┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


بلی 🐈
از سلمی سید 
قسط 3

ڈاکٹر نے آ کر بتایا.....

 زیبا کے پاؤں کی بینڈیج کردی گئی ہے مگر زخم سڑنے کی وجہ سے زیبا کو تیز بخار بھی ہے اور معدے میں انفکشن بھی ۔۔۔۔۔ ہمیں رات اسپتال میں رکنا تھا ۔۔

       اس صورتحال میں آغا جانی کو تنہا اسپتال میں چھوڑ جانا بہت نامناسب سی حرکت تھی..... اور گھر جا کر بھی مجھے کونسا سکون مل جانا تھا ۔۔۔۔ رات اسی شش و پنج میں گزرتی اس لئے بہتر یہ ہی سمجھا کہ ان کے ساتھ رک جاؤں وہ بھی کچھ بتانا چاہتیں ہیں اور میں بھی معاملے کی تہہ تک جانا چاہتا ہوں

 سو میں نے ان سے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو زیبا کے روم میں آرام کرلیں میں باہر بیٹھا ہوں ۔۔آغا جانی نے زیبا سے ملنے کی خواہش کی اور ہم اس کمرے کی طرف بڑھے میں باہر ہی رک گیا مگر انھوں نے اشارے سے مجھے ساتھ آنے کے لیے کہا ۔۔...

اسپتال کے اس کمرے میں زیبا کی موجودگی کو بمشکل دو سے ڈھائی گھنٹے گزرے تھے...... مگر اس کمرے میں بھی وہی ناگوار بو بس چکی تھی...... یہاں ٹھہرنا محال تھا ۔۔ وہ بیڈ پر بھی شکنجوں میں کسی ہوئی تھی اس لئے کوئی خطرہ نہ تھا....... شائد سو رہی تھی ...... آغا جانی محبت سے اس کے ماتھے اور سر پر ہاتھ پھیرتیں پیار کرتیں رہیں آنکھوں سے آنسوں رواں تھے میں نے خود کو اس لمحے بہت بے بس محسوس کیا ۔۔۔۔ ہم کمرے سے باہر آ گئے ۔۔۔۔ آغا جانی نے خود کو قدرے سنبھال لیا تھا ۔۔ اسی اثناء میں وجاہت ہمدانی کی دو کالز آچکیں تھیں اور زرنگار بھی گھر پہنچ کر کال کر چکی تھی ۔۔

        میں اور وہ کمرے کے باہر بیٹھے تھے۔۔ آغا جانی نے زیبا کے بارے میں بات شروع کی ۔۔ 

کہنے لگیں ۔۔ 

میری بیٹی بہت لاڈلی اور نازو نعم میں جوان ہوئی ہے اور اب اس کی یہ حالت دیکھ کے میرا دل کٹ جاتا ہے ۔۔

