┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄
بِلّی 🐈
از سلمی سید
قسط 5
مومن کی دعا اگر مومن کے حق میں پیٹھ پیچھے خلوصِ دل سے مانگی جائے تو رب کبھی مایوس نہیں لوٹاتا اس بات پر مجھے یقینِ کامل ہے ۔۔۔ میں نے دیوار سے ٹیک لگا کے پاؤں سیدھے کئے اور پتا نہیں کب دل ہی دل دعا کرتے میری آنکھ لگ گئی۔۔۔
صبح گیارہ بجے میری آنکھ کھلی ۔۔۔۔۔کوئی بہت خوبصورت آواز میں کلام پاک کی تلاوت کرہا تھا ۔۔۔اتنی میٹھی آواز اتنی حسین قرآت۔۔ لہجہ میں محبت ۔۔۔ بہت پر سکون ماحول تھا ۔۔ فون کی بیل بجی ۔۔۔وجاہت ہمدانی ؟؟ مگر کیوں ؟؟
جی سر ؟؟
اذان صاحب آپ کہاں ہیں آغا جانی کے پاس آپ کا نمبر نہیں ہے انھوں نے مجھے کال کر کے کہا ۔۔۔ آپ گھر پر ہیں کیا؟؟
نہیں نہیں میں مسجد میں ہوں میں سوگیا تھا معزرت خواہ ہوں۔۔۔۔۔
کوئی بات نہیں ۔۔۔
جائیں وہ آپ کا انتظار کر رہیں ہیں ۔۔۔۔
اوہ شائد زیبی کو ڈسچارج کر رہے ہوں ۔۔۔۔
جی جی میں جاتا ہوں اسپتال کی مسجد میں ہی ہوں میں ۔۔۔ کال منقطع۔۔۔
عجیب آدمی ہے ۔۔
میں وارڈ کی طرف روانہ ہوا آغا جانی میری منتظر تھیں ۔۔۔اذان میاں خوب نیند آئی آپ کو ؟؟
معذرت آغا جانی ۔۔۔
ارے نہیں بیٹا ۔۔ہمیں احساس ہے ۔۔یہ آپ کی اعلی ظرفی اور بہترین تربیت ہے جو آپ نے بغیر کسی مطلب کے بے لوث ہماری مدد کی ہماری وجہ سے ہمارے ساتھ پریشانی جھیلی ۔۔۔۔انھوں نے بڑھ کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا مجھے امی کی بے حد یاد آئی میں نے نم آنکھوں سے ان کے ہاتھ کی پشت پر بوسہ دیا ۔۔۔۔
خوش رہیں ۔۔۔بہت ترقی کریں اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔۔۔آپ یہ ہی سمجھیں ایک ماں آپ کی کراچی میں بھی ہیں ۔۔۔دل چھوٹا نہ کریں ۔۔ ہم جو ہیں ۔۔ کتنی شفیق مہربان مسکراہٹ تھی ۔۔۔ مائیں ایک سی ہوتیں ہیں آغا جانی کو اندازہ ہو گیا تھا میں امی کو یاد کر رہا ہوں ۔۔
یہ کام روزگار کی دوڑ دھوپ نہ ہو تو میں ایک دن مزید کراچی میں رہنا گوارہ نہ کروں مگر نوکری ہے مجبوری ہے ورنہ اولاد چاہے خود والدین کیوں نہ بن جائے کبھی ماں کی نرم آغوش چھوڑنا نہیں چاہتی ۔۔
ڈاکٹر .. زیبا کی ڈسچارج شیٹ تیار کر چکا تھا ۔۔وہ ابھی بھی بے ہوش تھی مجھے اس کی حالت پر بہت ترس آیا ۔۔۔ بے جان نازک بدن اسٹریچر کے شکنجوں میں جکڑا ہوا ۔۔اللہ اس پر رحم کر ۔۔۔
اگلے ہی لمحے رضا کار پر کیا گیا حملہ ذہن میں گھوم گیا اور ان شکنجوں پر شکر ادا کیا ۔۔۔
ایمبولینس میں زیبا اور میری گاڑی میں آغا جانی ۔۔ ہم ہمدانی ہاؤس پہنچے رضا کاروں نے ادھ مری لڑکی کو اسی تعفن زدہ کمرے میں ڈال دیا ۔۔۔اور آغا جانی نے اس کے دوسرے پاؤں میں زنجیر۔۔۔
مقفل۔۔
آج اتوار کا دن تھا فیکٹری تو جانا نہیں تھا میں آغا جانی سے اجازت لیکر گھر روانہ ہوا ۔۔۔ بے حد تھکن تھی ۔۔ لنچ کے بعد سونا چاہا مگر اب سوگیا تو رات جاگتے گزرے گی اور اکیلے جاگنے سے مجھے ویسے ہی وحشت ہوتی تھی کچھ دیر ٹی وی دیکھا ۔۔۔ پھر سوچا امی سے بات کروں ۔۔ بہت مس کر رہا تھا ۔۔۔
کیسی ہیں امی ؟
مولا کا کرم ۔۔ تم بتاؤ ۔۔ کیسے ہو طبعیت ٹھیک ہے ؟ کیا بات ہے بیٹا ؟
کچھ نہیں امی ۔۔۔۔ میری آواز بھاری ہونے لگی ۔۔
اذان میرے بچے مجھے بتاؤ کیا بات ہے ۔۔ دیکھو یوں پریشان مت کرو مجھے ۔۔
امی کچھ نہیں ناں ۔۔۔ بس آپ کی کمی محسوس کر رہا ہوں فیکٹری میں درخواست دیتا ہوں چھٹی کی ....چکر لگاتا ہوں گھر ۔۔ بہت دن ہوگئے ۔۔۔۔
