┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


بلی 🐈
از سلمی سید
قسط 4
            مجھے اچھا نہیں لگتا کوئی فون پر بات کرے تو اس کے منہ کے آگے بیٹھے سب سنتے رہو مگر اس وقت آغا جانی نے خود بیٹھے رہنے کا کہا تھا ۔۔۔

سلام دعا کے بعد زیبا کی حالت وجاہت کو بتاتے ہوئے آغا جانی پھر اشکبار تھیں ۔۔ 
مجھے نہیں معلوم وجاہت نے کیا کہا مگر آغا جانی نے بتایا زرنگار پانچ بجے بچوں کو لے کر چلی گئی تھیں ۔۔ 
انھیں شاپنگ پر جانا تھا اور رات میں ان کی کسی سہیلی کے ہاں غزل نائٹ ہے ۔۔۔۔ 
عجیب بے حس عورت ہے ۔۔۔ 
خاندان اتنے بڑے خطرے سے دوچار ہے اور اسے غزل نائٹ سوجھ رہی ہے ؟ ؟؟
 میرا بس چلے تو اس عفریت کو زرنگار پر ٹرانسفر کردوں۔۔ سب غزل ٹھمری راگ رنگ پتہ لگ جائیں گے ۔۔ 
آئی بڑی تان سین کی نانی ۔۔۔ ہونہہہ۔۔

          مجھے زرنگار کی بے حسی پر بہت غصہ آیا اور وجاہت پر بھی ۔۔ بہن کی یہ حالت ہے اور وہ کاروبار کے سلسلے میں دوسرے شہر گئے ہیں ۔۔۔۔
حد ہوتی ہے لا پرواہی کی ہمیشہ پیسہ ہی سب کجھ نہیں ہوتا ۔۔۔
پریشانی کے وقت میں اپنوں کا ساتھ ہی ہمت دیتا ہے ۔۔ ایسے وقت میں پتہ چلتا ہے اپنے پرائے کا۔۔۔۔۔ 
 لیکن یہ بے وقوفانہ سوچ شائد ہم مڈل کلاس طبقے میں ہی رہ گئی ہے ۔۔۔
محبت جذبات ہمدردی صلہ رحمی کہاں ہیں یہ سب اقدار ان بڑے لوگوں میں ۔۔ 
پیسے کے لئے رشتے بھول بیٹھے ہیں ۔۔۔ 

آغا جانی کہہ رہیں تھیں۔۔۔

         آپ پریشان نہ ہو ئیں بیٹا ۔۔۔۔جس کام کے لئے نکلے ہیں اسے پورا کر کے ہی آئیں ان شا اللہ آپ کامیاب لوٹیں گے ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں ۔۔۔
 ہمارے ساتھ اذان میاں ہیں ۔۔ماشا اللہ بہت سلجھا ہوا بچہ ہے ہمارا بہت خیال کر رہے ہے آپ فکر مند نہ ہوئیں ہمیں ان پر اعتماد ہے ۔۔۔
 ہم نے دنیا دیکھی ہے بیٹا ۔۔۔
 شرفاء کی اولادوں کے خون میں وفا ہوتی ہے اور پھر یہ تو سادات ہیں ۔۔ 
ان سے بڑھ کر کون باوفا ہوگا ۔۔
ان کی آنکھوں میں حیا ہے ۔۔
بہن کا معاملہ ہے ناں اس لئے فکرمند ہو رہے ہیں آپ ۔۔ ہاں موجود ہیں بات کریں ۔۔۔۔

        اور آغا جانی نے فون میری طرف بڑھا دیا۔۔۔ آغا جانی بھی عجیب ہیں۔۔۔۔۔۔
 مشکل میں ہوتے ہوئے بھی ایک غیر کا احسان لیتے ہوئے بھی بیٹے کو تسلیاں دے رہیں ہیں کہ آرام سے آؤ دعا دے رہیں کہ کامیاب لوٹو۔۔۔ 
مائیں واقعی عجیب ہوتی ہیں ۔۔۔
 یہ ہی سب سوچتے میں نے کان سے فون لگایا ۔۔۔ اگلی آواز وجاہت ہمدانی کی تھی ۔۔۔
 رسمی گفتگو کے بعد شکریہ ادا کرنے لگے کہ آپ نے ہماری غیر موجودگی میں ہماری فیملی کی جو مدد کی ہے وہ ہم پر احسان ہے ۔۔ 
بس ایک گزارش ہے کہ یہ تمام حالات و واقعات ثاقب (وہ دوست جو وجاہت ہمدانی کے آفس میں تھا جس کی معرفت مجھے یہ ٹیوشن ملی تھی) کے علم میں نہ آئیں ورنہ یہ باتیں آفس اور کاروبار پر اثر انداز ہوں گی ۔۔۔۔