  اذان میاں اولاد اور جوان اولاد کا دکھ رب دشمن کو بھی نہ دے ۔۔۔۔  
وہ بچپن سے ہی بہت ڈرپوک تھی اندھیرے اور اکیلے رہنے سے ڈرتی تھی....... ہر وقت میری جان سے لگی رہتی یا آغا جان کے ساتھ ۔۔
  ہم فیصل آباد میں رہائش پذیر تھے بہت بڑی حویلی اور بہت حسین لان تھا ہمارا ....
آغا جان کو باغبانی کا بہت شوق تھا سارا لان ان کے ہاتھوں کا بویا تھا ۔۔۔ 
زیبا اس وقت 7 سال کی تھی۔۔ 
وجاہت 11 سال کا ۔...
 یہ دونوں بچے ہی ہماری زندگی کی رونق تھے ۔۔ 
گرمیوں کے دنوں میں اکثر ایک کالی بلی کا ہمارے لان میں آنا جانا رہنے لگا ۔۔ 
یہ اتنی کوئی خاص بات بھی نہیں تھی مگر آغا جان کو بلییوں سے چڑ تھی ۔۔ 
ان کی ناپاکی نجاست اور بدبو کسی کو بھی برداشت نہیں تھی .....
مگر جانور کو کون روک سکتا تھا وہ بلی ہمارے لان کی کیاریوں میں اکثر بیٹھی ہوتی تھی ہم سب ہی نے ایک بات محسوس کی تھی کہ وہ ہمیں ٹکٹکی باندھ کے دیکھتی رہتی ....... ہم جب بھی لان میں بیٹھیں یا بچے کھیل رہے ہوں ہمیں اس کا دیکھنا بہت پراسرار ناگوار لگتا ۔۔۔اسے بھگانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر کوئی طریقہ کار گر نہ ہوا۔۔۔۔
اغا جانی کی غیر موجودگی میں اکثر خانساماں سے کہہ کر میں اسے دودھ ڈلوا دیتی ۔۔
 بے زبان جانور ہے ۔۔
 رحم آجاتا تھامجھے ۔۔۔
ایک دن دونوں بچے فٹ بال سے کھیل رہے تھے کے بال اس منحوس کے پاس جا گری....
 زیبا بال اٹھانے بھاگی....
 آغاجان گملوں کی گوڈائی کر رہے تھے ....ان کے ہاتھ میں کھرپی تھی ۔۔
 زیبا جیسے ہی بال لینے کیاری کے نزدیک گئی وہ بلی زیبا پر حملہ آور ہوئی .....
اور آغاجان نے کچھ سوچے سمجھے بغیر ہاتھ میں پکڑی کھرپی اس بلی کو ماری ۔۔۔ 
نشانہ اتنا ٹھیک لگا کے کھرپی سیدھی بلی کی گردن پر لگی اور وہ گر کے کیاری کے پاس تڑپتی لوٹتی رہی.....
 بچے بری طرح سہم گئے تھے بلی رو رہی تھی....
 وہی منحوس آواز ۔۔۔
 سنی ہے ناں آپ نے ؟  
میں نے کسی معمول کی طرح سر اثبات میں ہلایا ۔۔

         بلی روتی رہی.... ہم میں سے کسی کی ہمت نہ تھی کہ اسے اٹھاتے۔۔۔۔۔
 آغا جان نے چوکیدار سے کہہ کر ایک بوری منگوائی اور چوکیدار سے ہی اس بلی کو بوری میں ڈلوا کر کہیں پھنکوا دیا ۔۔
 آغا جان اسے مارنا نہیں چاہتے تھے بس سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ سوچنے کا وقت ہی نہیں ملا ۔۔ 
اس رات زیبا بہت ڈرتی رہی اور اسے بخار نے آلیا ۔۔ 
ہم بہت پریشانی میں آگئے ...۔ 
سارا ہفتہ ڈاکٹر حکیموں کے چکر کاٹتے گزرا۔۔ 
اسی دوران آغا جان کو کب وہم کی بیماری ہوئی پتہ ہی نہیں چلا۔۔ 
زیبا کے صحتیاب ہونے کے بعد میں نے غور کیا ....
وہ اکثر بیٹھے بیٹھے چونک جاتے اور اپنے آگے پیچھے دیکھنے لگتے.....
 جیسے کچھ ڈھونڈ رہے ہوں ۔۔
 کبھی کمرے کھول کے تلاشی لیتے ..
 کبھی کھڑکی کھول کے دیکھتے راتوں کو اٹھ کر بیڈ کے نیچے صوفوں کے نیچے جھانکتے ۔۔ مجھے یہ سب بہت عجیب لگ رہا تھا ۔۔

         ڈاکٹروں کی محنت رنگ لائی۔۔۔۔۔۔
 زیبا رو بہ صحت ہونے لگی۔۔۔۔۔۔
 آغاجان اسے ایک پل اکیلا نہ چھوڑتے ۔۔ 

ایک دن صبح کوئی گیارہ بارہ کا وقت ہوگا....
 آغا جان اور زیبی معمول کے مطابق لان میں کھیل رہے تھے
میں وجاہت کے ساتھ باہر گئی ہوئی تھی...
 مجھے سپر اسٹور سے کچھ سامان خریدنا تھا ۔۔۔۔
 جب میں واپس گھر آئی تو زیبا کیاری کے پاس بیٹھی نظر آئی آغا جان نہیں تھے ۔۔۔۔ 
میں اندر گئی دروازہ لاکڈ ۔۔۔۔ 
دروازہ بجایا آوازیں دیں تب کہیں جا کر آغا جان نے دروازہ کھولا۔۔۔۔ ۔ 
وہ بہت بوکھلائے ہوئے تھے۔۔۔
دہشت چہرے سے عیاں ۔۔
ان کا چہرہ زرد پڑ گیا تھا ....
مجھے لگا انجائنا کا اٹیک ہے میں فون کرنے بھاگی مگر انھوں نے مجھے بازوؤں سے پکڑ لیا اور بولے ۔۔

