اور ابا کے ساتھ جا کر بیٹھ گئی وہاں سے دامیر کو وہ نظر نہیں آ رہی تھی 
"انکل کوئی بھی کام یہ کبھی بھی کوئی مسلئہ ہو تو یہ میرا کاڈ ہے آپ مجھ سے بلا جھجک رابطہ کر سکتے ہیں مجھے آپ کے کام آ کر خوشی ہو گی"
چائے کا آخری گھونٹ پی کر اس نے اپنا کاڈ جیب سے نکال کر انہیں دیا 
"بہت بہت شکریہ بچے"
"انکل پلیز یہ تو میرا فرض بنتا تھا آپ ایسے کہ کر مجھے شرمندہ مت کریں مجھے بھی اس بہانے اتنی اچھی چائے پینے کو مل گئی شکریہ تو مجھے ادا کرنا چاہیے"
اس نے ابا کے سامنے جھک کر جانے کی اجازت لی حورین بلکل لاتعلق بیٹھی رہی 
"بیٹا دامیر بیٹے کو زرا باہر تک چھوڑ آؤ میں اب باہر تک جا نہیں سکتا بہت تھک گیا ہوں"
ابا نے حورین کو کہا وہ چار رونا چار اٹھ کر اس کے ساتھ دروازے تک آئی
"مس حورین اتنے مزے کی چائے پلانے کا شکریہ مجھے اچھا لگا آپ کے ہاتھ کی چائے پی کر "
دامیر نے دروازے میں روک کر بہت لگاوٹ سے کہا
"اس میں شکریہ کی کوئی بات نہیں سر آپ نے ابا کی اتنی مدد کی شہر تو مجھے کہنا چاہیے "
حورین نے آرام سے کہا 
"خیر آپ کی شکریہ کی ضرورت نہیں ہے انقریب ان سے میرا بہت گہرا تعلق جوڑنے والا ہے اتنا تو میں کر ہی سکتا ہوں"
اس نے ہنس کر حورین کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا 
"کیا مطلب سر میں سمجھی نہیں"
اس نے پریشان نظروں سے اسے دیکھا 
"جلد ہی سمجھ جائے گی حور .. بس ایک بات کا اعتراف کرنا تھا آپ حجاب میں کمال لگتی ہے مگر آج جس روپ میں میں نے آپ کو دیکھا ہے مجھے لگتا ہے میں اپنا دل ہار بیٹھا ہو چلتا ہو اپنا حیال دکھیے گا "
اور آہستہ سے اس کے قریب ہو کر رازداری میں بولا پھر اس کی طرف دیکھے بنا لمبے لمبے ڈگ بھرتا دروازا عبور کر گیا پیچھے حورین حیران پریشان کھڑی اس کے لفظوں کے معنی ہی سمجھتی رہ گئی یہ کون سا روپ تھا سر کا وہ جان نہیں پائی 
"حورین کہا رہ گئی ہوں بچے"
ابا کی آواز پر وہ واپس اپنے اول حالت میں لوٹ آئی 
                  ...........................

