┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: لو_مان_لیا_ہم_نے
از: فاطمہ_خان
قسط_نمبر_18

"داجی داجی "
روما بھاگتے ہوئے ڈرائنگ روم میں آئی 
"کیا ہوا لڑکی یوں بھوکلائی ہوئی کیوں ہوں "
دادو نے روما کو ڈھپٹا 
"وہ دادو وہ زر زرشالہ وہ ..."
"یہ کیا وہ وہ لگا رکھا ہے تم نے '
دادو نے غورا داجی نے بھی اخبار سے نظر اٹھا کر اسے باغور دیکھا 
"وہ زرشالہ کمرے میں نہیں ہے میں نے ہر جگہ دیکھا مگر وہ نہیں ہے"
اس نے پریشانی سے جواب دیا
داجی کے ہاتھ سے اخبار پھسلا 
"یہ ...کیا کہ رہی ہوں تم "
دادو نے دل پر ہاتھ رکھ کر پوچھا ان کا دل خول اٹھا تھا 
"مجھے لگتا ہے وہ کہی بھاگ گئی ہے وہ اس رشتے پر خوش نہیں تھی ناں"
روما نے پریشانی میں اول فول بولا 
'یہ کیا بکواس کر رہی ہوں تم روما"
داجی ایک دم غصے سے چلائے ان کا دل بیھٹا جا رہا تھا بھاگ جانے کا لفظ ان کے دل کو چھیڑ کر گزرا 
"داجی سوری پریشانی میں سمجھ نہیں آیا کیا کہ رہی ہوں"
داجی کی ایسی حالت دیکھ کر وہ ان کے پاس آکر عاجزی سے بولی دادو بھی کرسی سنھبال کر بیٹھ گئی 
"تم نے سب جگہ پر دیکھ لیا ناں"
انہوں نے تصدیق چاہی
"جی داجی قسم لے لے سب کے گھر چھان آئی ہوں وہ کہی نہیں ہے "
"فون ملاؤ زالان کو "
روما نے جلدی سے نمبر ملایا آج ان لوگوں کا گروپ پریزنٹیشن تھی اس لیے وہ صبح سات بجے ہی اسے اٹھانے آگئی تھی تاکہ مل کر تیاری کر سکے 
"ہیلو اسلام علیکم روما خیریت تم نے کیوں فون کیا "
روما نے فون داجی کی طرف بڑھایا انہوں نے کانپتے ہاتھوں سے موبائل تھاما سب بچے اور بڑے بھی آ گئے تھے گھر کی ملازمہ اس معاملے میں بہت تیز تھی ادھر بات سنی نہیں ادھر سارے گھر کو پتا چل گئی سب پریشان نظروں سے داجی اور دادو کو دیکھ رہے تھے
"میں تمہارا داجی بات کر رہا ہوں"
"لوں مارے گئے "
ان کی آواز سن کر وہ دھیرے سے بڑبڑاتے ہوئے بولا 
"کہاں ہوں تم زالان"
داجی نے ایک نظر سامنے کھڑے نازرین پر ڈالی پر موبائل کا سپیکر ان کر دیا وہ کسی کو بھی بعد میں اکسپلنسن دینے کے پوزیشن میں نہیں تھے 
"کیوں حیریت داجی"
اس نے بات گھول کر کے پوچھا
"وہ ...وہ زالان زرشالہ ..گھر پر نہیں ہے "
انہوں نے بےبسی سے کہا 
"وہ گھر پر ہو بھی نہیں سکتی داجی"
"کیا مطلب"
انہوں نے حیرت سے پوچھا
"وہ میرے ساتھ ہے"
اس نے خود کو حالات کے پیش نظر چھوڑ کر جواب دیا 
"تمہارے ساتھ صبح کے وقت کہاں ہوں تم "
سب کی جان میں جان آئی یہ خبر ہی کافی تھی کہ وہ محفوظ ہے عمار نے روما کو گھورا جو اس سب فساد کی جڑ تھی اس کی وجہ اس کی نیند خراب ہو گئی تھی بدلے میں روما نے بھی اسے گھوری سے نوازا 
"وہ داجی ایمرجنسی ہو گئی تھی اس لیے بنا بتاۓ چلے آئے"
"ایمرجنسی کیسی ایمرجنسی سب ٹھیک تو ہے ناں"
داجی کی جگہ دادو نے بےصبری سے پوچھا 
"وہ دادو ایکچولی دامیر کا نکاح تھا اس لیے۔۔"