 وہ مری نہیں ہے ۔۔
وہ مری نہیں ہے۔۔۔
 وہ یہیں ہے باہر لان میں ۔۔
 دروازہ بند کردو ۔۔
وہ مجھے مار دے گی ۔۔

آغا جان ہذیان بکے جارہے تھے ۔۔۔ 

آغا ہوش کریں ۔۔۔۔

مجھے کچھ پلے نہ پڑا کون مری نہیں ؟ 

کون مار دے گی؟؟
 کیا ہوگیا ہے آپ کو ؟ 
کیا بول رہے ہیں ؟

 اتنے میں زیبا ہمارے پاس کھڑی تالیاں بجانے لگی اور کھلکھلانے لگی ۔۔

 بابا جانی ڈر گئے بابا جانی ڈر گئے ۔۔

مما میں بلی بنی بابا جانی ڈر گئے ۔۔۔۔ ہی ہی ہی۔۔۔
 
میاؤں میاؤں میاؤں میاؤں ۔۔۔ ہی ہی ہی ۔۔۔۔

 وہ ہنستی کھیلتی وجاہت کے ساتھ دوبارہ لان میں جا چکی تھی اور آغا جان پسینے میں شرابور ۔۔ 
انھیں تسلی دی پانی پلایا اوسان بحال ہوئے تو وہ رو پڑے ۔۔۔ 

میں نے زندگی میں پہلی بار اپنے شوہر کو بلکتے دیکھا تھا اذان میاں ۔۔۔۔۔ 
میرے لئے بہت بڑی بات تھی یہ....
 میرا دل اندر سے بجھ گیا اور ایک خوف دل میں سما گیا کہ کچھ بہت برا ہونے والا ہے ۔۔
 آغا جان گھر سے جا چکے تھے اور میں بچوں کے ساتھ مصروف ہوگئی ۔۔ 
وہ رات بہت دیر سے آئے ۔۔
 بہت گم صُم تھے ۔۔ 
بچے سو چکے تھے ۔۔۔ 
وہ جب بستر پہ لیٹے مجھے یاد ہے ان کی آنکھیں متورم تھیں ۔۔ 
میں نے دریافت کیا تو بولے ۔۔ 
صبیحہ تم یقین نہیں کروگی۔۔۔  
رہنے دو۔۔۔ 
میرے بہت اسرار پر انھوں نے بتایا کہ دوپہر تمھارے جانے کے بعد میں اور زیبا لان میں تھے ۔۔ 
میں اخبار پڑھ رہا تھا کہ میری نظر سامنے کیاری پر پڑی ۔۔ جہاں وہ بلی رہنے لگی تھی ۔۔ 
زیبا وہاں بیٹھی اپنے ہاتھ چاٹ رہی تھی ۔۔
میں نے آواز دی بلایا مگر اس نے ان سنی کردی میں غصہ میں اٹھا اور اس کے قریب جاکر اسے اٹھانے لگا تو اس نے میرا ہاتھ جھٹک کر پیچھے کیا اور میری گردن پر ہاتھ مارا ۔۔
 اس کا ہاتھ مجھے پنجے کے جیسا محسوس ہوا میں نے ہاتھ لگایا تو خون رس رہا تھا۔۔۔

       پھر ایک دم زیبی زمین پر بل کھانے لگی اور وہی آوزیں نکالنے لگی جو اس وقت وہ زخمی بلی روتے ہوئے نکال رہی تھی وہ غرانے لگی۔۔۔۔ 
وہ دوبارہ مجھ پر جھپٹی میں بھاگا۔۔۔۔ اندر آ کر کمرہ لاک کرلیا ۔۔ 

       تمھیں مجھ پر یقین ہے ناں صبیحہ ؟؟

 میں بس انھیں بے یقینی کے عالم میں دیکھتی رہی۔۔
 میں جانتا ہوں میری بات پر یقین کرنا مشکل ہے ۔۔
 میں جھوٹ نہیں کہہ رہا تم تو میرا یقین کرو ۔۔۔ 
میں پاگل نہیں ہوں ۔۔   
یہ دیکھو ۔۔۔ 
انھوں نے کالر ہٹایا تو واقعی تین خراشیں پڑی تھی جن پر خون ابھر کے سوکھ چکا تھا ۔۔
میں حیرانی سے انھیں دیکھ رہی تھی ۔۔

