┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 18۔ پارٹ 1

کتنے ہی لمحے خاموشی کے نظر ہوگۓ تھے۔۔ ہاں وہ خواب ہی تھا۔۔ کچھ دیر بعد حرم کو یقين آیا۔۔ 

لیکن اتنا اچھا خواب۔۔ وہ ابھی تک خواب کے زیر اثر تھی۔۔ وہ کونسی جگہ تھی۔۔۔ ؟؟ اور اس خواب کا کیا مطلب ہے۔۔ حرم سوچ رہی تھی۔۔ 

وہ بزرگ اکثر میرے خواب میں آتے ہیں۔۔ میں انہیں بابا بلا رہی تھی۔۔ لیکن وہ ہیں کون۔۔ ؟؟ حرم اب بستر سے نیچے اتر آٸ تھی۔۔ پھر اسنے لاٸیٹ آن کی۔۔ 

بارش کی آواز آرہی تھی۔۔ اسکا مطلب ابھی بھی بارش ہو رہی ہے۔۔ حرم نے صحن میں کھلنے والی کھڑکی کھولی۔۔ ایک ٹھنڈا ہوا کا جھونکا اسکے چہرے سے ٹکرایا تھا۔۔ اور حرم کے اندر تک سکون اتر گیا۔۔ واقعی ہی بارش ہو رہی تھی۔۔ لیکن مدھم مدھم۔۔ 

نا جانے کیوں آج حرم کو بارش اچھی لگ رہی تھی۔۔ وہ کتنے ہی لمحے کھڑکی میں کھڑی رہی۔۔ ہواٸیں اسکے چہرے کو چھو رہیں تھیں۔۔ اور ایک نرم سی مسکراہٹ اسکے چہرے پر پھیلی ہوٸ تھی۔۔ زہن ابھی بھی خواب میں الجھا ہوا تھا۔۔ 

اچانک بیڈ کے ساٸیڈ ٹیبل پر رکھے ہوۓ موبائل پر بپ ہوٸ تھی۔۔ حرم نے موبائل اٹھایا۔۔ 

پلیز ایک بار مجھ سے بات کرلیں۔۔ پلیز حرم۔۔ 

فرہاد آغا کا میسج تھا۔۔ رات کے ساڑھے تین بجے فرہاد آغا کا میسج۔۔ یہ شخص سویا نہیں ابھی تک۔۔ وہ حیران ہوٸ۔۔ 

جی بولیں۔۔ حرم نے ریپلاۓ کیا تھا۔۔ اسکا موڈ اچھا تھا اس لیۓ۔۔ یا پھر موسم اور وقت کا اثر تھا۔۔ اس لیۓ۔۔ لیکن وہ بات کرنے پر راضی ہو گٸ تھی۔۔ 

فوراً ہی فرہاد کی کال آگٸ۔۔ 

اسلام علیکم۔۔ حرم نے ریسیو کرنے کے بعد سلام کیا۔۔ 

اور فرہاد کی روح تک سکون اتر گیا تھا۔۔ یہ آواز سننے کیلیۓ وہ کتنا بے چین تھا۔۔ 

وعلیکم اسلام۔۔ کیسی ہیں آپ حرم۔۔۔ ؟؟ وہ پوچھ رہا تھا۔۔ 

کمال شخص تھا۔۔ وہ اتنی بار بدتمیزی کر چکی تھی۔۔ وہ اس سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ لیکن اس شخص کے لہجے میں زرا فرق نہیں آیا تھا۔۔ وہ اتنی ہی عزت اور احترام سے بلاتا تھا حرم کو۔۔ یہ اس بات کی گواہ تھی کہ اس شخص کی تربیت بہت اچھے اور منفرد طریقے سے کی گٸ ہے۔۔ اسکے بات کرنے کا انداز اسکے اعلی نسب ہونے کا ایک ثبوت تھا۔۔ اور ایسا مرد بہت ہی مشکل سے ملتا ہے۔۔ حرم کسی سے امپریس نہیں ہوتی تھی۔۔ شاید کوٸ اسے امپریس کر ہی نہیں پایا تھا۔۔ لیکن وہ شخص اپنے آپ کو منوا رہا تھا۔۔ 

جی میں ٹھیک ہوں۔۔ آپ اس وقت تک جاگ رہے ہیں سوۓ نہیں کیا۔۔ ؟؟ حرم نے پوچھا۔۔ 

اور فرہاد تو حیران ہی رہ گیا تھا۔۔ حرم اس سے بات کر رہی تھی۔۔۔ ایک تو یہ کمال۔۔۔ اوپر سے وہ اسکے جاگنے کی وجہ پوچھ رہی تھی۔۔ وہ حیران نا ہوتا تو کیا کرتا۔۔ 

نہیں میں ہاسپٹل میں ہوں۔۔ ناٸیٹ ڈیوٹی ہے میری۔۔ آپ میری کال ریسیو نہیں کرتی۔۔ اب تھوڑا فری تھا تو سوچا میسج کردوں۔۔ شاید آپ میسج ہی ریڈ کرلیں۔۔ فرہاد نے جواب دیا۔۔ 

جی بولیں کیا بات کرنی تھی آپ نے۔۔ حرم نے پوچھا۔۔ 

وہ مجھے آپ سے سوری کہنا تھا۔۔ وہ سب ایک غلط فہمی کی وجہ سے ہوا۔۔ میں نے آپکے لیۓ ہی پرپوزل بیجھا تھا۔۔ فرہاد بتا رہا تھا۔۔ 

اٹس اوکے۔۔ لیکن شہرین آپکو پسند کرتی ہے۔۔ آپ ایک بار پھر سوچ لیں۔۔ حرم نے کہا۔۔۔ 

میں نے سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کیا ہے۔۔ اور مجھے کسی شہرین میں انٹرسٹ نہیں ہے۔ اب وہ یہ تو نہیں بتا سکتا تھا کہ وہ اسکی اور شہرین کی ساری باتیں سن چکا ہے۔۔ 