وہ کل سے آیا تھا ابھی تک زرشالہ سے ملا نہیں تھا وہ ناجانے کیوں اس سے چھپتا پھر رہا تھا زرشالہ پورا دن اس کا انتظار کرتی رہی وہ گھر نہیں آیا رات گئے وہ گھر آیاتب تک وہ وہی لاؤنچ میں انتظار کرتے کرتے سو گئی تھی
زالان سارا دن آوارہ گردی کر کے گھر لوٹا لاؤنچ میں صوفے پر سوئی وجود پر نظر پڑتے ہی اس کے قدم خود بخود لاؤنچ کی طرف بڑھے وہ وہی پاؤں کے بل اس کے سامنے نیچے بیٹھ گیا 
زرشالہ کے بال ادھر بھی بکھرے پڑے تھے وہ سوتے ہوئے بہت معصوم لگ رہی تھی اس کی لمبی لمبی پلکیں بند آنکھوں میں بہت دلکش لگ رہی تھی سنہری لمبے بال پنکھے کے ہوا سے اڑ اڑ کر اس کے چہرے پر آ رہے تھے زالان بےخود بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا لاشعوری طور پر اپنا ہاتھ آگے کر کے اس کے بال چہرے سے ہٹا کر کان کے پیچھے کیے 
اس کے چہرے پر شرارت کا نام و نشان تک نہیں تھا پورا دن لوگوں کے ناک میں دم کرنے والی شالہ اس وقت بہت معصوم اور پیاری لگ رہی تھی زالان کو اپنے دل کے بدلتے حالت پر خود ہی حیرت ہوئی وہ جلدی سے اٹھ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے میں جا کر بند ہو گیا
"میں ایسا سوچ بھی کیسے سکتا ہوں وہ مجھے کیا سمجھتی ہے اور میں نہیں نہیں میں اپنی گڑیا کا یقین نہیں توڑ سکتا میں اس کو دوھکا نہیں دے سکتا یہ میرے دل کو کیا ہو گیا ہے مما آپ نے یہ کیا کر دیا مجھے کس دوراہے پر لاکھڑا کر دیا میں نے کبھی خواب میں بھی ایسا نہیں سوچھا تھا میں اپنی زرشالہ کو کبھی بھی تکلیف نہیں دے سکتا مجھے اپنے دل کو سمجھنا پڑے گا "
زالان کمرے میں ادھر سے ادھر بے چینی سے ٹہل رہا تھا دماغ دل کا ساتھ نہیں دے رہا تھا وہ اپنے دل کی بلکل نہیں سنا چاہتا تھا ایسا ناممکن تھا 
           .....................
"زالان آپ یہاں ہے اور میں آپ کو کل سے ڈھونڈ رہی ہوں کیا ہو گیا ہے آپ کو کل سے آپ کا انتظار کر کر میں پاگل ہو رہی ہوں اور آپ ہے کے یہاں مزے سے بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے ہیں"
زرشالہ نے زالان کو دیکھا جو مزے سے بیھٹا ٹی وی دیکھ رہا تھا اسے آگ ہی لگ گئی تھی ریموٹ اس کے ہاتھ سے چھین کر غصے سے اسے گھورا 
"کیا ہو گیا ہے شالہ بزی تھا میں کل ہی آیا ہوں اب اتنا فارغ تو نہیں ہو کہ ہر وقت گھر پر ہی پایا جاؤ گا "
زالان نے غصے سے لال پیلی ہوتی زرشالہ کو دیکھ کر عام سے انداز میں کہا زرشالہ نے حیرانی سے زالان کو دیکھا 
"یہ آپ نے مجھے شالہ کس خوشی میں کہا ہے "
آج زندگی میں پہلی بار زالان نے اسے اس کے نام سے مخاطب کیا یہ بات اس کے لیے حیرانی کے باعث تھی 
"ہاں تو اب تم بڑی ہو گئی ہوں اب گڑیا کہتے اچھا تو نہیں لگو گا ناں "
"ہاں میں بڑی ہو گی ہوں مگر آپ نے ہی کہا تھا میں چاہے جتنی بھی بڑی ہو جاؤ آپ کے لیے ہمیشہ گڑیا ہی رہوں گی اب یوں اچانک کیا ہو گیا ہے"
وہ اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھ کر حیرانی سے بولی زالان نے ایک خاموش نظر اس پر ڈالی پر سے ٹی وی دیکھنے میں مگن ہو گیا
"زالان کیا ہوا ہے آپ ایسے کیوں کر رہے ہوں مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے کیا "
اس سے زالان کی خاموشی برداشت نہیں ہوئی کہاں ایک آواز پر ڈور کر آنے والا زالان اور کہاں اب زرشالہ کو اگنور کر کے بیٹھا زالان 
"ایسی کوئی بات نہیں بس میرے سر میں درد ہو رہا ہے اس لیے "
اسے بھی اپنے رویے کا اندازہ ہوا تو سنبھل کر بولا 
"اتنی سی بات لائے میں آپ کا سر دبا دوں"
