┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄
ناول: لو_مان_لیا_ہم_نے
از: فاطمہ_خان
قسط_نمبر_19
زرشالہ دبے پاؤں بہروز کے پیچھے آ کر کھڑی ہوں گئی ولید اور شارق کو اس نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا عمار ناجانے کہاں بھاگ گیا تھا وہ دھیرے دھیرے قدم بڑھتے ہوئے اس کے پیچھے کھڑی ہو گئی ولید اور شارق اپنی ہنسی چھپانے کے لیے ادھر ادھر دیکھنے لگے لڑکیاں بھی زرشالہ کے پیچھے تھی زرشالہ نے ہاتھ آگے بڑھایا اس کے ہاتھ میں ٹھنڈے پانی کی بوتل تھی اس نے بہروز کے سر پر ساری کی ساری انڈیل دیا
"وائے اللّٰہ یہ بارش اچانک کہاں سے برسنے لگ گئی "
وہ چلاتا ہوا کھڑا ہو گیا پانی سے پورا بھیگا ہوا وہ اس وقت کاٹون لگ رہا تھا
"ہاہاہا کتنے کیوٹ لگ رہے ہوں تم ایمان سے "
ولید نے اس کی حالت دیکھ کر قہقہہ لگایا بہروز نے خون خوار نظروں سے سامنے کھڑی زرشالہ کو گھورا
"شرم تو تم میں رتی نہیں ہے یہ کیا حرکت تھی"
وہ غصّے سے ڈھارا
"اور کروں زالان سے بدتمیزی میرا بس چلتا تمہیں سارا کا سارا سمندر میں ڈوبو دیتی "
اس نے بھی اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بے خوفی سے کہا
"چلو اب شاباش میرے ساتھ چل کر زالان سے معافی مانگو "
"معانی اور میں وہ کس خوشی میں "
اس نے اپنی طرف اشارہ کر کے کہا
"خوشی میں نہیں افسوس میں"
دونوں ایک دوسرے کو باتیں سنانے میں مصروف تھے سامنے سے عمار بڑی سی ٹرے اٹھائے ان کی طرف آیا
"یہ لوں گرما گرم ناشتہ"
بہروز اور زرشالہ نے اپنی تکرار بھول کر اسے دیکھا
"یہ تم کب سے حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر خرچہ کرنے لگ گئے ہوں"
روما نے حیرانی سے اسے دیکھا
"میں نے کب کہا یہ سب میں اپنے پیسوں پر لایا ہوں"
اس نے اس کی طرف دیکھ کر آنکھ ماری
"کیا مطلب کہاں سے لائیں ہوں تم "
زرشالہ نے مشکوک نظروں سے اسے گھورا
"باہر لنگر تقسیم ہو رہا تھا میں بھی لائن میں لگ گیا وہی سے لایا ہوں"
اس نےفحر سے جواب دیا
"واٹ یہ تم ۔۔۔ او مائے گاڈ عمار ..."
