┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


بلی 🐈
از سلمی سید 
قسط 6

اتنا کہہ کر آغا جانی رو پڑی۔ 
اور میری آنکھ ان کی پیروی میں نم تھی ۔۔۔
اور دل میں بس یہ ہی دعا کہ ربِ رحیم اہلِ بیت کے صدقے ان کی مشکل آسان کردے ۔۔۔
آغا جانی کو پانی پلایا تسلی دی کے سامنے سے نرس آتی نظر آئی ۔۔۔
زیبا ہمدانی کے ساتھ آپ ہیں ؟ 
جی کہئیے ۔۔۔۔
میرے ساتھ آئیں ۔۔۔

    اوہ خدا رحم ۔۔ 
نرس ہمیں ڈاکٹر شہاب الدین غوری کے روم تک لے گئی ۔۔۔ شہاب الدین غوری وجاہت ہمدانی کے دوست ہیں ۔۔۔ اور زیبا کی ٹریٹمنٹ کے انچارج۔۔

تشریف رکھئیے ۔۔۔
مسز ہمدانی آپ کو زحمت یوں دی ہے کہ میں آپ کو بتا سکوں.... زیبا کی حالت نازک ہے...... اس میں خون بتدریج کم سے کم ہوتا جا رہا ہے ۔۔ 
اکثر دیکھا گیا ہے کہ فیملیز مطمئن نہیں ہوتیں اور مریض کو دوسرے اسپتال منتقل کرا لیتی ہیں ۔۔۔ 
اور پھر کیس کر دیتی ہیں کہ ڈاکٹروں کی غفلت کے باعث یہ ہوگیا وہ ہوگیا ۔۔۔ 
خون چوری کر لیا گیا مریض تو بے ہوش تھا...... 
ہمیں تو پتا نہیں ڈاکٹروں نے کیا کیا .....
نتیجاً اسپتال بدنام ہوتا ہے ۔۔۔ 
زیبا ہمدانی کی مکمل ٹریٹمنٹ بے ہوشی کی حالت میں ہو رہی ہے ۔۔۔ 
ملاقات کے کوئی مخصوص اوقات نہیں ہیں سب کچھ آپ کے سامنے شفاف طریقے سے ہورہا ہے ۔۔ 
مسز ہمدانی وجاہت میرا دوست ہے آپ کے علم میں ہے یہ بات اور آپ کا مجھ پر بھروسہ ہی آپ کو یہاں لاتا ہے ۔۔۔ مگر اسپتال کے کچھ قائدے قانون ہیں مجبوراً مجھے ان کی پاسداری کرنی پڑے گی ۔۔۔ 
زیبا کے معدے میں زخم ہے اور مسلسل خون کی کمی کے باعث اس کی حالت مزید بگڑنے کا ڈر ہے ۔۔۔ 
آپ پلیز اس فارم کو فل کردیں ۔۔۔ 
کہ کسی بھی انتہائی صورتحال میں اسپتال ذمہ دار نہیں ہوگا ۔۔۔ 
مجھ پر بھروسہ رکھیں میں پوری کوشش کروں گا کہ زیبا جلد از جلد صحتیاب ہو جائے ۔۔ 
یہ بس ایک رسمی کاروائی سمجھیں ۔۔۔

            آغا جانی نے میری طرف فارم بڑھا کر تصدیق چاہی۔۔۔ فارم میں زیبا کی موجودہ حالت درج تھی اور تقریباً وہی باتیں جو شہاب الدین غوری نے کی تھیں ۔۔۔ آغا جانی نے اس پر دستخط کر دیئے۔۔۔ ان کے ہاتھوں کی لرزش واضح ثبوت تھی کہ اب وہ زیبا کی صحت کی طرف سے بھی نا امید ہو چکی ہیں ۔۔۔

           ہم واپس وارڈ میں آگئے ۔۔۔ تبھی آغا جانی کو طاہر علیمی کی کال آئی اور انھوں نے بتایا کہ ان کے مرشد پاکپتن سے کراچی آئے ہوئے ہیں ۔۔۔اگر ان سے ملاقات کا ارادہ ہو تو کس وقت وہ اسپتال آ سکتے ہیں ۔۔۔ آغا جانی نے انھیں کل شام عصر کا وقت دیا ۔۔۔ 

             رضا بے قصور ہوتے ہوئے بھی اس عفریت کا شکار بن گیا تو جس سے اس کی دشمنی تھی اس کی موت کی وجہ بھی یہ ہی رہی ہوگی ۔۔۔

            آغا جانی جب زیبا کی بیل ہوگئی اور ان کی ملاقات وجاہت صاحب سے ہوئی تب ان کی کیا حالت تھی ؟؟

          اذان میاں ہم یہاں گھلے جارہے تھے کہ اگر زیبی کی بیل ہوگئی تو وہ یہاں آ کر کیا قہر ڈھائے گی۔۔۔۔۔۔ اور جو بیل نہ ہوئی تب بھی ہم اپنی بچی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔۔۔ آگے کنواں پیچھے کھائی ۔۔۔ کیا کریں عجیب پریشان کن صورتحال تھی ۔۔۔
      زیبی کی بیل کی خبر بھی ہمیں راحت نہ دے سکی اور ہم سراپا سوال بنے آغا جان کے ساتھ تھے کہ اب کیا ہوگا ؟ وجاہت راستے میں ہیں ۔۔۔

         گھر آ کر زیب دوڑ کر ہمارے سینے سے لگ گئی اور بے تحاشہ رونے لگی ۔۔ رضا کی نا گہانی موت اور جیل کی صعوبتوں نے اسکا برا حال کردیا تھا ۔۔۔
آغا جان سے بھی گلے لگی اور شکایتیں کرنے لگی ۔۔۔
 آغاجان آپ ہمیں لینے کیوں نہ آئے ؟؟؟ 
ٹھیک کہتے تھے رضا کے والدین سفید رنگ واقعی منحوس ہے ۔۔۔۔۔ 
یہ سفیدی کھا گئی ہمارے سہاگ کو ۔۔۔ 
ہم نے زیبا کو سہارا دیا اور کمرے میں آرام کی غرض سے لٹا آئے ۔۔۔  
ہم دونوں ہی حیران تھے کہ لگتا تھا سب ٹھیک ہے ۔۔۔ 