اس نے جان کر بات ادھوری چھوڑ دی جانتا تھا وہ موجود سب لوگوں کے لیے یہ خبر کسی شاک سے کم نہیں تھی 
"واٹ !کیا کہا تم نے نکاح وہ بھی دامیر کا صبح صبح لڑکے ہوش میں تو ہوں کیا اول فول بک رہے ہوں"
داجی گرجے سب لڑکے لڑکیاں کان کھڑے کیے ان کی باتیں سن رہے تھے بڑے بھی حیران پریشان ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے 
"وہ داجی میں گھر آ کر سب بتاتا ہوں"
اس نے جان چھوڑنے کے انداز میں کہا
"برخوردار تم نے مجھے بےوقوف سمجھ رکھا ہے گدھے ہماری یہاں جان پر بنی تھی تم وہاں نکاح کے گواہ بنے ہوئے ہوں اور تو اور یہ نکاح اتنا چپ چپاتے کیوں کیا گیا ہے جواب دوں"
داجی اپنے جلالی موڈ میں آ چکے تھے اب ان کے چہرے پر پریشانی کی جگہ برہمی تھی
"داجی وہ جس لڑکی سے اس کا نکاح ہوا ہے اس کا باپ ہوسپٹل میں ایڈمٹ ہے ان کی خواہش پر ہی یہ سب یوں اچانک ہوا "
اس نے تفسیل سے جواب دیا 
"شاباش تم نے مجھے بےوقوف سمجھ رکھا ہے لڑکے تم کچھ بھی کہو گے اور میں مان جاؤ گا کہاں ہے دامیر ہنجار اس کے ماں پاپ سات سمندر پار بیٹھے ہیں اور یہ یہاں یہ آورہ گردیاں کرتا پھر رہا ہے اس کے باپ نے جانے سے پہلے کہاں بھی تھا انکل میرے بیٹے کا حیال رکھئے گا کل کو آکر پوچے گئے یہ حیال رکھا آپ نے کے میرے بیٹے نے چپ چپا کر شادی کر دی ہمیں کانوں کان خبر بھی ہونے نہیں دی "
داجی کافی جزباتی ہو گئے تھے لڑکے لڑکیوں کے چہرے پر مسکراہٹ تھی آج پہلی بار داجی اپنے لاڈلے پر گرج برس رہے تھے 
بڑے سب اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہو گئے تھے جانتے تھے اب داجی اپنی آسانی سے فون بند کرنے والے نہیں تھے دادو بھی ناشتہ کرنے میں مگن ہو گئی 
زالان بچارہ بری طرح پھنس گیا تھا 
"داجی ایسی کوئی بات نہیں وہ اچانک ہی اس نے مجھے فون کیا مولوی کا بندوست کروں میرے تو فرشتوں کو بھی اس کے کارنامے کا پتا نہیں تھا"
وہ گھبرا کر بولا پاس کھڑے دامیر نے اسے کہنی مار کر گھورا 
"شاباش میرے سمجدار پوتے اس نے کہا اور تم ڈورے چلے گئے میں پوچھتا ہو تمہیں پولیس میں برھتی کس بےوقوف نے کیا ہے عقل سے پیدل انسان سچ کہتے ہیں آج کل کی پولیس کسی کام کی نہیں ہے بنا عقل کے گدھے ہیں"
ان کی بات سنتے ہی سب نے قہقہہ لگایا زالان نے غصّے سے دامیر کو گورا جو کان لگائے ان کی باتیں سن رہا تھا اس کے چہرے پر مسکراہٹ دور گئی داجی ایسے ہی تھے غصّے میں کچھ بھی کہ دیتے تھے
داجی نے سب کو گھورا 
"میں نے کوئی لطیفہ سنایا ہے جو تم سب گدھوں کی طرح ہی ہی کرنے لگ گئے ہوں"
داجی کے توپوں کا رخ اب ان سب کی طرف تھا وہ سب بچارے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے 
"اور تم زالان عقل مند انسان مجھے ہوسپٹل کا ایڈریس دوں میں آ رہ ہوں"
"داجی آپ کیا کرے گئے یہاں آ کر "
اس نے بھوکھلا کر پوچھا 