           توبہ ۔۔۔۔
 مطلب یہاں بھی اپنی ہی کاروباری ساکھ کا خیال ہے اس کو ۔۔۔۔

میں نے وجاہت کو یقین دھانی کرادی کہ یہ تمام باتیں صرف مجھ تک ہی رہیں گی ۔۔۔ کال منقطع۔۔۔۔

آغا جانی کے خیالات اپنے بارے میں سن کر ایک خوشگوار احساس ہوا ۔۔۔ سادات کی نسبت نے مجھے ہر جگہ عزت بخشی ہے مولا کا مجھ پر بے انتہا کرم ہے ۔۔۔ اللہ آلِ رسول کے صدقہ ان لوگوں کی مشکل آسان کردے ۔۔۔۔

        وجاہت کی کال کے بعد ہم نے رات کا کھانا کھایا ۔۔ آغا جانی نے بھی ساتھ دیا ۔۔ ان کا شوگر کی وجہ سے چاول سے پرہیز تھا مگر پھر بھی کچھ تو کھانا ہی تھا ۔۔۔ 
کھانے سے فارغ ہو کر میں نے امی کو کال کی اور دم۔کروالیا ۔۔۔ 
آج ماحول میں سوگواری قدرے کم تھی ۔۔۔
ہم خاموشی سے بینچز پر بیٹھے آتے جاتے مریضوں اور لواحقین کو دیکھتے رہے ۔۔۔ اسپتال آؤ تو لگتا ہے سارا شہر بیمار ہے۔۔۔  
سوال بہت تھے مگر آغا جانی ۔۔۔ خاموش

          مجھے رہ رہ کر زیبا کے شوہر کا دھیان آرہا تھا کیسے کوئی ایسی لڑکی سے شادی کر سکتا ہے ؟ اس نے تو ادھیڑ کے رکھ دیا ہوگا شوہر کو بھی ۔۔۔مگر شوہر کو ہی کیا قاضی اور سسرالیوں کو بھی ۔۔۔

      کل سے اب تک آغا جانی میری بے چین فطرت سے واقف ہو گئیں تھیں جہاں دیدہ ویسے بھی کم نا تھیں ۔۔اذان میاں آپ زیبی کی شادی سے متعلق سوچ رہے ہیں؟ 
میں گڑبڑا گیا ۔۔۔ 
نن نہیں تو ۔۔۔۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ بمبئی والے دوست نے کیا بتایا آپ کو ۔۔۔

        ہاں بھائی عبدالسلام سے میں اور آغا جان یہ ہی پوچھ رہے تھے ۔۔ 
یہ تو صاف ظاہر تھا کہ یہ اسی بلی کا آسیب ہے اب اس سے بچاؤ کی تدابیر کیا ہونی چاہیئے ۔۔۔
 بھائی عبدالسلام کے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھ کر میرا دل بیٹھا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔ 
وہ کہنے لگے ۔۔۔۔
 یہ بد جناتوں میں سے ہے۔۔ انسانوں کی طرح ان میں بھی قوم قبیلے ذات برادری ہوتی ہے ۔۔۔۔ جو مختلف مخصوص جانوروں کی شکلوں میں ہماری دنیا میں موجود ہیں ۔۔ جیسے چھپکلی۔۔۔۔الو۔۔۔۔ بھیڑیا۔۔۔۔۔ کتا۔۔۔۔ یہ بلی کے روپ میں ہے ۔۔اور اس کے قبیلے کا ہر جن صرف بلی کی صورت ہی اختیار کرسکتا ہے۔

          اس کا نام ابایومی ہے اور یہ شائد مونث ہے ۔۔۔شائد یقین نہیں پورا ۔۔۔۔۔اور اس کا تعلق شائد مصر سے ہے اس سے بات کرنا بہت مشکل ہے یہ ہر زبان میں گفتگو کر سکتی ہے مگر چونکہ میں نے پڑھن سے اسے مجبور کیا کہ یہ اپنا روپ ظاہر کرے اور ہم سے بات کرے تو مجبوراً اس نے زبان تو کھولی ہے مگر یہ بات شائد مصری زبان میں کر رہی ہے یا کر رہا ہے ۔۔۔۔۔
ابھی میں کچھ حتمی طور پر نہیں کہہ سکتا ۔۔ اگر یہ اردو عربی انگریزی فارسی کچھ بھی بولے تو معاملات آسان ہوجائیں گے۔۔ ۔
اس کا کچھ بندوبست کرنا ہوگا۔۔۔۔ 
آپ دونوں فکر نہ کریں میں کل عصر کے بعد پھر آؤں گا ۔۔ ۔۔

 کونسی دعوت کونسا کھانا مجھے اپنی بچی کی فکر تھی انھیں رخصت کر کے ہم دونوں رات گئے تک ایک دوسرے کو تسلیاں دیتے رہے ۔۔۔