             گھر میں سوگواری طاری تھی مگر کیونکہ گھر بچوں والا تھا تو ماحول کچھ ہی دن میں بہتر ہوگیا ۔۔ ایک دن آغا جان نے کہا۔۔۔۔۔
 صبیحہ ہو سکتا ہے وجاہت ٹھیک کہہ رہے ہوں مراد نے پیسے کے زور پر زیبی کو اس قتل میں ملوث کیا ہو ۔۔۔۔
اصل حقائق کچھ اور ہوں ۔۔۔۔۔۔
 ہو سکتا ہے جب آپ زیبی سے ہوں وہ واقعی صدمے کے زیرِ اثر ہو؟
ہمیں بھی لگا۔۔۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔۔ شائد کیونکہ زیبی اب نارمل تھی ۔۔ اور گھر کا ماحول بھی ۔۔۔۔ زیبی کی بیل ہو گئی تھی کیس ختم نہیں ہوا تھا ۔۔۔ 
             زیبی ہر وقت رضا کو یاد کرکے روتی رہتی تھی مگر پھر بچوں کے ساتھ اپنا غم غلط کرنے کی کوشش کرتی ۔۔۔ اور رات میں اکثر ہمارے کمرے میں آجاتی جب تک اسے نیند نہ آتی یا ہم اس کے کمرے میں بیٹھے رات گزار دیتے ۔۔۔۔ 
         اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی بخار رہنے لگا تھا ۔۔۔ انھی دنوں خبر آئی کے ہماری چچازاد کلثوم کو دل کا دورہ پڑا ہے وہ اسپتال میں ہیں ۔۔۔ 
ہمیں جانا تھا ۔۔ وجاہت کو بھی ایک میٹنگ پر جانا تھا تو آغا جان نے کہا کہ صبیحہ آپ کو وجاہت ڈراپ کر دیں گے ہم زیبی کے پاس رکتے ہیں تیز بخار ہے اکیلا چھوڑ جانا ٹھیک نہیں زرنگار بھی اپنے والدین کی طرف ہیں ۔۔  
دل نہیں مان رہا تھا مگر گھنٹہ دو گھنٹہ کی بات ہے ۔۔۔ وجاہت واپسی پر ہمیں اسپتال سے لے آئیں گے ۔۔۔

          ہم اپنی بہن کی عیادت کو اسپتال آگئے مگر دل گھر میں ہی پڑا تھا۔ دوبار ہم نے کال کی آغا جان کو انھوں نے تسلی دی کہ سب ٹھیک ہے ہم مطمئن ہو گئے ۔۔ قریب ڈیڑھ گھنٹے کے بعد وجاہت ہمیں لیکر گھر آئے ۔۔۔ رات کے آٹھ بجے کا وقت تھا ۔۔۔ وجاہت کے ساتھ ہم گھر میں داخل ہوئے تو وہی ناگوار بدبو ۔۔۔
بیٹا ہماری حالت غیر ہو گئی ۔۔۔ 
وجاہت بھی محسوس کر رہے تھے ۔۔۔
 ہم آغا جان کے کمرے کی طرف دوڑے اور وجاہت ہمارے پیچھے ۔۔۔ 
آغا جان وہاں نہیں تھے ۔۔۔۔
وجاہت زیبی کے کمرے کی طرف گئے ۔۔۔ 
اور ۔۔ ۔۔۔ امی ۔۔۔۔۔۔۔کہہ کر رہ گئے ۔۔۔ 
ہمارا دل بند ہونے کو تھا ۔۔۔۔
کمرے کا منظر ہم آپ کو کیا بتائیں اذان میاں ۔۔۔
پورا کمرہ خون میں رنگا ہوا تھا ہمارے آغا جان کا خون ۔۔۔
 ان کی لاش دونوں ٹانگیں بندھی ہوئی تھیں اور ہاتھ بھی ۔۔۔
 گردن کمر کی طرف گھومی ہوئی تھی 
اور زیبا آغا جان پر چڑھ کر ان کی آنکھیں نوچ کر کھا رہی تھی ۔۔۔
 وہی رضا کی طرح ادھڑی ہوئی لاش۔۔۔
اور وہی بک بک جاری تھی ۔۔۔۔اس نے اپنا بدلہ لے لیا تھا ۔۔۔

            افففف میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے کہ یہ معصوم کمزور نظر آنے والی لڑکی کس قدر سفاک ہے ۔۔۔ اپنے شوہر اور پھر اپنے باپ کا بہیمانہ قتل۔۔

          کس قدر تشدد پسند ہے ۔۔ مگر نہیں ۔۔۔۔ یہ لڑکی نہیں ۔۔۔۔ وہ ابایومی ۔۔۔ وہ ہے قاتل ۔۔۔وہ ہمیشہ سے اپنی موت کا بدلہ لینا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔

یہ داستان سنانے کے بعد آغا جانی کے چہرے کی اذیت ناقابلِ بیان ہے ۔۔۔

اس واقعے کے بعد ہمیں ابایومی سے کوئی بعید نہ رہی کہ وہ کس کس کا کیا حشر کرے گی۔۔۔۔۔ اگلے دن زیبی پھر نارمل تھی اور باپ کی موت پر بے حال تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ وجاہت اب بھی اسے بیمار سمجھ رہے تھے مگر اس بات پر یقین کر چکے تھے کہ رضا کا قتل بھی زیبی نے ہی کیا ہے اور مراد سنجرانی کس حد تک حق پر ہیں ۔۔۔۔

          وہاں مراد سنجرانی کو آغا جان کے قتل کی خبر ہوئی تو وہ تعزیت کے لئے آئے۔۔۔۔۔۔۔۔ وجاہت کے رویئے میں لچک تھی اور باہمی گفتگو سے دونوں میں قصاص کا معاملہ طے پا گیا۔۔۔؟۔۔ کیونکہ اب مراد سنجرانی جانتے تھے کہ زیبا شدید ذہنی عارضے میں مبتلا ہے اور جب اسے دورہ پڑتا ہے تو وہ اس سفاکیت پر اتر آتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔

        آغا جان کی موت کے بعد ہم تو نصف ہی رہ گئے تھے ۔۔۔بچوں کا گھر تھا مبادا زیبی پھر کسی کو نقصان پہنچاتی ہم نے فیصلہ کیا کہ اب زیبی کو زنجیر ڈالنی پڑے گی ۔۔۔
اب ہم کسی اور کو رونے کی متحمل نہیں تھے ۔۔  
وجاہت ہمارے فیصلہ کے خلاف تھے ۔۔۔ انھیں لگتا تھا زیبی کو علاج کی ضرورت ہے ۔۔۔
مگر ایک رات وجاہت نے بھی اپنی آنکھوں سے ابایومی کا اصل روپ دیکھ لیا جب وہ اپنے کمرے میں بلی کی صورت لئے ہماری بربادی کا جشن منا رہی تھی ۔۔  
وجاہت نے زیبا کو لاک کیا اور ہمارے پاس آ کر ساری بات بتائی ۔۔۔ اور پوچھا کہ ایسا کیوں ہے یہ سب کیا ہے ؟ جو راز اب تک مخفی تھا وہ آج کھل گیا تھا اور آدھا سچ وجاہت کے لئے بھی نقصان دہ ہوتا لہذا ہم نے تمام تفصیلات وجاہت کو بتادیں ۔۔۔۔۔۔

           یقین کرنے کے علاوہ وجاہت کے پاس کوئی راستہ نہ تھا ۔۔ بہت محبت کرتا ہے زیبی سے ۔۔ وہ ہی کیا ہم سب ۔۔۔ لیکن اس عفریت نے ہماری زیبی ہم سے چھین لی ۔۔۔ تب سے اب تک زیبی زنجیر میں جکڑی اپنے کمرے میں رہتی ہے ۔۔۔۔ بہت تھوڑے وقت کے لئے ابایومی اس کا جسم چھوڑ بھی جاتی ہے مگر زیادہ تر وہ زیبی پر مسلط رہتی ہے ۔۔۔ 