زرشالہ نے اٹھ کر اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا زالان نے جلدی سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا 
"نہیں یار اب اتنا بھی درد نہیں ہے ایک کپ چائے پیؤ گا تو خود ہی ٹھیک ہو جاؤ گا تم پریشان مت ہوں"
شالا نے ضبط سے مسکرا کر کہا اس کا دل اس کے ساتھ بےایمانی کرنے پر تلا ہوا تھا وہ بار بار اپنے دل کو ڈانٹ کر خاموش ہونے پر مجبور کر رہا تھا 
"چلے میں آپ کے لیے مزے دار سی چائے بنا کر لاتی ہوں اس کے بعد شاپنگ پر چلتے ہیں ٹھیک ہے"
"تم بہروز کے ساتھ چلی جاؤ میں آج نہیں جا سکوں گا "
"کیا مطلب بہروز کے ساتھ چلی جاؤ آپ کے ہوتے میں آج سے پہلے کبھی کسی اور کے ساتھ گئی ہوں جو ابھی جاؤ گئی "
زرشالہ نے ناک چڑھا کر کہا 
"ضروری تو نہیں جو کام آج سے پہلے نہیں کیا وہ پوری زندگی نہیں کروں گی کچھ کام وقت کے ساتھ ساتھ کرنے پڑتے ہیں میں پوری عمر تو تمہارے ساتھ نہیں رہوں گا تمہیں اب میرے بغیر اپنے کام کرنے کی عادت ڈالنی پڑے گئی "
اس نے رخ موڑ کر زرشالہ کی آنکھوں میں دیکھ کر سنجیدگی سے کہا 
"اور ہاں مما کو کہ دینا چائے بنا کر میرے کمرے میں بیجھ دے اور پلیز میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے کوئی بھی میرے کمرے میں ناں ایے "
وہ زرشالہ کے نم آنکھوں سے نظریں چراتا اپنی بات مکمل کر کے چلا گیا اگر وہ ایک لمحہ بھی اور روکتا تو خود سے کیا وعدہ بھول کر وہ زرشالہ کے سامنے ہار جاتا وہ ہارنا نہیں چاہتا تھا وہ زرشالہ کا یقین توڑنا نہیں چاہتا تھا وہ اس کی نظروں میں گر نہیں سکتا تھا 
اس کے جانے کے بعد زرشالہ نے اپنی آنکھیں بےدردی سے رگڑی آج زالان کے رویے نے اسے سہی معنوں میں ہٹ کیا تھا وہ کسی سے بھی ملے بنا وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئی تو آج اس کا اتنا بہترین دوست بھی اس سے الگ ہو گیا تھا 
"ہو سکتا ہے کوئی مسلئہ ہو گیا ہو ان کے ڈیپارٹمنٹ میں ...میں بھی ناں پیچھے ہی پڑ جاتی ہوں کہ بھی رہے تھے سر میں درد ہے میں نے پھر بھی انہوں شاپنگ کا کہا آ گیا ہو گا غصہ میں بھی ناں بس بچی ہی بن جاتی ہوں بلا میرے زالان مجھ سے کب ناراض ہو سکتے ہیں "
بہت سوچنے کے بعد زرشالہ کو لگا غلطی اسی کی ہے اس لیے خود کو سرزد کیا اس نے سوچا وہ کل صبح جا کر زالان کو منا لے گئی آخر کب تک زالان اس سے ناراض ہو سکتا تھا بلا یہ سوچ کر اس نے خود کو پر سکون کیا 
               ........................
"اوے ہوئے زرشالہ آج کل حیر تو ہے ناں "
ولید نے روح افزا کی دوسری کلاس پیتے ہوئے زرشالہ کو دیکھ کر کہا
"کیونکہ کیا ہوا ہے"
اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
"تم اور یہاں یقین نہیں آرہا زالان بھائی کے گھر موجود ہوتے ہوئے ہماری زرشالہ صاحب ہمارے پاس تشریف فرما رہی ہے یہ بات کب ہضم نہیں ہو رہا مجھے"
" دو کلاس شربت ہضم کر لیا ابھی بھی کچھ اور ہضم کرنے کے لیے جگہ باقی ہے کیا"
زرشالہ نے شربت کا جگ اٹھا کر اپنے سامنے رکھا 
"تم تو میرے کھانے پینے پر بھی نظریں گھاڑ کر بیٹھ جایا کروں خیر موضوع بدلنے کی ضرورت نہیں ہے سچ سچ بتاؤ زالان بھائی کی چمچی تم یہاں کیا کر رہی ہوں"
ولید کے ساتھ ساتھ سب کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل تھی 
"بس آج سوچھا تم لوگوں کو بھی اپنے دیدارِ کا شرف عطا کر دوں کیا یاد رکھوں گے کس زندہ دل لڑکی سے واسطہ پڑا ہے تم لوگوں کا "
زرشالہ نے مصنوعی کالر اوپر کر کے فخر سے کہا
"بس کروں یہ ڈائیلاگ بازی بعد میں مارنا تم شیطان کی آنت اللّٰہ معاف کرئے تم تو کسی کو اپنا سر درد بھی مفت میں نہ تو گچا کے اپنا قیمتی وقت ..."