مجھے پتا ہے امی مسکرائیں ہیں۔۔۔
ہاں میری جان چھٹی لو اور آجاؤ میں تو کہتی ہوں یہیں نوکری دیکھ لو ۔۔۔
جی امی ۔۔اتا ہوں پھر دیکھتے ہیں ۔۔ اور سنائیں ۔۔۔
بہت دیر تک امی سے باتیں کر کے دل ہلکا پھلکا سا ہوگیا ۔۔۔
اتوار کا دن ہی ایسا ہے کہ جی بھر کے بات ہو پاتی ہے۔۔۔
پیر کی صبح فیکٹری پہنچا تو اکثر لوگوں نے میرے اس رشتے دار کی خیریت دریافت کی اور صحتیابی کیلئے دعا دی ۔۔ میں دل ہی دل مسکراتا رہا ۔۔۔ کام دگنا ہو گیا تھا دو دن کی چھٹی سے ۔۔۔میں چھٹی کرتا ہی نہیں تھا یہاں ایسا کچھ تھا ہی نہیں نہ کوئی رشتہ دار نہ دوست نہ تقریبات چھٹی کرکے بھی کیا کرتا ٹی وی دیکھنے کے لئے ایک دن کی مزدوری کٹوانا حماقت کے سوا کیا تھا سو میری غیر حاضری سبھی نے محسوس کی ۔۔۔
روز کی طرح آج بھی چھے بجے میں ہمدانی ہاؤس میں تھا اور شائد اب مجھے اس بدبو کی عادت ہی پڑ گئی تھی جبھی کم محسوس ہورہی تھی ۔۔ آغا جانی ہال میں ہی تھیں سلام دعا کر کے خیریت لی اور زیبا کے بارے میں پوچھا ۔۔۔
بیٹا کیا کہیں ۔۔ کیسی بے ۔۔ گھر تو لے آئے ہیں بینڈیج بھی بے ہوشی میں ہو سکتی ہے ۔۔ مگر دوا کیسے دیں؟
یہ واقعی ایک غور طلب بات تھی ۔۔
آغا جانی زیبا کے کھانے میں ملا دیں دوا۔۔
آپ کو لگتا ہے وہ کھانا کھاتی ہوگی ؟
وہ صرف دودھ پر زندہ ہیں ۔۔ کبھی میں دم کیا ہوا پانی بھی دودھ میں شامل کردوں تو پیالہ الٹ دیتی ہیں۔۔۔
پھر کیا کیا جائے ۔۔ معدے کے انفکشن کے لئے دوا لازمی ہے اسپتال میں تو ڈرپ کے زریعے دی جاتی رہی ہے۔۔مگر گھر میں ڈرپ بھی ممکن نہیں ۔۔ ذہنی سکون کی ادویات کے بنا کوئی بھی ٹریٹمنٹ نہیں دی جاسکتی ۔۔
انھیں اسی سوچ میں مبتلا چھوڑ کہ میں بچوں کو پڑھانے کی اجازت لے کر اوپر آگیا ۔۔ پہلے ہی دو روز کا ناغہ ہو چکا تھا اور امتحان سر پر ہیں۔۔
پوچھنے اور جاننے کی تو ایک سو ایک باتیں ہیں میرے پاس ۔۔۔ سب سے ذیادہ تجسس زیبا کی شادی کو لیکر ہے ۔۔ کیا شادی بھی بے ہوشی کی حالت میں کی ہوگی ؟؟ لیکن وہ تو ٹھیک ہوگئی تھی نا ۔۔۔ تو اب یہ سب کیا ہے ؟؟
بچوں کو پڑھانے کے بعد نیچے اترا تو اسپتال سے نرس اور رضا کار ہال میں موجود تھے ۔۔ میں نے آغا جانی کی طرف رخصت طلب نظر ڈالی تو انھوں نے مجھے بلایا ۔۔ اور بتایا کہ زیبی کی طبیعت پھر بگڑ گئی ہے واپس اسپتال لے جانا ہے ۔۔۔
میں ساتھ چلوں آغا جانی؟
اذان میاں آپ کو زحمت ہوگی ۔۔۔۔ زرنگار سے کہہ کر ہم نے انتظام کرلیا ہے ۔۔
تو کیا مسز وجاہت آپ کے ساتھ رک رہیں ہیں ؟
نہیں بیٹا وہ کیسے رک سکتیں ہیں ۔۔ وہ مصروف ہیں آج بھی ۔۔۔
پھر میں چلتا ہوں آپ کے ساتھ۔۔۔
اذان میاں آپ کو نوکری پیاری نہیں؟؟
آغا جانی ۔۔۔ ماں کو سہارا دینے سے زیادہ کچھ اہم نہیں ۔۔۔
جیتے رہیں مولا خوش رکھے ۔۔۔
زیبا کے کمرے میں اسی روز کی طرح میں اور آغا جانی تھے ۔۔وہ بہت لاغر ہوگئی تھی ۔۔۔ آغا جانی نے زنجیر میرے ہاتھ میں دی اور تالا کھولا اور ہم آہستہ آہستہ اسے چلاتے باہر لائے
آج میرے ہوش و حواس ٹھکانے پر تھے اور مجھے اندازہ تھا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔ رضاکار نے انجکشن گھونپا اور میں نے زنجیر کو ہاتھ کے گرد بل دیئے ۔۔۔۔ وہ غرا کے پلٹی مگر حملہ نہ کر سکی ۔۔۔۔ زنجیر اس کے پیر میں تن گئی ۔۔۔ اس نے میری طرف دیکھا ۔۔۔ وہ لپکی ۔۔ افففف میں لرز گیا۔۔۔ آغا جانی زیبی زیبی پکارتی رہیں. پچکارتی رہیں۔۔۔ مگر وہ جست لگا کر مجھ پر چڑھ چکی تھی۔۔۔۔ خوف کے مارے میری آنکھیں بھنچ گئیں وہ میرے سینے اور پیٹ پر چڑھی تھی بدبو اور خوف سے میں نے خود کو بے ہوش ہونے کے قریب پایا ۔۔۔