مگر وہ روتی کیوں ہے اب تو اپنا بدلا لے چکی ہے ؟ 

وہ زیبی روتی ہے ۔۔۔۔
 اپنے حال پر ۔۔  
رضا کی موت پر ۔۔ 
 اپنے باپ کی موت پر ۔۔۔۔ 
اپنے اجڑ جانے پر۔۔۔۔۔
اپنی قید پر ۔۔۔۔
اپنی بربادی پر۔۔۔۔

مگر اس کی آواز اسی منحوس بلی جیسی ہے ۔۔ سنی ہوگی آپ نے ۔۔۔ کبھی انسانی کبھی بلی نما آوازیں ۔۔۔۔

جی آغا جانی سنی ہیں ۔۔۔۔

ہمیں نہیں لگتا زیبی بچ پائے گی ۔۔۔۔
 لیکن ہم ایک آخری کوشش ضرور کریں گے ۔۔۔کل طاہر علیمی کے مرشد سے مل کر ۔۔۔۔ وجاہت ساتھ ہوتے تو بہتر تھا ۔۔۔

            آغا جانی ان حالات میں انھیں ساتھ ہونا تھا۔۔۔۔۔
 میں چاہ کر بھی یہ بات کہنے سے خود کو نہ روک پایا ۔۔۔ شروع دن سے یہ بات میرے دل میں کھٹک رہی تھی کہ اور اب بھی ۔۔۔ 
یہ سب سن کر کہ وجاہت بہن سے بہت پیار کرتے ہیں ۔۔ میں خود کو نہ روک پایا ۔۔۔۔۔ یہ کیسا پیار ہے ؟؟

        وجاہت پہلے فیصل آباد گئے ہوئے تھے وہاں کچھ زمین کے سودے کرنے تھے ۔۔۔ قصاص کی رقم بہت رکھی ہے مراد سنجرانی نے ۔۔۔ وجاہت ہر قیمت پر یہ کیس ختم کروا کر ہی لوٹیں گے ۔۔۔ زمینیں بیچ کر وہ اب سکھر گئے ہوئے ہیں ۔۔  

      اوہ میرے خدا ۔۔۔۔۔ میری سوچ کس قدر غلط تھی وجاہت کے بارے میں ۔۔۔ تمام حقیقت سے انجان میں وجاہت کو پہلے دن سے لا پرواہ بے حس اور نجانے کیا کیا سوچ رہا تھا۔۔۔سچ ہے مکمل آگاہی سے پہلے کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کر لینا کتنی بری بات ہے ۔۔میں دل ہی دل میں شرمندہ ہوا تھا ۔۔۔ 

           داستان مکمل طور پر اب میرے سامنے تھی ۔۔۔ ایک بے ارادہ کی گئی غلطی اور اس انتقام کی آگ میں جلتی ابایومی ۔۔۔ ایک پورا گھرانہ اجاڑ چکی تھی اور اب بھی جان چھوڑنے پر تیار نہ تھی ۔۔ خدا جانے ہمدانی اس عذاب سے کیسے نکل سکیں گے۔ ۔۔۔ اللہ کرے طاہر علیمی کے مرشد کچھ کرسکیں۔۔ میرا تجسس قدرے کم تھا کئی سوالوں کے جواب مل چکے تھے ۔۔اس لئے طبعیت میں بحالی محسوس ہوئی۔۔ 
رات کے تین بج چکے تھے ۔۔
میں نے آغا جانی سے اجازت لیتے ہوئے کہا کہ مجھے آفس میں ضروری کام ہے کل دن میں دو ڈھائی بجے تک واپس آجاؤں گا ۔۔۔
میرا نمبر سیو کرلیں ۔۔۔
اگر ضرورت ہو تو کال کر لیجئے گا ۔ ۔ 
میں کچھ گھنٹے سو لوں ۔۔۔
آپ بھی آرام کرلیں ۔۔۔ 

      آغا جانی دعائیں دیتی زیبی کے کمرے کی طرف بڑھیں اور بولیں ۔۔۔ اذان میاں جیتے رہیں آپ آرام کریں ۔۔ہم زیبی کو دیکھ لیں پھر عبادت کے احاطے میں ارام کے لئے جائیں گے ۔۔۔ 
شب بخیر کہہ کر میں لان میں آ کر ہری گھاس پر لیٹ گیا ۔۔۔

         کھلی زمین اور کھلا آسمان ۔۔۔ کس قدر وسعت لیے بے اپنے اندر ۔۔۔دنیا ۔۔دنیا میں ایک اور دنیا ۔۔۔انسان اور بیشمار رب کی تخلیقات۔۔۔کون کون سی مخلوق کس۔ روپ میں ہے کون جان سکتا ہے ۔۔۔ وہ جو نظر آتیں ہیں ۔۔۔اور جو نظر نہیں آرہیں آن سے کیسے بچا جا سکتا ہے ۔۔ یہ خیال آتے ہی میں نے امی کو کال کی ۔۔۔ بیل جا رہی تھی مگر امی نے کال ریسیو نہیں کی ۔۔۔اوہ رات کے تین بجے ہیں سو رہیں ہوں شائد مگر اگلے ہی لمحے امی کی کال تھی ۔۔۔خیر خیریت کے بعد دم کروایا ۔۔۔اور پر سکون ہوگیا ۔۔۔ وہ تہجد کے لیے اٹھی ہوں گی ۔۔۔میں نے کہہ دیا تھا ایک دوست کی بہن اسپتال میں ہیں اس کے ساتھ رکا ہوں اس لئے میں بھی اس وقت تک جاگ رہا ہوں ۔

        صبح فیکٹری گیا واپسی تین بجے تک اسپتال۔۔۔
 آغا جانی منتظر تھیں انھوں نے بتایا کہ پیر صاحب شام پانچ بجے تک آئیں گے۔۔۔ شائد آج یہ معاملہ حل ہو جائے ۔۔

             شام پانچ بجے طاہر علیمی ایک باریش بزرگ کے ساتھ آئے ۔۔ بعد مصافحہ طاہر علیمی نے تعارف کرایا وہ جامعہ نعیمیہ میں مدرس ہیں ۔۔اور عامل بھی ۔۔ پیر فرقان حیدر۔۔

       فرقان صاحب نے آغا جانی سے زیبا کے متعلق معلومات لیں۔۔۔۔ پھر گویا ہوئے ۔۔۔
صبیحہ بہن یہ تمام معاملات مجھے طاہر کی زبانی معلوم ہوئے ہیں ۔۔۔ اور میں نے موکلات کے زریعے بھی معلومات اکھٹی کیں ہیں ۔۔۔۔ وہ عفریت اس وقت بہت طاقتور ہو چکی ہے ۔۔ کیونکہ اس وقت سے جب تک زیبا کے گلے میں وہ تعویذ تھا تب تک اس نے کوئی جسم اختیار نہیں کیا ہے وہ اس بلی کے جسم میں رہی ہے یا اب زیبا پر مسلط ہے ۔۔
اس کا وہ بلی کا جسم جہاں دبایا گیا ہے وہ بھی کوئی قبرستان ہے جو مزید بد روحوں کا گڑھ تھا ان کی تمام طاقتیں اب ابایومی کو حاصل ہیں ۔۔ 
کسی طرح اس جسم کو نذرِ آتش کرنا ہوگا ۔۔

