┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: میرے_ہمدم
از: عروش_ملک
قسط_نمبر_01

سردیوں کی گرم دھوپ سینکتے وہ اوپر مالٹے کھانے میں مصروف تھی جب اچانک کمر پر دھپ محسوس کر کے اچھلی ۔
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عالیہ کھڑی اسے گھور رہی تھی۔
کیا مصيبت ہے؟اس نے بھی گھورا۔
تمھاری بھاٸ سے کوٸ لڑاٸ ہوٸ ھے؟عالیہ کے سوال پر اس کے چہرے پر اکتاہٹ کے آثار نمایاں ہوے۔
کوٸ نٕی بات کرو۔اس نے بات ہوا میں اڑاٸ۔
زمل تم کب سدھرو گی؟سچ سچ بتاٶ کیا بات ہوٸ ہے؟ عالیہ نے اب سنجیدگی سے پوچها ۔
وہ اس قابل ہے کہ اس سے بات کی جاۓ۔ٹکا سا جواب ملا ۔
شرم کرو اپنے مجازی خدا کے بارے میں بات کر رہی ہو ۔عاليہ نے اسےشرمندہ کرنا چاہا ۔
ہونہہ بڑا آیا مجازی خدا ۔زمل نے منہ بگاڑا 
تم نہ سدھرنا چلو نیچے تایا جان بلا رہے ہیں۔
بابا۔۔۔۔۔۔کیوں؟زمل پریشان ہوٸ ۔
مجھے کیا پتا تمہیں معلوم اب کیا گل کھلایا ہے۔عاليہ نے کندھے اچکاۓ۔
ضرور تمہارے بھاٸ جان نے ہی کوی گل افشاٸ کی ہو گی۔زمل غصے سے کہتی اٹھ کھڑی ہوٸ۔ 
ہاں سارا ازام میرے بے چارے بھاٸ پر ڈال دو۔عاليہ اس کے پیچھے لپکی جو تیزی سے سیڑھیاں پھلانگ رہی تھی۔
بے چارے ہونہہ ۔زمل نے منہ بنایا۔
لاٶنج کی سیڑھیاں اترنے سے پہلے اس نے ڈوپٹہ درست کیا پھر نیچے کی طرف بڑھی جہاں سب گھر کے بڑے موجود تھے۔وہ ٹھٹھکی لیکن پھر آگے بڑھ گٸ۔
عاليہ اس کے پیچھے ھی موجود تھی ۔
بابا آپ نے بلایا ؟زمل نے گھبرا کر پوچھا اسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔
روحان نے تم سے کچھ کہا تھا؟ وہ سنجیدگی سے گویا ہوے ۔زمل نے روحان کی طرف دیکھا جو اطمينان سے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔ کس بارے میں؟ معصومیت سے سوال کیا۔ شمس صاحب نے ایک نظر بیٹی کو دیکھا ۔پھر پوچھا ”روحان نے یونيورسٹی کے باہر جانے سے روکا تھا“؟ اب کی بار سختی سے پوچھا گیا ۔
جج۔۔۔جی وہ ہکلاٸ۔
پھر کیوں گٸ تھی باہر ؟
شمس صاحب گرجے وہ غصے کے تیز تھے۔وہ اٹھ کھڑے ہوۓ زمل نے آنکھیں بند کر لی۔ 
جواب دو؟وہ پھر سختی سے بولے اور اس کی طرف بڑھنے لگے کہ باقی سب بھی کھڑے ہوۓ اور شاہد صاحب نے شمس صاحب کو پکڑا ۔ بھاٸ جان آرام سے بات کریں۔شاہد صاحب نے سمجھایا ۔
نہیں شاہد یہ پیار کا ھی نتیجہ ھے کہ اب یہ کسی کی بات کا لحاظ ہی نہیں کرتی۔زمل کو بہت چوٹ پہنچی لیکن خاموش رہی ۔
سب سن لیں اس لڑکی سے کوٸ بات نہ کرے جب تک میری اجازت نہ ہو شمس صاحب حکم صادر کر کے اپنے کمرے کی طرف چلے گۓ ۔ زمل نےایک نظر ان کی پشت پر ڈالی پھر دوڑتے ہوے کمرے میں چلی گٸ ۔ بھاٸ صاحب زیادہ سختی کررہے ہیں ۔زبیدہ بیگم بولیں ۔یہ تو آپ اپنے بیٹے سے پوچھیں جو بن موکع بات کر دیتا ہے۔ابو میں یہ تو نہیں چاہتا تھا۔ وہ شرمندہ سا گویا ہوا۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد آفریدی کے دو بیٹے تھے۔شمس اور شاہد ۔دونوں ہی پڑھے لکھے بزنس مین تھے۔اور ایک بیٹی زبیدہ بیگم کی شادی ہو گئ تھی۔جس کا ایک بیٹا زریاب اور ایک بیٹی اجالا تھی ۔شمس صاحب کی ایک بیٹی تھی زمل۔ زمل کی والدہ کا بچپن میں انتقال ہو گیا تھا۔اس لیے زمل کواسکی چچی زاہدہ نے پالاتھا۔وہ اس سے بہت محبت کرتی تھیں۔شاہد صاحب بھی زمل سے بیٹی کی طرح پیش آتے تھے۔ان کی صرف ایک ہی بیٹی تھی عالیہ ۔اور دو بیٹے تھے ۔حنان اور روحان۔ حنان بڑا تھا۔جس کی شادی نمرہ سے ہوئ تھی۔نمرہ ایک سلجھی ہوئ لڑکی تھی۔احمد صاحب نے گھر والوں کو جوڑ کر رکھا ہوا تھا۔لیکن جب انہیں اپنے کینسر کی خبر ہوئ تو انہیں اپنا گھر ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا۔اس لیے اپنے مرنے سے قبل دونوں بھائیوں کو جوڑے رکھنے کے لیے انہوں نے روحان اور زمل کے نکاح کی خواہش کی ۔جسے سب نے خوشی سے قبول کیا سوائے دلہا دلہن کے۔ان دونوں کی بچپن میں آپس میں کبھی نہیں بنی تھی۔ ذمل بچگانی حرکتیں کرتی تھی جو روحان کو ناپسند تھیں۔اور وہ اس پر روک ٹوک کرتا تھا جس کے نتیجے میں زمل اس سے چڑتی تھی۔
           ****************
زمل اپنی دوستوں کے ساتھ آیسکریم پارلر آئ تھی۔اس کی دو ہی بہترین دوستیں تھیں۔حریم اور انابیہ۔وہ انکے ساتھ ناسبتا" خاموش اور پرسکون جگہ پر بیٹھ گئ۔ان کی ٹیبل کے ساتھ والے ٹیبل پر تین شریر لڑکے بیٹھے تھے۔ان میں سے ایک نے اپنا موبائل نکالا اور زمل اور اس کی دوستوں کی ویڈیو بنانے لگا۔ذمل ویسے تو نقاب میں تھی لیکن آئسکریم کھانے کی غرض سے نقاب نیچے ضرور کر لیا تھا۔اس کے خیال میں اسے کوئ نہیں دیکھ رہا تھا۔اسی لمحے روحان اپنے دوستوں ز عیم اور حسنین کے ساتھ داخل ہوا۔اسکی نظر زمل کی پشت پر پڑی اور ساتھ میز پر لڑکوں پر جو موبائل ان کی طرف کیے بیٹھے تھے ۔روحان اپنے دوستوں کو بیٹھنے کا کہتا زمل کی طرف بڑھا۔اس نے زمل کو اسکے عبایا پر اور اسکی دوستوں سے ہی پہچانا تھا۔زمل اپنے پیچھے کسی کی ہونے کے احساس سے پلٹی۔تو حیران رہ گئ۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" روحان نے غصہ ضبط کرتے ہوئے اسسے پوچھا۔
"بیٹھی ہوں "زمل نے معصومیت سے جواب دیا۔
"کیوں"اس نے تیزی سے سوال کیا۔
"آئسکریم کھانےکے لیے" زمل نے اکتا کر جواب دیا۔ "گھر چلو مل جائے گی آئسکریم" روحان اسے اٹھانا چاہتا تھا۔وہ جلد از جلد ان لڑکوں کی طبیعت صاف کرنا چاہتا تھا۔تقریبا" پورا آئسکریم پارلر ان کی چرف متوجہ ت"نہیں مجھے یہیں کھانی ہے"۔ " میں نے کہا جاو یہاں سے " وہ دبے دبے غصے میں غرایا۔
"کیوں جاوں؟ کیا مسئلہ ہے" زمل بھی اب غصے میں آگئ تھی۔"زمل تم کبھی بیوقوفی میں اپنا ہی نقصان کر بیٹھو گی۔" روحان نے تاسف سے کہا۔ "ہاں میں بیوقوف ہوں اور آپ سمجھدار" ۔وہ استہزائیہ ہنسی۔
زمل چلو یار کیا کررہی ہو حریم نے اسے سمجھایا وہ پیر پٹخ کر باہر چلی گٸ  
    ******
سب اپنے شغل میں بیٹھے مصروف ہو گئے۔روحان ساتھ والی میز پر بیٹے لڑکوں کی طرف بڑھا۔جو اب ان دونوں کو ہی ڈسکس کر رہے تھے ۔اس نے ویڈیو بنانے والے کو گریبان سے پکڑ کر اٹھایا ۔حسنین اور زعیم اب اس کے پیچھے لپکے۔
