┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


بلی 🐈
از سلمی سید
 قسط 7

افففف شکر خدا کا آغاجانی راضی ہو گئیں بس اب وجاہت صاحب مان جائیں تو کوئی مشکل نہ رہے ۔۔۔ مجھے شاہ جی سے ایک عقیدت اور امید محسوس ہورہی تھی ۔۔۔ میرا دل گواہی دے رہا تھا کہ اب کچھ غلط نہیں ہوگا ۔۔۔ 

نرس پریشانی کے عالم میں دوڑتی ہوئی آئی اور اس نے مجھ سے کہا ۔۔۔

پلیز جلدی آئیں ۔۔۔ زیبا ہمدانی کو خون کی ضرورت ہے ۔۔۔
زیبا میں خون بتدریج کم ہورہا تھا مگر شہاب الدین غوری کے مطابق آج ہی آج میں زیبا کے جسم میں خون میں موجودہ مقدار میں 20٪ تک کمی ہوئی ہے ۔۔ اس کی کوئی وجہ سامنے نہیں آرہی تھی ۔۔۔ کومہ کے مریض سالہاسال یا مہینوں بے ہوش رہتے ہیں مگر ان میں خون کی کمی لاحق نہیں ہوتی ۔۔۔ یہ عجیب بیماری تھی جو ڈاکٹر کی سمجھ سے باہر تھی اور وہ یہ ہی کہتا ۔۔۔ ہوسکتا ہے اس کی وجہ فلاں ہو یا ہو سکتا ہے فلاں ہو ۔۔۔ جب آج کے دن تک وجہ ہی نہیں معلوم ہو پائی تو علاج کیا خاک کریں گے ۔۔۔ 
   
     نرس نے میرا خون میچ کیا اور زیبی کو میرا خون دیا جانے لگا ۔۔۔۔ وہ پیلی پڑ رہی تھی اس کے دانت بھی قدرے باہر آنے لگے تھے ۔۔۔انکھیں مزید سکڑ کر دھنس گئی تھیں ۔۔۔ وہ ایک عمر رسیدہ عورت لگنے لگی تھی اس سے ذیادہ پر رونق آغا جانی کا چہرہ تھا ۔۔۔ 

میں نے منہ دوسری طرف پھیر لیا ۔۔ آغا جانی کے لب ساکت تھے ۔۔۔ دل محوِ دعا ہوں تو ہوں مگر وہ اتنی دل بر داشتہ ہو گئیں تھی کہ انھوں نے اب اذکار چھوڑ دیئے تھے ۔۔۔ ہم تینوں نے رات ایک ساتھ آئی سی یو میں گزاری ۔۔ ۔ صبح ہوتے وجاہت کی کال آئی ۔۔۔ آغا جانی نے انھیں طبعیت سے آگاہ کیا ۔۔۔ اور کچھ بات بھی ہوئی مگر میں غنودگی میں تھا ۔۔۔

         ظہر کے وقت میری آنکھ کھلی تو آغا جان ظہر ادا کر کے میرے سرہانے کھڑی مجھ پر دم کر رہیں تھیں۔ ۔ مجھے بے اختیار امی یاد آئیں ۔۔۔ آج پھر میں فیکٹری نہیں جاسکا تھا ۔۔۔ اور مجھے یقین ہو چلا تھا کہ بیٹا نوکری اب کچھ ہی دن کی ہے ۔ ۔ جس حساب سے میں غیر حاضر ہوں فیکٹری والے کہیں گے بیٹا گھر میں رہ آرام کر ۔۔ خیر دیکھا جائے گا ۔۔۔

    میں ظہر ادا کر کے آیا تو آغا جانی نے ایک اچھی خبر دی کہ وجاہت نے خیر دین کی مدد سے ابایومی کی لاش کا سراغ لگایا اور اسے نذرِ آتش کردیا ہے ۔۔۔ وجاہت صاحب اور خیر دین کو بھی اس کام میں کافی دشواری کا سامنا رہا ۔۔۔ خیر دین کا ہاتھ ٹوٹ گیا ہے مگر شکر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا کیونکہ وہاں مرشد فرقان حیدر کے ایک شاگرد ان کی مدد کے لیے موجود رہے ۔۔۔

