┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 20۔ پارٹ 1

سارے سٹوڈنٹس بنا پیچھے دیکھے بھاگ رہے تھے۔۔ کوٸ بھی پولیس کے ہاتھ نہیں لگنا چاہتا تھا۔۔ زی اور ڈیرک نے ریم کو سہارا دے کر اٹھایا تھا۔۔ وہ پانچوں گاڑی میں بیٹھے۔۔ اور غائب ہوگۓ۔۔ 

سب سے آگے رون بھاگ رہا تھا۔۔ اسکے پیچھے یونی کے دیگر سٹوڈنٹس تھے۔۔ سب جانتے تھے کہ رون کسی اچھی جگہ چھپے گا۔۔ 

رون نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔ اسکے پیچھے سٹوڈنٹس کی ایک لاٸن لگی ہوٸ تھی۔۔ اور ایک بار پھر رون نے پورے روم کو اپنے پیچھے لگایا ہوا تھا۔۔ 

یہ پاگل میرے پیچھے کیوں آرہے ہیں۔۔ رون نے سوچا۔۔ اور پھر اسکے پاس سے ایک گاڑی گزری۔۔ رون اچھلا اور چھلانگ لگا کر گاڑی کی چھت پر چڑھ گیا۔۔ اب ہر کوٸ تو یہ نہیں نا کر سکتا تھا۔۔ 

کچھ دور جانے کے بعد گاڑی ایک بلڈنگ کے پاس سے گزری۔۔ اور رون نے پھر سپاٸڈرمین کی طرح چھلانگ لگائی اور اس بلڈنگ میں بنی ونڈو پر چپٹ گیا۔۔ پھر وہ پاٸپ کے زریعے بلڈنگ کے اوپر جا چکا تھا۔۔ 

کچھ سٹوڈنٹس ادھر ادھر گلیوں میں بکھر گۓ تھے۔۔ کچھ چھپ چکے تھے۔۔ پولیس کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا تھا۔۔ سوائے وہاں پڑی دو ہیوی باٸیکس کے۔۔ پولیس والے باٸیکس اٹھا کر لے گۓ تھے۔۔ 

پولیس کے جانے کے بعد پاس ہی چھپا ہوا ٹام نکلا جو رون کا چیلا تھا۔۔ ہیلو رون ۔۔ اس نے رون کو کال کی۔۔ 

پولیس باٸیک اٹھا کر لے گٸ ہے۔۔ ہاں ہاں۔۔ نمبر پلیٹ پہلے ہی بدل تھی۔۔ ہاں وہ سپینزا یونی والے لڑکے کے ساتھ۔۔ ٹام بتا رہا تھا۔۔ 

وہ کھیل کھیل میں بہت سے کھیل کھیل جاتے تھے۔۔ یعنی اب پکڑا جاتا تو وہ لڑکا جد نے رون سے بیٹ لگاٸ تھی۔۔ 

         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

یہ کیا ہوا ہے۔۔؟؟ آنی رومان کے پاٶں سے نکلتے خون کو دیکھ کر پریشان ہوچکی تھیں۔۔ 

کچھ نہیں آنی۔۔ وہ بس ایک چھوٹا سا ایکسیڈینٹ ہو گیا تھا۔۔ رومان نے جواب دیا۔۔ 

وہ لوگ اسے کمرے میں لے آۓ تھے۔۔ جمی، ڈیرک، شالے بھی انکے ساتھ تھے۔۔ 

میں گرم دودھ لے کر آتی ہوں۔۔ آنی کہتے ہوۓ کچن کی طرف گٸیں۔۔ 

آخر کیا ملا تمہیں یہ کر کے۔۔ زی نے پوچھا۔۔۔ 

اور رومان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری ہوٸ تھی۔۔ 

ٹھااااااا۔۔ کی آواز سےلاٶنج کی ایک کھڑکی کھلی تھی ۔۔ 

آنی نے کچن سے باہر نکل کر دیکھا تو رون کھڑکی سے اندر چھلانگ لگائی۔۔۔ 

رون تم۔۔ آنی نے اسے دیکھتے ہوۓ کہا۔۔ 

آنی ریم کہاں ہے۔۔؟؟ آج میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔۔ وہ غصے سے بپھرا ہوا تھا۔۔ 

کیا ہوا آنی۔۔ زی کمرے سے نکل کر آٸ۔۔ اور رون کو دیکھ کر حیران رہ گٸ۔۔ 

ریم کے بچے۔۔ وہ چلاتا ہوا کمرے کی طرف گیا۔۔ 

You idiot.. stupid.. how dare you..
 
