┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 16

فرہاد آغا سارا دن ہاسپٹل میں مصروف رہا تھا۔۔ ایمرجنسی کیسز کی وجہ سے اسے ٹائم ہی نہیں ملا کہ وہ دوبارہ حرم کو کال کر سکے۔۔ ایک طرف وہ ریلیکس بھی تھا کہ سب ٹھیک ہو رہا ہے۔۔ سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔۔ لیکن شاید اسے پتا نہیں تھا کہ کیا ہو چکا تھا۔۔ 

رات گیارہ بجے اب وہ گھر جارہا تھا۔۔ سب واپس آچکے ہونگے۔۔ کیا مجھے حرم کو کال کرنی چاپیۓ۔۔۔ آخر وہ اتنا روڈ کیوں تھی۔۔۔ ؟؟ کیا وہ خوش نہیں ہے۔۔ ایسے بہت سے سوال اسکے زہن میں تھے۔۔ لیکن عالیہ تو بتا رہی تھی کہ وہ بہت خوش ہے۔۔ پھر اس نے مجھ سے اتنے غصے میں بات کیوں کی۔۔ ؟؟ وہ جتنا سوچ رہا تھا اتنا ہی اسکا ماٸنڈ الجھ رہا تھا۔۔ 24 گھنٹوں میں سے اسے بس یہ آدھے گھنٹے کا ٹائم ملتا تھا وہ بھی ڈرائيونگ کے دوران جب وہ کچھ سوچ پاتا تھا۔۔ ورنہ ہاسپٹل میں تو اسے کھانا کھانے کا ٹائم بھی مشکل سے ملتا تھا۔۔ اور اسی ٹائم میں ڈاکٹر منیشا سامنے آکر اسکا موڈ خراب کر دیتی تھی۔۔ 

نہیں مجھے اسے کال نہیں کرنی چاہیۓ۔۔ شاید وہ مجھے بھی باقی لڑکوں کی طرح سمجھ رہی ہے۔۔ یا شاید اسے اس طرح سے بات کرنا نہیں پسند۔۔ انہی سوچوں میں وہ گھر پہنچ چکا تھا۔۔ 

جب وہ لاٶنج میں آیا تو سبھی وہاں بیٹھے ہوۓ تھے۔۔ اسکا خیال تھا کہ لاہور سے اسلام آباد کے سفر میں وہ تھک چکے ہونگے۔۔ شاید سبھی سو گۓ ہوں۔۔ لیکن یہاں تو میلا لگا ہوا تھا۔۔ آغا جی ، زیبا بیگم،سجاد بھاٸ، نتاشہ بھابھی، حمزہ، عالیہ انفیکٹ چھ سالا عاشا اور چار سالا زید بھی جاگ رہا تھا۔۔

 [عاشا اور زید سجاد بھاٸ اور نتاشہ بھابھی کے بچے تھے۔۔ ]

اوو چاچو آگۓ۔۔ عاشا نے سب سے پہلے فرہاد کو دیکھا تھا۔۔ 

اسلام علیکم۔۔ وہ سب کو سلام کرتا وہیں صوفے پر بیٹھ چکا تھا۔۔ 

سب اسے عجیب عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔۔ 

خیریت۔۔ سب ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں۔۔؟؟ فرہاد نے پوچھا۔۔ 

برخودار۔۔ رشتہ پکا ہو گیا ہے آپکا۔۔ آغا جی نے اطلاع دی۔۔

جی جانتا ہوں میں۔۔ عالیہ نے بتا دیا تھا۔۔ فرہاد نے سپاٹ سے لہجے میں کہا۔۔۔ وہ تو بات تک نہیں سنتی۔۔ کیا فائدہ خوش ہونے کا فرہاد نے سوچا۔۔ 

بھاٸ یہ دیکھیں۔۔ عالیہ نے ایک پورا فوٹو البم فرہاد کے سامنے کیا۔۔ یہ آپکی ہونے والی واٸف کی پوری فیملی ہے۔۔ اب وہ تصویریں دکھا رہی تھی اور بتا رہی تھی۔۔ 

یہ ثانی آپی۔۔ انکو تو آپ جانتے ہی ہونگے۔۔ اور یہ ہے شہرین۔۔ آپکی ہونے والی واٸف۔۔ عالیہ نے کہا لیکن فرہاد اتنا تکھا ہوا تھا کہ عالیہ کی بات پر غور ہی نہیں کیا اور نا پک پر دھیان دیا۔۔ 