"ڈانس کروں گا بھنگڑے ڈالوں گا اس کے ماں باپ تو یہاں ہے نہیں ظاہر ہے یہ قربانی بھی ہمیں ہی دینی ہوں گئی "
داجی نے سنجیدگی سے جواب دیا سب سے پہلے پاس بیٹھی دادو کا قہقہہ بےسہتا تھا پھر اس کے بعد سب کی ہنسی کو بریک لگانا مشکل ہو گیا تھا 
"داجی ہسپتال میں شور شرابہ کی اجازت نہیں ہے آپ اپنا یہ شوق دامیر بھائی کے ولیمے پر پورا کر دیجئے گا میں بھی آپ کے ساتھ گپل ڈانس کروں گا ہائے کتنا مزا آئے گا"
عمار نے ہنستے ہوئے مشورہ دیا 
"تمہاری تو روکو تمہیں ابھی بتاتا ہوں "
انہوں نے عمار کو گھور کر دیکھا وہ وہاں سے ڈور لگا کر بھاگا 
زالان نے لاچار انہیں ہسپتال کا ایڈریس لکھوایا سب بچے ان کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو گئے تھے روما تو سب سے پہلے تیار تھی اسے ابھی تک یہ علم نہیں تھا کہ دامیر کا نکاح حورین سے ہوا ہے 
"داجی ایک آخری بات پوچھنی تھی"
ولید نے روک کر کہا
"کیا بات "
"داجی نیا سوٹ پہن کر جائے گے یا پرانا .."
"او کمبخت کی اولاد کچھ عقل سے کام لوں ہم ہسپتال جا رہے ہیں تمہارے ابا کے ولیمے پر نہیں"
داجی نے گرج کر کہا 
"افسوس ہے تمہاری سوچ پر "
رانیہ نے افسوس سے سر ہلایا 
           .....................
"نور محمد تم"
"عبد الرحمن صاحب آپ "
دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر شاک تھے یہ کیسا مذاق ہو گیا تھا یہ قسمت انہیں اس دوراہے پر لا کر کھڑا کر چکی تھی نور محمد صاحب نے کرب سے آنکھیں موند لی داجی کی حالت بھی ان سے کم نہیں تھی انہوں نے سہارے لینے کے لیے زالان کا کندھا تھام لیا زالان اور دامیر بھی حیرانی نظروں کے انہیں دیکھ رہے تھے
"آپ انہیں جانتے ہیں داجی"
کمرے میں موجود خاموشی کو میر کی آواز نے توڑا 
حورین باپ کے ساتھ سائیڈ پر ان کا ہاتھ تھامے بیٹھی تھی زرشالہ باہر سب کو حورین اور دامیر کے اچانک نکاح کی تفصیل بتانے میں مصروف تھی نور محمد صاحب کو ابھی ابھی روم میں سیفٹ کیا گیا تھا 
"میری بیٹی کہاں ہے نور محمد"
داجی کے لہجے میں چٹانوں کی سی سختی گر آئی تھی 
سب کو جیسے سانپ سونگھ گئے 
"داجی یہ سب کیا ہے مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا"
زالان نے داجی کو پکڑ کر کرسی پر بیٹھانا چاہا داجی نے زالان کا ہاتھ جھٹک کر سامنے بیڈ پر لیٹے بے بس انسان کو دیکھا 
"بتاؤ نور محمد میری ناز کہاں ہے"
اب کی بار وہ زور سے چلائے 
"وہ تو آج سے بیس سال پہلے ہی اس دنیا سے کوچ کر گئی تھی "
انہوں نے بےبسی سے کہا داجی وہی لڑکھڑا گئے زالان بروقت پکڑ ناں لیتے وہ وہی گر جاتے زرشالہ اور روما حورین کو باہر بولانے آ رہی تھی اندر کی آواز سن کر وہی جم گئی روما نے فون نکال کر دادو کو ملایا 
"دادو آپ کہاں ہے"
"ظاہر سی بات ہے گھر پر ہو اور کہاں ہو گئی"
انہوں نے چڑ کر جواب دیا 
"دادو ناز کون آپ کی"