   اوہ ۔۔۔ یا اللہ تیرا شکر ہے ۔۔۔ اب اس کی طاقت میں شائد کوئی کمی آئی ہو ۔۔۔ لیکن یہ واقعہ اگر کل رات کا ہے تو ابایومی اپنا مردہ جسم تو نہ بچا پائی لیکن اس نے زیبا کو بہت تکلیف دی ہے ۔۔۔ پتا نہیں زیبا کو مار کر اس کو کیا مل جائے گا ۔۔بدلہ تو لے چکی ہے ۔۔۔ اور مارنا چاہتی ہے تو اتنی مہلت اور اذیت کیوں ۔۔۔؟؟

         آغا جانی نے بتایا کہ وجاہت رات تک کراچی پہنچ جائیں گے ۔۔۔ آغا جانی شاہ جی کے متعلق وجاہت سے بات کر چکی ہیں ۔۔ اور وجاہت ڈاکٹر شہاب الدین غوری سے بھی بات کر کے دیکھ چکے جنہوں نے زیبا کی بابت کوئی امید افزاء خبر نہیں دی ۔۔۔ اس لئے وجاہت بھی زیبا کو شاہ جی کے پاس لے جانے کے لیے راضی ہوگئے ۔۔۔۔

      اللہ کا احسان ہے راستے کھلتے چلے جارہے ہیں اور اس عفریت کے گلے پڑی رسی اب بس کسنے کو ہی ہے ۔۔۔ وجاہت رات میں آئے ۔۔۔ ہم اسپتال میں ہی تھے ۔۔۔وہ گھر جانے کے بجائے سیدھے اسپتال آرہے تھے۔۔۔۔ ان کے چہرے پر پریشانی اور فکر نمایاں تھی ۔۔۔۔ آغا جانی سے دعا اور پیار کے کر وجاہت نے زیبا کے بارے میں سوال کیا ۔۔۔

بیٹا ہم نہیں جانتے کچھ بھی ۔۔۔۔ اذان میاں ہے پوچھ لیں ۔۔۔
وجاہت صاحب میری طرف گھومے۔۔۔ میں نے ان کو زیبا کی اسپتال کی تمام رپورٹس اور ڈاکٹر کے اندازے لگانے اور تجربات کی بابت بتایا ۔۔۔ میری بات مکمل ہوئی تو وجاہت صاحب نے آگے بڑھ کے مجھے گلے لگایا اور شکریہ ادا کیا کہ اس مشکل وقت میں ان کی فیملی کا ساتھ دیا ۔۔۔

وجاہت صاحب ۔۔۔۔ آغا جانی میری ماں کی طرح ہیں ۔۔۔میں نے کوئی احسان نہیں کیا ۔۔۔۔ دل سے اپنی محبت سے آپ کے گھر والوں کا ساتھ دیا ۔۔۔ زیبا میری بہنوں جیسی ہے ۔۔۔میری طرف سے کبھی کسی غلط خیال کو دل میں جگہ نہیں دیجیئے گا۔۔۔۔۔ وجاہت صاحب نے مجھے گلے لگایا تو ہماری آنکھیں بھیگ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔
 تو ہم نے اگلے دن ظہر کے بعد شاہ جی کی جُگّی جانے کا فیصلہ کیا ۔۔۔

زیبا کی طبیعت کے پیشِ نظر وجاہت نے ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے زیبا کو ایمبولینس میں لے جانے کے انتظامات کئے اور یوں ہم ڈاکٹر شہاب الدین غوری کے منع کرنے کے باوجود زیبا ڈسچارج کرا کے عظیم پورہ روانہ ہوئے ۔۔۔ آج بس ٹھان لی تھی آر یا پار۔۔۔ ویسے بھی زیبا کا شمار اب نہ زندوں میں ہے نا مردوں میں ۔۔۔ وجاہت بار بار شاہ صاحب کی تفصیلات پوچھے جارہے تھے ۔۔ ان کے بار بار پوچھنے میں بہن کے لئے فکر مندی کی جھلک تھی۔۔ 
 
