┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


بلی 🐈
از سلمیٰ سید
قسط 2

 ٹی وی آن کرنے کے بعد بھی اسی ادھیڑ بن میں لگا رہا ۔۔

          فون کی گھنٹی بجی تو امی کی کال تھی ۔۔۔۔جب سے کراچی آیا ہوں امی تقریباً روز ہی دس سے گیارہ کے درمیان کال کر کے خیریت لیتی تھیں

         آج بھی معمول کے مطابق کال تھی مگر امی پوچھنے لگیں وہ کون سی بات ہے جو تمھیں الجھا رہی ہے اور میں چاہ کر بھی امی کو اصل بات نہ بتا پایا ۔۔۔۔بس اتنا ہی کہہ سکا کہ تھکن ہے... دم کردیں ۔۔۔۔۔ 

میری عادت اور امی کا معمول تھا کہ گھر سے نکلتے ہوئے اور سونے سے پہلے دم کیا کرتیں ہیں تو کراچی آنے کے بعد بھی یہ سلسلہ فون کے ذریعے جاری رہا ۔۔۔۔ ایک تسلی سی ہوجاتی ہے اور پھر ماں کی دعا جنت کی ہوا والی بات ہے ۔۔۔۔۔ اگلی صبح پھر فیکٹری اور زندگی کی گہما گہمی شام میں ہمدانی ہاؤس اور پراسرار خاموشی۔۔۔۔

          وہ آواز اب کم آتی ہال میں یا سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دبی دبی سی محسوس ہوتی مگر کمرے میں نہیں آتی تھی ۔ مگر جب بھی آتی آواز میں وہی بین اور بے حد وحشت۔۔ کچھ روز اسی طرح گزر گئے کوئی قابلِ ذکر واقعہ نہ ہوا البتہ اس مولوی صاحب کا آنا جانا رہتا تھا ۔ ایک روز میں واپس جانے کے لیے سیڑھیاں اتر رہا تھا کہ ہال کمرے کے بائیں جانب ایک کمرے کا دروازہ ادھ کھلا اور نیم تاریک تھا بلی کے رونے کی آواز دھیمی دھیمی آرہی تھی میری رفتار غیر محسوس طریقے سے بہت کم ہوگئی ۔۔۔اچانک بہت تیز چھنک کی آواز آئی ناگوار بد بو اور بین مزید بڑھ گیا ۔۔۔پتا نہیں کیوں مجھے ایک عجیب سے ڈر نے گھیر لیا اس کمرے سے دفعتاً مولوی صاحب باہر نکلے وہ اذکار بلند آواز میں پڑھ رہے تھے اور ساتھ ہی آغا جانی ان کے چہرے پر مردنی چھا رہی تھی وہ مولوی کو پر امید نظروں سے دیکھ رہیں تھیں جبکہ مولوی صاحب نفی میں گردن ہلاتے ہوئے کچھ کہہ رہے تھے۔۔۔۔۔۔ جونہی آغا جانی کی نظر مجھ پر پڑی انھوں نے لپک کر کمرے کا دروازہ بند کیا میں جھینپ سا گیا۔۔

                مجھے سچ مانیں بہت شرمندگی ہوئی بہت نا مناسب حرکت سرزرد ہوئی تھی مگر میں بھی کیا کرتا یہ تجسس یہ راز میرے ذہن پہ سوار ہوئے جارہا تھا میں آغا جانی سے نظر بچاتے ہوئے باہر نکل گیا ابھی میں لان میں ہی تھا کہ میرا فون بجنے لگا۔۔۔۔ فون فیکٹری سے تھا۔ تو نہ چاہتے ہوئے بھی اسی وقت ریسو کرنا پڑا کچھ دفتری معاملات سمجھانے تھے فوری۔۔۔۔۔ میں چہل قدمی کرتے ہوئے فون پر بات کر رہا تھا۔ سامنے مین گیٹ اور میری کمر کی طرف ہمدانی ہاؤس کی دو منزلہ عمارت تھی باتوں میں محو میں عمارت کی دیوار سے لگ کر کھڑا ہوگیا سگریٹ سلگائی بلی کی منحوس آواز بدستور جاری تھی۔۔۔ دل میں کھٹکا سا ہوا کہ وہ آواز کہیں بہت نزدیک سے آرہی ہے۔۔۔۔ میں فون پر بات کرتے کرتے اس آواز کی سمت بڑھا وہ آواز ایک کھڑکی سے آتی محسوس ہوئی شیشے کی بڑی سی کھڑکی ۔۔ 