 مجھے اس کی آوازیں آتیں ہیں راتوں کو ۔۔ 
لگتا ہے وہ یہیں ہے ۔۔۔ 
اس کی چمکیلی آنکھیں مجھے گھور رہیں ہیں ۔۔۔ 
اس نے ہماری بچی پر قبضہ کرلیا ہے صبیحہ ۔۔۔

         کتنی ہی دیر ہم ساتھ لگے روتے رہے ۔۔ 
ہمیں نہیں پتا تھا ہمیں کیا کرنا ہے ؟ 
کیا ہونے والا ہے ؟ 
یہ سب کیسے ٹھیک ہوگا؟ 
کیا آغا جان اس گلٹ میں مبتلا ہو کر نفسیاتی مریض بن چکے ہیں ؟؟؟
یا یہ کوئی اور معاملہ ہے اور وہ سچ کہہ رہے ہیں ؟؟  
آغا جان اور زیبی میری روح کے دو حصے ہیں ۔۔
 میں کسی کو کھونا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔ 

     اتنا کہہ کر آغا جانی پھر پھوٹ پھوٹ کر رودیں ۔۔۔
 اور میں ۔۔۔۔ 
میں اپنی کیا کیفیات بیان کروں ۔۔۔۔ یہ معاملہ الجھتا ہی جارہا تھا ان گنت سوال ۔۔۔اب بھی باقی تھے اور کہانی بھی ۔۔کہانی میرے اور آپ کے لئے مگر یہ آغا جانی کی آپ بیتی تھی جو نامکمل تھی اور ابھی مزید کیا کچھ ہونا باقی تھا وہ سب الگ ۔۔۔

        آغا جانی میں سمجھ سکتا ہوں آپ اور آپ کا خاندان کس اذیت سے دوچار ہے۔۔۔۔۔ لیکن جو بھی ہوا وہ اپنے بچاؤ کے لئے ہوا۔۔۔۔۔۔ تو پھر یہ انتقام کیوں ؟ 

آغا جانی پانی کے گھونٹ بھرتیں ہوئیں بولیں۔۔۔۔

 اذان میاں یہ کوئی انسان نہیں تھی کہ قتل کا مقدمہ چلتا اور سیلف ڈیفنس ثابت کر کے ہم اپنے شوہر اور بچی کو بچا لیتے ۔۔۔۔
 بلی کے روپ میں وہ کوئی اور مخلوق تھی۔۔۔۔
 جس کو نہ ہم سمجھا سکے نہ معافی تلافی کر سکے ۔۔۔۔
 اول تو اس وقت ہم یہ سمجھے ہی نہیں تھے ۔۔۔۔
آغا جان کی گردن پر خراشیں دیکھ کر بھی ہمیں پختہ یقین نہ تھا ۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن ہم نے فیصلہ کیا ہم آغا جان کے ساتھ کسی اچھے ماہرِ نفسیات رابطہ کرتے ہیں۔۔۔
 ہو سکتا ہے بلی کی اچانک موت آغا جان کے ذہن میں بیٹھ گئی ہو اور یہ سب تماشے کروا رہی ہو۔۔۔۔۔
 ہم نے آغا جان کو راضی کیا یہ کہہ کر ہم زیبی کو ایگزامن کروانا چاہتے ہیں۔۔۔۔
 ڈاکٹر ہم سے بھی کچھ سوالات کر سکتا ہے تو گھبرائیے گا نہیں ۔۔ 
ماہرِ نفسیات نے بالترتیب ہم چاروں سے سوالات کئے مگر اصل چیک اپ آغا جان کا ہی تھا ۔۔
مجھے شدید حیرت اس وقت ہوئی جب ڈاکٹر نے ہم چاروں کو نارمل قرار دیا ۔ ۔۔۔۔ 
تو اس کا مطلب ہے آغا جان زیبی کے بارے میں سچ کہہ رہے تھے۔۔۔۔
 ان دنوں میں نے زیبی میں کوئی بدلاؤ نہ دیکھا ۔۔۔۔
ہاں وہ کبھی کبھی اپنے ہاتھ چاٹنے لگتی کھانے کے بعد اور اب دودھ بغیر ضد کئے پی لیتی تھی ۔۔۔۔

