┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄
ناول: میرے_ہمدم
از: عروش_ملک
قسط_نمبر_05
زمل کی سالگرہ کی خوشی میں حنان ثمرہ بھابھی اور عالیہ نے اسے باہر لنچ کروانے کا فیصلہ کیا تھا۔حنان نے روحان کو بھی بلایا تھا۔ لیکن اپنے کسی دوست کی مصروفیت کا بہانہ بنا کر وہ چلا گیا۔ زمل نے بےنیازی کا عظیم مظاہرہ کیا۔ وہ سب ہاوڈی میں تھے۔باتیں کر رہے تھے کی زمل کی نظر کھڑکی کے پاس بیٹھے روحان پر رکی۔ اور پھر اسکی میز پر براجمان ماہین پر نظر گئ تو کل والی باتیں تازہ ہو گئیں۔ حنان،ثمرہ اور عالیہ بھابھی نے بھی اسکی نظروں کی تقلید کی سب حیران ہو گئے۔ حنان کو بہت غصہ آیا کہ اس نے ساتھ آنے سے منع کیا اور یہاں ایک لڑکی کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"یہ لڑکی کون ہے۔" حنان نے ذرا سختی سے زمل سے دریافت کیا۔" روحان کی کلاس فیلو ہے۔" زمل چونکی پھر جواب دیا۔ حنان اٹھنے لگا کی ثمرہ بھابھی نے انکے بازو پر ہاتھ رکھ کر جگہ کا حوالہ دیا۔ وہ اس وقت تو خاموش ہو گیا لیکن جب شام میں روحان واپس آیا تو اسکی اچھی کلاس لے ڈالی۔ وہ خاموشی سے سنتا گیا۔
*******************
زمل کو بے چینی محسوس ہورہی تھی ۔اگرچہ وہ روحان کو ناپسند کرتی تھی۔لیکن وہ دل سے مان چکی تھی کہ وہ اسکا ہی ہے۔اور کسی تیسرے کی گنجائش ان میں نہیں ہے۔ پھر یہ ماہین انکے درمیان کہاں سے آگئ۔وہ سوچ رہی تھی کہ روحان کو ایسی لڑکیاں بالکل بھی پسند نہیں ہیں۔جو اتنی بولڈ ہوں ۔کھکے بال کمر پہ گرائے،دوپٹے سے عاری،شرٹ اور جینز پہنے ماہین اسے زہر لگتی تھی۔جسکی شرٹ کی آستینیں بھی ناپید ہوتی تھیں۔ہونہہ روحان کوئ اور نہیں ملی؟وہ مسلسل کڑھ رہی تھی۔اور کمرے میں ٹہلتے ہوئے بڑبڑا رہی تھی۔
****************
اگلے دن وہ یونی گئ تو اسکی دوستوں نے اسےلنچ کروانے کوکہا۔لیکن وہ گفٹس لے کر واپس تو آگئ۔لیکن ایک نئ خبر اسکی منتظر تھی۔شمس صاحب اور شاہد صاحب نے باہمی مشورے سے شادی کی تاریخ طے کر لی تھی۔ ٹھیک اسکے سمسٹر کے پیپرز کے بعد یہ کارنامہ انجام کو پہنچنا تھا۔عالیہ نے یہ خبر اسطرح بریک کی۔
"لگتا ہے ہماری دلہن شرما کر کمرے میں بند ہوگئ ہے۔"عالیہ نے شوخی سےبولی۔زمل ابھی یونی سے واپس آکر بیٹھی تھی کہ عالیہ نازل ہوئ۔
