┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 17

نفیسہ تاٸ نے پورا گھر سر پر اٹھا لیا تھا جب انہیں پتا چلا تھا کہ فرہاد آغا کے گھر والوں کو شہرین نہیں بلکہ حرم پسند ہے۔۔ 

ارے میں نے تو پہلے ہی منع کیا تھا کہ اس منحوس لڑکی کو مت بلاٶ۔۔ ارے انکی تو اپنی ماں کی طرح دوسروں کا گھر لوٹنے کی عادت ہے۔۔ ایسے معصومیت اکا چولا چڑھا کر رکھتی ہیں کہ لوگ دیکھ کر ہی پاگل ہو جاٸیں۔۔ نفیسہ تاٸ کا پارہ ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا۔۔ 

امی اس حرم کی کوٸ غلطی نہیں ہے۔۔ غلطی ہماری ہے ہم نے سمجھنے میں غلطی کردی۔۔ وہ لوگ تو حرم کیلیۓ ہی آۓ تھے۔۔ ثانی آپی بتا رہی تھی۔۔ 

ارے رہنے دو مجھے کیا گدھی سمجھا ہوا ہے۔۔؟؟ جو مجھے پتا نہیں چلے گا وہ کیا کھیل کھیل کر گٸ ہے۔۔ اللہ بچاۓ زرا شرم نہیں آٸ اس چھٹانک بھر کی لڑکی ہو۔۔ جس لڑکے سے اسکا رشتہ طے ہے اسی کی بہن کے نصیب پر ڈاکا ڈال رہی ہے۔۔ میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دونگی۔۔ 

کس رشتے کی بات کر رہی ہیں آپ امی۔۔ جس سے حرم خوش نہیں ہے۔۔ نادر ہے تو میرا ہی بھاٸ مگر وہ کہیں سے بھی حرم کے لاٸق نہیں۔۔۔ اور اگر آپکو رشتہ کرنا ہی تھا تو منگنی کیوں نہیں کی آپ نے ابھی تک۔۔ حرم کے بھی تو کچھ ارمان ہونگے نا اپنے سسرال کی طرف سے کیا آپ نے پورے کیۓ وہ۔۔ ؟؟ 
ثانی آپی بالکل سچ کہہ رہی تھیں۔۔ 

اب تم مجھے سکھاٶ گی مجھے کیا کرنا ہے کیا نہیں۔۔ منع کردو لڑکے والوں کو۔۔ انہیں بتادو کہ حرم کی نادر کے ساتھ منگنی ہو چکی ہے۔۔ نفیسہ تاٸ نے غصے سے کہا۔۔ 

اوو ہو امی آپ سمجھنے کی کوشش کریں۔۔ وہاج کے بیسٹ فرینڈ ہیں ڈاکٹر سمیع۔۔ وہاج کی عزت کا سوال ہے۔۔ وہ لوگ بتا چکے ہیں کہ وہ حرم کیلیۓ ہی آۓ تھے۔۔ بس زرا سی ظلط فہمی کی وجہ سے یہ سب ہوا۔۔ ثانی آپی نے نفیسہ تاٸ کو سمجھانے کی کوشش کی۔۔ 

ہرگز نہیں۔۔ مجھے میری شہرین کی خوشی سے بڑھ کر کچھ عزیز نہیں ہے۔۔ کیا بیتے گی میری بچی پر جب اسے پتا چلے گا کہ اسکی ہونے والی بھابھی اسی کے نصيب پر ڈاکا ڈال چکی ہے۔۔ ارے اگر شہرین نہیں چاہیۓ تو نا سہی۔۔ میری بیٹی کو کیا رشتوں کی کمی ہے۔۔ لیکن یاد رکھنا ثانی میں حرم کی شادی وہاں نہیں ہونے دونگی۔۔ نفیسہ تاٸ غصے سے کہتی ہوٸیں اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چلی گٸیں۔۔ 

اور ثانی آپی اکیلے بیٹھی رہ گٸ۔۔ ابھی تو شہرین کو نہیں پتا وہ کمپيوٹر کلاسز کیلیۓ گٸ ہے۔۔ جب اسے پتا چلے گا وہ کیا ڈرامہ رچاۓ گی۔۔ ثانی آپی کی پریشانی بڑھ رہی تھی۔۔ ان سے بات کرنے کا کوٸ فائدہ نہیں۔۔ مجھے بابا سے بات کرنی چاہیۓ۔۔ ہاں۔۔ وہ میری بات ضرور سمجھیں گے۔۔ میری نہیں تو وہاج کی بات ضرور مان لیں گے۔۔ 
ثانی آپی نے سوچا اور ایک گہری سانس لی تھی۔۔ 