آپ مجھے بس اتنا بتا دیں۔۔ آپکو کوٸ اعتراض تو نہیں ہے نا۔۔ ؟؟ 

اور حرم کا دل زور سے ڈھرکا تھا۔۔ کب کسی نے اس سے اسکی مرضی پوچھی تھی۔۔ اور ایک یہ شخص ہے۔۔۔ وہ سوچ رہی تھی۔۔ 

نہیں۔۔ جب میری فیملی کو کوٸ اعتراض نہیں تو مجھے بھی نہیں۔۔ وہ مسکراٸ۔۔ 

اففففف۔۔ اتنی خوبصورت مسکراہٹ۔۔ پھولوں کا پریوں میں بدلنا تو بنتا تھا نا۔۔ 

اور فرہاد کو حرم نور جیسی لڑکی سے اسی جواب کی امید تھی۔۔ 

یہ سب اس خواب کا کمال تھا۔۔ جو تھوڑی دیر پہلے تک حرم نے دیکھا تھا۔۔ ایک اصلی مسکراہٹ اسکے چہرے پر موجود تھی۔۔ اور اسے لگ رہا تھا یہ سب اس شخص کی بدولت ہے۔۔ 

ویسے آپ کیوں جاگ رہیں ہیں۔۔ فرہاد نے پوچھا۔۔ 

وہ میں تہجد کیلیۓ اٹھی تھی۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔ اوکے میں نماز پڑھ لوں۔۔ دیر ہورہی ہے۔۔ حرم نے کہا۔۔ 

اوکے۔۔ اللہ حافظ۔۔ ٹیک کیٸر۔۔ فرہاد نے خوش دلی سے کہا تھا۔۔ اور حرم نے فون بند کر دیا۔۔ وہ ابھی تک اسی کھڑکی میں کھڑی تھی۔۔ 

اور یہ منظر اپنے کمرے کی کھڑکی سے زین (شزا کے بڑے بھاٸ ) نے دیکھا تھا۔۔ وہ حرم کو بچپن سے لاٸک کرتا تھا۔۔ اسے پتا چل گیا تھا کہ حرم کا رشتہ ہونے جا رہا ہے۔۔ وہ اسے اس وقت فون پر بات کرتے ہوۓ دیکھ چکا تھا۔۔ وہ جانتا تھا کہ دوسری طرف فون پر کون تھا۔۔ 

حرم کی مسکراہٹ اسے سب سمجھا گٸ تھی۔۔ لیکن شاید اسے پتا نہیں تھا کہ وہ مسکراہٹ کس وجہ سے تھی۔۔ 

تو حرم تم میرا نہیں کسی اور کا نصيب ہو۔۔ شاید اس شخص کی دعاٶں میں میری دعاٶں سے زیادہ اثر تھا۔۔ جو تم اسکی ہونے جارہی ہو۔۔ زین نے ازیت سے سوچا تھا۔۔ 

وہ کبھی حرم کو بتا ہی نہیں پایا کہ اسکے دل میں حرم کیلیۓ کیا فیلنگز ہیں۔۔ اگر بتا بھی دیتا تو کیا ہو جاتا۔۔ حرم اس سے ناراض ہو جاتی۔۔ کبھی بات نا کرتی۔۔ کیونکہ وہ اسے بھاٸ کی طرح ہی ٹریٹ کرتی تھی۔۔ اب یہ تو زین کی غلطی تھی۔۔ جو اس نے ایسا سوچا۔۔ 

اللہ تمیں ہمیشہ خوش رکھے۔۔ زین نے آنکھوں میں آۓ آنسوٶں کو پیچھے دھکیلا اور کھڑکی بند کردی۔۔ 

حرم وہیں کھڑی تھی۔۔ وہ بارش کے قطروں میں جانے کیا تلاش کر رہی تھی۔۔ 
  
        ❤❤❤❤❤

فرہاد اپنے وارڈ میں سے ایک مریض کو چیک کرنے کے بعد سٹاف روم آیا تو سامنے صوفے پر حمزہ کو کانوں میں ہیڈ فون لگاۓ موبائل پر نظریں جماۓ بیٹھے دیکھا۔۔ 

تم۔۔ یہاں۔۔ فرہاد نے اسے دیکھتے ہوۓ پوچھا۔۔ 

ہاۓ ڈاکٹر فرہاد آغا۔۔ حمزہ نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ 

تم یہاں اتنی صبح صبح کیا کر رہے ہو۔۔ فرہاد نے فاٸل ٹیبل پر رکھتے ہوۓ پوچھا۔۔ 

میں نے سنا ہے کہ فرہاد آغا کل صبح سے آغا ہاٶس سے غائب ہیں۔۔ حمزہ نے شرارت سے کہا۔۔ 

ناٸیٹ ڈیوٹی تھی میری۔۔ میں نے بتادیا تھا گھر کہ میں نہیں آٶں گا۔۔ فریاد نے جواب دیا۔۔ 

ہاں وہی نا۔۔ میں دیکھنے آیا تھا کہ تم سچ میں مریضوں کی دیکھ بھال کر رہے ہو یا لڑکیاں تاڑ رہے ہو۔۔۔ ؟؟ حمزہ نے خباثت سے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ 

اتنا فضول ٹائم نہیں ہے میرے پاس۔۔ جو ایسی چیپ حرکتیں کرتا پھروں۔۔ فرہاد نے غصے سے کہا۔۔ 

بالکل سچ کہہ رہے ہیں یہ۔۔ انکے پاس تو اتنا ٹائم بھی نہیں ہے کہ کسی کو ایک نظر دیکھ ہی لیں۔۔ ڈاکٹر منیشا ابھی ابھی اندر آٸ تھی۔۔ 