زیبی کمرے میں اکیلی تھی مجھے اس کی فکر ہو رہی تھی وہ اکیلی ڈرتی ہے آغا جان کی آنکھ لگی تو میں نے سوچا زیبی کو دیکھ آؤں ۔۔
 وجاہت ہمارے ساتھ ہی سویا تھا ۔۔۔ مجھے بھی خوف نے گھیر رکھا تھا مگر میں ماں تھی خود کو روک نہیں پائی ۔۔۔
 دروازہ کھولا تو اندھیرا تھا جبکہ میں لائٹ کھول کر زیبی کو لٹا کر گئی تھی لائٹ جلائی تو کمرے میں کوئی نا تھا میں نے ہلکے ہلکے پکارا۔۔۔۔
 زیبی ۔۔ بیٹا ۔۔۔کہاں ہو آپ ؟ 
 
    وہ نہیں تھی کمرے میں ۔۔۔ پورا گھر چھان لیا ۔۔۔ کچن کی لائٹ آن تھی میں وہاں گئی ۔۔ فرج کا دروازہ کھلا پڑا تھا اور دودھ کی پتیلی زمین پر اوندھی ۔۔۔۔۔ فرش پر دودھ بہہ رہا تھا ۔۔۔
 فریزر بھی کھلا پڑا تھا میں نے آگے بڑھ کر بند کیا ۔۔ 
میرے دائیں جانب ڈائٹنگ ٹیبل کے نیچے سرسراہٹ اور چپڑ چپڑ کی آواز آئی ۔۔۔۔ میں نے جھانک کر دیکھا ۔۔۔۔وہاں زیبی تھی اس کے ہاتھ میں شاپر تھا اور وہ شاپر سے کچا قیمہ نکال نکال کر کھا رہی تھی ۔۔۔۔ 
میری آواز بھی نہیں نکل سکی اور میں یونہی پلٹ گئی ۔۔۔ کمرے میں آ کر بے آواز رو دی میری گھٹی گھٹی سسکیوں سے آغا جان کی آنکھ کھل گئی ۔۔۔
میں نے انہیں آگاہ کیا وہ بولے کہ اب وہ مخلوق ہم پر ظاہر ہو گئی ہے اس لئے طرح طرح کے تماشے کر کے ہمیں خوفزدہ کرے گی ۔۔۔ 
آپ بس باہر نہ جائیں ۔۔۔کل بھائی عبدالسلام کوئی حل ضرور نکال لیں گے ۔۔۔۔
  
          نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی بس کروٹیں بدلتے صبح ہوئی۔۔۔۔ 
صبح زیبی اپنے کمرے میں تھی ۔۔۔ 
اور کچن میں رات والے واقعے کے کوئی آثار نہ تھے البتہ قیمہ اور دودھ غائب تھا جو دلیل تھا کہ رات جو ہوا وہ میرا وہم نہیں تھا ۔۔۔۔ 
خدا خدا کر کے شام ہوئی ۔۔۔۔وجاہت کو صبح ہی میں نے اس کی خالہ کے ہاں بھیج دیا تھا ۔۔۔۔زیبی سارا دن کمرے میں رہی ۔۔۔ کبھی ہنسنے اور کبھی رونے کی آوازیں آتیں رہیں ۔۔۔کبھی التجا کرتی تو ہم دونوں رو دیتے ۔۔۔ اذان میاں مجبوری کس شے کا نام ہے ہمیں اس روز سمجھ آیا ۔۔۔

          ہمارے گھر سے بھائی عبدالسلام اپنے ایک دوست کے پاس گئے..... جو سرکاری ملازم تھے اور ان کی بیٹی مصری کونسلیٹ میں مترجم تھی ۔۔ السلام علیکم انکل۔۔۔ کیسے ہیں آپ ۔۔ بہت سالوں بعد بھتیجی کی یاد آئی ؟ 

رابعہ نے مسکراتے ہوئے عبدالسلام صاحب سے شکوہ کیا۔۔۔۔۔۔ 
بیٹی کیا بتائیں زندگی کی مصروفیات اور پھر آپ تو جانتیں ہیں جو ذمہ داری ربِ عظیم نے ہمیں دی ہے اس کے باعث ہم وہیں پائے جاتے ہیں جہاں ہماری ضرورت ہو۔۔ 