عالیہ کچھ اور بھی بول رہی تھی۔۔ اور یہ ہے حرم۔۔۔ حرم نور۔۔ عالیہ نے ایک تصویر نکالی۔۔ حرم کے نام پر فرہاد نے عالیہ کی طرف دیکھا لیکن تب تک وہ فوٹو لے کر زیبا بیگم کی طرف جا چکی تھیں۔۔ 

ایک بات جو ایک انسان نے نوٹ کی تھی وہ تھا حمزہ۔۔ اس لگا تھا کہ شاید عالیہ نے غلطی سے غلط نام لے دیا ہے۔۔ شہرین نہیں حرم ہے فرہاد کی ہونے والی واٸف۔۔ لیکن پھر اس نے بھی نظر انداز کر دیا۔۔ 

مما۔۔ اسے دیکھیں۔۔ یہ ہے میری فیوچر بیسٹ فرینڈ۔۔ حرم نور۔۔ عالیہ اب تصویر زیبا بیگم کو دکھا رہی تھی۔۔ مما شی از سو انوسینٹ۔۔ سفید رنگ کے سکارف سے حجاب کیۓ وہ لڑکی واقعی ہی بہت معصوم اور پیاری لگ رہی تھی۔۔ 

ماشااللہ۔۔۔ زیبا بیگم نے تصویر دیکھتے ہوۓ کہا۔۔ 

اور یہ آپکی ہونے والی بہو۔۔ عالیہ نے اب شہرین کی تصویر سامنے کی۔۔ 

ماشااللہ یہ بھی بہت پیاری ہے۔۔ زیبا بیگم نے کہا تھا۔۔ 

ایک منٹ۔۔۔ عالیہ شاید تم غلط نام لے رہی ہو۔۔ حمزہ نے الجھن آمیز لہجے میں کہا۔۔ 

نہیں تو۔۔ عالیہ نے جواب دیا۔۔ 

 دینو بابا۔۔ پلیز ایک گلاس پانی لا دیں۔۔ فرہاد نے اونچی آواز سے کہا تھا۔۔ سارے اتنے مصروف تھے کہ کسی کو یاد ہی نہیں تھا کہ فرہاد کو پانی کا بھی پوچھنا ہے یا نہیں۔۔ 

اوو سوری بھاٸ۔۔ میں لے کر آتی ہوں۔۔ لیکن تب تک دینو بابا پانی کا گلاس لے آۓ تھے۔۔ 

شہرین بھی پیاری اور اچھی لڑکی ہے۔۔ لیکن سچ مانو مجھے عالیہ اور فاریہ کو حرم بہت اچھی لگی ہے۔۔ اگر وہ انگیجیڈ نا ہوتی تو میں ضرور عبید کیلیۓ اسکا رشتہ مانگ لیتی۔۔ نتاشہ بھابھی نے اپنے چھوٹے بھاٸ کا زکر کیا۔۔ 

اور یہ ہی وہ لمحہ تھا جب پانی پیتا فرہاد چونکا تھا۔۔ 

یہ کیا کہہ رہی ہیں بھابھی آپ۔۔۔؟؟ فرہاد کو غصہ آگیا۔۔ 

کیا ہوا فرہاد میں نے تو جسٹ ایک بات ہی کی ہے۔۔ ویسے اسکی شہرین کے بھاٸ سے منگنی ہوچکی ہے۔۔ نتاشہ بابھی نے کہا۔۔ 

ایک منٹ۔۔ یہ شہرین کون ہے۔۔؟؟ حمزہ نے پوچھا۔۔ 

شہرین وہی لڑکی ہے جسے فرہاد نے پسند کیا تھا اور جس کا پرپوزل لے کر ہم لاہور گۓ تھے۔۔ نتاشہ بھابھی بتا رہی تھی۔۔ 

اور فرہاد تو بس حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ نتاشہ بھابھی کیا کہہ رہی ہیں۔۔ 

ایک منٹ۔۔ حمزہ کھڑا ہو گیا اپنی جگہ سے۔۔ یہاں ایک کنفیوژن ہے۔۔ شہرہن نہیں جس کو فرہاد نے پسند کیا ہے وہ حرم ہے۔۔ حرم نور۔۔ 

اور آغا ہاٶس میں ایک دھماکہ ہوا۔۔ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ حمزہ بھاٸ۔۔ 

جی۔۔ جس لڑکی کیلیۓ میں نے آپ لوگوں کو بیجھا تھا اسکا نام حرم نور ہے۔۔ فرہاد کہہ رہا تھا۔۔ 

جبکہ عالیہ اور نتاشہ بھابھی ہونک بنی فرہاد کو تو کبھی ایک دوسرے کو دیکھ رہیں تھیں۔۔ اور یہ سچوایشن باقی سب کی سمجھ سے باہر تھی۔۔ 