اووو ہاۓ بیوٹی فل۔۔۔ کیسی ہیں آپ۔۔ ؟؟ حمزہ ڈاکٹر منیشا کو جانتا تھا۔۔ تبھی بے تکلفی سے پوچھا۔۔ 

جنکے لیۓ حال بے حال ہے وہ تو پوچھتے ہی نہیں۔۔ ڈاکٹر منیشا نے فرہاد کی طرف دیکھتے ہوۓ شکوہ کیا۔۔ اور فرہاد نے تو جیسے سنا ہی نہیں۔۔ 

آپکو نہیں پتا۔۔ آج کل فرہاد آغا کے زہن میں بس ایک نام ہے۔۔ ایک ہی زات کا خیال چھایا رہتا ہے۔۔۔ حمزہ نے معنی خیز لہجے میں کہا۔۔ 

اچھا۔۔ کون ہے وہ۔۔ ؟؟ ڈاکٹر منیشا نے پوچھا۔۔ فرہاد بس حمزہ کو گھور کر رہ گیا۔۔ 

وہ تو آپ خود پوچھ لیں۔۔ حمزہ نے جواب دیا۔۔ 

ویل اس ہاسپٹل میں کوٸ حسین سی ڈاکٹر نہیں ہے کیا۔۔ آپ کے علاوہ۔۔ حمزہ نے تجسس سے پوچھا۔۔ 

آپ نے کیا کرنا ہے۔۔؟؟ ویسے یہ بات تو طے ہے مجھ سے حسین تو نہیں ہوگی۔۔ ڈاکٹر منیشا نے ایک اداۓ بے نیازی سے بالوں کو جھٹکا دیا۔۔ 

اچھا۔۔ چلو ڈاکٹر نہیں کوٸ نرس ہی۔۔ میں سوچ رہا تھا تانا بانا باندھ لوں کسی لڑکی سے۔۔ سنگل رہ رہ کر اکتا گیا ہوں۔۔ حمزہ نے معصومیت سے کہا۔۔ 

ہاہا۔۔ ڈاکٹر منیشا کو حمزہ کی بات پر ہنسی آگٸ۔۔ 

حمزہ۔۔ فرہاد نے اسے گھورا۔۔ 

اچھا۔۔ نرس نہیں تو کوٸ مریضہ ہی سہی۔۔ لیکن ہو پیاری۔۔ وہ پھر بولا۔۔ 

حمزہ تم نے باز آنا ہے یا نہیں۔۔ فرہاد غصے سے بولا۔۔ 

اچھا۔۔ نہیں۔۔ چلے رہنے دیں۔۔ میں خود ہی ڈھونڈ لونگا۔۔ حمزہ نے بے چارگی سے کہا۔۔ 

کوٸ پاگل ہی ہوگی جو تمہاری باتوں میں آۓ گی۔۔ فرہاد نے جواب دیا۔۔ 

ہوووووو۔۔ لگتا آپ حمزہ داٶد عرف HD کو جانتے نہیں ہیں۔۔ پوری یونيورسٹی کی لڑکیاں میرے پیچھے پیچھے رہتی ہیں۔۔ ہر طرف سے HD کہاں ہے۔۔؟؟ بس یہ آوازیں آرہی ہوتی ہیں۔۔ حمزہ نے شان تفاخر سے کہا۔۔ 

جی بالکل۔۔ آپ ان پاگل لڑکیوں کے بواۓ فرینڈز کے سوشل اکاٶنٹ اور نمبر جو ہیک کر کے دیتے ہیں انہیں۔۔ فرہاد نے جواب دیا۔۔ 

آپ ہیکر ہیں۔۔ ؟؟اور ڈاکٹر منیشا کی حیرت سے آنکھیں پھیل گٸ۔۔  

جی بہت بڑے۔۔ زرا آپ بھی بچ کر رہیۓ گا ان سے۔۔ فرہاد نے بتایا۔۔ 

واٶٶٶ۔۔ مجھے بھی ایک نمبر ہیک کروانا ہے۔۔ ڈاکٹر منیشا نے خوش ہوتے ہوۓ کہا۔۔ 

لو کرلو بات۔۔ فرہاد نے اپنا سر پکڑ لیا۔۔ 

بدلے میں مجھے کیا ملے گا۔۔ ؟؟ حمزہ نے پوچھا۔۔۔ 

جو آپ چاہو۔۔ لڑکيوں کی لاٸن لگوا دونگی۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک حسین۔۔ ڈاکٹر منیشا بتا رہی تھی۔۔ 

حمزہ تم یہاں سے جا رہے ہو یا نہیں۔۔یا تمہیں اٹھا کر باہر پھینکو میں۔۔ فرہاد نے غصے سے کہا۔۔ 

جارہا ہوں۔۔ میں بھی کوٸ ویلا نہیں بیٹھا رہتا ہر وقت۔۔ یہ آپکے لیۓ کھانا لایا تھا۔۔ ممانی نے بھیجا تھا۔۔ اس نے سامنے پڑے ٹیفن کی طرف اشارہ کیا۔۔ 

ویسے بھی اتنی ٹھنڈ ہے باہر۔۔باٸیک پر آیا ہوں میں۔۔ ٹھنڈ سے برا حال ہو گیا ہے میرا۔۔ میں نے سوچا چلو کچھ دیر ہاسپٹل کے گرم کمرے میں بیٹھوں گا تو سردی اتر جاۓ گی۔۔ لیکن اللہ بچاۓ ان ظالم لوگوں سے۔۔ حمزہ نے رونے والا منہ بنا کر کہا۔۔ 

وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا۔۔ اپنا بیگ پہنا۔۔ اور جیکٹ کو ٹھیک کیا۔۔ وہ تیار شیار نکھرہ نکھرہ سا کافی اچھا لگ رہا تھا۔۔ 