"ہیییں ۔۔۔۔۔ کون دلہن"زمل ازحد حیران ہوئ۔"لو جی مجھ سے پوچھ رہی ہو کون دلہن زیادہ بنو مت"عالیہ نے منہ بنایا۔ "مجھے واقعی نہیں پتا تھا عالیہ کہ تمہاری شادی یو رہی ہے۔ بتاو دلہا کون ہے؟ اور یہ منگنی کب ہوئ۔ زمل نے حیرانی سے پوچھا۔"دفعہ دور" عالیہ نے اسے ایک مکا مارا۔ بےوقوف میں اپنی نہیں تمہافی بات کررہی ہوں۔عالیہ بدمزہ ہوئ۔ میری میری شادی کب ہے کس کے ساتھ" زمل ناسمجھی کے عالم میں بولی تو عالیہ کا دل کیا کہ اپنا سر پیٹ لے۔" ہاں تمہاری شادی روحان بھائ کےساتھ نیکسٹ منتھ" عالیہ نے اسکے سر پر بم پھوڑا ۔ کیا نیکسٹ منتھ کیوں؟" زمل نے پھر حیرانی سے پوچھا۔"کیا مطلب کیوں ۔تم نے ساری زندگی اسی گھر میں پڑے رہنا ہے۔" عالیہ نے بزرگوں والے انداز میں کہا۔" پیچھے مرو تم میں نے ویسے کونسا رخصت ہوکہ امریکہ چلے جانا ہے۔ ویسے تمہارے بھائ کے ساتھ نکاح ہوا یہ کم ہےکہ اب رخصتی بھی ہو" زمل نے منہ بنایا۔ "ویسے تم امریکہ جانا چاہتی ہو"عالیہ کی سوئ امریکہ پہ اٹکی ہوئ تھی۔" ہائے اپنی اتنی اچھی قسمت کہاں؟ زمل نے ایک سرد آہ بھری۔ عالیہ نےایک دھموکہ اسے جڑ دیا ۔"اور یہ میرے بھائ،میرے بھائ کیا لگا رکھا ہے۔"تمہارے شوہر ہیں وہ" عالیہ غصے سے بولی۔ " ہونہہ میرا شوہر اچھا بھلا میں امریکہ جاتی۔اور کسی گورے سےشادی بھی کر لیتی"۔ زمل نے آخری بات کہہ کر آنکھ دبائ اوربھاگ کر دروازے کی طرف لپکی۔لیکن یہاں ہوا زوردار ٹاکرا۔زمل کو دن میں تارے نظر آنے لگے۔اس نے سر تھام کر نظریں اٹھائیں تو ساکت ہو گئ۔روحان سنجیدہ تاثر لیے اسے دیکھ رہا تھا۔ زمل نے دانتوں تلے زبان دبائ اور دو قدم ہیچھے ہٹ کر دوپٹہ سیٹ کیا۔ " کیا بات ہو رہی تھی"اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔ "وہ میں آآآ۔۔۔۔۔۔" زمل ہکلائ۔ ہاں ہاں میں سمجھ گیا عالیہ تم بھی سمجھ گئ ہو نا ۔ روحان مسکراہٹ دبا کر بولا۔ "کیا؟" عالیہ نے ناسمجھی سے بھائ کو دیکھا۔ وہی جو زمل میڈم ہمیں سمجھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔اب زبان نہیں ان کے پاس جو بول سکیں تو۔ ہوں ہوں وہ آآآآ۔ کہہ کر بات کرتی ہیں۔" روحان نے لبوں پر دل جلا دینے والی مسکراہٹ سجا کر کہا۔" میری زبان ہے میں بول بھی سکتی ہوں عالیہ۔ لیکن میں کسی ایرے غیرے سے بات کرنا مناسب نہیں سمجھتی ہوں۔"زمل تنک کر بولتی سائیڈ سے نکل گئ۔ اور وہ دونوں بہن بھائی کھل کھلا کر ہنس دیے۔
_________
صبح بہت روشن تھی۔آفریدی ولا کے اوپر سنہری دھوپ اسے فربہ خوبصورت بنا رہی تھی۔ولا میں بھرپور چہل پہل تھی۔اور اسکی وجہ زمل تھی۔صبح صبح وہ کچن میں موجود تھی۔اور آج اس نے اعلان کیا کہ وہ کھانا بنائے گی۔یہ خبر باہم عالیہ نے سب تک پہنچادی تھی۔کہ آج کھانا کھانے کے لیے ہمت کر کےڈائیننگ پر تشریف لائیں۔