لیکن فرہاد تم نے تو کہا تھا کہ ڈاکٹر سمیع کے بیسٹ فرینڈ وہاج کی چھوٹ سالی صاحبہ ہے وہ لڑکی۔۔ نتاشہ بھابھی نے کہا۔۔

ہاں تو وہاج بھاٸ کی بیگم ثانی نے خو ہی بتایا تھا کہ حرم انکی بہن ہے۔۔ جب وہ ہاسپٹل میں آٸیں تھیں۔۔ فرہاد کا دماغ گھوم گیا تھا۔۔ اسے شدت سے کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔۔ 

نہیں۔۔ بالکل بھی نہیں۔۔ حرم ثانی آپی کی سگی بہن نہیں ہے۔۔ وہ انکی چچازاد بہن ہے۔۔ ثانی آپی کی ایک ہی چھوٹی بہن ہے شہرین جسے ہم آپکے لیۓ پسند کر آۓ ہیں۔۔ عالیہ نے بتایا۔۔ 

واٹ دا ہیل۔۔ فرہاد غصے سے اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا۔۔ 
یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ لوگ۔۔؟؟ میں کسی شہرین کو نہیں جانتا۔۔ میں نے آپ لوگوں کو حرم کیلیۓ بیجھا تھا۔۔ فرہاد غصے سے مٹھیاں بھینچ رہا تھا۔۔ 

مجھے لگ رہا تھا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔۔ کب سے عالیہ شہرین شہرین کیۓ جارہی ہے۔۔ اور فرہاد تم نے نام نہیں بتایا تھا کیا۔۔ ؟؟ حمزہ پوچھ رہا تھا۔۔ 

بتایا تھا میں نے سمیع بھاٸ کو۔۔ وہ نام جانتے تھے۔۔ فرہاد نے جواب دیا۔۔ 

زیبا بیگم،آغا جی اور سجاد بھاٸ خاموش تھے کیونکہ انہیں کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا لیکن اتنا اندازہ ہو گیا تھا کہ غلط لڑکی کو پسند کر آۓ ہیں۔۔ 

فرہاد ریلیکس ہوجاٶ بیٹا۔۔ میں کرتی ہو سمیع سے بات۔۔

لیکن فرہاد حرم تو انگیجڈ ہے۔۔ نتاشہ بھابھی نے کہا۔۔ 

اسی لیۓ تو۔۔ اسے اس جہنم سے نکالنے کے لیۓ۔۔ فرہاد کچھ بولتے بولتے رک گیا۔۔ 

میں کچھ نہیں جانتا۔۔ مجھے حرم چاہیۓ۔۔ میں کسی شہرین کو نہیں جانتا۔۔ نا مجھے اس میں کوٸ انٹرسٹ ہے۔۔۔ حرم۔م۔۔۔ مجھے بس وہ چاہیۓ۔۔ ہر قیمت پر۔۔ فرہاد غصے سے بولتا صوفے کو پاٶں سے ٹھوکر مارتا باہر چلا گیا۔۔ 

فرہاد رکو۔۔ سجاد بھاٸ اور باقی سب اسے پکارتے رہ گۓ تھے۔۔ مگر وہ نہیں رکا۔۔۔ میں دیکھتا ہوں۔۔ حمزہ کہتا ہوا فرہاد کے پیچھے گیا۔۔ 

اور آغا ہاٶس کے باقی نفوس حیران پریشان رہ گۓ تھے۔۔ زیبا بیگم کو تین سال بعد فرہاد کو ایسے ری ایکٹ کرتے دیکھا تھا۔۔ تین سال بعد انہیں فرہاد میں وہی ضدی اور جزباتی فرہاد نظر آیا تھا جو تین سال پہلے ہوا کرتا تھا۔۔ جو دنیا کو اپنی ٹھوکر پر رکھتا تھا۔۔ 

پھر ایک نا خوشگوار حادثہ ہوا تھا جس نے فرہاد کو سر سے پاٶں تک بدل دیا تھا۔۔ اب تو وہ کسی چیز کی ضد تو کیا خواہش بھی نہیں کرتا تھا۔۔ ایک روبوٹ کی زندگی گزار رہا تھا۔۔مشکل سے ہی اسے اب کوٸ لڑکی پسند آٸ تھی۔۔ وہ بھی اتنی شدت سے۔۔ کہ اسکے علاوہ وہ کسی اور کا نام بھی نہیں سننا چاہ رہا تھا۔۔