            مگر فرقان صاحب اس کا بدلہ تو پورا ہوگیا پھر وہ اس خاندان کا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتی ؟ میں نے پوچھا۔۔

           بیٹا یہ مخلوقات اور ان کے انتقام نسلوں میں سفر کرتے ہیں یہ اتنی آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑتی۔۔ اللہ بچی کی عمر دراز کرے لیکن اگر وہ زیبا کو مارنے میں کامیاب ہوگئی تب بھی اس کی بد نظر اس خاندان پر رہے گی اور کوئی نہ کوئی بربادی دیکھنی پڑے گی ۔۔۔ میرے علم کے مطابق بس ایک ہفتہ اور ہے وہ کسی خاص دن کے انتظار میں ہے جب وہ زیبا کی روح کا تعلق اس کے جسم سے مکمل توڑ دے ۔۔۔۔۔

میں نے پھر سوال کیا کہ اس کا بدلہ آغا جان سے تھا ۔۔ اس نے زیبا کے شوہر کی جان کیوں لی ؟
 
وہ کچھ دیر خاموش رہے ۔۔ پھر بولے ۔۔۔ موکلات کی معلومات کے مطابق ۔۔۔

            اس رات رضا جب کمرے میں گیا تو زیبا سورہی تھی اس کو یاد آیا کہ آج زیبا پر جو عملیات آغا جان نے بتائے تھے وہ نہیں کئے ہیں لہذہ رضانے وہ عملیات وظائف شروع کئے ۔۔۔ رضا کے وظائف سے زیبا اٹھ بیٹھی اور اس نے حد درجہ بہکانے کی کوشش کی مگر رضا کے مستقل پڑھتے رہنے سے وہ مشتعل ہو گئی ۔۔۔۔۔۔ رضا نے پانی پڑھ کر چھینٹے مارے تو اس کو آگ لگانے لگی اور وہ تڑپنے لگی ۔۔۔ رضا سے بس یہاں غلطی ہوگئی ۔۔۔۔ محبت میں رضا سے زیبا کی تکلیف برداشت نہ ہوئی اور اس نے عمل روک دیا۔۔۔۔۔۔

           رضا نے آگے بڑھ کر اس کے زخم دیکھنا چاہے تو وہ اپنے روپ میں ظاہر ہوگئی۔۔۔۔۔۔ اور رضا کو شوہر کے ساتھ کوئی عامل سمجھی اور وار پر وار کرنے لگی رضا سنبھل نہیں پایا ۔۔۔اور ناگہانی اس عفریت کا شکار بن گیا ۔۔۔

            اوہ ۔۔۔ رضا سنجرانی کی نا گہانی موت کا مجھے دل افسوس ہے ۔۔۔ محبت نے اس کی جان لے لی وہ بھی اتنی سفاکی سے ۔۔۔۔۔

           تو اب آپ ہماری کیا مدد کر سکتے ہیں۔۔ فرقان بھائی میری بچی کی حالت نازک ہے کچھ کریں ۔۔
اتنا کہہ کر آغا جانی رونے لگیں ۔۔۔

فرقان صاحب کہنے لگے ۔۔۔

             بہن آپ کی بچی کی روح اب اس عفریت کی قید میں ہے ۔۔اس کے جسم سے اس کا رشتہ ٹوٹ رہا ہے۔۔۔۔۔۔بیشک اللہ کے کلام میں بہت طاقت ہے بہت اثر ہے مگر ہم لا علم ہیں کہ اس کو کیسے قابو کیا جائے ۔۔۔ یہ کوئی چھوٹی موٹی چیز نہیں ہے بہن ۔۔۔ میں آپ کو کوئی امید نہیں دلا سکتا وہ عفریت بے حد قوتوں کی مالک ہے اور اس کی سفاکیت کا اندازہ ہے آپ لوگو کو ۔۔۔۔۔۔۔وہ پہلے ہی مصر کے جادوگروں کی ملکہ رہی ہے دیوی مانتے ہیں وہاں کے لوگ اسے ۔۔۔۔۔ اس کا چہرہ بلی اور دھڑ عورت کا ہوتا تھا ۔۔۔۔ اور اب بری طاقتوں اور شیطانی عملیات کی وجہ سے اس کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ۔۔۔کوشش کر کے سب سے پہلے اس بلی کا جسم نظرِ آتش کروائیں ۔۔۔ شائد اس سے وہ کچھ کمزور پڑے ۔۔۔
 
          یہ تمام باتیں سن کہ مجھ سمیت آغا جانی کی رہی سہی امید بھی ٹوٹ گئی ...انھیں دلاسہ دیتا تو کیسے؟؟؟ مجھے خود بے حد افسوس تھا ۔۔ ہم تو یہ سوچ رہے تھے کہ مرشد فرقان شائد ابایومی سے نجات دلا سکیں ۔۔۔ مگر اب ۔۔۔

کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا...
میں اور آغا جانی کئے گھنٹے سن سناٹے میں بیٹھے رہے ۔۔۔ اچانک انھیں جیسے کچھ یاد آیا ۔۔۔ انھوں نے وجاہت کو کال ملائی ۔۔۔ 

          وجاہت بیٹا آپ کہاں ہیں ؟ وہ سکھر میں تھا اور کل کراچی پہنچنے والا تھا ۔
 
   وجاہت آپ کراچی نہ آئیں ۔۔ آپ فیصل آباد جائیں اور خیر دین سے ملیں ۔۔۔ اور اس سے پوچھیں اس منحوس کا جسم خیر دین نے کہاں دفنایا ہے ۔۔۔ اس کو تلاش کر کے نذزِ آتش کریں ۔۔۔ زیبی کی زندگی کے لیے بہت ضروری ہے ۔۔۔ وہ دیر تک روتی رہیں۔۔۔ وجاہت کو مرشد فرقان کی دی ہوئی معلومات فراہم کی ۔۔۔

