┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: میرے_ہمدم
از: عروش_ملک
قسط_نمبر_02

وہ اس کے کمرے کی صفائی میں مشغول بڑبڑارہی رہی تھی۔پورے ایک گھنٹے کی مشقت کے بعد وہ روم سے باہر نکلی۔روہان لاونج میں بیٹھا فلم دیکھ رہا تھا۔اسے آتا دیکھ کر وہ کمرے کی طرف بڑھ گیا۔وہ واشروم میں گریش ہونے کے لیے گیا۔واپسی پر موبائل اٹھایا اور بیڈ پر بیٹھ گیا۔اچانک اسے کچھ گیلا سا محسوس ہوا تو اٹھ کھڑا ہوا۔تھوڑا سا غور کرنے پر اسے زمل سے روم صاف کروانے کا صلہ مل گیا تھا۔ وہ گہری سانس کے کر مسکرا دیا۔

                  *************

صفائی کرتے کرتے اس کی کمر دکھ گئ تھی۔وہ جیسے ہی کپڑے کبرڈ میں رکھ کر مڑی۔اسے سامنے سائیڈ ٹیبل پر جگ پڑا نظر آیا جس میں پانی تھا۔اسکے دماغ میں ایک آئیڈیل آیا جس کا عملی نمونہ روہان دیکھ چکا تھا۔

                ***************

زمل کمرے میں چلی پیر کی بلی کی طرح کمر پر ہاتھ رکھے کراہ رہی تھی۔پھر بیڈ پر بیٹھ کر اپنی اسائنمنٹ اٹھائ۔اور کرنے بیٹھ گئ۔کچھ دیر میں اپنی عادت سے مجبور ہو کر کمبل میں گھس کر لیٹ گئ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھ لگ گئ۔اور اسائنمنٹ تکیہ پر آدھی مکمل پڑی رہی۔
صبح اس کی فجر کی نماز کے وقت آنکھ کھلی۔وہ اپنی آدھ مکمل اسائنمنٹ کو ہاتھ میں پکڑ کر پریشانی سے دیکھنے لگی۔ "یا اللہ! میری اسائنمنٹ ۔اب سر اشعر تو مجھے جان سے مار دیں گے۔"وہ ناخن کاٹتی دماغ لڑا رہی تھی۔پھر جلدی سے آٹھ کر وضو کیا ۔نماز پڑھی۔اور عالیہ کے کمرے کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئ۔کچھ سوچ کر ادھر ادھر دیکھا پھر دروازہ کھٹکٹابے لگی۔عالیہ کے کمرے کے ساتھ ہی روہان کا کمرہ تھا۔عالیہ بے تو کمرہ نہ کھولا لیکن روہان کمرے سے باہر نکل کر عالیہ کے دروازے کو پیٹی زمل کو دیکھنے لگا۔وہ پریشان سی کھڑی مسلسل ناخن کٹر رہی تھی۔
")کونسا زلزلہ آگیا تھا یا طوفان آگیا ہے۔جو تم عالیہ کو صبح ہی بچانے کے چکروں میں دروازہ توڑ رہی ہو"۔اسکی آواز پر زمل نے مڑ کر اسے دیکھا۔سفید شلوار قمیض میں وہ بہت فلیش لگ رہا تھا۔اور خوشگوار موڈ میں بھی تھا ۔زمل نے ایک نظر اسکو دیکھا اور رخ موڑ لیا۔ روہان حیران ہوا ۔زمل ایک بار پھر دروازہ کھٹکٹایا۔"وہ نماز پڑھ رہی ہو گی۔کیوں پریشان کر رہی ہو" روہان نے پھر اطمینان سے کہا اورمشعن کے ساتھ پشت لگا کر ہاتھ سینے پر باندھ لیے۔زمل نے ایک گہرا سانس لیا اور لاونج کی جانب بڑھ گئ ۔روہان نے اس کی اسائنمنٹ پر غور کیا تھا ۔کچھ دیر سوچنے کےبعد اسکے ذہن میں ایک جھماکہ ہوا۔