زیبا سمیت چار ہم لوگ اور دو نرسیں ساتھ تھیں۔۔ تین سوا تین کے قریب ہم شاہ صاحب کی جگی پہنچے ۔۔ وجاہت اور آغاجا نی پہلی بار مل رہے تھے آغا جانی کی کوشش تھی کے سارے واقعات شاہ جی کو سنا دیں زیبا کی ساری باتیں بتادیں اور وجاہت بس شاہ جی کو جانچ رہے تھے کہ زیبا کو یہاں لا کر جو رسک لیا ہے شاہ جی کہیں مایوس تو نہیں کریں گے ۔۔ 

بہرحال وجاہت نے اسٹریچر باہر نکلوانی چاہی ۔۔ 
    شاہ جی نے منع کردیا ۔۔۔ وہ خود ایمبولینس کے اندر گیئے۔ زیبی پر پانی پڑھ کر چھینٹے مارے ۔۔۔ لیکن اس میں رتی برابر جنبش نہ ہوئی ۔۔۔ وہ مسکرائیے اور ایک تعویذ نکال کر زیبا کے بازو پر باندھا اور ماتھے پر شہادت کی انگلی سے کچھ لکھا اور ایمبولینس سے باہر نکل آئے ۔۔۔۔
   
شاہ جی نے کہا۔۔۔
         وہ جانتی ہے کہ تم یہاں آئے ہو ۔۔۔ بچی کی طرف سے بے فکر ہو جاؤ اب اس پر مسلط نہیں ہو پائے گی وہ ۔۔۔
   
     نرسیں ایمبولینس میں تھیں اور ایمبولینس بند کر دی گئی ۔۔۔شاہ جی نے ایمبولینس کے دروازے پر بھی انگلی سے کچھ لکھا ۔۔۔ اور ہاتھ میں چونے کا تھال لے کر گاڑی کے اطراف گھوم کے نشان لگایا۔۔۔۔ شائد حصار کھینچا تھا ۔۔۔
  اب سب شاہ جی کے اطراف تھے ۔۔ 
         
       صبیحہ بہن اور وجاہت ۔۔۔ آپ چاہیں تو جگی میں انتظار کریں میں حصار قائم کر دیتا ہوں ورنہ کاروائی دیکھنا چاہیں تو بسم اللّٰہ ۔۔۔

   شاہ جی میں اس کا انجام دیکھنا چاہتی ہوں میرا گھر برباد کرنے والی کو میری زیبی کو اس حال میں پہنچانے والی کو میں تڑپتا دیکھنا چاہتی ہوں ۔۔

 بہتر ۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر شاہ جی نے ہم سب کے گرد بھی چونے کا گھیرا ڈال لیا اور کہا کہ اس حصار میں وہ آپ میں سے کسی پر اثر انداز نہیں ہوسکتی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔۔۔ اس لئے اس دائرے کے باہر جانے کی کوشش نہ کی جائے۔۔۔

دل عجیب طرح ڈر رہا تھا ۔۔۔ میں یہ سب دیکھنا نہیں چاہتا تھا مجھے کوئی دل چسپی نہیں تھی ابایومی میں لیکن بس میں چاہتا تھا زیبی ٹھیک ہو جائے ۔۔۔ شاہ جی کامیاب ہوں ۔۔۔ آج کوئی انگیٹھی کوئلہ چمٹا کچھ نہیں تھا ۔۔۔

 ہمارے حصار میں دو بڑے ڈرم تھے جسمیں شائد دودھ تھا اور ایک تھال میں مردہ چڑیاں تھیں ۔۔ شاہ جی نے ہر چڑیا کی چونچ میں ایک کاغذ کی گولی پھنسائی ۔۔ ایک تھال میں گوشت کے بڑے پارچے تھے جس پر شاہ جی نے کچھ پڑھ کر ہاتھ پھیرا ۔۔۔