فرہاد تو اپنا فیصلہ سنا کر جاچکا تھا۔۔ لیکن باقی سب کو پیچھے حیران پرشان چھوڑ گیا تھا۔۔ 

اب کیا ہوگا۔۔۔ نتاشہ بھابھی نے کہا۔۔ 

آج میں نے پرانے فرہاد کی جھلک دیکھی ہے اس میں۔۔ وہ جو چاہ رہا اگر وہ نہیں ہوا تو پورے اسلام آباد کو آگ لگا دے گا وہ۔۔ سجاد بھاٸ نے سنجیدگی سے کہا تھا۔۔ 

اور عالیہ وہ پہلے تو کنفیوژ تھی لیکن جب اسے سمجھ آیا کہ فرہاد کی پسند شہرین نہیں بلکہ حرم نور ہے۔۔ اسکی خوشی کی انتہا نہیں رہی تھی۔۔ حرم میری بھابھی۔۔ واٶٶٶٶ۔۔ وہ سوچ کر ہی مسکرادی۔۔ 

جی۔۔ مجھے بھی حرم چاہیۓ۔۔ عالیہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہوۓ بولی۔۔ مجھے شہرین اتنی اچھی نہیں لگی جتنی کی حرم۔۔ وہ تو میں بھاٸ کی پسند کی وجہ سے چپ تھی۔۔ اب جب سب کلیٸر ہو گیا ہے تو اس گھر میں فرہاد بھاٸ کی واٸف کے روپ میں اگر کوٸ آۓ گی تو وہ حرم نور ہے۔۔ اب آپ لوگوں کو جو کرنا ہے کریں۔۔ مجھے اور بھاٸ کو حرم چاہیۓ۔۔ 
عالیہ کہتی ہوٸ اپنی جگہ سے اٹھی اور اوپر اپنے کمرے میں چلی گٸ۔۔ 

اور چھ سالا عاشا جسے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا وہ اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔۔ وہ ہر بات میں عالیہ کی نقل کرتی تھی۔۔ 
   ”مجھے بھی حرم چاہیۓ۔۔ “ وہ منہ پھلاۓ کہتی ہوٸ اپنے کمرے کی طرف چلی گٸ۔۔ 

اور نتاشہ بھابھی کو اس کے اس انداز پر ہنسی آگٸ تھی۔۔۔ 

لو جی۔۔ پورے آغا ہاٶس کو حرم نور چاہیۓ۔۔ سجاد بھاٸ نے ہنستے ہوۓ کہا۔۔ 

ان سب کی نیند تو ویسے بھی اڑ چکی تھی۔۔ اور زیبا بیگم جو دیکھ چکی تھی اسکے بعد وہ نہیں چاہتی تھی کہ فرہاد کچھ غلط کرے کیونکہ آغا ہاٶس میں سب ہی فرہاد کی ضد سے واقف تھے اور ڈرتے بھی تھے۔۔ 

اب ہمیں ہی کچھ کرنا پڑے گا۔۔ آغا جی اب آپ بتائيں ہمیں کیا کرنا چاہیۓ۔۔ زیبا بیگم نے آغا جی کی طرف دیکھتے ہوۓ پوچھا۔۔۔ 

سجاد مجھے زرا سمیع کا نمبر ملا کر دو۔۔آج ہی اس مسٸلے کا حل نکال لیتے ہیں۔۔ ہمیں اپنے فرہاد کی خوشی سے بڑھ کر کچھ بھی عزیز نہیں۔۔ آغا جی نے سوچتے ہوۓ کہا تھا اور سجاد بھاٸ ڈاکٹر سمیع کا نمبر ملانے لگ گۓ تھے۔۔ 

            ❤❤❤❤

 فرہاد رکو تو۔۔ حمزہ اسے پکارتے ہوۓ اسکے پیچھے بھاگ رہا تھا۔۔ اور فرہاد نے اپنی گاڑی میں بیٹھتے ہوۓ اسے سٹارٹ کیا اس سے پہلےوہ گاڑی نکال کر لے جاتا حمزہ فٹافٹ دوسری طرف کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا تھا۔۔ اور فرہاد طوفان کی طرح گاڑی بھگاتا لے گیا۔۔ 

آدھی رات کو اسلام آباد کی دھند سے لپٹی سڑکوں پر فرہاد فل اسپیڈ سے گاڑی چلا رہا تھا۔۔ اور حمزہ کاسانس اٹک گیا تھا۔۔اس میں اتنی ہمت بھی نہیں ہو رہی تھی کہ وہ فرہاد سے اتنا ہی کہہ سکے کہ آہستہ کرلو اسپیڈ۔۔ اتنی ریش ڈرائيونگ بہت عرصے بعد کی تھی فرہاد نے۔۔ یہ وہ اپنا غصہ نکال رہا تھا۔۔ اور حمزہ کو لگ رہا تھا کہ عافیت اسی میں ہے کہ وہ چپ کر کے بیٹھا رہے۔۔ 