خیر تو ہے انکل پاکستان کسی کے علاج کے سلسلے میں آئے ہیں ؟ 

نہیں بیٹی آئے تو خالصتاً ذاتی کام سے تھے مگر ایک دوست سے ملاقات کے دوران ایک صاحب سے تعارف ہوگیا ۔۔ فیصل آباد کے کاروباری حلقوں کی جانی مانی شخصیت ہیں آغا ذولفقار ہمدانی۔۔۔ عجیب غائب دماغی کا شکار تھے ۔۔میرے دوست نے مجھ سے کہا کہ آغا کچھ دن سے پریشان ہے اس کی بچی بیمار ہے زرا دیکھ لیں ۔۔ کل ہم ان کے گھر دعوت پر تھے ۔۔ رابعہ بہت انہماک سے سن رہی تھی۔۔۔
ان کے گھر جاکر ہمیں اندازہ ہوا اور آغا صاحب کی زبانی بھی معلوم ہوا کہ بچی بیمار نہیں آسیب زدہ ہے ۔۔۔
اوہ کتنی بڑی بچی ہے ؟ 

یہ ہی کوئی 8.9 سال کی ہوگی ۔۔۔ وہاں ہم نے عمل کیا ۔۔۔اس آسیب کو حاضر کیا گفتگو پر آمادہ کیا مگر وہ ہماری سوچ سے زیادہ شاطر ہے ۔۔۔

بیٹی یہ ساری تفصیلات آپ کے گوش گزار کرنے کا ایک مقصد ہے ۔۔۔ کیا آپ ہماری مدد کریں گی ؟ 

جی جی انکل ضرور کہئیے کیا کرنا ہوگا ؟ 

آپ ہمارے ساتھ آغا صاحب کے ہاں چلیں گی ؟ ہمیں شک ہے کہ وہ مخلوق مصری زبان میں بات کر رہی ہے ۔۔ اور یہ شک ہے یقین نہیں ۔۔لیکن ہم یہ رسک لینا چاہتے ہیں ۔ ۔ بار بار اس عفریت کو اس بچی پر حاضر کرنا اس بچی کی زندگی کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ اب جب اس کو حاضر کریں تو اس کے ساتھ مذاکرات میں آپ ہماری مدد کریں ۔۔۔ کیونکہ آپ وہ زبان جانتیں ہیں ہمیں پہلا خیال آپ ہی کا آیا ۔۔۔

رابعہ لحظہ بھر کے لئے چپ کی چپ رہ گئی ۔۔باپ کی سمت دیکھنے لگی ۔۔

برہان الدین آپ کی بیٹی کی سلامتی کی ضمانت ہم دیتے ہیں ۔۔۔ 

برہان الدین مسکرا دیئے رابعہ نے بھی رضا مندی ظاہر کردی ۔۔۔ اگلے روز عصر کے بعد بھائی عبدالسلام ہمارے گھر ایک لڑکی اور ایک آدمی کے ساتھ آئے تعارف کے ساتھ ہی انھوں نے ہمیں رابعہ کو ساتھ لانے کی وجوہات سے آگاہ کیا ۔۔۔

       زیبی ابھی بھی اپنے کمرے میں تھی ۔۔ اسے باہر لانے کے بجائے بھائی عبدالسلام نے کہا کہ وہ خود اندر جائیں گے اس کے بعد باقی افراد ۔۔۔ 
اذان میاں میرے دل کا حال جان سکتے ہو ؟ 
مجھے لگا یہ سب میری بچی کو ذیبحہ کر دیں گے ۔ ۔ 
خوف دہشت پریشانی اور اس پر رات کا واقعہ میرے ذہن پر سوار تھا
 میں ہر طرح کے برے سے برے حالات کے لئے تیار تھی ۔۔۔ بھائی عبدالسلام نے بلند آواز میں اذکار شروع کئے اور ہم سب ہی افراد کے بازوؤں پر تعویزات باندھے ۔۔۔ رابعہ کے گلے میں بھی ایک تعویذ ڈالا اور ایک بازو پر باندھا ۔۔برہان الدین سے کہا کہ وہ چاہیں تو باہر انتظار کرلیں مگر انھوں نے بھی کمرے میں ساتھ چلنا مناسب سمجھا ۔۔

        یوں ہم اذکار کے حصار میں زیبی کے کمرے کی طرف بڑھے ۔۔ کمرے میں مکمل اندھیرا اور سناٹا تھا ۔۔۔ میں نے لائٹ جلائی ۔۔کمرہ خالی تھا ۔۔ یہاں دو سنگل بیڈ تھے زیبا اور وجاہت کے لیے ۔۔۔ ہم دیوار سے لگے کھڑے تھے آغا جان مجھے مضبوطی سے تھامے ہوئے ان کے ساتھ برہان صاحب ان سے آگے رابعہ اور سب سے آگے بھائی عبدالسلام ۔۔۔۔
 اچانک کسی پرندے کے پھڑ پھڑا نے کی آواز ہوئی ۔۔۔ ہم نے آواز کی سمت دکھا ۔۔۔۔۔ 
اذان میاں وہ وقت ۔۔۔
 کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔۔۔۔