 ہم سب یہ دیکھ رہے تھے ۔۔۔ شاہ جی بولے ۔۔۔ ارے بھئی مہمان ہے خاطر داری تو کرنی پڑے گی ناں ۔۔۔۔اکیلی نہیں ہے ۔۔۔ باراتی ساتھ لائے گی ۔۔۔ اسی کی ضیافت کا اہتمام ہے یہ سب ۔۔۔ وہ مسکرائے ۔۔ میں نے سوچا ہنس لو ۔۔۔ پھر موقع ملے نہ ملے ۔۔۔ مگر دل سے چاہتا تھا کہ کامیاب شاہ جی ہوں ۔۔۔ 
  
    باراتی ساتھ لائے گی مطلب ؟؟

 وہ جانتی ہے کہ یہ مقابلہ موت اور زندگی کا ہے ۔۔ ویسے بھی وہ کمزور نہیں تھی پھر ناپاک بد ارواح کے ساتھ نے اس کو مزید طاقت دی اور کل والکانتممالیا ہے ۔۔۔
 
    کیا ہے ؟؟ سب کو تشویش ہوئی۔۔

والکانتممالیا ۔۔۔ یعنی بد ارواحوں کے جسم بدلنے کا دن ۔۔ یہ دن سمجھو تیوہار ہے ان کا اس دن دیویاں معصوم بچوں کے خون سے غسل کرتی تھیں۔۔ سینکڑوں مردوں سے زنا کے بعد انھیں غلام بنا لیتں اور عملیات کے زور پر وہ۔مرد مرتے دم تک دیوی کے وفادار جانثار رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ پھر دیوی جب جیسے چاہے انھیں استمعال کرے ۔۔۔۔
  
      رعایا میں جو بچی ۔۔جوان لڑکی انھیں پسند آجائے عملیات کے زور پر اس کی روح قید کرلی جاتی پھر اس کا بدن اس دیوی کی ملکیت ہوتا اور وہ اس کی طبعی موت تک اس جسم کا جیسے مرضی استمعال کرتی ہے۔۔۔۔ 

یہ مکار ہے جس وقت اس نے آپ کی بیٹی کو دیکھا تھا اس وقت اس نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ کچھ ہی دن میں یہ زیبا پر مکمل قبضہ کر لے گی ۔۔ مگر اس سے پہلے آپ کے شوہر نےاس وقت اس کا موجودہ جسم مار دیا ۔۔۔

    یہ بچی پر مسلط ہوتی رہی آتی جاتی رہی مگر کیونکہ مکمل ہمیشہ کے لئے مطیع کرنے والا تیوہار دور تھا یہ قبضہ دیرپا نہ رکھ سکی ۔۔۔ بالآخر اس مردِ کامل نے اس کو دفعان کردیا اور یہ کامیاب نہ ہوئی ۔۔۔ یہ تاک میں رہی ۔۔ اور موقع ملتے ہی وار کیا ۔۔۔

یہ اتنے دن پہلے بھی مار سکتی تھی ۔۔۔ اگر صرف موت ہی مقصود ہوتی جیسے آپ کے شوہر کو قتل کر چکی تھی اس بچی کو بھی مار دیتی مگر موت نہیں جسم چاہتی ہے یہ 

شاہ جی یہ بتانے کے دوران دودھ کے پیالے بھر کر رکھتے گئے ۔۔۔

اس نے زیبا کو صرف اس لئے نہیں مارا کیونکہ اسے کل کے دن کا انتظار ہے ۔۔۔کل یہ زیبا کی روح مکمل قید کر کے اس کے جسم پر قابض ہو جاتی ہمیشہ کے لئے ۔۔ پھر گھر ۔۔ گھر والے ۔۔ خاندان کچھ محفوظ نہ رہتا ۔۔ جھوٹ بولتی ہے میں تو کھیلنے آئی تھی ۔۔۔ رونالڈو کی اماں ۔۔۔ فٹ بال کھیلے گی ۔۔۔

عجیب ظریف طبعیت تھی شاہ جی کی اتنی ہیجانی صورتحال میں بھی یہ چٹکلے بازی کرتے ہیں ۔۔۔۔ یہاں خوف کی وجہ سے دل بیٹھے جارہا ہے ۔۔۔

