┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 18۔ پارٹ 2

آنی اس وقت چرچ میں فادر اور مدر مارگریٹ کے ساتھ موجود تھی۔۔ ایک ٹیبل پر کچھ کینڈل لاٸیٹس جلا رکھی تھیں۔۔ اسی ٹیبل کے ایک کنارے پر فادر ایک پر مدر مارگریٹ اور انکے بالکل سامنے آنی بیٹھی ہوٸ تھی۔۔ 

کیا آپ لوگ بتا سکتے ہیں جو میں جاننا چاہتی ہوں۔۔ آنی نے پوچھا۔۔ 

This is not allowed My Child... 
فادر نے جواب دیا۔۔ 

Please Father.. its too much important.. please tell me.. What is the future of Roman.. 

آنی نے منت سے کہا تھا۔۔ 

ہم آپکو کسی ایک چیز کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔۔ پورا فیوچر تو گوڈ کے سوا کوٸ بھی نہیں جانتا۔۔ مدر مارگریٹ نے جواب دیا۔۔ 

مجھے بس اتنا بتا دیں کہ رومان کی شادی ایک کرسچن لڑکی سے ہی ہوگی نا۔۔ 
Actually i love my relgion.. 

آنی نے پوچھا۔۔ اور بتایا بھی۔۔ 

But Roman is a Muslim....
Right??? 
فادر نے پوچھا۔۔ 

Yesss He is a Muslim..His parents were Muslims.. but he do not like Islam.. 

آنی نے جواب دیا۔۔ 

His wife will be a Muslim girl.. its 100% sure.. 

مدر مارگریٹ نے بتایا۔۔ اور آنی کا چہرہ سرخ پڑ گیا۔۔ یعنی ایک بار پھر وہی ہوگا۔۔ جو چھبیس سال پہلے ہوا تھا۔۔ رومان تو اسلام کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔۔ پھر کیوں۔۔؟؟ 

اور زی کا کیا ہوگا۔۔ آنی نے مری مری آواز سے پوچھا۔۔ 

وہ حق کی روشنی کو پا لے گی۔۔ وہ راہے حق پر جاۓ گی۔۔ وہ سچ کو پالے گی۔۔ مدر مارگریٹ نے کہا۔۔ انکے چہرے پر شفیق سی مسکراہٹ تھی۔۔ 

آنی کچھ سمجھ نا پاٸ۔۔ لیکن وہ اتنا سمجھ گٸ تھی جو وہ چاہتی ہیں وہ نہیں ہونے والا۔۔ ایک بار پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرانے جا رہی ہے۔۔ وہ کیسے بچاۓ گی۔۔ رومان کو اور زی کو۔۔ زہ تو بہت چاہتی ہے اسے۔۔ مگر زی تو مسلمان نہیں ہے۔۔ آنی سوچ رہی تھی۔۔ 

Thank you father.. Thank you so much mother Margrate...

آنی کہتی ہوٸ چرچ سے باہر نکل آٸیں۔۔ اب وہ گھر جا رہی تھیں۔۔ مجھے رومان کو ہر مسلم لڑکی سے دور رکھنا ہوگا۔۔ وہ سوچ رہیں تھی۔۔۔ 

         🌸🌸🌸🌸🌸

حرم جب گھر پہنچی تو ڈر اور غصے سے اسکا چہرہ سرخ ہوچکا تھا۔۔ نادر یہ سب کام کرتا ہے۔۔ کون تھی وہ لڑکی۔۔ نادر کو کسی کی عزت کا زرا بھی خیال نا آیا۔۔ کیا بیتے گی اس لڑکی کے گھر والوں پر۔۔ 

اگر اسکی جگہ میں ہوتی۔۔۔ ؟؟حرم نے سوچا اور پھر وہ جُھرجھری سے لے کر رہ گٸ۔۔ اللہ نا کرے۔۔ میں کس کو بتاٶں۔۔۔؟؟وہ سوچ رہی تھی۔۔ میری بات کا یقین کو کرے گا۔۔ 

وہ انہی سوچوں میں گم گھر کے اندر داخل ہوٸ۔۔۔ 

حرم آ گٸ تم۔۔ صابرہ خاتون نے پوچھا۔۔ 

حرم نے کھوٸ کھوٸ نظروں سے انہیں دیکھا۔۔ 

کیا ہوا تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔۔ انہوں نے حرم کے اڑے اڑے رنگ دیکھ کر پوچھا۔۔