میں نے چھو کر دیکھا وہ مقفل تھی ۔ اس پر سرمئی پردے پڑے ہوئے یا شائد سیاہ پردے تھے ۔۔۔۔چھنک کی آواز بھی آئی جیسے کوئی پائل ہو نہیں شائد زنجیر ۔۔ مگر بند کمرے بند کھڑکی اور زنجیر کی آواز اتنی صاف۔۔؟؟؟

                 سگریٹ سے جب میرا ہاتھ جلا تو میں چونکا یہ میں کیا کر رہا تھا ؟ فون کب میں نے جیب میں رکھا کچھ یاد نہیں ۔۔ پردہ زرا سا سرکا ۔۔۔ اور میری سانسیں رک گئیں اس کمرے کا منظر دیکھ کر۔۔۔

            پردے کی باریک سی جھری میں صرف زنجیر اور اس سے بندھا ایک نازک پاؤں

 پاؤں کے ساتھ ہی ایک بڑا اسٹیل کا پیالہ رکھا ہوا تھا ۔ 

اوہ خدا تو یہاں کوئی قید ہے ۔۔ 
مگر کون ؟ 
کمرے میں نیم تاریکی تھی ۔

رونے کی آواز اب کچھ کچھ انسانی آواز محسوس ہونے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔شائد یہ پاؤں دیکھنے کے بعد نفسیاتی اثر تھا مگر سچ یہ ہی ہے کہ اب آواز میں کچھ زنانہ پن نمایاں تھا ۔۔۔۔۔ میں شیشے سے لگا یہ منظر دیکھ رہا تھا اسٹیل کے پیالے کے نزدیک کچھ حرکت محسوس ہوئی اور ایک کھلے بالوں سے چھپا چہرہ نظر آیا۔۔۔۔ چہرہ بہت واضح نہیں تھا۔۔ بس ایک احساس سا تھا کہ یہ کسی کا چہرہ ہے۔ وہ پیالے سے نزدیک ہوئی اور پیالہ ہونٹوں سے لگانے کے بجائے اپنی زبان پیالے میں جلدی جلدی ڈبوئی جس سے ایسی لپ چپ کی آواز پیدا ہوئی جیسے کوئی جانور پانی پیتا ہے وہ پیالےسے ہٹ گئی انداز بلکل بلی کے جیسا تھا اب منظر میں صرف زنجیر اور پاؤں تھا رونے کی آواز پھر شروع تھی 

                 میری سمجھ میں اب بھی کچھ نہیں آرہا تھا یہ سب جو میں نے دیکھا یہ کیا ہے؟؟
 فیکٹری سے دوبارہ فون آنے لگا اور میں لمبے لمبے قدموں سے لان پار کرکے مین گیٹ عبور کر گیا۔

      تمام راستہ کشمکش میں مبتلا رہا سو طرح کے خیالات۔ اور وہ منظر تو جیسے میری پتلییوں سے چپک کے رہ گیا تھا وہ پاؤں اور پیالہ ۔۔

 گھر پہنچ کر فریش ہوا عشاء ادا کی امی کی کال آئی تو ان سے کہا پہلے دم کردیں۔۔۔ میں اپنے اندر ایک بے چینی اور خوف محسوس کر رہا تھا۔۔۔ وہ کھڑکی بند تھی مگر اس کی زبان دودھ کے پیالے میں ڈوبنے سے لپ چپ کی جو آواز پیدا ہوئی وہ اب تک میرے کانوں میں گونج رہی تھی۔۔ میں خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتا رہا مگر ناکام ۔ سخت بے دلی اور خوف ۔ میں نے ٹی وی آن کرلیا ۔۔۔۔

              نیشنل جیوگرافک چینل سے کوئی ڈاکومینٹری آرہی تھی ہائناس کے بارے میں ۔۔۔ میں دل چسپی سے دیکھ رہا تھا کہ اچانک میرے پیچھے کچھ گرنے کی آواز ہوئی میں نے مڑ کے دیکھا تو ٹائم پیس فرش پر گرا تھا اور ایک کالی بلی اس کے گرد منڈلا رہی تھی ۔۔۔۔۔ اففففف میرے خدا ۔۔۔ 