        میں نے دل سے دعا کی کہ وہ جسم مل جائے اور وجاہت اسے جلا سکیں۔۔

مغرب کی نماز کے بعد میں لان کی بینچ پر سگریٹ پی رہا تھا کہ فارمیسی پر ایک آدمی آیا ۔۔۔ غور کیا تو وہ زاہد تھا ہماری فیکٹری میں ورکر ۔۔۔ میں نے اسے آواز دی ۔۔۔
زاہد سب خیریت ؟ تم یہاں ؟ کون بیمار ہے ؟ 
بس یار خیریت ہی تو نہیں ہے ۔۔ بڑی آپا کی طبیعت خراب ہے ۔۔۔
کیا ہوا انھیں ؟
یار انھیں پانی کی کمی ہے ۔۔۔ ان کے ہاتھ پاؤں ٹیڑھے ہونے لگتے ہیں موسم بھی گرم ہے ۔۔۔ گردوں کی بھی تکلیف ہے جس کی وجہ سے آئے دن چہرہ آنکھیں ہونٹ سب سوج جاتے ہیں ۔۔۔ پہچانی نہیں جاتیں یہ بڑی آپا ہیں ۔۔
اوہ بہت افسوس ہوا سن کر ۔۔۔ کب سے یہ حالت ہے ؟
یار زمانہ ہوگیا ۔۔۔ میاں بچے سب عاجز ہیں در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ کوئی اُپری چکر نہیں ہے بلکہ قابلِ علاج بیماری ہے ۔۔تو اب یہاں لائے ہیں پہلے سے بہت بہتر ہیں ۔۔۔
اوہ تو تم لوگ سمجھتے رہے کہ کوئی اثرات ہیں ؟
ہاں یار ہمیشہ سے یہ ہی سنتے آئے ہیں فلاں پہ جن چڑھ گیا اس کے ہاتھ پاؤں مڑ گئے ۔۔۔ فلاں کی شکل بدل گئی ۔۔ فلاں کی آواز بدل گئی ۔۔۔ انہی واہیات بکواس کو ذہن میں رکھ کر کبھی تو فیق نہیں ہوئی یہ سوچنے کی کہ یہ بیماری بھی ہو سکتی ہے ۔۔۔ کون سا مزار کون سا بابا کونسا عامل نہیں چھوڑا ہم نے ۔۔۔ مگر آج کل سب کے سب شعبدہ باز ہیں ۔۔۔ اگر تم بیمار نہیں بھی ہوگے نا یہ تمھیں ایسے راگ دیں گے کہ تمھارے کندھے بھاری ہونے لگیں گے ۔۔۔

ہم دونوں ہنس پڑے ۔۔۔

          وہ تو شکر ہوا ہم ایک جگہ گئے ۔۔ تو انھوں نے ڈانٹ کر بھگایا کہ لے کر جاؤ انھیں ڈاکٹر کو دکھاؤ کوئی جن بھوت نہیں ہے اس پر ۔۔۔ وہ ہیں تو ایسے ہی مگر جن اتارتے ہیں بہت کامل ہیں ۔۔
یہ سن کر میرے کان کھڑے ہوگئے ۔۔۔
اچھا ؟؟ کہاں ہیں ؟؟ کیا مجھے ان کا ایڈریس دے سکتے ہو ؟
کیوں بھائی خیریت ؟ 
ہاں میں ملنا چاہتا ہوں ۔۔۔
مگر کیوں ؟
یار مجھے لگتا ہے مجھ پر کسی نے کچھ کرا دیا ہے ۔۔۔ بندش وغیرہ ۔۔۔ کام میں جی نہیں لگتا ۔۔۔ میں نے بہانہ گھڑا ۔۔۔
ارے یار وہ نہیں دیکھیں گے ۔۔ ان کے یہ کام ہی نہیں ۔۔۔ بیماری جھپیٹا جادو ساس نندوں کے جھگڑے بندش سب کو بھگا دیتے ہیں وہ ۔۔۔ وہ بس جن اتارتے ہیں ۔۔۔
اوہو تم اس بات کو چھوڑو یار وہ بھگاتے ہیں یا بیٹھاتے ہیں تم ایڈریس دو مجھے ملنا بہت ضروری ہے ۔۔ 
زاہد منہ کھولے مجھے دیکھنے لگا ۔۔ پھر ایڈریس سمجھایا ۔۔۔ کراچی ائیر پورٹ جاتے ہوئے ایک قبرستان پڑتا ہے ۔۔۔ عظیم پورہ قبرستان ۔۔ بس وہیں ان کی کٹیا ہے ۔۔دو بھائی ہیں وہیں رہتے ہیں۔۔۔

           مجھے کیونکہ کراچی گھومنے اور یہاں کے راستوں کا اتنا علم نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ اس لئے ایڈریس ٹھیک سے سمجھ نہیں آیا ۔۔۔اور زاہد کا فون نمبر لے لیا ۔۔۔
کیا تم کسی دن مجھے وہاں لے جا سکتے ہو ؟ یار میں گھر سے نوکری ۔۔۔۔۔نوکری سے گھر والا بندہ ہوں مجھے اتنی دور کے راستوں کا پتا نہیں ۔۔۔ بھٹک گیا تو اور مصیبت ۔۔۔

ھمممم اچھا ۔۔۔ کل ظہر میں چلو ۔۔۔ فری ہو؟

ہاں مگر 3 بجے کے بعد کا رکھو ۔۔۔ فیکٹری سے آنے کے بعد ۔۔۔ مگر تمھاری چھٹی تو 8 تک ہوتی ہے ؟؟؟
ہاں مگر میں 4 دن کی چھٹی پر ہوں اس لئے کل دن میں تمھیں وہ جگہ دکھا دیتا ہوں ۔۔۔

   مجھے امید بندھ گئی تھی ۔۔۔ اللہ کے لئے کچھ مشکل نہیں وہ مسبب الاسباب ہے کہیں سے ایک در بند ہو وہ سو راستے کھول دیتا ہے ۔۔۔ ظلم کی رسی چاہے جتنی دراز ہو جب اللہ رسی کھنچتا ہے تو ظلم کو کہیں جاہِ پناہ نہیں ملتی ۔۔۔ وہ رب رحمن و رحیم ہے ۔۔۔اس وقت زاہد کا یہاں اس طرح مل جانا شائد قدرت کا ایک اشارہ ہے ۔۔ 

          میں ایک نئی امید کے ساتھ آغا جانی کی طرف روانہ ہوا ۔۔۔
نرس کہہ رہی تھی کہ اسے سمجھ نہیں آرہا بار بار مشین زیبا کو مردہ ظاہر کرتی ہے کچھ سیکنڈ کے لئے مگر پھر نارمل ۔۔۔ آپ دعا کریں ۔۔۔
آغا جانی کے آنسو بھی خشک ہوچکے تھے ۔۔۔ وہ خالی نظروں سے مجھے دیکھنے لگیں۔۔۔ میرا بھی دل بھر آیا ۔۔۔ میں ان کا ہاتھ تھام کے ان۔کے نزدیک بیٹھا اور زاہد سے ہونے والی تمام گفتگو ان کے گوش گزار کی ۔۔۔ مگر آغا جانی کی آنکھوں میں مایوسی کے سائے منڈلاتے دیکھے ۔۔۔ میں رات گئے تک تسلی دیتا رہا اور کل عظیم پورہ جانے کے بارے میں بتایا ۔۔۔

         وہ بہت ٹوٹ چکیں تھیں بولیں اذان میاں آپ آرام کیجئے ہم عبادت کے احاطے میں آخری فریاد کرنا چاہتے ہیں اللہ ہماری مامتا کو صبر دے ۔۔۔۔
آغا جانی کی اس بات نے مجھے بھی رنج میں مبتلا کردیا تھا مگر اندر کہیں امید کا ایک دیہ جل چکا تھا۔ عظیم پورہ کا قبرستان۔۔۔۔