جی جی جلدی جاٸیں۔۔ یونيورسٹی سے دیر ہو رہی ہے آپکو۔۔ لڑکيوں کی ایک لمبی لاٸن آپکا انتظار کر رہی ہوگی۔۔ فرہاد نے اسکے ڈرامے کو دیکھتے ہوۓ کہا۔۔ 

اللہ کرے آپکی آج بھی ناٸیٹ شفٹ لگ جاۓ۔۔کھڑوس۔۔ سڑیل انسان۔۔ حمزہ نے دکھتے دل کے ساتھ بددعا دی۔۔ 

فرہاد نے ہونٹوں پر آٸ مسکراہٹ کو مشکل سے روکا۔۔ ڈاکٹر منیشا ان دونوں کی نوک جھونک سے انجواۓ کر رہیں تھیں۔۔ 

اور میرا کام کب تک کرو گے۔۔۔؟؟

حمزہ چلتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا تھا کہ اچانک اسے پیچھے سے ڈاکٹر منیشا کی آواز آٸ۔۔

وہ مڑا۔۔ سوری۔۔۔ میں آپکا یہ کام نہیں کر سکتا۔۔ 

پر تم نے تو کہا تم لڑکيوں کی ہیلپ کرتے ہو۔۔ وہ آپ سے تم پر آگٸ تھی۔۔ 

جی ان لڑکيوں کی جن کے ساتھ لڑکے فلرٹ کر رہے ہوتے ہیں۔۔ جنہیں دھوکا دے رہے ہوتے ہیں۔۔ صرف ان لڑکيوں کی زندگی تباہ ہونے سے بچانے کیلیۓ ایسا کرتا ہوں۔۔ حمزہ نے کہا۔۔ 

 میری زندگی بھی داٶ پر لگی ہے۔۔ ڈاکٹر منیشا نے آس سے کہا۔۔

آپ غلط جگہ امید لگا کر بیٹھی ہیں مس منیشا۔۔۔ وہاں سے آپکو کچھ نہیں ملنا۔۔ اور ویسے بھی وہ شخص اب بکڈ ہو چکا ہے۔۔ اب آپ اسکا خیال زہن سے نکال دیں۔۔ حمزہ جانتا تھا وہ فرہاد کو پسند کرتی ہے۔۔ 

نہیں نکال سکتی۔۔ وہ مجھے چاہیۓ بس۔۔۔ ڈاکٹر منیشا نے کہا۔۔

okay.. Then best of luck.. 

میں آپکے لیۓ اور کچھ نہیں کر سکتا۔۔ حمزہ نے کہا۔۔ اور ایک بار پھر موبائل میں ہینذ فریز کو لگایا۔۔ موباٸل جینز کی پاکٹ میں ڈالا اور واپسی کے لیۓ مڑا۔۔ 

سوچ لو ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت لڑکی تمہارے قدموں میں ہوگی۔۔ ڈاکٹر منیشا نے کہا۔۔ 

اور حمزہ کا کانوں میں ہینڈ فری لگاتا ہاتھ رکا۔۔ وہ رکا۔۔ مسکرایا۔۔۔واپس پلٹا۔۔ اور پھر ڈاکٹر منیشا کے عین سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔۔ 

کبھی یونيورسٹی آٸیۓ گا۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک حسین لڑکی آپکو نظر آۓ گی۔۔ جو صرف اتنا چاہتی ہوگی کہ HD اسکے ساتھ ایک کپ کافی پی لے۔۔ ہم آغا ہاٶس کے لڑکوں کا اپنا ایک معیار ہے۔۔ہمارا دل ایک بار جس پر آ جاتا ہے۔۔ بس پھر وہی سب کچھ بن جاتا ہے ہمارے لیۓ۔۔ فرہادآغا کی طرح مجھے بھی وہ لڑکیاں بالکل نہیں پسند جو خود کی نمائش کرتی پھریں۔۔ حمزہ نے کہا۔۔ آخر کو تھا تو وہ بھی فرہاد آغا کا ہی کزن نا۔۔ 

  ہنسنا بولنا اور مزاق کرنا میری عادت ہے۔۔ بٹ ابھی تک ایک گرل فرینڈ نہیں بناٸ میں نے۔۔ جو میرے دل کو لگ جاۓ ایسی کوٸ ابھی تک ملی نہیں۔۔ باقی مجھے فرق نہیں پڑتا کون کتنا حسین ہے کتنا نہیں۔۔ آپ اپنی حسین لڑکيوں کی لاٸن کو کسی اور کیلیۓ سنبهال کر رکھیں۔۔ وہ کیا ہے نا کہ ابھی میں پیار محبت کے چکروں میں نہیں پڑنا چاہتا۔۔ 

اور ڈاکٹر منیشا تو بس سن رہی تھی اسے۔۔ اسے لگ رہا تھا کہ حمزہ نہیں بلکہ فرہاد آغا بول رہا ہو۔۔ 

آخر کو تم آغا ہاٶس کے لڑکوں کو اتنا زعم کس بات پر ہے۔۔ میرے بابا ایک کمشنر ہیں۔۔ جانتے ہو تم۔۔ ڈاکٹر منیشا کو بھی اب غصہ آگیا تھا۔۔ 

ہاہاہا۔۔۔ اور میرے نانا ابو۔۔ احتشام آغا ریٹائرڈ کمشنر ہیں۔۔ یعنی کہ جس عہدے کی آپ بات کر رہی ہیں اور جو بات آپ مجھے بتا رہی ہیں اپنی فیملی کے بارے میں۔۔ میری فیملی اس عہدے کو پار کر چکی ہے۔۔ حمزہ نے ہنستے ہوۓ کہا۔۔ 

اور رہی بات غرور اور زعم کی۔۔ وہ ہم آغا ہاٶس کے لڑکوں کو وراثت میں ملا ہے۔۔ حمزہ نے ایک آنکھ دباتے ہوۓ کہا۔۔ 