وہ تمام خوفناک واقعات لمحہ بھر میں ذہن نے دہرا دیئے ۔۔ اس نے اپنی لپلپی تھوک میں لپٹی زبان میرے منہ پر پھیری ۔۔۔۔
استغفار استغفار۔۔
ایک بوجھ میرے سینے پر آگرا ۔۔ دل بند ہوتا محسوس ہوا۔۔۔۔ وہ بے ہوش ہو چکی تھی ۔۔۔
میں نے یکدم اسے نیچے دھکیلا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔۔ میری ٹانگوں میں جان نہیں تھی ۔ سب کچھ سن ہوگیا ہر آواز ہر حرکت ۔۔۔۔ سائیں سائیں گونج رہی تھی اور زبان کی لپ لپ ۔۔۔ استغفار۔۔۔
اذان میاں پانی لیں ۔۔۔ آپ ٹھیک ہیں ؟ کچھ نہیں ہوا ۔۔۔ کچھ بھی نہیں ہوا ۔۔
میں نے سر جھٹکا حواس بحال ہوئے وہی پانی چہرے پر ڈالا مجھے خود سے گھن آرہی تھی ۔۔۔
کچھ دیر لگی مجھے نارمل ہونے میں ۔۔۔
ہم اسپتال روانہ ہوئے ۔۔۔
وجاہت کی پہچان کے باعث زیبی کا ٹریٹمنٹ ہمارے جانے سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا ۔۔۔ مجھے چپ لگ گئی ۔۔۔
اذان میاں ۔۔۔ آپ ٹھیک ہیں ؟؟
جی ۔۔۔ جی بہتر ہوں میں ۔۔ مگر چہرے پر بارہ بجے ہر دیکھنے والا دیکھ سکتا تھا ۔۔۔
اذان میاں ہم معذرت خواہ ہیں ۔۔۔
ارے نہیں نہیں آغا جانی ۔۔
اذان میاں جو کچھ آج ہوا ہے ۔۔ ہمیں ڈر تھا کہ یہ سب اس وقت ہونا تھا جب آپ سے زنجیر چھوٹی تھی ۔۔۔تب ہی ہم نے آپ سے کہا تھا کہ زرا ہمت کرنا ہوگی ۔۔۔
آغا جانی مجھے بلکل ایسی توقع نہیں تھی میں اچانک حملے سے بوکھلا گیا تھا۔۔
آغا جانی زیبا ٹھیک ہوگئی تھی تو پھر اب ان کی یہ حالت کیوں ہے ؟ مجھے سوال کرنے کا جواز مل گیا ۔۔
بیٹا زیبی کچھ ہی دنوں میں بلکل ٹھیک پہلے جیسی ہوگئی ۔۔ آغا جان نے پراپرٹی ڈیلر سے کہہ کر حویلی اونے پونے میں فروخت کی اور ہم کراچی آ بسے ۔۔۔ اللہ کے کرم سے یہاں چھوٹی سی پریس کی بنیاد رکھی اور اب کاروبار آپ کے سامنے ہے ۔۔۔ وقت گزرتا گیا بچے بڑے ہوگئے اور ہم یہ سب بھول بھال گئے ۔ ۔ مگر آغا جان کبھی زیبی پر اذکار اور پانی کے چھینٹے دم کرنا نہیں بھولتے تھے ۔۔ آغا جان اکثر فیصل آباد جاتے آتے رہے کام کے سلسلے میں اور اس حویلی کا چوکیدار ہمارا پرانا ملازم اکثر آغا جان سے مل کر ہماری خیر خیریت دریافت کرتا رہتا ۔۔۔۔
ایک روز آغا جان کو پتا نہیں کیا یاد آیا آغا جان نے اس سے پوچھا کہ ۔۔
خیر دین ۔۔۔ وہ بلی یاد ہے ؟
جی ۔۔۔ آغا صاحب ۔۔ وہ سب بھلائے نہیں بھولتا ۔۔
خیر دین تمھیں ڈر نہ لگا اس وقت ؟
لگا تھا صاحب جی مگر کیا کرتا ۔۔۔
کہاں پھینک کر آئے ؟
پھینکی نہیں صاحب ۔۔ کوئی دیکھ لیتا تو پکڑا جاتا ۔۔ بات کھلتی ۔۔۔ میں نے وہ بوری گوروں کے قبرستان میں دبادی ۔۔۔گورے پسند کرتے ہیں نا زندگی میں کتے بلی ۔۔ میں نے انہیں مرنے کے بعد بھی بلی دے دی۔۔
آغا جان خوب ہنسے ۔۔۔
مجھے بھی ہنسی آگئی ۔۔۔
زیبی کالج جانے لگی تھی ۔۔اتنے سال پتہ ہی نہیں لگے بچے کب جوان ہوئے اور ہم بوڑھے ۔۔۔ بچوں کے خواب پورے کرتے والدین خود کو یوں پسِ پشت ڈال دیتے ہیں کہ انھیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کمر جھک گئی ہے ۔۔۔