اس کی بات پر دادو بلکل خاموش ہو گئی تھی
"وہ جو کوئی بھی ہے آپ کی وہ حورین کی ماں ہے شاید آپ ہسپتال آ جائے"
"میں آ رہی ہوں "
انہوں نے جواب دے کر فون بند کر دیا ان کے دل پر قیامت گزر رہی تھی اتنے سالوں بعد ان کی بیٹی کی کوئی خبر ملی تھی وہ کیسے اپنے دل کو قابو میں رکھتی 
           ....................
"زرشالہ تمہیں پتا ہے روما نے آج داجی کے سامنے کیا بکواس کی تھی "
عمار نے کچھ یاد آتے ہوئے موڑ کر اسے دیکھا اس وقت وہ لوگ ہسپتال کے باہر موجود لان میں بیٹھے تھے اندار اتنے لوگوں کو آنے کی اجازت نہیں تھی 
"کیا کہا تھا"
اس نے مشکوک نظروں سے روما کو گھورا
"یہ ایک نمبر کا جھوٹا ہے اس کی باتوں پر مت آنا"
روما نے جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر یقین دلانا چاہا
"ہاں ہاں میں جھوٹا نہ اور تم اپنے بارے میں کیا خیال ہے "
عمار نے زبان نکال کر اسے چھڑا 
"تم دونوں اپنی تیسری جنگ عظیم بعد میں شروع کر دینا پہلے مجھے بتاؤ کیا کہا تھا اس نے"
زرشالہ نے دونوں کو گھورا 
"نہیں بتا سکتا میری ایک ہی ایک اکلوتی منگیتر ہے بھرے ہسپتال میں اس سے مار کھاتا اچھا نہیں لگوں گا آخر کو میری بھی کوئی عزت ہے "
عمار نے منہ پھیر کر انکار کیا روما نے مسکرا کر اسے دیکھا 
"بچہ ڈر گیا چی چی ڈرپوک"
ولید نے اس کے کندھے پر تھپکی دے کر اسے غیرت دیلانی چاہی
"بس کر جاؤ ڈرتا ورتا میں کسی سے نہیں ہوں اور وہ بھی اس چھٹانک بھر کی لڑکی سے "
عمار نے ناک سے مکھی اڑنے والے انداز میں روما کو دیکھ کر شوخی ماری 
"ہاہاہا شکل دیکھی ہے اپنی ابھی ایک پھونک ماروں گی نہ وہ ہوائوں میں اڑنے لگوں گے"
روما نے اس کے دھبلے پتلے جسم پر چھوٹ کی 
"بس کروں تم سب کچھ شرم کروں اس وقت تم لوگ اپنے سسرکے ولیمے پر نہیں آئے ہوئے"
بہروز نے غصہ سے سب کو گھورا 
"اوئے تم چاچا جی کی اس عمر میں شادی کروانا چاہتے ہوں کچھ شرم کر لوں تین تین جوان بیٹیوں کے باپ ہے وہ "
شارق نے اپنی بھونگی ماری 
رانیہ نے اسے گھورا 
"جب بولنا فضول ہی بولنا"
رانیہ نے منہ بنا کر کہا
"تم سب مجھے بتاتے ہوں یا چپل اٹھا کر دھولائی کروں تمہاری عمار کے بچے"
زرشالہ نے زنچ ہو کر کہا
"ہائے میرے بچے کہاں ہے کہاں ہے "
عمار نے نادیدے پن سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا زرشالہ نے چپل نکال کر اسے وان کیا وہ ڈرنے کی ایکٹنگ کرتا پیچھے ہوا 
"میں بتاتی ہوں اس نے داجی کوجاکر کہا داجی داجی ہماری زرشالہ صاحبہ گھر چھوڑ کر بھاگ گئی ہے"
رانیہ نے ساری بات ایک ہی سانس میں بتائی 
"واٹ "
زرشالہ کا منہ کھولا کھولا رہ گیا روما نے شرمندگی سے سر چکا لیا 
"توبہ توبہ اللّٰہ معاف کرے تم نے اور اس عمار کے بچے نے قسم اٹھا رکھی ہے مجھے گھر سے بھاگنے کی آرہے کمبختوں اللّٰہ پوچھے تم دونوں سے کیڑے پڑے تم دونوں میں .."