رون غصے سے بول رہا تھا۔۔ 

تمہاری ہمت کیسے ہوٸ میری گیم خراب کرنے کی۔۔ 

اور رومان کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہوٸ تھی۔۔ جو رومان نے کیا تھا وہ کوٸ بھی سمجھ نہیں پایا تھا۔۔ صرف رون کو سمجھ آٸ تھی۔۔ اور رومان تب سے رون کا ہی ویٹ کر رہا تھا۔۔ 

آنی دودھ کا گلاس لے کر کمرے میں آٸ۔۔ 

لیکن رون ہوا کیا ہے کچھ بتاٶ تو۔۔ اور کس گیم کی بات کر رہے ہو۔۔ آنی نے پوچھا۔۔ 

آپکو نہیں بتایا اس نے۔۔ رون نے حیرانگی سے دیکھا۔۔ 

اور آنی نے ان پانچوں کی طرف دیکھا۔۔۔ جمی شالے اور ڈیرک تینوں نظریں چرا چکے تھے۔۔ 

کیا ہو رہا ہے یہ سب۔۔ ؟؟ آنی نے غصے سے پوچھا۔۔ 

اسکو یہ چوٹ ون وہیلنگ میں لگی ہے۔۔ میری گیم میں گھس گیا تھا یہ۔۔ رون نے غصے سے کہا۔۔ 

لیکن اس نے تمہاری ہیلپ کرنے کیلیۓ کیا۔۔ ڈیرک نے کہا۔۔ 

ہیلپ۔۔ کیسی ہیلپ۔ یہ جان بوجھ کر میری گیم گھسا۔۔ تا کہ یہ گیم جیت جاۓ۔ ۔۔ اگر نا بھی جیتے تو میرے برابر رہے اور میں اس لڑکی کو گرل فرینڈ نا بنا سکوں۔۔ رون نے ایک ایک لفظ چباتے ہوۓ کہا۔۔ 

اور سب نے حیران نظروں سے ریم کی طرف دیکھا۔۔ وہ بیڈ پر لیٹا مسکرا رہا تھا۔۔ جتنا رون کو غصہ آرہا تھا۔۔ ریم کو اتنی خوشی ہو رہی تھی۔۔ 

اور پولیس کو کال کس نے کی۔۔ رون گرایا۔۔ اور شالے کا رنگ فق ہو گیا۔۔

ہمیں نہیں پتا۔۔۔ جمی نے ہچکچاتے ہوۓ کہا۔۔ 

گیم میں جیت چکا ہوں۔۔ رومان نے خوش ہوتے ہوۓ کہا۔۔ 

 جی نہیں۔۔ گیم میری تھی اور میں جیتا۔۔ رون نے کہا۔۔ 

راڑ کراس کرنے کے بعد جو پہلے زمین کو چھوتا ہے وہ جیت جاتا ہے۔۔ اور باٸیک سمیت میں پہلے نیچے گرا۔۔ تو میں جیتا نا۔۔ رومان نے سکون سے کہا۔۔ 

دیکھ لیں آنی۔۔ رون نے آنی سے کہا۔۔ 

ہاں تو یہ تم سے جمی کا بدلا ہے۔۔ اور سسلی کلب کا بھی جو تم نے سب کو تنگ کیا تھا۔۔ رومان نے کہا۔۔ 

انکی لڑائی کبھی ختم نہیں ہونی۔۔ میں ریم کیلیۓ کھانا لے آتی ہوں۔۔ زی سوچتے ہوۓ کمرے سے باہر گٸ۔۔ 

رومان بہت غلط بات ہے۔۔۔ اور تم رون۔۔ آنی نے رون کو کان سے پکڑا۔۔ یہ سارے الٹے آٸڈیے تمہارے زہن میں کہاں سے آتے ہیں۔۔ انہوں نے پوچھا۔۔ 

ریم تم دودھ پیو۔۔ تمہیں چوٹ لگی ہے۔۔ شالے نے گلاس اسکی طرف کرتے ہوۓ کہا۔۔ 

اور گلاس رون نے اچک لیا۔۔ اسکو میں پلاتا ہوں دودھ۔۔ اففف آنی چھوڑیں بھی۔۔ رون نے کان کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔۔ 

اور پھر وہ ایک ہی گھونٹ میں پورا گلاس پی گیا۔۔زی کھانا لے کر آٸ تھی۔۔ رومان کیلیۓ۔۔ لیکن پلیٹ رون پکڑ چکا تھا۔۔ اب مجھے غصہ آرہا ہے۔۔ اور مجھے غصے میں بہت بھوک لگتی ہے۔۔ وہ پلیٹ سے چاول کھا رہا تھا۔۔ 

اب تم اپنی ٹرن کیلۓ تیار ہوجاٶ ریم۔۔۔ تمہیں پورے روم کی سڑکوں پر نا گھمایا تو میرا نام بھی رون نہیں۔۔وہ غصے سے کہتا کمرے سے باہر نکلا۔۔ 

رومان ہنس رہا تھا۔۔ آج اس نے رون کی اسکی نٸ جی ایف کے ساتھ گزرنے والی شام برباد کرکے پچھلے بدلے لے لیۓ تھے۔۔ 

آنی رون کے پیچھے گٸ۔۔ وہ کھڑکی کی طرف جا رہا تھا۔۔ 

رون دروازے سے جاٶ۔۔ آنی نے کہا۔۔ 

مزہ نہیں آتا آنی۔۔ اینڈ تھینک یو کھانا اچھا تھا۔۔ اور وہ کہتا کھڑکی سے باہر چھلانگ لگا چکا تھا۔۔ 

زی نے اپنے کمرے کی کھڑکی کھولی تھی۔۔ وہ آس پاس بنے گھروں کی چھتوں پر چھلانگے لگاتا۔۔ اچھلتا۔۔۔ دور جا رہا تھا۔۔ 
کچھ لوگوں نے اپنے کمرے کی کھڑکیاں کھول کر باہر جھانکا تھا کہ کون ہے۔۔ مگر تب تک رون دور جا چکا تھا۔۔ 

اور پورے روم میں رون جیسا لیجنڈ کہیں نہیں ہوگا۔۔ زی نے سوچا اور کھڑکی بند کردی۔۔ 

        ❤❤❤❤❤❤
عالیہ اور نتاشہ بھابھی لاہور پہنچ چکی تھیں۔۔ وہ پچھلے ایک ہفتے سے روز حرم کو لے کر شاپنگ مال جاتی تھیں۔۔ ڈھیروں ڈھیر شاپنگ کر ڈالی تھی انہوں نے۔۔ حرم کا تو بس نام تھا۔۔ورنہ عالیہ ہر چیز اپنی پسند کی لے رہی تھی۔۔ یہ اچھا لگے گا آپ پر حرم۔۔ وہ کہتی اور ڈریس خرید لیتی۔۔ ایک ہفتے میں وہ تین بار حرم کو پارلر لے جا چکی تھی۔۔ فاریہ بھابھی بھی اکثر انکے ساتھ ہوتی تھیں۔۔ اور کبھی حورعین اور کبھی شزا۔۔ 

اور حرم پریشان تھی اسکی بیسٹ فرینڈ کشف ناراض ہو چکی تھی۔۔ کیونکہ وہ یہ کہہ رہی تھی کہ حرم نے اسے کچھ بھی نہیں بتایا اور شادی کی ڈیٹ فکس بھی ہوگٸ۔۔ اور حرم اسے کیسے سمجھاتی کہ سب اتنی جلدی میں ہوا تھا۔۔ اسے خود نہیں پتا چلا۔۔ اسے تو یہ سب خواب لگ رہا تھا۔۔ 

 ساری شاپنگ تقریباً مکمل ہو چکی تھی صرف براٸیڈل ڈریس رہ چکا تھا۔۔ 

حرم کے گھر میں بھی سب تیاریاں کر رہے تھے۔۔ روز بازار کے چکر لگتے تھے۔۔ روز نٸ نٸ چیزں۔۔ ایک ہفتہ کیسے گزا کچھ پتا ہی نہیں چلا۔۔ اب کچھ دن بچے تھے شادی میں۔۔ 

          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اور نادر پچھلے ایک ہفتے سے جیل میں تھا۔۔ فرہاد نے سختی سے کہا تھا کہ وہ چھوٹنے نا پاۓ۔۔ نادر سب کچھ بتا چکا تھاکہ اس لڑکی نے نادر کے ایک دوست کو ریجیکٹ کیا تھا۔۔ تو انہوں نے زبردستی لڑکی کو اٹھا لیا اور اب وہ زبردستی اسکا نکاح کرنے والے تھے۔۔ 