       میں صوفے سے تقریباً اچھل کر کھڑا ہوگیا میں سوچ رہا تھا یہ آئی کہاں سے اور اب اسے بھگاوں کیسے ؟ اتنے میں بیڈ روم سے ایک بھوری بلی آتی ہوئی نظر آئی ایک سفید بلی میرے پیروں کے درمیان سے گزری اب میں پوری طرح خوفزدہ ہو کر صوفے پر چڑھ چکا تھا اور میرے اطراف طرح طرح کی بلییاں اچھل کود کر رہی تھی۔۔۔۔ 
غرا رہیں تھیں۔۔ ۔۔

               مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا دیکھتے ہی دیکھتے پورا کمرہ بلییوں سے بھر گیا ۔۔۔۔ میں بری طرح چیخ رہا تھا ان کی تعداد مستقبل بڑھتی جارہی تھی۔۔۔۔ میں نے امی کو پکارا اس کے ساتھ ہی میرے دل میں آیت الکرسی کا خیال آیا میں نے بلند آواز میں آیت الکرسی کا ورد کرنا شروع کیا وہ سب کی سب ساکت ہو کر مجھے گھورنے لگیں۔۔۔ اور ایک کے بعد ایک جست بھر کے مجھ پر حملہ آور ہونے لگیں ۔۔۔۔۔میں اور زور سے تلاوت کرتا گیا تلاوت میرے کانوں میں گونج رہی تھی اور ایک جھٹکے سے میری آنکھ کھلی۔۔۔۔۔ میں ابھی بھی آیت الکرسی کا ورد کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔ میں صوفے پر بیٹھا تھا میں نے ڈرتے ڈرتے پیچھے مڑ کے دیکھا ٹائم پیس اپنی جگہ رکھا رات کے دو بجا رہا تھا ۔۔

      اوہ میرے خدا ۔۔ یہ خواب تھا ۔۔ ٹی وی دیکھتے ہوئے نجانے کب میری آنکھ لگ گئی اور شام کے اس منظر کے زیرِ اثر یہ خواب ۔۔

 استغفار ۔۔

          بہت خوفناک تھا ۔۔۔ میرے دل کی دھڑکنیں بہت تیز ہونے لگیں۔۔۔۔میں نے موذتین پڑھ کر دم کیا اور آیت الکرسی کا حصار باندھا سونے کی کوشش کرنے لگا ۔۔ رات بہت بے چین گزری اور دن کی وہی گہما گہمی۔۔مگر طبعیت بوجھل تھی ۔۔۔۔۔چھٹی کا وقت جوں جوں نزدیک آیا مجھے پھر وہی مناظر اور ہمدانی ہاؤس کے خیالات نے جکڑ لیا ۔۔۔۔میں چاہتا تھا آج وہاں نہ جاؤں مگر بچوں کے امتحانات نزدیک تھے اور آغا جانی کوئی عذر قبول نہ کرتیں۔۔۔ چاروناچار میں ہمدانی ہاؤس کی جانب روانہ ہوا۔۔۔

            ہمدانی ہاؤس میں سب کچھ ہوتے ہوئے وہی ویرانی چھائی تھی۔۔۔۔۔ روشن قمقموں کے بعد بھی مدہم روشنی ۔ اس گھر میں داخل ہوتے ہی ایک ناگوار بو سے دماغ سن ہونے لگتا ۔۔۔۔مگر اے سی روم میں اس کی شدت قدرے کم محسوس ہوتی ۔ میں تمام فضول باتوں کو ایک طرف کرکے بچوں کو امتحانات کی تیاری کروانے میں مصروف رہا اور کوشش کرتا کہ گھر میں ہونے والی کسی بات یا شخص پر زیادہ توجہ نہ دوں یہ لوگ جانیں اور ان کے معاملات مگر وہ پاؤں ۔۔۔۔۔۔ 

دن یونہی گزرتے رہے آغا جانی سے دعا سلام لیتا رہتا مگر اس شام کے واقعے کے بعد وہ مجھ سے اور میں ان سے نظر بچا رہا تھا۔۔۔۔۔ بہرحال میں نے ایک غیر اخلاقی حرکت کی تھی جس پر میں واقعی شرمندہ تھا مگر ایک تجسس برقرار تھا کہ آخر وہ قیدی کون لڑکی ہے ۔؟؟۔

        اور پھر مجھے ایک شام اپنے تمام سوالوں کے جواب مل گئے ۔.... میں بیٹھا بچوں کو پڑھا رہا تھا کہ آغا جانی گھبرائی ہوئی آئیں اور مجھے باہر آنے کا اشارہ کیا ۔۔ میں باہر گیا تو وہ ہال کمرے میں اسی دروازے کے باہر کھڑی ہاتھ مل رہیں تھیں.......... 