        آغا جان کا دل گھر اور بچوں سے اچاٹ ہوگیا تھا وہ زیادہ وقت باہر رہنے لگے تھے ۔۔۔۔۔ 
زیبی سے بہت کم بات کرتے لیکن زیبی ان سے نزدیک ہونا چاہتی مگر وہ کوئی موقع نہیں دیتے ۔۔۔۔ 
زیبی کی طرف سے پھر کوئی ایسی بات نہیں ہوئی ہم مطمئن تھے۔۔۔۔
 مگر ایک بو اکثر آنے لگی تھی گھر سے ۔۔

 ایک دن وہ کہنے لگے صبیحہ میرے دوست کے ایک دوست انڈیا سے آئے ہیں کاروباری دوست ہیں مگر دم تعویذ بھی کرتے ہیں میں چاہتا ہوں وہ کل کھانا ہمارے ساتھ کھائیں ۔۔۔۔۔
مجھے کیا اعتراض ہوسکتا تھا ۔۔۔۔
دوسرے دن جمعرات تھی ۔۔۔۔۔آغا جان اور ان کے دوست عصر کے بعد ہی آگئے ۔۔ 
میں پہلی بار ملی تھی اچھے انسان تھے ۔ 
عبدالسلام بمبئی والے ۔
ان نام تھا۔ درمیانہ قد زرا سانولا سا رنگ مگر چہرہ پرنور ۔۔۔۔۔۔ 
رسمی گفتگو کے دوران ہی بچے سو کر اٹھ گئے تھے بھائی عبدالسلام سے ملنے کے بعد کھیل میں لگ گئے اور میں خانساماں کے ساتھ کچن اور رات کے کھانے کی تیاری میں ۔۔۔۔۔
 وہ آغا جان کے ساتھ لان میں ہی بیٹھے تھے کچھ دیر میں آغا جان نے مجھے آواز دے کر بلایا وجاہت کو اندر لے جانے کا کہا میں وجاہت کو اندر لے گئی ۔۔۔۔۔
زیبی لان میں ہی تھی ۔۔
 میں بھی ان کے ساتھ لان میں آ بیٹھی۔۔۔۔
 بھائی عبدالسلام پودوں کی آغا جان کی باغبانی کی تعریف کرتے کیاری کے نزدیک کھڑے ہوگئے ۔۔ 
مجھے لگا وہ کچھ پڑھ رہے ہیں ۔۔۔۔۔
آغا جان نے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھاما اور زیبی کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔۔۔ 

اذان میاں سن سکو گے جو میں کہنے لگی ہوں یقین کر پاؤ گے ؟
            میں کیا جواب دیتا ۔۔ اب تک بھی جو سن چکا تھا دیکھ چکا تھا اس پر یقین کرنا مشکل ہی تھا۔ میں نے استہفامیہ نظروں سے انھیں دیکھا۔۔۔۔۔۔ 

اذان میاں زیبی میری بچی۔۔۔۔۔۔
 وہ اسی بلی کے انداز میں بیٹھی تھی مگر اس کا چہرہ ۔۔ زیبی کا نہیں تھا ۔۔
 اسی کالی بلی کا تھا ۔۔۔
میری چیخ نکل گئی۔۔۔۔۔
 آغا جان نے مجھے بازوؤں میں دبوچ لیا ۔ 
زیبی چلتی ہوئی کیاری کے پاس بھائی عبدالسلام کے نزدیک جا کر لوٹنے لگی اور رونے لگی اس کی آواز سے حویلی گونج رہی تھی چوکیدار بھی یہ تماشہ دیکھ کر حواس باختہ ہوگیا ۔ ۔۔۔۔
بھائی عبدالسلام زمین پر بیٹھ گئے جیسے اس عفریت کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں ۔۔ 
کافی دیر وہ عفریت غراتی رہی روتی رہی اور پھر زیبی بے ہوش پڑی تھی ۔۔ 
 میں اس کی طرف لپکی ۔۔
 وہ بے جان تھی میں اسے لپٹا کر رو دی ۔۔
 مجھے آغا جان کے ساتھ ہوئے واقعے پر اب مکمل یقین ہو گیا تھا ۔۔۔۔ 
بھائی عبدالسلام نے میرے سر پر ہاتھ رکھا تسلی دی بھابی فکر نہ کریں بچی ٹھیک ہے اندر لے جائیں ۔۔۔ 
میں کل شام پھر آؤنگا ۔۔  
آپ زیبی کو کمرے میں لٹا آئیں مجھے کچھ بات کرنی ہے