            دوسرے دن فیکٹری کے بعد زاہد کو کال کر کے میں نے شاہراہِ فیصل بلا لیا اور وہاں سے ہم دونوں ساتھ عظیم پورہ روانہ ہوئے ۔۔۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کچھ لوگ پہلے سے آئے ہوئے تھے ۔۔۔ہم با ادب بیٹھ گئے۔۔ میں ان کا اور چاروں طرف کا جائزہ لینے لگا۔۔۔

         بہت معمولی لباس میں دو باریش بزرگ تھے ۔۔ ایک قدرے چھوٹے لگ رہے تھے ایک چبوترے پر براجمان تھے ۔۔۔ اطراف پودے جھاڑیاں ۔۔۔۔۔۔ یہ کچھ جگہ بھی جھاڑیاں صاف کر کے ہی رہنے کے قابل بنائی گئی تھی ۔۔۔ یہ علاقہ قبرستان سے متصل تھا مجھے عجیب سا محسوس ہورہا تھا ۔۔بوسیدہ سی پرانی جُگّی۔۔۔ پتھروں اور شاخوں پر الٹی ہوئی پتیلیاں کچھ کپ ۔۔کیتلی ۔۔۔ رات میں یہ جگہ کسقدر خوفناک لگتی ہوگی ؟؟ ابھی بھی کچھ کم نہیں تھی ۔۔
اچانک ایک ہنکارا بھرنے کی آواز میرے کانوں کو سن کر گئی ۔۔۔ یہ آواز ایک بچے کی تھی اس کی فیملی اسے لائی ہوئی تھی ابا بھائی یا کزنز ہونگے ۔۔۔ بابا نے کہا اس کے ہاتھ پاؤں پکڑ لیں ۔۔۔ چھوڑنا نہیں ۔۔۔

        ہاں بھئی جلدی جلدی بول کہاں سے اور کیوں آیا ہے ؟ اس بچے پر کیوں سوار ہے ؟؟

 بچہ کوئی دس بارہ سال کا تھا مگر وہ زور اتنا لگا رہا تھا کہ اس کو چار ہٹے کٹے مرد قابو کئے ہوئے تھے ۔۔۔اور وہ سانپ کی طرح بل کھا رہا تھا اینٹھ رہا تھا اور مستقل ہنکارے بھر رہا ۔۔۔
اس نے زبان نہ کھولی۔۔۔

اچھا ۔۔۔۔ نہیں بولے گا ۔۔۔ بھائی ان کی خاطر کا سامان لاؤ ۔۔۔
ایک بندہ انگیٹھی میں سلگتے کوئلے لے آیا ۔۔۔
بابا نے کسی چیز کی مٹھی بھری اور پڑھ کر کچھ پھونکا ۔۔۔ مٹھی کوئلوں پر ماری تو آگ بھڑک اٹھی ۔۔۔
نہیں بولے گا ابھی بھی سوچ لے ۔۔ پھر نہ کہیو کہ شاہ جی نے موقع نہ دیا ۔۔۔راہ نہ دی یہ دیکھ ۔۔۔

شاہ جی نے سلگتے انگارے ہتھیلی پر اٹھاتے ہوئے کہا۔۔۔

بڑا زعم ہے ناں تجھ کو ۔۔ تو آگ سے بنا ہے ہم خاک سے ۔۔ لا ہاتھ دے تیرا امتحان بھی تو لیں ۔۔۔ لا ہاتھ دے 

وہ سلگتے لال انگاروں کو اپنے ہاتھ میں یوں لئے تھے جیسے انگارے نہیں بیر ہیں ۔۔۔
وہ ڈھیٹ بچہ نہ بولا بل کھاتا رہا ۔۔۔

         اچھا اب سمجھا تجھے آگ سے کیا ڈرنا لاؤ بھئی لاو زرا چمٹا تو دینا میرا ۔۔۔ اس کے جسم کو پینتیس جگہ سے داغنا پڑے گا بھائی ۔۔۔ جب یہ جن جان چھوڑے گا اس معصوم بچے کی ۔۔۔

ایک لوہے کا بڑا سا چمٹا آگیا ۔۔۔ شاہ جی نے اسے کوئلوں پر رکھ کر تپایا جب وہ سرخ ہوگیا تو ہاتھ میں لے کر۔ اس کی نوک جو تپ تپ کے سرخ ہو رہی تھی اس پر اپنی زبان پھرائی ۔ 

     اففففففف چُھن چُھن آواز آئی جیسے گرم توے پر پانی ڈالنے سے آتی ہے ۔۔۔

       اب تیری باری ہے بیٹا ۔۔چمٹا تیار ہے۔۔۔ بھئی اس کے کپڑے اتارو کوئی ۔۔۔ دو لوگو نے اس کی قمیض اتاری ۔۔۔اتنے میں بچہ بول پڑا ۔۔۔

یہ نہیں کر میرے ساتھ ۔۔
تو جانتا نہیں مجھے ۔۔۔ 
میں تجھے جلا کر بھسم کردوں گا بڈھے ۔۔۔ 
اگر زرا سا بھی یہ چمٹا جمال کے بدن کو چھوا تو میں تجھے اندھے کنویں میں ڈال دوں گا ۔۔ 
چھوڑ مجھے ۔۔۔ 
باز آجا ۔۔۔

ارے ارے تو بھائی انتظار کیسا جلا مجھے ۔۔۔ 
میں بھی تو دیکھوں تو کتنا بڑا سورما ہے ۔۔ 
تو جلا ورنہ میں تو نہیں رکنے والا اب ۔۔۔ 

یہ کہہ کر شاہ جی اپنی جگہ سے اٹھے اور چمٹا انگیٹھی سے اٹھا کر بچے کے نزدیک پہنچے ۔۔ 
دیکھ آخری مشورہ ہے مان لے ۔۔۔ چمٹا نزدیک ہوا۔۔۔

رک رک ۔۔۔ رک جا ۔۔۔۔ مجھے معاف کردے ۔۔ میں جارہا ہوں ۔۔۔

نہیں بھئی اب تو تو مجھے اندھے کنوئیں میں ڈال یا جلا کر بھسم کر میں نہیں رکنے والا ۔۔۔۔
 یا تو وعدہ کر کہ اس بچے کی جان چھوڑ دے گا واپس کبھی نہیں آئے گا ۔۔۔

ہاں ہاں میں وعدہ کرتا ہوں ۔۔۔ 
اب کبھی نہیں آؤں گا ۔۔۔

اور جو آیا تو ؟ قسم کھا اپنے باپ دادوں کی ۔۔۔

مجھے قسم ہے ہایان اور مالویکی کی ۔۔
 میں اس بچے پر اب کبھی نہیں آؤں گا مجھے معاف کردے شاہ جی۔۔۔