صدمے سے زرشالہ سے بولا نہیں جا رہا تھا
"اس میں اتنا حیران ہونے کی کیا بات ہے یہ تم سب مجھے کیوں ایسے گھور رہے ہوں"
وہ ٹرے گھانس پر رکھ کر ان کی طرف متوجہ ہوا
"عمار کے بچے تم باہر سے لنگر سے غریبوں کا حق اٹھا لائے ہوں تم پرکب سے خیرات زکوٰۃ ہونے لگ گیا ہے"
روما نے غصّے سے گھورا
"بس کروں زیادہ ڈانٹنے کی ضرورت نہیں ہے بچہ ہے ہوں گئی غلطی اب گھر آئے رزق کو منع کرنا گناہ ہے "
شارق نے پراٹھا سے ایک بائٹ لے کر کہا زرشالہ نے ولید کو افسوس سے دیکھا
"کیا ہے ایسے کیوں دیکھ رہی ہوں پہلی بار تو نہیں کیا یہ سب "
ولید ڈیٹ بنے مزے سے کھاتے ہوئے بولا
"تم سب ایک منٹ کے لیے اپنی بکواس بند کر سکتے ہوں کیا "
بہروز نے چلا کر کہا
"نہیں"
زرشالہ نے ایک لفظ میں جواب دیا اس پاس کے لوگ انہیں تعجب سے دیکھے جا رہے تھے پر وہاں پرواہ کیسے تھی زرشالہ نے زبردستی بہروز کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ کھسیٹھا
"کیا ہے ابھی تک کلیجہ میں ٹھنڈ نہیں پڑی جو اب ساتھ لے کر ساری دنیا میں تماشا بنا رہی ہوں"
اس نے چڑ کر اپنا ہاتھ چھڑایا
"تم ابھی اور اسی وقت جا کر زالان سے معافی مانگوں گے ٬
زرشالہ نے آڈر دیا
"نہیں مانگوں گا نہیں مانگوں گا نہیں مانگوں گا "
وہ کہ کر بھاگ کر ناشتہ پر ٹوٹ پڑا
"نادیدوں بھوگوں اللّٰہ تم لوگوں کے پیٹ میں درد کرئے"
زرشالہ نے غصے سے دنیا جہان کے نادیدوں کو گھورا
......................
وہ سب اس وقت روم میں تھے مگر وہاں کوئی نہیں بول رہا تھا قبرستان کی سی خاموشی تھی بڑوں نے چھوٹوں کو باہر ہی روک رکھا تھا حورین البتہ اندار ہی موجود تھی اسے رات سے شاک پر شاک مل رہے تھے وہ بےبسی سے سب کو دیکھ رہی تھی دادو نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا
"میری بچی "
وہ رو رہی وہاں موجود ہر بندے کی آنکھوں میں اشک تھے
"نور محمد کیوں کیا تم نے ایسا کیوں چھین کر لے گئے تھے میری بیٹی کو ہم سے وہ تو معصوم تھی اس کا کیا قصور تھا"
داجی نے اپنے کانپتے ہاتھوں کرسی پر جما کر کہا
"وہ واقعی بے قصور تھی عبد الرحمن صاحب میں ۔نے اس سے اس کی معصومیت چھین لی تھی اسے اپنی محبت کی جھال میں پھنسا کر اسے اپنے ساتھ بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا "
حورین نے ٹرپ کر ابا کو دیکھا تو گویا وہ ایک بھاگی ہوئی ماں کی اولاد تھی
" تم نے بہت برا کیا ہمارے ساتھ"
صمد صاحب نے شکوہ کیا
"مجھے معاف کر دے آپ سب میں نے بہت غلط کیا جانتے ہیں شادی کے بعد ناز سو بار سوات جانے کے لیے تیار ہوئی میں نے جانے سے روک دیتا تھا میں نہیں چاہتا تھا وہ وہاں جائے اور آپ لوگوں کے ہاتھوں قتل ہو "
انہوں نے اوپر چت کی طرف دیکھ کر کہا وہ اس وقت ماضی میں کھوئے ہوئے تھے
"پھر ایک بار میں چپ چپاتے سوات گیا وہاں جا کر پتا چلا کہ آپ لوگ وہاں سے چلے آئے تھے "
"ہاں تو وہاں ہمارے لیے رہا ہی کیا تھا وہاں میرے جوان بچے باہر نہیں نکل سکتے تھے نکلتے تو لوگ کہتے وہ دیکھوں ان بےغیرتوں کی بہن بھاگ گئی ہے اور یہ ایسے گھوم رہے ہیں میں نے ان سب کو روک رکھا تھا ہمارے لیے تم سب کو ڈھونڈ نکالنا مشکل نظر تھا وہ مر گئی تھی ہم سب کے لیے اسی دن جس دن اس نے اس گھر کی دہلیز پار کی تھی اپنے دل کا ٹکڑا بنا کر رکھا تھا چاروں بھائی اپنی جان چھڑکتے تھے ان پھر اور بدلے میں کیا ملا رسوائی بدنامی ...."