            ایک نرس نے آ کر اطلاع دی زیبا کو ہوش آگیا ہے وہ رو رہی ہے۔۔۔۔ آغا جان نے اسی ڈاکٹر کو کال ملا کر صورتحال بتائی ۔۔
 نرس کی بات کروائی اور نرس زیبا کے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔۔۔

مجھے نرس کے لئے بھی خوف آیا کہ خدا جانے زیبا ہوش میں ہے نرس کے ساتھ کیا کرے۔۔۔۔ ان عفریتوں کے لئے کونسا مشکل ہے کسی کی جان لینا یا نقصان پہنچا نا ۔۔۔۔ کہیں ایسا نا ہو وہ عفریت نرس میں منتقل ہو کر آزاد ہو جائے اور ہم زیبا کو قید کئے بیٹھے رہیں ۔۔ سوچ کی یلغار تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی صبح کے پونے پانچ بجے تھے فجر کا وقت تھا ۔۔۔۔۔ یہ آپ بیتی ادھوری چھوڑنا نہیں چاہتا تھا مگر نماز ذیادہ اہم تھی آغا جانی سے اجازت لیکر میں فجر ادا کرنے چلا گیا ۔۔ واپسی پر سوچا چائے کافی اور بسکٹ لے لوں آغا جانی بھی رات سے بھوکی تھیں اسپتال کی فارمیسی کے ساتھ ہی سبزہ اور چار چھے بنچیں تھیں میں نے سگریٹ سلگائی ۔۔۔۔
اوہ خدا۔۔۔ 
میرا فون ۔۔۔
شائد ڈیڈ تھا ۔۔۔
 امی ۔۔۔ 
امی کی کال آئی ہوگی رات کو ۔۔ 
پریشان ہونگیں ۔۔مجھے بلکل خیال نہیں رہا ۔۔۔میں نے فارمیسی والے لڑکے سے کہا ایمرجنسی کال کرنی ہے یار چارجر نہیں ہے کیا کچھ دیر موبائل چارج کردو گے ؟؟ اس نے ہامی بھر لی میں فون اسے دیکر واپس بینچ پر آ بیٹھا ۔۔۔ سر اور جسم بری طرح دکھ رہا تھا سارے دن کی نوکری کے بعد یہ افتاد پھر پوری رات کی جاگ کی وجہ سے اس قدر تھکن ہو رہی تھی کہ بیان نہیں کر سکتا۔۔ ٹھنڈی ہوا سر سہلانے لگی اور میری آنکھیں تھکن اور نیند کے خمار کے باعث بند ہوتی چلی گئی 

     اچانک بلییوں کے غرانے سے میری آنکھ کھلی۔۔۔۔ سرہانے لڑ رہی تھیں ۔۔۔ میں جوتا مارنے ہی والا تھا کہ ہاتھ وہیں کا وہیں رہ گیا یہ سوچ کر پتہ نہیں یہ نارمل بلی ہے یا اس کی کزن وزن ۔۔۔۔
 اپنی ہی سوچ پر ہنسی آگئی۔۔۔۔۔
 دن نکل آیا ۔۔۔۔۔دھوپ چڑھ گئی تھی نجانے کتنی دیر سویا رہا ۔۔۔۔اب مجھے احساسِ ندامت نے گھیر لیا آغا جانی انتظار میں ہوں گی ۔۔ 
میں نے فار میسی سے اپنا چارج موبائل واپس لیا جوس چپس اور کچھ بسکٹس لے کر اندر روانہ ہوا ۔۔۔۔۔ 
زیبا کے کمرے کے باہر کوئی نا تھا ۔۔۔
شائد آغا جانی اندر ہوں مگر میری بلکل ہمت نہ ہوئی اندر جانے کی اور میں نے انتظار مناسب سمجھا۔۔۔۔ 
اس دوران امی کو کال کر کے اپنی خیریت سے آگاہ کیا اور دم کروالیا ۔۔۔ 
کچھ ہی دیر میں یاسر اور طلحہ (چھوٹا پوتا) آتے نظر آئے ان اس پیچھے آغا جانی اور زرنگار تھیں ۔۔