ان ہی دنوں ہمیں اندازہ ہوا کہ ہماری بھانجی وجاہت میں دل چسپی رکھتی ہے ۔۔۔زرنگار ہمیں بھی پسند تھی ۔۔۔ ہم نے آغا جان سے بات کی اور وجاہت کی شادی کی تیاری شروع کردی ۔۔ اسی دوران ہم سے کوتاہی ہوئی اور ہم شادی کی تیاریوں اور شادی میں یوں مگن ہوئے کہ ہمیں اندازہ نہیں ہوا ۔۔۔
ہماری زیبی جوان اور بے حد خوبصورت تھیں ۔۔۔خاندان میں کئی نوجوان زیبی سے شادی کے خواہشمند تھے ۔۔مگر زیبی ابھی پڑھنا چاہتی تھی ۔۔۔ اس نے شادی سے انکار کردیا ۔۔۔ وجاہت کی شادی کے بعد ہم اور مصروف ہو گئے اور ہمیں علم نہ ہو سکا کہ زیبی کسی کو پسند کرنے لگی ہے۔۔۔۔
رضا سنجرانی ۔۔۔۔۔ اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک وڈیرے کا بیٹا تھا ۔۔۔ بہت سلجھا ہوا بہت محبت کرنے والا بچہ تھا ہماری زیبی کی پسند لاکھوں میں ایک تھی چاند سورج کی جوڑی تھی ہم سب بہت خوش تھے ۔۔۔ آغا جانی کی خوشی تو مت پوچھو اذان میاں ۔۔۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا بیٹی کے جہیز میں کائنات وار دیں۔۔۔
کراچی میں بھی اب ہماری حیثیت بہت مستحکم تھی ۔۔ہم وڈیرے نہیں مگر آغا جان بھی رضا کے والد سے اثر رسوخ میں کچھ کم نہیں تھے ۔۔۔ الغرض خاندان کی باہمی رضا مندی سے یہ رشتہ طے پاگیا ۔۔۔
آغا جان بے حد خوش تھے ۔۔۔ بس ایک فکر لاحق تھی ۔۔۔اذکار ۔۔۔دم۔۔۔۔ پانی کے چھینٹے۔۔ یہ سب کون کرے گا سسرال میں۔۔
نئے رشتوں میں ایسی باتیں پہلے دن سے دراڑ ڈال دیتی ہیں ۔۔ لیکن یہ سچائی بتائے بغیر رشتہ طے کردینا بھی مناسب نہیں تھا ۔۔۔ مکمل نہیں مگر کچھ تو آگاہی ضروری تھی ۔۔۔ اسی بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم نے رضا کو گھر بلا کر بات کرنے کا سوچا ۔۔۔
اور کسی کو نہیں ۔۔۔ مگر رضا کے علم میں یہ بات ہونی چاہیئے تھی ۔۔۔ پھر اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو ۔۔۔کیونکہ سوال زیبا کی حفاظت کا تھا آغا جان کوئی پہلو تہی نہیں کرنا چاہتے تھے۔۔۔
رضا کو اعتماد میں لیکر آغا جان نے کچھ واقعات سے رضا کو آگاہ کیا ۔۔ وہ زیبی کو اتنا چاہتا تھا کہ یہ سب سن کر بھی اس کی دیوانگی میں کمی نہ آئی اور اس نے وعدہ کیا کہ کل تک وہ عملیات آپ کی زمہ داری تھے اور شادی کے بعد سے میری ۔۔۔ آپ بے فکر ہو جائیں اور اس بات کا ذکر میری فیملی سے مت کیجئے گا ۔۔۔۔ زرا پرانے خیالات کے ہیں شائد آپ کی بات نہ سمجھ پائیں ۔۔۔ اور پھر اس طرح کی باتیں ایک سے دوسرے کو پتہ چلتیں ہیں بے وجہ تماشہ بنتا ہے ۔۔۔ میں نہیں چاہتا زیبی کی سمت کوئی اشارہ بھی کرے ۔۔۔
اذان میاں اور ہمیں کیا درکار تھا ؟؟ ہم شادی کی تیاریوں میں جت گئے ۔۔۔ بالآخر وہ دن بھی آگیا ۔۔۔ آغا جان نے اس روز آخری بار وہ عملیات کئے ۔۔۔ اور مطمئن ہوگئے کہ بیٹی محفوظ ہاتھوں میں دے رہے ہیں ۔۔۔
مہمانوں کی گہما گہمی ۔۔۔ زر نگار کی تیاریاں ۔۔۔ یاسر طلحہ کو دیکھنا ۔۔۔ ہمارے پاس تو وقت ہی نہیں تھا ۔۔۔ زیبا ۔۔۔ چاند کا ٹکڑا تھی ۔۔۔ اس کی کالج کی بہت سی دوستیں موجود تھیں جو بضد تھیں کہ زیبا کو دلہن بنانے کے لئے پارلر جانے کی اجازت دی جائے ۔۔۔۔ اذان میاں عموماً ہمارے خاندان میں یہ رواج نہیں تھا ۔۔۔ مایوں کی دلہن ابٹن تیل عطر میں بسی ہوتی ہے ۔۔۔ اس حالت میں باہر جانا ۔۔۔کسی کی نظر گزر میں آجانا ۔۔۔ کوئی چیز لانگ پھیلانگ جانا ۔۔۔ کیا ضرورت ہے بھئی مصیبتوں کو خود آواز دینے کی ؟؟ مگر آج کل کی لڑکیاں سنتی کب ہیں ۔۔ پھر زیبا کی بھی خواہش تھی ۔۔۔ آغا جان کیسے منع کرتے ۔۔۔ہم نے بھی اجازت دے دی۔۔۔ اور وجاہت زیبا کو اس کی سہیلیوں کے ساتھ با حفاظت پارلر چھوڑ آئے ۔۔۔۔