داجی کی آواز سرگوشی کی ماند نکل رہی تھی سب اپنے اپنے آنسو روکے انہوں سن رہے تھے
"وہاں سے چلے آئے وہاں ہمارے لیے بچا ہی کیا تھا لوگ مزاق اڑاتے تھے ہمارا جن کی جوان بیٹی گھر سے بھاگ گئی ہوں ان پر کیا گزری ہو گئی کبھی سوچا ہے تم نے نور محمد..."
ان کے لہجے میں زمانے بھر کی تھکن تھی
"آپ سب کو ناخوش کر ہم خود کون سا خوش رہ سکے تھے چودہ سال چودہ سال ہم بے اولاد رہے آپ کی ناز جو نازوں پلی بڑھی تھی وہ دربدر کی ٹھوکریں کھاتی رہی اس کے ہاتھ کئی کئی جگوں سے جلے ہوئے تھے اسے کھانا پکانا نہیں آتا تھا آپ خود سوچئے کتنی تکلیف سعی ہو گئی اس نے ..."
"بس کر جاؤ نور محمد میرا دل اتنا مضبوط نہیں رہا کہ اپنی مری ہوئی بیٹی کے دکھ برداشت کر سکے "
داجی درمیان میں چلا اٹھے
"نہیں عبد الرحمن صاحب آج نہیں آج میرے وہ سارے درد دکھ کہ دینے دے جو اتنے سالوں سے مجھے اندار ہی اندار کھائے جا رہے ہیں وہ سب کہ دینے دے مجھے میرے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا مجھے سکون سے مڑ جانے دے .."
وہ دل پر ہاتھ رکھ کر اٹھنے کی کوشش کرنے لگے حورین نے ٹرپ کر آگے بڑھ کر انہیں سہارا دیا
"جانتے ہیں چودہ سال بعد جب اللّٰہ نے ہماری سن لی اور ہمیں اولاد جیسی نعمت سے نوازا تو حورین کی پیدائش پر ناز نہیں روئی اتنا روئی کے میں بیان نہیں کر سکتا اس نے کہا دیکھوں نور محمد اللّٰہ نے ہمیں بیٹی دی ہے تاکہ کل کو یہ بڑی ہو کر میری طرح بھاگ جائے میرے ماں باپ کی طرح مجھے بھی تڑپنے کا موقع ملے .. میں نے اس سے کہا ہم دونوں مل کر اس کی بہت اچھی تربیت کرے گے وہ تڑپ اٹھی کہنے لگی میرے والدین نے تو مجھے اپنے ہاتھ کا چھالا بنا کر رکھا ہوا تھا میرے بھائی مجھ پر جان نچھاور کرتے تھے میری فرمائش پر اپنا کام کاج چھوڑ چھاڑ کر بھاگ آتے تھے میں نے کیا دیا بدلے میں انہیں سوائے رسوائی کے"
وہ اب رو رہے تھے حورین سے مزید سنا نہیں گیا وہ بےقراری سے آگے بڑھ کر ابا کے گلے لگ کر ہچکیاں لے کر رونے لگی اس کے رونے سے سب رو رہے تھے ابا دھیرے دھیرے اس کا سر سہلا رہے تھے
"داجی وہ اس کی پیدائش کے دو ہفتے بعد ہی دنیا سے چلی گئی .. کیونکہ وہ بیٹی کا غم برداشت نہیں کر سکتی تھی اسے ڈر تھا کہی وہ بھی کل کو اس کی طرح ہمارا مان توڑ کر نا چلی جائے وہ چلی گئی مجھے پوری عمر کے لیے تنہا چھوڑ کر آزمائش تو مجھ پر تب شروع ہوئی میں نے کن کن حالت میں اسے پلا میں اور میرا خدا جاتا ہے ..خدا کے لیے مجھے اورناز کو معاف کر دے تاکہ میں سکون سے مڑ سکوں"
ان کی آخری بات پر حورین نے سر اٹھا کر انہیں شکوہ بھری نگاہ سے دیکھا
"ابا خداکے لیے ایسا ناں کہے میں آپ کے بنا کیا کروں گئی مجھے اکیلا چھوڑ کر جانے کی بات ناں کریں "
نور محمد صاحب کی حالت اچانک ہی خراب ہو گئی سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے دامیر نے بھاگ کر ڈاکٹر کو بولایا مگر بے سود وہ اپنا دل کی بوجھ ہلکا کر کے دنیا سے رخصت ہوں گئے تھے
حورین کو سنھبالناں مشکل ہو رہا تھا وہ اپنے ہوش وحواس میں نہیں تھی اس کے رونے سے سارے گھر والے رو رہے تھے کتنا دکھ کتنی تکلیف سہ چکی تھی وہ اس چھوٹی سی عمر میں داجی اسے اپنے ساتھ گھر لے آئے تھے ابھی اس کی حالت ایسی نہیں تھی کہ اسے دامیر کے ساتھ رخصت کیا سکتا ہوں
.......................