 زیبی اس عفریت کا روپ دھارے منہ میں ادھ مرا کبوتر لئے الماری کے اوپر بیٹھی نظر آئی ۔۔ 
اس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا اور چہرے پر خباثت ۔۔وہ کبوتر پنجوں میں دبائے منہ سے اس کا ایک ایک پر نوچ رہی تھی اور کبوتر ۔۔۔۔۔ 
بند کمرے میں کبوتر آیا کہاں سے؟؟؟؟
 
          بھائی عبدالسلام کچھ دیر پڑھن پڑھتے رہے اور وہ آرام سے کبوتر نوچ نوچ کے کھاتی رہی۔۔۔۔۔۔ 
اس کے پنجے اور منہ خون میں لتھڑے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔
 وہ اچھلتی کودتی الماری پر ٹہل رہی تھی ۔۔۔۔۔
 اچانک اس نے ایک دلخراش چیخ ماری اور اچھل کر زمین پر آئی ۔۔۔
 آغا جان کے سینے میں منہ چھپاتے ہوئے مجھے ان کی بے تحاشہ تیز دھڑکن سنائی دی ۔۔۔ 
وہ زمین پر اتر کے لوٹتی رہی اس کی منحوس چیخوں کے سوا دوسری کوئی آواز نہیں تھی۔۔۔۔۔ 
وہ رو رہی تھی ۔۔۔۔
 روتے روتے اپنا منہ الماری پر رگڑنے لگی ۔۔۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے چہرے سے تمام بال جھڑ گئے ۔۔۔

            اوہ میری بچی ۔۔۔ 
میری زیبی ۔۔۔ 
میرا دل چاہا بھاگ کے اسے سینے سے لگا لوں میں آگے بڑھی ۔۔۔
 آغا جان نے مجھے دبوچ لیا ۔۔۔
 بھائی عبدالسلام نے مجھے پیچھے مڑ کے دیکھا ان کی آنکھوں میں جلال دیکھ کر میرے قدم وہیں جم گئے ۔۔۔
 اگلی نظر زیبی پر پڑی تو وہ اسی بلی کی صورت میں موجود رو رہی تھی ۔۔
 بھائی عبدالسلام پڑھن پڑھتے رہے اور پھر ایک وقت آیا کہ اس کے رونے میں کمی آئی ۔۔۔
 وہ پاؤں پسار کے بیٹھ گئی ۔۔۔
 ہلکے ہلکے سانس لے رہی تھی ۔۔۔۔
 پتا نہیں کیا اول فول بک رہی تھی۔۔۔ 
یہ شائد بات چیت پر آمادہ ہونے کا اشارہ تھا۔۔۔

لگ رہا تھا جیسے بہت سے لوگ کچھ بڑ بڑا رہے ہوں ۔۔ آواز گونج رہی ہو ۔۔۔۔۔مگر وہ کیا کہہ رہی تھی بلکل انجان بولی ۔۔۔ نامانوس زبان ۔۔۔۔۔

    رابعہ نے کہا ہاں انکل یہ ایجپشین ہے ۔۔ اور ایجپٹ کی بھی بہت قدیم زبان میں بات کر رہی ہے ۔۔۔۔
 بھائی عبدالسلام کے چہرے پہ فاتحانہ مسکراہٹ آئی ۔۔۔۔۔بیٹی جو بھی میں کہوں آپ لفظ بہ لفظ وہی دہرائیں اس شاطر کی زبان میں۔۔۔۔۔
 اور جو یہ کہے وہ ہمیں بتائیں۔۔۔ رابعہ نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔

       وہ عفریت رابعہ پر لپکی مگر اتنی ہی تیزی سے دور جا کر گری ۔۔
 یہ شائد تعویزات کی کرامات تھیں کہ وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچا پا رہی تھی وہ چوٹ کھا کے پھر تڑپ اٹھی ۔۔۔ وہ مستقل بول رہی تھی اور رابعہ نے بتانا شروع کیا ۔۔۔

             کیا چاہتا ہے مجھ سے ؟؟؟
 کیوں اس جسم میں قید کیا ہے مجھے ؟ 
مجھے جانے دے آدم زاد ۔۔۔ تیری میری کوئی دشمنی نہیں ۔۔۔

بھائی عبدالسلام بولے جسکا ترجمہ رابعہ نے کیا۔۔۔

اس معصوم کے جسم میں تجھے ہم نے بلایا ضرور ہے قید نہیں کیا ۔۔ بس ہمارے سوالات کا جواب دے اور دفعان ہوجا۔۔  
 کیا نام ہے تیرا اور کیوں اس بچی کو اپنا شکار بنایا ہے ؟