عصر کا بعد تھا ۔۔۔۔ 9 بجے ہال پہنچنا تھا ۔۔۔ زیبی کو سجایا جارہا تھا ۔۔۔ روایت کے برخلاف ۔۔۔ رضا کی پسند پر زیبی کی بارات کا جوڑا سفید تھا ۔۔۔ رضا کے والدین کو بھی اعتراض تھا مگر بیٹے کی خواہش پر خاموش تھے ۔۔۔۔۔ زیبا بے حد حسین لگ رہی تھی ۔۔۔سسرال سے آئے ہیروں کا ہار گردن میں جگمگا رہا تھا ۔۔ اس کی سہیلیوں نے مشورہ دیا کہ سفید لباس اور اتنے خوبصورت سیٹ کے ساتھ یہ کالا ڈورا گلے میں بہت برا لگ رہا ہے ۔۔۔
ساری زندگی سے پہنی ہو ۔۔۔۔ساری زندگی پہنوگی ۔۔۔
اگر کچھ گھنٹوں کے فوٹو سیشن کے لئے اتار دوگی تو کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔
پرس میں رکھ لو اگر اتنی ہی ڈر پوک ہو ۔۔۔
اففف توبہ زیبی اتنا پڑھ لکھ کر بھی آج کے دور میں اتنی توہم پرستی ؟؟
دنیا کہاں سے کہاں نکل گئی ہے اور ہمارے والدین ابھی تک ڈراتے ہیں پرفیوم نہ لگاؤ ۔۔۔جن عاشق ہو جائیں گے ۔۔۔۔ مشترکہ قہقہہ۔۔۔
بس اذان میاں وہ لمحہ۔۔۔ اس وقت ہم میں سے کسی کو زیبی کے ساتھ ہونا تھا ۔۔۔ اس ایک لمحہ کی غفلت نے سب برباد کردیا ۔۔۔ ان کی باتوں سے متاثر ہو کر زیبی نے سوچا کہ کچھ گھنٹوں کی تو بات ہے اور تعویذ اتار کر کلچ میں رکھ لیا ۔۔۔۔
برسوں کی سوئی بد نصیبی کی نیند ٹوٹی اور اسے موقع مل گیا ۔۔۔۔ سالوں سے وہ گھات لگائے بیٹھی تھی کہ کب ہم سے کوئی چوک ہو اور کب وہ اپنا وار کرے ۔۔۔ اور اب اس کا داؤ چل گیا تھا وہ حفاظتی تعویذ گلے میں نہیں تھا وہ پوری طاقت سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔
9 بجے وجاہت زیبی اور سہیلیوں کو لے کر پارلر پہنچے۔۔۔۔۔۔۔ ہم سب ہال میں انتظار کر رہے تھے ۔۔۔ زیبی پر بار بار غشی کے دورے پر رہے تھے اور ہم سمجھے میکہ چھوڑنے کے صدمات یوں بھی نو عمر لڑکیوں کو آدھ موا کئے دیتے ہیں ۔۔۔ بڑی مشکل سے نکاح ہوا ۔۔۔ رضا بہت خوبصورت لگ رہا تھا ۔۔ وہ نہال تھا اس کے گھر والے اس رشتے پر بہت مسرور ۔۔ زیبی کی طبیعت کے باعث رخصتی میں جلدی کی گئی ۔ ۔ رخصت ہو کے زیبی سسرال پہنچی تو اس سے پہلے اس کے استقبال کے لئے جانتے ہو کون موجود تھا وہاں ؟
کون ؟
اس منحوس کی غلام بلییاں ۔۔۔ کئی سو کی تعداد میں ۔۔ حویلی کی باہر ہی رستہ روکے کھڑی گاڑی کے اطراف منڈلا رہیں تھیں۔ رضا کو عجیب خار چڑھی ہوئی تھی ۔۔۔ ہم نے زیبی پر جان لیوا اثرات کا ذکر رضا سے کیا تھا مگر بلی ۔۔جن۔۔۔ ابایومی سے متعلق کوئی بات نہ کی تھی ۔۔
رضا کو اچانک ہی بہت غصہ آنے لگا اور اس نے گاڑی سے نکل کر راستے سے ان بلییوں کو بھگایا مگر وہ گاڑی کے ساتھ گیراج میں بھر گئیں ۔۔۔۔۔ زیبی بے ہوش تھی رضا نے بہت مشکل سے نوکروں کی مدد سے ان سب کو بھگایا اور زیبی کو گود میں اندر تک لے گیا ۔۔۔ رشتے داروں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے ۔۔۔ رضا کی آبائی حویلی سکھر کے نواح میں تھی جہاں اس کی دادی اور دو پھوپھیاں قیام پذیر تھی ۔۔۔ اگلی صبح زیبی کو انھیں سلامی دینے سکھر روانہ ہونا تھا مگر طبعیت سنبھلے تو ۔۔۔
سندھیوں کی روایات کے مطابق دلہن کی آمد پر کوئی رسم نہ ہو پائی اور دلہن کو سیج پر پہنچادیا گیا ۔۔۔ آرام کرے گی تو ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔ دوستوں سے فارغ ہو کر رضا قریب تین بجے اپنے کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔ ایک ناگوار بدبو نے اس کا استقبال کیا ۔۔ اذان میاں دلہنوں کے کمرے مہینوں خوشبوؤں سے مہکتے رہتے ہیں مگر وہاں ایسی بدبو تھی جیسے بلییوں کی نجاستیں۔۔۔