پورے آدھا گھنٹا ریش ڈرائيونگ کے بعد فرہاد نے گاڑی ایک سنسان اور پہاڑی علاقہ کے قریب روکی تھی۔۔ وہ جلدی سے گاڑی سے باہر نکل گیا۔۔ حمزہ بھی اس کے ساتھ باہر نکلا تھا۔۔ سامنے ایک کھاٸ تھی۔۔ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔۔ اور حمزہ نے سوچا کہ اگر ایک سیکنڈ بھی لیٹ ہو جاتا فرہاد اگر بریک لگانے میں تو اس وقت گاڑی اس کھاٸ کے اندر پڑی ہوتی۔۔ اور وہ دونوں۔۔ اس سے آگے حمزہ نے کچھ نہیں سوچا۔۔ 

فرہاد اب موبائل پر کسی کا نمبر ملا رہا تھا۔۔ حمزہ جانتا تھا کہ وہ کس کا نمبر ملا رہا ہے۔۔ 

”تو جس سے رشتہ بنا رہے ہیں آپ اس سے بات کریں۔۔ میرا دماغ کیوں خراب کر رہے ہیں۔۔“

اس کے کانوں میں حرم کی آوازیں گونج رہی تھیں۔۔۔ وہ کال ملا رہا تھا بیل جا رہی تھی پر کوٸ ریسیو نہیں کر رہا تھا۔۔ 

آپکے مطلوبہ نمبر سے جواب موصول نہیں ہو رہا۔۔ فون سے آواز ابھری تھی۔۔ اور پھر فرہاد نے غصے سے موبائل کو زمین پر مارا۔۔ 
نہیں۔۔۔۔ وہ دونوں گھٹنے زمین پر لگا کر پوری قوت سے چلایا تھا۔۔ وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے میرے ساتھ۔۔۔ ؟؟ اور حرم مجھے اتنا غلط کیسے سمجھ سکتی ہے۔۔۔ وہ بول رہا تھا پھر اس نے دونوں ہاتھوں سے سر کو پکڑ لیا۔۔ 

رات کے بارہ بجے۔۔۔ سنسان جگہ پر اتنی ٹھنڈ میں کوٸ کسی کیلیۓ اتنا نا تو پریشان ہوا ہوگا اور نا ہی تڑپا ہوگا۔۔ جتنا اس وقت فرہاد آغا تڑپ رہا تھا۔۔ 

فرہاد۔۔ حمزہ اسکے قریب آیا تھا۔ ۔۔ ریلیکس یار۔۔ حمزہ نے اسکے کاندھے کو پکڑتے ہوۓ کہا۔۔ 

”ریلیکس۔۔؟؟ کیسے ریلیکس ہو جاٶں۔۔۔؟؟ وہ تکلیف میں ہوتی ہے تو میں سو نہیں پاتا۔۔ وہ درد میں ہو تو میرے سوتے ہوۓ آنکھ کھل جاتی ہے۔۔ وہ جب مجھے خواب میں خاموش نظر آتی ہے تو یقین کرو اسے اس حالت میں دیکھ کر میرے اندر سے کچھ ختم ہوناشروع ہو جاتا ہے۔۔۔ایسا لگتا ہے جیسے روح نکل رہی ہو میری۔۔ اور تم کہہ رہے ہو ریلیکس ہو جاٶں۔۔ ؟؟ کیسے ہو جاٶں میں ریلیکس۔۔؟“
فرہاد کی آواز بھرا گٸ تھی۔۔ اور حمزہ تو حیران رہ گیا تھا۔۔ یہ کونسا فرہاد تھا۔۔؟؟ یہ کس فرہاد کو روپ تھا۔۔ حمزہ کو لگا تھا کہ بات صرف پسند تک کی ہے۔۔۔ لیکن فرہاد کے اندر کیا تھا یہ کس کو پتا تھا۔۔ وہ کب اتنا سیریس کب ہوا تھا حمزہ کو پتا ہی نہیں چلا۔۔ 