"موبائل کہاں ہے۔" غصے سے سوال کیا۔ "ک ک ک۔۔۔۔۔۔۔۔۔کونسا" لڑکا گھبرایا۔روحان نے اب اسے ایک پنچ دے مارا۔وہ پیچھے کو گرا۔دوسرے لڑکے بھی کھڑے ہو گئے۔اور اسے مارنے کے لیے آگے بڑھے ۔زعیم نے آگے بڑھ کر روحان کو پیچھے کھینچا۔"کیا کر رہا ہے" اس نے پوچھا۔ "چھوڑ مجھے آج زعیم میں انہیں آج چھوڑوں گا نہیں ۔" اتنے میں آئسکریم پارلر کے منیجر بھی آگئے۔روحان کو ٹھنڈا کیا رو اس نے وجہ بتائ۔ وجہ بتانے پر منیجر نے لڑکوں سے موبائل لے کر روحان کو دیا۔اور انہیں وارننگ دےدی۔روحان نے ویڈیو ڈیلیٹ کی۔اور ازعیم اور حسنین کے ساتھ واپس لوٹ آیا۔
گھر واپس آکر زمل نے اپنا غصہ روحان کی شرٹ کو کاٹ کر لیا تھا۔روحان واپس آیا تو وہ کچھ پر سکون تھا۔لیکن اپنے کمرے کی حالت دیکھ کر غصے سے کھولتا زمل کے کمرے کی طرف بڑھا۔ دھڑام سے دروازہ کھولا۔
زمل سر پہ دوپٹہ لئے اسائنمنٹ بنانے میں مصروف تھی ۔وہ ابھی عصر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئ تھی۔روحان بیڈ کے دامنے آکر رکا اور پوچھا۔
"میرے کمرے میں کیوں گئ تھی؟" آپ کے کمرے میں جانے کا سرٹیفیکٹ ہے میرے پاس۔" زمل نے طنزیہ کہا ۔
"اچھا تو کیا میرے کمرے کو بگاڑنے کا سرٹیفیکیٹ ہے آپ کے پاس۔" وہ بھی طنزیہ بولا۔
"میری بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی ۔مجھے آپ کے کمرے میں ویسے بھی جانے کا شوق نہیں ہے ۔لیکن یہ اس بات کا بدلہ ہے جوآپ نے میرے ساتھ آئسکریم پارلر میں کیا ۔"
زمل اطمینان سے بولی۔
"ہاں تو تمہیں کس نے کہا تھا وہاں جانے کو۔وہ غصے سے بولا۔"
مسڑ روحان شاہد ! "میں کوئ عام لڑکی نہیں ہوں۔جو گھر میں قید ہو کر بیٹھ جاوں گی۔آپ اس بھول میں مت رہیں۔"زمل نے آنکھیں دکھائیں۔"میں کسی خوش فیمی میں نہیں ہوں۔لیکن ایک بات میری سن لو آئندہ جب بھی باہر جانا۔میرے ئا بھائ جان کے ساتھ جانا۔ اگلی دفعہ میں تمہیں اکیلے یا اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں نہ دیکھوں۔سمجھی" روحان نےتنبیہہ کی۔ 
"کیا" زمل نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"زمل" روحان غصے سے دھاڑا۔
"ج ۔جی سمجھ گئ"زمل نے زور زور سے اژبات میں سر ہلایا۔
"اب چلو میرے کمرے میں جو گند پھیلایا ہے اسے صاف کرو۔مجھے میرا کمرا ویسے ہی چاہیے جیسے صبح تھا۔" روحان نے چڑاتی ہوئ مسکراہٹ سے کہا۔
" میں نہیں کروںگی ابھی میں نے اپنی اسائنمنٹ کمپلیٹ کرنی ہے۔آپ سر اشعر کو تو جانتے ہی ہیں ۔اگر اسائنمنٹ کمپلیٹ نہ ہوئ تو۔۔۔۔۔۔۔۔؟" 
زمل ٹرٹر کرتی چلی گئ۔کہ اسکو روحان نے ٹوکا۔
"زمل یہ میرا سر درد نہیں ہے۔" روحان نے اکتایٹ امیز لہہجے میں کہا۔ " یہ تو تمہیں وہ سب کرنے سے پہلے سوچنا چاہیئے تھا۔"
" میں کیوں سو چتی آپ نے سوچا تھا مجھے وہاں سے نکالتے ہوئے۔میری کتنی بے عزتی ہوئ میری فرینڈز کے سامنے۔اور وہاں اپارٹمنٹ کے دوسرے سٹوڈنٹس بھی تھے۔"
زمل روہانسی ہوئی۔
روحان نے بغور اسکا چہرہ دیکھا اورپھر اطمنیان سے بولا۔ " زیادا بے چاری بننے کی ضرورت نہیں یے۔ چلو میرا کمرہ صاف کرو ورنہ کل سے پورا گھر صاف کرواوں گا۔"
زمل غصے سے بڑبڑائ اس کے کمرے کی طرف چل دی۔ "اللہ تم سے پوچھے روحان شاہد۔" روحان پیچھے سے مسکرا دیا.

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─