میں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو بولیں اذان میاں وجاہت کسی کام سے شہر سے باہر ہیں اور ممکن ہے کچھ روز وہاں مزید لگ جائیں۔۔۔۔۔ زرنگار کہیں مصروف ہیں کیا آپ ہمیں اسپتال لے جا سکتے ہیں؟؟؟ میں نے فوراً ہامی بھرلی ....

انھوں نے کہا ایمبولینس کا انتظام کریں ۔۔مجھے تعجب ہوا کہ یہ تو نارمل ہیں ایمبولینس کی کیا ضرورت ؟ میں نے وہیں سے کال ملا کر ایمبولینس منگوائی ۔۔

 ایمبولینس کے آتے ہی آغا جانی نے کہا اذان میاں آپ کو تھوڑی ہمت کرنی ہوگی اور وفاداری کی قسم لینی ہوگی گو کہ آپ پر بھروسہ کرنے کے علاوہ اس وقت کوئی چارہ نہیں آپ ہماری اولاد کے جیسے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے میں ہمارا تماشہ نہ بنے اس لئے اب جو بھی حالات آپ کے سامنے آئیں انھیں راز میں رکھنے کا وعدہ کیجیئے ۔۔ 
  
          میرے دل نے کہا۔۔ کسی معصوم کو قید کیا ہوا ہے اب یا تو وہ لڑکی مر گئی ہے یا اس کی حالت نازک ہے اور آغا جانی راز فاش ہونے کی وجہ سے مجھے اعتماد میں لے کر اس کی لاش ٹھکانے لگانا چاہتیں ہیں ۔۔۔۔ لیکن یہ وقت یہ سب سوچنے کا نہیں تھا ۔۔۔۔۔میں نے عجلت میں ہاں کی اور راز کو راز رکھنے کا یقین دلاتے ہوئے ان کے پیچھے اس کمرے کی طرف بڑھا ۔۔۔۔۔ 

اندر وہی نیم تاریکی اور ہوش سے بیگانہ کر دینے والی بدبو تھی۔۔۔۔۔ میری نگاہوں کے سامنے جو منظر تھا آج بھی یاد کروں تو جھرجھری سی آتی ہے ۔۔ 

سیاہ لباس میں ملبوس بال کھلے ایک چوبیس پچیس سال کی لڑکی تھی۔۔۔ ۔ زردی مائل رنگ اور آنکھیں باہر کو ابلی ہوئی۔۔۔چہرے پر وحشت برس رہی تھی ۔۔۔۔ اس کی آنکھیں بھوری چمکدار بلکل بِلٌی جیسی۔۔۔۔ مگر اس کے بیٹھنے کا انداز سب سے عجیب تھا دونوں ٹانگیں موڑ کر پیچھے اور دونوں ہاتھ آگے کی طرف زمین پر رکھے وہ اپنی زبان سے لپ لپ کرکے کبھی اپنے ہاتھ چاٹ رہی تھی اور کبھی اپنا پاؤں ۔۔۔۔۔۔۔اس کے پاؤں میں زنجیر تھی۔۔۔۔ جس کے باعث بہت گہرا زخم ہوگیا تھا اور اس سے مواد رس رہا تھا جسے وہ مستقل چاٹ رہی تھی ۔۔۔۔۔ 

افففف خدا ۔۔۔۔ یہ کیا چیز ہے ۔۔ مجھے خوف کے ساتھ گھن آنے لگی ۔۔۔۔ ایک لمحے کے لیے مرد ہو کر بھی میں لرز گیا اور مجھے یہ قبول کرنے میں کوئی عار نہیں کہ مجھ پر اس کی دہشت سوار ہو چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔ آغا جانی اس کو پچکارتی ہوئی اس کے قریب گئیں تو وہ بلی کی طرح ان کے پیروں میں لوٹنے لگی اور چاروں ہاتھ پیروں کے بل بلٌی کی طرح کھڑی ہوگئی ۔۔۔۔۔اس کی آواز دھیمی غراہٹ میں بدلتی گئی جیسے ہی مجھ پر اس کی نظر پڑی ۔۔۔۔۔میں دل ہی دل میں آیت الکرسی کا ورد کر رہا تھا ۔ 