اور ابھی تو محبت کا کہیں پر زکر بھی نہیں تھا ۔۔اگر محبت ہوتی تو کیا ہوتا ۔۔۔۔

سب ٹھیک ہو جاۓ گا فرہاد۔۔ حمزہ کہہ رہا تھا۔۔ 

”میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ وہ خوش رہے۔۔ اسی خوشی سے میرا سکون جڑا ہے اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب وہ میرے پاس ہو گی۔۔ میں اسے دنیا کی ہر خوشی دونگا۔۔ اسے خوش رکھ کر میں صرف اپنا سکون چاہتا ہوں۔۔ “
فرہاد بتا رہا تھا۔۔ 

اور سچ ہی تو کہا تھا ڈاکٹر سمیع نے۔۔ 

” فرہا کا سکون جڑ گیا تھا حرم نور سے۔۔ اور اسے اب وہ سکون حاصل کرنا تھا۔۔“

ہواٸیں دم سادھے فرہاد کی باتیں سن رہی تھیں۔۔ وقت بھی شاید یہی دیکھنا چاہتا تھا۔۔ ہواٶں نے ایک بار پھر آسمان کا رخ کیا۔۔ اب کی بار وہ کچھ منانے گٸیں تھیں آسمان پر۔۔ 

وقت مسکرایا تھا۔۔ اب تقدیر چاہے یا نا چاہے۔۔ حرم نور کو فرہاد آغا کی قسمت میں لکھ دیا گیا تھا۔۔ جسے اب کوٸ نہیں روک سکتا تھا۔۔ 

          ❤❤❤❤❤

اور تہجد کی اذان کے ساتھ حرم کی آنکھ کھلی تھی۔۔ اس نے ساٸیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا موبائل اٹھا کر دیکھا تھا۔۔ اور پھر وہ فون دیکھ کر حیران رہ گٸ تھی۔۔ فرہاد آغا کی ١١ مسڈ کالز تھیں۔۔ اللہ خیر کرے۔۔ وہ اٹھ بیٹھی۔۔ اتنی بار کال کی تھی اس نے مجھے لیکن کیوں۔۔؟؟ شاید کوٸ ضروری بات ہو۔۔ 

شہرین کا رشتہ آیا ہے فرہاد آغا کیلیۓ۔۔۔ حرم کے کانوں میں ثانی آپی کی کہی گٸ بات گونجی۔۔ اور پھر اس نے موبائل واپس رکھ دیا۔۔ مجھے کیا کام ہوگا اس سے۔۔ جس سے رشتہ بنا ہے اسے کیوں نہیں کرتا کال۔۔
حرم نے اذیت سے سوچا تھا۔۔ لیکن نا جانے کیوں ایک بے سکونی سی ہورہی تھی اسے۔۔ اب تہجد کے وقت اٹھ ہی گٸ ہوں تو کیوں نا نماز پڑھ لوں۔ وہ سوچتے ہوۓ بستر سے اٹھی۔۔ 

نماز پڑھنے کے بعد جاۓ نماز اٹھا کر جب وہ واپس بیڈ کی طرف آٸ تو اس نے دیکھا کہ شزا جاگ رہی تھی۔۔ 

تم اٹھی ہوٸ ہو۔۔ ؟؟ حرم نے پوچھا۔۔ 

ہاں وہ لاٸیٹ آن ہونے کی وجہ سے میری آنکھ کھل گٸ۔۔ اور پھر تمہیں نماز پڑھتے دیکھا تو لاٸیٹ آف نہیں کی میں نے۔۔ ویسے بھی سردیوں کی راتیں اتنی لمبی ہوتی ہیں کہ نیند تہجد کے ٹائم تک پوری ہو جاتی ہے۔۔ شزا نے جواب دیا۔۔ 

ایک بات پوچھوں حرم۔۔۔ شزا نے حرم کو دیکھتے ہوۓ کہا۔۔ 

ہممم۔۔ پوچھو۔۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔ 

اتنی شدت سے کیا مانگتی ہو تم۔۔ غالباً اس نے حرم کو دعا مانگتے بھی دیکھ لیا تھا۔۔ 

اگر بتا دیا تو کیا فائدہ۔۔ قبول کیسے ہوگی وہ دعا۔۔ حرم نے مسکرا کر کہا۔۔ 

پھر بھی۔۔ کچھ تو ایسا خاص ہوگا نا۔۔ شزا نے بات ادھوری چھوڑ دی۔۔ 

#راہنما۔۔۔ راہنما چاہیۓ مجھے بس وہی مانگتی ہوں۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔ 