جیسے تیسے وہ رات کٹی ۔۔۔ صبح سکھر روانہ ہوئے اور دو تین گھنٹے میں سکھر پہنچ گئے ۔۔۔ زیبی بہت چپ چپ سی تھی ۔۔ رضا سارا وقت چھیڑ چھاڑ کرتا رہا مگر زیبی گم رہی اور غشی طاری رہی ۔۔۔سسرالی تھکن سمجھ کہ چپ تھے ۔۔ دادی پھوپھیوں سے سلامی کے بعد ان کو ایک سجے سجائے کمرے میں آرام کرنے کی غرض سے بھیج دیا گیا ۔۔۔ زیبی نے کسی سے ملنے جلنے میں کوئی دل چسپی نہ لی ۔۔دن بھر مہمان عورتوں کا رش لگا رہا ۔۔۔ ہر کوئی چھوٹے سائیں کی دلہن دیکھنے آتا رہا ۔۔۔ زیبی سارا دن زنان خانے میں گزار کر تھک گئی اور اجازت لیکر مغرب کے بعد کمرے میں آ کر سو گئی۔۔۔۔۔۔۔
رضا نے زیبی کو اٹھانے کی کوشش کی ہوگی یہ ہمارا قیاس ہی ہے ۔۔۔ پتہ نہیں اس رات اس کمرے میں ایسا کیا ہوا ہوگا کوئی نہیں جانتا ۔۔ لیکن اگلے روز ایک دلخراش خبر ہماری منتظر تھی ۔۔۔۔
صبح نو بجے کے قریب زیبی کے سسر کی کال آئی ۔۔۔ ہم بے خبر سوئے ہوئے تھے ۔۔ان کی کال سے ہی جاگے ۔۔۔
مراد سنجرانی صاحب آپ کیا بک رہے ہیں ہوش میں تو ہیں ؟؟؟ آغا جان دھاڑے ۔۔۔
میری بھی آنکھ کھل گئی ۔۔۔ کیا ہوا ہے؟؟
جلدی اٹھیں صبیحہ زیبی کے گھر جانا ہے۔۔۔
آغا جان ہوا کیا ہے ؟؟
عجیب بے یقینی کی کیفیت میں آغا جان نے مجھے دیکھا اور دل پر ہاتھ رکھ کر بیٹھتے چلے گئے ۔۔۔
صبیحہ رضا۔۔۔۔
کیا ہوا رضا کو ؟
رضا کی تشدد زدہ لاش ملی ہے ۔۔۔
اوہ میرے خدا ۔۔۔۔۔ کہاں کیسے ؟
ہمارے ذہن مفلوج ہو کر رہ گئے ۔۔۔ ایک روز پہلے جس بیٹی کو دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا تھا اسی کا گھر اجڑنے کی خبر سے دن کا آغاز ہوا ۔۔۔۔۔ اوہ میری زیبی ۔۔۔
آغا جانی کے اس انکشاف پر میرا منہ بھی کھلا کا کھلا رہ گیا تھا ۔۔۔ رضا کی تشدد زدہ لاش؟؟
ہاں اذان میاں ۔۔۔
مگر کہاں ؟ کوئی خاندانی تنازعہ ؟
ہاں ۔۔۔۔ خاندانی دشمنی ۔۔۔۔ مگر رضا کی نہیں ۔۔۔۔ زیبی کی ۔۔۔
رضا کی تشدد زدہ لاش اس کے کمرے سے برآمد ہوئی ۔۔۔ اور کمرے کے اندر صرف زیبی تھی ۔۔۔
پھر ؟ آپ لوگ سکھر گئے ؟
ہاں ہم دونوں اور وجاہت سکھر پہنچے ۔۔ وہاں پہنچ کر کیسے ہمارا استقبال ہوا ہوگا کیا کچھ ہمیں کہا سنا گیا ہوگا آپ سمجھ سکتے ہیں ۔۔۔۔۔ جگ ہنسائی ہوئی ۔۔۔ تماشہ بن گئے تھے ہم ۔۔۔
زیبی گھر میں موجود نہیں تھی ۔۔۔۔
اوہ وہ کہاں گئیں ۔۔
ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی پولیس آچکی تھی ۔۔۔ہمیں بعد میں اطلاع دی گئی۔۔۔۔۔۔ وہاں نوکرانیاں کمروں کے باہر راہ داریوں میں ہی سوتی تھیں۔۔۔۔ کب بی بی صاحبوں کو کام ہو اور کب وہ حاضر ہو جائیں۔۔۔ زیبا کے کمرے کے باہر سوئی نوکرانی نے صبح ہوتے قریب 4 بجے عجیب سی آوازیں سنی ۔۔ غور کیا تو معلوم ہوا چھوٹے سائیں کے کمرے سے آرہیں ہیں قریب جا کر سنا تو سائیں کی چیخوں پکار سنائی دی ۔۔ نوکرانی نے صبح فجر کے بعد زیبا کی ساس کو بتایا ۔۔۔ انھوں نے اپنے شوہر کو اور وہ رضا کے کمرے کی طرف بڑھے ۔۔۔ دروازہ کھلا تھا اور رضا کی ادھڑی ہوئی لاش کے پیر میں زیبا کا دوپٹہ بندھا تھا اور وہ پنکھے سے لٹکی ہوئی تھی ۔۔۔ جگہ جگہ سے اس کے جسم سے گوشت غائب تھا ۔۔۔ بیڈ کے دوسری طرف زیبی بیٹھی اپنے خون میں لتھڑے ہاتھ چاٹ رہی تھی ۔۔۔
