┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄
ناول: لو_مان_لیا_ہم_نے
از: فاطمہ_خان
قسط_نمبر_17
"یہ رات کے چار بجے تمہیں کیا آفت آ پڑی ہے جو اس وقت مجھے تنگ کرنے کے لیے فون کیا ہے"
"تم سو رہے تھے"
اس نے معصومیت سے پوچھا
"نہیں میرے بھائی میں کبڈی کھیل رہا تھا"
جواب نیند میں ڈوبا چڑچڑے انداز میں ملا
"چل اگر کھیل چکے ہوں تو اب زرا تھوڑا بریک لوں بیڈ سے اٹھو پاؤں میں چپل پہنوں گاڑی کی چابی اٹھاؤ آس پاس سے کسی مولوی کو اٹھا کر ہوسپٹل لاؤ میرا نکاح پڑھوانے"
اس نے آرام وہ دھماکہ کیا
"واٹ"
اسے ہزار واٹ کا کرنٹ لگا وہ اچھل کر بیڈ سے اٹھا
"ایک بار میں سنائی نہیں دیتا تمہیں حورین سے نکاح ہے میرا اس کے بابا کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے وہ چاہتے ہیں اس وقت ہے ہمارا نکاح ہو جائے"
"دماغ تو حراب نہیں ہو گیا تمہارا رات کے چار بجے کون سا مولوی جاگ رہا ہوں گا جو آ کر تمہارا نکاح پڑھوائے گا"
اس نے چڑ کر کہا
"ایک پولیس افسر کے منہ سے ایسی بات سن کر افسوس ہو رہا ہے"
"پولیس افسر ہوں غنڈہ موالی نہیں جو گن پوائنٹ پر مولوی کو اٹھا کر لے آؤ"
"لعنت ہے تم جیسے خود غرض دوست پر جو اتنا سا کام نہیں کر سکتا"
اس نے روٹھے لہجے میں کہا
"بس بس زیادہ بلک میل کرنے کی ضرورت نہیں ہے کرتا ہوں کچھ"
"سن آفت کی پڑیا کو ساتھ لانا حورین بہت اکیلی ہے اسے اس وقت کسی کندھے کی اشد ضرورت ہے"
ایک اور آڈر دیا گیا
"تم بن تو رہے ہوں کندھا مجھے معاف کروں میرے بھائی میں رات کے اس پہر اسے اٹھانے سے رہا"
زالان نے بےزاری سے کہا
"جیسے تمہاری مرضی یار میں آخر تمہارا لگتا ہی کیا ہوں"
"ڈرامے باز کہی کہ آتا تو اور لے کر آ رہا ہوں ایک عدد مولوی اور شالہ کو بند کروں فون"
زالان نے غصّے سے کہتے ہوئے فون بند کیا
"عاشق ناں ہوں تو سچ کہتے ہیں یہ پیار بندے کو بہت خوار کرتا ہے"
اس نے مسکرا کر سوچھا
....................
وہ گھر کے پیچھلے لان میں دھیرے دھیرے سے چلاتا ہوا آیا سامنے ہی شالہ کے کمرے کی کھڑکی تھی اس نے آرام سے دستک دی ایک بار دو بار اس کے بعد چڑ کر موبائل نکال کر شالہ کا نمبر ملایا
تین چار بیل کے بعد فون اٹھایا
"ییلو"
"کھڑکی کھولوں میں باہر کھڑا ہوں"
زالان نے سرگوشی میں کہا
"واٹ آپ یہاں خیریت"
زرشالہ نے پریشانی سے پوچھا"
یار کھڑکی کھولوں بتاتا ہوں "
"اوکے ویٹ "
اس نے اٹھ کر کھڑکی کا پٹ کھولا
آنکھوں میں حیرانگی تھی
"ایکچولی شالہ دامیر کا ایمرجنسی میں نکاح ہو رہا ہے تمہیں میرے ساتھ چلنا ہو گا "
زالان نے آہستہ آواز میں کہا
"ہے...کس سے اور اس وقت سب ٹیھک تو ہے ناں کوئی لڑکی وڑکی تو نہیں بھاگا لائے جو چوری چھپکے نکاح کر رہےہیں ناں بھائی ناں میں تو نہیں جانے لگی "
اس نے آنکھیں پھاڑے زالان کو دیکھ کر کہا
"آف تم سب کا لگتا ہے دماغ حراب ہو گیا ہے میر تمہیں ایسا نظر آتا ہے"
اس نے گھور کر پوچھا
"ہاں نہیں تو اور کیا مجھے پہلے ہی شک تھا میر بھائی پر یہ کوئی ناں کوئی چاند چڑہا کر رہے ہیں اور دیکھ لے توبہ توبہ ..."