کیا تمہیں بھی کسی کی راہنماٸ کی ضروت ہے۔۔ شزا نے حیران ہوتے ہوۓ پوچھا۔۔ 

ہمم۔۔ شاید مجھے سب سے زیادہ اسکی ضرورت ہے۔۔ حرم پھر ہلکا سا مسکراٸ۔۔ 

وہ مسکراہٹ جس پر کوہ قاف کی ساری پریاں اپنی جادوٸ چھڑی دینے پر راضی ہو جاٸیں جس سے وہ طلسم طاری کرتی تھیں ۔۔۔ کہ بدلے میں بس یہ مسکراہٹ انکی بنا دی جاۓ۔۔ کیونکہ اس مسکراہٹ میں سب زیادہ طلسم تھا جو بنا کسی منتر اور جادو کے چلتا تھا۔۔۔

اور کیا مانگتی ہو۔۔ شزا کو جیسے سب کچھ جاننا تھا۔۔ 

سچ بتاٶں۔۔ حرم نے کہا۔۔ 
میں بس یہ دعا کرتی ہوں کہ نادر کو میری زندگی کا حصہ نا بنایا جاۓ۔۔ جس شخص سے میرا دل نہیں ملتا اس شخص سے اللہ پاک میرے جسم اور میری روح کو نا ملاۓ۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔ 

اور شزا یہ تو جانتی تھی کہ وہ نادر کو پسند نہیں کرتی تھی لیکن اس حد تک ناپسند کرتی تھی یہ اسے آج پتا چلا تھا۔۔ 

اللہ تمہاری دعا قبول فرماۓ۔۔ شزا نے صدق دل سے دعا کی تھی۔۔۔ 
آمین۔۔ حرم نے آمین کہا۔۔ 

اور پھر شزا سونے کیلیۓ لیٹ گٸ۔۔ حرم لاٸیٹ آف کردو۔۔۔ شزا نے کہا اور حرم نے لاٸیٹ آف کردی۔۔ 

پھر اس نے کچھ سوچتے ہوۓ موبائل اٹھایا۔۔ مجھے کال کرنی چاہیۓ اسے۔۔ کیا پتا کوٸ بہت ضروری بات ہو۔۔ پھر اس نے نا چاہتے ہوۓ بھی کال ملاٸ۔۔ لیکن نمبر آف تھا۔۔ حرم کو تھوڑی حیرت ہوٸ تھی لیکن پھر اس نے موبائل واپس رکھ دیا۔۔۔ 

ظاہر سی بات ہے جب کال کرنے والا ساری رات تڑپا تھا۔۔ وہ ایک منٹ نہیں سو پایا تھا پھر حرم کا اتنا پریشان ہونا تو بنتا تھا نا۔۔ ۔ کافی دیر جاگنے کے بعد بالآخر اسکی آنکھ لگ گٸ اور وہ نیند کی وادی میں اتر گٸ۔۔۔ 

        ❤❤❤❤❤

اور پھر اگلی صبح اسے جو پہلی کال آٸ تھی وہ تھی ثانی آپی کی۔۔ ثانی آپی کی کال اتنی صبح صبح ۔۔۔ 

حرم نے سوچتے ہوۓ کال ریسیو کی۔۔ 

حرم ایک بہت بڑی پرابلم ہوگٸ ہے۔۔ ثانی آپی نے پریشانی سے کہا۔۔ 

کیا بات ہے آپی سب خیریت تو ہے نا۔۔ حرم نے پوچھا۔۔ 

وہ بات دراصل یہ ہے کہ فرہاد آغا کا رشتہ شہرین کیلیۓ نہیں آیا تھا۔۔ وہ سب ایک غلط فہمی کی وجہ سے سب ہوا۔۔۔ 

کیا کہہ رہی ہیں آپی آپ۔۔ شہرین کیلیۓ نہیں آیا تو پھر۔۔ حرم نے پوچھا۔۔ 

تمہارے لیۓ آیا تھا حرم۔۔۔ وہ تمہیں میری بہن سمجھ کر ہمارے گھر آۓ تھے۔۔ اور ہمیں لگا شہرین کےلیۓ آۓ ہیں۔۔ ثانی آپی بتا رہی تھی۔۔ اور حرم کو لگ رہا تھا کہ اسکے ارد گرد دھماکے ہو رہے ہیں۔۔ 

یہ کیسا مزاق ہے آپی۔۔۔ پلیز ایسا مزاق مت کریں۔۔ حرم نے التجا کی۔۔ 

نہیں میری جان یہ مزاق نہیں ہے۔۔ تم خود سوچو۔۔ فرہاد آغا شہرین کو نہیں جانتا۔۔ وہ بس تمہیں جانتا ہے۔۔ ثانی آپی بتا رہی تھی اور ناجانے کیوں حرم کے دل کی دھڑکن تیز ہوگٸ تھی۔۔ 