رضا کے والد نے فوراً پولیس کو بلایا اور لاش پوسٹ مارٹم کے لئے بھیج دی ۔۔۔پولیس نے زیبی کو حراست میں لے لیا ۔۔۔ جب ہم پہنچے تو یہ تمام کاروائی ہو چکی تھی۔۔۔ اس ذلت و رسوائی کے بعد وہاں ٹھہرنا مشکل تھا ۔۔ دکھ سے ہم نڈھال تھے ۔۔۔مگر زیبی کے متعلق یہ سب اس کی سسرال والوں سے سن کر خوفزدہ بھی تھے ۔۔۔ میں اور آغا جان تعویذ کے بارے میں سوچ رہے تھے جبکہ وجاہت ان سب باتوں سے لا علم تھے ۔۔۔ دل اندر ہی اندر ڈوب رہا تھا اور کہیں نہ کہیں یہ ڈر غالب آگیا تھا کہ زیبی کا تعویذ اس کے گلے میں نہیں ہوگا ۔۔۔
انجان شہر میں تلاش کرتے کرتے پولیس اسٹیشن پہنچے ۔۔۔
آغا جان کی ہمت نہ تھی کہ اس حال میں بیٹی کو دیکھیں اور ہم دونوں کو کسی ثبوت کی ضرورت نہیں تھی کہ قاتل کون ہے ۔۔۔۔ تفتیشی افسرسلمان غوری کی اجازت سے ایک سپاہی مجھے اور وجاہت کو اس حوالات تک لے گیا جہاں زیبا تھی ۔۔۔دو دن میں ہی وہ پہچانی نہیں جارہی تھی ۔۔۔زرد رنگت ۔۔۔آنکھوں میں گڑھے ۔۔۔
زیب ۔۔ زیبی میری بچی یہاں آؤ ۔۔۔دیکھو ادھر ۔۔۔ مگر وہ گھٹنوں میں منہ دیئے بیٹھی رہی ۔۔
وجاہت نے بھی بہت پکارا مگر زیبی نے ایک نہ سنی ۔۔۔ وجاہت نے کہا یہ صدمے کا اثر ہے جبکہ میں اصل وجہ جانتی تھی ۔۔۔
میں نے اسے پکارا۔۔۔۔
۔۔۔ ابایومی ۔۔۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی چلتی ہوئی نزدیک آئی ۔۔۔ ہمارے درمیان حوالات کی سلاخیں تھیں ۔۔ ورنہ جن شعلہ بار نظروں سے اس نے مجھے دیکھا تھا شائد وہ ہمارا حال بھی رضا جیسا کرتی ۔۔۔
نزدیک آ کر وہ مجھے گھورنے لگی ۔۔۔ اور اچانک قہقہہ مار کے ہنسی۔۔۔ بہت خوفناک ہنسی ۔۔۔ میں نے دیکھا ۔۔۔ اس کی زبان اور دانتوں سے ابھی بھی خون جھلک رہا تھا ۔۔۔۔۔۔اس کے گلے میں تعویذ نہیں تھا اور ابایومی کہنے پر اس کا ردِ عمل اس بات کا غماز تھا کہ یہ زیبی نہیں ۔۔۔ وجاہت کچھ نہ سمجھنے والی کیفیت میں ہمیں دیکھ رہا تھے ۔۔
ابایومی کی بک بک جاری تھی ۔۔۔ وجاہت کچھ سمجھ نہ پائے مگر میں جانتی تھی کہ اس نے گفتگو کے لئے اب بھی وہی پینترا اختیار کیا ہے ۔۔ یا اللہ مجھے بے اختیار رابعہ یاد آئی ۔۔۔۔۔۔
وجاہت تفتیشی افسر کے ساتھ بات کرنے رکے اور ہم گاڑی میں آ بیٹھے۔۔۔ آغا جان پریشانی کے عالم میں باہر ٹہل رہے تھے ہماری اُڑی رنگت نے انھیں حقیقت سے آگاہ کیا وہ بھی گاڑی میں آ بیٹھے ۔۔۔
کیا کہتی ہے ؟
بولنے کا یارا نہیں تھا ۔۔۔ ایک تو زیبی پھر کھو گئی تھی ۔۔۔ دوسرا رضا کی ناگہانی موت کا صدمہ اور تیسرا ڈر۔۔۔۔ آغا جان کی زندگی کو لاحق خطرہ ۔۔۔ ہم رو پڑے آذان میاں ۔۔۔کیا کہتے آغا جان سے کہ وہ کیا کہتی ہے ؟؟ دھمکانے کے علاوہ کیا کہا ہوگا اس نے ۔۔۔ اسی اثناء میں وجاہت ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھے اور بتایا کہ مراد سنجرانی نے قتل کی ایف آئی آر زیبا کے خلاف کروائی ہے ۔۔اس کی نوکرانی نے گواہی دی ہے ۔۔ یہ وڈیرے اپنی دولت کے بل پر سب خرید لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ انصاف کرنے والی ذات سب جانتی ہے ۔۔۔ آغا جانی زیبی اپنے ہی شوہر کا قتل کیوں کرے گی ؟؟ آپ نے دیکھی اس کی حالت ؟ آغا جان صدمے نے اس کے ہوش و حواس چھین لیئے ہیں ۔۔۔ اتنے بڑے حادثے پر کوئی نارمل لڑکی ایسا ری ایکٹ کرے گی ؟؟ اور آغا جانی آپ نے سنا وہ کیا بول رہی تھی ایک لفظ بھی سمجھیں ؟ آغا جان میں مراد سنجرانی کو چھوڑوں گا نہیں ۔۔۔۔ میں اس قتل کی تہہ تک جاؤں گا میں اپنی معصوم بہن کو ان وڈیروں کی دشمنی کی بھینٹ نہیں چڑھنے دوں گا ۔۔۔ ارے شادی نہیں کرنی تھی تو نہ کرتے اتنا بڑا جرم ۔۔ کسی کا گناہ زیبی پر کیسے ڈال سکتے ہیں یہ لوگ۔۔۔