چند ماہ بعد
حورین بہت مشکل سے سنھبلی تھی اسے سب نے مل کر دوبارہ سے زندگی کی طرف لوٹ کر لایا تھا اب وہ بھی ان کے ساتھ آ کر بیٹھ جایا کرتی تھی ان کے ساتھ ہنسی مزاق میں شامل ہو جاتی تھی کل بہروز آسٹریلیا جانے والا تھا آج وہ سب مل کر بیٹھے ہوئے تھے
روما اپنی چائے رکھ کر کسی کام کے لیے زرشالہ کی طرف متوجہ ہوئی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عمار نے چائے کا کپ اٹھا کر ہونٹوں سے لگایا
"یہ تم کیا کر رہے بدتمیز انسان "
روما نے غصّے سے اس کے ہاتھ سے چائے کا کپ چھینا
"ہاہاہا لوں لوں پی لوں میرا جھوٹا ویسے بھی جھوٹا پینے سے پیار بڑھتا ہے "
اس نے آنکھ مار کر روما کو مزید غصہ دیلایا وہ تپ بھی گئی چائے کا کپ وہی گھانس پر پھٹخ کر وہ حورین کے پاس کھانس پر آ کر بیٹھ گئی
"یار افشاں زرا چائے تو ڈال کر دینا "
ولید نے آڈر دیا افشاں نے طنزیہ نظروں سے اسے گھورا
"میں تمہاری نوکر نہیں ہو ہاتھ پاؤں سلامت ہے آگے ہو کر اپنے ہاتھوں کو زحمت دوں خود کپ میں چائے ڈال کر پی لوں"
افشاں نے صاف ہری جھنڈی دیکھائی حورین اس کے اس انداز پر منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی
"شرم تو نہیں آتی اپنے منگیتر سے ایسے بات کرتے ہوئے تمیز تو تم میں بلکل نہیں ہے"
وہ بےکار میں روبہ ڈالتے ہوئے گویا ہوا
"تمیز سے ان سے بات کی جاتی ہے جو اس قابل ہو اور معاف کرنا میرے بھائی تمہاری تو کوئی عزت ہی نہیں ہے"
عمار نے دکھی لہجے میں اس کے زحموں پر نمک چھڑکا
"تم تو اپنی چونچ بند رکھوں بڑا بھائی ہو تمہارا"
وہ منہ پھیر کر بولا
"یہ آج تم پر بڑے ہونے کا کون سا بھوت سوار ہوا ہے ابھی ایک لگائی کمر پر ناں تو لگ پتا جائے گا "
بہروز نے ہاتھ اٹھا کر وان کرنے والے انداز میں کہا ولید نے اسے ناراضگی سے گھورا
"یہ تم کل جا رہے ہوں اس لیے لحاظ کر رہا ہوں ورنہ تم جانتے ہوں تمہارے اس بات کا جواب میں اچھے سے دینا جانتا ہوں "
اس نے بھی بدلہ لیا
"بس کروں تم سب بس موقع ملنا چاہیے تم لوگوں کو ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا "
شارق نے بڑے بوڑھوں کی طرح نصیحت کی جس پر رانیہ نے اسے حیران نظروں سے دیکھا
"ایسے کیا دیکھ رہی ہوں پہلی بار اتنا ہینڈسم لڑکا دیکھا ہے کیا"
"ہینڈسم اور تم ہاہاہا "
رانیہ نے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی ہنسی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی اس چکر میں اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے یہ منظر شارق کی آنکھوں میں ہمیشہ کے رچ بس گیا تھا اس نے جلدی سے موبائل نکال کر اس کی پک لی