شکار ہاہاہاہا شکار ۔۔۔

 تم آدم زاد کتنے بے رحم ہوتے ہو ۔۔
 بے گناہ جان لے لیتے ہو اور جب اپنے اوپر بات آتی ہے۔۔۔۔۔ جرم چکانا پڑتا ہے۔۔۔۔ تو جان نکلنے لگی ہاہاہاہا 
نہیں چھوڑوں گی کسی کو نہیں چھوڑوں گی میں ۔۔۔ 
مجھے بدلا چاہئے بدلا ۔۔۔

کیسا بدلا ؟

 کیا نام ہے تیرا کیوں آئی یہاں کہاں سے آئی ہے ؟ 
وہ عفریت کمرے میں گشت کرتی رہی کوئی جواب دینے کو تیار نہیں تھی ۔۔ 
بھائی عبدالسلام نے جیب سے ایک بوتل نکالی اور چلّو میں پانی لیکر پڑھا اس کی طرف اچھالا ۔۔۔ وہ لوٹنے لگی اور بین کرنے لگی ۔۔۔ یوں لگتا پانی نہیں تیزاب اچھالا ہو ۔۔۔ اس کی جلد سے دھواں اٹھتا محسوس ہوا۔۔۔

      ظالم آدم زاد مجھے مجبور نہ کر
 یہ بچی میرا نشانہ نہیں ہے
 میرا اصل انتقام اس سے ہے جو تیرے پیچھے چھپا ہے ۔۔ ڈر پوک نا مرد ۔۔۔۔ سامنے آ ۔۔۔۔۔
اس کے باپ نے مجھے قتل کیا ہے
 میں اس کو نہیں بخشوں گی ۔۔۔
تیرے ان شعبوں سے بچی کی جان جائے گی ۔۔
یہ پانی مت اچھال مجھ پر 
تجھے تباہ کر دوں گی میں۔۔۔

جو جو میں نے پوچھا ہے اس کا جواب دے پہلے ۔۔۔
غراہٹوں کے ساتھ اس نے بتانا شروع کیا ۔۔۔
 اس کا نام ابایومی ہے اور وہ جناتوں میں سے ہے۔۔۔

جناتوں میں سے ہے تو انسانوں میں کیا کرنے آئی ہے
 تجھے علم نہیں کہ انس وجن کے درمیان رب نے ایک فصیل بنائی ہے ....
ایک حد بندی قائم کی ہے سزا کی مستحق تو. تو ہے۔۔۔۔
 تو نے حد توڑی ہے 
اس میں آغا کا کوئی قصور نہیں... 
تو نے اسے مجبور کیا کہ وہ تجھ پر حملہ کرے ۔۔ 
تو کیوں ان انسانوں کے اتنے نزدیک آئی اور اس بچی پر جھپٹی ؟ 

وہ تلملانے لگی ۔۔ 

میں نہیں جھپٹی ۔....
میں نے کوئی حملہ نہیں کیا.....
 میں نے کوئی نقصان نہیں پہنچا یا پوچھ اس آدم زاد سے میں کتنے دن سے اس کے گھر آتی رہی ....
میں نے کبھی گھر کے اندر قدم رکھا؟؟؟
 کوئی نقصان پہنچا یا ؟؟؟
ڈرایا دھمکایا کسی پر سوار ہوئی ؟؟؟
میں نہیں مانتی تیرا مذہب اور اس کے قانون۔۔۔۔
 میری پوجا ہوتی رہی ہے مصر کے ایوانوں میں جا جاکر دیکھ میں دیوی ہوں ۔۔۔۔ ابایومی ۔۔۔۔۔
 
تو جھوٹ بولتی ہے مکار تو نے بچی پر حملہ کیا اور اس کے باپ نے اپنی بچی کے بچاؤ میں تجھے مارا
 جس سے تیری جان گئی۔۔۔۔
 
وہ پھر غرائی ۔۔۔
 میں نے حملہ نہیں کیا میں کھیلنے لگی تھی اس بچی کے ساتھ۔۔۔
میں مہینوں سے بیٹھ کر ان کا کھیل دیکھتی رہی ہوں اس دن ان کی بال میرے نزدیک آ گری اور میں آگے بڑھی کہ اس آدم زاد نے ہتھیار سے مجھ پر حملہ کیا ۔۔۔

اوہ میرے خدایا یہ مجھ سے کیا ہو گیا ۔۔۔

آغا جان سر پکڑ کر بیٹھتے چلے گئے۔۔۔۔ جانے انجانے انھیں لگا بلی حملہ آور ہوئی ہے مگر بقول اس کے وہ زیبی کے ساتھ کھیلنا چاہتی تھی۔۔۔ 
مگر کھیلنا بھی کیوں چاہے کوئی جن انسان کے ساتھ ۔۔ 
 