  شاہ جی پھر گویا ہوئے ۔۔ 

ہندوستان والے صاحب نے جو تعویذ بنایا تھا وہ بہت اثر انگیز تھا ۔۔۔۔
ہاں شاہ جی جب تک وہ زیبا کے گلے میں رہا ہم تو یہ سب بھول بھی گئے تھے ۔۔ بس جب کوئی انہونی ہونی ہو تو ایسی ہی غلطیاں سرزرد ہوتیں ہیں ۔۔ آغا جانی نے کہا ۔۔۔
وجاہت صاحب بولے ۔۔شاہ جی کوئی ایسا عمل کوئی ایسا تعویذ کہ ساری زندگی کے لیے اس مصیبت سے نجات مل جائے ۔۔۔

میاں یہ تو بچی بھی جانتی تھی کہ وہ تعویذ کتنا اہم ہے ۔۔۔ یہ بات بچی کے علاوہ بھی کوئی جانتا تھا کہ یہ تعویذ موت اور زندگی کے راستے میں رکاوٹ ہے تو اس شخص کا پتا کریں ۔۔۔ کون ہے جو اس کھیل کا سب سے شاطر مہرہ رہا ہے ۔۔۔ جیسے کوئی غرض ہی نہیں کہ زیبا کیوں قید ہے ۔۔ کیوں برباد ہوئی ۔۔۔ اب موت کی دہلیز پر ہے ۔۔۔

شاہ جی اور تو کوئی نہیں پارلر میں جو سہیلیاں ساتھ تھیں بس ان کے کہنے پر ۔۔۔۔۔
 
 نہیں صبیحہ بہن ۔۔۔ سہیلیاں کیا جانیں ۔۔۔ تعویذ کی اہمیت ۔۔۔ کیوں وجاہت صاحب ؟

وجاہت صاحب کا رنگ پھیکا پڑتا محسوس ہوا ۔۔۔ مجھے حیرت کا ایک جھٹکا لگا کہ کیا وجاہت ؟؟ سب جانتے بوجھتے وجا ہت نے تعویذ اتارنے کا مشورہ دیا تھا ؟

آغا جانی بھی کھوجتی نظروں سے وجاہت کو دیکھنے لگیں ۔۔۔ 

آغا جانی میں اعتراف کرنا چاہتا ہوں ۔۔ گھر میں بد مزگی نہ ہو اس لئے میں نے آپ سے یہ بات چھپا کر رکھی تھی ۔۔۔ تعویذ اتارنے کا مشورہ زرنگار کا تھا ۔۔۔ میں جب زیب کو پارلر لینے گیا تو زرنگار میرے ساتھ تھی ۔۔۔زیبی کی سہلیاں بھی تھی ۔۔ انھوں نے بھی ہاں میں ہاں ملائی ہوگی مگر یہ مشورہ زرنگار کا تھا ۔ ۔۔

آغا جانی دل پر ہاتھ رکھے سن بیٹھیں تھیں۔۔۔

آغا جانی مجھے معاف کردیں ۔۔۔ مجھے اتنی بربادی کا اندازہ نہیں تھا میں نہیں جانتا تھا کہ اس تعویذ کی اہمیت کیا ہے ۔۔ جب آغا جان کی میت پر میں نے زیبا کی حالت دیکھی اس دن مجھے زرنگار سے نفرت ہوگئی ۔۔۔ اور ہمارے ازدواجی تعلقات ختم ہوگئے ۔۔ میں نے اسے اپنی زندگی اپنے دل اپنے گھر سے بے دخل کردیا آغا جانی ۔۔۔ مگر بچوں کو شائد ان کی ماں کی ضرورت ہے اس لئے اب تک خاموش تھا ۔۔۔ وجاہت کی آنکھوں میں سچ تھا اور وجاہت کی بہن سے محبت پر کسی کو شک نہیں تھا ۔۔۔آغا جانی وجاہت کے سر پر دستِ شفقت رکھ چکیں تھیں ۔۔۔ مائیں سب کچھ معاف کردیتیں ہیں ۔۔۔