"اس وقت بلکل بندر لگ رہی ہوں اس لیے تمہاری بندریا والا چہرا ہمیشہ کے لیے موبائل فون میں محفوظ کر دیا "
اس نے زبان نکال کر اسے تپایا
رانیہ نے پاس پڑی چپل اٹھا کر شارق کو ماڑی وہ بروقت پیچھے ہوا چپل ڈائریکٹ عمار کی ناک کر جا کر لگی
"ہائے اماں مر گیا ہائے مجھ پر کسی نے ہوائی حملہ کر دیا ہے"
وہ ناک پکڑ کر چلایا حورین اب تک انہیں پاگلوں کی طرح دیکھ رہی تھی آج ان کی شرارتیں پہلی بار دیکھ رہی تھی اتنا عرصہ وہ ان کے ساتھ رہ کر بھی اپنے خیالوں میں گم رہتی تھی
زرشالہ آج خاموش تماشائی بنی بیٹھی تھی جب سے بہروز سے اس کے رشتے کی بات پکی ہوئی تھی زالان نے اس سے بات کرنا بہت کم کر دی تھی وہ گھر بھی کم کم پاءا جاتا تھا یہی بات زرشالہ کے لیے پریشانی کے باعث تھی بہروز کل جا رہا تھا زرشالہ کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا اسے صرف اور صرف زالان کی پرواہ تھی
"ہائے کوئی میری دھکی فریاد کیوں نہیں سن رہا رانیہ کی بچی تمہیں تو میں ابھی بتاتا ہوں بہت کر لی تمہاری عزت یہ سوچ کر بڑی بھابھی بنے جا رہی ہوں مگر نہیں میں غلط تھا تم اس عزت کے قابل ہی نہیں تھی "
وہ صدمے سے کہتا ہوا اپنی جگہ سے اٹھا ناک پکڑے رانیہ کی طرف بڑھا روما نے راستے میں اپنا پاؤں پھیلا دیا وہ بچارہ بنا دیکھے گزر رہا تھا ڈھرام سے نیچے منہ کے بل گرا
سب کا قہقہہ پورے لان میں گونچا
"اور پیؤ میرے حصے کی جائے "
روما نے اس کے گرے وجود کو دیکھ کر کہا
"تمہاری تو آج نہیں چھوڑوں گا تمہیں تم ساری بہنیں ہو ہی چڑیلیں .."
عمار نے موکا بنا کر سے کی طرف ہاتھ بڑھایا روما نے جلدی سے ولید کو پکڑ کر آگے کیا موکا سیدھا اس کے ماتھے پر جا کر لگا
ولید کو دن میں ہی تارے نظر آ گئے
"دفع مروں کم بحتوں میں نے کیا بگاڑا تھا تم دونوں کا "
ولید اپنا ماتھا سہلاتے ہوئے گرجا
"بس کروں یہ فیملی فرنٹ جب دیکھوں بچے بنے ہوئے ہوتے ہوں حورین بچاری کو بھی پریشان کر دیا ہے اور بہروز بھی کل جا رہا ہے کچھ تو شرم کروں"
زرشالہ نے تنگ آ کر سب کو گھورا
"حورین کی تو بات ہی ناں کروں اسے اب عادت ہو جانی چاہیے کیوں حورین ٹھیک کہ رہا ہوں ناں میں"
شارق نے اس کی طرف دیکھ کر پرامید نظروں سے دیکھا وہ مسکرائی
"اور جہاں تک بہروز کی جانے کی بات ہے تو تمہارا منگیتر ہے خفا بھی تمہیں ہونا چاہیے ہم کس خوشی میں روگ منائے "
رانیہ نے پاس بیٹھی روما کے کندھے پر ایک زور کا تھپڑ مارتے ہوئے کہا روما بلبلا کر اپنی جگہ سے اوچھلی
"ہاہاہا اچھا مزاق ہے خفا اور میں "