آغا جان نے کہا۔۔۔۔۔۔ 
بھائی عبدالسلام میں ہاتھ جوڑ کر اس سے معافی مانگتا ہوں 
مجھ سے غلطی ہو گئی 
میں صرف اس کو اپنی بچی سے دور کرنا چاہتا تھا اس کی جان لینے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔۔۔
آغا جان ہاتھ جوڑ کر رو دیئے۔۔
رابعہ نے آغا جان کی کہی ہوئی بات دہرائی ۔۔

ابایومی ہنسنے لگی ۔۔

غلطی ہوگئی؟ 
میری جان گئی اور تیری غلطی ہوگئی؟ 
میں تجھے معاف نہیں کروں گی ۔۔۔۔
اب تو اپنی لڑکی میں ہمیشہ مجھے پائے گا اور تیری یہ غلطی تجھے برباد کردے گی ۔۔۔۔
اس عفریت کے قہقہے کمرے میں گونج رہے تھے ۔۔۔۔ وہ آوازیں کانوں کو چیر رہیں تھیں۔۔ 
 اذکار کی کثرت اور خوف سے ہماری زبانیں خشک ہوئی جارہیں تھیں ۔۔۔ 

       بھائی عبدالسلام نے کہا ۔۔
 دیکھ ابایومی ۔۔۔
 معاملہ صاف ہے ۔۔ 
جو ہوا حادثاتی طور پر ہوا ۔۔۔
آغا تیری جان لینا نہیں چاہتا تھا اور ویسے بھی تیری جان گئی تو نہیں۔۔۔۔
 تو مری تو نہیں تو زندہ ہے اور قابص ہے دیکھ یہ معصوم بچی اسکا کیا قصور ہے چھوڑ جا اسے ۔۔۔ 
ویسے بھی وہ ایک جسم تھا جو مٹ گیا۔۔۔۔
 تجھے جسموں کی کمی نہیں۔۔۔
 معاف کردے انھیں ۔۔ 
تیرا تعلق جس بھی مذہب سے ہو کوئی مذہب بے گناہ کو سزا نہیں دیتا بات مان ۔۔۔

بے گناہ؟ 
یہ میرا گناہ گار ہے ۔۔۔
جسم کے بدلے جسم ۔۔ 
مجھے اس کی بچی کا جسم پسند آگیا ہے ۔۔۔۔
 اس کی آنکھیں دیکھ ۔۔۔ 
کیسی بھوری بھوری ہیں ۔۔ 
 اور اس کی جلد سفید۔۔۔ 
 میرے جیسے سیاہ بال ۔۔۔
 یہ میرے جیسی ہے ۔۔ 
 مجھے اس کا جسم چاہیے ۔۔۔۔
بس اب مجھے آزاد کر۔۔۔۔ 
مجھے اس جسم سے نکلنے دے۔۔۔
 ورنہ میں اس بچی کو مار دوں گی۔۔
  
            اب پانی سر سے گزر چکا تھا اور بدلے کی آگ میں ابایومی اندھی ہوچکی تھی وہ کسی قیمت پہ زیبا کو چھوڑے گی۔۔۔۔۔۔ اس سے کوئی بعید نہیں تھی کہ وہ زیبا کو مار دیتی ۔۔۔۔
 
بھائی عبدالسلام کو بھی اس بات کا اندازہ تھا انھوں نے ایک آخری کوشش کی کہ ابایومی زیبا کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ جائے ۔۔۔۔
 ہماری انجانے میں ہوئی خطا معاف کردے ۔۔۔۔
 مگر وہ بضد تھی ۔۔۔
 یہ مخلوق طاقت کے زعم میں ڈھیٹ ہوتیں ہیں ۔۔۔۔۔

       بھائی عبدالسلام نے اذکار بلند کئے اور بوتل میں سے پانی کے چھینٹے پڑھ پڑھ کر زیبی کی طرف اچھالے وہ تڑپنے لگی جیسے پانی نہیں تیزاب کے چھینٹے ہوں اس کی جلد پر آبلے پڑنے لگے ۔۔۔  
اوہ میری زیبی۔۔۔۔

       مگر بھائی عبدالسلام نہیں رکے ہم سب کو ایک طرف کر کے وہ یہ عمل دہراتے رہے۔۔۔۔ 
بالآخر وہ بے دم ہوکے بیٹھ گئی ۔۔۔
 بھائ عبدالسلام آگے بڑھے اور پڑھ پڑھ کر پھونکتے رہے وہیں اس کے پاس بیٹھ گئے ۔۔۔ 
وہ بے سدھ پڑی تھی ۔۔۔ 
پڑھن پوری کرتے کرتے ابایومی زیبی کا بدن چھوڑ کے جا چکی تھی زیبی اصل حالت میں آگئی ۔۔۔۔ 
بھائی عبدالسلام نے جیب سے ایک کالے رنگ کا چمڑے سے منڈھا تعویذ نکالا اور زیبی کے گلے میں ڈال دیا۔۔ ۔۔
تعویذ کے گلے میں پڑتے ہی ایک ان دیکھی نحوست چھٹتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔ کچھ روشن ہوا تھا۔۔۔

