┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: میرے_ہمدم
از: عروش_ملک
قسط_نمبر_04

وہ دونوں کلاس لے کر نکلی ہی تھیں کہ انابیہ کو کوئ کام یاد آیا آگیا۔اسے آج اپنی امی کے لیے کھانا لینا تھا کیونکہ اس لے والد دوسرے شہر گئے ہوئے تھے۔اور اس کا بھائ اسلام آباد ہوتا تھا۔ماں بیٹی اکیلی رہتی تھیں۔اس نے زمل کو ساتھ چلنے کو کہا تو اس نے پچھلے دن کاحوالہ دے کر منع کر دیا۔لیکن انابیہ نے اصرار کیا کہ حریم نہیں آئ تو وہ اکیلی نہیں جا سکتی تھی۔زمل کو روحان کی بات ماننے میں کوئ دلچسپی نہ تھی۔لیکن اس کے غصے سے ڈرتی تھی۔وہ غصے کا بہت تیز تھا۔اول تو اسے غصہ آتا نہیں تھا۔لیکن جب آجائے تو پھر کسی کی خیر نہیں۔انابیہ کی ضد کے آگے وہ چاروناچاراس کے ساتھ چل پڑی۔انہرں نےہاوڈی سے کھانا پیک کروایا۔اور باہر نکل آئیں۔سامنے ہی وہ لڑکے تھےجوکل ان کی ویڈیو بنارہے تھے۔
زمل اور انابیہ چونکہ اس بات سے انجان تھیں۔لہذا تیز تیز قدموں کے ساتھ یونی کی طرف واپس بڑھیں۔جب وہ لڑکے ان کے سامنے آکھڑے ہوئے۔
"آج تمہارا ہیرو نہیں آیا ساتھ؟" ایک لڑکے نے چیونگم سے غبارہ بناتے بے ڈھنگم انداز میں پوچھا۔ان دونوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
"کل تو بڑی ہیرو گیری کر رہا تھا۔سالا ویڈیو بھی ڈیلیٹ کر گیا۔"ایک ان کی طرف بڑھا۔
زمل اور انابیہ کو اب کل کے واقعے کی سمجھ آرہی تھی۔روحان نے زمل کو صرف اس لیےآگاہ نہیں کیا تھا۔کہ وہ اسے شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔اور نہ ہی وہ چاہتا تھا کی وہ ڈر کر گھر میں بیٹھ جائے۔
"بولو بھی کل تو ہنس ہنس کے باتیں کر رہی" تھی۔دوسرے کے کہنےبپر بلند و بانگ قہقہ لگایا۔وہ زمل کا ہاتھ پکڑنے کے لیے بڑھا ہی تھا کہ ایک مکے نےبتیسی اور ہاتھ دونوں روک دیے۔زمل اور انابیہ نے یکلخت روحان کی انگارہ ہوتی نگاھوں کو دیکھا۔
"جاکر گاڑی میں بیٹھو"اس نے زمل کو غراکر کہا جو وحشت زدہ کھڑی تھی۔انابیہ اسے پکڑ کراندر لائ اور پھر وہاں سے روحان کی گاڑی کی طرف چل دی۔زمل کسی ٹرانس کی صورت میں کھینچتی چلی گئ۔اور گاڑی میں ڈھے گئ۔ زمل اور روحان الگ الگ گاڑیوں میں آتے تھے۔ اگرچہ نکاح ہو چکا تھا۔لیکن گھر میں کوئ بھی اتنا براڈمائنڈڈ نہیں تھا۔کہ دونوں کو رخصتی سے پہلے چھوٹ دی جاتی۔خود وہ دونوں بھی اس کے روداد نہ تھے۔انابیہ اسے تسلیاں دیتی چلی گئ۔اور وہ غائب دماغی سے بیٹھی رہی۔
روحان گراونڈ میں بیٹھا اردگرد کا جائزہ لے رہا تھا۔جب خلاف معمول اسے وہ جگہ خالی نظرآئ۔جہاں زمل اور اسکی دوستیں بیٹھی تھیں۔اسے کچھ غلط ہونے کے احساس نے گھیر لیا۔اور یہی دیکھنے کے لیے وہ یونی سے باہر نکلا۔جب اس نے ان لڑکوں کو زمل کیطرف بڑھتے دیکھا۔اس کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔اور وہ تن فن کرتا ان تک پہنچا۔اور زمل کو گاڑی میں بیٹھنے کا کہا۔