          ******************

وہ نیچے بیٹھی اپنی اسائنمنٹ پکڑ کر لکھنے میں محو تھی۔جب اسے عالیہ سیڑھیاں پھلانگتی نظر آئ۔
"کیا ہوا ہے میرے کمرے کا دروازہ کیوں توڑ رہی تھیمیں نماز پڑھ رہی تھی ۔لیکن مجال ہے جو تمہیں سکون آیا ہو؟" عالیہ آئی تو اس پر برس پڑی۔
"عالیہ پلیز! ابھی نہیں ھم یہ لڑائی بعد میں جاری رکھیں گے۔ابھی میں بہت پریشان ھوں۔
زمل نے اپنا ہاتھ نھیں روکا وہ لکھتے ہوے بولی۔
کیا ہوا ھے۔ عالیہ بھی فکر مند ہوٸ۔
میری اساٸنمنٹ کمپلیٹ نہیں ہوی عالیہ! آج ہی سر اشعر کو سبمٹ کروانی ھے۔ ورنہ وہ مجھے نہیں چھوڑیں گیں۔ زمل نے روہانسی ھو کر کہا۔
 رات کو کر لیتی نا۔ عالیہ نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
رات کو آنکھ لگ گٸ تھی اب فجر کے وقت کھلی ھے صرف آدھا گھنٹہ رہ گیا ھے اور کافی اساٸنمنٹ رہتی ھے۔میں فیل ھو جاوں گی۔ زمل ہاتھوں میں سر گراۓ رونے کے قریب تھی۔
اچھا کچھ نہیں ھوگا ابھی کچھ سوچتے ہیں تم اٹھو۔
عالیں نے اسے کندھے سے پکڑ کر اٹھایا اور صوفے پہ بٹھایا۔زمل نے چند گہرے سانس لے کر خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔اور سوچنے لگی وہ مسلسل لکھ رھی تھی۔ جانتی تھی کہ کچھ نہیں ھوگا لیکن ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا اس لی شخصیت کا خاصا نہیں تھا۔ اسکے ہاتھ دکھنے لگے تھے لیکن وہ برداشت کر رہی تھی۔ 
میں مدد کروں ۔ عالیہ کافی دیر سے خاموش تھی آخر بول پڑی۔
”نہیں سر میری hand writing پہچانتے ہیں وہ کبھی اسے اکسپٹ نہیں کریں گیں“۔زمل نے مصروف سے انداز میں جواب دیا۔
               *******
روحان کمرے چکر لگاتا حل سوچ رہا تھا وہ جانتا تھا اس میں کسی حد تک اس کی بھی غلطی ھے۔اس کی وجہ سے زمل کی اساٸنمنٹ کمپليٹ نھیں ہو سکی۔ روہان اور زمل دونوں ھی ڈاکٹر بن رھے تھے۔زمل MBBS کے سیکنڈ اِٸر میں تھی اور روہان لاسٹ اِٸر میں۔
دونوں کے ڈپارٹمنٹ الگ تھے۔روہان نیورولاجی جبکہ زمل کارڈیولوجی میں specialization کرنا چاہتی تھی۔دونوں کنگ ایڈورڈ یونی کے ہونہار طلبہ تھے۔
آخرکار روہان کو ایک حل سوجھ ہی گیا وہ مسکراتا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا۔
              ******
روحان نے نیچے آ کر دیکھا تو زمل بیٹھی اپنے ہاتھ کو دبا رہی تھی گھر میں چہل پہل شروع ہو چکے تھے عالیہ کچن میں مصروف تھی روہان چلتا ہوا سامنےوالے صوفے پر 
بیٹھ گیا اور ٹی وی آن کر لیا ۔زمل کوشش کررہی تھی کہ جلد از جلد اپنی آسائمنٹ مکمل کرلے۔ٹی وی کے شور سے اس کے خیالات بکھر گئے ۔
"آپ اپنا یہ شغل بعد میں فرمالیجیئے گا"۔مجھے کچھ دیر سکون چاہئے ۔"زمل نے سرد مہری سے کہا ۔"حیرت ہے سکون کو برباد کرنے والی کو خود سکون چاہئے ۔" روہان نے نا محسوس انداز میں ٹی وی ببند کرتےہوئے اسے حیرت سے دیکھا۔) " اف میرے دو منٹ ضائع کرا دے ۔ زمل نے جلدی سے دوبارہ پین پکڑا اور دوبارہ لکھنے لگی۔لیکن خیال دوبارہ منتشر ھو رہے تھے ۔اسے سوچنے اولکھنے میں وقت لگ رہا تھا ۔وہ اپنی اسائنمنٹ کو چھوٹا کرنا چاہ رہی تھی لیکن کر نہیں پارہی تھی ۔بےبسی سے اس نے آنکھیں میچ لی تھیں ۔روہان بغور اسے دیکھرہا تھا ۔اسی لمحے عالیہ کچن سے باہر ناشتے کا سامان رکھنے آئ۔روہان نے اسے دیکھ کر سنجیدگی سے کہا ۔("عالیہ پڑھائی میں کسی طرح کی مدد کی ضرورت ہو تو میرے پاس آجانا۔میرے پاس کچھ نوٹس پڑے ہیں ضرورت ہو تو لے لینا")وہ بظاہر عالیہ سے بات کر رہا تھا لیکن زمل کی مشکل جل کرنا چاہ رہا تھا ۔عالیہ کچھ دیر اسے ناسمجھ کے عالم میں دیکھتی رہی ۔پھر سمجھ کر سرہلا کر چلی گئی ۔جبکہ زمل کا چلتا ہاتھ رک گیا۔
اسے کچھ سوجھا تو اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئ ۔