بہروز نے اس کے انداز پر ناگواری سے کہا 
"تم تو بس مجھ سے جل جل کر ایک دن راک ہو جاؤ گے پھر کوئی لڑکی منہ بھی نہیں لگائے گئی کالے بھنس کو "
وہ کہا باز آنے والی تھی 
"تمہیں میں بھنس نظر آتا ہوں"
بہروز صدمے سے چلایا 
"ہاں تو اور کیا وہ بھی جل جل کر کالا ہوا "
"او بےعقل لڑکی مذکر مؤنث کا استعمال تو سوچ سمجھ کر لیا کرو اچھے بلے شحض کو مشکوک بنا دیتی ہوں"
بہروز نے گھور کر اسے شرم دیلانی چاہی
"خیر اس سے کیا فرق پڑتا ہے تم بھنس بنو یا گھوڑی بات تو ایک ہی ہیں ناں"
زرشالہ نے اسے اور تپایا
"ہاہاہا کیا مزے کی بات کی ہے تم نے دل خوش کر دیا بہرور گھوڑی کیسے ہیں آپ "
عمار نے گلاس میں جوس ڈال کر ایک ہی گھونٹ میں پی کر زرشالہ کو شاباشی دی بہروز نے غصے سے اپنے دانت پیسے 
"تم گھوڑی کے خالہ اپنی چونچ بند رکھوں نہیں تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا"
ولید اور شارق اس کے نئے نام سے ابھی تک محفوظ ہو رہے تھے ہنسی تھی کے خود بخود آ رہی تھی بہروز نے ناراض نظروں سے سب کو گھورا 
"چلو بس کروں تم تو بات دل پر ہی لے لیتے ہوں یار اب ایسا بھی کچھ نہیں کہ دیا ہماری شالہ صاحبہ نے تمہیں تو پتا ہے ناں اسے بونگیاں مارنے کا شوق ہے تو کیوں دل پر لے رہا ہے پگلے "
شارق نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے دلاسا دینا چاہا 
"چپ کروں تم اور دور ہٹو مجھ سے تم سب اس چیڑیل کے ساتھ ملے ہوئے ہوں جب دیکھو یہ شیطان کی آنت ہر کسی ہو تنگ کرنے میں مصروف ہوتی ہے پتا نہیں اتنا دماغ کہا سے آتا ہے اس کے پاس "
بہروز نے شارق کا ہاتھ جھٹک کر زرشالہ کو گھورا 
"مجھے پتا ہے کہاں سے آتے ہیں اس کے دماغ میں یہ فضول خیالات"
عمار نے چہک کر کہا سب نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا جیسے ابھی بہت راز کی بات بتانے والا ہو وہ 
"اب بھونک بھی دوں "
بہروز نے چڑ کر کہا
"ہماری زرشالہ صاحبہ صبح اٹھ کر کوے کے پائے کھاتی ہے ناشتے میں اس لیے پورا پورا دن کائے کائے لگایا ہوتا ہے اس نے .."