زرشالہ نے اس کی بات کا مزاق اڑایا بہروز باغور اسے ہی دیکھ رہا تھا زرشالہ کے چہرے پر بہروز کے لیے کوئی جزبہ دیکھائی نہیں دے رہا تھا بہروز نے سکون کا سانس لیا وہ ایسا چاہتا بھی نہیں تھا کہ زرشالہ اس کے بارے میں ایک پرسنٹ بھی ایسا ویسا کچھ سوچے
"ویسے میرے پاس ایک مزے کا آئیڈیا ہے کیوں ناں آج کے دن کو یاد گار بنایا جائے "
زرشالہ نے اپنے دماغ سے ساری سوچے جھٹک کر خوش گوار لہجے میں کہا
"اچھا جی ایسا کیا آئیڈیا ہے زرا ہمیں بھی تو پتا چلے "
عمار نے اپنے دھکتے جسم کو سنبھالتے ہوئے پوچھا
"یار گھر میں تو ہم روز کوئی نہ کوئی کارنامہ کرتے ہیں کیا خیال ہے آج کچھ ہنگامہ باہر کی دنیا میں نہ برپا کر دے"
اس نے آنکھ دبا کر کہا
"واہ گریٹ آئیڈیا یاد مزا آئے گا چلو سب تیار ہو پیدل ہی چلتے ہیں گاڑی میں تو جانے کی اجازت ملے گئی نہیں "
ولید نے خوش ہوتے ہوئے کہا سب کے سب جلدی جلدی اٹھ کر اپنے اپنے پورشن میں اجازت نامہ لینے چلے گئے کچھ وقت بعد لڑکیاں چادر اوڑھے اپنے اپنے پورش سے برآمد ہوئی سب نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر شرارت بھری مسکراہٹ ایک دوسرے کی طرف اچھال کر جانے کے لیے آگے بڑھے
.....................
..
وہ سب اس وقت پاس میں واقع ایک پارک میں موجود تھے اس پاس بہت سے بڑے بوڑھے بچے جوان لڑکے لڑکیاں موجود تھی انہوں نے سب کو دیکھا پھر سب الگ الگ ہو کر ادھر ادھر ہو گئے حورین بھی ان سب میں ان کے ساتھ ساتھ تھی
"بچاؤ بچاؤ بم بم یہاں کسی نے بم پھینکا ہے"
روما ایم سائیڈ پر کچڑے کے تھیلے کو دیکھ کر چلائی عمار ولید اور زرشالہ بھی اس کے ساتھ چلانے لگے اردگرد اوڈھم مچ گیا سب ایک دوسرے سے پہلے بھاگنے کی کوشش کرنے میں مصروف تھے ساتھ ساتھ سب چلا بھی رہے تھے دیکھتے ہی دیکھتے سارا پارک حالی ہوں گیا وہ لوگ بھی ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر بھاگے اب ان کا رح مارکیٹ کی طرف تھا راستے میں ان سب کی نظر ایک ہٹے کٹے فقیر پر پڑی زرشالہ نے آگے بڑھ کر فقیر بابا کو دیکھا جو اندھا ہونے کی اداکاری کر رہا تھا
"اللّٰہ کے نام پر دے دے بابا "
اس نے صدا لگائی زرشالہ نے اس کی گھول سے برتن سے بیس کا نوٹ اٹھا کر دس کا رکھا فقیر بچارے کی آنکھیں حیرت سے کھولی رہ گئی
"یہ لے بابا کیا یاد رکھے گا"
اس نے فخر سے کہا
"چور چور چور بابا اپنے دس پورے چلنے جانے کے غم میں چلائے زرشالہ کے ساتھ ساتھ سب نے وہاں سے ڈور لگائی سب کا ہنس ہنس کر برا حال تھا پہلے تو حورین گھبرا رہی تھی اب وہ بھی ان کے ساتھ شرارتوں میں شامل ہو گئی تھی
"زرشالہ کی بچی بچارے فقیر سے پیسے چوری کرتے تمہیں شرم نہیں آئی"
ان سب کو بھاگنے کی وجہ سے سانس چڑھ گئی تھی ایک جگہ روک کر ولید نے سے شرم دیلانی چاہی