ہم فرینڈز بن سکتے ہیں۔۔ بس تم میرا کام کردو۔۔ ڈاکٹر منیشا کو آغا فیملی کی ویلیو کا احساس تھا تبھی پٹری پر آتے ہوۓ بولی۔۔ 

ہم آلریڑی فرینڈز ہیں۔۔ تبھی میں اس وقت آپکی باتیں سن رہا ہوں۔۔ ورنہ HD کے پاس ہر کسی کی بات سننے کا وقت نہیں ہے۔۔ وہ بھی دوبدو بولا تھا۔۔ 

مجھے فرہاد آغا چاہیۓ۔۔ ڈاکٹر منیشا نے جیسے منت کی۔۔ 

وہ آپکے نہیں ہو سکتے۔۔ 

آخر کیوں۔۔ کیا کمی ہے مجھ میں۔۔

کوٸ کمی نہیں ہے آپ میں۔۔ حمزہ نے ۔مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ بٹ جو فرہاد آغا کو پسند ہے۔۔ وہ بات آپ میں نہیں۔۔ اور وہ آپکے کیوں نہیں ہو سکتے یہ آپکو بہت جلد پتا چل جاۓ گا۔۔ 

اوکے میں چلتا ہوں اب مجھے دیر ہو رہی ہے یونيورسٹی سے۔۔ 

See you later.. take care..Beautiful.. good bye..  

وہ ہاتھ کے اشارے سے پیشانی کو چھو کر سلام کرتا ہوا مڑا۔۔ہینڈ فری کانوں میں لگاٸ۔۔ دونوں ہاتھوں کی جینز کی پاکٹ ڈالا۔۔ سیٹی بجاتا وہ بے نیازی سے چلتا جا رہا تھا۔۔ کچھ دور جا کر اس نے فضا میں اچھلتے ہوۓ دونوں پاٶں سے تالی بجاٸ اور پھر سامنے راہداری میں مڑتا وہ نظروں سے اجھل ہو گیا۔۔ 

گو کہ صبح صبح کا وقت تھا ہاسپٹ میں اتنا رش نہیں تھا لیکن آہستہ آہستہ لوگ بڑھ رہے تھے۔۔ صفائی کرنے والا عملہ صفائی میں مگن تھا۔۔ 

ڈاکٹر منیشا نے اسے جاتے ہوۓ دیکھا تھا۔۔ اور اسکی فرینڈز اور کولیگز نے اسکی حمزہ سے باتوں کا منظر دیکھا اور سنا تھا۔۔ ہاسپٹل کی نرسیں اور سینٸر ڈاکٹرز تک حمزہ کو جانتے تھے وہ جب آتا تھا سب کے چہروں پر مسکراہٹ چھوڑ جاتا تھا۔۔  

ڈاکٹر منیشا پاگل ہو گٸ ہے۔۔ اسکی کولیگز میں سے ایک نے کہا تھا۔۔ 

آغا ہاٶس کے لڑکے آج تک کسی کے ہاتھ نہیں آۓ۔۔ دوسری نے بھی کہا۔۔ 

جانتی ہوں۔۔ چاند کو پانے کی کوشش کر رہی ہوں۔۔ اب چاند اتنی آسانی سے تھوڑی نا مل جاۓ گا۔۔ ڈاکٹر منشا نے انکی باتیں سن لی تھیں۔۔ تبھی اندر آتے ہوۓ کہا۔۔ 

اور دیکھ لینا تم لوگ۔۔ ایک دن میں مسز فرہاد آغا بن کر دکھاٶں گی تم لوگوں کو۔۔ وہ عظم سے کہتی وہاں سے چلی گٸ۔۔ 

پاگل پن کا کوٸ علاج نہیں۔۔ ہیچھے سے ایک لڑکی نے ہنستے ہوۓ کہا۔۔۔ 
 
      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

     ہاۓ گرل فرینڈ۔۔ کیسی ہیں آپ۔۔ حمزہ نے ہاسپٹل کی بلڈنگ سے باہر پارکنگ ایریا میں فل دھند میں جھاڑو لگاتی ایک بوڑھی عورت کو دیکھتے ہوۓ کہا۔۔ وہ اسے جانتا تھا اور جان بوجھ کر اسے گرل فرینڈ کے نام سے پکارتا تھا۔۔ 

وہ بوڑھی عورت حمزہ کے منہ سے یہ لفظ سن کر جھینپ جاتی تھی۔۔ 

اتنی ڈھنڈ میں وہ کام کر رہی تھی۔۔ حمزہ نے فٹا فٹ اپنی جیکٹ کی پاکٹس سے دستانے نکالے اور اسکے ہاتھوں پر پہنا دیے۔۔ خیال رکھا کریں اپنا۔۔ حمزہ نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ 

اس عورت نے ڈھیروں دعائيں دے ڈالیں تھی حمزہ کو۔۔ 

حمزہ اپنی ہیوی باٸیک پر بیٹھا۔۔ اسے سٹارٹ کیا۔۔ اور یہ جا وہ جا۔۔ 

اور پارکنگ ایریا میں کسی کام سے آۓ فرہاد نے یہ منظر دیکھا۔۔ یہ ابھی تک گیا نہیں۔۔ لیکن پھر جو کام حمزہ نے کیا اس نے فرہاد کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دی۔۔
 کیا چیز ہو یا تم۔۔ فرہاد نے سوچا۔۔ 

I proud of you Hamza.. 