"حورین کے بابا کی طبعیت حراب ہے وہ ہوسپٹل میں ایڈمنٹ ہے یہ ان کی خواہش ہے شاید ان کے پاس وقت زیادہ نہیں ہے "
اس نے زرشالہ کی بات کاٹ کر دانت پیس کر کہا
"حورین کے بابا کو کیا ہوا او نو میں چلتی ہوں آپ کے ساتھ"
وہ کہ کر واپس مڑی زالان نے شکر کا سانس لیا
"پر ایک بات تو بتائیں یہ میر بھائی رات کے اس پہر حورین کے بابا سے کیسے ملے اور ان سے نکاح کیسے ہو رہا ہے"
اس نے گردن مڑ کر حیرانگی سے پوچھا
"اب ایک اور بات بھی کی ناں تو شالہ گلا دبا دوں گا تمہارا سوال پر سوال جا کر خود پوچھ لینا ابھی مجھے مولوی کا بھی انتظام کرنا ہے "
اب کی بار زالان نے حاصے چڑچڑے انداز میں جواب دیا
......................
وہ گاڑی میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا سامنے سے وہ بڑا سا شاپر اُٹھائے آتی دیکھائی دی اس نے تعجب سے اسے دیکھا وہ جلدی جلدی فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھ گئی زالان نے ایک ترچھی نظر سے اسے دیکھا پھر بنا کچھ کہے گاڑی آگے بڑھا دی
گاڑی مین روڈ پر لا کر وہ اس کی طرف متوجہ ہوا
"یہ تمہارے پاس کیا ہے"
موڑ کاٹتے ہوئے اس نے ایک نظر شاپر کو دیکھ کر پوچھا
"اس میں ریڈ دوپٹا ہے"
"وہ کس خوشی میں"
اس نے خیرانی سے پوچھا
"کیا مطلب کیا ہے میری دوست کا نکاح ہے اس کے سر پر ڈالنے کے لیے لے کر جا رہی ہوں"
اس نے سمجھداری سے جواب دیا
"ماشاءاللہ ماشاءاللہ کتنی سمجدار ہوتی جا رہی ہوں تم "
اس نے طنز لہجے میں کہا
"ہاں نہ دیکھ لے اتنے آخ حالات میں بھی مجھے اتنا خیال ہے میرا بس چلے ناں تو میں تو بینڈ بارات لے کر جاؤ وہاں"
اس نے خوشی سے روح موڑ کر کہا زالان نے ایسے دیکھا جیسے اس کے دماغی حالت خراب ہو
"شالہ بی بی کچھ ہوش کے ناخن لوں وہاں اس کا باپ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے اور تم یہاں خوشیاں منا رہی ہوں"
اس نے افسوس سے سر ہلا کر کہا
"لوں جی آپ کیا پتا انکل جب اپنی بیٹی کو لال دوپٹے میں دیکھے گے تو کتنے خوش ہو جائے گے اور آپ دیکھ لینا وہ ایک دم سے تھیک ہو جائے گے"
اس نے خوشی سے چہک کر کہا
"یہ تم کس خوشی میں اتنا خوش ہو رہے ہوں "
اس نے اس کے خوشی سے پھولے چہرے کو حیرانی سے دیکھ کر کہا
"میری اتنی پیاری دوست کا پہلی پہلی بار نکاح ہو رہا ہے میرا بس چلتا میں روما کو بھی ساتھ لے آتی"
"ناں تمہارا کیا مطلب ہے میرے دوست کا دسویں بار نکاح ہو رہا ہے کیا"
اس نے برا مانتے ہوئے کہا
"ہاں تو اور کیا میر بھائی پر مجھے پہلے ہی یقین نہیں تھا پتا نہیں پہلے کتنے لوگوں کی زندگیاں بچانے کے چکر میں نکاح کر چکے ہوں گے یہ تو میری دوست ہے اس لیے مجھے پتا چل گیا"