       آغا جانی نے اپنی بات ختم کی اور میں نے بوتل سے منہ لگا کے بہت سا پانی حلق میں انڈیلا۔۔۔ یہ سب سن کر میں خود سانس لینا بھول گیا تھا حلق میں کانٹےپڑتے محسوس ہوئے ۔۔۔

           شکر اللہ کا۔۔۔ اس عفریت سے جان چھوٹی ۔۔۔
مگر یہ بلی ؟؟
 یہ کوئی نئی بلی آگئی کیا ؟
 یہ ہی سب سوچتے ہوئے میں نے پھر سوال کیا۔۔۔۔
۔۔۔ پھر آغا جانی ۔۔۔ پھر کیا ہوا ؟
 
        زیبا ٹھیک ہوگئی اس بلا سے ہماری جان بخشی ہو گئی بھائی عبدالسلام نے بتایا کہ یہ مخلوق بنی ہی آگ سے ہے اس کو جلایا یا مارا نہیں جاسکتا قید کیا جاسکتا ہے یا دور کیا جا سکتا ہے ۔ ۔اس کا واحد حل حفاظت کے تعویزات اور اذکار ہیں ۔۔۔

       میں نے عملیات کے زور پر اسے دفعان کردیا ہے۔۔۔ بس اب یہ خیال رکھیں کہ یہ یہ اذکار آیات روز بلا ناغہ آپ یا آغا دم کریں ۔۔۔ اور چھینٹے دیں ۔۔۔ اس بات کو یقینی بنائیں کے یہ تعویذ کبھی گلے سے نہ اتارا جائے ۔۔۔اور ایک بات ۔۔جتنی جلد ہو سکے یہ حویلی چھوڑ دیں ۔۔۔ 

          آغا جان اور میں رابعہ اور بھائی عبدالسلام کے بہت ممنون تھے ۔۔۔انھیں تحائف دینے چاہے ۔۔۔اذان میاں اگر وہ آغا جان سے ان کا سب کچھ بھی مانگ لیتے تو ہم انکار نہ کرتے بخوشی سب کچھ ان پر نچھاور کر دیتے مگر یہ ہی ظرف ہوتا ہے اللہ والوں کا ان میں طمع نہیں ہوتی لالچ نہیں ہوتا وہ اللہ اور اس کے محبوب کی خوشنودی کے لیے یہ سب کرتے ہیں دنیاوی مال و دولت ان کے لئے بیکار تھی ۔۔ وہ ہماری خوشی میں خوش تھے ۔۔۔۔۔ انھیں دعا کے سوا کوئی صلہ درکار نہ تھا ۔۔۔۔کہنے لگے ۔۔ صبیحہ بھابی دعوت ادھار ہے آپ پر۔۔۔۔ اب ایک کی جگہ تین مہمانوں کی مہمان نوازی کرنی پڑے گی آپ کو ۔۔۔ 

       بیٹا تین کی کیا ؟؟ تین کے تین سو بھی ہوتے تو ہماری سر آنکھوں پہ تھے ۔۔ ہمارے گھر کی رونق لوٹائی تھی اللہ کے حکم سے ۔۔ ہم تو نہال تھے ۔۔۔ 

         پہلی بار آغا جانی مسکرائیں تھیں۔۔۔مگر مسکراہٹ میں بھی درد تھا ۔۔۔
فجر کی اذانیں ہورہیں تھیں وہ عبادت کے احاطے کی طرف روانہ ہوئیں اور میں مسجد ۔۔۔ 
فجر ادا کر کے میں یہ دعا کرتا رہا یارب اب بھی آج کی دنیا میں بھی کوئی ایسا اللہ والا ہے کوئی مرد مومن جو زیبا کو اس مصیبت سے نجات دلا سکے ؟ 
اے ربِ رحیم۔۔۔ تیرے قبضہ قدرت میں کیا نہیں ۔۔۔ غیب سے اسباب پیدا فرما ان کی مدد کر ۔۔۔۔۔

        مومن کی دعا اگر مومن کے حق میں پیٹھ پیچھے خلوصِ دل سے مانگی جائے تو رب کبھی مایوس نہیں لوٹاتا اس بات پر مجھے یقینِ کامل ہے ۔۔۔ 
میں نے دیوار سے ٹیک لگا کے پاؤں سیدھے کئے اور پتا نہیں کب دل ہی دل دعا کرتے میری آنکھ لگ گئی۔۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─