فرہاد نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ لیکن تب تک حمزہ جا چکا تھا۔۔  

        ❤❤❤❤❤❤

حرم دن میں بھی اسی خواب کے بارے میں سوچتی رہی تھی۔۔ آخر کس سے پوچھوں اس خواب کی تعبير۔۔ کیونکہ ہر ایک شخص کو نا تو خواب سنایا جاتا ہے اور نا اس سے خواب کی تعبير پوچھی جاتی ہے۔۔
کچھ سوچنے کے بعد آخر اس کے زہن میں ایک خیال آیا تھا۔۔ اور پھر وہ اپنے کمرے میں آٸ۔۔ موبائل اٹھایا اور ایک نمبر ملایا۔۔ 
کچھ دیر بعد کال ریسیو کی گٸ۔۔ 

اسلام علیکم سر۔۔۔ حرم نے سوال کیا۔۔ 

پروفیسر سعيد احمد ایک بہت ہی بہترین استاد تھے۔۔ انٹر میں حرم نے ان سے اردو پڑھی تھی اور گریجوایشن میں اسلامک سٹدی۔۔ 

وہ روحانیت کے بہت قریب تھے۔۔۔ نیک تھے۔۔ مزہبی تھے۔۔ اور خوابوں کی تعبير بھی جانتے تھے۔۔ حرم انکی ایک ہونہار سٹوڈنٹ رہی تھی۔۔ جب بھی حرم کو کوٸ مسٸلہ ہوتا تھا حرم اکثر انہیں فون کر کے پوچھتی تھی۔۔ 

وعلیکم اسلام۔۔ کیسی ہو حرم بیٹا۔۔ انہوں نے غالباً نمبر سیو کیا ہوا تھا۔۔ 

اللہ کا شکر ہے سر میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔مجھے آپ سے ایک کام تھا سر۔۔ میں نے آپکو ڈسٹرب تو نہیں کیا۔۔ حرم نے پوچھا۔۔ 

ارے نہیں بیٹا۔۔ آپ جیسے سٹوڈنٹس سے بھی کوٸ ڈسٹرب ہوتا ہے بھلا۔۔ وہ شفقت سے بولے۔۔ 

سر مجھے ایک خواب کی تعبير جاننی ہے۔۔ کس وقت بتا سکتے ہیں آپ۔۔۔؟؟ حرم نے پوچھا۔۔ 

کیا کوٸ اچھا خواب ہے۔۔ یا برا۔۔ یا پھر عجیب و غریب۔۔۔؟؟ 

سر مجھے خود نہیں سمجھ آرہا۔۔ شاید اچھا ہی ہے۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔ 

ٹھیک ہے آپ کالج آجاٸیں۔۔ شام کو عصر کی نماز کے بعد آپکو بتا دونگا۔۔ کیونکہ وہ وقت تعبير جاننے اور بتانے کیلیۓ اچھا ہوتا ہے۔۔۔ انہوں نے کہا۔۔ 

جی ٹھیک ہے سر۔۔ شکریہ۔۔ میں آجاٶں گی۔۔ حرم کو بتا تھا کہ شام کو بھی کالج میں کلاسز لگتی ہیں۔۔ اور سر شام کو مل سکتے ہیں۔۔ لحاظہ نے اس نے آنے کا کہہ کر فون بند کر دیا۔۔ 

     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرم، ثناء کے ساتھ مل کر کچن میں چائے بنا رہی تھی۔۔ 

ثانی آپی اور وہاج بھاٸ آۓ تھے۔۔ اور اندر ساجدہ آنٹی اور حرم کی امی کے پاس بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔۔ حورعین اور شزا بھی وہیں بیٹھیں تھیں۔۔ مجال ہے جو ایک منٹ کیلیۓ بھی کمرے سے باہر نکلی ہوں۔۔ ساری سن گھن لے کر ہی نکلنا تھا اب انہوں نے۔۔ 

حرم کو وہ لوگ پہلے ہی دیکھ چکے ہیں اور پسند بھی کر چکے ہیں۔۔ اب آپ لوگ بتائيں کب چلیں اسلام آباد۔۔؟؟ تاکہ آپ لوگ فرہاد سے اور اسکی سے فیملی سے مل اور دیکھ لیں انہیں۔۔ وہاج بھاٸ نے پوچھا۔۔ 

دیکھ لو بیٹا۔۔ وہ اتنے اونچے لوگ ہیں۔۔ تم لوگ خود ہی بتا رہے ہو۔۔ میں ابھی حرم کی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ کچھ سال ٹہر کر حرم اور حورعین کی اکٹھے ہی کرتی۔۔ میرے پاس ابھی دینے کیلیۓ کچھ بھی نہیں ہے۔۔ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے۔۔ میں اتنے اونچے لوگوں سے رشتےداری کیسے نبھاٶں گی۔۔ حرم کی والدہ نے پریشانی سے کہا۔۔

چچی جان آپکو پریشان ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔۔ وہ ایسے لوگ نہیں ہیں۔۔ انکے پاس سب کچھ ہے۔۔ انہیں بس حرم چاہیۓ۔۔ ثانی آپی نے بتایا۔۔ 

جی بالکل۔۔ ثانی باکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔۔ آپ بسم اللہ کریں۔۔ اللہ نے چن کر حرم گڑیا کیلیۓ اتنا اچھا رشتہ بیجھا ہے۔۔ وہاج بھاٸ پیار سے حرم کو گڑیا کہتے تھے۔۔ 

ہاں دیکھ لینے میں کیا ہرج ہے۔۔ کیا پتا اللہ نے حرم کا نصيب یہں لکھا ہو۔۔۔ ساجدہ آنٹی نے بھی کہا۔۔۔

چلو ٹھیک ہے جیسے تم لوگ کہو۔۔ کب جانا ہے پھر اسلام آباد۔۔ ایک تو سفر بھی اتنی دور کا ہے۔۔ حرم کی امی نے پوچھا۔۔ 

کل صبح چلتے ہیں۔۔ بابا جان جاٸیں گے۔۔ میں اور وہاج۔۔ آپ لوگوں میں سے کون کون جانا چاہتا ہے ہمیں بتا دیں۔۔ ثانی آپی نے کہا۔۔