          میں اپنی جگہ سے اٹھ گیا ۔۔۔ آغا جانی کو ناشتے کے لئے جوس دینا چاہا تو انھوں نے بتایا زرنگار ان کے لئے لنچ لائی تھی دن کے دو بج رہے تھے۔۔۔۔۔۔ وہ چیزیں میں نے بچوں کو دے دیں ۔۔۔
آغا جانی نے بتایا وہ بھی پرے ایریا میں کچھ دیر سوگئی تھیں ۔۔۔۔۔
چلو اچھا ہوا ورنہ میں تو زمین میں گڑا جا رہا تھا کہ ان کو انتظار میں بیٹھا کر خود پورا دن سو کر آگیا ۔۔۔۔

      زرنگار کی موجودگی میں کیا کرتا میں وہاں ۔۔۔میری ان سے سلام دعا بھی نہیں تھی ۔۔۔
جس کرو فر سے اس کی گردن تنی رہتی تھی صاف ظاہر تھا وہ یا تو خوبصورتی کے زعم میں مبتلا تھی یا اپنے اسٹیٹس کو لیکر قدم زمین سے نہیں لگتے تھے ۔۔۔
 لوگوں کو یوں دیکھتی جیسے کیڑے مکوڑے ہوں ۔۔۔ 
حد درجہ مغرور ۔۔۔
 مجھے الجھن ہونے لگی ۔۔۔

         فیکٹری سے کال پر کال آرہیں تھیں..... میں باہر نکل آیا اور باس سے کہا کچھ نجی مسائل ہیں ....اسپتال میں ہوں.... کوئی قریبی رشتے دار بیمار ہے ایمر جنسی ہے میں نہیں آ سکوں گا۔۔۔ دوسرے دن وقت پر پہنچنے کی تاکید کرتے ہوئے باس مطمئن ہوگئے ۔۔۔

            میں واپس اندر آیا تو آغا جانی رنجیدگی سے زیبا کا حال زرنگار کو بتا رہیں تھیں اور وہ سپاٹ چہرہ لئے فون میں سکرولنگ۔۔۔
مجھے کہنے لگیں اذان میاں چاہیں تو جا سکتے ہیں شام تک زرنگار یہاں ہیں شام کو انہیں جانا ہوگا تو کیا آپ رات میں یہاں آ سکتے ہیں ؟ وجاہت یہاں ہوتے تو میں آپ کو زحمت نہ دیتی ۔۔

        ارے آغا جانی بیٹا کہہ کر اب زحمت کی بات تو نہ کریں ۔۔
 اسپتال میں ایک مرد کا ساتھ ہونا ضروری ہے ۔۔
 میں عشاء کے بعد آجاؤں گا .. 
ان سے رخصت لے کر فیکٹری جانے کا ارادہ کیا ۔۔۔۔۔
مگر ابھی ابھی باس کو اتنی راگ پٹی دی ہے سب جھوٹ سمجھتا ۔۔۔کہ لو ابھی تو ایمرجنسی اسپتال میں تھا اب کیسے فیکٹری آگیا؟؟ اگر مجھے پہلے علم ہوتا زرنگار شام تک رہے گی تو میں باس سے کہہ دیتا کہ کچھ دیر کے لئے آ جاتا ہوں ۔۔۔۔ مگر اب نہیں۔۔۔۔ رات پھر جاگنا تھا ۔۔۔مجھے نہیں لگتا زیبا کو دو چار روز سے پہلے چھٹی ملے تو سوچا گھر جا کر آرام کرنا بہتر ہے

            گھر پہنچ کر فریش ہوا ظہر ادا کی شام کے لئے کپڑے استری کئے ذہن انہی ساری باتوں کو دہراتا رہا اور بس لیٹ گیا ۔۔۔
سوچتے سوچتے سوگیا ۔۔۔۔۔
 شام کا جھٹپٹا ہونے لگا تھا جب آنکھ کھلی۔۔۔۔  
نوکری کی وجہ سے میری ایک روٹین تھی۔۔۔ جلدی سونا جلدی اٹھنا ۔۔ مگر بے وقت سونے جاگنے سے طبیعت میں بھاری پن محسوس ہورہا تھا کچھ دیر نیوز دیکھیں کسی کام میں ذہن حاضر نہیں تھا مغرب ادا کر کے میں اسپتال کے لئے روانہ ہوگیا راستے سے دو پیکٹ بریانی لے لی۔۔۔۔۔ زیبا کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو آغا جانی کے حلق سے نوالہ اتر سکے گا اللہ پاک اس لڑکی کو شفا دے غیر ارادی طور پر دل اس کے لئے دعا گو تھا ۔۔