ٹھیک ہے ابھی کے ابھی نکل اس کے جسم سے اور غارت ہو ۔۔پھر کبھی آیا تو موقع نہیں دوں گا ۔۔۔ تیزاب کا ڈرام دیکھ وہ رکھا ۔۔۔۔
اس میں ڈال دوں گا تجھے ۔۔۔ چل بھاگ ۔۔۔
خالد صاحب ۔۔۔ اگر یہ خبیث آپ کے بیٹے پر دوبارہ آئے ۔۔ تو کچھ مت کرنا ۔۔۔ پریشان نہ ہونا ۔۔۔ بس مل کے اس کے کپڑے اتار دینا ۔۔۔۔ اور جو وقت ہو صبح شام آدھی رات ۔۔۔ اس کو گھسیٹ کر گھر سے باہر نکال دینا ۔۔۔۔ بس ۔۔۔ باقی کام ہمارا ہے ۔۔۔

بچے نے درد بھری آوازیں نکالیں ۔۔۔ اینٹھا اور بے ہوش ہوگیا ۔۔۔

شاہ جی نے پانی منگایا کچھ پڑھا اور پانی بچے پر چھڑکا ۔۔۔
بچہ تازہ دم ہوگیا ۔۔۔
 
یہ میں کہاں ہوں ؟ 
ابو ۔۔۔۔ بھائی جی ۔۔۔ 
ہم کہاں ہیں ؟ 

شاہ جی زیرِلب مسکرائے ۔۔۔ کہا بیٹا اب تم ٹھیک ہو ۔۔۔ بچو بھائی کو لے جاؤ گاڑی میں بیٹھاو اب یہ بالکل ٹھیک ہے ۔۔ خالد صاحب آپ رکئے گا ۔۔۔۔۔

اسکے بھائی بچے کو لے گئے ۔۔بچہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ہر طرف دیکھتا چلا گیا ۔۔۔

میں یہ سب دم بخود بیٹھا دیکھ رہا تھا ۔۔۔عجیب جن ہے ۔۔۔ اور عجیب جن اتارنے کے طریقے ۔۔۔ کپڑے اتار کر گلی میں نکالنے سے جن ڈر جائے گا ؟؟؟ واپس نہیں آئے گا ؟؟ یا تیزاب سے ڈرے گا ؟؟ یار تیزاب سے تو بچے کا جسم جھلسے گا ۔۔ جن پر کیا فرق پڑے گا ؟؟؟

    مجھے شاہ جی عجیب مسخرے سے لگے ۔۔۔ بات بات پر مسکرا رہے اور جن اتنی آرام سے اتار لئے ۔۔۔ مذاکرات کتنی آسانی سے کر لئے ایک گھنٹے میں جن قابو ۔۔۔ اگر زیبا کے ساتھ بھی ایسا ہو جائے تو کیا ہی بات ہے ۔۔۔
 
       میں اور زاہد مزید قریب ہو کر بیٹھ گئے ۔۔۔ شاہ جی خالد صاحب سے کہہ رہے تھے ۔۔ 

  بیٹا ذیادہ سختی سے کام نہ لو بچہ بہت حساس ہے نفسیاتی مریض بناؤ گے کیا اسے ؟ 
وہ خود پر جن چڑھا کر اس خول میں چھپ جاتا ہے اب تم پھرتے رہوں اس کے لئے خاک چھانتے ۔۔ اس عمر کے بچوں کو توجہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔ اپنا رویہ ٹھیک کرو پیار محبت کرو شفقت سے بات کرو ۔۔ سارے جن ون ختم ۔۔۔

خالد صاحب بولے ۔۔۔ شاہ جی اس کی ماں والا جن تھا اس پر سال پہلے وہ مر گئی تو جن اس کو چمٹ گیا ۔۔۔

ہاں خالد صاحب آپ کے خاندان میں حسن ہی بے پناہ ہے ۔۔۔کیا کریں جن بچارے ۔۔۔. وہ پھر مسکرائے۔۔۔

خالد صاحب شاہ جی کے ہاتھ جی جی کر کے چومتے رخصت ہوئے ۔۔۔اب ہماری باری تھی ۔۔۔

ہاں بیٹا آپ میں سے کس کو مسئلہ ہے ؟ 

میں یہ سارا تماشہ دیکھ کر اور شاہ جی کے ذو معنی مضحکہ خیز باتیں سن کر شش وپنج میں تھا کہ زیبا کی جو حالت ہے وہ کسی تجربے کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔۔۔ یہ تو ہنسے مسکرائے جارہے ہیں ۔۔ابایومی کو جھیل پائیں گے یہ ؟ وہ کہاں مہلت دے گی اتنی باتوں کی اور اردو میں مذاکرات وہ کر ہی نہ لے ۔۔۔ میں نے اپنا ارادہ بدل دیا ۔۔۔ اور کہا شاہ جی مجھے مسئلہ ہے ۔۔۔

میں چاہتا ہوں میری نوکری لاہور میں ہو جائے۔۔۔
وہ پھر مسکرائے ۔۔۔ اور ؟؟؟
بس شاہ جی 
سوچ لے بیٹا ۔۔ آرام سے 

بس شاہ جی یہ ہی مسئلہ ہے ۔۔ امی لاہور میں۔۔۔ میں نوکری کے لئے یہاں ۔۔۔ شاہ جی نے ہاتھ اٹھا کر مجھے چپ رہنے کا اشارہ دیا۔۔۔

بیٹا ہم تو جن اتارتے ہیں ۔۔۔ اگر تم پر کوئی جن ہے تو بتاؤ آگ گرم ہے ابھی اتار دیں ؟ یا کسی اور پر جن ہے تو اسے لے آؤ اس کے جن اتار دیں ۔۔۔

نہیں نہیں شاہ جی کسی پر جن نہیں ہیں ۔۔
اچھا میاں ۔۔۔ ہم تو سوچ رہے تھے انٹرنیشنل جنوں سے بھی کچھ راہ و رسم بڑھائیں مگر تمھاری مرضی ۔۔۔

میں جانے کے لئے کھڑا ہوگیا ۔۔ مصافحہ کیا تو کہنے لگے ۔۔۔۔
صرف پانچ دن ہیں ۔۔۔ زندگی چاہتے ہو تو لے آنا لڑکی کو ۔۔۔ تم اندازے بہت لگاتے ہو ۔۔۔ 

شاہ جی مسلسل مسکرائے جارہے تھے ۔۔۔
اور میں بت بنا حیران کہ ان کو کیسے پتا کہ میں کسی لڑکی کا مسئلہ لیکر آیا تھا ۔۔۔ اور دل۔میں ان کے لئے اندازے لگا کر بات گول کر گیا ۔۔۔

شاہ جی آپ ۔۔ زیبا ۔۔۔
ہاں اور تو محمد علی ؟؟؟

اور ہنس پڑے سب کے سب مجھ سمیت۔۔۔

بیٹا اتنے اندازے مت لگایا کر۔۔۔ جمال پر کوئی جن نہیں تھا ۔۔ اس نے آنکھ کھول کر ماں کے یہ ہی ناٹک دیکھے ہیں ۔۔۔ شوہر کی مار اور ذمہ داریوں سے بچنے کے لئے اکثر عورتوں کے پاس یہ ہی طریقہ ہوتا ہے۔۔۔
اماں کے مرنے کے بعد وہی نقلی جن اس پر عاشق ہو گیا پڑھائی سے بھی جان بچی اور مار پیٹ سے بھی گلو خلاصی ۔۔۔ ہر مرض پریت و آسیب نہیں ہوتے مگر جو ہوتے ہیں ان کی حالت تم نے دیکھ ہی لی ہے ۔۔ کوشش کرو بچی کو لے آؤ ۔۔