سب ناشتہ کرنے کی غرض سے ڈائننگ ٹیبل پربیٹھے زمل کا انتظار کر رہے تھے ۔"وہ اپنی اسائنمنٹ بنانے میں تھوڑا بزی ہے۔کہ رہی ہے بعد میں کرے گی۔"عالیہ نے اطلاع دی ۔سب کھانے لگے ۔کھانے کےبعد عالیہ روہان کے کمرے میں آئ اور اس نے ایم بی بی ایس کی ایک اسائنمنٹ کاحوالہ دیتے ہوئے طلب کی ۔روہان نے فورا نکال دی۔جیسے اسی کے انتظار میں تھا ۔عالیہ جھوٹ کر زمل کے کمرے میں گئ۔وہ اس کی جلد بازی دیکھ کر مسکرا دیا ۔اصل میں زمل نے ہی عالیہ کو اسائنمنٹ لینے بھیجا تھا ۔زمل براہ راست روہان سے اسائنمنٹ طلب کر نا براستہ سمجھتی تھی۔روہان نے بھی اسے خود نہیں دی کہ اس کی انا مجروح نا ہو زمل نے جلدی سے اسائنمنٹ کو ایک نظر دیکھا اور پھر اپنے مطابق پوائنٹس بنا کر لکھنے لگی۔اسائنمنٹ کمپلیٹ کر کے اٹھی۔ابھی 15منٹ باقی تھے تیزی سے نیچے کی طرف بھا گی۔چچی سے سلام کرنے کےبعد سینڈوچ پکڑااو کمرے کی طرف بھاگ گئ۔5 منٹ وہ ڈرائیور کرم با بات کے سامنے کھڑی تھی 
"آج آپ لیٹ نہیں ہو گئں؟"کرم بابا نے سوال کاجواب دینے کے بعد شفقت سے پوچھا تھا۔"جی جی ہو گیا ہوں اسلئے آپ جلدی کریں۔" اسے نے پھولے سانس کے ساتھ جواب دیا اور گاڑی میں بیٹھ گئ۔سیٹ کی پشت سےٹیک لگائےوہ سوچ رہی تھی کہ روہان کا عالیہ کوآفر کرنا محض اتفاق تھا یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

             *********************

روہان ہمیشہ اسے خود اعتماد دیکھنا چاہتا تھا ۔بچپن میں ایک دفعہ روتے ہوئے کے ہمراہ گھر واپس آئی تھی ۔زاہدہ چچی نے پریشان ہو کر اسے گود میں اٹھا لیاتھا اور اسے تھپکتیچرہییں تو کہیں جاکروہ سوٸ صبح اسے تیز بخار تھا ۔سب گھر والے پریشان تھے ۔روحان اس سے ملنے گیا تو وجہپوچھی جو اس نےاب تک کسی کو نہیں بتاٸ تھی اسکی ایک دوست نے اسے miserable مسکین کہا تھا کیونکہ اسکی مما کی وفات ہوگٸ تھی اور اسکی دوست کے مطابق اللہ ان سے ماں چھین لیتا ہے جن سے نفرت کرتا ہے یا اسے برا سمجھتا ہے۔﷽
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
#میرے۔ہمدم
#عروش۔ملک
قسط:٣