وہ واپس آیا تو زخمی تھا۔لیکن آنکھیں آگ بر سا رہی تھیں۔۔اس نے خاموشی سے کار سٹارٹ کی اور گھر کے آگے جاکر روکی۔سارا راستہ خاموشی میں کٹا۔اور زمل خاموشی سے آنسو بہاتی رہی۔کار روک کر وہ پھرتی سے نکلا۔اور اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔زمل بھی اپنے کمرےکی طرف بڑھی۔دوپہر کا کھانا خاموشی سےکھایا گیا۔جبکہ زمل کو اسکی خاموشی غیر معمولی لگی۔لیکن جب شام تک کچھ نہ ہوا تو اسے لگا کہ روحان کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ہے۔لیکن صبح جو اعلان اس کے بابا نے کیا تھا۔وہ اسکی غلط فہمی دور کر گیا تھا۔
           ******************
آج دودن ہو گئے تھے اس بات کو گزرے ہوئے۔نہ وہ کسی سے کوئ بات کر رہی تھی نہ اس سے کوئ بات کررہا تھا۔وہ بہت ضبط اور صبر سے کام لے رہی تھی۔یونی میں ماہین افتخار اور روحان کے سکینڈل مشہور ہو رہےتھے۔وہ دونوں جہاں پائے جاتے ساتھ پائے جاتے۔حالانکہ روحان نے بے داغ سٹوڈنٹ کیرئیر گزارا تھا۔وہ کسی لڑکی کے ساتھ فری نہیں ہوتا تھا۔پھر یہ ماہین میں کیا ہے؟یہی چہ مگوئیاں ہر جگہ ہورہی تھیں۔لیکن وہ سنی ان سنی کر دیتی۔وہ تینوں اس وقت کینٹین میں بیٹھی کھانے سے لطف اندوز ہو رہی تھیں جب قریب سے ماہین گزری۔اسکے تیز پرفیوم نے تینوں کواپنی طرف متوجہ کیا اور تینوں کی نظروں نے اس کا تعاقب کیا۔تو روحان کی میز پر جا رکیں۔دونوں اکیلے بیٹھے تھے۔
"زمل!" حریم نے اسے پکارا۔ "ہوں" اس نےانہیں دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ "یہ ماہین میڈم آج کل تمہارے مجازی خدا پر ڈورے ڈالتی ہوئ پائ جاتی ہیں۔" حریم نے ماہین کو گھورتے ہوئے کہا۔
"ڈالنے دو۔تمہیں کیوں جلن ہو رہی ہے۔"زمل نے استزہائیہ کہا۔"مجھے جلن نہیں تمہاری فکر ہو رہی ہے۔"حریم نے فکر مندی سے کہا۔
دیکھو زمل! حریم ٹھیک کہہ رہی ہے۔ گڑبڑ تو مجھے بھی نظر آرہی ہے۔"ماہین کسی چکر میں ہے۔" انابیہ نے اپنا حصہ ڈالا۔"جس بھی چکر میں ہو مجھے کیا ہے ۔اچھا ہے میرے سر سے بوجھ اترے۔"زمل نے تلخی سے کہا۔
"زمل!" وہ دونوں چیخ پڑی تھییں۔" کیا ہے" زمل نے اکتا کر دونوں کو دیکھا۔ "زمل!دیکھو روحان بھائ بہت اچھے اور ڈیسنٹ ہیں ۔وہ تمہیں بہت خوش رکھیں گے۔" حریم نے پھر سمجھانے کی کوشش کی۔ " ہاں مجھے دودن سے واقعی بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے۔"زمل تلخی سے کہتی اٹھ کھڑی ہوئ۔اور بیگ سنبھال کر چلنے لگی کہ کسی سے زوردار ٹکر ہوئ۔حریم اور انابیہ اسے تاسف سے دیکھ رہی تھیں۔دونوں نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔زمل نے سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے ماہین تھی۔اور اسکے کپڑوں پر جوس گر چکا تھا۔جو وہ لے کر آرہی تھی۔"سو۔۔۔۔۔۔۔۔۔" زمل کے الفاظ منہ میں ہی تھے۔