           ❤❤❤❤

اور حرم کے گھر میں سب حیران تھے۔۔ شزا اور ثناء خوش ہو رہیں تھیں۔۔ خوشی تو حورعین کو بھی تھی لیکن وہ زیادہ حیران تھی۔۔ کیا واقعی حرم کے نصيب میں نادر نہیں بلکہ فرہاد آغا ہے۔۔ 

اب میرا کیا ہوگا۔۔ تاٸ امی کبھی بھی نہیں مانیں گی۔۔ اسے پریشانی ہو رہی تھی۔۔ جبکہ حرم تو کچھ بول ہی نہیں پارہی تھی۔۔ اسکے سارے لفظ گم ہو گۓ تھے۔۔ وہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ اسے خوش ہونا چاہیۓ یا نہیں۔۔ 

کیا میرا نصيب اتنا اچھا ہو سکتا ہے۔۔؟؟ وہ سوچ رہی تھی۔۔ کیا نادر،تاٸ اور شہرین ایسا ہونے دیں گے۔۔۔؟؟ وہ سوچ رہی تھی لیکن کسی بھی نتيجہ پر نہیں پہنچ پا رہی تھی۔۔ 

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ثانی بتا رہی تھی کہ لڑکا اور اسکی فیملی بہت اچھی ہے۔۔ وہاج کے جاننے والے ہیں۔۔ ساجدہ آنٹی کہہ رہی تھی۔۔ 

ہاں سنا تو میں نے بھی یہی ہے۔۔ لیکن بھاٸ صاحب [آفاق تایا] اور نفیسہ بھابھی کبھی بھی نہیں مانیں گے۔۔ میں کچھ بھی نہیں کر سکتی جو کرنا ہے بھاٸ صاحب نے ہی کرنا ہے۔۔۔ صابرہ خاتون یعنی کے حرم کی امی نے کہا تھا۔۔ 

تمہاری دعائيں قبول ہوچکی ہیں حرم۔۔۔ تمہیں نادر سے بچانے کیلیۓ اللہ نے ایک مسیحا بیجھ دیا ہے۔۔ شزا نے مسکراتے ہوۓ کہا تھا۔۔ 

میرے نصیب میں کیا ہے۔۔ مجھے خود نہیں پتا۔۔ ہاں پر مجھے خوشیاں راس نہیں آتیں۔۔۔ حرم نے افسردہ سے لہجے میں کہا تھا۔۔ 

چلو دیکھتے ہیں تمہاری دعاٶں میں زیادو طاقت ہے یا پھر تمہارے نصیب میں۔۔ جو کہ اچھا نہیں ہے۔۔ بقول تمہارے۔۔ شزا نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔

 اور حرم نے کوٸ جواب نہیں دیا تھا۔۔ وہ کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہتی تھی۔۔ 

لگتا ہے آج پھر بارش ہوگی۔۔ شزا نے آسمان پر چھاۓ بادلوں کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا تھا۔۔۔ 

لگ تو رہا ہے۔۔۔ اب دیکھو۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔ 

          ❤❤❤❤❤

اور پھر شام کو حرم کو جو کال آٸ تھی وہ شہرین کی تھی۔۔ وہ اٹینڈ نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن پھر ناجانے کیوں کچھ سوچتے ہوۓ اس نے کال ریسیو کی۔۔ 

تم اپنے آپ کو سمجھتی کیا ہو آخر۔۔۔ اسے شہرین کی چھت پاڑ آواز سنائی دی تھی۔۔ 

کچھ بھی نہیں۔۔ حرم نے آرام سے جواب دیا۔۔ 

تمہیں شرم نہیں آتی حرم۔۔ میں تمہیں ایسا نہیں کرنے دونگی۔۔ شہرین غصے سے چینخ رہی تھی۔۔ 

میں نے ایسا کچھ نہیں کیا شہرین میڈم۔۔ ہاں البتہ اپنے بارے میں کیا خیال ہے تمہارا۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔ 