وہ اس کے کمرے کی صفائی میں مشغول بڑبڑارہی رہی تھی۔پورے ایک گھنٹے کی مشقت کے بعد وہ روم سے باہر نکلی۔روہان لاونج میں بیٹھا فلم دیکھ رہا تھا۔اسے آتا دیکھ کر وہ کمرے کی طرف بڑھ گیا۔وہ واشروم میں گریش ہونے کے لیے گیا۔واپسی پر موبائل اٹھایا اور بیڈ پر بیٹھ گیا۔اچانک اسے کچھ گیلا سا محسوس ہوا تو اٹھ کھڑا ہوا۔تھوڑا سا غور کرنے پر اسے زمل سے روم صاف کروانے کا صلہ مل گیا تھا۔ وہ گہری سانس کے کر مسکرا دیا۔

                  *************

صفائی کرتے کرتے اس کی کمر دکھ گئ تھی۔وہ جیسے ہی کپڑے کبرڈ میں رکھ کر مڑی۔اسے سامنے سائیڈ ٹیبل پر جگ پڑا نظر آیا جس میں پانی تھا۔اسکے دماغ میں ایک آئیڈیل آیا جس کا عملی نمونہ روہان دیکھ چکا تھا۔

                ***************

زمل کمرے میں چلی پیر کی بلی کی طرح کمر پر ہاتھ رکھے کراہ رہی تھی۔پھر بیڈ پر بیٹھ کر اپنی اسائنمنٹ اٹھائ۔اور کرنے بیٹھ گئ۔کچھ دیر میں اپنی عادت سے مجبور ہو کر کمبل میں گھس کر لیٹ گئ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھ لگ گئ۔اور اسائنمنٹ تکیہ پر آدھی مکمل پڑی رہی۔
صبح اس کی فجر کی نماز کے وقت آنکھ کھلی۔وہ اپنی آدھ مکمل اسائنمنٹ کو ہاتھ میں پکڑ کر پریشانی سے دیکھنے لگی۔ "یا اللہ! میری اسائنمنٹ ۔اب سر اشعر تو مجھے جان سے مار دیں گے۔"وہ ناخن کاٹتی دماغ لڑا رہی تھی۔پھر جلدی سے آٹھ کر وضو کیا ۔نماز پڑھی۔اور عالیہ کے کمرے کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئ۔کچھ سوچ کر ادھر ادھر دیکھا پھر دروازہ کھٹکٹابے لگی۔عالیہ کے کمرے کے ساتھ ہی روہان کا کمرہ تھا۔عالیہ بے تو کمرہ نہ کھولا لیکن روہان کمرے سے باہر نکل کر عالیہ کے دروازے کو پیٹی زمل کو دیکھنے لگا۔وہ پریشان سی کھڑی مسلسل ناخن کٹر رہی تھی۔
")کونسا زلزلہ آگیا تھا یا طوفان آگیا ہے۔جو تم عالیہ کو صبح ہی بچانے کے چکروں میں دروازہ توڑ رہی ہو"۔اسکی آواز پر زمل نے مڑ کر اسے دیکھا۔سفید شلوار قمیض میں وہ بہت فلیش لگ رہا تھا۔اور خوشگوار موڈ میں بھی تھا ۔زمل نے ایک نظر اسکو دیکھا اور رخ موڑ لیا۔ روہان حیران ہوا ۔زمل ایک بار پھر دروازہ کھٹکٹایا۔"وہ نماز پڑھ رہی ہو گی۔کیوں پریشان کر رہی ہو" روہان نے پھر اطمینان سے کہا اورمشعن کے ساتھ پشت لگا کر ہاتھ سینے پر باندھ لیے۔زمل نے ایک گہرا سانس لیا اور لاونج کی جانب بڑھ گئ ۔روہان نے اس کی اسائنمنٹ پر غور کیا تھا ۔کچھ دیر سوچنے کےبعد اسکے ذہن میں ایک جھماکہ ہوا۔