جج۔۔ جی۔۔ وہ ٹھنڈ زیادہ تھی۔۔ ٹھنڈ لگ رہی ہے مجھے۔۔ میں سونے جا رہی ہوں۔۔ وہ کہتے ہوۓ اپنے کمرے کہ طرف چلی گٸ۔۔ 

         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور پھر اگلی صبح وہ لوگ اسلام آباد کیلیۓ روانہ ہو چکے تھے۔۔ زین، صابرہ خاتون،ساجدہ آنٹی۔۔ حورعین۔۔ وہاج بھاٸ، ثانی آپی۔۔ اور آفاق تایا۔۔ وہ لوگ صبح چھ بجے نکلے تھے۔۔ دو گاڑیاں تھیں ایک آفاق تایا کی اور ایک وہاج بھاٸ کی۔۔ انہوں نے واپسی بھی آج ہی آنا تھا اس لیۓ صبح صبح ہی چلے گۓ۔۔ 

اور حرم کا کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔۔ اسکا زہن کل والے واقعے میں الجھا تھا۔۔ 

پھر اس نے ثانی آپی کو کال ملاٸ اور سب انہیں بتا دیا۔۔ 

تم فکر نا کرو حرم۔۔۔ ثانی آپی نے حرم کو تسلی دی تھی۔۔ شاید تمہارا کوٸ وہم ہو۔۔ شاید وہ لڑکا نادر نا ہو۔۔ یہ سب سن کر حیران تو ثانی آپی بھی ہوٸیں تھی۔۔ لیکن انہوں نے حرم کو ریلیکس رہنے کا کہا تھا۔۔۔

 ہم اسلام آباد پہنچنے والے ہیں۔۔ میں وہاں جا کر بات کرتی ہوں۔۔ ثانی آپی نے کہا۔۔ 

اوکے۔۔ حرم نے فون بند کر دیا۔۔ اس نے ٹائم دیکھا دس بج چکے تھے۔۔ صبح کا سارا کام کرنے والا پڑا تھا۔۔ شزا ابھی تک سوٸ ہوٸ تھی جبکہ ثناء ابھی اٹھی تھی۔۔ وہ کام نمٹانے کا سوچ کر اٹھ گٸ۔۔ 

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور پھر بارہ بجے اسے کال آٸ تھی نادر کی۔۔ وہ تو نمبر دیکھ کر ہی ڈر گٸ تھی پھر کچھ سوچتے ہوۓ کال ریسیو کی۔۔ 

کیا سمجتی ہو تم خود کو ہاں۔۔ یہ سب جو تم اور تمہارے گھر والے کر رہے ہیں نا۔۔ بہت بڑی بے وقوفی ہے۔۔ میں سب اتنی آسانی سے ہونے دونگا کیا۔۔ ہاہاہا۔۔ وہ ہنسا تھا۔۔ 

نادر۔ تم۔۔ اتنے زلیل کب سے۔۔۔ 

اس لڑکی کی جگہ تم بھی ہو سکتی ہو۔۔ یاد رکھنا۔۔ حرم نے کچھ کہنا چاہا تھا لیکن نادر نے اسکی بات کاٹ دی۔۔ 

اور حرم کا رنگ فق ہو گیا۔۔ لگتا ثانی آپی نے نادر سے پوچھا تھا۔۔ اور وہ مکر گیا ہوگا۔۔ لیکن حرم کو وہ فل دھمکا رہا تھا۔۔ 

تمہیں شرم نہیں آٸ۔۔ ایک لڑکی کی زندگی کو تباہ کردیا ہوگا تم لوگوں نے۔۔ حرم کو بھی غصہ آیا۔۔ 
 
اسکو چھوڑو۔۔ اپنی خیر مناٶ۔۔ اس ڈاکٹر کا خیال اپنے زہن سے نکال دو۔۔ ویسے میں چاہوں تو ابھی تمہیں اٹھواسکتا ہوں۔۔ لیکن ابھی نہیں۔۔۔ ابھی وہ مزا نہیں آنا۔۔ نادر نے خباثت سے کہا۔۔ 

میں یہ سب اس لیۓ ہونے دے رہا ہوں کیونکہ میں چاہتا ہوں۔۔ تم نے جو مجھے تپھڑ مارا تھا۔۔ اس کا بدلا بہت برا ہوگا۔۔ شادی والے دن اٹھواٶں گا تمہیں۔۔ سب سمجھیں گے لڑکی بھاگ گٸ۔۔ ہاہاہاہا۔۔ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوگی۔۔ پھر تمہیں پتا چلے گا کہ نادر آفاق پر ہاتھ اٹھانے کا انجام کیا ہوتا ہے۔۔ وہ کہہ رہا تھا۔۔