"بس بس زیادہ فضول بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ہے ایسی بددعائیں تو لوگ اپنے دشمنوں کو بھی نہیں دیتا"
روما نے اس کی بات کاٹ کر ناراضگی سے کہا 
"ہاں ہاں اور تم دونوں جیسے چاہے دشمنوں والے کام کرتے رہوں بےشرموں تم لوگوں کی زبان میں کیڑے پڑے گے تب ہی میرے دل کو سکون ملے گا"
زرشالہ نے روما کے ہاتھ پر زور سے اپنا ہتھوڑے جیسے ہاتھ سے وار کیا وہ بچاری تلملاتی ہوئی عمار کے پیچھے لپکی 
"اور کر لوں میری شکایت ٹھنڈ پر گئی سینے میں سکون مل گیا تمہیں "
روما نے خون خوار نظروں سے اسے دیکھ کر دانت پیستے ہوئے کہا 
"یاد اسے نہ دیکھوں غصے میں تو تم اور بھی غذب کی لگتی ہوں ہائے میرا دل "
عمار دل پر ہاتھ رکھ کر سر ولید کے کندھے پر رکھ کر ایک ادا سے بولا 
"پڑے ہٹوں مجنوں کی اولاد میں تمہاری روما نہیں ہوں "
ولید نے اس کا سر اپنے کندھے سے پڑے دھکیلا روما البتہ غصے سے لال پیلی ہو رہی تھی
"ارے تم شرما کیوں رہی ہوں "
عمار نے انجان بن کر اسے چھڑا 
"تمہیں تو میں ابھی بتاتی ہوں فساد کی جڑ آج تم بچ کر دیکھاؤ"
روما آٹھ کر اس کی طرف جارہانہ انداز میں بڑھی 
"تمہارے ہاتھوں سے تو شہید ہونے کو بھی تیار ہوں"
عمار نے اٹھ کر بھاگتے ہوئے اسے مزید تھپیا روما پاؤں پھٹتے ہوئے وہی واپس بیٹھ گئی 
سامنے سے دامیر اور زالان ان کی طرف آتے دیکھائی دیے
"زالان بھائی مجھے آپ سے اس لاپرواہی کی ہر گز امید نہیں تھی"
بہروز نے انہیں قریب آتے دیکھ کر کہا
"کیا مطلب میں نے کیا کر دیا ہے"
زالان نے حیرانی سے پوچھا
"آپ آدھی رات کو میری منگیتر کو بنا کسی اجازت کے اپنے ساتھ لے گئے تھے ہمیں کتنی پریشانی اٹھانی پڑی آپ کو اندازہ بھی نہیں ہے"
بہروز نے سنجیدگی سے کہا سب نے حیرانی سے اسے دیکھا
"تم ہوتے کون ہو مجھ سے اس طرح پوچھنے والے"
زالان اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے بولا
"زرشالہ کا منگیتر اور کون "
بہروز نے چبا چبا کر کہا زرشالہ نے گردن موڑ کر بہروز کو گھورا 
دامیر نے بہروز کو دیکھا جس کی آنکھوں میں شرارت تھی اس نے سب سے نظر بچا کر بہروز کو آنکھ ماری
"ہاں واقعی یار زالان تم نے بہت غلط کیا ہے تمہیں گھر بتا کر اسے لانا چاہیے تھا"
دامیر نے ابہروز کی ہاں میں ہاں ملائی
زالان نے اسے گھورا