اوہ تو زرنگار کی لاپرواہی بے حسی کا یہ راز ہے ۔۔۔میں ہمیشہ سوچتا تھا کیسی عجیب عورت ہے اتنے خراب حالات میں بھی راگ رنگ کی محافل میں چلی جاتی ہے ۔۔ کچھ لوگ کسی رشتے میں بندھ کے بھی نہ محبت محسوس کر پاتے ہیں نہ مخلص ہو پاتے ہیں ۔۔۔ وہ خود پرستی میں کسی بھی حاصل کرنے والے انسان۔کو اپنی جیت کی کڑی سمجھتے ہیں ۔۔۔ وجاہت میں دلچسپی اصل میں محبت نہیں اپنے حسن کے زعم میں مبتلا ایک لڑکی کا حدف تھا۔۔۔ جسے اس نے حاصل کیا تھا ۔۔۔ اور تین بیٹے ۔۔۔ جو مکمل باپ دادی کی زمہ داری تھے ۔۔۔

اچھا بھئی اب ایسا ہے کہ میں نے سب کو حصار میں کرلیا ہے اس بات کو یقینی بنائے رکھنا کہ حصار سے باہر نہ جاؤ ۔۔۔کیونکہ میں کسی دوسرے عمل کے دوران آپ میں سے کسی کی حفاظت کا عمل نہیں کرسکوں گا ۔۔ نتیجے کے ذمہ دار آپ ہونگے ۔۔۔ جو حصار سے گیا ۔۔وہ گیا ۔۔۔۔
معوذتین اور نادِ علی کا ورد کریں۔ ان شاءاللہ آج اس کا فیصلہ ہو ہی جائے گا ۔۔۔ یہ کہہ کہ سب قریب ہو کر بیٹھ گئے اور شاہ جی نے عمل شروع کیا۔۔۔۔۔ ہزار دانوں کی تسبیح اور بند آنکھوں کی جنبش ابایومی کو دعوت دے رہے تھے ۔۔۔

یوں لگ رہا تھا ہم سن ہو گئے ہیں دل کی دھمک سینے میں محسوس کرتے ہوئے ہم سب ورد کر رہے تھے ۔۔۔ آہستہ آہستہ لگا جیسے موسم بدلنے لگا اور ابر چھارہا ہے ۔۔۔ یہ چیز سب ہی نے محسوس کی ۔۔۔ شاہ صاحب مسکرائے۔ ہوا تیز ہونے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے اندھی کی کفیت اختیار کرلی ہر طرف مٹی اور دھول ۔۔۔ میں گھبرا کر کھڑا ہوگیا ۔۔۔ شاہ جی کے چھوٹے بھائی زور سے چیخے کہ بیٹھ جاؤ ورنہ ہوا کے بھنور میں آجاؤ گے ۔۔۔ اور واقعی مجھے لگا میرے پاؤں زمین چھوڑنے لگے ہیں ۔۔۔ وجاہت نے میرا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹا اور میں زمین پر آگرا

آندھی ابھی تک بدستور منہ زور تھی ۔۔ مجھے احساس ہونے لگا کہ یہ اچانک موسمی تبدیلی نہیں بلکہ ابایومی کی آمد کے آثار ہیں ۔۔ شاہ جی نے ہاتھ ہوا میں بلند کر کے قرآنی آیات تیز آواز میں پڑھنی شروع کردیں ۔۔۔ ہواؤں کا زور کچھ کم ہوا دھول چھٹی ۔۔۔۔سامنے سے کوئی آتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔۔ سر تا پیر کوئی کالے لبادے میں ملبوس تھا جیسے شیطان کے پیروکار ہوتے ہیں ۔۔۔ وہ ابایومی ہی تھی ۔۔۔ اکیلی تھی مگر اس کے قدموں کی آواز سے لگتا تھا جیسے پورا لشکر ساتھ ہے ۔۔ اس عفریت کا زندہ وجود ہمارے سامنے کھڑا تھا ۔۔ اسے سامنے پا کر میرے ہاتھ پاؤں سن پڑ گئے اور زبان گنگ ۔۔۔