فرہاد آغا کا پرپوزل وہ بھی میرے لیۓ۔۔ وہ سوچ رہی تھی اور حیران ہو رہی تھی۔۔ 

”جس سے رشتہ بنانا جا رہا ہوں اسی سے بات کر رہا ہوں لیکن شاید اسے میرا بات کرنا پسند نہیں۔۔“

حرم کے زہن میں فرہاد کے کہے گۓ الفاظ گونج رہے تھے۔۔ اور اسے اب سب سمجھ آرہا تھا۔۔ 

ثانی آپی اور کچھ بھی کہہ رہی تھی مگر وہ کہاں سن رہی تھی۔۔ حرم میری چچی جان سے بات کروادو۔۔ مجھے ان سب بتانا ہے۔۔ ثانی آپی کہہ رہی تھی۔۔ اور حرم ایک ٹرانس کی کیفیت سے باہر نکلی تھی۔۔ وہ موبائل صابرہ خاتون کو دے آٸ تھی۔۔ 

اور شہرین۔۔ اسکی کیا حالت ہوگی۔۔ حرم سوچ رہی تھی اور اسکی پریشانی مزید بڑھ رہی تھی۔۔ 

          ❤❤❤❤❤

#Rome<Italy>

آنی اور زی ٹی وی لاٶنج میں بیٹھیں ٹی وی پر کوٸ شو دیکھ رہی تھیں۔۔ آنی چینلز سیرچ کر رہی تھیں تبھی اچانک زی کی نظر شو کاسٹ کرتی لونا پر پڑی۔۔ 

آنی یہاں سٹاپ کریں۔ زی نے کہا۔۔ 

پرانا شو دکھایا جا رہا تھا۔۔ شو وہی تھا جو لاس ویگاس میں کاسٹ کیا گیا تھا اور جس میں زی کو 
The snow Queen 

کا ایوارڈ ملا تھا۔۔ آنی یہ پورا شو دیکھیں۔۔ زی نے خوش ہوتے ہوۓ کہا۔۔ ٹی وی پر اب ریم اور زی کو دکھایا جا رہا تھا۔۔ لونا اب ریم سے کچھ پوچھ رہی تھی اور پھر اچانک کیمرے کا رخ بدلا۔۔ اور ایک شخص کی طرف ہوگیا۔۔ 

”فیصلہ ہوچکا ہے۔۔ عمل باقی ہے۔۔ حکم ہو چکا ہے۔۔ تعمیل باقی ہے۔۔ تقدیر کے پنّوں پر وقت لکھا جاچکا ہے۔۔ بس ملن باقی ہے۔۔ وہ آرہی ہے۔۔ 
وہ آرہی ہے تیری زندگی بدلنے رومان شاہ۔۔“ 

وہ شخص کہہ کر رکا نہیں بلکہ ریسٹورنٹ سے باہر چلا گیا تھا۔۔ 

اور آنی تو جیسے سکتے میں آگٸ تھی۔۔ کیا الفاظ تھے وہ۔۔ آنی کو لگ رہا تھا کہ 26 سال پہلے کا وقت اچانک ہی واپس آگیا ہو۔۔ 

زی ایسا کبھی پہلے بھی ہوا ہے رومان کے ساتھ۔۔ ؟؟ آنی پوچھ رہی تھیں۔۔۔ اور پھر زی نے ڈیڑھ مہینے پہلے والا واقع بھی آنی کو سنا دیا۔۔ اور آنی کے چہرے پریشانی پھیل گٸ۔۔ 

آنی اپنی جگہ سے اٹھی اور اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کرلیا۔۔ 

اب وہ کسی کا نمبر ملا رہی تھیں۔۔۔ کچھ بیل جانے کے بعد کال ریسیو کی گٸ۔۔ 

ہیلو۔۔ فادر۔۔ آنی نے کہا۔۔ 

مجھے مدر مارگریٹ سے بات کرنی ہے فادر۔۔ 

وہ تو چرچ میں ہیں اس وقت۔۔ کچھ دیر بعد کال کیجیۓ گا۔۔ فادر نے جواب دیا۔۔

اوکے۔۔ مجھے بات کرنی ہے مدر مارگریٹ سے۔۔ اٹس ارجنٹ۔۔ آنی نے ایک دو بات اور کی پھر کال کاٹ دی۔۔ اب وہ اپنے کمرے میں ٹہل رہی تھیں۔۔ پریشانی انکے چہرے سے صاف ظاہر تھی۔۔ 

تقدیر نے رومان کیلیۓ وقت کے پنّوں پر کیا لکھا تھا یہ کون جانتا تھا۔۔ 
   
جاری ہے۔۔۔۔
         ❤❤❤❤


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─