فرہادآغا میرے ہیں۔۔ تم مجھ سے میرا نصیب نہیں چھین سکتی۔۔ شہرین نے کہا۔۔ 

کیا واقعی۔۔ لیکن میں نے کب کہا کہ وہ میرے ہیں۔۔ اگر وہ تمہارے ہیں تو رکھ لو اسے۔۔ کیا میں نے تم سے مانگا اسے۔۔ حرم نے ایک بار پھر آرام سے جواب دیا۔۔۔ اور اسکی بات سن کر شہرین کو حیرت ہوٸ تھی۔۔ 

اگر تم نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔ تو پھر انکار کردینا اس رشتے سے۔۔ اگر وہ لوگ کہیں تو۔۔ شہرین نے طنز کیا۔۔ 

مجھے انکار نہیں کرنا آتا شہرین۔۔ اگر مجھے آتا ہوتا تو اب تک تمہارے بھاٸ کو کر چکی ہوتی۔۔ حرم سچ بول رہی تھی۔۔ 

میں نے تمہاری باتیں سننے کیلیۓ فون نہیں کیا۔۔ مجھے بس یہ کہنا ہے کہ مجھے فرہاد پسند آگیا ہے۔۔۔ اور جو چیز شہرین کو پسند آجاتی ہے وہ اسکی ہو جاتی ہے۔۔ اب وہ میرے ہیں۔۔ سنا تم نے فرہاد آغا میرے ہیں۔۔ میں اسے تمہارا نصيب نہیں بننے دونگی۔۔ ویسے بھی وہ اپر کلاس سے تعلق رکھنے والا شخص ہے۔۔ وہ تم جیسی کو کبھی پسند نہیں کرے گا۔۔ شہرین نفرت سے بول رہی تھی۔۔

 اور اسلام آباد کے سٹی ہاسپٹل میں بیٹھے دونوں کی باتیں سنتے فرہاد کا دل چاہا تھا کہ وہ شہرین کے منہ پر ایک تپھڑ مارے۔۔ لیکن وہ مجبور تھا بول نہیں سکتا تھا۔۔ نہیں تو حرم کو پتا چل جاتا کہ اسکا نمبر ہیک کیا گیا ہے۔۔ 

اور حرم کو ہنسی آگٸ۔۔ وہ اسے کچھ بتانا چاہتی تھی لیکن پر چپ کر گٸ۔۔ 

اگر فرہاد آغا تمہارے ہیں تو وہ تمہارے ہی رہیں گے۔۔ مجھے اس بات سے کوٸ فرق نہیں پڑتا۔۔ ویسے بھی میں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہتی۔۔ ہاں اگر میری قسمت اتنی اچھی ہوٸ۔۔ اور کہیں غلطی سے بھی تقدیر نے فرہاد آغا کو میری قسمت میں لکھا ہے۔۔ تو تم تو کیا۔۔ دنیا کی کوٸ طاقت اسے مجھ سے چھین نہیں سکتی۔۔ حرم نے کہا تھا۔۔ 

آخر وہ بھی تھک گٸ تھی۔۔۔ تاٸ امی اور ان لوگوں کی باتیں سنتے سنتے۔۔ 

اور حرم کی بات سن کر فرہاد کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی تھی۔۔ وہ بس یہی چاہتا تھا کہ حرم سٹرونگ بنی رہے۔۔ ان میں سے کسی کی باتوں میں بھی نا آۓ۔۔ یہی تو سننا چاہتا تھا وہ۔۔

میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دونگی۔۔ میں تمہاری جان لے لونگی حرم۔۔ شہرین غصے سے پھنکاری۔۔ 

لیٹس سی۔۔ حرم نے کہا اور فون بند کردیا۔۔ 

اور شہرین غصے سے پاگل ہو رہی تھی۔۔ اسکے چینخنے کی آواز پورے گھر میں سنائی دے رہی تھی۔۔ پھر اس نے کمرے میں موجود چیزوں کو اٹھا اٹھا کر پھینکنا شروع کردیا تھا۔۔ 

کوٸ بھی اسکے کمرے کے پاس نہیں گیا تھا۔۔ سب جانتے تھے کہ جب اسکا غصہ ٹھنڈا ہوگا وہ خود ہی رک جاۓ گی۔۔ شہرین کو زیادہ سر پر چھڑا رکھا ہے امی نے۔۔ ثانی آپی نے افسوس سے سوچا تھا۔۔ 