کہ ماہین نے زور سے چلانا شروع کردیا۔"یو اسٹوپڈ! اندھی ہو کیا تمہیں نظر نہیں آتا۔میرے سارے کپڑے خراب کر دیے۔"زمل کا منہ کھل گیا۔سب لوگ اس تماشے کی طرف متوجہ ہوگئے۔زمل کا غصے سے برا حال ہو گیا۔"میری تو آنکھیں نہیں ہیں۔میں تو اندھی ہوں۔لیکن آپ کی آنکھیں کہاں تھیں؟"وہ غصے سے گویا ہوئ۔ "کتنی بدتمیز ہو تم۔تمہیں اپنی غلطی کی معافی مانگنے کی بجائےزبان چلا رہی ہو۔! تمہاری ماں نے تمہیں تمیز نہیں سکھائ۔ اوہ۔۔۔۔۔۔۔سوری میں تو بھول ہی گئ تھی تمہاری تو ماں ہی نہیں" ہے۔وہ تاسف سے کہتی اس کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ گئ۔مجھے روحان کے لیے واقعی افسوس ہے۔جسے اب تمہاری ماں بن کر واقعی تمہیں تمیز سکھانی پڑے گی۔" زمل کا چہرہ فق ہوا اسکا ایک رنگ آرہا تھا اور ایک رنگ جارہا تھا۔
اسے سائیڈ پہ کرتی ہوئ دوڑتی ہوئ کینٹین سے باہر نکل گئ۔ روحان لب بھینچےکھڑا رہا۔انابیہ اور حریم نے ماہین کوکھری کھری سنائیں۔پھر زمل کا خیال آتے ہی آگے بڑھ گئیں۔
          *********************
وہ کلاس روم میں بیٹھی سر جھکائے ہوئےتھی۔انابیہ اور حریم کمرے میں میں داخل ہوئیں۔انہوں نے اپنے سانس بحال کیے۔" زمل کیا ہو گیا ہےکیوں اس سرپھری کی باتوں میں آرہی ہو؟وہ وہ ہے ہی چڑیل۔" انابیہ نے اسے بہلانےکی کوشش کی۔
"مجھے کچھ وقت کے لیے تنہائ درکار ہے"۔اس نے بھرائ ہوئ آواز میں کہا۔ "زمل"اس سے پہلے کہ حریم کچھ کہتی ۔اس نے قبل وہ بولی۔"پلیز"
وہ دونوں افسوس سے اسے دیکھتے باہر آگئیں۔تبھ اسے اپنے قریب کسی کے بیٹھنے کا آحساس ہوا۔پھر ایک گھمبیر آواز آئ " زمل" وہ روحان تھا۔ زمل نے اپنی آنکھیں رگڑییں اور ایک جھٹکے سے اٹھ کر باہر بھاگ گئ۔وہ کسی کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی۔وہ کمزور نہیں تھی ۔وہ کمزور پڑنا نہیں چاہتی تھی
وہ گھر کد طرح آئ وہ نہیں جانتی تھی۔وہ آکر کمرے میں بند ہو گئ۔دوپہر کے کھانے پر بھی نہیں آئ۔سب گھر والے پریشان تھے۔سب کو لگا شمس صاحب کی سختی کی وجہ سے وہ دلگرفتہ ہو گئ ہے۔روحان پریشان کئ مرتبہ اسکا دروازہ کھٹکٹا چکا تھا۔لیکن وہ کھول نہیں رہی تھی۔بلآخر اس نےاسکے موبائل پر فون کرکےاسکو دھمکی دی کہنوہ سب کو بتادےگا۔تب کہیں جاخر دروازہ کھلا۔اسکی آنکھیں سرخ تھیں۔اور ناک بھی رگڑرگڑ کر سرخ ہوگیا تھا۔وہ واپس جا کر بیڈ پر بیٹھ گئ۔ "میں تم سےشرمندہ ہوں۔"بلاتمہید کہاگیا۔"ضرورت نہیں"
دوٹوک جواب دیا۔"زمل"روحان نےطچھ کینے کی کوشش کی۔"بابا نے سب کو بات کرنے سے منع کیا تھا۔آپ نےان سے اجازت لی؟"وہ سر جھکائے بیٹھی تھی۔"زمل میری بات سنو"روحان نے بے بسی سے کچھ کہنا چاہا۔ "مجھے کچھ نہیں سننا۔آپ جائیں یہاں سے۔"انداز اب بھی نہیں بدلا تھا۔
زمل میں نے تمہیں باہر جانے سے منع کیا تھا۔اور تماگلے دن ہی نکل آئ۔اسکا انجام دیکھ لیا نا تم نے۔تمہاری غلطی تھی۔"روحان نےاسے سمجھانا چاہا۔