          ******************

وہ نیچے بیٹھی اپنی اسائنمنٹ پکڑ کر لکھنے میں محو تھی۔جب اسے عالیہ سیڑھیاں پھلانگتی نظر آئ۔
"کیا ہوا ہے میرے کمرے کا دروازہ کیوں توڑ رہی تھیمیں نماز پڑھ رہی تھی ۔لیکن مجال ہے جو تمہیں سکون آیا ہو؟" عالیہ آئی تو اس پر برس پڑی۔
"عالیہ پلیز! ابھی نہیں ھم یہ لڑائی بعد میں جاری رکھیں گے۔ابھی میں بہت پریشان ھوں۔
زمل نے اپنا ہاتھ نھیں روکا وہ لکھتے ہوے بولی۔
کیا ہوا ھے۔ عالیہ بھی فکر مند ہوٸ۔
میری اساٸنمنٹ کمپلیٹ نہیں ہوی عالیہ! آج ہی سر اشعر کو سبمٹ کروانی ھے۔ ورنہ وہ مجھے نہیں چھوڑیں گیں۔ زمل نے روہانسی ھو کر کہا۔
 رات کو کر لیتی نا۔ عالیہ نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
رات کو آنکھ لگ گٸ تھی اب فجر کے وقت کھلی ھے صرف آدھا گھنٹہ رہ گیا ھے اور کافی اساٸنمنٹ رہتی ھے۔میں فیل ھو جاوں گی۔ زمل ہاتھوں میں سر گراۓ رونے کے قریب تھی۔
اچھا کچھ نہیں ھوگا ابھی کچھ سوچتے ہیں تم اٹھو۔
عالیں نے اسے کندھے سے پکڑ کر اٹھایا اور صوفے پہ بٹھایا۔زمل نے چند گہرے سانس لے کر خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔اور سوچنے لگی وہ مسلسل لکھ رھی تھی۔ جانتی تھی کہ کچھ نہیں ھوگا لیکن ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا اس لی شخصیت کا خاصا نہیں تھا۔ اسکے ہاتھ دکھنے لگے تھے لیکن وہ برداشت کر رہی تھی۔ 
میں مدد کروں ۔ عالیہ کافی دیر سے خاموش تھی آخر بول پڑی۔
”نہیں سر میری hand writing پہچانتے ہیں وہ کبھی اسے اکسپٹ نہیں کریں گیں“۔زمل نے مصروف سے انداز میں جواب دیا۔
               *******
روحان کمرے چکر لگاتا حل سوچ رہا تھا وہ جانتا تھا اس میں کسی حد تک اس کی بھی غلطی ھے۔اس کی وجہ سے زمل کی اساٸنمنٹ کمپليٹ نھیں ہو سکی۔ روہان اور زمل دونوں ھی ڈاکٹر بن رھے تھے۔زمل MBBS کے سیکنڈ اِٸر میں تھی اور روہان لاسٹ اِٸر میں۔
دونوں کے ڈپارٹمنٹ الگ تھے۔روہان نیورولاجی جبکہ زمل کارڈیولوجی میں specialization کرنا چاہتی تھی۔دونوں کنگ ایڈورڈ یونی کے ہونہار طلبہ تھے۔
آخرکار روہان کو ایک حل سوجھ ہی گیا وہ مسکراتا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا۔
              ******
روحان نے نیچے آ کر دیکھا تو زمل بیٹھی اپنے ہاتھ کو دبا رہی تھی گھر میں چہل پہل شروع ہو چکے تھے عالیہ کچن میں مصروف تھی روہان چلتا ہوا سامنےوالے صوفے پر 
بیٹھ گیا اور ٹی وی آن کر لیا ۔زمل کوشش کررہی تھی کہ جلد از جلد اپنی آسائمنٹ مکمل کرلے۔ٹی وی کے شور سے اس کے خیالات بکھر گئے ۔
"آپ اپنا یہ شغل بعد میں فرمالیجیئے گا"۔مجھے کچھ دیر سکون چاہئے ۔"زمل نے سرد مہری سے کہا ۔"حیرت ہے سکون کو برباد کرنے والی کو خود سکون چاہئے ۔" روہان نے نا محسوس انداز میں ٹی وی ببند کرتےہوئے اسے حیرت سے دیکھا۔) " اف میرے دو منٹ ضائع کرا دے ۔ زمل نے جلدی سے دوبارہ پین پکڑا اور دوبارہ لکھنے لگی۔لیکن خیال دوبارہ منتشر ھو رہے تھے ۔اسے سوچنے اولکھنے میں وقت لگ رہا تھا ۔وہ اپنی اسائنمنٹ کو چھوٹا کرنا چاہ رہی تھی لیکن کر نہیں پارہی تھی ۔بےبسی سے اس نے آنکھیں میچ لی تھیں ۔روہان بغور اسے دیکھرہا تھا ۔اسی لمحے عالیہ کچن سے باہر ناشتے کا سامان رکھنے آئ۔روہان نے اسے دیکھ کر سنجیدگی سے کہا ۔("عالیہ پڑھائی میں کسی طرح کی مدد کی ضرورت ہو تو میرے پاس آجانا۔میرے پاس کچھ نوٹس پڑے ہیں ضرورت ہو تو لے لینا")وہ بظاہر عالیہ سے بات کر رہا تھا لیکن زمل کی مشکل جل کرنا چاہ رہا تھا ۔عالیہ کچھ دیر اسے ناسمجھ کے عالم میں دیکھتی رہی ۔پھر سمجھ کر سرہلا کر چلی گئی ۔جبکہ زمل کا چلتا ہاتھ رک گیا۔
اسے کچھ سوجھا تو اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئ ۔