"او میرے معصوم بھائی رہنے دوں بچوں سے کھانے پینے کی چیزیں چوری کرتے تمہیں آج تک شرم آئی ہے جو مجھے آئے گئی میں بھی تمہاری ہی کچھ لگتی ہوں"
اس نے اس پاس دیکھتے ہوئے جواب دیا
عمار سامنے سے گذرتی ایک خوبصورت سی لڑکی کو غور سے دیکھا جا رہا تھا روما کے آنکھوں میں خون اتار آیا
"او بہن سنتی ہوں"
اس نے سامنے سے گزرتی اس لڑکی کو آواز دی وہ آنکھوں میں حیرت لیے اس کی طرف متوجہ ہوئی
"جی فرمائیں"
اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
"بہن یہ اس نادیدے کو اپنے ساتھ لیتی جاؤ کب سے تمہیں گھورے جا رہا ہے اس بہانے تمہیں دیکھنے کا شوق پورا ہو جائے گا اس کے بعد جب تم اپنا چہرہ اچھے سے صابن سے دھو لوں اور اس خوبصورت چہرے سے یہ دیر سارا میک اتر جائے تو اس نادیدے کو اپنا اصلی چہرہ ضرور دیکھا دینا تاکہ یہ بھی تین چار دن تمہارا چہرہ یاد کر کر کے خواب میں ڈرتا رہے"
روما نے معصومیت سے سامنے کھڑی لڑکی کو کہا جو میک اپ سے سجے چہرے کے ساتھ سامنے کھڑی ناگواری سے روما کو گھور رہی تھی
"تمہاری اس بےہودہ بات کا مطلب جان سکتی ہوں میں"
اس نے غصے سے لال پیلے ہوتے ہوئے پوچھا
"او بہن رہنے دوں اس کے دماغ میں تھوڑا فرق ہے آپ بڑا مت مانے جائیں یہاں سے"
عمار نے اس لڑکی کو پاس سے دیکھ کر دل میں استغفار پڑھ کر کہا کیونکہ وہ پاس سے کوئی عجیب ہی مخلوق لگ رہی تھی
"اوئے چوہے کے منہ والے لڑکی پاگل ہے ناں تو گھر میں سنھبال کر رکھو یوں باہر لے لے کر گھومنے کی کیا ضرورت ہے"
وہ اس کے منہ پر اس کی بےعزتی کر کے یہ جا وہ جا ہو گئی
"ہاہاہا لو کر لو بات وہ تو ہمارے عمار میاں کی کھولے عام بےعزتی کر کے چلی گئی"
رانیہ نے عمار کی حیران پریشان چہرہ دیکھ کر کہا روما نے حیرت سے پہلے اس جاتے ہوئے لڑکی کو دیکھا پھر ایک نظر عمار کو اس کے بعد ایک بلند قہقہہ ہوا میں گونچا
"ہاہاہا یہ تو ہمارے عمار میاں کے ساتھ کتے بلیوں والی نہیں ہو گئی"
زرشالہ نے آگے آ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا اس نے گھور کر زرشالہ کو دیکھا اس کے بعد ہستے ہوئے روما کو
"چھوڑوں گا نہیں میں تمہیں "
وہ خطرناک ارادے سے آگے بڑھا ولید نے آگے بڑھ کر ایک لگائی اس کے کمر میں
"ہائے اماں مر گیا ایک دن مجھے ٹی بی کروا کر دم لینا تم سب کمبختوں اس ہاتھ کے استعمال کے بنا اس منحوس منہ سے بھونک دیا کروں"
وہ اپنا کمر سہلاتے ہوئے چلایا اس پاس کے راہ چلتے لوگ تعجب سے ان حلائی مخلوق کو دیکھ رہی تھی
اس کے بعد وہ لوگ روڈ پر موجود تانگے کے پاس گئے تانگے والے نے اتنے لوگوں کو ایک ہی تانگے پر بیٹھنے سے منع کر دیا بہت منت سماجت کے بعد وہ سب اس تانگے پر سوار ہوئے