چچی کے لاکھ منع کرنے کے باوجود وہ ثمرہ اور چچی کے ساتھ مل کر کھانا بنانے لگی۔ڈیڑھ گھنٹے کے انتظار کے بعد ناشتہ سرو کیا گیا۔چونکہ آج اتوار تھاتو سب کو چھٹی تھی۔سب نے ناشتہ شروع کیا۔زمل کھڑی سب کے فیس اکسپریشن کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشس کر رہی تھی۔اس نے بے تابی سے بابا کی طرف دیکھا۔ انہوں نے گلا کھنکارا۔"کھانا ٹھیک بنا ہے۔"انہوں نے اسکی طرف دیکھا۔وہ ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔اسے مایوسی یوئ کہ کھانا صرف ٹھیک بنا ہے۔"پہلی مرتبہ بنایا ہے نا آہستہ آہستہ سیکھ جاو گی"۔ انہوں نے اسکی دلجوئی کی۔پھر سب نے کھٹاکھٹ اسکی تعریف کی۔
"واہ زمل! تمہارے ہاتھ میں تو بہت ذائقہ ہے۔"یہ ثمرہ بھابھی تھیں۔ "زمل تم مجھے بھی کھانا بنانا سیکھا دو اتنا اچھابناتی ہو۔" عالیہ نے تو حد کردی اور زمل خوشی سے نہال ہوگئ۔ جبکہ حنان اور روحان سے ہنسی دبانا مشکل ہو گیا۔زمل بھی ناشتہ کرنے بیٹھ گئ۔اصل میں سب کے چھکے اب چھڑے تھے۔زمل نے پراٹھوں کی طرف ہاتھ بڑھایااور تھوڑا سا سالن نکالا۔کھانے سے پہلے ہی عالیہ بول اٹھی۔ "زمل تم میرے ہاتھ کا کھانا کھاو۔دیکھو باقی سب نے تمہارے ہاتھ کا کھایا ہے۔میرے والا ضائع ہو جائے گا۔"عالیہ اکثر اپنی ماں کے ساتھ کام کرواتی تھی۔لیکن چچی زمل سے کوئ کام نہیں کرواتی تھیں۔ "لیکن میں نے بنایا ہے تو مجھے ٹیسٹ تو کر لینے دو۔" " ہاں ٹیسٹ کرنے کے بہانے ہیں۔تاکہ اپنی دوستوں کو بتا سکو کہ میں نے کتنااچھاکھانا بنایا ہے۔"روحان نے منہ بنایا۔وہ سب اسکو کسی طرح کھانے سے باز رکھنا چاہتے تھے۔ اسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔اسلیے کچھ کہنے سے قبل اور کسی سے کچھ کہنے سے پہلے اس نے منہ میں نوالا ڈال لیا۔اور اگلے ہی لمحے وہ پلیٹ میں تھا ۔ اسکا کھانس کے برا حال تھا۔ عالیہ نے اسے پانی دیا۔ چچی اسکی پیٹھ تھپتھپانے لگیں۔ ثمرہ بھابھی اسکے ہاتھ سہلانے لگیں۔اسکی آنکھوں میں سے پانی بہنے لگا۔ "آپ لوگ اتنا برا کھانا کیسے کھا رہے تھے۔" زمل نے بمشکل کہا۔ " بس ہماری مجبوری سمجھ لو۔" روحان نے ٹھنڈی آہ بھری۔ "میں نے کسی کو مجبور نہیں کیا تھا کھانے کے لیے " زمل نے تڑخ کر جواب دیا۔ "زمل " بابا نے وارن کیا تو وہ سر جھکا گئ۔ "لگتا ہے آج ناشتے کے بغیر گزارا کرنا پڑے گا۔ حنان نے افسردگی سے کہا۔ "میں ابھی ناشتہ لگا دیتی ہوں۔" ثمرہ بھابھی کہتے ہوئے کھڑی ہوئیں۔ اور پھر ثمرہ بھابھی کا تیار کردہ ناشتہ سب نے کیا......
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─