            آغا جانی نے اس کی زنجیر کا تالا کھولا اور مجھ سے کہا کہ اذان میاں یہ زنجیر پکڑیں جو ابھی تک اس کے پیر میں پڑی ہوئی تھی۔۔۔۔مجھے اپنی سانسیں رکتی محسوس ہوئیں مجبوراً میں نے وہ زنجیر تھامی مجھے لگا یہ بلی نما لڑکی ابھی مجھ پر جھپٹ پڑے گی مگر آغا جانی مسلسل اس کے سر اور کمر پر ہاتھ پھیر کر اسے پچکارتی رہیں اور ہم اسے کسی چوپائے کی طرح چلاتے ہوئے کمرے سے باہر لے آئے جہاں ایمبولینس کے ساتھ آئے رضا کار موجود تھے ۔۔۔۔۔۔۔

اس لڑکی کے پاؤں میں زخم کی وجہ سے اس سے چلا نہیں جارہا تھا رضا کاروں نے آغا جانی سے کچھ بات کی اور ایک نے بڑھ کر اس لڑکی کی کمر سے نیچے ایک انجکشن گھونپ دیا ۔۔۔۔۔وہ غرائی اور اس پر جھپٹی میرے ہاتھ سے اس کی زنجیر چھوٹ گئی اور اس نے آن کی آن میں رضاکار کو اپنے سخت نوکیلے لمبے ناخنوں سے زخمی کردیا ۔۔۔۔ دوسرے رضاکاروں نے بڑھ کر اس لڑکی کو قابو کیا مگر اب تک انجکشن کے زیرِ اثر لڑکی کے اعصاب ڈھیلے پڑنے لگے اور وہ بے جان ہوگئی ۔۔۔۔۔ اس سارے عمل کے دوران میں تماشائی بنا کھڑا تھا مجھے یہ لڑکی اور یہ حالات ابھی تک سمجھ نہیں آرہے تھے ۔۔۔۔آغا جانی کی آنکھوں میں آنسو مجھے ہوش میں لائے اور میں نے بڑھ کر انہیں تسلی دینا چاہی وہ بزرگ خاتون پھوٹ پھوٹ کر رو دیں ۔۔۔۔۔۔ 

             صورتحال ایسی تھی کہ اندازہ لگانا مشکل تھا اصل معاملہ کیا ہے ۔ اتنی دیر میں اس لڑکی کو اسٹریچر پر جکڑ کر ایمبولینس میں سوار کیا جا چکا تھا ۔ میں اور آغا جانی دوسری گاڑی میں اسپتال روانہ ہوئے ۔ سارے راستے وہ روتی رہیں میرے پاس ان گنت سوال تھے مگر یہ وقت مناسب نہیں تھا ۔۔۔ ۔۔ اسپتال پہنچ کر آغا جانی نے مطلوبہ ڈاکٹر سے رابطہ کیا اور اس لڑکی کو ایڈمٹ کرلیا گیا
اندر اس لڑکی کے زخم صاف کئے جارہے تھے اور میں آغاجانی کے ساتھ باہر بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔۔ 

آغا جانی نے کسی کو کال ملائی اور بات کرنے لگیں ۔۔۔۔۔ سلام دعا کے بعد کہنے لگیں زیبا کے پیر کا زخم ناسور بن رہا ہے ۔۔ میں وہاں سے اٹھ کر فاصلے پر جا کھڑا ہوا سگریٹ کی بہت طلب ہو رہی تھی رات کے نو بج رہے تھے مگر بھوک تو گویا اڑ ہی گئی تھی ہاتھوں کے طوطوں کے ساتھ ۔۔

           تو اس لڑکی کا نام زیبا ہے ۔۔ ہوسکتا ہے یہ وجاہت ہمدانی کی پہلی بیوی ہو ۔۔
 جسے قید کردیا گیا ہو اور دوسری شادی رچا لی ہو ۔۔
 یا ہوسکتا ہے یہ کوئی نوکرانی ہو 
جس کو اذیتیں دے کر اس حال کو پہنچادیا گیا ہو ۔۔
یا پھر یہ کوئی خالہ پھوپھی زاد ہو ۔
جس کے نام یہ تمام جائیداد ہو ہمدانی اس کے کئیر ٹیکر ہوں ۔۔۔۔