"بھائی صاحب آپ کے تانگے کے پایے کے نیچے ایک بڑا سا پتھر ہے"
شارق نے اسے اطلاع دی
"اوہو بھائی میرے زرا اتر کر وہ سائیڈ پر تو کر دوں"
"نہ بابا نہ میں اپنی جگہ سے ہلا بھی تو میری جگہ چلی جانی ہے خود اتر کر ہٹا دوں "
شارق نے صاف انکار کیا تانگے والے نے ایک قہر بھری نظر اس پر ڈالی پھر خود اتر کر دیکھنے لگا اتنے سے وقت میں بہروز نے گھوڑے کی لگام سنھبالی اور اسے بھاگا لے گیا "چور چور پکڑوں میرا تانگہ چوری کر کے لے جا رہے ہیں"
تانگے والا پیچھے پیچھے بھاگا آ رہا تھا وہ سب ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے سامنے پولیس وین کے ساتھ کھڑے زالان نے آواز کے تعاقب میں دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا وہاں اس کا سارا خاندان جمع آج باہر والوں کا جینا حرام کر رہا تھا اس نے گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کی اور عین تانگے کے سامنے جا کر کھڑی کر دی بہروز نے بہت مشکل سے گھوڑے کی لگام کو تھاما
سب اس اچانک افاد پر جھٹکا کھا کر ایک دوسرے پر جا کر گرے
"اترو سب کے سب "
وہ گاڑی سے اتر کر ان کے سامنے جا کھڑا ہوا اتنے میں تانگے والا بھی وہاں پہنچ گیا زالان نے اسے پیسے دیے وہ تانگہ لے کر وہاں سے چلا گیا
"اب بتانا پسند کروں گے یہ سب کیا تماشا تھا"
وہ اس وقت پولیس کی وردی میں ملبوس حد سے زیادہ ہینڈسم لگ رہا تھا غصّے سے اس کا چہرہ لال ہو گیا تھا بال اوپر کو کیے شرٹ کے بٹن کھولے ہوئے بازوؤں اوپر چڑھائیں آنکھوں میں تھکن لیے وہ ڈایریکٹ زرشالہ کے دل میں اتر گیا اج سے پہلے زرشالہ کو وہ اس قدر خوبصورت نہیں لگا تھا یا اس لمحے میں کچھ جادو تھا جو اس کا چھین سکون سب اپنے ساتھ لے گیا تھا زالان سب کو ڈانٹ رہا تھا وہ بت بنی اسے دیکھے جا رہی تھی زرشالہ کی نظروں کی تپش اپنے چہرے پر محسوس کر کے اس نے چونک کر اسے دیکھا جو مہورت سے اسے ہی تکے جا رہی تھی
"تمہیں کیا ہوا ہے"
زالان نے آگے بڑھ کر اس کے آنکھوں کے سامنے اپنا ہاتھ لہرا کر پوچھا وہ ایک دم چونک گئی "کچھ نہیں کچھ بھی تو نہیں..."
وہ ہڑبڑا کر ادھر ادھر دیکھنے لگی
زالان نے مزید ڈانٹنے کا ارادہ ملتوی کر کے ان سب کو پولیس وین میں بیٹھنے کو کہا ایک تو اسے زرشالہ کی آنکھوں میں موجود حیرانی ڈسٹرب کر رہی تھی دوسرا وہ جانتا تھا سانپ کی دم سو سال بھی ٹھیک کرنے کے لیے رکھ لوں وہ ٹھیک ہونے والی نہیں ایسے ہی یہ گریزی گروپ مر کر بھی سدھرنے والا نہیں تھا جاہے ان کی کتنی ہی کتے والی کیوں نہ کر لی جائے
جاری ہے....
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─