آفاق تایا بھی شادی کی تیاریوں میں لگے تھے۔۔ انہیں یہ نٸ رشتےداری بہت عزیز تھی۔۔ نادر سے ملنے وہ جیل گۓ تھے لیکن نادر کا دماغ ابھی درست نہیں ہوا تھا۔۔ اس لۓ انہوں نے سوچا کہ شادی نپٹ جاۓ تو پھر وہ کچھ کریں گے اسکا۔۔ لوگوں سے انہوں نے کہہ دیا تھا کہ نادر کام کے سلسلے میں شہر سے باہر گیا ہے۔۔ 

اور تاٸ امی روز حرم کو بد دعائيں دیتی تھیں۔۔ اسکی وجہ سے نادر نے یہ سب کیا۔۔ اسکی وجہ سے شہرین پاگلوں کا سا بی ہیو کرتی تھی۔۔ انکا بس چلتا تو وہ حرم کو جان سے مار دیتیں۔۔  

البتہ وہاج بھاٸ اور ثانی آپی بھی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے۔۔ اور وہ دونوں بھی بہت خوش تھے۔۔

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور حورعین نے اتنی مشکل تھے اسد کو منایا تھا۔۔ ہزار منتیں کی پھر اس دشمن جان نے جاکر کہیں بات کی تھی۔۔ حورعین جان چکی تھی کہ اب وہ اسد کے بنا نہیں رہ سکتی۔۔ اور اسد کو بھی یہں لگتا تھا۔۔ اسکے ایگزامز ختم ہو چکے تھے۔۔ اب وہ گھر آیا ہوا تھا۔۔ اور جیسے ہی اس نے حورعین سے شادی کی بات تاٸ سے کی انہوں نے پورا گھر تو کیا۔۔۔ پورا لاہور سر پر اٹھا لیا تھا۔۔ 

تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے اسد۔۔ نفیسہ تاٸ نے اسد کو گھورتے ہوۓ کہا۔۔ 

جی میں حورعین سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔ اسد نے کہا۔۔ 

جس لڑکی کی بہن کی وجہ سے تمہارا بھاٸ جیل میں ہے۔۔ اور جس لڑکی کی بہن کی وجہ سے شہرین کی یہ حالت ہے تم اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہو۔۔ نفیسہ تاٸ کو لگ رہا تھا کہ اسد کا دماغی توازن کھو گیا ہے۔۔ 

جی میں حورعین کو چاہتا ہوں۔۔ اور اسکے علاوہ کسی سے شادی نہیں کرونگا۔۔ وہ ٹھوس لہجے میں بولا۔۔ اور جو کچھ بھی ہوا اس میں حورعین کی کوٸ غلطی نہیں۔۔ 

ہرگز نہیں۔۔ میرے جیتے جی ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔۔ میں اس لڑکی کو اس گھر کی بہو ہرگز نہیں بنا سکتی۔۔ نفیسہ تاٸ نے دوٹوک لہجے میں کہا۔۔ 

اور ایک تمہارا باپ ہے جو پاگل ہوۓ پھر رہا ہے۔۔ شادی کی تیاریاں تو ایسے کر رہا ہے جیسے اسکی اپنی بیٹی کی شادی ہو۔۔ اپنے بچوں سے زیادہ اسے اپنا اسٹیٹس عزیز ہے۔۔ 

تو ٹھیک ہے۔۔۔ میں بھی جا رہا ہوں پھر جب تک آپ میری بات نہیں مان لیتی میں اس گھر میں نہیں آٶں گا۔۔ اسد کہتا ہوا اٹھا تھا۔۔ 

اسد اپنی ماں سے زیادہ تمہیں وہ لڑکی عزیز ہے۔۔ نفیسہ تاٸ روہانسی ہوٸ۔۔ جانے کیا جادو ٹونا کروایا ہے ان لوگوں نے تم پر۔۔ 

آپ سے زیادہ مجھے کوٸ بھی عزیز نہیں ہے مما۔۔ بس آپ میری بات مان لیں۔۔ اسد نے منت سے کہا۔ 

ہرگز نہیں۔۔ نفیسہ تاٸ نے کہا۔ 

ٹھیک ہے پھر۔۔ اللہ حافظ۔۔ اسد کہتا ہوا باہر نکل گیا۔۔ 

اسد۔۔ اسد۔۔۔ نفیسہ تاٸ پکارتی رہ گٸیں۔۔ 

اور وہ اتنی سردی اور شدید دھند میں شام کے وقت بنا کسی کوٹ اور سویٹر کے گھر سے چلا گیا۔۔ 