"منگیتر کون سی منگیتر بڑوں میں بات ہوئی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم شالہ پر روب جماؤ تم ہوتے کون ہو مجھ سے سوال جواب کرنے والے آئندہ مجھ سے ایسی بات کی یا شالہ پر اپنا حق جتانے کی کوشش کی تو جان لے لوں گا تمہاری چھوٹے ہو چھوٹے ہی رہوں مجھے سکھانے کی کوشش مت کروں سمجھے"
زالان غصّے سے ڈھارا 
اور تم"
دامیر کی طرف مڑ کر بولا 
"دوست ہو دوست بن کر رہوں میرے باپ بنے کی کوشش مت کروں اب تم لوگ مجھے بتاؤ گے مجھے کیا کرنا ہے کیا نہیں"
وہ غصّے سے کہتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا
"ہاہاہا کیسا لگا دامیر بھائی"
بہروز نے ہستے ہوئے دامیر کو آنکھ ماری 
"یہ کیا حرکت تھی "
زرشالہ نے غصہ سے اسے گھورا 
"دامیر بھائی جائے اپنے دوست کو منائے نہیں تو آپ ہی حیر نہیں"
زرشالہ کو اگنور کر کے وہ دامیر سے بولا 
"نہایت ہی بےہودہ انسان ہو تم تمہاری تو میں داجی سے اسی شکایت لگاؤ گئی یاد رکھوں گے "
زرشالہ بھی وہاں سے اٹھ کر چلی گئی اس کے پیچھے پیچھے تینوں لڑکیاں بھی اٹھ گئی البتہ دامیر اور بہروز اب بھی ہنس رہے تھے 
"میں تو چلو زالان کو منانے "
دامیر ہستے ہوئے وہاں سے چلا گیا 
"کہاں ج رہے ہوں تم"
زالان کے پیچھے بھاگتے ہوئے آیا جو گاڑی لاک کھول رہا تھا غصّے سے دامیر کو گھورا 
"کیا ہو گیا یار جو حقیقت ہے اسے تسلیم کرنے کے بجائے تم ایسے برتاؤ کیوں کر رہے ہوں"
زالان اس کی بات سن کر غصّے سے اس کی طرف مڑا
"اب وہ کل کا بچہ مجھے بتائیں گا مجھے کیا کرنا ہے کیا نہیں وہ مجھے سکھائے گا مجھے کس سے اجازت لینی ہے کس سے نہیں"
وہ چلا اٹھا 
"ریلکس زالان اتنا ہیپر ہونے کی ضرورت نہیں ہے بچے تو تم بھی نہیں ہو تم نے خود اپنے ہاتھوں سے اسے کیسی اور کے حوالے کیا ہے اب تمہارا کوئی حق نہیں بنتا کہ تم اس پر اپنا پن جتاو حقیقت کو تسلیم کروں اب وہ تمہاری دسترس سے بہت دور چلی گئی ہے "
دامیر نے اسے تلخ حقیقت سے آگاہ کیا جو جانتے ہوئے بھی وہ مانے کو تیار نہیں تھا
"مجھ سے برداشت نہیں ہوتا یہ سب میر"
زالان کا لہجہ اس کی طرح ٹوتا بکھرا تھا دامیر نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا 
"چلو اندار سب ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے داجی کو اس وقت تمہاری ضرورت ہے ابھی بھی وقت ہے سوچ لوں نہیں تو پوری عمر پچھتاؤ گے "
دامیر کہ کر روکا نہیں وہاں سے چلا گیا پیچھے زالان نے بےبسی سے اسے جاتے دیکھا 
                           .................
جاری ہے........ 

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─