 اور حرم کو لگ رہا تھا جیسے کوٸ اس کے پاٶں کے نیچے سے زمین کھینچ رہا ہو۔۔ تو یہ پلان تھا نادر کا۔۔ تبھی وہ چپ کر کے بیٹھا تھا۔۔ افففف۔۔ اب کیا ہوگا۔۔ ؟؟ حرم نے فون کاٹ دیا تھا اس سے زیادہ اس میں سننے کی ہمت نہیں تھی۔۔ 

یااللہ پاک اپنا رحم کرنا۔۔ میں یہ سب نہیں سہ پاٶں گی۔۔ کیسے بچاٶں میں اس لڑکی کو نادر کے چنگل سے۔۔ اور کیسے بچاؤں گی میں اپنے آپ کو۔۔۔ ؟؟ حرم کو کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔ 

           🌸🌸🌸🌸🌸

حمزہ کی ہیوی باٸیک آغا ہاٶس کا گیٹ پار کرتے ہوۓ لان کے بیچوں بیچ آکر رکی۔۔ وہ سیٹی بجاتا نیچے اترا۔۔ چابی کو نکالا اور اسے ایک ہاتھ کی انگلی پر گھماتا ہوا اندر کی طرف بڑھا۔۔ 

اچانک اسکے قدم رکے۔۔ سیٹ بجاتے ہونٹ بھی رکے۔۔ اسکی نظر داٸیں طرف لان میں چلتی پھرتی ایک وجود پر پڑی۔۔

واٸٹ جینز پر بلیو کلر کی گٹھنوں تک آتی شرٹ پہنے۔۔ واٸٹ ہی ڈوپٹہ جو گلے میں لہرا رہا تھا۔۔ بلیک کلر کا سویٹر پہنے۔۔ اونچی ٹیل پونی کیۓ۔۔ کچھ کٹے ہوۓ بال پیشانی پر بکھرے آنکھوں کی پلکوں کو چھو رہے تھے۔۔۔ وہ کال پر بات کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ لان میں چکر لگا رہی تھی۔۔ 

اسلام آباد میں آج تھوڑی سی دھوپ نکلی تھی۔۔ اور وہ اسی دھوپ کا فائدہ اٹھا رہی تھی۔۔ 

Who is She... ?? 

حمزہ نے گلاسز اتار کر اسے دیکھا اور اپنے آپ سے سوال کیا۔۔ 

اب وہ کسی بات پر ہنس رہی تھی۔۔ 

Wowwww... 

حمزہ اسے دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔۔ آغا ہاٶس میں یہ شہزادی کون ہے۔۔ ؟؟ کہاں سے آٸ ہے۔۔ کہیں نتاشہ بھابھی کی چھوٹی بہن تو نہیں۔۔ لیکن وہ اتنی پیاری کب سے ہو گٸ۔۔؟؟ حمزہ سوچ رہا تھا۔۔ 

لگتا ہے خود ہی جا کر پتا کرنا پڑے گا۔۔ 

اور کال پر بات کرتی لڑکی کی نظر بھی اچانک حمزہ پر پڑی۔۔ حمزہ کو ایسے دیھکتا پا کر اس نے منہ دوسری طرف کر لیا۔۔ 

ہیں۔۔ یہ رخِ روشن مجھ سے کیوں موڑ لیا۔۔ لگتا ہے میرے حسن کی تاب نہیں لا سکی۔۔ بے چاری۔۔ چلو چل کر پوچھتے ہیں۔۔ لیٹس گو۔۔ HD

ہاۓ۔۔ حمزہ اس کے پاس جا کر بولا تھا۔۔ 

اس نے پلٹ کر دیکھا تھا۔۔ فون شاید وہ بند کر چکی تھی۔۔ 

اوو ہاۓ۔۔ اس لڑکی نے اچنبھے سے حمزہ کو دیکھتے ہوۓ کہا۔۔ 

آپ کی تعریف پوچھ سکتا ہوں۔۔ حمزہ نے کہا۔۔ 

واۓ۔۔ وہ ایک شان بے نیازی سے بولی تھی۔۔ 

اور حمزہ کو اسکا جواب پسند آیا تھا۔۔ 

چلیں آپ جو بھی ہیں۔۔ پر آپ آغا ہاٶس میں کیا کر رہی ہیں۔۔ ؟؟ حمزہ نے دلچسپی ہوۓ پوچھا۔۔ 