اس نے زالان کو تنگ کیا
وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگا
"کیا کہا تم نے میرا دوست اتنا گیا گزرا نظر آتا ہے تمہیں جو آئے دن ایسے کام کرتا پڑے گا"
اب کی بار زالان نے غصے سے گھور کر اسے دیکھا
"بس بس اب میر نامہ ناں کھول کر بیٹھ جائے گا میر یہ میر وہ ... میری دوست بھی لاکھوں میں ایک ہے ایک آپ کے میر بھائی کو اللّٰہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے ہیرے جیسی لڑکی مفت میں مل گئی ہے"
اس نے بےنیازی سے کہ کر رح باہر کی طرف موڑ دیا جس کا مطلب تھا اسے اب مزید میر نامہ نہیں سنا زالان نے بھی چپ رہنا مناسب سمجھا وہ اس وقت میر کی حمایت میں بھول کر شالہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا ابھی تو اسے نکاح خواں کا انتظام کرنا تھا اس لیے چپ چاپ ڈرائیونگ کرنے لگا
.....................
کب نکاح ہوا کب اس نے نکاح نامے پر دستخط کئے اسے بلکل پتا نہیں چلا اس کا دماغ بلکل سن تھا ہر چیز سے بےنیاز
زرشالہ نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا
"مبارک ہو میری جان نکاح مبارک"
حورین ایک دم ٹرپ کر پیچھے ہٹی اس نے حیرانگی سے زرشالہ کو دیکھا جو بہت خوش دیکھائی دے رہی تھی
"یہ...سب کیا ہو گیا زر"
اس نے بےبسی سے اس کے کندھے پر اپنا سر رکھ کر کہا زالان اور دامیر گواہوں اور مولوی صاحب کو باہر تک چھوڑنے گئے تھے نکاح اندار ابا کے سامنے ہوا تھا ان کے چہرے پر سکون سا نظر آ رہا تھا اس وقت وہ دونوں وزٹنگ روم میں کرسیوں پر بیٹھی ہوئی تھی زرشالہ نے اس کے سر پر سرخ ڈوپٹہ اوڑ رکھا تھا وہ اس وقت سادگی میں بھی بہت معصوم اور پیاری لگ رہی تھی
"یار جو ہوا اس میں اللّٰہ نے بہتری رکھی ہو گئی تم نے دیکھا نہیں انکل کتنے خوش تھے "
اس نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سنجیدگی سے کہا
بدلے میں حورین خاموش ہی رہی اس نے کب اپنے باپ کی طرف دیکھا تھا وہ تو خود قسمت کے اس فیصلے پر حیران پریشان تھی اپنے غم سے نکلتی تو ہی کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع ملتا
"تم کتنی خوش قسمت ہوں زر تمہارے پاس ہر رشتہ ہے اور میرے پاس کوئی اپنا ہی نہیں ابا کی طبعیت حراب ہوئی تو انہوں نے میرے لیے کوئی مضبوط سہارا ڈھونڈ لیا یہ جانے بنا کے میری کیا مرضی ہے میں کیا چاہتی ہوں بس کہاں نکاح کر لوں اور میں نے کر دیا اپنے دل کی مرضی کے خلاف"
اس نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا
زرشالہ نے اسکی طرف نظر ترچھی کر کے دیکھا زندگی میں پہلی بار حورین کو اتنا ٹوتا بکھرا دیکھ رہی تھی وہ لڑکی تو ہر حال میں خوش رہنے والی اللّٰہ کا شکر ادا کرنے والوں میں سے تھی
"حور میری جان ایسا نہیں سوچتے ہاں میرے پاس ہر رشتہ ہے مگر میرے پاس تو ماں باپ دونوں ہی نہیں ہے مجھے کبھی بھی کیسی نے کوئی کمی نہیں دی ہر بندے کو مجھ سے بےحد پیار ہے پر بھی مجھے اکثر اپنے ماں باپ یاد آتے ہیں یہ رشتے ہی ایسے ہیں جیسے چاہ کر بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا اس دنیا میں کوئی بھی مکمل نہیں ہے حور ہر کسی کو کوئی ناں کوئی غم ستا رہا ہے کسی ناں کسی چیز کی کمی رولا رہی ہے ..ہم ناشکرے بندے ہیں اتنا سب کچھ مل جانے کے باوجود ایک چیز کے لیے روتے ہیں جو ہمیں نہیں ملا ہوتا ہمیں وہی کیوں چاہیے ہوتا ہے
ہو سکتا ہے تمہارے مما زندہ ہوتی تمہارے بہت سارے بہن بھائی ہوتے اور تمہارے بابا اچھے انسان نہیں ہوتے تم سے محبت نہ کرتے تب کیا کرتی تم بولو ... تمہارے بابا نے تمہیں اپنی جان سے بڑھ کر چاہا ہے اتنی تکلیف میں بھی انہیں تمہاری پرواہ رہی ہے اور تم ناشکری کر رہی ہوں ..میر بھائی بہت اچھے ہیں حور مجھے اپنے بھائیوں کی طرح عزیز ہے میں بہت تنگ کرتی ہوں انہیں مگر یہ سچ ہے میں نے آج تک ان جیسا اچھا انسان پوری دنیا میں نہیں دیکھا تم ان کے ساتھ بہت خوش رہوں گی انشاء اللہ ہر خوف ہر ڈر دل سے نکال دوں بس بابا کے لیے دعا کروں اللّٰہ انہیں جلدی سے ٹھیک کر دے "
زرشالہ نے اسے اچھے دوستوں کی طرح سمجھایا حورین نے سر اس کے کندھے سے اٹھا کر اس کے گلے لگی
"میں واقعی بہت ناشکری ہوں زر میرے پاس تمہاری طرح انمول دوست کی شکل میں بہن موجود ہے جو اس وقت میرے پاس موجود ہے میں بہت ناشکری ہوں"
اس نے روتے ہوئے اسے زور سے گلے لگایا آنسو تو زرشالہ کے بھی گر کر اس کے دوپٹے میں جذب ہو رہے تھے
باہر کھڑے زالان نے دامیر کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا
"اسے وقت چاہیے سب تسلیم کرنے میں"
دامیر نے دھیرے سے سر ہلایا
"مجھے اس کی باتوں سے زیادہ حیرانی زرشالہ کی باتوں پر ہوئی ہے اس سے اتنی سمجھداری کی امید نہیں تھی مجھے یار اس کے دل میں میرے لیے اتنا احترام اتنی عزت ہے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا "
اس نے حیرت سے کہا
"وہ ایسی ہی ہے میر اپنے دکھ کو خود تک رکھنے والی کسی کے سامنے خود کو کمزور ثابت نہیں کرتی شرارتوں سے سب کو ہنسانے والی اور تنہائی میں رونے والی"
زالان کے لہجے میں اس کے لیے فخر تھا
...
جاری ہے........
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─