حرم چاۓ لے کر اندر آٸ تھی۔۔ 

میں بھی جاٶں گی۔۔ حورعین نے کہا۔۔ 

میں تو منگنی کرنے پر جاٶں گی زیادہ ویلیو ہوتی ہے۔۔ شزا نے چہک کر کہا۔۔ 

ہاں لڑکیوں کا جانا بنتا ہے۔۔ وہاج بھاٸ نے کہا۔۔ تم دونوں چلنا۔۔ دیکھ لینا سب کچھ اچھے سے۔۔ 

حرم سب کو چائے سرو کر رہی تھی اور انکی باتیں بھی سن رہی تھی۔۔ 

کوٸ حرم سے بھی ہوچھ لے کیا پتا اسکا دل بھی کر رہا ہو جانے کو۔۔ شزا نے شرارت سے کہا۔ ۔۔

اور حرم کو وہاج بھاٸ کے سامنے شزا سے اس بات کی امید نہیں تھی۔۔ وہ سٹپٹا گٸ۔۔ 

جی۔۔ دل تو میرا بھی کرتا ہے لیکن اسلام آباد نہیں۔۔ فیصل آباد جانے کو۔۔ حرم نے معنی خیزی سے کہا تھا۔۔ وہاج بھاٸ کی علاوہ سب حرم کی بات سمجھ گۓ تھے۔۔ 

شزا کی بچپن سے ہی اسکے خالا زاد سے بات طے ہو چکی تھی۔۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند بھیٕ کرتے تھے۔۔ 

اب کی بار سٹپٹانے کی باری شزا کی تھی۔۔ 

جی بالکل وہاں تو میں بھی جاٶں گی۔۔ ثانی آپی نے بھی مسکراتے ہوۓ کہا تھا۔۔   

میں تو کہتی ہوں۔۔ اسلام آباد رہنے دیتے ہیں صبح فیصل آباد کی طرف چلتے ہیں۔۔ حورعین نے ایک آنکھ دبا کر کہا۔۔ 

اور پاس بیٹھی شزا نے اہک چٹکی کاٹی تھی اسے۔۔ تم باہر چلو۔۔ میں بیجھتی ہوں تمہیں فیصل آباد۔۔ شزا نے حورعین کے کان میں کہا۔۔ 

کیا کہا ابھی چلیں۔۔ بھٸ شزا کہہ رہی ہے ابھی فیصل آباد جاٶ اور حرم کے ساتھ ہی میری منگنی بھی کرو۔۔ حرم نے شرارت سے کہا تھا اور کہنے کے بعد وہ رکی نہیں بلکہ کمرے سے باہر بھاگی۔۔ 

حورعین۔۔میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں۔۔ شزا نے غصے سے کہتی اسکے پیچھے گٸ۔۔۔ صحن میں انکے ہنسنے اور بولنے کی آوازیں آرہی تھیں۔۔ 

اور اندر بیٹھے سبھی لوگ انکی حرکتوں پر ہنس دیۓ تھے۔۔ 

حرم نے سب کو خوش دیکھا تو صدق دل سے ان خوشیوں کے داٸمی ہونے کی دعا کی تھی۔۔ 

          ❤❤❤❤❤

شام چار بجے وہ کالج میں پروفيسر سعيد احمد کے آفیس میں انکے سامنے بڑھے سے میز کی دوسری جانب رکھی کرسی پر بیٹھی تھی۔۔ وہ اپنا خواب سنا چکی تھی۔۔ 

پروفيسر کچھ سوچ رہے تھے۔۔ پھر انکے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گٸ۔۔ ماشااللہ بہت ہی مبارک خواب ہے بیٹا آپکا۔۔ 

کچھ خاص پڑھ کر سوتی ہیں کیا آپ رات کو۔۔ یا دن میں پڑھتی ہیں۔۔ وہ پوچھ رہے تھے۔۔۔

جی سورہ نور روز پڑھ کر سوتی ہوں۔۔ اور دعاۓ نور دن میں بھی ہڑھتی رہتی ہوں۔۔ حرم نے بتایا۔۔ 

ہمممم۔۔۔ تبھی تو۔۔ بیٹا ان دونوں مبارک کلام کو کبھی مت چھوڑنا۔۔ ہمیشہ پڑھتی رہنا۔۔ انہوں نے تلقین کی۔۔ 

آپکو پتا ہے دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں۔۔ جنہيں رب تعالیٰ چن لیتا ہے۔۔ کسی خاص مقصد کیۓ۔۔ وہ لوگ بہت خوش نصیب ہوتے ہیں۔۔ اور چنا انہیں جاتا ہے جنہیں کوٸ خاص مقام دیا جانا ہو۔۔ 

پروفيسر بتا رہے تھے اور حرم سن رہی تھی۔۔ 

جہاں تک آپکے خواب کا تعلق ہے تو اس میں بھی کچھ ایسا ہی نظر آتا ہے۔۔ جیسے کسی خاص مقصد کیلیۓ آپکو چنا گیا ہے۔۔ 

اور حرم کے چہرے پر نرم سی مسکراہٹ پھیل گٸ۔۔ 

جتنا بڑا اور خاص مقصد ہوتا ہے۔۔ تکالیف اور مشکلات اتنی ہی زیادہ ہوتی ہیں۔۔ 

جب ہمارے پیارے پیغمبر #حضرت_محمد صلی علیہہ وآلہ وسلم کو دنیا کی راہنماٸ کا کام سونپا گیا تو انکے راستے میں بھی بہت سی مشکلات آٸیں۔۔ مگر ثابت قدم رہے۔۔ کوٸ بھی کام چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا اسکے کرنے اور پورا ہونے کیلیۓ ثابت قدمی بہت ضروری ہے۔۔ 