       کچھ بھی ہو سکتا ہے آج کل کے بیمار معاشرے میں ایسے جرائم عام ہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر ایسا ہے تو اس مولوی کا کیا کردار ہوگا اس سارے کھیل میں ؟؟؟؟ اور اگر یہ سب جانتے بوجھتے ہو رہا ہے تو آغا جانی کا دکھ درد کس لئے ؟؟؟؟؟۔ سوچ سوچ کے میری کنپٹیاں دکھنے لگیں تھیں ۔۔ایک بار پھر اس کی وحشت ناک صورت میری آنکھوں میں تھی ۔۔۔۔۔۔ صاف رنگت چمکدار آنکھیں سیاہ لمبے بال اگر وہ نارمل ہوتی تو واقعی حسین دکھتی مگر اس موجودہ حالت میں اس کا تصور اور اس کا جھپٹنا نوچنا دل دہلانے کو بہت تھا ۔۔ سگریٹ ختم کرکے میں آغا جانی کی طرف پلٹا کال ختم ہو چکی تھی اپنی چادر سے آنکھوں کے کنارے خشک کر رہیں تھیں

    میں اخلاقی اقدار بلکل ہی بھول بیٹھا تھا ان سے پانی جوس وغیرہ کا پوچھا تو انکار کر گئیں ۔۔۔۔ ایک یاسیت اور سوگواری ان کے چہرے پر نمایاں تھی مگر وجہ گمشدہ ۔۔۔۔۔ زیبا جس کمرے میں تھی اس کے دروازے کو گھورتی ہوئی گویا ہوئیں ۔۔

 زیبا میری بیٹی ہے
  بیٹی ؟ 
ہاں میری بیٹی ۔۔
 وجاہت سے چار سال چھوٹی ۔۔

         آپ اسی کشمکش میں ہیں کہ انھیں ایسا کیا ہوا ہے ان کی یہ حالت کیوں ہے اور یہ بات ہم نے آپ سے کیوں چھپائی ۔؟؟؟؟ اس پریشانی کے وقت میں آپ نے ہماری مدد کی ہے اذان میاں آپ ہمارے محسن ہیں ...۔ 

 جی آغا جانی میں شروع ہی سے اس معمے اس راز کی تہہ تک جانا چاہتا تھا مگر کیونکہ یہ آپ کا نجی معاملہ ہے تو میری ہمت نہیں ہو سکی ۔ کیا زیبا جی بیمار ہیں کوئی دماغی نفسیاتی بیماری ؟ 

        آغا جانی کے چہرے پہ تاسف پھیلا صاف دکھائی دیا میری بات یقیناً دکھ دے گئی تھی اولاد کی یہ حالت ہو تو ماں پر کیا گزرے گی اس کا اندازہ مجھے سوال کرنے کے بعد ہوا ۔۔۔۔ مگر بات زبان سے پھسل چکی تھی ۔۔۔۔۔۔

 وہ گویا ہوئیں ۔۔ کاش اذان میاں ایسا ہی ہوتا ۔۔ یہ کوئی بیماری ہوتی تو ہم دنیا کے بہترین ڈاکٹروں سے رابطہ کرتے زیبا کو ٹھیک کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے مگر اب ہم نا امید ہو چکے ہیں ۔۔۔۔ یہ کوئی بیماری نہیں۔ ۔ نفسیاتی مریضوں کے گھر میں کیا ایسی ہی ناگوار بو ہوتی ہے ؟؟؟ جیسی آپ نے ہمدانی ہاؤس میں محسوس کی ہے ؟
 آغا جانی ہر بات میرے سامنے صاف کرتی جارہیں تھیں ۔۔۔ ہم نہیں چاہتے کہ اس آسیب کی خبر لوگوں کو ہو اور ہماری بیٹی کا تماشہ بنے وہ اور ہم پہلے ہی بہت ذلت سے دوچار ہو چکے ہیں ۔

 کیسی ذلت آغا جانی ؟ اور یہ آسیب ؟ 

وہ سب کچھ بتانے پر آمادہ تھیں مگر میری بے چین فطرت سوال پہ سوال اٹھائے جارہی تھی ۔۔

ڈاکٹر نے آ کر بتایا زیبا کے پاؤں کی بینڈیج کردی گئی ہے مگر زخم سڑنے کی وجہ سے زیبا کو تیز بخار بھی ہے اور معدے میں انفکشن بھی ۔۔۔۔۔ ہمیں رات اسپتال میں رکنا تھا...©
سلمیٰ سید
جاری ہے

─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─