کچھ دیر ساکت کھڑے رہنے کے بعد وہ بولی ۔۔۔ مگر کچھ سمجھ نہیں آیا۔۔۔ وہ اسی نامانوس زبان میں بول رہی تھی اور ایمبولینس کی طرف بڑھی ۔۔ آغا جانی چلائیں۔  

نہیں نہیں۔۔۔ زیبا کو چھوڑ دو ہم پر رحم کر دو ۔۔ 

شاہ جی نے ہاتھ کے اشارے سے چپ رہنے کو کہا ۔۔۔ آغا جانی بہت بے چین وجاہت سے کہتی رہیں ۔۔ اسے رکو اسے رکو ۔ 
وہ مستقل ایمبولینس کی طرف بڑھے گئی مگر ایک جھٹکے سے دور جا گری ۔۔ اس کے سر سے ہڈ اتر گیا۔ ۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اس کا چہرہ ۔۔ اففففف۔۔۔ کالی بلی کا چہرہ ۔ پوری دہشت کے ساتھ بھرپور خباثت کے ساتھ ۔۔ سب ششدر دیکھ رہے تھے ۔۔ وہ اچانک تلملاتی ہوئی دوڑتی ہماری طرف بڑھی مگر حصار کے نزدیک آتے ہی پھر دور جا کر پڑی۔ وہ بہت بھیانک آوازیں نکال رہی تھی۔ اور پھر بک بک کرنے لگی ۔۔ 

شاہ جی بولے ۔۔۔

بکواس بند کر تو اور تیرے آنے کے مقاصد مجھے معلوم ہیں کوئی بات چیت کوئی مذاکرات کچھ نہیں ہو سکتے اس لئے بکواس بند رکھ اور اپنے آپ کو میرے حوالے کر ۔۔ ورنہ انجام کی ذمہ دار تو خود ہوگی ۔۔ وہ وہیں زمین پر بیٹھ گئی اور آسمان کی طرف ہاتھ بلند کر کے کوئی عمل کرنے لگی ۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پرندوں سے بھر گیا ۔۔۔ یہ چیلیں تھی عجیب منحوس صورتیں ۔۔ مگر بہت بڑی بڑی وہ ہمارے سروں پر گدھوں کی طرح منڈلا رہیں تھی ۔۔

شاہ جی کے چھوٹے بھائی ایک تھال کی طرف بڑھے اور مردہ چڑیاں اٹھا اٹھا کے اچھالنی شروع کی حیرت کی بات یہ ہے کہ فضا میں بلند ہوتے ہی وہ چڑیا پرواز بھرنے لگیں اور وہ چیلیں چڑیوں پر جھپٹ پڑیں اور منتشر ہو گئیں ۔۔ اب وہ چڑیاں اپنی چونچوں میں دبائے زمین پر اتر آئیں مگر یہ کیا ؟! 

وہ چیلیں بھی چیلیں نہیں تھیں بلکہ ان کے بھی صرف چہرے چیلوں کے تھے باقی جسم ہاتھ پاؤں انسانی۔ ان کی کمر پر بہت لمبے لمبے پر ۔۔۔ تمام جسم بھی پروں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ ۔ ہمارے چاروں طرف انسان نما چیلیں بیٹھیں چڑیوں کو نوچ نوچ کے کھانے میں مصروف تھی ۔۔ اور ابایومی تلملاتی ہوئی غرا رہی تھی۔  

 ہم نے دیکھا کہ کچھ ہی دیر میں وہ چیلیں کرلانے لگیں اور ان کے پر ٹوٹ ٹوٹ کر جھڑنے لگے ۔۔ وہ اب ننگے جسم لئے ایک دوسرے کو نو چنے لگیں ۔۔۔ ان کے جسموں سے سیاہ رنگ کا سیال مادہ بہہ رہا تھا اور آوازیں کانوں کو چیرتی محسوس ہورہی تھی۔۔
سلمیٰ سید
جاری ہے

─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─