آپ بھی ثابت قدم رہیۓ گا۔۔ چاہے کوٸ بھی مشکل ہو۔۔ کتنا ہی اندھیرا کیوں نا ہو ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ چھٹ ہی جاتا ہے۔۔ 

اور وہ اندھیرا آپ نے خود دور کرنا ہے۔۔ سمجھ گٸ نا آپ۔۔ ؟؟ انہوں نے پوچھا۔۔ 

جی بالکل۔۔ حرم نے مسکرا کر جواب دیا۔۔ 

پھر کچھ اور باتیں پڑھاٸ کے متعلق اور آگے کیا کرنا ہے اس متعلق پروفيسر حرم سے پوچھتے رہے۔۔ آدھے گھنٹے بعد حرم انکے آفیس سے باہر آٸ تھی۔۔ کالج میں چہل قدمی تھی۔۔ سٹوڈنٹس آ اور جا رہے تھے۔۔ 

کبھی میں بھی یہاں ہی پڑھتی تھی۔۔ حرم نے سوچا۔۔ 

فسٹ اٸیر سے گریجوایشن تک چار سال حرم نے یہاں پڑھا تھا۔۔ وہاں موجود ہر ٹیچر اسے جانتا تھا۔۔ 

جونيئر کلاس کی ایک لڑکی نے حرم کو پہچان لیا۔۔ وہ حرم کی طرف آٸ تھی۔۔ اس سے کچھ باتیں کی۔۔ 
آپ یہاں۔۔ خیریت سے آٸ تھیں۔۔ وہ پوچھ رہی تھی۔۔ 

جی وہ سر سعيد سے کچھ کام تھا۔۔ حرم نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ 

اور پروفيسر سعيد احمد کے آفس تک جانے کی پرمیشن بہت ہی خاص سٹوڈنٹس کو تھی۔۔ کچھ سٹوڈنٹس تو ان سے بلاوجہ ہی خار کھاتے تھے۔۔ 

اوو اچھا سہی۔۔ ایڈمیشن لے لیا آپ نے نیکسٹ۔۔ وہ پوچھ رہی تھی۔۔ 

نہیں اس سال لونگی۔۔ ایک سمیسٹر سکپ کیا ہے۔۔ بیمار ہوگٸ تھی میں۔۔ پھر سٹڈی پر توجہ نہیں کر پاتی اس لیۓ۔۔ حرم نے مسکرا کر جواب دیا۔۔ 

پھر کچھ دیر وہ اس سے باتیں کرتی رہی۔۔۔ تبھی اسکی کلاس کے بوائز اور گرلز آگٸ تھیں۔۔ لیکچر کا ٹائم ہو گیا تھا۔۔ وہ لڑکی خدا حافظ کہنے کے بعد چلی گٸ۔۔ 

حرم نےبھی گھر جانے کیلۓ واپس قدم بڑھا دیے۔۔ 
گیٹ کے پاس آکر وہ رکی تھی۔۔ اس کالج میں اس نے بہت کچھ سیکھا تھا۔۔ بہت سی مستیاں بھی کی تھیں۔۔ اسکے گروپ میں بہت سی لڑکياں تھیں۔۔ جانے اب وہ کہاں کہاں ہونگی۔۔ حرم کے پاس سب کے کنٹیکٹس نمبر تھے لیکن اس نے کبھی بات نہیں کی تھی۔۔ 

اگر میری شادی سچ میں اسلام آباد میں ہو گٸ تو میں اس کالج میں شاید پھر کبھی نا آسکوں۔۔ حرم نے سوچا تھا۔۔ 

پھر وہ کالج کو الوداع کہتے ہوۓ باہر نکل آٸ۔۔ اس نے رکشے والے کو رکنا کا کہا تھا۔۔ شکر کہ وہ گیا نہیں تھا۔۔ 
وہ اب رکشے میں بیٹھ چکی تھی۔۔ سیاہ سٹالر سے نقاب کیا ہوا تھا۔۔ اوپر بڑی سی سیاہ شال اوڑھے۔۔ پاٶں میں شوز پہنے۔۔ پر سکون سی بیٹھی تھی۔۔ 

رکشہ کچھ آگے نکل آیا تھا تبھی اچانک حرم کی نظر ایک منظر پر پڑی اور اسکا دل اچھل کر ہلق میں آگیا تھا۔۔ 

ہوا کچھ یوں تھا کہ ایک لڑکی کالج کی طرف جا رہی تھی کہ اچانک وہاں ایک گاڑی آکر رکی تھی۔۔ اس میں سے دو تین آوارہ سے لڑکے اترے تھے اور انہوں نے لڑکی کو زبردستی پکڑتے ہوۓ گاڑی میں ڈالا۔۔ لڑکی نے چینخنے اور چلانے کی کوشش کی تھی مگر کوٸ فائدہ نہیں ہوا۔۔ 

وہ ایک سنسان سا رستہ تھا۔۔ کالج کو شہر سے باہر ہرسکون جگہ پر بنایا گیا تھا۔۔ اکا دکا ہی گاڑیاں نظر آرہی تھیں۔۔ جس چیز کو دیکھ کر حرم خوفزدہ ہوٸ تھی وہ یہ تھی کہ ڈرائيونگ سیٹ پر اور کوٸ نہیں بلکہ نادر بیٹھا تھا۔۔ 

حرم کے منہ سے چیخ نکل گٸ تھی۔۔ اس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔۔ 

ہاں وہ نادر ہی تھا۔۔ یا اللہ یہ شخص ایسے کام بھی کرتا ہے۔۔ 

رکشے والا بھی رکا نہیں تھا اس نے یہ منظر دیکھ کر سپیڈ اور تیز کرلی تھی۔۔ 

اس سے پہلے کے حرم کچھ بولتی۔۔ وہ گاڑی فراٹے بھرتی وہاں سے غائب ہوگٸ۔۔ 

جاری ہے۔۔۔۔۔

      ❤❤❤❤

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─