         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج23 جنوری تھی۔۔ حرم کی ہلدی کی رسم تھی آج۔۔ اور اتنے دنوں میں ایک بار بھی نا فرہاد کا فون آیا تھا نا اس نے کیا۔۔ فرہاد ہاسپٹل میں بزی تھا۔۔ اسے ڈبل ڈبل ڈیوٹی بھی کرنی پڑ رہی تھی۔۔ لہاظہ اسے فون کرنے کا ٹائم ہی نہیں ملا۔۔ ویسے بھی کونسا لو میرج تھی۔۔ بس میرج تھی۔۔ اور فرہاد کو خود نہیں پتا تھا۔۔ وہ کیوں کر رہا ہے۔۔ بس ایک جزبہ تھا۔۔ ایک طلسم تھا جس کے وہ زیر اثر تھا۔۔ ایک ان دیکھی طاقت تھی جو اس سے یہ سب کروا رہی تھی۔۔ پیار کیلیۓ اسکی زندگی میں کوٸ جگہ نہیں بچی تھی۔۔ پیار کب سے اسکی زندگی سے نکل چکا تھا۔۔ لیکن وہ پر سکون تھا۔۔ بس حرم اسکے پاس ہوتی اسکے سامنے ہوتی۔۔ وہ بس یہی چاہتا تھا۔۔۔ اور کون جانے کب کہاں۔۔ محبت ہو جاۓ۔۔ 

زیبا بیگم اور حمزہ لاہور آچکے تھے۔۔ حمزہ کتنا خوش تھا یہ صرف وہی جانتا تھا۔۔ آج اسے دیدار ہوتا۔۔ کیونکہ آج انہوں نے ہلدی کی رسم کیلیۓ حرم کے گھر جانا تھا۔۔ 

فرہاد اور آغا جی ابھی بھ اسلامآباد میں تھے۔۔ فرہاد بہت بزی تھا۔۔ اور اس نے کوٸ بھی رسم کرنے سے انکار کردیا تھا۔۔ البتہ حرم کی ہر رسم پوری کی جا رہی تھی۔۔ فرہاد نے کہا تھا کہ وہ ایک دن پہلے آ جاۓ گا۔۔اور آغا جی بھی انکے ساتھ ہی آتے۔۔ باقی سارا نظام ڈاکٹر سمیع، سجاد آغا اور حمزہ نے سنبھال لیا تھا۔۔ 

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

حمزہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑا تیار ہو رہا تھا۔۔ اسکی تیاری مکمل ہو چکی تھی۔۔ اس نے پرفیوم سپرے کیا اور ایک آخری نظر خود کی تیاری پر ڈالی تھی۔۔ 

ہممممم۔۔۔ آج وہ مجھے دیکھے۔۔ اور پھر دل ہار جاۓ جیسا میں ہار گیا۔۔ حمزہ نے خواہش کی۔۔ 

 حمزہ جلدی چلو ہم لیٹ ہو رہے ہیں۔۔ فاریہ بھابھی نے کمرے میں داخل ہوتے کہا۔۔ 

ماشااللہ۔۔ وہ حمزہ کو دیکھ کر حیران رہ گٸ۔۔ مجھے تو لگتا ہےحمزہ کہ شادی تمہاری ہو رہی ہے۔۔ انہوں نے کہا۔۔ 

ہاہاہا۔۔ حمزہ کا قہقہہ ابھرا۔۔ ہو جاۓ گی بس دعا کیجیۓ لڑکی مان جاۓ۔۔ وہ بھی مجھ پر دل وجان سے فدا ہو جاۓ۔۔ حمزہ نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ 

آہاں۔۔ مطلب لڑکی پسند کر چکے ہو۔۔ وہ بولیں۔۔ 

جی بس کچھ ایسا ہی سمجھ لیں۔۔ 

اور پھر کچھ دیر بعد وہ گاڑی میں بیٹھے حرم کے گھر کی طرف رواں دواں تھے۔۔ مسکراہٹ تھی کہ حمزہ کے چہرے سے الگ ہی نہیں ہو رہی تھی۔۔۔

”ایک تم کو خدا سے مانگا ہے۔۔

  تم کہیں بےوفا نا ہو جانا۔۔۔ “

وہ تصور میں اس سے مخاطب تھا۔۔ فاصلہ کم ہو رہا تھا اور اسکے دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی۔۔۔ 

جاری ہے۔۔۔۔۔

      ❤❤❤❤❤❤

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─