عمار نے آگے ہو کر آہستگی سے کہا
"آخ تھو.. گندے غلیظ انسان ہر کسی کو اپنی طرح سمجھ رکھا ہے اپنا ناشتہ آوروں پر کیوں تھوپ رہے ہوں"
زرشالہ نے منہ بنا کر کہا 
"عمار تو یہی ناشتہ کرتا ہے میں نے خود دیکھا ہے ایسے "
ولید نے ہنس کر کہا
"ہاں ہاں ولید سے جو بچ جاتا ہے وہ میں ہی تو کھاتا ہوں کیوں ولید سچ کہ رہا ہوں ناں"
عمار نے دانت نکال کر مزے سے کہا 
"چپ کروں گندوں کتنی گندی باتیں کر رہے ہوں مجھے سوچ کر ہی الٹی آ رہی ہیں"
روما نے منہ پر ہاتھ رکھ کر سب کو گھورا 
"تمہیں سوچ کر آ رہی ہیں میں نے تو خود زرشالہ کو کھاتے دیکھا ہے صبح"
عمار کہا ہار ماننے والا تھا
"آخ تھو تھو .. عمار میرے ہاتھوں ضائع ہو جاؤ گے اب کے جو تم نے یہ بات کی بھی تو "
زرشالہ نے اٹھ کر اسے بالوں سے کھینچ کر کہا 
"جنگلی بلی بال چھوڑوں میرے ... امی ہائے میری امی "
عمار نے چیغ چیغ کر گھر آسمان پر اٹھا لیا زرشالہ اس کے بال چھوڑ کر بھاگی 
عمار اس کے پیچھے پیچھے تھا 
"آج تمہیں نہیں چھوڑوں گا جنگلی بلی آج تمہارے سر پر موجود سارے بال اپنے ہاتھوں سے کاٹ کر تمہارے ہاتھ میں دوں گا"
عمار نے پیچھے بھاگتے ہوئے کہا 
زرشالہ بھاگتے ہوئے سامنے سے آتے ہوئے زالان سے ٹکرائی
"زالان بچائے اج مجھے عمار زندہ چھوڑے گا میرا قاتل کر دے گا ہائے میں مر جاؤ گئی"
زرشالہ اس کے پیچھے چھپ کر زور زور سے چلائی عمار جہاں کھڑا تھا وہی کھڑا رہ گیا 
"عمار تم بچے تو نہیں ہوں یہ کیا طریقہ ہے شالہ کے پیچھے بھاگنے گا "۔
زالان نے غصے سے عمار کو ڈانٹا
"اور تم "
پیچھے مڑ کر زرشالہ کو ہاتھ سے پکڑ کر سامنے کیا اس نے بہت زور سے زرشالہ کی کلائی تھام رکھی تھی 
"خبردار جو آئندہ مرنے کی بات بھی کی تو بہت آسان لگتا ہے تمہیں مرنا مذاق سمجھ رکھا ہے سب بچے نہیں ہو جو تم لوگوں کو ہر وقت سمجھایا جائے کیا اچھا ہے کیا برا " مرنے کا لفظ سن کر زالان کا بی پی ہائی ہو گیا آج زندگی میں پہلی بار زالان نے زرشالہ کو ڈانٹا تھا وہ بھی سب کے سامنے اس نے تو آج تک اونچی آواز میں بات تک نہیں کی تھی اس سے کہاں ڈانٹنا ... وہ آج کل اپنے ہوش و حواس میں ہوتا تو کچھ سمجھ پتا اس کی شالہ اس سے دور ہونے والی تھی یہ بات اسے تکلیف دے رہی تھی 
پاس کھڑے دامیر نے خیرت سے زالان کے لال بھگولے چہرے کو دیکھا آگے بڑھ کر اس کے کاندھے پر اپنا ہاتھ رکھا 
"زالان اٹس اوکے بچے ہیں یار کیا ہو گیا ہے تمہیں"
زالان نے چونک کر اسے دیکھا پھر سامنے آنکھو میں آئے آنسو کو اندار ڈھلکتی شالہ کو اس نے فٹ شالہ کا ہاتھ چھوڑ دیا 
"ایم سوری...وہ مجھے پتا نہیں کیا ہو گیا"
زرشالہ نے ایک زخمی نظر زالان پر ڈالی پھر بھاگ کر اندار چلی گئی 
"شالہ میری بات سنو .. تم نے مرنے کی بات کی مجھ سے برداشت نہیں ہوا سوری یار"
زالان پیچھے سے آوازیں دیتا رہ گیا زرشالہ نے اپنے کان بند کر لیے تھے وہ اندھا دھند اندار کو بھاگی اس کا دل کر رہا تھا وہ چلا چلا کر روئے 
دامیر نے بےبس کھڑے زالان کو دیکھا پھر کچھ بھی کہے بنا اس کا ہاتھ تھام کر اسے باہر لے گیا 
سب نے پریشان نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا اس وقت زرشالہ کے پاس جانا مناسب نہیں تھا وہ اس وقت اکیلے رہنا چاہتی تھی 
            ........................
جاری ہے

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─