اور اگر یہی سوال میں آپ سے کروں تو۔۔ ؟؟ وہ بولی تھی۔۔ 

ہاہاہا واہ۔۔ حمزہ اسکی بات پر ہنسا تھا۔۔ میں اس گھر میں کام کرتا ہوں۔۔ حمزہ نے شرارت سے کہا۔ 

اور اس لڑکی نے حیرانگی سے حمزہ کو دیکھا۔۔ حلیے سے تو وہ اس گھر کا شہزادہ لگ رہا تھا۔۔ 
اور پھر اس نے حمزہ کے چہرے پر شرارت دیکھ لی تھی۔۔ 

ٹھیک ہے پھر۔۔ میں نوکروں کے منہ نہیں لگتی۔۔۔ وہ کہتے ہوۓ آگے بڑھ گٸ۔۔ 

اففف۔۔ ارے رکیں۔۔ سنیں تو۔۔ حمزہ اسکے پیچھے بھاگا۔۔ 

میں سجاد آغا کے آفس میں کام کرتا ہوں۔۔ وہ آج فرہاد آغا کو دیکھنے کچھ لوگ آرہے ہیں نا تو بس اس لیۓ آیا ہوں کہ شاید میری ضرورت پڑھ جاۓ۔۔ میرا نام حمزہ ہے۔۔ حمزہ داٶد۔۔ حمزہ نے جھوٹا تعارف کروایا۔۔ لیکن نام ٹھیک بتایا تھا۔۔ 

اوو۔۔ اچھا۔۔ جس لڑکی کے گھر والے آج فرہاد آغا کو دیکھنے آۓ ہیں۔۔ میں اس لڑکی کی چھوٹی بہن ہوں۔۔ حورعین۔۔ نام ہےمیرا۔۔ 

حرم نور کی چھوٹی بہن۔۔ اففف۔۔ چھوٹی ایسی ہے تو بڑی کیسی ہوگی۔۔ حمزہ نے سوچا۔۔ 

ابھی وہ کچھ کہنے والا تھا کہ اچانک اسکے موبائل پر بیل ہوٸ۔۔ اس نے موبائل دیکھا تو فرہاد کی کال تھی۔۔ 

اسکو لڑکی والے دیکھنے آۓ ہوۓ ہیں اور یہ جناب گھر ہی نہیں۔۔ حمزہ نے کال ریسیو کی۔۔ 

ہیلو حمزہ کہاں ہو۔۔ فرہاد نے پوچھا۔ 

آپکی سالی صاحبہ سے باتیں کر رہا ہوں۔۔ حمزہ نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ 
اور سامنے کھڑی حورعین سمجھ گٸ تھی کہ فرہادآغا کی کال ہے۔۔ 

جلدی سے اس پتے پر پہنچو۔۔ فرہاد نے اسے جگہ بتائی۔۔ 

کیوں خیر تو ہے نا۔۔ حمزہ نے پوچھا۔۔ 

بس تم جلدی پہنچو۔۔ فرہاد نے کہہ کر کال کاٹ دی۔۔ 

اوکے۔۔ بعد میں ملتے ہیں۔۔ مس حورعین۔۔ ویل ناٸس نیم۔۔ آپ پر سوٹ کرتا ہے۔۔ حمزہ نے مسکراتے ہوۓ کہا اور اپنی باٸیک کی طرف قدم بڑھا دیے۔۔ 

پندرہ منٹ بعد وہ فرہاد کی بتاٸ ہوٸ جگہ پر پہنچ چکا تھا۔۔ وہ ایک کمپیوٹر روم تھا۔۔ دو تین لوگ اور بھی تھے وہاں۔۔ کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نا۔۔ ؟؟ حمزہ نے فرہاد کو دیکھتے ہوۓ پوچھا۔۔ 

اس نمبر کو ٹریس کرو۔۔اور ہیک بھی۔۔ ہر آنے جانے والی کال ہمیں سنائی دینی چاہیۓ۔۔ جلدی۔۔ فرہاد نے اسے کمپيوٹر کے سامنے بٹھاتے ہوۓ نمبر دکھایا۔۔ 

حمزہ سمجھ چکا تھا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔۔ اس لیۓ وہ سنجیدگی سے کمپيوٹر کے کی بورڈ پر انگلیاں چلانے لگ گیا۔۔