ہم دونوں چپ چاپ وجاہت کی باتیں سن کر سوچ رہے تھے کاش ایسا ہی ہوتا مگر حقیقت کچھ اور ہی تھی جو وجاہت سے مخفی تھی ۔۔۔ وجاہت نے ہمیں تسلی دی کہ وہ دو تین روز میں بیل کرانے کی کوشش کریں گے ۔۔۔ تب تک ہم کسی ہوٹل میں ٹھہرنے کا بندوست کرتے ہیں۔۔۔
اذان میاں ہم پھر اسی دو دھاری تلوار پر آن کھڑے ہوئے تھے۔۔۔ آغا جان کو بچاتے تو زیب کو کھو دیتے اور زیبی کو بچاتے تو آغا جان کو کھو دیتے ۔۔۔ ایک مستقل اذیت میں تھے ۔۔۔ کیا کریں ۔۔۔ بیل کروائیں تو زیبی کو رکھیں گے کہاں ۔۔۔اور نہ کروائیں تو کیا مرنے کے لئے چھوڑ دیں ؟؟
واقعی آغا جانی یہ ایک مشکل مرحلہ تھا ۔۔۔ پھر آپ لوگ سکھر میں ٹھہرنے یا کراچی واپس آئے ؟
وجاہت چاہتے تھے کہ ہم رکیں ۔۔۔ مگر آغا جان نے کراچی آنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔کیونکہ وہ کوئی تدبیر کرنا چاہتے تھے ۔۔۔وجاہت سکھر میں رکے اور زیبی کی بیل کروانے کی سر توڑ کوشش میں لگ گئے ۔۔۔
کراچی آنے کے بعد آغا جان نے بھائی عبدالسلام سے رابطے کی کوشش کی مگر بے سود ۔۔۔ کچھ اور عامل حضرات سے رابطہ کئے مگر کوئی ایسا کامل نہ مل سکا ۔۔۔ ہم مایوس ہوگئے تھے۔۔۔۔
وہاں وجاہت کی مسلسل کوشش سے زیبا کی ضمانت کے آڈر مل گئے تھے کیونکہ جیل عدالت اور ڈاکٹرز سب ہی کو زیبا کی دماغی حالت پر شک تھا ۔۔ مراد سنجرانی زخمی شیر کی طرح بے کل تھے ۔۔۔ ان کا غم بھی کم نہ تھا ہمیں ان سے بھی دلی ہمدردی ہے ۔۔ اذان میاں لاشہ ۔۔۔اور جوان اولاد کا لاشہ اور اس کو یوں بیدردی سے قتل کیا گیا ہو ۔۔۔ برداشت کرنا کیا آسان کام تھا ؟
یہ سادات کا ہی حوصلہ تھا ۔۔۔ یہ مولا علیہ السلام کے ہی شانے تھے جو جوان لاشے اٹھاتے رہے ۔۔۔ قربانی پر قربانی دی ۔۔۔اور آج لوگ کہتے ہیں کیوں سوگ مناتے ہو ان کا وہ تو شہید ہوئے ۔۔۔۔ شہید کو مردہ جان کر ان کا سوگ نہ مناؤ ۔۔۔ آنسو نہ بہاؤ ۔۔۔۔ ارے عقل کے اندھوں سوگ ان کی شہادت کا نہیں ان کی مظلومیت کا ہے دکھ ان کی موت پر نہیں ان کے مصائب پر ہے۔ ۔۔۔ آنسو انکی اذیتوں پر ہیں ۔۔۔ شرمندگی کہ ان کو شہید کرنے والے بھی کلمہ گو تھے ۔۔۔ اذان میاں مولا ہی سہہ گئے کوئی اور ہوتا تو کلیجہ پھٹ جاتا ۔۔۔۔۔ ہم دیکھیں کہ سوگواری عزاداری کی ممانعت کرنے والوں ایسے کڑیل جوان تمھارے بیٹے بھائی اس بیدردی سے روندے جائیں ۔۔۔ ہم دیکھیں کہ تم کس طرح صبر کرو گے ۔ کیسے بین نہ کروگے ؟ ایک موت ہو جائے سالوں سال نہ بھولنے والوں ۔۔۔ کیسے کوئی ان کڑیل جوانوں کے سر بریدہ لاشے بازوں سینے بھول سکتا ہے ۔۔۔ بخدا ہم نہیں بھول سکتے کہ امت نے کیا ستم ڈھایا ۔۔۔ آہ مولا اپنے پیاروں کے صدقے ہماری مشکلیں آسان کریں۔۔۔۔
اتنا کہہ کر آغا جانی رو پڑی۔
اور میری آنکھ ان کی پیروی میں نم تھی ۔۔۔
اور دل میں بس یہ ہی دعا کہ ربِ رحیم اہلِ بیت کے صدقے ان کی مشکل آسان کردے ۔۔۔
آغا جانی کو پانی پلایا تسلی دی کے سامنے سے نرس آتی نظر آئی ۔۔۔
زیبا ہمدانی کے ساتھ آپ ہیں ؟
جی کہئیے ۔۔۔۔
میرے ساتھ آئیں ۔۔۔
جاری ہے
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─