          ❤❤❤❤❤

وہاج بھاٸ اس وقت آفاق تایا کے کمرے میں تھے۔۔ نفیسہ تاٸ بھی وہیں پر تھیں۔۔ 

بابا جان اگر ہم یہ رشتہ کرتے ہیں تو اس سے ہمہیں بہت سے فائدے ہونگے۔۔ آپ نے نیا نیا بزنس شروع کیا ہے جبکہ سجاد آغا اسلام آباد کے مشہور بزنس مین ہیں۔۔ اور احتشام آغا ریٹائرڈ کمشنر ہیں۔۔ اگر ہم انسے رشتےداری کرتے ہیں تو ہمارا ایک نام ہوگا۔۔ 

ہممممم۔۔۔ آفاق تایا کچھ سوچ رہے تھے۔۔ وہاج بھاٸ کی باتیں متاثر کن تھیں۔۔ 

مگر میں ایسا کچھ نہیں ہونے دونگی۔۔ میرے دونوں بچوں نادر اور شہرین کی زندگی خراب ہو جاۓ گی۔۔۔

ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔ ہم ان دونوں کیلیۓ بھی بہت اچھے رشتے ڈھونڈ لیں گے۔۔ انشااللہ۔۔ وہاج بھاٸ نے امید سے کہا۔۔ 

اور باباجان اگر ہم انکار کرتے ہیں تو ہمیں اسکا نقصان ہی ہوگا۔۔ فرہاد کی شادی کہیں اور ہو جاۓ گی۔۔ لیکن آپکو وہ سٹیٹس نہیں ملے گا۔۔ کیا فرق پڑتا ہے فرہاد آغا کی شادی حرم سے ہو یا شہرین سے۔۔ داماد تو وہ آپکے ہی کہلاٸیں گے نا۔۔ آخر حرم بھی تو آپکی بیٹی جیسی ہی ہے نا۔۔ وہاج بھاٸ نے پر امید نظروں سے آفاق تایا کی طرف دیکھا۔۔ 

ہممم۔۔ تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو وہاج۔۔ آفاق تایا نے کہا۔۔ 

لیکن۔۔ نفیسہ تاٸ نے کچھ کہنا چاہا تھا۔۔ 

لیکن اور کچھ نہیں۔۔ حرم کی شادی اسی گھر میں ہوگی۔۔ یہ میرا فیصلہ ہے۔۔ آفاق تایا نے انکی بات کاٹ دی۔۔۔  

اور آپ نفیسہ بیگم اپنے دونوں بچوں کو سمجھا دینا نہیں تو ہمیں سمجھانا آتا ہے۔۔ آفاق تایا دو ٹوک لہجے میں کہتے ہوۓ اٹھ کر چلے گۓ۔۔ اور انکے پیچھے وہاج بھاٸ بھی۔۔ بےشک آفاق تایا نے اپنا فائدہ سوچا تھا لیکن وہاج بھاٸ سچ میں بہت خوش تھے۔۔ 

اور نفیسہ تاٸ منہ بنا کر رہ گٸیں تھیں۔۔ 

 خوشخبری ہے۔۔ باباجان مان گۓ۔۔ وہاج بھاٸ نے ثانی آپی کو بتایا۔۔ اب وہ ڈاکٹر سمیع کا نمبر ملا رہے تھے۔۔ 
  
         ❤❤❤❤❤

اور پھر رات کو لاہور میں سچ میں بارش ہو رہی تھی۔۔ نبیل نے انگلش مووی لگائی ہوٸ تھی سب وہی دیکھ رہے تھے۔۔ حرم بھی وہیں آبیٹھی۔۔ اپنے زہن کو وہ شہرین کی باتوں سے نکالنا چاہتی تھی۔۔۔ اور یہ ایک اچھا طریقہ تھا۔۔ 

اسے تین بار فرہاد کی کال آچکی تھی۔۔ لیکن اس نے ایک بار بھی اٹینڈ نہیں کی۔۔ مجھے کوٸ حق نہیں کہ میں اس سے بات کروں۔۔ حرم نے سوچا۔۔ 

تبھی کچھ دیر بعد شزا کمرے میں آٸ۔۔ اسکے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی۔۔ وہ حرم کے پاس آٸ۔۔ 

مبارک ہو حرم ۔۔ تم مسز آغا بننے جارہی ہو۔۔۔ تایا ابو نے اپنا فیصلہ تمہارے حق میں سنادیا ہے۔۔ ابھی ثانی آپی کی کال آٸ تھی۔۔ شزا نے جھک کر حرم کے کان میں کہا تھا۔۔ 