            اسپتال میرے گھر سے دور تھا راستے میں عشاء ہوگئی ۔۔۔
 اسپتال کی مسجد میں ہی عشاء ادا کی اور وارڈ کا رخ کیا ۔۔۔ 
آغا جانی اور وہی مولوی بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔۔۔۔۔ 
آج پہلی بار آغا جانی نے اس بندے سے میرا تعارف کرایا ۔۔۔ اسکا نام طاہر علیمی تھا اور وہ جامعہ نعیمیہ میں پڑھاتا تھا ۔۔۔۔
عمر کچھ اتنی زیادہ بھی نہیں تھی لیکن حلیئے سے بڑا لگ رہا تھا ۔۔۔۔
مجھ سے مل کر اس نے رخصت چاہی تو آغا جانی نے روک لیا اور کہا کہ بات پوری کر کے جائیں اذان میاں سب جانتے ہیں ۔۔۔ 
طاہر علیمی ایک عامل بھی تھے اس لئے زیبا کی جان اس عفریت سے بچانے کے لیے ان کا ہمدانی ہاؤس میں آنا جانا رہتا تھا۔۔ 
طاہر علیمی نے بتایا کہ وہ عفریت کسی قیمت پر زیبی کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
 وہ بات نہیں کرتی یا شائد کسی ایسی زبان میں بات کرتی ہے جس کا مجھے علم نہیں ہے ۔۔۔۔۔
میں اتنا کوئی بڑا عالم نہیں ہوں بس بچی کے سکون کے لئے اسے دم کر دیا کرتا ہوں مگر اب یہ معاملہ میرے ہاتھ سے نکلتا محسوس ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔
ایک تو عفریت انتقام پر آمادہ ہے دوسری غلطی زیبا کی شادی کر کے ہوئی ۔۔ جب زیبا نے شادی سے انکار کردیا تھا تو آپ کو زور زبردستی نہیں کرنی چاہئے تھی ۔۔۔۔۔

 زیبا کی شادی ؟؟ 
کب ؟؟
 کس سے ؟؟؟ 
اس حالت میں شادی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔

     میں نے شادی کے ذکر پہ آغا جانی کی سمت دیکھا تو انھوں نے آنکھوں کے اشارے سے مجھے چپ رہنے کو کہا ۔۔ میں طاہر علیمی کی بات سنتا رہا ۔۔
آغا جانی نے ان سے دعا کی درخواست کی اور طاہر نے اپنے پیر صاحب سے رابطہ کرنے کی یقین دہانی کروا کر رخصت لی ۔۔۔۔ 
        میرے ذہن کے پرزے ایک بار پھر حرکت میں آچکے تھے اور دھڑا دھڑ بے حساب سوال پہ سوال گھڑنے لگے ۔۔۔

میں نے آغا جانی سے زیبا کی طبیعت دریافت کی ۔۔ انھوں نے بتایا زخم بہتر ہے اور معدے میں معمولی انفکشن تھا وہ اب پہلے سے بہتر ہے مگر ڈسچارج کل صبح کریں گے البتہ پاؤں کی بینڈیج روز ہونی ہے جو گھر میں بھی ہو سکتی ہے۔۔۔۔
 ڈاکٹر چونکہ وجاہت کا دوست ہے اور اتنا ہی جانتا ہے کہ وجاہت کی بہن کو کوئی دماغی عارضہ ہے اس لئے ہر ٹریٹمنٹ زیبا کی بے ہوشی میں ہو ورنہ وہ مشتعل ہو جاتی ہے ۔۔ 
اس لئے زیبا جب سے ایڈمٹ تھی اسے مستقل ذہنی سکون کی ادویات دی جارہی تھیں اسی لیے وہ تمام وقت نشے کی حالت میں رہی ہے۔۔۔ 
وجاہت ہمدانی کی کال آئی تو میں اٹھنے لگا مگر آغا جانی نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔ 
میں بیٹھ گیا ۔۔۔۔
 مجھے اچھا نہیں لگتا کوئی فون پر بات کرے تو اس کے منہ کے آگے بیٹھے سب سنتے رہو مگر اس وقت آغا جانی نے خود بیٹھے رہنے کا کہا تھا ۔۔۔ 
سلمیٰ سید©
جاری ہے

─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─