سب ناشتہ کرنے کی غرض سے ڈائننگ ٹیبل پربیٹھے زمل کا انتظار کر رہے تھے ۔"وہ اپنی اسائنمنٹ بنانے میں تھوڑا بزی ہے۔کہ رہی ہے بعد میں کرے گی۔"عالیہ نے اطلاع دی ۔سب کھانے لگے ۔کھانے کےبعد عالیہ روہان کے کمرے میں آئ اور اس نے ایم بی بی ایس کی ایک اسائنمنٹ کاحوالہ دیتے ہوئے طلب کی ۔روہان نے فورا نکال دی۔جیسے اسی کے انتظار میں تھا ۔عالیہ جھوٹ کر زمل کے کمرے میں گئ۔وہ اس کی جلد بازی دیکھ کر مسکرا دیا ۔اصل میں زمل نے ہی عالیہ کو اسائنمنٹ لینے بھیجا تھا ۔زمل براہ راست روہان سے اسائنمنٹ طلب کر نا براستہ سمجھتی تھی۔روہان نے بھی اسے خود نہیں دی کہ اس کی انا مجروح نا ہو زمل نے جلدی سے اسائنمنٹ کو ایک نظر دیکھا اور پھر اپنے مطابق پوائنٹس بنا کر لکھنے لگی۔اسائنمنٹ کمپلیٹ کر کے اٹھی۔ابھی 15منٹ باقی تھے تیزی سے نیچے کی طرف بھا گی۔چچی سے سلام کرنے کےبعد سینڈوچ پکڑااو کمرے کی طرف بھاگ گئ۔5 منٹ وہ ڈرائیور کرم با بات کے سامنے کھڑی تھی 
"آج آپ لیٹ نہیں ہو گئں؟"کرم بابا نے سوال کاجواب دینے کے بعد شفقت سے پوچھا تھا۔"جی جی ہو گیا ہوں اسلئے آپ جلدی کریں۔" اسے نے پھولے سانس کے ساتھ جواب دیا اور گاڑی میں بیٹھ گئ۔سیٹ کی پشت سےٹیک لگائےوہ سوچ رہی تھی کہ روہان کا عالیہ کوآفر کرنا محض اتفاق تھا یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

             *********************

روہان ہمیشہ اسے خود اعتماد دیکھنا چاہتا تھا ۔بچپن میں ایک دفعہ روتے ہوئے کے ہمراہ گھر واپس آئی تھی ۔زاہدہ چچی نے پریشان ہو کر اسے گود میں اٹھا لیاتھا اور اسے تھپکتیچرہییں تو کہیں جاکروہ سوٸ صبح اسے تیز بخار تھا ۔سب گھر والے پریشان تھے ۔روحان اس سے ملنے گیا تو وجہپوچھی جو اس نےاب تک کسی کو نہیں بتاٸ تھی اسکی ایک دوست نے اسے miserable مسکین کہا تھا کیونکہ اسکی مما کی وفات ہوگٸ تھی اور اسکی دوست کے مطابق اللہ ان سے ماں چھین لیتا ہے جن سے نفرت کرتا ہے یا اسے برا سمجھتا ہے
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─