اور حرم رو بس حیران رہ گٸ تھی۔۔ اسے یقين نہیں آرہا تھا۔۔ کیا واقعی۔۔ 

تمہاری دعائيں قبولیت کی سند پا چکی ہیں۔۔ اب تم فرہاد آغا کی ہونے کی تیاری کرلو۔۔ شزا کہہ رہی تھی۔۔۔ 

اور کس کو کیا پتا کس کی دعائيں قبول ہوٸیں تھیں۔۔ حرم کی یا پھر فرہاد کی۔۔ کیونکہ حرم نے تو بس راہنما مانگا تھا۔۔ جبکہ فرہاد نے اپنا سکون۔۔ 

اور آج کی بارش حرم کے گھر والوں خاص طور پر اسکی امی کیلیۓ بہت سی خوشیاں لاٸ تھی۔۔ کیونکہ انکی شہزادی بیٹی کیلیۓ واقعی ہی شہزادہ بیجھا تھا رب نے۔۔ 

          ❤❤❤❤❤

وہ ایک گھنا سیاہ جنگل تھا۔۔ رات کی سیاہی نے اس جنگل کو اور بھی خوفناک بنا دیا تھا۔۔ حرم چلتی جا رہی تھی۔۔ اسے ڈر لگ رہا تھا۔۔۔ عجیب سی آوازیں درختوں کے اوپر سے آرہی تھیں۔۔ جیسے بہت سی بلاٸیں درختوں پر اڑتی پھر رہی ہوں۔۔ اسکے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی لاٸٹ تھی۔۔ جس سے راستہ نظر آرہا تھا۔۔ 

وہ چلتے چلتے بہت آگے نکل آٸ تھی۔۔ وہ کوٸ باغ تھا۔۔ لیکن وہاں موجود ہر پھول سوکھا ہوا اور مرجھایا ہوا نظر آرہا تھا۔۔ وہاں موجود ہر چیز پر سیاہی سی چھاٸ تھی۔۔ 

یہ میں کہاں آگٸ ہوں۔۔ ؟؟ وہ سوچ رہی تھی۔۔۔ 
 
 حرم نے دیکھا وہاں اور لوگ بھی تھے لیکن وہ ڈرے سہمے تھے۔۔ حرم کے ہاتھ میں لاٸیٹ دیکھ کر وہ اسکی طرف آۓ تھے۔۔ وہ آگٸ ہے۔۔ ان میں سے ایک شخص پکارا تھا۔۔ 

بیٹا کچھ کرو۔۔ تمہارے ہاتھ میں روشنی ہے۔۔ سب کچھ روشن کردو۔۔ اس سے پہلے کے اندھیرا اور بڑھ جاۓ اور وہ شیطان آجاۓ۔۔ نا جانے وہ آدمی کس کا زکر کر رہا تھا حرم کو سمجھ نہیں آٸ۔۔ وہ یہ سب کیسے روشن کرے۔۔ ؟؟

کیسے اندھیرا ختم کرے۔۔ 

وہ وہاں سے کچھ اور آگے بڑھ جاتی ہے۔۔ وہاں ایک بزرگ کھڑے تھے۔۔سفید لباس میں ملبوس۔۔ حرم اسے جانتی تھی۔۔ وہ اسکے پاس جاتی ہے۔۔۔ 

بابا۔۔۔ آپ یہاں۔۔ حرم نے اس بزرگ کو پکارہ۔۔ 

نور۔۔۔ حرم نور۔۔۔ تم آگٸ۔۔ میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا۔۔ دیکھو یہاں پر کتنا اندھیرا ہے۔۔ سب روشن کردو۔۔ وہ بزرگ کہہ رہے تھے۔۔ 

بابا یہ کونسی جگہ ہے۔۔ اور میں کیسے اندھیرا دور کروں۔۔؟؟ میرے پاس تو چھوٹی سی لاٸیٹ ہے۔۔ حرم نے کہا۔۔ 

تم نور ہو بیٹا۔۔ نور یعنی روشنی۔۔ کیا تمہیں بھی کسی لاٸیٹ یا کسی اور روشنی کی ضرورت ہے۔۔ یہ تم کر سکتی ہو۔۔ اور تمہیں ہی کرنا ہے نور۔۔ 
وہ بزرگ کہتا ہوا ایک طرف کو چلا جاتا ہے۔۔ حرم پکارتی رہتی ہے لیکن وہ سنتا ہی نہیں۔۔ 