اسکا نام نادر آفاق ہے۔۔ لاہور میں ہے اس وقت۔۔ پانچ منٹ بعد حمزہ نے جواب دیا۔۔ 

ہممم۔۔ لوکیشن چیک کرو۔۔ اس وقت کس جگہ پر موجود ہے۔۔؟؟

پھر حمزہ نے اسے جگہ کا نام بتایا۔۔ 

فرہاد نے موبائل نکالا۔۔ اور لاہور میں موجود اپنے دوست ایس پی مرتضیٰ کا نمبر ملایا۔۔ سلام دعا کے بعد اس نے کہا کہ بہت امپورٹنٹ کیس ہے ایک۔۔ اور ایس پی مرتضی اسکی بات سن کر سیدھا ہوگیا۔۔ 

مرتضی چیک کرو لاہور میں کتنے پولیس اسیٹشنز میں کسی لڑکی کڈنیپ یا گم ہونے کی رپورٹ درج کروائی گٸ ہے۔۔ اور اس ایریا سے کتنی رپورٹس درج ہوٸ ہیں۔۔ فرہاد نے اسے حرم کے ایریا کا بتایا۔۔ 

اوکے پانچ منٹس دو۔۔ایس پی مرتضی نے کہا۔۔

 وہ اور فرہاد سکول اور کالج میں اکٹھے پڑھے تھے پھر فرہاد میڈیکل کی طرف آگیا تھا اور مرتضی نے پولیس فورس جواٸن کرلی تھی۔۔ لیکن دوستی ابھی بھی ویسی ہی تھی۔۔ 

پورے لاہور سے تو کافی لڑکیوں کی رپورٹس درج ہوٸ ہیں البتہ جس ایریے کا تم نے بتایا ہے وہاں سے کل دو لڑکیاں غائب ہوٸ ہیں۔۔ 

ہمم۔۔ میری بات دھیان سے سنو۔۔ فرہاد نے کہا۔ 

یہ ایڈریس نوٹ کرو۔۔ نادر آفاق نام کا ایک لڑکا ہے اس نے اور اسکے دوستوں نے کل ایک لڑکی کو کڈنیپ کیا تھا۔۔ یہ اسکا نمبر ہے۔۔ فرہاد نے نمبر لکھوایا۔۔ یہ اس وقت اس جگہ پر موجود ہے۔۔ اریسٹ ہم۔۔۔۔ باقی سب کچھ بعد میں بتاٶں گا۔۔ فرہاد نے کہا۔۔ 

اور حمزہ کو وہ اس وقت ڈاکٹر کم کسی خفيہ گینگ کا لیڈر زیادہ لگ رہا تھا۔۔ جو ملک سے مجرموں کا صفایا کرتے ہیں۔۔ 

تمہیں ڈاکٹر نہیں بلکہ آرمی میں ہونا چاہیۓ تھا۔۔اور کیا میں پوچھ سکتا ہوں تمہیں یہ سب کیسے پتا چلا۔۔ ؟؟ حمزہ نے پوچھا۔۔  

حرم کا نمبر ہیک کرنے کا فائدہ ہو رہا ہے بہت۔۔ فرہاد نے کہا۔۔ 

یقیناً وہ حرم کی ثانی آپی سے اور نادر سے کی گٸ باتیں سن چکا تھا۔۔ اور کیسے اسلام آباد میں ہوتے ہوۓ اس نے لاہور میں ایک کڈنیپر کا پتا لگوا لیا تھا۔۔ کچھ دیر بعد وہ گرفتار بھی ہو جاتا۔۔ وہ حرم کو مصيبت میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔ اسکی طرف آنے والی ہر مشکل کو وہ اس تک پہنچنے سے پہلے حل کر رہا تھا۔۔۔۔ اور ایسے لوگ بھی مشکل سے ملتے ہیں۔۔ 

اب جلدی گھر چلو مما کی بہت بار کال آ چکی ہے۔۔ان سب کا خیال رکھنا ۔۔ فرہاد نے کمپيوٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ ایک لڑکے کو کہا اور خود باہر نکل گیا۔۔ حمزہ بھی اس کے پیچھے لپکا۔۔ مجھے بھی کچھ بتادو۔۔

گاڑی میں بتاتا ہوں۔۔ فرہاد نے جواب دیا۔۔۔ 

جاری ہے۔۔۔۔۔

❤❤❤❤❤

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─