"بالکل میری غلطی تھی۔اب ماں جو نہیں ہے۔تو غلطی تو ہو گی نا۔" وہ تلخ ہوئ۔"زمل پلیز" روحان کے دل کو کچھ ہوا۔"آپ جائیں یہاں سے مسٹر روحان۔ویسے بھی لوگوں کو آپ پر ترس آتا ہے کہ آپکا نکاح مجھ سے ہوا،لیکن افسوس میں اس معاملے میں بے اختیار ہوں" ۔وہ استہزائیہ ہنسی۔"زمل "روحان قدرے غصے سے بولا۔ "کیا چاہیے آپ کو روحان،کیا چاہیے،کیوں تنگ کر رہے ہیں مجھے۔کیا بگاڑاہے میں نے۔چلیں جائیں آپ یہاں سے۔غلطی ہوگئ کہ میں یونی سے نکل گئ۔اور وہ بھی مجھے شوق نہیں یونی سے باہر سیروتفریح کرنے کا۔میں تو بس انابیہ کے ساتھ اسکی مدد کے لیے لنچ لینے نکلی تھی۔جو بات آپ کو اتنی بری لگی کی آپ نے مجھے تنہا کر دیا۔"زمل نےطاب کی بار اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
"مییں صرف تمہاری حفاظت چاہتا ہوں۔"وہ مدھم آواز میں بولا۔"مجھے تنہا کر کے؟" سوالیہ انداز۔"نہیں"آواز پھر مدھم تھی۔ "تو پھر پوری یونی کے سامنے رسوا کر کے جیسے آج آپکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟"وہ خاموش ہو گئ۔روحان نے نظریں اٹھائیں۔ "وہ میری کچھ نہیں لگتی " غصے سے کہتا وہ پلٹ گیا۔
            ****************
وہ پورا دن اپنے کمرے میں بند رہی اور خاموش آنسو بہاتی رہی۔آخر جب آنسو بہاتے بہاتے تھک گئتو اٹھی اپنا چہرہ صاف کیا۔اسی اپنے کمرے سے وحشت ہونے لگی۔اسے اپناسانس گھٹتا ہوا محسوس ہوا تووہ نیچے لان میں آئ اور درختوں کے پاس کھڑےہونکر گہرے گہرے سانس لینے لگی۔زاہدہ چچی اسکے پاس چلی آئیں "کیا ہوا ہے بیٹاآج سارا دن تم کمرے سے باہر نہیں نکلی۔"وہ فکر مند سی بولیں۔ "بس ایسے ہی چچی کوئ خاص بات نہیں" وہ زخمی سامسکرائ۔"یونی میں کوئ بات ہوئ ہے۔"چچی نے پھر پوچھا۔"نہیں"اس نے جھوٹ بولا۔ "روحان سے جھ"روحان سے جھگڑا ہوا ہے؟"وہ پاگل ہے اسکی باتوں کو دل سے مت لگایا کرو۔اور اپنے بابا کی وجہ سے بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں یے۔وقتی غصہ ہے ٹھنڈا یو جائے گا۔" چچی اسے سمجھا رہی تھیں۔اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
               ******************
کل اسکی سالگرہ تھی۔ہر سال رات بارہ بجے اسکے بابا اسے وش کرنے آتے تھے۔لیکن اس سال وہ نہیں آئے تھے۔زمل سو نہیں سکی تھی۔وہ انکا انتظار کر رہی تھی۔آخر جب 12:05 منٹ ہوئے تو اسکا دم گھٹنے لگا تھا۔وہ خود ترسی کا شکار نہیں ہونا چاہتی تھی فورا اپنے کمرےسے نکلی اور اپنے بابا کے کمرے کی طرف چل دی۔وہ جانتی تھی کہ ابھی تک وہ بھی نہیں سوئے ہوں گے۔اس نے ہلکی سی دستک دی اندر سےکوئ جواب نہ آیا۔تو خود دروازہ کھول کر جھانکا۔شمس صاحب بیڈ پر تھے۔سوچوں میں گم تھے۔اسے دیکھ کر چونک گئے۔پھر رخ موڑ لیا۔زمل کو دکھ ہوا۔وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی بیڈ کی طرف پہنچی۔"بابا"۔آہستہ سی آواز تھی۔ لیکن شمس صاحب نے اسکی طرف نہیں دیکھا۔وہ انکے قدموں میں بیٹھ خر پیر دبانے لگی۔ "بابا آج آپ مجھے وش کرنے نہیں آئے۔اتنے ناراض ہیں مجھ سے۔" زمل اپنے بابا خے پیر دباتے ہوئے ایک رو میں بول رہی تھی۔جیسے اسے فرق نہیں پڑتا وہ اسے سنیں یا نہیں۔ "سوری بابا ! میری غلطی تھی۔میں نے اسے تسلیم کیا۔مجھے ایسے یونی سے باہر نہیں جانا چاہیے تھا۔آپ اسے میری آخری غلطی سمجھ کے معاف کر دیں"۔ بلآخر اس نے کے عالم میں بابا کےگھٹنوں پر سر رکھ دیا۔شمس صاحب اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگے۔"کیا ہواآج ہماری بیٹی کو آج اتنی اداس کیوں ہے۔آج تو اسکا دن ہے۔اسے خوش ہونا چاہیے۔شمس صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔زمل کا گلا رندھ گیا۔اس مے سر اٹھا کر بابا کو دیکھا۔جو بازو پھیلائے ہوئے تھے۔وہ انکے گلے لگ گئ۔اس کی آنکھیں آنسووں سے جھلملا رہی تھیں۔ "دوری بابا ایم آئ رئیلی سوری" وہ انکے گلے لگے ہی یہی جملے دہرارہی تھی۔ "نہیں میری جان مجھے پتہ ہے آپ بہت سمجھدار ہیں۔سمجھ گئ ہوں گی۔"شمس صاحب نے پیار سے بیٹی کی ٹھوڑی اٹھائ۔اسی لمحے دروازہ کھلا اور سب گھر والے کمرے میں داخل ہوئے۔ "ہیپی برتھ ڈے" عالیہ چلاتی ہوئ اندر آئ اور اسے گلے سے لگایا۔چچی کیک بنا کر اندر آئیں اور پھر اس نے کھلکھلاتے ہوئے کیک کاٹا۔( روحان دروازے سے ٹیک لگائے سنجیدگی سے کھڑا سب کچھ دیکھ رہا تھا،بابا کے کہنے پر وہ روحان کو کیک دینے کے لیے بڑھی۔اور بے نیازی سے سرسری نگاہ ڈال کر کیک اسکی طرف بڑھایا۔ "تھینکس" روحان نے کہا اور اپنی انگلی کی پر تھوڑا سی کریم لگا لی۔وہ پلٹی ہی تھی کہ روحان نے اسکے دائیں گال پر کریم لگا دی۔وہ شاکڈ تھی منہ کھولے مڑی ہی تھی کہ اس نے پکچر بنا لی۔ عالیہ نے "یا ہو" کا نعرہ لگایا۔باقی سب کے قہقہے بلند ہوئے۔"روحان میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں" زمل غصے سے کہتی اسکی طرف لپکی۔وہ لاونج کی طرف بھاگا۔ "پہلے پکڑ تو لو ۔پھر بے شک مت چھوڑنا۔"وہ محظوظ ہوتے ہوئےبولا۔
سب نے پھر سے قہقہ لگایا۔"روحان کیوں پریشان کررہے ہو میری دیورانی کو۔" نمرہ بھابھی نے بھی حصہ لیا۔"اور جو آپکی دیورانی مجھے تنگ کرتی ہیں"روحان نے اطمنیان سے کہا۔ زمل کا منہ کھل گیا۔پھر کیا تھا۔زمل اسکے پیچھے اور وہ ااگےآگے۔ "ہائے دیکھیں آپ سب زمل کو کتنی جلدی ہے مجھے پکڑ کر اپنا بنانے کی" روحان نے شمس صاحب کے دروازے پر کھڑے ہو کر ایک آنکھ دبا کر کہا۔زمل کا تو شرم سے برا حال ہو رہا تھا۔"رکو روحان کے بچے میں تمہیں بتاتی ہوں" زمل اسکے پیچھے دوڑی ۔سب کا ہنس ہنس کر برا حال تھا۔بلآخر سب نے انکی خوشحالی کی دعا مانگی۔...

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─