پھر حرم چلتے ہوۓ ایک پھول کے پاس آتی ہے۔۔ وہ مرجھایا ہوا ہوتا ہے۔۔۔ حرم اسے ہاتھ لگاتی ہے۔۔ اور یہ کیا۔۔ 

وہ پھول جو مرجھایا ہوا تھا ایک دم روشن ہو جاتا ہے۔۔ اور پھر وہ ایک ننھی سی پری میں بدل جاتا ہے جسکے چھوٹے چھوٹے پر ہوتے ہیں اور ان پروں سے روشنی نکل رہی ہوتی ہے۔۔ وہ پری حرم کی طرف دیکھ کر مسکراتی ہے۔۔ اور پھر اڑ جاتی ہے۔۔ اسکے اڑنے سے ایک دم روشنی پھیل جاتی ہے۔۔ لیکن وہ روشنی اتنی زیادہ نہیں ہوتی کہ سارا اندھیرا مٹا سکے۔۔ 

حرم حیران نظروں سے یہ منظر دیکھتی ہے۔۔ تبھی اچانک ہر طرف افرا تفری پھیل جاتی ہے کچھ لوگوں کی چینخنے کی آوازیں آتی ہیں۔۔ وہ لوگ جنگل کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔۔ 

حرم نے بھی جنگل کی طرف دیکھا تھا۔۔ اور اسے گہرے سیاہ رنگ کے ساۓ فضا میں اڑتے ہوۓ نظر آۓ۔۔ وہ ساۓ اب باغ کی طرف آرہے تھے۔۔ 

کچھ کرو۔۔ تمہیں کچھ کرنا ہوگا۔۔ لوگ حرم کے پاس آ کر کہہ رہے تھے۔۔ 

نور یعنی روشنی۔۔۔ وہ سوچ رہی تھی۔۔ پھر حرم نے دیکھا کہ اسکے ہونٹ کلمہ طیبہ پڑھ رہے ہیں۔۔ 

اور پھر اس نے اپنے آپ کو کچھ آیتیں پڑھتے ہوۓ پایا۔۔ 

   ”اللہ نورالسموت ولارض۔۔۔ “

”اور اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔۔ “

پھر وہ بھاگ رہی تھی اور یہ آیت پڑھ پڑھ کر ہر طرف پھونک رہی تھی۔۔ اور پھر ہر پھول ایک روشن پری میں تبدیل ہو رہا تھا۔۔ روشنی بڑھتی جارہی تھی۔۔ اور پھر اس نے کالے سایوں کو پیچھے ہٹتے دیکھا۔۔ 

اب وہ دعاۓ نور پڑھ رہی تھی۔۔ 

”اللھم اعطنی نوراًہ۔۔۔ “

”اے اللہ مجھے نور عطا کر“

دعاۓ نور وہ بار بار پڑھ رہی تھی۔۔ اور پھر اس نے دیکھا اس کے ارد گرد روشنی پھیل جاتی ہے ایک عجیب سا نور۔۔ 

حرم ہوا میں اڑتی ہے۔۔ بہت تیز روشنی پھیلتی ہے اور اندھیرا ایک دم چھٹ جاتا ہے۔۔سیاہ ساۓ غائب ہوجاتے ہیں۔ہیں۔ پورا جنگل روشن ہو جاتا ہے۔۔ لوگ نیچے کھڑے اسے مسکرا کر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔۔ کچھ ہاتھ ہلا رہے ہوتے ہیں۔۔ 

میں نے کہا تھا نا تم کرلو گی نور۔۔۔ وہ بزرگ اسے اپنے پاس فضا میں نظر آتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں۔۔ 

حرم نے آج تک اپنی زندگی میں اس سے خوبصورت منظر نہیں دیکھا تھا۔۔ اس نے پھولوں کو پریوں میں بدلتے دیکھا تھا۔۔ اور وہ پریاں اسکے ساتھ فضا میں اڑ رہی تھیں۔۔ اور وہ بلندیوں کی طرف اڑتی جارہی تھی۔۔ 

اور پھر حرم ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔ وہ اپنے کمرے میں تھی۔۔یہ کیا تھا۔۔ ؟؟ وہ سوچ رہی تھی کوٸ خواب یا حقیقت۔۔۔ مگر فیصلہ نا ہو سکا۔۔ 
 
جاری ہے۔۔۔۔۔۔

       ❤❤❤❤❤❤


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─