   شاہ جی جب اتنا کچھ جانتے ہیں تو آپ کو علم ہوگا مشینوں میں جکڑی ہوئی ہے وہ ۔۔ موت اور زندگی کے بیچوں بیچ لٹک رہی ہے اس حال میں اسپتال سے چھٹی اور اس کی فیملی کیسے مانے گی ۔۔۔ کیا آپ میرے ساتھ نہیں چل سکتے ؟ 

 بیٹا ہر کام کے کچھ اصول و ضوابط ہو تے ہیں ۔۔۔ معدے کا آپریشن نائی کی دوکان پر نہیں ہوتا اور قصائی کی دوکان پر شیو نہیں بنتی ۔۔۔ کام کرنے کی ایک مخصوص جگہ اور ماحول ہوتا ہے ۔۔۔جگہ کی سرزمین کی بھی اپنی ایک تاثیر ہوتی ہے ۔۔ بھئی ہم نے تو اپنی کہہ دی اب تم جانو اور وہ ۔۔۔۔ 

پسند ہے کیا ؟؟

نن نہیں تو شاہ جی ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔
اچھی بات ہے ۔۔ اصل سے خطا نہیں ۔۔۔کم نسل سے وفا نہیں ۔۔۔ تمھاری مخلصی مجھے بھا گئی ہے ۔۔ بے لوث خدمت کے جذبات آج کل کم ہی لوگوں میں ہیں مگر دنیا ابھی خالی نہیں ہوئی ایسے لوگوں سے ۔۔۔

 اپنے بارے میں شاہ جی کے تاثرات جان کے بڑی خوشی ہوئی مجھے ۔۔۔ مولا نے بھرم قائم رکھا میرا ۔۔۔ بخدا ان دنوں میں نے کبھی زیبا کے متعلق ایسا نہ سوچا تھا ۔۔۔۔ مجھے ہمدردی تھی اس سے ۔۔۔ اس سے ذیادہ آغا جانی سے ۔۔۔ میری امی جیسی ہیں ۔۔ امی سے دوری شائد مجھے ان کے قریب لے آئی ۔۔۔ وہ ویسے بھی بہت شفیق خاتون ہیں ۔۔۔

واپسی پر عشاء میں نے اسپتال کی مسجد میں ادا کی ۔۔۔آغا جانی عبادت کے احاطے میں تھیں ۔۔۔ اب یہ ایک مشکل مرحلہ تھا کہ آغا جانی کو عظیم پورہ کے جانے کے لیے کیسے راضی کیا جائے ۔۔۔ میں ان کے پاس کچھ دیر بیٹھا رہا ۔۔۔ وہ اتنی مایوس تھیں کہ انھوں نے دریافت بھی نہ کیا کہ میں کیا خبر لایا ہوں ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد میں کینٹین سے چائے بسکٹ لے آیا اور آغا جانی کو باہر زیبا کے روم سے نزدیک بینچ پر بٹھایا ۔۔۔ 

 آغا جانی وجاہت صاحب کی کال آئی ؟ وہ فیصل آباد پہنچ گئے ؟ انھوں نے گردن کے اشارے سے ہاں کی ۔۔۔

مجھ سے اور صبر نہ ہوا اور میں نے دن بھر کی رپورٹ آغا جانی کو پیش کردی ۔۔۔ شاہ جی کے بارے میں سن کر ان کی آنکھیں چمکیں مگر جب انھیں اس بات کا علم ہوا کہ شاہ جی یہاں نہیں آئیں گے بلکہ زیبا کو وہاں لے جانا پڑے گا ۔۔ تو وہ بجھ کر رہ گئیں ۔۔۔

     اذان میاں آپ زیبی کی حالت دیکھ رہے ہیں ؟ مستقل مانیٹرنگ ہورہی ہے بلڈ پریشر ہارٹ بیٹ اس حالت میں زیبی کیسے جاسکتی ہے ۔۔۔

    آغا جانی کچھ بھی کریں ایک بار میرے کہنے پر زیبا کو وہاں لے چلیں ۔۔۔ مجھے یقین ہے ہم وہاں سے نا امید نہیں ہوں گے ۔۔ 
 
     اذان میاں مگر ۔۔۔

آغا جانی 5 روز کا وقت ہے ۔۔۔ مرشد فرقان نے بھی ایک ہفتہ کہا تھا ۔۔۔ زیبا اب بھی مشینوں پر زندہ ہے۔ ۔ یہ 5 دن گزر گئے تو پھر کوئی کچھ نہیں کر پائے گا اور زیبا یہاں رہی تو بھی کون سی ٹھیک ہو رہی ہے ؟ جب اس کی جان کے لالے ہیں ہی تو ایک بار کیوں نہ وہاں چل کر دیکھ لیں ۔۔ آغا جانی کہیں کوئی انہونی ہوگئی تو صرف پچھتاوے رہ جائیں گے جیسے آپ آج بھی سوچتی ہیں کہ کاش زیبی کے ساتھ آپ پارلر چلی جاتیں ۔۔۔

ایک آنسو آغا جانی کی آنکھ کی قید سے نکل کر چہرے پہ بہتا چلا گیا ۔۔۔ آغا جانی نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی ۔۔۔
 
آغا جانی آپ میرے لئے امی جیسی ہیں ۔۔۔ اور زیبا میری بہن ۔۔۔ وجاہت صاحب یہاں نہیں ہیں تو شائد اللہ نے مجھے اس کام کے لئے چنا اور یہ تمام حقیقت میرے سامنے افشاں ہوئی ۔۔۔۔ آپ خدا کے لیے مجھ پر بھروسہ رکھیں اللہ مدد گار ہے وہ چاہے تو کیا ممکن نہیں اس کو ہر امر پہ قدرت حاصل ہے ۔۔۔ اندھیرے کو روشنی میں بدلنے والے سے مجھے پوری امید ہے کہ اس بار جیت خیر کی ہوگی ۔۔۔

آغا جانی کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔۔۔ انھوں نے کہا میں وجاہت سے بات کرلوں ۔۔۔ میں تیار ہوں ۔۔۔ ہم زیبی کو عظیم پورہ ضرور لیکر جائیں گے ۔۔۔۔

افففف شکر خدا کا آغاجانی راضی ہو گئیں بس اب وجاہت صاحب مان جائیں تو کوئی مشکل نہ رہے ۔۔۔ مجھے شاہ جی سے ایک عقیدت اور امید محسوس ہورہی تھی ۔۔۔ میرا دل گواہی دے رہا تھا کہ اب کچھ غلط نہیں ہوگا ۔۔۔ 

نرس پریشانی کے عالم میں دوڑتی ہوئی آئی اور اس نے مجھ سے کہا ۔۔۔ 
سلمیٰ سید 
جاری ہے

─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─